Tag: دلیل

  • ”دلیل“ مضامین / بلاگز کی نمبرون سائٹ بن چکی ہے!

    ”دلیل“ مضامین / بلاگز کی نمبرون سائٹ بن چکی ہے!

    daleel-ranking ”دلیل“ کے چاہنےو الے، دلیل مصنفین اور دلیل کے قارئین کے لیے یہ اطلاع کسی اہم خبر سے کم نہیں کہ آج دلیل پاکستان میں رینکنگ کے اعتبار سے بلاگز، مضامین اور کالمز کی سب سے بڑی یعنی پہلے نمبر کی ویب سائٹ بن گئی ہے۔

    اس میں کئی باتیں قابل غور ہیں۔

    ایک تو یہی کہ بلاگز اور مضامین سنجیدہ افراد ہی پڑھتے ہیں۔ خاص کر وہ جنھیں مطالعہ کا شغف ہو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قارئین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو سنجیدہ موضوعات کو پڑھنا چاہتی ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہمارے ہاں عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ پر پڑھنے والوں کی تعداد بہت کم جبکہ ”دیکھنے“ والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ دلیل نے اس تاثر کو کافی حد تک کم کردیا ہے۔ الحمدللہ

    دوسرا، دلیل کو بہت کم عرصے میں اندرون و بیرون ملک سے لکھاریوں کا تعاون حاصل ہوا ہے. اس میں آزمودہ بھی ہیں اور نوآموز بھی. یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگا کہ دلیل کو کسی بھی دوسری مضامین اور بلاگز کی ویب سائٹس کے مقابلے میں زیادہ لکھاریوں کا تعاون حاصل ہے. اس میں خواتین لکھاری بالخصوص قابل ذکر ہیں جو کسی بھی دوسرے پلیٹ فارم کے مقابلے میں دلیل پر زیادہ تعداد میں موجود ہیں، اور ان کی نگارشات سامنے آ رہی ہیں. دلیل ٹیم کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ اس میں اس کا کوئی کمال نہیں ہے. بیانیے کے میدان میں اسلام اور پاکستان کی خدمت جیسے عظیم مقصد اور جذبے کے ساتھ مقابل ہونے کی وجہ سے اسے یہ توجہ، مقام اور تعاون حاصل ہوا ہے. دلیل ٹیم دعا گو ہے کہ اللہ تعالی نیت کو ایسے خالص رکھے، اور لکھنے اور پڑھنے والے بھی اسی تناظر میں اس کے ساتھ تعاون جاری رکھیں.
    اس ضمن میں بار دگر عرض ہے کہ دلیل تجارتی مقاصد کے تحت بنائی گئی تھی نہ اس سے کسی ذات کی پروجیکشن مقصود تھی، بلکہ یہ بیانیے کی دھول میں اسلام اور پاکستان کی آواز کے طور پر سامنے آئی تھی. دلچسپی رکھنے والے احباب اس منظرنامے سے بخوبی واقف ہیں. پیش نظر یہ تھا اپنی بات پورے زور اور یقین کے ساتھ کہی جاتی رہے اور ہم خیال لوگوں کو کسی قسم کی مذہبی، مسلکی، لسانی اور سیاسی تفریق سے بالاتر ایک پلیٹ فارم بھی مہیا کیا جائے تاکہ اجتماعیت کی برکت بھی اس میں شامل ہو جائے.

    تیسرا، ہمارے ہاں بدقسمتی سے ایک ٹرینڈ بن چکا ہے کہ لوگوں کو ویب سائٹ پر لانے کے لیے سنسنی خیزی اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس میں پاکستان کے کئی ایسے سنجیدہ نام ہیں جن سے ہرگز یہ توقع نہیں کی جاتی، مگر بدقسمتی سے وہ بھی اس میں سر تا پیر ڈوبے نظر آتے ہیں۔ ”کھودا پہاڑ، نکلا چوہا“ والا محاورہ غالباً ایسے ہی مواقع کے لیے بولا جاتا ہے۔ الحمدللہ! کسی مرچ مسالہ کے بغیر اتنے کم عرصے میں دلیل کے لیے قارئین کی اتنی بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کرنا کسی اہم واقعے سے کم نہیں۔ ہم یہ بات بار بار عرض کرتے ہیں کہ دلیل ٹیم تو بس مصنفین اور قارئین میں رابطے کا کام کر رہی ہے، اصل سہرا مصنفین اور قارئین کے سر ہی جاتا ہے۔

    چوتھی اہم بات یہ ہے کہ دلیل کی یہ رینکنگ کسی قسم کی ایڈورٹائزمنٹ یا اسپانسرشپ کے بغیر ہے۔ آغاز سے اب تک کوئی ایک بھی تحریر اسپانسر نہیں کی گئی۔ اس کے باوجود کئی تحاریر کو ایک لاکھ سے زیادہ ویوز ملے جبکہ ہزاروں بار شیئر کی گئیں۔ گزشتہ ہفتے سے کئی تحاریر کے ویوز 50 ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان رہے۔ 10 ہزار سے زائد ویوز والی تحاریر تو بےشمار ہیں۔

    ہم خوشی کے اس موقع پر آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ بہت جلد ”دلیل“ میں آپ کو تکنیکی اور ظاہری شکل وصورت کے اعتبار سے نئی تبدیلیاں محسوس ہوں گی۔ جو یقیناً آپ کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث ہوں گی۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ آپ کے تعاون کے ساتھ بہتری و کامیابی کی طرف ہمارا یہ سفر جاری وساری رہے گا۔

  • ”دلیل“ کی جانب سے تین خوشخبریاں

    ”دلیل“ کی جانب سے تین خوشخبریاں

    الحمدللہ! دلیل کی کامیابی کا سفر مسلسل جاری ہے۔ اسی کامیابی کے سلسلے میں آج ہم آپ کو تین خوشخبریاں سنانے جا رہے ہیں۔ چونکہ دلیل آپ کی ویب سائٹ ہے، اس لیے دلیل ٹیم اس کی ہر چھوٹی بڑی خوشی میں آپ کو شامل کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے۔

    %d8%af%d9%84%db%8c%d9%84-%d9%be%db%8c%d8%ac-%d9%88%db%8c%d9%88%d8%b2 پہلی خوشخبری یہ ہے کہ ایک دن میں ”دلیل“ کے پیج ویوز 1 لاکھ سے زیادہ رہے، یعنی 1 لاکھ 15 ہزار۔ باعثِ اطمینان بات یہ ہے کہ الحمدللہ یہ ہدف بغیر کسی مضمون کی اسپانسر شپ کے حاصل ہوا۔

    دوسری خوشخبری یہ ہے کہ پاکستان کے معروف دانشور اور کالم نگار اوریا مقبول جان کے کالم کو اخبار نے شائع کرنے سے انکار کردیا، جو انہوں نے ازراہِ تلطف ”دلیل“ کو بھجوایا۔ اسے دو دنوں میں اتنی پذیرائی ملی کہ ایک لاکھ سے زائد افراد نے اسے پڑھا اور 28 ہزار سے زائد بار یہ تحریر شیئر ہوچکی ہے۔
    اوریا مقبول جان

    %d8%af%d9%84%db%8c%d9%84 تیسری خوشخبری یہ ہے کہ دلیل پہلی مرتبہ پاکستان میں رینکنگ کے اعتبار سے ہزاریے سے سیکڑے میں داخل ہوگئی ہے۔ گو کہ آگے کا سفر مشکل ضرور ہے، مگر آپ کا تعاون اسی طرح جاری رہا تو آپ کو تسلسل کے ساتھ ایسی خوشی کی مزید خبریں ملتی رہیں گی۔

    یہ بات تحدیث نعمت کے طور پر بیان کی جارہی ہے کہ اس وقت دلیل کو کسی بھی ویب سائٹ کے مقابلے میں مختلف نقطہ نظر رکھنے والے زیادہ لکھاریوں کا تعاون حاصل ہے۔ اسی طرح خواتین کی نمایندگی کے اعتبار سے بھی دلیل بڑا پلیٹ فارم بن کر سامنے آیا ہے اور اس وقت کئی درجن خواتین دلیل کے ذریعے اپنی نگارشات پیش کر رہی ہیں۔

    دلیل ٹیم اس بات پر بھی اطمینان کا اظہار کرتی ہے کہ دلیل کسی خاص مکتب فکر کی ترجمانی کے بغیر اپنا یہ سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ دلیل کے دروازے ہر ایک کے لیے کھلے ہیں۔ تمام آرا کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور ہر ممکن طریقے سے انھیں جگہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آپ سب کے تعاون کا بےحد شکریہ۔ ان شاء اللہ بہتری کا یہ سفر آپ کے تعاون سے جاری رہے گا اور آپ کو ایسی خوشخبریاں تسلسل کے ساتھ ملتی رہیں گی۔

  • شائستہ مکالمہ کے زریں اصول – ڈاکٹر رابعہ خانم درانی

    شائستہ مکالمہ کے زریں اصول – ڈاکٹر رابعہ خانم درانی

    1. میں درست ہوں، آپ بھی درست ہو سکتے ہیں لیکن مجھ سے کم.
    2. آپ کا درست تب تک درست ہے جہاں تک میرے درست کی حد ہے. اس کے بعد مکالمہ ختم ہو جاتا ہے اور مناظرہ شروع جو مقصود نہیں.
    3. میں، میں، میں، میں.
    4. ہمارے درمیان شائستہ مکالمہ ممکن ہے اگر آپ کے سر کی اثباتی جنبش کے ساتھ واہ واہ کا بیک گرائونڈ میوزک جاری رہے یا کم از کم جی سر اوکے، اوکے سر کے ساتھ.
    5. مکالمہ اپنی روح کھو دیتا ہے جب آپ کا سر نفی میں جنبش کرے یا آپ کا بیک گرائونڈ میوزک بدل جائے.
    6. جس وقت آپ نے مجھ سے شائستہ اختلاف کی جرات کی، اس وقت مکالمہ ملاکڑہ بن گیا مکالمہ نہ رہا.
    7. جس لمحے آپ کا شائستہ اختلاف میری دلیل سے بڑھ گیا، تبھی ہمارے راستے جدا ہوگئے کیونکہ آپ کی دلیل مجھے مکالمے سے ہٹا نہیں سکتی کیونکہ میں تو ہوں ہی درست.
    8. ”اوکے باس“ کا راگ ”میں میں“ کی گردان کے ساتھ الاپا جائے تبھی شائستہ مکالمہ کی روح جوان رہے گی اور مکالمے کا سفر جاری رہے گا.
    9. جو مکالمہ نہیں کرسکتے، اسے دلیل سے بات کرنا ہوگی اور میری دلیل سب سے بھاری ہے کیونکہ آپ کا درست میرے درست سے کمتر ہے.
    10. اگر آپ کا درست میرے درست کے خلاف ہے تو وہ صرف لغو، فارغ، اور غلط ہے.
    11. میں نے اپنی میں تو کب سے مار دی ہے، اب تو میری نیت آپ سب کی میں ختم کرنے کی ہے کیونکہ آپ کی میں، میری میں کو پسند نہیں، بےشک میری میں ختم ہو چکی لیکن ”میں“ تو باقی ہوں.
    12. آئیے ہم سب، دلیل سے مکالمہ کریں تاکہ میں آپ کے کمتر درست کو ”نادرست“ ثابت کر سکوں کیونکہ میں تو ہوں ہی درست!

  • اردو بلاگنگ اور انٹرنیٹ پر اردو کا ارتقاء – محمد شاکر عزیز

    اردو بلاگنگ اور انٹرنیٹ پر اردو کا ارتقاء – محمد شاکر عزیز

    بلاگنگ پچھلی صدی کے آخری عشرے کے اواخر میں شروع ہوئی تھی۔ ہماری ناقص معلومات کے مطابق لوگوں نے اپنی ویب سائٹس پر personal یا اپنے نام سے ایک ڈائریکٹری یا سب ڈومین بنا کر اس پر دن بھر کی مصروفیات، روداد یا کسی ذاتی یا غیر ذاتی موضوع پر اپنے خیالات کو ایک ڈائری یا بیاض کی شکل میں بیان کرنا شروع کیا۔ زبان کی یہ تحریری صنف مضمون لکھنے جیسے ہی تھی، لیکن یہ اس سے مقابلے میں زیادہ بےتکلفانہ اور ذاتی رنگ لیے ہوئے تھی۔

    انگریزی اور دیگر زبانوں کی بلاگنگ کو دیکھتے ہوئے اردو میں بھی لوگوں نے 2004ء یا اس کے بعد بلاگنگ شروع کی۔ اور چند برسوں میں چند لوگوں سے یہ تعداد سو کا ہندسہ پار کر گئی۔اردو بلاگرز نے 2005ء سے 2010ء بلکہ تین چار برس بعد تک بھی بلاگز چلائے، اور ان پر قارئین کی ایک مناسب (چند درجن سے سو یا زیادہ وزٹر فی پوسٹ) تعداد بھی آتی رہی۔ لیکن جیسا کہ انٹرنیٹ پر ہر چیز تیزی سے ارتقاء پذیر ہو کر نئی نئی شکلوں میں ظہور پذیر ہوتی رہی، ویسے ہی بلاگنگ کی شکل بھی بدلی اور اس میں پہلے جیسی دلچسپی بھی برقرار نہ رہ سکی۔

    انگریزی کی بلاگنگ 2010ء سے ایک دو برس پہلے سے ہی اپنا رخ تبدیل کر رہی تھی۔ اب لوگوں نے ذاتی بلاگنگ کے بجائے عنواناتی بلاگنگ پر توجہ دینا شروع کی۔ انٹرنیٹ پر اشتہارات کے ذریعے آمدن، اور اشتہارات لگانے کے لیے نئے تحریری (اب تصویری، ویڈیو مواد بھی) کی ضرورت محسوس ہوئی تو لوگوں نے مختلف شعبوں میں مدد کے لیے بلاگز بنائے (فلاں کام کیسے کریں، جنہیں انگریزی میں ہاؤ ٹُو قسم کی تحاریر کہا جاتا ہے)، کسی خاص شعبے کے حوالے سے خبریں، تازہ ترین اور معلومات کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہوا (مثلاً انگریزی میں ٹیکنالوجی، قانون، مذہب وغیرہ سے متعلق بلاگز وجود میں آئے)، کمپنیوں نے بلاگنگ کی طاقت دیکھتے ہوئے اپنی ویب سائٹس پر عوام سے انٹرایکشن کے لیے بلاگ سیکشن شروع کر دیے، اخبارات میں بلاگ سیکشن شروع ہوئے (پاکستان کے انگریزی اخبارات 2009ء سے بلاگز چلا رہے ہیں، اردو اخبارات نے دو تین برس تاخیر سے یہ کام شروع کیا)۔ اب بلاگنگ سے ارتقاء پذیر ہو کر تحریری (اور دیگر اقسام کے) مواد کی تخلیق کا عمل اتنا کمرشل ہو گیا ہے کہ باقاعدہ آن لائن میڈیا ہاؤسز موجود ہیں جو اخبارات کی طرح (لیکن کاغذ پر چھاپے بغیر صرف آنل ائن) مواد تخلیق کرتے ہیں۔ ان کمرشل سائٹس میں ٹیکنالوجی سے متعلق ویب سائٹس بھی ہیں (یہ اتنی ترقی کر چکی ہیں کہ کبھی کبھار بلاگ کی تعریف پر پوری نہیں اترتیں)، اپنی مدد آپ کے حوالے سے بلاگز یا ویب سائٹس بھی ہیں، اور وائرل مواد (میش ایبل اور اس کی پاکستانی نقل مینگو باز) کی خبر دینے والی ویب سائٹس بھی موجود ہیں۔

    اردو کے حوالے سے (جیسا کہ اوپر بتایا گیا) لوگوں نے بلاگنگ کچھ برس تاخیر سے شروع کی۔ لیکن انہوں نے انگریزی والے رجحانات کی پیروی کر کے اپنے ذاتی بلاگز سے ہی ابتدا کی۔ بدقسمتی سے اردو میں بلاگز کا ارتقاء انگریزی والے پیٹرن پر نہیں ہو سکا جس کی بنیادی وجہ اردو میں دستیاب مواد کو کمرشل بنیادوں پر استعمال نہ کر سکنا تھا۔ اردو میں لوگ مواد تخلیق کرنے کو تو تیار تھے، لیکن انہیں اردو زبان میں موجود ویب سائٹس کے لیے اشتہارات (جو انٹرنیٹ پر آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں، اور اس حوالے سے آج بھی گوگل ایڈ سینس کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں) نہیں ملتے تھے۔ چنانچہ ذاتی قسم کے بلاگز لوگوں نے کچھ عرصہ لکھے اور اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ رجحان اب بہت کم رہ گیا ہے (جیسا کہ انگریزی اور دیگر زبانوں میں ہوا تھا)۔ اس وقت اردو زبان میں موضوعاتی بلاگنگ کے نام پر کرک نامہ، سائنس کی دنیا اور آئی ٹی نامہ جیسے چند ایک بلاگز ہی موجود ہیں، جو اشتہارات کے بغیر بھی معیاری اردو مواد تخلیق کر رہے ہیں۔ اردو زبان میں ذاتی بلاگز میں دلچسپی کم ہونے کی ایک اور وجہ سوشل میڈیا ویب سائٹس جیسے فیس بُک اور ٹوئٹر کی مقبولیت بھی تھی۔ ٹرینڈ فالو کرنے کی دوڑ، کم الفاظ یعنی کم وقت میں بات کہنے کی صلاحیت، زیادہ لوگوں سے انٹرایکشن کا موقع وغیرہ نے اردو بلاگرز کو فیس بک اور ٹوئٹر کا قیدی بنا دیا، اور ان کے بلاگ ماضی کے مزار بن گئے۔

    انٹرنیٹ پر تحریری اردو کے فروغ میں بلاگنگ اصل میں تیسرا قدم تھی۔ اس سے پہلے انٹرنیٹ پر اردو فورمز (اردو محفل فورم، ہماری اردو فورم وغیرہ) تحریری اردو اور سماجی رابطے کے پلیٹ فارمز مہیا کر رہے تھے۔ درحقیقت بیشتر اردو بلاگرز یہیں سے بلاگنگ کی طرف آئے۔ اور اِن آن لائن اردو چوپالوں سے بھی پہلے بی بی سی اردو، وائس آف امریکہ وغیرہ کی اردو ویب سائٹس نے تحریری اردو کے فروغ کی بنیاد ڈال دی تھی۔ روزنامہ جنگ کی تحریری اردو کی ویب سائٹ بھی بہت پرانی ہے اگرچہ لوگ زیادہ تر نستعلیق (یعنی تصویری اردو) والی ویب سائٹ پر ہی جانا پسند کرتے تھے۔

    اردو بلاگنگ کے بعد؟ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ اردو بلاگنگ کا مختصر سا عروج جو 2007ء اور اس کے بعد پانچ سات برس تک رہا، اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ اب لوگ بلاگ کے بجائے اپنی فیس بک وال پر لکھنا پسند کرتے ہیں۔ فیس بُک اور دیگر سوشل میڈیا پر لوگوں کی دھڑا دھڑ آمد نے ہمارے روزمرہ کے ٹاکرے (یا مناظرے) بھی آن لائن کر دیے، چنانچہ یہاں لبرل، سیکولر، ملحد، قدامت پسند، اسلام پسند اور دیگر ”پسندوں“ نے سینگ اڑا کر مناظرے کیے۔ وہ مناظرے ختم ہوگئے یا ختم ہوں گے، اس سوال سے قطع نظر لوگوں نے سوچا کہ ان سوشل میڈیا ٹاکروں کے لیے جو کچھ لکھا جاتا ہے، اسے مناسب جگہ پر شائع کیا جائے چونکہ فیس بک پر تو مواد چند دنوں میں آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق اپ ڈیٹس کے انبار تلے دفن ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ہر نقطہ نظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ویب سائٹس کی بنیاد رکھی جن میں دلیل، ہم سب، لالٹین، مکالمہ، ایک روزن، آئی بی سی اردو وغیرہ وغیرہ ایک لمبی فہرست گنوائی جا سکتی ہے۔ ان میں سے کچھ ایک خاص نقطہ نظر کی ترجمان ہیں، کچھ ایسی نہیں ہیں، لیکن حاصلِ گفتگو یہ ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے وڈّوں کی زیرِ سرپرستی چلنے والی یہ تحریری اردو کی ویب سائٹس ہمارے خیال میں بلاگنگ کے بعد انٹرنیٹ پر اردو کے ارتقاء کا اگلا قدم ہیں. (اگرچہ اردو پوائنٹ اردو آن لائن جرنلزم کا بہت پرانا نام ہے، لیکن یہ ویب سائٹ آج بھی نیم تحریری اور باقی تصویری اردو پر چلتی ہے، اور ان کی آمدن کے ذرائع آغاز سے ہی مقامی کمپنیوں سے ملنے والے اشتہارات ہیں۔)

    ان ویب سائٹس کے اجراء نے نئے لکھاریوں کو لکھنے اور چھپنے کے آسان ذرائع مہیا کر دیے ہیں جو اگرچہ ذاتی بلاگ کی شکل میں پہلے موجود تو تھے لیکن قارئین کی تعداد نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اس سے بددل ہو جاتے تھے۔ میڈیا کے وڈّے وڈّے ناموں کے سایہ عاطفت میں آج آپ جہاں بھی چلے جائیں، آپ کو تجزیہ کاروںِ، مضمون نگاروں، جوابی مضمون نگاروں، نوٹ نگاروں، اختلافی نوٹ نگاروں اور لکھاریوں کی ایک فوج ظفر موج نظر آتی ہے۔ ان میں سے کچھ بہت اچھے ہیں، کچھ اچھے ہیں، کچھ مناسب ہیں اور کچھ راقم کی طرح دھکا سٹارٹ ہیں۔ لیکن لوگ لکھ رہے ہیں، اردو لکھ رہے ہیں، یہ ایک اچھی بات ہے چونکہ اس سے اردو ترقی کرتی ہے، اردو پڑھنے سے لکھاریوں کو بھی اردو کو اردو میں لکھنے کی ترغیب ملتی ہے۔ ان ویب سائٹس نے نوجوانوں کو اپنی فرسٹریشن نکالنے کے ذرائع بھی مہیا کر دیے ہیں جس سے مختلف علاقوں کا درجہ حرارت معمول پر رکھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ تفنن برطرف، آخر میں ہم آپ کی خدمت میں چند سوالات رکھ کر اجازت چاہیں گے۔

    کیا مستقبل قریب میں انٹرنیٹ پر اردو مذہبی، نیم مذہبی، غیر مذہبی، سیاسی اور اس قسم کی دیگر مضمون بازی اور لفظی کُشتی سے آگے نکل پائے گی؟
    کیا اردو اس قابل ہو سکے گی کہ اسے تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے (مثلاً سائنس کی دنیا جیسی کاوشیں جو سائنس سے متعلق تحاریر کا اردو ترجمہ مہیا کر رہے ہیں)؟
    کیا اردو اس قابل ہو سکے گی کہ اس میں معیاری تفریحی، تعلیمی، یا کسی بھی قسم کا مواد پیدا کر کے روزگار کمایا جا سکے؟

    اور کیا مستقبل قریب میں ایسا ممکن ہے کہ مذکورہ بالا اردو ویب سائٹس کو گوگل جیسی عالمی کمپنیاں نہیں تو مقامی کمپنیاں ہی اشتہارات دے کر ان کی روزی روٹی کے ذرائع پیدا کریں؟ (الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے وڈّوں کے زیرِ سایہ چلنے والی ویب سائٹس کو آج بھی کچھ نہ کچھ اشتہارات مل سکتے ہیں، جس کے لیے اکثر اوقات ان کا نام ہی کافی ہوگا، چونکہ ان ویب سائٹس کوآ گیا چھا گیا کے مصداق آتے ہی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، اس لیے ٹریفک اور وزٹرز کی تعداد، نیز رینکنگ وغیرہ کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں چنانچہ کمپنیاں انہیں اشتہارات مہیا کرنے میں زیادہ دلچسپی لیں گی۔)

  • قربانی سے پہلے اہلِ پنجاب کی قربانی؟ –  رضوان الرحمن رضی

    قربانی سے پہلے اہلِ پنجاب کی قربانی؟ – رضوان الرحمن رضی

    سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ سائیں لاہور کے دورے پر ہیں ۔ وہ لاہور میں اس اجلاس میں شرکت کرنے تشریف لائے ہیں جو قومی مالیاتی ایوارڈ کو حتمی شکل دینے کے لیے بلایا گیا ہے، اس حوالے ایک اور اجلاس پندرہ ستمبر کو ہوگا اور پھر حتمی اجلاس اس ماہ کے آخر میں اسلام آباد میں ہوگا۔ اس ایوارڈ کو حتمی شکل دینے کے لیے تمام صوبوں کی مالیاتی ٹیموں کے ذمے مختلف کام لگائے گئے تھے، سائیں مراد علی شاہ یہ دیکھنے تشریف لائے ہیں کہ پنجاب نے اپنے حصے کا کام کیا ہے کہ نہیں؟

    یادش بخیر! گذشتہ مالیاتی ایوارڈ کا حتمی اجلاس اسی شہرِ لاہور میں ہی ہوا تھا۔ اُس وقت میاں نواز شریف وزیر اعظم نہیں تھے تاہم ان کے برادرِ خورد پنجاب کی ’خدمت ‘ ضرورکر رہے تھے اور یوں وفاقی سطح کے اکثر سرکاری اجلاسوں میں ’’بڑے بھائی جان‘‘ بھی بغیر کسی قانونی اور آئینی جواز کے نہ صرف شریک ہوجایا کرتے تھے بلکہ اکثر کی صدارت بھی فرمایا کرتے تھے۔ اُس وقت کراچی کے زیر تسلط الیکٹرانک میڈیا نے یہ تاثر پوری طرح بنا دیا تھا کہ صرف اور صرف پنجاب کو قربانی دینی چاہیے۔

    نہ جانے کیوں ہم جیسے کج فہموں کو اُس وقت یہ خوش فہمی تھی کہ جب پنجاب کی قیادت آبادی کے حساب سے اپنے صوبے کے وفاقی محاصل میں سے ملنے والے 56.4 فی صد حصے کی قربانی دے گی تو بدلے میں کالاباغ ڈیم اور اس جیسے دوسرے ترقیاتی منصوبوں پر باقی صوبوں کی بلیک میلنگ کو بھی ختم کروالے گی۔ لیکن ہم سمیت پنجاب کے بارہ کروڑ عوام کی امیدیں اُس وقت دھری کی دھری رہ گئیں جب میاں محمد نواز شریف نے صرف اپنی توند پر ہاتھ پھیرتے ہوئے تیسری بار وزیر اعظم بننے پر قانونی قدغن کے خاتمے کے عوض پنجاب کے مالیاتی مفاد کا سودا کرڈالا۔ انہوں نے باقی صوبوں کے لیے مالیاتی قربانی تو دی لیکن محض اس لیے کہ ان کے تیسری دفعہ وزیر اعظم بننے کے اوپر جنرل پرویز مشرف صاحب کو آئینی ’’پخ‘‘ لگا گئے تھے اس کو ہٹا دیا جائے۔ کیوں کہ باقی صوبوں کے نمائندوں کو بڑے میاں صاحب کی اس ’مجبوری‘ کا پتہ تھا اس لیے انہوں نے بھی اس کے علاوہ کسی اور موضوع پر بات کرنے کا موقع ہی نہیں آنے دیا۔

    اس لیے خدشہ تو یہی ہے کہ میاں صاحب کے سمدھی ، جناب ’حافظ ‘ محمد اسحاق ڈار، ماضی کی طرح اس دفعہ بھی پنجاب کے لوگوں کے مفادات کا ’ختم‘ پڑھ ڈالیں گے کیوں کہ اس مرتبہ بھی پانامہ لیکس کے حوالے سے میاں صاحبان پر حزبِ اختلاف کا شدید دبائو ہے ۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی اس دباو کو ہٹوانے کے عوض اپنے صوبوں کے عوام کے لیے مزید وسائل کا تقاضا کر سکتی ہے اور چوں کہ میاں صاحب نے پلے سے تھوڑی دینا ہے، اس لیے ’مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق ، وہ یہ بھی دے دیں گے۔ موصوف نے گذشتہ مرتبہ پنجاب کا حصہ 56.4 فی صد سے کم کر کے 51 فیصد کے لگ بھگ کرنا قبول کر لیا تھا، اب دیکھیں معاملہ اس سے آگے اور کہاں تک جاتا ہے کیوں کہ اس قربانی کے باوجود دوسرے صوبوں کی قیادت کی پنجاب سے شکوے شکایتیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ اور اب پاک چین اقتصادی راہداری کے بعد تو مزید بڑھ گئے ہیں۔

    ویسے اہلِ پنجاب کا اپنی قیادت سے یہ پوچھنا تو بنتا ہے کہ پنجاب کے حصے کے یہ فنڈز دوسرے صوبوں کو دینے سے (اور میاں صاحب کے بقول یہ قربانی دینے سے) گذشتہ پانچ سالوں میں دوسرے صوبوں خصوصاً بلوچستان اور اندرونِ سندھ میں غربت میں کیا کمی آئی؟ ان فنڈز سے عوامی فلاح و بہبود کے کتنے منصوبے بنے؟ اور وہاں پر لوگوں کے معیارِ ہائے زندگی میں کس قدر کمی ہوئی؟ یا پھر یہ رقوم بھی کسی ’صوبائی افسر ‘ کے لاکر میں جا کر براجمان ہو گئیں اور یاپھر لانچوں کے ذریعے بیرونِ ملک منتقل کر دی گئیں۔

    میاں نواز شریف صاحب کے اس ’’عقل مندانہ ‘‘ فیصلے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پنجاب کے پاس وسائل کی کمی کے باعث غربی پنجاب میں غربت کے سب سے زیادہ مظاہر نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ حکومت کے اپنے کئے گئے تازہ ترین غربت کے سروے کے مطابق غریبوں کی سب سے زیادہ تعداد پنجاب میں ہے اور اس کی اکثریت غربی پنجاب میں رہتی ہے۔ غربت بھی سب سے زیادہ پنجاب میں اور وسائل کر ہڑپ کر جانے کا طعنہ بھی اہلِ پنجاب کو۔ دوسری طرف بھاری شرحِ سود پر قرض لے کر نام نہاد میٹرو ٹرین اور میٹرو بس کے منصوبوں کا اصل زر، سود سمیت، پنجاب کی آئندہ نسلیں ادا کریں گی۔ یعنی میاں صاحب کی اعلیٰ قیادت کی بدولت پنجابیوں کو سو جوتے بھی کھانا پڑ رہے ہیں اور سو پیاز بھی کھانا پڑیں گے۔ کم از کم اگلے بیس سال تک!

    ویسے وزیر اعظم نواز شریف کو چاہیے کہ اپنے مشیر قانون کو ،کہ اگر اس مشیر موصوف کو سرکاری ٹی وی پر بیٹھ کر علمیت (کے نام پر جہالت ) جھاڑنے سے کبھی فرصت ملے ، تو ان سے پوچھ کر قوم کو بتائیں کہ نئی مردم شماری کے بغیر کیا یہ قومی مالیاتی ایوارڈ آئینی بھی ہے؟ کیوں کہ ہمارے حلقہ احباب میں شامل قانونی ماہرین کی رائے میں اگرچہ ایسی مشق غیر آئینی ہوگی تاہم صدر خصوصی اختیارات استعمال کر کے صرف ایک مرتبہ ایسا کرنے کی اجازت دے سکتا ہے جو کہ زرداری صاحب گذشتہ مالیاتی ایوارڈ کے وقت دے چکے ہیں ۔

    گذشتہ مرتبہ میاں صاحب نے اس محاذ پر بھی اس قوم کے ساتھ ’کارگل‘ کردیاتھا اور یہ تک بھی مان لیا تھا کہ ٹیکس دینے والی کوئی اہمیت یا اوقات نہیں ہوتی، بلکہ اصل اہمیت اُس کی ہوتی ہے جو ٹیکس اکٹھا کرتا ہے۔ ٹیکس سارا پاکستان دے لیکن اس پر حق صرف سندھ کا ہو گا کیوں کہ ایف بی آر کی بدعنوان اور نا اہل افسر شاہی کی وجہ سے پورے ملک سے تو ٹیکس اکٹھا ہو نہیں سکتا اس لیے بندرگاہ پر وصول کیا جانا بہت ہی آسان ہوتاہے۔ اس ناطے تو اس این ایف سی میں چئیرمین ایف بی آر کے لیے ایک ارب روپے ماہانہ سے زائد کی تنخواہ مقرر کرنے کی منظوری دے دی جائے کیوں کہ اگر دیکھا جائے کہ اگر دوسروں کا دیا گیا ٹیکس جمع کرنا ہی معیار ہے تو سارا ٹیکس تو ایف بی آر اکٹھا کرتا ہے اور اس حوالے سے جمع کئے گئے ٹیکس پر سب سے پہلا اور زیادہ حق تو چیئرمین ایف بی آر کا بنتا ہے ناں؟

    ہر معاملے میں بھارت سے مقابلہ کرنے والے اس حوالے سے بھارت کی مثال کو مدنظر کیوں نہیں رکھتے؟ حیرت ہے۔

  • عامر خاکوانی صاحب سے ملاقات کا احوال – زوہیب زیبی

    عامر خاکوانی صاحب سے ملاقات کا احوال – زوہیب زیبی

    زوہیب زیبی الحمدللہ محترم عامر ہاشم خاکوانی صاحب سے پاکستان پر فتنہ لادینیت کی یلغار اور اس کے سدّباب کے حوالے سے 4 گھنٹوں پر مشتمل ایک بھرپور نشست منعقد ہوئی جس میں سیکولرز کی طرف سے اپنی حدود پھلانگنے کی وجوہات اور انہیں واپس ان کی حدود میں دھکیلنے کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا۔ خاکوانی صاحب نے اپنے مشاہدے و فراست کے مطابق مختلف مشوروں سے نوازا نیز انتہائی اخلاص کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوران نشست ہی ممکنہ مدد و تعاون کی فراہمی کا آغاز بھی کردیا۔ ان سے مل کر ایک بات پر اطمینان ہوا اور ایک لحاظ سے ڈھارس بندھی کہ پرنٹ میڈیا میں ایسے صحافیوں کی ایک معقول تعداد موجود ہے جو سیکولرازم کو اسلام کا متبادل نہیں سمجھتی ہے، اسلامی عقیدے اور نظریے پر سختی سے کاربند ہے اور اس کے لیے کام کرنے کو تیار ہے۔

    خاکوانی صاحب کے بارے میں ان کی تحاریر کی روشنی میں جیسا اندازہ قائم کیا تھا، انھیں اس سے کہیں بڑھ کر پایا۔ بلاشبہ وہ مخلص انسان، سچے پاکستانی، اسلام پسند مسلمان اور معتدل مزاج صحافی ہیں۔ ان کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ہم مسلمانوں کے دل کی آواز یعنی دوسرے اوریا مقبول جان بن کر ابھریں گے۔ اگرچہ آغاز نشست میں قدرے تکلف تھا مگر پرتکلف عشائیے کے دوران سارے تکلفات مٹ گئے اور پھر ان سے کھل کر گوناگوں موضوعات پر گفتگو ہوئی۔

    خاکوانی صاحب کی جو بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے، وہ ان کی آخری حد تک معتدل مزاجی ہے۔ یہی سبب ہے کہ انہوں نے ہر سوال کا جواب نیز کسی بھی دیگر معاملے میں قول وسط ہی اختیار کیا۔ ناچیز کے پاک فوج کے حوالے سے جو اشکالات تھے بشمول ممتاز قادری رحمہ اللہ کا حکومت کی جانب سے پرفریب قتل وغیرہ، ان کو بھی بہت حد تک دور کرنے کی کوشش کی نیز بالخصوص آرمی چیف کے بارے ایک قدرے تلخ اعتراض کا بھی اپنی معتدل مزاجی سے بہت حد تک دفاع ہی کیا۔ ان کے علاوہ کچھ باتیں نہاں از دستاویزات ”Off the record“ ہونے کے سبب بیان نہیں کی جا سکتیں۔

    خوش قسمتی سے خاکوانی صاحب ہماری اینٹی سیکولرازم موومنٹ سے قدرے آگاہ ہونے کے سبب ناچیز سے پہلے ہی غائبانہ متعارف تھے، چنانچہ نام و پہچان سنتے ہی نہایت شفقت سے ملے اور سوشل میڈیا کی مہم کو تیز کرنے کے لیے اپنی انقلابی ویب سائٹ جو کہ بلاشبہ اس وقت کی اہم ضرورت ہے یعنی دلیل داٹ پی کے سے متعلق حتی المقدور تحاریر و تجاویز بھیجنے کا حکم بھی دیا۔

    دوران گفتگو ایک بار کہنے لگے”میری یادداشت، میرے جسم کی مانند ہاتھی جیسی ہے.“ ۔ الغرض کہ جوں جوں وقت گزرتا گیا، میں ان کی شخصیت میں موجود انکساری و سادگی کا قائل ہوتا گیا اور وقت رخصت میں صدق دل سے یہ جملہ کہنے سے نہ رک سکا؛
    ”Sir ! No doubt you are a great person“
    دعا ہے کہ خاکوانی صاحب اپنی صلاحیتوں کو مزید بہتر طور پر نیک مقاصد کے لیے استعمال کرسکیں ۔۔ آمین

  • فیصلے کا وقت آ گیا   –  عامر خاکوانی

    فیصلے کا وقت آ گیا – عامر خاکوانی

    پہلے ایک منظر فرض کریں۔

    لندن میں پاکستانیوں کا ایک اجتماع جاری ہے۔ لاہور سے ایک مشہور مقرر کی دھواں دھار تقریر سپیکر پر نشر کی جا رہی ہے۔ پاکستانی حاضرین کے جوش وخروش کا ٹھکانا نہیں۔ اللہ اکبر کے نعرے بلند ہورہے ہیں۔ لوگوں کی آنکھیں چمک رہی ہیں۔ نقاب پوش اور سکارف لیے لڑکیاں اور خواتین کا جوش دیدنی ہے۔ اتنے میں مقرر کا غیض وغضب انتہا پر پہنچ جاتا ہے۔ چیخ کر وہ کہتا ہے:

    ’’ برطانیہ مسلمانوں اور خاص کر پاکستانیوں کا دشمن ہے۔ اس ملک میں آپ رہتے ہیں، مگر اس نے کیا دیا ہے؟ ظلم کے سوا کچھ نہیں۔ تمام دنیا میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ہر سازش یہاں سے پھوٹتی ہے۔ آج اٹھیں اور اپنے ایمان کی قوت ان گوروں کو دکھا دیں۔ انہیں ایسا سبق سکھائیں کہ زندگی بھر یاد رکھیں۔ تمام سازشیں دم توڑ جائیں۔ یہ بی بی سی جو مسلمانوں اور پاکستانیوں کے خلاف گمراہ کن خبریں چلاتا ہے، اسے جاکر تباہ کردیں۔ ان بی بی سی والوں کو سبق سکھائیں۔۔۔۔۔۔“

    یہ فقرے سنتے ہی لوگ جوش وخروش سے اٹھتے ہیں اور باہر کا رخ کرتے ہیں۔ کچھ پرجوش نوجوان کرسیاں پٹخ پٹخ کر ان کی ہتھیاں توڑ کر ہتھیار بنالیتے ہیں اور باہر پارک کی گئیں گاڑیوں پر ڈنڈے برسانے شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ خواتین برق رفتاری سے بی بی سی کے دفتر کا رخ کرتی اور وہاں گھس کر توڑ پھوڑ شروع کر دیتی ہیں۔ ان کے ساتھ موجود لڑکے رپورٹروں پر حملے کرتے، گھونسے برساتے، شیشے توڑتے اور میزیں الٹنے لگتے ہیں۔ حملہ اس قدر شدید کہ ہر کوئی سہم جائے اور پولیس کے آنے تک پورا بی بی سی یرغمال بنا رہے۔ پولیس آ کر ان مشتعل مظاہرین سے ہر ایک کی جان چھڑائے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اوپر بیان کیا گیا واقعہ مکمل طور پر فرضی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا کہیں پر کچھ نہیں ہوسکتا، نہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود اگر فرض کریں ایسا کبھی ہوا ہوتا تو برطانیہ عظمیٰ کا اگلا ایکشن کیا ہوتا؟ یقینی طور پر ان تمام مشتعل غنڈوں کو گرفتار کرکے کیفرکردار تک پہنچایا جاتا۔ ایک بھی فرد بچنے نہ پاتا۔ پاکستان پر شدید ترین سفارتی دبائو ڈال کر وہ پاکستانی مقرر جس نے اپنے اشتعال انگیز تقریر سے یہ قیامت اٹھائی، اسے گرفتار کراکر دہشت گردی کی دفعات میں جیل پھینکوا دیا جاتا۔ وہ تمام اقدامات کیے جاتے ، جن سے آیندہ ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہو پائے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اگلا سوال یہ ہے کہ آج شام کراچی میں ایم کیو ایم کے کارکنوں۔۔۔ شاید غنڈوں کا لفظ استعمال کرنا بھی سخت نہ ہو۔۔۔ نے جس طرح میڈیا ہائوسز کو نشانہ بنایا۔ اے آر وائی اور سما پر حملہ کرکے شدید ترین توڑ پھوڑ کی، صحافی زخمی کردئیے، گاڑیاں جلا دیں اور ایک قیمتی جان بھی لے لی۔ کیا حکومت پاکستان اس بھیانک واقعے پر کوئی مضبوط ردعمل دے گی؟ کیا برطانوی حکومت سےسخت ترین سفارتی احتجاج کرکے وہ نیم فاتر العقل شخص، جو برطانوی شہری ہے اور ان کے اپنے سابق راہنما کے بقول شراب کے نشے میں دھت ہو کر، نہایت غلیظ زبان استعمال کرتا، پاکستان کے خلاف نفرت آمیز نعرے لگواتا اور اپنی اشتعال انگیز تقریروں سے میڈیا اور عوام کے لیے خطرات پیدا کرتا ہے۔ لوگوں کی زندگیوں کو دائو پر لگاتا ہے، کیا اس شخص کو قانون کے شکنجے میں نہیں لایا جاسکتا؟ اسے ٹیلی فونک خطابات سے نہیں رکوایا جاسکتا؟ کیا برطانوی سفیر کو وزارت خارجہ بلاکر سخت احتجاج کیا جائے گا؟ اگر پاکستان سے کسی کو برطانیہ تقریریں کر کے اشتعال پھیلانے کی اجازت نہیں تو پھر کسی برطانوی شہری کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں آگ لگانے کا حق کس طرح دیا جاسکتا ہے ؟
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اگلا سوال یہ ہے کہ وہ لوگ جو ایم کیو ایم کے قاتلوں، ٹارگٹ کلر سکواڈ اور بھتہ خور عناصر کے خلاف آپریشن کو مہاجر قوم کے خلاف آپریشن قرار دیتے تھے، آج پاکستان کے خلاف شرمناک زبان کے استعمال اور چینلوں پر دھاوے اور دہشت گردی کے اس واقعے پر ان کا کیا کہنا ہے؟

    کیا اب بھی وہ اس جنونی شخص کو لیڈر مانتے ہیں، جسے یہ سلیقہ نہیں کہ کس طرح گفتگو کرنا ہے۔ جو ہزاروں کے مجمع میں آرمی چیف، ڈی جی رینجرز کو ننگی گالیاں بکتا اور انتہائی گھٹیا، گندی زبان استعمال کرتا، جو لوگوں کو تشدد، بدمعاشی اور دہشت گردی پر اکساتا ہے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اگلا سوال یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف نعرے لگوانے والے اس برطانوی شہری کو کس طرح پاکستانی قانون کے شکنجے میں لایا جاسکتا ہے؟ اس کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج کیا جائے گا؟ اس کی تمام تر جائیداد ضبط، اس کے اثاثے ضبط اور اس کی نفرت انگیر تقریریں سننے والے، ان سے محظوظ ہونے والے اور پاکستان کے خلاف نعرے لگانے والوں کے خلاف مقدمات درج نہیں ہونے چاہئیں؟
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    آخر میں صرف یہ کہ کچھ لوگ اس واقعے کا دفاع کرتے ہوئے اس کی طرح طرح تاویلیں کریں گے۔ اسے مہاجر قوم کے خلاف کارروائی کا نام دیں گے۔ عجیب وغریب نکات اٹھاکر پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈے کی کوشش کریں گے۔۔۔ مگر اب وقت آ گیا ہے کہ ایسے لوگوں سے بھی کھل کر سوال کیا جائے۔ ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھایا جائے اور سوچا جائے کہ اگر پاکستان میں بیٹھ کر ایک برطانوی شہری کے کہنے پر ایسے شرمناک نعرے لگائے جائیں تو غداری یہ نہیں تو پھر کس چڑیا کا نام ہے؟؟؟

  • دلیل نام ہے جس کا – محمودفیاض

    دلیل نام ہے جس کا – محمودفیاض

    محمود فیاجنوے کی دہائی کی بات ہے، ہماری کالونی میں ایک چائے کی دکان تھی۔ شام کو اکثر دوستوں کے ساتھ وہاں گپ شپ ہوا کرتی تھی۔ سیاست ، مذہب اور کرکٹ ہی تین ایسے موضوعات ہیں جن سے ہم پاکستانی سانس لیتے ہیں۔ کھیل کی سیاست اور سیاست کا کھیل ہم خوب سمجھتے ہیں۔ اس چائے خانے میں بھی ایسے ایسے جغادری دانشور بیٹھا کرتے تھے کہ ہم لڑکے بالے ہر روز نئی نئی بات سیکھا کرتے تھے۔ کس کھلاڑی کو کب کھلانا تھا، جو کوچ کو اپنے چالیس سالہ تجربے کے باوجود پتہ نہیں چلا، وہ وہاں بیٹھے ایک صاحب پوری تفصیل سے جانتے تھے۔ کون سا سیاستدان اگر وقت پر دوسری پارٹی جوائن کر لیتا تو اس وقت ملک کا وزیر اعظم ہوتا، یہ بھی ہمیں وہیں بیٹھے پتہ چل جاتا۔

    مذہب کی بات، البتہ، دوسری ہے۔ اس پر بات کرتے ہوئے اکثر کسی آیت حدیث کا حوالہ بحث کو جلد سمیٹ دیتا تھا۔ کوئی کبھی حدیث کی صحت اور آیت کے سیاق و سباق کا سوال نہ اٹھاتا تھا۔ ویسے بھی مذہبی بحثوں نے اس وقت تک گیارھویں کے ختم اور مزار پر سجدے سے آگے کی ’’منازل‘‘ طے نہیں کی تھیں۔

    اس چھوٹی سے دکان میں یہ ناممکن تھا کہ کوئی بحث جاری ہو اور وہ ہر ایک کے کانوں تک نہ پہنچ سکے۔ اس لیے اکثر اوقات دو بندوں کے درمیان ہونے والا مکالمہ دو گروپوں کے درمیان مناظرے کی شکل اختیار کر لیتا۔ اور دکان میں بیٹھے تمام گاہک اپنی اپنی سائیڈ چن لیتے اور اپنے اپنے ممدوح کو ہلہ شیری دیتے ۔

    انہی دنوں کی بات ہے کہ ہم دلیل (عامر خاکوانی کی نہیں) سے متعارف ہوئے۔ ’’واہ بھئی! کیا دلیل دی ہے‘‘، اکثر یوں داد دی جاتی۔ ہوتا یوں کہ گرما گرم بحث چل رہی ہوتی، دونوں جانب سے حملے جاری ہوتے، کہ اچانک ایک ’’کھلاڑی‘‘ کوئی ایسی بات کرتا جس پر سب واہ واہ کر اٹھتے۔ ’’سبحان اللہ‘‘، ’’کیا بات ہے‘‘، ’’بات ختم کردی‘‘، اور ’’اب پیچھے کیا رہ گیا‘‘ کا شور ہوتا اور باوجود اس کے کہ مخالف کچھ کہنا بھی چاہتا، بحث نمٹا دی جاتی۔ مطلب یہ کہ لوگ چائے خانے سے اٹھ کر جانے لگتے جیسے سنیما میں آخری سین سے تھوڑا پہلے ہی لوگ اٹھ کر باہر جانے لگتے ہیں۔

    اس ساری مشق کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم یہ سمجھنے لگے کہ دلیل دراصل وہ ہتھیار ہے جو بحث ختم کر دے، مخالف کو پچھاڑ دے۔ دلیل کو ایسا ہونا چاہیے کہ محفل میں بیٹھا ہر تماشائی اش اش کر اٹھے۔ یوں سمجھیے کہ ہم دلیل کو جاوید میاں داد کا آخری چھکا سمجھنے لگ گئے، یا محمد علی کلے کا آخری مکا۔

    یوں لگتا تھا کہ یہ نکتہ کہ، دلیل آخری مکا ہے، ہم سے پہلے ہی بہت سارے بحث بازوں نے کب کا جان لیا ہوا تھا۔ اور اسی وجہ سے اس چائے خانے کے مشہور بحث باز اس ’’دلیل‘‘ کے ہتھیار کو استعمال کرنے میں ماہر نظر آتے تھے۔

    پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ ہمارے اسکول میں ایک بیالوجی کے نوجوان استاد آگئے۔ انہوں نے آتے ہی ہمیں اپنے رویے سے چونکا دیا۔ ہمارے اس زمانے کے باقی اساتذہ کی نسبت ایک تو وہ کم عمر تھے، اور دوسرا وہ تعلیم میں بھی ذرا ایک دو سال یونیورسٹی میں لگا کر آئے تھے۔ پڑھانے کا انداز اتنا سادہ تھا کہ شروع کی کلاسوں میں اندازہ ہی نہ ہوتا تھا کہ کب پڑھائی شروع ہوئی اور کب باتیں ختم۔

    ایک دن میں سائیکل پر اسکول سے واپس جا رہا تھا کہ راستے میں پیدل چلتے جا رہے تھے۔ میں نے ان کو سائیکل پر لفٹ دینے کی خاطر سائیکل روکنا چاہا (90 کی دہائی میں استاد کی ایسی ہی عزت تھی) تو انہوں نے مجھے منع کرتے ہوئے دوڑ کر چھلانگ ماری اور پیچھے بیٹھ گئے۔ دوسرے دن یہ واقعہ میں نے اپنی کلاس میں سنایا تو ہر لڑکے نے کچھ ایسی ہی عجیب باتیں بتائیں جو ان کو ایک بارعب استاد سے زیادہ ایک بڑا بھائی اور دوست ثابت کرتیں تھیں۔ نام ان کا ذہن سے نکل گیا ہے، آپ ہاشم صاحب کہہ لیجیے۔

    تو اب ہوتا یوں تھا کہ ہم چائے خانے کی بحثوں کو اگلے دن ہاشم صاحب کو سناتے تھے، تو اکثر وہ دلیل والے آخری مکے پر کوئی ایسا کمنٹ کر دیتے کہ ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے۔
    جیسے کہ ہم نے ایک شیعہ سنی مناظرے کے بارے میں پڑھا جس میں ایک سنی عالم نے اہل محفل کی ساری جوتیاں غائب کر دیں، اور محفل کے بعد جب شرکاء اپنے جوتے ڈھونڈنے لگے تو سنی عالم نے کہا کہ شیعہ حضرات حضورﷺ کے زمانے میں بھی جوتیاں غائب کر دیا کرتے تھے۔ اس پر شیعہ عالم بگڑ گئے کہ حضور ﷺ کے زمانے میں شیعہ تو تھے ہی نہیں۔ اس پر سنی عالم بولے ’’تو اب کہاں سے آگئے؟‘‘ ، اور وہی واہ واہ کا شوروغوغا۔

    اب ہم نے اس کا ذکر ہاشم صاحب کے سامنے کیا تو انہوں نے فقط اتنا کہا، ’’اچھا، تو اس وقت سنی وہاں حضور ﷺ کے زمانے میں ہوا کرتے تھے؟‘‘، اور ہنس کر بات بدل دی۔ مگر ہم اس کے بعد پہروں سوچتے رہے کہ انہوں نے جو کہا، وہ اس محفل میں کسی نے غور کیوں نہیں کیا۔

    ایسے ایک دو واقعات اور ہوئے تو ہماری پھرکی بھی چل پڑی۔ اب ہم نے چائے خانے میں ہونے والے ’’مناظروں‘‘ کے دلیلی مکوں کو خود بھی پرکھنا شروع کر دیا۔ اور اکثر ایسا ہونے لگا کہ ہمیں جو دلیل بڑی زبردست لگی، وہ تھوڑے سے غورو فکر کے بعد بودی لگنے لگی۔
    پھر ہمارے اس چائے خانے میں ایک مشہور ملاکھڑا ہوا، جس نے ہمیں وہ سکھا دیا جو ہم کسی کتاب سے نہ سیکھ پاتے۔

    ہوا یوں، کہ چائے خانے کے دو مشہور بحث بازوں میں کسی مذہبی معاملے کو لے کر بحث شروع ہوئی جو طوالت اختیار کر گئی۔ وقت کی کمی کی وجہ سے دونوں نے اس بحث کو چھٹی والے دن تک ملتوی کر دیا۔ اس کی وجہ سے بات پھیل گئی۔ اور چھٹی والے دن چائے خانہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہر کوئی ان دو مشہور بحث بازوں کا مقابلہ دیکھنے کا آرزو مند تھا۔ دونوں مخالفین کو بحث میں زچ کرنے اور پینترا بدلنے کے ماہر تھے۔ سب یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اس مقابلے کا فاتح کون ہوگا۔

    طوالت کے خوف سے پورے معرکے کی تفصیل نہیں لکھ پاؤں گا، مگر ایک آدھ مکالمے لکھے بغیر بات سمجھ نہیں آئے گی۔
    بات شروع ہوئی تو کسی مذہبی واقعے سے تھی مگر پھر بحث در بحث مکالمے کا رنگ کچھ یوں ہو گیا کہ ایک کہہ رہا تھا، ’’تم نے روزے کا ذکر کیا ہے، اب دل تھام کے سننا، اب میری بات کا جواب دینا۔ بھاگ نہیں جانا تم نے اب اس میدان سے، اگر ماں کا دودھ پیا ہے تو، ۔ ۔ ۔ یہ جو روزے ہیں نا، یہ پتہ ہے سب سے پہلے کس پیغمبر پر فرض ہوئے تھے؟ نہیں جناب، حضرت موسی علیہ السلام سے بھی پہلے، اب بولو، میں نے جب روزے کی بات کی تو تم نے کیا سوچا اور میں کہاں تک دیکھ رہا تھا۔‘‘ ، واہ واہ کا شور شروع ہوا تو دوسرے نے بات آگے چلائی، ’’ٹھیک ہے، روزے پہلی امتوں پر بھی فرض ہوئے تھے، تم نے حضرت موسی کی بات کی ہے، تو اب حضرت لقمان علیہ السلام کی بات بھی سن لو۔ وہ چیونٹیوں کی بات بھی سن لیتے تھے، اور اور ملکہ سبا کا تخت کس نے آنکھ کے اشارے میں لاکھڑا کیا تھا، بولو ، جواب دو؟‘‘ ، پھر واہ واہ کا شور۔ پچھلی صفوں میں داد دی جا رہی تھی، کیا جواب دیا ہے، وہ ابھی حضرت موسی کی بات کر رہا تھا، اگلا حضرت لقمان اور ملکہ سبا تک پہنچ گیا، واہ اس کو کہتے ہیں علم۔ اس کو کہتے ہیں دلیل۔

    ہم ( میں اور میر ے دوست) جو ہاشم صاحب کی چھوٹی چھوٹی مگر سوچنے پر مجبور کر دینے والی باتوں کی وجہ سے، ان باتوں کی کچھ کچھ اصلیت سمجھنے لگے تھے، حیران پریشان یہ سب دیکھ رہے تھے۔ موضوع کیا تھا؟ کسی کو غرض نہیں تھی۔ مکالمہ کیسے ہونا چاہیے، کوئی نہیں سمجھ رہا تھا۔ دلیل کیا ہوتی ہے، کیسی ہوتی ہے، کوئی نہیں جانتا تھا۔ سب کے سب صرف لفظوں کے جال بن رہے تھے، اور لفظوں کے الٹ پھیر سے ایک کھیل بنا کر کھیل رہے تھے۔ تماشائیوں کے لیے یہ ایک تفریح تھی جو ان کے پہلے سے جامد عقیدوں اور رویوں کو سہارا دیتی تھی۔ سوچ سے زیادہ یہ میلانات کا کھیل تھا۔

    خیر اس کے بعد ہم سب دوستوں کے خیالات بدل گئے ان محفلوں کے بارے میں۔ وہ بحثیں جو کبھی اچھی خاصی سنجیدہ لگا کرتی تھیں، ہمارے لیے بچوں کا تماشا بن گئیں۔ کئی بت ٹوٹ گئے، اور مشہور بحث باز ہمیں ان جگت بازوں جیسے لگنے لگے جو سستے تھیٹر کے ڈراموں میں جاہل تماشائیوں کے سستے زوق کی تسکین میں کامیابی کے لیے ہر حربہ اختیار کرنے پر راضی ہوں۔

    دوستو! بات لمبی ہو ہی گئی، مگر کچھ تفصیل ضروری ہو جاتی ہے۔ کہنا صرف یہ ہے کہ دال سے دلیل بنتی ہے اور دال سے دھوکہ بھی۔ اکثر ہم دلیل کے نام پر دھوکے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ دنیا نوے کی دہائی سے آگے نکل چکی ہے۔ فیس بک نے چائے خانے کی محفل کو آپ کے موبائل پر لا کر جما دیا ہے۔ مگر بحث بازی کے مقابلے وہی ہیں۔ لفظوں کے کھیل وہی ہیں۔ جگت والے جگت کو دلیل کے نام پر تالی سمیٹنے کے لیے استعمال بھی کر رہے ہیں۔

    اللہ کرے آپ کی زندگیوں میں بھی کوئی نہ کوئی ہاشم صاحب ہوں، جو اپنی چھوٹی چھوٹی مگر گہری باتوں سے ان دلیلی مناظروں کی اصلیت آپ پر وا کرتے رہیں اور آپ جھوٹی واہ واہ سے بچ سکیں۔ آمین۔

  • زخموں سے چُور یہ بچہ کون ہے؟ –  ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    زخموں سے چُور یہ بچہ کون ہے؟ – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    شام میں جاری خانہ جنگی خاک اور خون کی ایسی داستان ہے جس نے میڈیا کے دوش پر کرہ ارض کے ہر کونے تک رسائی حاصل کی۔ انسانی لہو کی ارزانی کے ایسے ایسے مناظر نگاہوں کے سامنے آئے کہ ان کی ایک جھلک روح کو زخموں سے چُور کر دیتی ہے۔

    ان دنوں اسی جنگ کے حوالہ سے ایک تصویر دنیا بھر میں بہت معروف ہو رہی ہے جس میں ایک چھوٹا سا معصوم بچہ زخمی حالت میں خون اور مٹی میں اٹا ایک کرسی پر گم سم بیٹھا ہے۔

    اس تصویر کے حوالہ سے بین الاقوامی شہرت کے حامل ایک ادارہ نے ایک آن لائن سروے کروایا جس کے نتائج بہت دلچسپی کے حامل تھے۔ سوچا آپ سے بھی شیئر کیے جائیں۔

    انہوں نے پہلے حصے میں اس بچے کی تصویر کے ساتھ اس کا نام علی نقی لکھا… اور قارئین سے اپنی رائے کا اظہار کرنے کو کہا۔

    بہت شاندار فیڈ بیک آیا، تاہم رائے دہندگان کی ایک کثیر تعداد کا تعلق ایران سے تھا۔ پھر عراق اور ہند و پاکستان سے۔ ان سب نے لبیک یا حسین کہتے ہوئے خارجی گروہوں کی سرکوبی کا سختی سے مطالبہ کیا۔ اہم بات یہ نوٹ کی گئی کہ اس سروے میں دیگر عرب ممالک سے تقریباً نہ ہونے کے برابر دلچسپی دیکھنے میں آئی۔

    پھر دوسرے مرحلہ میں اس بچے کا نام عمر ظاہر کیا گیا اور رائے مانگی گئی۔ ایک بار پھر ایک کثیر تعداد نے اپنے تاثرات ریکارڈ کروائے، تاہم اب کی بار ایران سے کوئی جوابات موصول نہیں ہوئے البتہ عرب ممالک سے بہت بھاری تعداد نے اس کی جنگ کی مذمت کی اور بشار الاسد، ایران اور حزب اللہ کو خوب برا بھلا کہا۔

    تیسرا مرحلہ بہت حیران کن رہا۔

    اس بچے کی تصویر کے ساتھ کوئی نام نہیں تھا۔ صرف یہ کہا گیا یہ ایک مسلمان بچہ ہے۔ عام توقع کے برعکس بہت ہی کم لوگوں نے اس مرحلہ میں حصہ لیا اور بمشکل اڑھائی ہزار جواب آئے، تاہم یہ کم و بیش تمام مسلم دنیا سے تھے۔

    آخری مرحلہ میں صرف یہ کہا گیا کہ یہ بچہ شام میں ایک جنگی زون سے ملا ہے… اس کے متعلق کچھ معلوم نہیں یہ کون ہے اور کس مذہب سے اس کا تعلق ہے۔

    اب کی بار جتنے لوگوں نے اس میں شمولیت کی، اس میں سے غالب اکثریت کا تعلق مغربی ممالک، جاپان، جنوبی کوریا اور امریکا سے تھا۔

    کہنے کی بات یہ ہے کہ …

    آپ درست پہنچے… ایسا کوئی سروے کہیں نہیں ہوا۔ آپ سے غلط بات کہنے کے لیے معذرت خواہ ہوں، لیکن اس کے بعد ایک بات کا جواب آپ بھی دیجیے۔ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتائیں اگر آج ایسا کوئی سروے کنڈکٹ کیا جائے تو کیا نتائج اس سے کسی طور بھی مختلف ہوں گے جو اوپر بیان کیے گئے؟

    اصل قضیہ یہ ہے کہ جنہیں انسانیت کے لیول پر بروئے کار آنا تھا، وہ مسلمانیت کے مقام سے بھی نیچے گر گئے۔

    وہ مسلک اور فرقہ کی سیاست تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کے لیے انسانیت تو کوئی شے ہی نہیں، محض مسلمان ہونا بھی کافی نہیں۔ نہ مسلمان کی جان کی حرمت کوئی معنی رکھتی ہے نہ اس کی قدروقیمت کا کچھ احساس ہے۔ اسی لیے ہم محکوم ہیں۔ جو انسانیت کے مقام سے نیچے آ جاتے ہیں ان سے عالمی اقتدار چھن جاتا ہے اور جو مسلمانی سے نیچے آ جاتے ہیں، ان سے قومی اقتدار بھی جاتا رہتا ہے۔ پھر بات مسلح جتھوں کے ہاتھ میں آ جاتی ہے اور خدا کی جانب سے سزا کا عمل جاری ہو جاتا ہے کہ ایک کے ہاتھوں دوسرے کا خون بہتا ہے۔ اس وقت وہی جاری ہے۔

    اس کشمکش کا فاتح نہ تو الف ہو گا اور نہ ہی ب۔ یہ دونوں کی شکست ہے کیونکہ یہ سزا کا عمل ہے…. سزا میں فتح نہیں ہوتی، صرف تذلیل ہوتی ہے !

  • ’’دلیل‘‘ کی مقبولیت کا اصل راز کیا ہے؟ سید سلیم رضوی

    ’’دلیل‘‘ کی مقبولیت کا اصل راز کیا ہے؟ سید سلیم رضوی

    اس وقت سوشل میڈیا پر جو اُردو سائٹس بہت زیادہ پاپولر ہیں، ’’دلیل‘‘ نے بہت کم عرصے میں نہ صرف ان میں نمایاں جگہ بنا لی ہے بلکہ چند ہی ماہ میں کئی سنگ میل عبور کر لیے ہیں۔ اس کی چند خاص الخاص وجوہ ہیں۔ میں کسی لمبی تمہید میں پڑے بغیر ان کا ذکر اختصار سے کرنا مناسب سمجھوں گا۔

    1۔سب سے بڑا ایڈوانٹیج جو برادرم محمد عامر خاکوانی صاحب کو حاصل ہے، وہ ہے میڈیا کے ساتھ پہلے سے وابستگی، ماشاء اللہ خاکوانی صاحب کی تحریر کا ایک خاص اُسلوب ہے، ان کی تحریر میں بلاکی روانی اور بلاغت ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی بات بڑے مدلل پیرائے میں بیان کرنے کا جو ملکہ حاصل ہے، وہ پڑھنے والے کے دل و دماغ پر گہرا نقش چھوڑ جاتا ہے۔ خوف مجھے یہ ہے کہ میرے توصیفی الفاظ کہیں خوشامد کے زُمرے میں نہ آ جائیں، صرف اتنا بیان کر دوں کہ کم و بیش آٹھ سال سے ان کے کالموں کا باقاعدہ قاری ہوں اور ان شستہ و شائستہ طرز تحریر کا دل وجان سے معترف بھی، تب سے جب وہ روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ تھے اور اپنا پورا نام ’’محمد عامر ہاشم خاکوانی‘‘ لکھا کرتے تھے۔ مجھے غالباً ان کے کالم کی طرف اسی لمبے نام نے متوجہ کیا تھا۔ ایک بالکل نووارد کالم نویس کو مَیں نے محض جانچنے اور پرکھنے کی غرض سے پڑھنے کی کوشش کی تو اِقرار کیے بغیر نہ رہ سکا کہ یہ نوجوان ہمارے کالم نویسوں کی فہرست میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ ایک اچھے کالم کی جو خصوصیات ہیں، ان میں سب سے فائق چیز الفاظ کا انتخاب ہے، (میرے خیال میں انتخاب کہنا بھی زیادتی ہوگی کی الفاظ شعوری طور پر چُنے نہیں جاتے بلکہ شاعری کی طرح نثر میں بھی اِن کی آمد ہوتی ہے) تحریر اس قدر مؤثر، دِلکش اور بےساختہ ہو کہ قاری کو اپنے ساتھ لے کے چلے، اور دوسرے یہ کہ علم میں اضافے کا ذریعہ بھی بنے۔ یہی وجہ ہے کہ خاکوانی صاحب اس عرصے میں قارئین کا اِتنا وسیع حلقہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ انہوں نے ’’دلیل‘‘ کے نام سے جو بلاگ بنایا ہے ( اسے بےشک سائٹ کہہ لیجیے) اس کے پڑھنے والوں کی بڑی تعداد ان کے پہلے سے موجود قارئین پر مشتمل تھی، جس میں اردہ زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والے وہ لوگ تیزی سے شامل ہوتے جا رہے ہیں جن کی براہِ راست انٹرنیٹ تک رسائی ہے اور ان کے پاس اخبارات کے مطالعے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔

    2۔ برادرم عامر خاکوانی نے اپنے چند کالموں میں قارئین کو سوشل میڈیا کی طرف مائل کرنے میں بھی شعوری کردار ادا کیا اور فیس بک کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے قارئین کی دلچسپی سوشل میڈیامیں بھی کئی گنا بڑھا دی ہے۔ جو لوگ اخباری کالموں کو پڑھ لینے پر اکتفا کرتے تھے یقینا اس سے انہیں تحریک ملی اور ان میں سے جن کی رسائی (ACCESS) انٹر نیٹ تک تھی انہوں نے ’’دلیل‘‘ میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دی ہے اور یوں قارئین کا ایک بہت بڑا حلقہ بالواسطہ طور پر’’دلیل‘‘ کو میسر آ گیا ہے۔

    3۔ میری رائے میں خاکوانی صاحب کی یہ خصوصیت سب پر فائق ہے کہ انہوں نے اپنے قارئین سے ایک اپنائیت بھرا تعلق قائم کر لیا ہے۔ لوگ بڑی چاہت اور خلوص دِل کے ساتھ، بڑے ہی پُر اعتماد انداز سے ان کے ساتھ براہِ راست وابستہ ہو چکے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ خاکوانی صاحب اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے مضامین کے جواب میں کمنٹس کرنے والوں کے خیالات کو نہ صرف بہ نفس نفیس لائیک کرتے ہیں بلکہ جہاں تک بن پڑے ان میں سے کچھ کا جواب بھی دیتے ہیں۔ (آج کل ان کی طرف سے Likes اور جوابی کومنٹس میں خاطرخواہ کمی آ چکی ہے)

    4۔ بیشتر قارئین ’’دلیل‘‘ پر لگنے والے مضامین کو پڑھنے پر اس لیے بھی آمادہ ہو جاتے ہیں کہ ان کی طرف قارئین کی توجہ دلانے میں خاکوانی صاحب کی پر خلوص سفارش بھی شامل ہوتی ہے جو چند خوبصورت اور پر کشش الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے۔ یوں ہم جیسے ان کے دیرینہ نیازمند ایسے مضامین کو اس بنا پر نظرانداز نہیں کر سکتے کہ جو بات خاکوانی صاحب کے دل کو چھو گئی ہے، اس میں یقینا بڑا اثر ہوگا۔

    5۔ میں اس بات کا برملا اظہار کرنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ خاکوانی صاحب بڑے دل گردے کے آدمی ہیں۔ مجھے نہیں خبر کہ’’دلیل‘‘ کو لانچ کرنے کا ان کا کب سے ارادہ تھا یا یہ فیصلہ اچانک سامنے آیا؟ وجہ کچھ بھی ہو سب سے پہلے خاکوانی صاحب نے برادرم وجاہت مسعود کی سائٹ’’ہم سب‘‘ کا اپنے قارئین سے تعارف کرایا۔ خود میں ان کے ایک کالم میں توجہ دلائے جانے کے باعث’’ہم سب‘‘ سے آشنا ہوا۔ اس میں کچھ کلام نہیں کہ وجاہت مسعود صاحب جس اخبار میں لکھتے ہیں، وہ ایک اعتبار سے خاکوانی صاحب کے اپنے اخبار کا حریف ادارہ ہے اور خبر بازی کی حد تک اِن دونوں اداروں کے مابین ایک طرح کی چپقلش بھی جاری رہتی ہے، تاہم خاکوانی صاحب نے اسے درخورِاعتنا نہ سمجھتے ہوئے اپنے قارئین کو وجاہت مسعود سے رُوشناس کرانے میں بخل سے کام نہیں لیا۔

    6۔ برادرم خاکوانی صاحب اپنے قارئین کی کڑوی کسیلی باتیں بھی بڑے حوصلے سے سہہ جاتے ہیں، بلکہ اِن چُبھتی ہوئی جملے بازیوں کو ہنس کر ٹال جاتے ہیں۔ خود ہم (مراد راقم الحروف) ان کا حوصلہ آزمانے کے لیے اپنے کمنٹس میں کبھی کبھار چھیڑ چھاڑ بھی کر لیتے ہیں لیکن ایسا کوئی ثبوت ہمارے سامنے نہیں آیا جو ہمارے اس ہر دلعزیز بھائی کی ناگواری کا پتہ دیتا ہو۔ ظاہر ہے کہ ہم جیسے ادنیٰ سے لوگ، خواہ جس بھی حیثیت کے حامل ہیں، ان کا اصل اثاثہ ہیں اور اپنے اثاثے کو کون سنبھال کر نہیں رکھتا۔

    میری درج بالا معروضیات میں شاید کوئی اختلافی پہلو بھی موجود ہو۔ اختلاف کا حق ہر کسی کو حاصل ہے۔ مَیں نے جو محسوس کیا بلا تأمّل لکھ ڈالا ہے، فیصلہ آپ خود اپنی صوابدید اور سمجھ بوجھ کے مطابق کر سکتے ہیں۔