Tag: دل

  • دل کا حال کیسے معلوم ہوتا ہے؟ ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    دل کا حال کیسے معلوم ہوتا ہے؟ ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    محمد مشتاق قانون کے طالب علم جانتے ہیں کہ عام طور پر جرم کے تین ارکان بیان کیے جاتے ہیں :
    مجرمانہ فعل (actus reus)؛
    مجرمانہ ذہن ( mens rea)؛
    اور ان دونوں کے درمیان رابطہ سببیہ (causal link)،
    یعنی یہ ثابت کیا جائے کہ یہ مجرمانہ ذہن ہی اس مجرمانہ فعل کے وجود میں آنے کا سبب بنا ہے۔

    مثال کے طور پر ”ازالۂ حیثیتِ عرفی“ (defamation) کا جرم لے لیجیے۔ زید نے بکر پر کوئی الزام لگایا۔ اب الزام تو ہوا مجرمانہ فعل؛ لیکن کیا اس نے یہ الزام بدنیتی سے (malafide) لگایا؟ یا کیا اسے علم تھا کہ اس کی اس بات سے بکر کی حیثیتِ عرفی کو نقصان پہنچے گا (وہ بدنام ہوگا )؟ اگر زید نے ثابت کیا کہ اس نے جو کہا، یا لکھا، وہ بدنیتی پر مبنی نہیں تھا، یا اسے علم نہیں تھا کہ اس کا کہا یا لکھا بکر کی بدنامی کا باعث بنے گا ، بہ الفاظ ِ دیگر اس نے یہ نیک نیتی سے (in good faith)کیا تھا، تو اسے مجرم نہیں کہا جاسکتا۔ (اسی وجہ سے اخبارات اور میڈیا والے لوگوں پر کیچڑ اچھالتے ہیں اور بچ جاتے ہیں!)

    بعض اوقات کسی فعل کو اتنا سنگین سمجھا جاتا ہے کہ محض اس فعل کا ارتکاب ہی کافی قرار دیا جاتا ہے اور اس کے لیے guilty mind یا mens rea کے ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی، جیسے اسلامی قانون میں زنا کا الزام ہے۔ جس نے کسی شخص پر زنا کا الزام لگایا، وہ لازماً اپنے دعوے کے ثبوت میں چار گواہ پیش کرے گا، ورنہ اسے قذف کی سزا (اسی کوڑے) دی جائے گی۔ (اس سے استثنا صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور اس کے پاس چار گواہ نہ ہوں تو وہ لعان کا طریقہ اختیار کرے گا اور اگر الزام کے بعد لعان کرنے سے انکار کرے تو اسے قید کیا جائے گا۔)

    پھر بعض حالات میں ایک ہی فعل کی سزا مختلف ہوجاتی ہے اگر نیت مختلف ہو۔ مثال کے طور پر اگر زید کا ارادہ بکر کو قتل کرنے کا تھا اور اس ارادے کے ساتھ اس نے بکر کو قتل کیا تو یہ قتل عمد ہے جس کی سزا قصاص ہے؛ تاہم اگر اس کا ارادہ صرف بکر کو چوٹ لگانے کا تھا لیکن اس چوٹ سے بکر کی موت واقع ہوئی تو اسے شبہ عمد کہا جاتا ہے، جس کی سزا دیتِ مغلظہ ہے؛ اور اگر اس کا ارادہ ہرن پر گولی چلانے کا تھا لیکن گولی بکر کو لگی، یا جسے اس نے ہرن سمجھ کر گولی چلائی وہ بکر نکلا (جو پتہ نہیں کیوں چوپایوں کی طرح چل رہا تھا) ، تو ان دونوں صورتوں میں یہ قتل خطا ہے اور اس کی سزا دیتِ مخففہ ہے۔
    قتل کی ان تینوں صورتوں میں بکر کا قتل زید کے ہاتھوں ہوا ہے لیکن ارادے کے اختلاف سے سزا میں فرق آیا۔

    یہ ارادہ کیسے معلوم کیا جاتا ہے؟ یہ تو دل کی بات ہوتی ہے۔ دل میں عدالت کیسے جھانک لیتی ہے؟ کیا عدالت پر وحی کا نزول ہوتا ہے؟
    نہیں، یہ سوالات صرف اسی صورت میں اٹھائے جاتے ہیں جب ہم کسی ہندو، مسیحی یا یہودی کو کافر کہیں!

  • دل کی چابی اس کے مالک کو تھمائیں – نیر تاباں

    دل کی چابی اس کے مالک کو تھمائیں – نیر تاباں

    یاسمین مجاہد کی کتاب Reclaim your heart آج کل زیرِ مطالعہ ہے۔ مرکزی موضوع یہ ہے کہ تمام تر مصنوعی وابستگیوں (false attachments) سے جان چھڑا کر کس طرح دل کی چابی اس کو تھمائیں جو دل کا مالک ہے۔ اللہ۔ دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا میں مگن نہیں ہونا، یعنی کشتی پانی میں رہے لیکن پانی کشتی میں نہ جانے پائے کیونکہ اس میں ہلاکت ہے۔ اگر غور کریں تو تمام عبادات کا محور یہی ہے کہ اپنی دنیاوی محبتوں میں مگن نہ ہوں۔ دنیا میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو دنیا میں غرق ہونے سے بچانے کی کوشش انتہائی مشکل ہے، اور یہی کوشش جہاد بالنفس ہے، یہی کوشش توحید کا نچوڑ ہے۔
    اسلام کے پانچ ستون کلمہ شہادت، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج، تمام کا بنیادی مقصد انسان کو بار بار دنیا کی محبتوں سے کاٹ کر اللہ کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ آئیں تھوڑا سا تفصیل میں دیکھتے ہیں۔

    شہادت:‌ لا الہ الا اللہ! یعنی نہ صرف یہ اقرار کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں، بلکہ ہر ایک سے اپنی امید توڑ کر اپنی تمام تر امیدوں اور محبتوں کا محور و منبع صرف اللہ کو سمجھنا۔

    نماز: روزانہ دن میں پانچ بار ہر کام چھوڑ کر اللہ کے حضور حاضر ہونا۔ یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ دن میں ایک بار، یا ہفتے میں ایک بار نماز ادا کرنا فرض ہوتا، یا پانچوں نمازیں ایک ہی وقت پر ادا کرنے کا حکم ہوتا۔ لیکن دن میں پانچ بار نماز کی بھی شاید یہی حکمت ہو کہ نیند کو چھوڑ کر، یا اپنا کام، اپنے بچے کو چاہے وہ اتنی دیر میں شرارت شروع کر دیں، یا اپنے چاہنے والوں سے بات ادھوری چھوڑ کر، اپنا کوئی پسندیدہ شو، کرکٹ میچ، چاہے جو بھی کام کر رہے ہیں، اس کو چھوڑ کر نماز کے لیے اٹھ جانا ہے۔ دن میں پانچ بار، یعنی ادھر دنیا میں دل لگنے لگا تھا، ادھر اللہ نے بلا لیا اور سب کچھ چھوڑ کر نماز ادا کرنے لگے۔

    روزہ: کھانے پینے کا پرہیز، میاں بیوی کے تعلقات، غیر ضروری اور فضول گفتگو، تمام سے بچنا۔ جسمانی ضروریات یا جذباتی، دونوں کو ہی روکنا۔ یعنی ہر طرح کی نفسانی خواہشات سے علیحدہ ہونا۔ پورا سال نماز میں اسکی ٹریننگ تھوڑے سے وقت کے لئے ہوتی ہے، اور پھر سال میں ایک بار پورے مہینے کے لیے دورانیہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ تا کہ مومن دنیا میں غرق نہ ہونے پائے۔

    زکوٰۃ: دولت کی محبت انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے۔ زکوٰۃ دینا دولت سے detach ہونے کی تربیت ہے۔

    حج: fasle attachments کو توڑنے کے لیے حج ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ اپنا گھر، خاندان، اپنی جاب، اپنی تنخواہ، گرم بستر، نرم جوتے، برانڈڈ کپڑے، اپنی گاڑی، اپنا status، یہ سب چھوڑ کر سادہ سا احرام پہن کر، زمین پر کھلے آسمان کے نیچے سونا بھی پڑے گا، حج کے مناسک ادا کرتے ہوئے دھکم پیل بھی برداشت کرنی پڑے گی، پیدل سعی بھی کرنی پڑے گی۔
    اللہ نے ہمیں یہ نہیں کہا کہ دنیا چھوڑ دو، لیکن دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا میں مگن نہ ہو جاؤ۔ پورا دین اسی ٹریننگ کے گرد گھومتا ہے۔ لڑکی نے باہر جانا ہے، جانتی ہے کہ حجاب اوڑھوں گی تو بال خراب ہو جائیں گے، بھنویں بنانا چھوڑوں گی تو اتنی حسین نہیں لگوں گی، لیکن پھر بھی کرتی ہے۔ لڑکا سوٹ بوٹ پہن لے لیکن داڑھی کی سنت بھی ادا کرے، لڑکی دعوتِ نظارہ دے تو بھی نظریں جھکا لے۔

    ہر ہر جگہ ہمیں یہ مثالیں نظر آئیں گی۔ یہی مومن کی زندگی ہے۔ دنیا میں ایک مسافر کی طرح! تمام کام کرنے ہیں، جوگ نہیں لینا لیکن بس دنیا کی زندگی میں گم نہیں ہو جانا۔ بار بار اپنا احتساب کرنا ہے۔

  • دل کی بات سنیں، اسی میں زندگی ہے – ارم فاطمہ

    دل کی بات سنیں، اسی میں زندگی ہے – ارم فاطمہ

    ایک سوال اس معاشرے کے ہر فرد سے، ایک لمحے کے لیے سوچیےگا ضرور! کیا کبھی کسی ایسے انسان سے ملاقات ہوئی آپ کی جو اپنے دل میں ہر ذی نفس کے دل کی بات لیے پھرتا ہو، جسے سن کر اور مل کر آپ کو لگے کہ ہاں یہ تو ہمارے ہی دل کی بات کر رہا ہے۔یہ کہنا تو بہت آسان ہے جو کہ اکثر لوگ کہتے ہیں!
    ’’ہم دل سے سوچتے ہیں‘‘۔
    اس بات کی گہرائی تک جائیں تو ہم سب سے پہلے یہی سوچتے ہیں کہ وہ اگر سوچتا ہے تو یقینا اپنے دل سے سوچتا ہوگا۔ جب دل اسی کا ہے تو باتیں بھی اسی کی ہیں، وہ اپنے لیے سوچتا، اپنے لیے زندہ رہتا ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ دل میرا ہے مگر اس میں ابھرتی باتیں ہر اس انسان کی ہیں جو کہیں نہ کہیں سینے میں کسی خواہش کو دبائے ہوئے ہے، جس کا تعلق اس کی ذات سے کم اور اس سے جڑے رشتوں اور انسانوں سے ہے، جن سے اس کی زندگی رواں دواں ہے۔

    کہیں یہ خواہش دل کی خوشی بنتی ہے، مکمل ہوتی ہے، اپنی منزل پاتی ہے، تو کہیں یہ خواہش دل کی حسرت میں تبدیل ہو جاتی ہے تب انسان زندگی گزار رہا ہوتا ہے، مسکراتا تو ہے مگر آنکھیں نامکمل رہ جانے والے خواب کی نمی سے جھلملاتی رہتی ہیں۔ ایسے انسان کو ہم کہتے ہیں کہ یہ حساس دل رکھنے والا ہے، اپنے لیے کم اور دوسروں کے لیے زیاد سوچتا ہے مگر اسے ہر دور اور ہر زمانے میں بہت نا قدری کا سامنا کرنا پڑا ہے.

    کچھ لوگ جو اس دل میں حسد رکھیں، ان باتوں سے نظر چرائیں، وہ انسان کو ایک مقام دینے سے گریز کرتے ہیں۔ اکثر آپ نے سنا ہوگا، ایسے انسانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا رویہ نارمل نہیں ہے۔ نارمل ہم اسی کو سمجھتے ہیں جو میرے اور آپ جیسا ہو۔ اپنی خواہشات کو سوچتا ہو، اپنے خیالات بیان کرتا ہو۔ صرف اور صرف اپنی ذات کا تذکرہ کرتا ہو۔ فی زمانہ ایسا ہی انسان کامیاب ہے۔

    کہں اسے معاشرے کے لیے ان فٹ کہا جاتا ہے. کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ بھائی ایسا سوچنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ زندگی اپنے لیے جینے کا نام ہے، خوشی سے جیو، اسے گزارو اور اگلے ٹھکانے کی تیاری شروع کردو۔ مگر شایہ وہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ انسانیت اپنا ایک اجر رکھتی ہے، خوشی کا احساس رکھتی ہے۔
    آپ جاننا چاہتے ہیں؟
    ایسا کون سا انسان ہے جو اپنے دل میں دوسروں کی بات لیے جیتا ہے۔
    یہ وہ انسان ہے جو ہم میں سے ہی ہے، بس ہم اسے پہچان نہیں پاتے۔ یہ وہ انسان ہے جو ظاہری آنکھ رکھتے ہوئے بھی اپنے من کی آنکھ روشن رکھتا ہے۔ جو یہ سب دیکھتا ہے جسے ہم دیکھتے ہوئے بھی بنا دیکھے گزر جاتے ہیں.
    یہ وہ انسان ہے جو دل میں درد رکھتا ہے، درد سہتا ہے جسے اکثر لوگ نظر انداز کر کے اپنے دل کو مادی لذتوں سے بہلاتے ہوئے زندگی گزارتے چلے جاتے ہیں۔
    یہ وہ انسان ہے جو دیکھتا ہے کہ اس ملک میں کتنے ایسے بچے ہیں جن کی زندگی کچرے کے ڈھیر سے شروع ہوتی ہے اور قبرستان کی کسی نیم تاریک قبر پر چرس اور افیون کے دھوئیں میں ختم ہو جاتی ہے۔
    یہ وہ انسان ہے جو یہ دیکھتا ہے کہ غربت اور عسرت میں پلی نوخیز کلیاں کہیں نظروں کی ہوس سے گھبرا کر موت کی آگوش میں پناہ لیتی ہیں یا پھر زندگی جینے کی خواہش میں اپنی روح کو کچل دیتی ہیں اور ہوس زدہ نظروں کے آگے ہار جاتی ہیں.
    یہ وہ انسان ہے جس کے دل میں ہے کہ میرے ملک کے ہر نوجوان کا ایک خواب ہے جو اسے یہ کوشش کرنے پر اکساتا ہے کہ اسے بھی زندگی کی آسائشات سے لظف اندوز ہونے کا حق حاصل ہے اور اگر وہ چاہے تو ناجائز ذرائع بھی اختیار کر سکتا ہے۔
    یہ وہ انسان ہے جو ایک عام انسان کے مسائل کی بات کرتا ہے، جس کے لیے صبح سویرے بجلی کا ہونا ہی بہت غنیمت ہے۔ نلکوں سے دھواں نہ نکلے، کپڑے استری کے انتظار میں سوکھتے نہ ہوں، اسے زندگی کی بنیادی سہولیات میسر ہوں۔
    یہ وہ انسان ہے جس کے دل کی بات ہر انسان کے دل کی بات ہے، جس کے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ کون اقتدار اور اختیارات کی کرسی کی بھاگ دوڑ میں آگے ہے اور کوں سب سے پیچھے ؟
    سب اپنے مفادات کے ساتھ زندہ ہیں مگر یہ اپنے حساس دل کو لے کر کہاں جائے کیسے جیے؟
    نہ اس کی نگاہیں ملک کے معاشی بحران سے ہٹی ہیں اور نہ ہی بجلی پانی کی بندش سے پیدہ ہونے والے مسائل سے وہ بے خبر ہے۔ نوجوان طبقہ کے مسائل بھی اس کے اپنے مسائل ہیں، جنہیں وہ سمجھنا اور ان کا حل بھی چاہتا ہے، اس کی امیدیں بھی اسی طبقے سے زیادہ ہیں کیونکہ وہ ایک زندہ انسان ہے۔
    یہ ایک عام انسان کی باتیں ہیں جس نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ صرف مسائل کو دیکھنا سمجھنا اور اس کے لیے راہ نکالنا ہی ضروری نہیں بلکہ یہ احساس ہر اس انسان میں پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو صرف اپنے لیے نہیں اس معاشرے سے جڑے ہر فرد کے لیے سوچتا ہے۔
    زندگی گذارنے کا عمل بہت تھکا دینے والا ہے۔ کہاں انسان اپنی کامیابی کے لیے جدوجہد کرنا خواب سمجھتا ہے، وہاں ہر فرد کے خواب سنبھالنا کسی آزمائش سے کم نہیں۔ اس کی نظر ملک میں بڑھتے جرائم پر بھی ہے۔ اور دہشت گردی کے سبب گرتی معاشی اور معاشرتی زندگی کے مسائل پر بھی گہری نظر ہے۔ وہ رشتوں کے مابین بڑھتی خلیج کو ختم کرنے کا خواہاں ہے جس کا سبب بے راہروہ مذہب سے دوری اور الیکٹرانک ضروریات زندگی ہیں
    بد قسمتی سے ایسا انسان ہم میں سے ہوتا ہے، ارد گرد دکھائی دیتا ہے مگر ہم اس سے نظریں چراتے ہیں/ ہم میں حوصلہ نہیں کہ معاشرے کے اس بگاڑ کودرست کرنے کے لیے آواز بلند کریں۔ ایسے ہی انسانوں کے دم قدم سے معاشرے کی سانسیں چل رہی ہیں۔ معاشرہ زندہ ہے تو ہم زندہ ہیں. کوشش کریں کہ اپنے احساس آدمیت کو زندہ رکھیں تبھی معاشرے کے افکار و خیالات بدلے جا سکتے ہیں، ایک نئی زندگی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اسی لیے اپنے دل کی بات سنیں اور ڈھکے چھپے الفاظ میں بیان کریں تاکہ بات بھی پہنچ جائے اور اس کے اثرات بھی دوررس ہوں.
    خدارا دل کی بات سنیں، اسی میں زندگی ہے۔

  • نفس امارہ کی تباہ کاریاں اور ان کا تدارک – ابوعکاشہ ریشائیل

    نفس امارہ کی تباہ کاریاں اور ان کا تدارک – ابوعکاشہ ریشائیل

    قرآن حکیم نے تین طرح کے انسانی نفوس کا ذکر کیا ہے۔ نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ، ان تمام نفوس کا الگ الگ کردار انسان کے فکر و عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔ تاہم معاشرے کے سطحی مشاہدے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد ’’ نفس امارہ‘‘ کی اسیر ہوتی ہے۔ یہ نفس اتنا مؤثر اور قوی ہے کہ انسان اس کے پھیلائے ہوئے جال سے خود کو نکال ہی نہیں پاتا۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ خالق کائنات نے انسان کو زندگی بخشتے وقت اس کی ذات میں فسق و فجور یا نیکی اور بدی کے میلانات رکھ دیے ہیں، ارشاد ربانی ہے:
    ’’پھر اس کو بدکاری ( سے بچنے) اور پرہیز گاری کرنے کی سمجھ دے دی‘‘ (الشمس ۸) اسی سچائی کا اعتراف اللہ کے ایک جلیل القدر نبی یوسف علیہ السلام نے خود کو بدی کے ارتکاب سے بچنے کے بعد ان الفاظ میں کیا: ’’ اور میں اپنے آپ کو پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس (امارہ انسان کو) برائی سکھاتا ہے۔ مگر یہ کہ میرا اللہ رحم کرے‘‘( یوسف ۵۳)
    خالق ارض و سماوات نے نیکی اور بدی کے میلانات ودیعت کیے تو اس کو نیکی و پار سائی کا فہم اور برائیوں سے اجتناب کر نے کا شعور بھی عطا کر دیا، اسے سننے والا اور دیکھنے والا بنایا۔ ارشاد الہی ہوا: ’’ کان اور آنکھ اور دل، ان سب (جوارح) سے ضرور باز پرس ہوگی‘‘ ( بنی اسرائیل ۳۶) اور اسی غرض سے اللہ نے ارسال کتب اور انبیاء و رسل کی آمد کا ایک طویل سلسلہ جاری کر دیا، جو محمد الرسول اللہ ﷺ پر منتج ہوا۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ کی ہدایت کے اس سلسلے سے بہت قلیل تعداد نے فیض حاصل کیا، نفس امارہ کی خباثتوں نے نیکی اور پرہیز گاری کے رستے میں ہزار ہا رکاوٹیں حائل کر دیں۔ کیونکہ دنیا کی زیب و زینت میں جو اللہ نے ایک امتحان انسان کے لیے رکھا ہے اس میں پورا ترنے کے لیے بہت بڑے مجاہدے کی ضرورت ہے۔ سورۃ المک کی آیت ۰۲ میں اللہ تعالیٰ نے فرما یا: ’’ اسی (اللہ) نے موت و زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے‘‘۔ چنانچہ ہماری موت اور زندگی کے درمیان جو ہمیں مہلت عمل اللہ کی طرف سے دی گئی ہے اس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ ہمار ا خالق و ما لک ہماری آزمائش کر رہا ہے، ہمارا امتحان لے رہا ہے۔ انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات کے اعزاز سے نوازا ہے، لیکن انسا ن نے ہدایت الٰہی سے روگردانی کی روش اختیار کر کے خود کو اسفل السافلین کی دلدل میں گر ا دیا۔ قوم ِ نوح کی بت پرستی ہو، قوم شعیب کی ناپ تول میں بد دیانتی ہو یا قوم لوط کی ہم جنس پرستی جیسا گھنا ؤنا عمل ، یہ سب اسی نفس امارہ کے شجر خبیثہ کی شاخیں ہیں۔

    اسی نفس امارہ نے آج مسلمان معاشروں میں فحاشی و عریانیت کا ایک طوفان برپا کیا ہواہے۔گھر، خاندان، انفرادی و اجتماعی ماحول، خوشی اور غمی، عبادات و معاملات حتیٰ کہ ہمارے تعلیمی ادارے ہی کیوں نہ ہوں، ہر جگہ اور ہر سطح پر اللہ کی نافرمانیوں کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ وہ تعلیمی ادارے جہاں مخلوط ذریعہ تعلیم ہے وہاں حصول علم سے زیادہ عشق و محبت کی داستانیں رقم کی جا رہی ہیں۔ حد یہ ہے کہ ثانوی درجے کے طلبہ و طالبات میں بھی یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ جنسی تعلقات کی پردہ پوشی کی وہ باتیں جو پختگی کی عمر میں جا کر سمجھ میں آتی تھیں، وہ آج سیکنڈری جماعتوں میں ہی پوی طرح سے بچوں کے ذہنوں میں سما جاتی ہیں۔ اور نئی نسل کے اس فکری اور عملی بگاڑ میں ہمارے سیکولر و لبرل میڈیا کا بڑا کلیدی کردار ہے جس کی فنڈنگ وہ قومیں کر رہی ہیں جو اسلام دشمن بھی ہیں اور مسلمان معاشروں میں عریانیت اور فحاشی پھیلاکر ان کی نسلوں کو تباہ و برباد کرنا چاہتی ہیں۔ اہل حق میڈیا کی اس گمراہی اور فساد آدمیت کے شعوری عمل پر ہر پلیٹ فارم سے آوازیں اٹھاتے رہتے ہیں مگر ان کی حق وصداقت کی یہ آوازیں صدا بصحرا ثابت ہو رہی ہیں۔

    نفس امارہ کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ انسان کے اندر سے حیا کا وصف نکال دیتا ہے۔ اور حیا ہی وہ اہم صفت ہے جس کے خاتمے سے سب سے گہری ضرب انسان کے ایمان پر پڑتی ہے۔ رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ’’جب تم میں حیا نہ رہے تو پھر جو چاہو کرو‘‘. حیا ایک ایسا زیور انسانیت ہے کہ اس کی موجودگی انسان میں اخلاقی اور روحانی حس کو بیدار رکھتی ہے۔اسی لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان کے اندر حیا ہو اور ایمان نہ ہو اور ایمان ہو تو حیا نہ ہو، یہ ایک مؤمن کی پہچان ہے۔ حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے، یہ دونوں اوصاف یکجا ہوں گے تو ایمان مکمل ہوگا کیونکہ جزوی ایمان اللہ کے نزدیک معتبر نہیں ہے۔

    قرآن حکیم نے جن پچھلی اقوام کا ذکر کیا ہے ان میں سے ہر قوم میں کوئی ایک برائی پائی جاتی تھی، اس قوم کے رسول نے اپنی قوم کو ان کی نافرمانیوں اور اللہ سے سرکشی پر متنبہ کیا اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا مگر وہ نہ مانے اور اپنے گناہوں پر عمل پیرا رہے، چنانچہ ان پر اللہ کا عذاب آیا اور وہ نسیاً منسیاً کر دیےگئے، دنیا سے ناپید ہوگئے اور ان کے بلند و بالا اور پر شکوہ گھر کھنڈر بنا دیے گئے۔ آج ان کے کھنڈر لوگوں کے لیے عبرت کے نشان بنے ہوئے ہیں، اور ان کی یہ تباہی و بربادی محض ایک ایک گناہ کی پاداش میں عمل میں لائی گئی۔

    امت مسلمہ کا حال اب یہ ہے کہ پچھلی قوموں کی تمام برائیاں اور گناہ جمع ہوکر اس کے فکر و عمل میں سرایت کر گئے ہیں، بلکہ گذشتہ اقوام میں جو برائیاں نہیں تھیں وہ بھی آج مسلمانوں کے طرز عمل میں ظاہر ہو رہی ہیں۔ اور دیدہ دلیری کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنی ان برائیوں کو اپنا حق سمجھ کر کر رہے ہیں۔ فحاشی و عریانی کے جو انداز آج منظر عام پر آ رہے ہیں وہ تو ان قوموں میں بھی نہیں تھے۔ صنعت اور پیداوار کی ترقی کے لیے عورت کو بازاری جنس بنا دیا گیا ہے اور عورت بھی اس پر خوش ہے اور اسے کوئی برائی سمجھتی ہی نہیں۔ نیم عریاں لباس، رقص و سرود کی محفلوں میں شرکت وہ اپنی ذات کی کامیابی سمجھتی ہے۔ ہمارے قومی ادارے رشوت کی لپیٹ میں ہے اور اسے اپنا پیدائشی حق سمجھ رہے ہیں، اور اس پر انھیں کوئی شرمندگی نہیں۔

    اب سوال یہ ہے کہ ان برائیوں، خرافات، اخلاق باختگی اور دیگر گناہوں سے کیسے بچا جائے؟ تو اس کا ایک ہی حل ہے کہ ہر انسان اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرے، اب تک کیے ہوئے تمام گناہوں اور بد اعمالیوں کے لیے اللہ کے حضور سچی توبہ کی جائے۔ آئندہ گناہ نہ کر نے کا پکا عہد کیا جائے۔ ندامت اور شرمندگی کے گہرے احساس کے ساتھ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی جناب میں سجدہ ریز ہونا تمام گناہوں کو زائل کر دیتا ہے۔ اللہ نے اپنی رحمت کو اپنے غضب پر غالب کیا ہوا ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ انسان اپنی ذات پر کیے ہوئے اللہ کے احسانات پر غور کر ے، اللہ نے زندگی جیسی عظیم نعمت کے ساتھ اس کائنات کی ہر شے کو ہمارے لیے مسخر کر دیا ہے۔ یہ پوری کائنات اور اس کا ذرہ ذرہ ہمہ وقت ہماری خدمت میں لگا ہوا ہے۔ تو کیا ان احسانات کا بدلہ یہ ہے کہ ہم اپنی فکر کو انپے ہر عمل کو نفس امارہ کی ذلت آمیز کثافتوں میں غرق کر دیں۔ ہرگز ایسا نہیں ہے، اس لیے کہ خالق کائنات کا ارشاد ہے: ’’ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں‘‘ (الرحمٰن ۶۰)

  • دل کے بادل – افشاں فیصل شیوانی

    دل کے بادل – افشاں فیصل شیوانی

    پچھلے کچھ دنوں سے موسم بے حد خوشگوار ہے، ہر وقت بادل چھائے رہتے ہیں اور جب یہ بادل برس جائیں گے تو دھوپ کی کرنیں پھر سے زمین کے سینے کو روشن کرنے لگیں گی۔بادل کتنے ہی گہرے ہوں، سورج کی کرنیں انہیں چیرتی ہوئی زمین کو اجالا بخش ہی دیتی ہیں۔ یہ بادل دھوپ کو ختم نہیں کر سکتے مگر اس کی حدت کچھ دیر کے لیے کم ضرور کر دیتے ہیں۔

    ایسے ہی بادل کبھی کبھی انسان کے دل پر بھی چھا جاتے ہیں۔ غم کے، غصے کے، ناراضگی کے یا غلط فہمی کے، اور یہ بادل بھی ہمارے جذبات کی حدت کو کم کر دیتے ہیں۔ ہمارے دل میں موجود پیار، محبت اور امید کو چھپا دیتے ہیں۔ان بادلوں کو برس جانا چاہیے کیونکہ یہ بادل نہیں برسیں گے تو دل میں حبس پیدا کر دیں گے اور دل کو اس حبس سے گھٹن سے پاک کرنے کے لیے ان کا برسنا ضروری ہے۔ ایک بار جب یہ بادل کھل کر برس جائیں تو دل بالکل روشن ہو جائے گا۔

    اپنے اندر باتوں کو چھپا کر نہ رکھیں، دکھی ہیں تو کچھ دیر اکیلے بیٹھ کر رو لیں، کسی سے شکایت ہے تو اس سے جا کر بات کریں، کوئی ناراض ہو تو جا کر منا لیں اسے، آپس کی غلط فہمیوں کو مل بیٹھ کر دور کریں اور لوگوں کو معاف کر دیا کریں تاکہ دل پر جو اتنے سارے بوجھ لادے پھرتے ہیں وہ کم ہوں، دل پر چھائے کالے بادل گھٹ جائیں اور دل مکمل روشن ہو جائے۔ اگر ایسا نہ کیا تو یہ بادل مزید گہرے ہوتے جائیں گے اور اندھیرا اور حبس بڑھتا جائے گا اور یہ اندھیرا خوشیوں کی روشنی کو نگل لے گا تو ایسا مت ہونے دیں، اپنے دلوں کو وسیع کریں، خوشی کی دھوپ کو دل میں داخل ہونے دیں تاکہ ہمارے دل روشن رہیں۔ اللہ آپ کو خوش رکھے اور آپ دوسروں کی خوشی کا باعث بنیں۔

  • جی آپ ! جو تذبذب میں ہیں – فرح رضوان

    جی آپ ! جو تذبذب میں ہیں – فرح رضوان

    عقل پر پتھر پڑ جانا تو شاید پتھروں کے زمانے کا محاورہ ہوگا کیوں کہ آج کل تو ہماری عقلوں پر کھانا پڑا ہوا ہے. جی ہاں یہ کھانا کبھی دسترخوان پر چنا جاتا تھا، پھر ترقی کی منازل طے کرتا ہوا ٹیبل پر رکھا جانے لگا، ماڈرن ہوا تو گھر سے باہر ریسٹورانٹ کی زینت بنا اور جب سے الٹرا ماڈرن ہوا ہے تو ٹیلی ویژن پر آنا شروع ہو گیا ہے، اور صرف خواتین ہی نہیں بلکہ بچے اور حضرات سبھی window eating کے چسکے لینے لگے.

    چسکا بھی عجیب چیز ہے. جس چیز کا لگ جائے خواہ وہ زبان کو مختلف ذائقوں کا ہو یا نگاہوں کو مختلف ڈیجیٹل سکرین کا. سکرین بھی عجیب چیز ہے، دن بھر اے سی میں بیٹھ کر گھیراؤ جلاؤ دیکھتے رہیں، کبھی گھر میں آگ نہیں لگتی پر خدا لگتی بات یہ ہے کہ اس سے نکلنے والے لچر کلچر نے ہماری اقدار کو جلا کر را کھ کر دیا ہے اور بدبختی ہماری یہ رہی کہ اول تو برائی کو برا سمجھا ہی نہیں اور اگر سمجھا بھی تو محفوظ ہونے کے بجاۓ اسی سے محظوظ ہوتے رہے، یہاں تک کہ بدنصیبی گلے کا ہار بن گئی اور ضمیر و نفس کی جنگ تک ختم ہو گئی. نفس بھی عجیب شے ہے اسے دباؤ تو بہت برا مانتا ہے اور نہ دباؤ تو بہت ہی برا کر گزرتا ہے، جاگتی آنکھوں کو سبز باغ دکھاتا ہے. آنکھیں بھی عجیب ہیں، اپنی ہوں تو ان میں تنکا بھی شہتیر لگتا ہے، جہاں جھکنا چاہیے جھکتی نہیں، نگاہ بلند ہوتی نہیں، دیدہ وری جنم لے کر دیتی نہیں، بند ہونے سے قبل کھل کے دیتی نہیں، جبکہ دوربینی کا عالم یہ کہ اپنی ہی ناک کے نیچے دیکھنے پر دسترس نہیں لیکن دوسرے کے عیب، بخوبی دکھتے بھی ہیں نگاہ میں کھٹکتے بھی ہیں.

    دوربین سے یاد آیا کہ کچھ دن قبل نگاہوں نے دھوکہ دینا شروع کیا تو eye test کے لیے جانا پڑا، معاملہ ذرا گڑبڑ لگنے پر ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ ایک قطرہ فی آنکھ ڈال کر تفصیلی معائنہ کرنا چاہتے ہیں، جس کے پندرہ منٹ بعد تک پتلیاں ساکت رہیں گی، نگاہ کو تو کچھ نہ ہوگا لیکن کوئی بھی چیز ٹکرا جاۓ تو آنکھیں سن ہونے کی وجہ سے بے خبری میں بڑا نقصان ہو سکتا ہے، سو میں وہیں کلینک میں باہر کی ہوا اور گرد و غبار سے بچ کر بیٹھی رہی. شروع میں تو واہ سبحان اللہ کرتی رہی کہ کیا نعمت بنائی ہیں آنکھیں بھی رب العزت نے، پھر جب سائیڈ سین دیکھنے میں دقت ہوئی تو دھیان اس سمت گیا کہ کتنی ہی بڑی نعمت تو ان کا بنا کسی مشقت کے گھومتے رہنا بھی ہے، پھر خیال آیا کہ آنکھیں بنا اجازت بلا ضرورت بھی بہت گھومتی ہیں اور ہمیں پرواہ ہی نہیں ہوتی ان کی جوابدہی کی، ندامت ہوئی تو دل ہی دل میں توبہ کی، دل سے توبہ کی تو دھیان دل کی طرف چلا گیا اور یہ بات بڑی دیر تک دل کو دہلاتی رہی کہ جب موت آتی ہے تو دل ساکت ہو جاتا ہے، بالکل اسی حالت میں جس میں انسان مرتا ہے یعنی انسان اگر ناشکری، نافرمانی اور بدمستی کی حالت میں مرگیا تو جب بھی اٹھایا جائے گا،بندہ دل کی اسی کیفیت پر اٹھے گا جس پر موت واقع ہوئی تھی، اس لیے ہمیں اپنے دل کی حالت پر کنٹرول کرنے کی سخت ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان کی بہترین حالت میں اپنے پاس بلائے لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی… پندرہ منٹ؟ جی وہ تو کب کے ختم ہو گئے تھے، لیکن میرے اعصاب، آنکھوں کے ساتھ جو سن ہوئے تھے، وہ اس وقت ضمیر کی بپتا سن سن کر سن ہوئے جا رہے تھے … ماتم تھا یا فریاد، یہ اب تو نہیں یاد لیکن سوال کچھ یوں تھا کہ صرف ایک قطرہ آنکھوں میں پڑنے سے آپ کو خطرہ پڑ گیا کہ ساکت آنکھوں کو کوئی کنکر نقصان نہ پہنچا دے.

    اور دل؟ جس پر دن بھر میں عمر بھر میں جتنی بےشمار بےحساب، بےحیائی، بےایمانی کی برسات ہوتی رہی تو کیا اس کے بعد دل فریز نہیں ہوا ہوگا؟ ابھی ضمیر نے تمہید ہی باندھی تھی کہ عقل آ گئی اور ہنستے ہوئے بولی کہ بابو! دل فریز ہونے کے بعد تو بندہ مر جاتا ہے لیکن ابھی تو اپن زندہ ہے ناں! ضمیر نے بےساختہ جواب دیا کہ بےشک تو رہنا پاس میرے، پاسبان عقل لیکن ابھی ذرا مجھے تنہا ہی چھوڑ دے. یوں تخلیے کے اعلان کے بعد پھر سوالات کی بوچھاڑ کر ڈالی، یہاں تک کہ پھر کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگا کہ واقعی ہمارے دلوں کی حالت پرانی خستہ عمارتوں جیسی ہو گئی ہے، اور اب تک احساس صرف اس لیے نہ ہو سکا کہ دل ساکت و جامد تھا، کوئی آیت، حدیث یا واقعہ ہمیں جھنجھوڑ نہ سکا، سب کچھ سنا پڑھا، سرٹیفکیٹس حاصل کیے، حالات تازہ ترین بھی دیکھے، بدترین بھی، پچھلی اقوام کے بھی، تاریخ اور جغرافیہ تو کیا کہنے، سائنس اور قرآن کا تقابل بھی اشرافیہ نے کر لیا پر عقل کی کسوٹی کسی سوٹی سے ڈرنے والی بھی تو ہو، ہاں دل کے زخم رسنے شروع ہو گئے پر کوئی کھری سچائی بار بار hit کرنے کے باوجود بھی دماغ کو کلک کرنے سے قاصر ہی رہی ….کیوں؟ جواب ملا اور شکر ہے فورن ہی ملا کہ جب لوگ برائی کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں تو اللہ ان کے دل میں ٹیڑھ پیدا کر دیتا ہے، ایک قرین (شیطان) اس کے ساتھ ہو لیتا ہے جو اس کو ہر برائی آراستہ کر کے دکھاتا اور مطمئن کرتا رہتا ہے، اسی لیے آج کی سب سے بڑی برائی تو یہ ہے کہ ہم ہر برائی کو کرنے سے پہلےکمال ذہانت کے ساتھ ضمیر کو آرام سے اعتماد میں لے لیتے ہیں، کہ اس میں برا کیا ہے، بلا کے optimistic ہو گئے ہیں کہ دین کی سیدھی راہ پر چلنے کے لیے مزے سے ٹیڑھے رستے اپنا لیتے ہیں، برائی کے برے اثرات کو خوش فہمی کے mist میں چھپا لیتے ہیں، نفس شاباشی کے شادیانے اس قدر زور و شور سے بجا رہا ہوتا ہے کہ ضمیر کی آواز دب کر رہ جاتی ہے.

    نفس واقعی ہی عجیب ہی ہے، جانتا ہے کہ کل نفس ذائقتہ الموت، لیکن دنیا کے ہر ذائقے ہر لذت کو چکھنے کی ہوس کے ساتھ طفل تسلی دیتا رہتا ہے کہ ابھی بہت وقت باقی ہے، کبھی غفلت کا پردہ سرکے بھی تو سستی کا مارا اسے پھر برابر کر دیتا ہے ….. ابھی تنہائی میں یہی باتیں ہوئی تھیں کہ عقل بنا پوچھے ہی آگئی، لیکن اس بار اتنے احتساب کے بعد ٹھکانے لگ کر آئی تھی اور تازہ ترین واردات قلب کے باعث ایمان کے تابع نظر آرہی تھی … بولی کہ یوں کڑھتے رہنے سے کیا فائدہ؟ اگر احساس جاگا ہے تو پھر خود میں کوئی تبدیلی کرنی ہی پڑے گی، یوں لاحاصل سوچ کے تانے بانے اور بعد میں بہانے بنانے سے تو کچھ نہیں ہونا، چلو ایک چارٹ بناتے ہیں، اس کے کچھ حصّے کرتے ہیں اور اللہ کو حاضر و ناظر جان کر درست بات اور اپنے غلط رویوں پر نشان لگاتے ہیں، ایک کالم میں لکھیں کہ دین کیا سکھاتا ہے، اللہ کا حکم کیا ہے، معاشی اور معاشرتی حالات، آپ کی صلاحیت اس کی خیر و شر یعنی آج کے معاشرے میں اس کا درست یا غلط استعمال دین کا علم اور کٹھن موڑ پر اسی پر چلنا یا دین کو موڑ توڑ کر اپنی آخرت برباد کرنا… وغیرہ وغیرہ –
    بات سمجھ میں آئی اور ادھیڑ بن پھر شروع ہو گئی کہ جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے وہ تو اٹل ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے لیکن اپنے حصّے کے ہر دوسرے جواب میں ہر دوسرے نشان کے ساتھ دعا نکل رہی تھی … میرا دل بدل دے … خدایا فضل فرما دل بدل دے … میرا غفلت میں ڈوبا دل بدل دے … بدل دے، دل کی دنیا دل بدل دے

  • صاب لوگ کے پاس دل نہیں ہوتا – فیض اللہ خان

    صاب لوگ کے پاس دل نہیں ہوتا – فیض اللہ خان

    فیض اللہ خان صبح گھر سے دفتر کے لیے نکلنے لگا تو بائیک کو پنکچر پایا، گاڑی لی اور کام پہ پہنچ گیا. شام میں واپسی ہوئی تو یاد آیا کہ اسے ٹھیک کرانا ہے. موبائل چارجنگ پہ جمایا اور بائیک لے کر متعلقہ دکان کا رخ کیا. کراچی کے حالات بہتر ضرور ہیں لیکن اب ایسے بھی نہیں کہ اچھا موبائل و پیسے لے کر آپ سنسان جگہ پہ کھڑے رہیں. بر سبیل تذکرہ عرض ہے کہ آج ہی جمال عبداللہ بھائی نے یاد دلایا کہ گزشتہ برس اسی تاریخ کو میری بائیک موبائل ہیلمٹ پیسے اور پارسل شدہ کھانا ڈاکو برادران نے چھین لیے تھے جس کی برادر عبداللہ نے تعزیت بذریعہ پوسٹ کی، خیر میں بائیک لیے منتظر تھا کہ کب میری باری آتی ہے. ایسے میں ایک لمبا رکشہ آکر رکا، ویسے کراچی کی مسافر بسیں کب کیسے لمبے لمبے رکشوں میں تبدیل ہوئیں، یہ الگ کہانی ہے، ٹرام تا چنگچی کا یہ عبرت ناک سفر کسی دوسری نشست کے لیے اٹھا رکھتے ہیں.
    ہاں تو رکشہ اسٹارٹ ہی رہا اور اس سے مضبوط جسامت والا ڈرائیور ہاتھ میں سستا سا فون لیے برآمد ہوا اور پنکچر والے سے عاجزانہ انداز میں گویا ہوا کہ ایک ایمرجنسی پڑ گئی ہے، کال کرا دو، میرے فون کی بیٹری ختم ہوچکی ہے.
    پنکچر والے اور اس کے شاگرد نے سچا جھوٹا قصہ کرا کے فارغ کردیا ، اتنے میں وہیں ایک اور ٹھیلے والا آیا، رکشہ بردار نے اس سے بھی درخواست کی لیکن بات بنی نہیں، رکشہ چالو تھا، وہ پریشانی کی حالت میں قریبی دکان چلاگیا، دور سے دیکھتے ہوئے اندازہ ہوا کہ عرضی وہاں سے بھی مسترد ہوگئی تھی، شاید مختلف وارداتوں میں موبائل فون کے استعمال نے ہر ایک کو اس حوالے سے خاصا حساس بنادیا ہے
    مایوسی کی حالت میں رکشے والا واپس پلٹا اور جھجکتے ہوئے مجھ سے کہا صاب گھر بہت ضروری فون کرنا ہے ذرا مہربانی کرو
    میں نے کہا کہ پچھلی گلی تک لے چلو، فون گھر پہ ہے، اس نے مجھے لیا، گھر پہنچے، اس کی بات کرائی. پنکچر کی شاپ تک پہنچتے پہنچتے وہ چھتیس بار میرا شکریہ ادا کرچکا تھا. میں نے کہا کہ بھائی مجھے پہلے کیوں نہیں کہا. جواب ملا کہ صاف ستھرے دھلے دھلائے صاب لوگوں کا دل بڑا نہیں ہوتا، پھر مجھ سے پسینے کی بدبو بھی بہت زیادہ آرہی تھی. میں نے بے ساختہ قہقہہ لگایا اور کہا کہ ایسا نہیں کہ صاب لوگ دل کے اچھے ہوتے ہیں بس ذرا سا گھبراتے ہیں.
    الیاس نامی رکشے والا گویا ہوا ، صاب ہر دوسرے تیسرے روز کوئی نہ کوئی بابو ٹائپ بغیر کرائے کے سفر کرتا ہے اور میں یوں درگزر کرتا ہوں، کیونکہ پتہ ہے نوکری کی تلاش میں نکلا ہوگا ، مگر ایسی کسی صورتحال میں ہمت نہیں پڑتی کہ ان سے کچھ کہہ سکوں. اسی لیے اپنے جیسوں سے رابطہ کرتا ہوں لیکن آج تو یہ سارے بھی صاب بن گئے.
    بہرحال اسے جاتے جاتے یہ سمجھانے کی کوشش ضرور کی کہ یہ انکار مستقل نہیں بلکہ صرف حالات کا جبر ہے ورنہ جس طرح تم بغیر کرائے والے کا خیال کرتے ہو، صاب لوگ اس بھی زیادہ مستحق افراد کا درد بانٹتے ہیں، بس ہر ایک کا اپنا اپنا انداز ہے.

  • سکونِ دل پانے کا کارگر نسخہ – رضی الاسلام ندوی

    سکونِ دل پانے کا کارگر نسخہ – رضی الاسلام ندوی

    12301476_948835835187651_5870435481364179603_nموجودہ دور میں سماج میں چین و سکون عنقا ہے. ہر شخص بے چینی اور پریشانی میں مبتلا ہے. وہ اپنی موجودہ حالت پر قانع ہے نہ حاصل شدہ اللہ تعالٰی کی نعمتوں پر اس کے اندر شکر کاجذبہ پیدا ہوتا ہے.
    اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے اردگرد دیکھتا ہے تو اسے بہت سے انسان اس سے بہتر حالت میں نظر آتے ہیں. اس سے زیادہ مال دار، اس سے زیادہ آسائشوں والے، اس سے زیادہ صحت مند، اس سے زیادہ سماجی مرتبہ سے بہرہ ور، اس سے زیادہ جاہ و منصب کے حامل، غرض وہ بہت سے افراد کو اپنے سے زیادہ بہتر پوزیشن میں پاتا ہے. وہ سوچتا ہے کہ وہ ان کے برابر یا ان سے بہتر حالت میں کیوں نہیں ہے؟ چنانچہ وہ بھی اس دوڑ میں شامل ہو جاتا ہے. زیادہ سے زیادہ کمانے کی دھن اس پر سوار ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ وہ حلال و حرام سے بھی بے پروا ہو جاتا ہے. اقتدار اور طاقت حاصل کرنے کی تمنا اسے جوڑ توڑ پر آمادہ کرتی ہے اور وہ سب کچھ کر گزرتا ہے جو دینی اور اخلاقی اعتبار سے کسی طرح جائز نہیں ہے. پھر یا تو اسے کام یابی ملتی چلی جاتی ہے اور وہ اسی جد و جہد میں پوری زندگی گزار دیتا ہے، یا کام یاب نہیں ہو پاتا تو حسرت و یاس کی تصویر بنا ہوا زندگی کا ایک ایک دن کاٹتا ہے، یہاں تک کہ موت اس کی تمام امیدوں، آرزوؤں اور تمناؤں کا گلا گھونٹ دیتی ہے.
    اس بے سکونی کی زندگی سے نجات پانے اور طمانینتِ قلب حاصل کرنے کا ایک کام یاب نسخہ مجھے ایک حدیثِ نبوی میں ملا. میں نے اسے آزمایا تو اسے بہت کارگر پایا سو وہ پیش خدمت ہے. مذکورہ مرض کا شکار ہر شخص اپنے اوپر اسے آزما سکتا ہےامید ہے، اسے مکمل افاقہ ہو گا
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
    ” اذا نظر احدکم الی من ھو فُضّل علیہ فی المال و الخَلق فلینظر الی من ھو اسفل منہ” (بخاری، مسلم)
    “اگر تم میں سے کسی کی نظر ایسے شخص پر پڑے جو مال اور جسم کے معاملے میں اس سے بہتر حالت میں ہو تو اسے کسی ایسے شخص کو دیکھ لینا چاہیے جو ان معاملات میں اس سے فروتر ہو”
    یہ ایک بہت لطیف نفسیاتی تدبیر اور سکونِ دل حاصل کرنے کا سو فی صد کارگر نسخہ ہے.
    آدمی اپنے ارد گرد دیکھے تو اسے ہزاروں انسان ایسے نظر آئیں گے جو بہت سے معاملات میں اس سے فروتر ہوں گے، جو اس سے کم مال و دولت والے ہوں گے، جن کے پاس اس سے کم سہولیاتِ زندگی ہوں گی، جو اس سے کم سامانِ آسائش کے مالک ہوں گے، صحت و تن درستی کے معاملے میں بھی وہ اس سے بہت پیچھے ہوں گے. یہ دیکھ کر اس کا دل شکرِ الہی کے جذبات کے معمور ہوجائے گا. وہ سجدے میں گر پڑے گا کہ اللہ نے اسے ہزاروں انسانوں سے زیادہ نوازا ہے اور لاکھوں سے زیادہ خوش حال اور صحت مند بنایا ہے. اس کا سارا اضطراب دور ہوجائے گا، ساری کلفتیں کافور ہو جائیں گی اور اس کا دل مکمل طور پر پرسکون ہوجائے گا_