Tag: خیبر پختونخوا

  • سراج الحق:اقبال کا مردِ کوہستانی-ڈاکٹرحسین احمد پراچہ

    سراج الحق:اقبال کا مردِ کوہستانی-ڈاکٹرحسین احمد پراچہ

    Hussain

    سینیٹر سراج الحق نے اپنی کہانی اپنی زبانی بیان کی ہے۔ یہ دلچسپ داستان دردانگیز بھی ہے اور فکرانگیز بھی۔ ان کی داستان حیات پڑھتے ہوئے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے خودی، خودداری، خوئے دلنوازی، خوش خلقی، دلداری، فقیری میں شاہی اور شاہی میں فقیری اور راہبری و راہنمائی کا درس کلام اقبال سے لیا ہے۔ اقبال کی شاعری آفاقی بھی ہے اور ایمانی بھی۔ ان کے سارے اعجاز کلام کا مرکزی نکتہ مسلمانوں کو ان کے رخشندہ و تابندہ ماضی سے روشناس کرانا اور جوانوں کو مسلمانوں کا سنہری دور یاد دلا کر انہیں اس تابناک ورثے کی طرف بلانا ہے۔ اسی لئے تو علامہ فرماتے ہیں۔

    کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
    وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

    امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق سے ملاقات ہو تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ ایک کھرا اور سچا انسان ہے جسے تصنع اور بناوٹ چھو کربھی نہیں گزری۔ اس میں احساس کمتری ہے اورنہ ہی وہ احساس برتری کی بیماری میں مبتلا ہے۔ وہ زندگی کی تلخیوں کو یاد کر کے مسکراتا اور اپنی کامیابیوں پر کبھی نہیں اتراتا۔ سراج الحق نے صوبہ خیبرپختونخوا کے دور افتادہ پہاڑی ضلع دیر کے ایک گائوں میںابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس وقت ننھے منے سراج الحق کے پاس اسکول کتابیں لے جانے کے لئے بستہ نہیں تھا اور یہی سراج الحق 2002میں جب متحدہ مجلس عمل کی طرف سے اپنے صوبے کا وزیر مالیات بنا تو اس نے اپنی کیبنٹ اور اسمبلی سے پہلا حکم یہ پاس کروایا کہ اب اس صوبے کے پرائمری اسکول جانے والے ہر بچے کی کتابیں اور بستے صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت دے گی تاکہ آج کا کوئی سراج الحق بستہ نہ ہونے کی بنا پر افسردہ و غمزدہ نہ رہے۔ سراج الحق نے ایم ایم اے کے دور حکومت میں ایسی ہی عوام دوست پالیسیاں بنائیں۔ دوسری بار 2013ء میں تحریک انصاف کے ساتھ جماعت اسلامی کا اتحاد ہوا ایک بار پھر صوبائی وزیر مالیات کا قلمدان سراج الحق کے سپرد کیا گیا۔ ان کے دوست تو دوست ان کے سیاسی مخالفین بھی ان کی دیانت و امانت کی قسم کھاتے ہیں۔ ان کے دونوں ادوار حکومت اور اب جماعت کی امارت میں ہر وقت ان کے مداحوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ اس ہجوم کا سبب بھی پیر و مرشد علامہ اقبال بیان فرما گئے ہیں؎

    ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
    فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مرد خلیق

    سراج الحق پیر مغاں تو نہیں مگر مرد خلیق ضرور ہیں۔
    ان کی شخصیت کلام اقبال اور فکر مودودی کا دلنواز مجموعہ ہے۔ یہ غالباً اسی خوش خلقی اور دلنوازی کا کرشمہ تھا کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران جماعت اسلامی نے دو بڑے بھرپوراجتماع کئے۔ ایک اضاخیل نوشہرہ خیبرپختونخوا میں منعقد ہوا کہ جس میں جماعت اسلامی کی فکر سے متاثر ہونے والے کم از کم ڈیڑھ دو لاکھ افراد موجود تھے۔ اس اجتماع عام کی خاص بات یہ تھی کہ قدامت پسند اقدار کے حامل صوبے سے بھی ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے شرکت کی۔ جماعت اسلامی کا دوسرا اجتماع چند روز پہلے لاہور میں منعقد ہوا جس میں صرف جماعت اسلامی پنجاب کے مرد ارکان و کارکنان نے شرکت کی۔ یہ تعداد بھی بیس ہزار سے کیا کم ہوگی۔ جناب سراج الحق نے اخباری دنیا کو اجتماع کی کارروائی دیکھنے کی دعوت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ؎

    دیدہ کے بود مانند شنیدہ

    فی الواقع جماعت اسلامی کے اجتماعات نظم و ضبط اور باہمی ایثار کے اعتبار سے مثالی ہوتے ہیں۔میں لاہور کے اجتماع میں تھوڑی دیر کے لئے ہی جاسکا۔ جب میں پنڈال میں پہنچا تو سینیٹر سراج الحق ہی خطاب کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آپ ہمیں منتخب کریں گے تو پھر آپ کو گلیوں محلوں میں گیٹ لگانے، اپنے چوکیدار مقرر کرنے، ٹھیکری پہرہ دینے اور راتوں کو جاگنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ پھر آپ گہری پرسکون نیند سوئیں گے اور ہم پہرہ دیں گے۔ لوگ جماعت اسلامی کی بات غور سے سنتے ہیں اور ان کے پاکستان میں ستر سالہ ماضی کو دیکھ کر ان کی ہربات پر یقین بھی کرتے ہیں مگر انتخاب کے وقت انہیں ووٹ نہیں دیتے۔ عوام الناس سے پوچھیں کہ آپ سچے اور کھرے نمائندوں کو ووٹ کیوں نہیں دیتے تو ان کے جواب کا مفہوم بقول غالب یہ ہوتا ہے؎

    جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
    پر طبیعت ادھر نہیں آتی

    جماعت اسلامی کے زعماء سے پوچھیں کہ جماعت کو عوامی پذیرائی کیوں نہیں ملی تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دروازے عوام کے لئے کھلے ہیں۔ جماعت کے دروازے تو یقیناً کھلے ہوں گے مگر ان دروازوں پر اتنے ’’پہریدار‘‘ بیٹھے ہوتے ہیں کہ بیچارے عوام اندر آتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ شاید لوگوں کو جماعت کے کڑے تنظیمی مدارج سے ڈر لگتا ہے۔ جماعت اسلامی گہرے غور و فکر سے کام لے اور سوچے کہ ترکی، تیونس اور مصر وغیرہ میں اسلامی تحریکوں نے اپنے سیاسی چراغ فکر مودودی سے روشن کئے ہیں مگر جماعت اسلامی پاکستان کے سیاسی چراغ میں روشنی کیوں نہیں۔ جناب سراج الحق کی قیادت میں جماعت اپنی سیاسی و انتخابی تاریخ کا بنظر عمیق جائزہ لے کہ ہر معاملے میں حقیقت پسندی کے باوجود جماعت اسلامی 1970 سے لے کر 2013 تک انتخابی تخمینے میں خوش گمانی کا کیوں شکار ہو جاتی ہے۔ جماعت اسلامی کو جناب سراج الحق کی صورت میں ایک ایسی قیادت ملی ہے جس کے بارے میں اقبالؒ نے فرمایا تھا؎

    تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
    حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
    دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرمائے
    فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے

    احساس زیاں ایک بڑی دولت ہے اور سراج الحق اس لحاظ سے ایک بہت دولت مند شخص ہے۔ انہوں نے اپنی کہانی اپنی زبانی میں نہایت فراخدلی سے 2002 میں بننے والی متحدہ مجلس عمل کو بہت سراہا ہے۔ پھر نہ جانے کیوں جماعت نے ایم ایم اے سے کٹی کرلی۔ غالباً اب وہ وقت آگیا ہے کہ جب جماعت دوسرے ممالک میں کامیاب اسلامی تحریکوں کی طرح اپنے تنظیمی اور سیاسی شعبوں کو الگ الگ کرے اور عوام کے لئے حقیقی معنوں میں اپنے دل کے دروازے کھول دے۔ جماعت اسلامی انتخابی تخمینے میں خوش خیالی کے بجائے حقیقت پسندی سے کام لے۔ اگر متحدہ مجلس عمل کا ماڈل کامیاب تھا تو اس کے دوبارہ احیاء میں تردد کیوں؟ جماعت اسلامی کو نئی سیاسی و انتخابی کامیابیوں سے ہمکنار کرنے میں اقبال کا مرد کوہستانی سینیٹر سراج الحق کلیدی ہی نہیں انقلابی کردار ادا کرسکتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے برحق کہا تھا؎

    فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
    یا بندئہ صحرائی یا مردِ کوہستانی

  • آخری اٹھارہ ماہ ؟عمار چوہدری

    آخری اٹھارہ ماہ ؟عمار چوہدری

    emar

    میرے سامنے دو خبریں ہیں۔

    پہلی خبر وزیراعظم نواز شریف کے حوالے سے ہے جنہوں نے ملک بھر میں 39 جدیدترین ہسپتالوں کی تعمیرکی منظوری دے دی ہے۔ان انتالیس ہسپتالوں میں سے چھ ‘چھ سوبستروں کی گنجائش کے حامل تین ہسپتال اسلام آباد میںتعمیر کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں پانچ سو بستروں کے دس اور اڑھائی سو بستروں کے بیس ہسپتال قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے ۔ تمام ہسپتالوں کی تعمیرپر 110ارب روپے لاگت آئے گی۔وزیراعظم نے ملک بھر میں ہسپتالوں پرپیش رفت کی ذاتی طور پر نگرانی کا بھی عندیہ دیا۔یہ بھی کہا گیا کہ ہسپتالوں کی تعمیر کیلئے مقامات کو حتمی شکل دیتے ہوئے بلوچستان ‘اندرون سندھ‘ جنوبی پنجاب‘ خیبر پختونخوا ‘فاٹا ‘آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کا سروے کیا جائے اور غربت درجہ بندی‘دورافتادگی ‘بیماریوں کا بوجھ‘سرکاری اور نجی ہسپتالوں کی موجودگی‘ صحت عامہ کے ناقص اشاریوں کو ترجیح دی جائے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ان ہسپتالوں کی تمام تعمیرات آئندہ 18ماہ کے اندر مکمل کی جائیں گی۔

    اب دوسری خبر کی طرف آئیے۔

    خیبر پختونخوا حکومت نے میگا پراجیکٹ سوات موٹر وے کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے جس پر35 ارب روپے لاگت آئے گی۔وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے گزشتہ ہفتے سوات موٹروے کا افتتاح کیا۔ موٹروے صوابی میں کرنل شیر خان شہید انٹرچینج سے چکدرہ تک جائے گی۔اکیاسی کلومیٹر پر مشتمل اس موٹروے کا فاصلہ پینتالیس منٹ میں طے کیا جا سکے گا۔ روزانہ اٹھارہ ہزار گاڑیاں اس موٹروے کو استعمال کریں گی۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ایکٹ کے تحت اس منصوبے کا بھی اہم ترین نکتہ یہی ہے کہ یہ منصوبہ بھی 18 مہینوں میں مکمل ہو گا ۔

    ان دونوں خبروں میں جو چیز مشترک ہے‘ وہ آخری اٹھارہ ماہ ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ آخر وفاقی اور صوبائی حکومت کو یہ منصوبے شروع کرنے کا خیال اس وقت کیوں آیا جب آئندہ انتخابات میں صرف اٹھارہ ماہ باقی ہیں تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دونوں منصوبے عوام اور ملک دونوں کے لئے سود مند ہیں اور ان کا فائدہ بالآخر عوام کو ہی ہو گا۔ مسلم لیگ ن تو اگرچہ پنجاب میں اس طرح کے کئی ترقیاتی منصوبے شروع اور مکمل بھی کر چکی ہے لیکن خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ یہ بنیادی طور پر ایسے بڑے منصوبوں کے حق میں نہ تھی اور اسی لئے اس کے سربراہ عمران خان ہر دوسرے جلسے اور بیان میں میاں صاحبان کو موٹروے جیسے منصوبوں کے طعنے ضرور دیتے تھے۔

    اسی طرح میٹرو بسوں ‘ انڈرپاسوں وغیرہ پر بھی کڑی تنقید کی جاتی رہی اور کہا جاتا کہ ایسے بڑے منصوبے عوام کی فلاح کے لئے نہیں بلکہ اپنی جیبیں بھرنے کے لئے شروع کئے گئے۔ اب تین سال گزرنے کے بعد جبکہ الیکشن میں دھاندلی والا ایشو بھی دب چکا ہے‘ دھرنے کے ذریعے اقتدار میں آنے کی کوشش بھی ناکام ہو چکی ہے اور پاناما لیکس پر بھی حکمران جماعت کو ٹف ٹائم
    نہیں دیا جا سکا‘تحریک انصاف کے پاس میگا پراجیکٹس کے اعلانات اور ان کی تکمیل کاہی واحد راستہ بچا تھا ۔

    عمران خان نے گزشتہ روز فرمایا‘ امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھ رہا ہے۔ انہیں کوئی بتائے کہ یہ فرق صرف پنجاب یا سندھ میں نہیں خیبرپختونخوا میں بھی اتنا ہی بڑھ رہا ہے ۔خان صاحب کو معلوم ہے بقایا اٹھارہ ماہ میں ان کے پاس جادو کی کوئی ایسی چھڑی موجود نہیں جس کے ذریعے وہ پسے ہوئے عوام کو خوشحال کر سکیں؛ چنانچہ کڑوی گولی کھانے کے مصداق انہیں بھی موٹروے جیسے منصوبوں کا سہارا لینا پڑا جن پر وہ گزشتہ بیس برس سے تنقید بھی کرتے آ رہے ہیں اور سفر بھی۔ اگر وہ یہ کام پہلے کر دیتے تو سوات موٹر وے سے عوام اور خطے کو فوائد اب تک ملنا شروع ہو جاتے۔ موٹروے کی تکمیل کے بعد چالیس سے زائد مقامات کی اہم اور بڑی منڈیوں تک رسائی ممکن ہو جائے گی اور ان چالیس منڈیوں تک رسائی ہونے کا مطلب ہزاروں لاکھوں افراد کے معاش میں بہتری آنا ہے۔

    شکر ہے کہ آج تحریک انصاف کی حکومت کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ موٹروے کے کیا فوائد ہیں اور اگر انہوں نے اس طرح کے منصوبے مکمل نہ کئے تو کہیں آئندہ الیکشن میں عوام انہیں بالکل ہی فارغ نہ کر دیں۔ غربت‘ بے روزگاری اور مہنگائی کے حوالے سے دوسروں پر تنقید کرنا تو بہت آسان ہے لیکن عملی طور پر ان پر قابو پانا یا انہیں کم کرنا آسان نہیں۔ عمران خان جن امیدوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے تھے‘ لوگوں کو یقین تھا کہ وہ کچھ نہ کچھ ایسا کریں گے کہ ان کے دن بدل جائیں گے اور تبدیلی کے نعرے کو عملی سانچے میں ڈھال کر اپنے لئے آئندہ الیکشن میں کامیابی کا راستہ ہموار کر لیں گے۔ ایسا تو مگر نہ ہوا البتہ اسی جماعت کی نقالی شروع کر دی گئی جس پر تنقید کی جاتی رہی۔ اس حوالے سے حکمران جماعت نے بہت بڑا کارڈ کھیلا ہے۔

    وقت تو ان کے پاس بھی ڈیڑھ سال کا ہی بچا ہے لیکن وزیراعظم نے صحت جیسے اہم ایشو کو چنا ہے اور ساتھ ہی اسے کسی ایک صوبے تک بھی محدود نہیں رکھا۔ ہسپتالوں کے حوالے سے عمران خان کو زیادہ بہتر تجربہ حاصل تھا۔ وہ شوکت خانم کو کامیابی سے چلا بھی رہے ہیں‘ اپنے صوبے میں مگر وہ صحت کے شعبے میں ایسی کوئی انقلابی تبدیلی نہ لا سکے۔ وفاقی حکومت نے یہ سہرا اپنے سر باندھ لیا ہے۔ اگر واقعی ہر صوبے میں ایسے جدید ہسپتال بہترین سہولیات کے ساتھ وقت مقررہ میں مکمل کر دئیے گئے تو یہ منصوبہ جہاں عوام کو ریلیف پہنچائے گا وہاں حکمران جماعت کے ووٹ بینک میں زبردست اضافہ کرے گا۔ یہی کام خان صاحب کرتے تو انہیں بھی پذیرائی ملتی ‘ انہیںمگر ان کے دوستوں نے انہیں مخالفین پر تنقید کے نشتر برسانے اور جلسے جلوسوں میں مصروف رکھا۔ خان صاحب کو بھی احساس ہوگیا ہے کہ وقت بہت ضائع ہو چکا‘ اب کچھ کرنے میں ہی عافیت ہے۔

    میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں‘ دونوں حریفوں کی اس سیاسی جنگ میں بہرحال فائدہ عوام کو ہی پہنچے گا۔ ایسے کام اگر پہلے اٹھارہ ماہ میں کئے جاتے‘ تو یہ تنقید ان پر نہ ہوتی کہ اب الیکشن کے قریب عوام کا خیال کیوں آ گیا ہے۔ وزیراعظم کو دیکھنا ہو گا کہ ان کے اعلانات صرف اعلانات ہی نہ رہ جائیں‘ ہسپتالوں کا اتنا بڑا نیٹ ورک بنانا آسان نہیں ۔ موجودہ سرکاری ہسپتالوں کا احوال سب کے سامنے ہے۔ کرپشن ‘ٹھیکیدار اور ڈرگ مافیا سے انہیں کیسے نمٹنا ہے‘ اس کے لئے انہیں اسی جذبے سے کام کرنا ہو گا جس جذبے سے شہبازشریف میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے لئے کام کرتے ہیں۔

    محض چند تعمیراتی ڈھانچے اگر الیکشن سے قبل کھڑے کر بھی لئے گئے تو انہیں واقعتاً الیکشن سٹنٹ سے تعبیر کیا جائے گا۔ عمران خان کو بھی اپنے طرز سیاست پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ چاہے وہ تنقید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں لیکن عوامی فلاح کے ایسے منصوبوں میں صرف اس لئے مزید تاخیر نہ کریں کہ لوگ کہیں گے کہ وہ حکمران جماعت کی نقالی کر رہے ہیں۔سنا ہے کہ تحریک انصاف میں اس معاملے میں بھی دو دھڑے بن چکے ہیں۔ ایک دھڑا احتجاجی سیاست جبکہ دوسرا تعمیری سیاست پر مصر ہے۔عمران خان کو پہلے دھڑے سے خود کو بچانا ہو گا وگرنہ عوام ان کا اگلے انتخابات میں دھڑن تختہ کر دیں گے۔

  • تبدیلی بدگوئی سے آئے گی؟-عمار چوہدری

    تبدیلی بدگوئی سے آئے گی؟-عمار چوہدری

    emar

    بچوں کے اغوا کے پیچھے اگر کوئی منظم گروہ ملوث ہے تو وہ ابھی تک سامنے نہیں آ سکا۔ سوشل میڈیا نے البتہ سنسنی پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ غالباً تائیوان کی وہ ویڈیو ہے جس میں ایک بچے کا اغوادکھایا جاتا ہے۔ اسے پاکستان کے کسی علاقے سے منسوب کیا گیا ہے۔ تین چار بچے گلی میں کھیل رہے ہوتے ہیں کہ دو موٹرسائیکل سوار ایک بچے کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ دیگر بچے خوفزدہ ہو کر بھاگ اٹھتے ہیں۔ ویڈیو میں بچوں کی حفاظت کی تلقین کی گئی ہے۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اغوا کے واقعات نہیں ہو رہے۔ بہت سے لوگوں کو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ کئی لوگوں کو البتہ شبے میں مار مار کر ادھ موا کر دیا گیا۔

    ایک خاتون اپنے بچے کو اپنے پاس بلا رہی تھی‘ اسے بھی اغوا کار سمجھ لیا گیا۔ اسے اتنا مارا گیا کہ اس کا سر پھٹ گیا اور چہرہ خون سے بھر گیا۔ اغوا کاروں پر تو دہشت گردی کی دفعات لگنی چاہئیں لیکن ان والدین کا کیا کیا جائے جن کے رویے سے تنگ آ کر بچے گھر چھوڑ رہے ہیں۔ کئی ایسے واقعات کو اغوا کا نام دیا گیا۔ پولیس کو رپورٹ بھی اغوا کی درج کرائی گئی۔ بعد میں معلوم ہوا‘ بچہ ناراضگی کی وجہ سے نکلا اور خود ہی گھر آ گیا۔ المیہ یہ ہے کہ والدین دو انتہائوں کے اسیر ہو چکے۔ وہ بچوں کے ساتھ بہت زیادہ لاڈ پیار کرتے ہیں یا پھر اتنی زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کہ بچے کی شخصیت دب جاتی ہے‘ صلاحیتیں برباد ہو جاتی ہیں اور وہ کسی سے کلام کے قابل بھی نہیں رہ جاتا۔

    ویسے بھی ہر کسی کو ڈاکٹر یا انجینئر چاہیے۔نمبروں کی دوڑ نے بچوںکی جسمانی اور ذہنی تربیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ایسے ماحول میں وہی گھر جو سکون اور خوشیوں کا آنگن ہوتا ہے‘ بچہ اسے جیل سمجھنے لگتا ہے اور گھرسے فرار کے منصوبے بنانے لگتا ہے۔ کئی ایسے بچے جو گھروں سے غائب ہوئے‘ سکول جانے کیلئے نکلے اور کسی دوسرے شہر کے سفر کو نکل گئے۔ کئی بچوں نے مختلف بسوں اور ریل کی ٹکٹیں لے لیں اور دو تین روز سفر میں رہنے کے بعدخود ہی گھر واپس آ گئے۔اس دوران البتہ والدین اور عزیز و اقارب پر کیا بیتی ہو گی‘ یہ سوچ کر بھی خوف آتا ہے۔ ایسے والدین جو اپنے بچوں کے ساتھ بداخلاقی سے پیش آتے ہیں‘ انہیں قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

    صرف والدین ہی نہیں‘ سیاستدانوں‘ صحافیوں اور علما کو بھی اس بارے میں غوروفکر کی ضرورت ہے کہ یہ لوگ معاشرے کا عکس ہوتے ہیں‘ عوام انہیں فالو کرتے ہیں اور ان کا اثر لیتے ہیں۔کسی زمانے میں نوابزادہ نصراللہ جیسے نفیس‘معتدل اور بااخلاق سیاستدان ہوا کرتے تھے جن کی گفتگو اور جن کا اخلاق جانی دشمنوں کو دوست بنا دیتا تھا۔ نوابزادہ اس سیاسی عہد کی آخری نشانی تھے جس میں قائداعظم، گاندھی، نہرو اور ان کے بعد سینکڑوں معروف سیاستدانوں نے اپنا رنگ جمایا۔

    نوابزادہ صاحب گئے عہد کی دن بدن مدھم پڑتی ہوئی نشانی تھے۔ ہر قافلہ وقت کے دھندلکے میں کھو جاتا ہے۔ پیچھے گرد سفر رہ جاتی ہے اور کچھ وقت کے بعد اس کا بھی نشان نہیں ملتا۔ نوابزادہ جس قافلے کے رکن تھے، وہ جدید عہد میں اجنبی ہے۔ اس عہد کی تہذیبی روایات اور وضع داری باقی رہی نہ سخت سے سخت بات کو الفاظ کے محتاط اور نرم سانچے میں ڈھالنے کا فن ہمارے حصے میں آیا۔ نوابزادہ کا کمال یہ تھا کہ وہ ایک متروک تہذیب کے نمائندہ ہوتے ہوئے بھی جدید دور میں نمایاں اہمیت کے حامل رہے۔ شمع محفل کی اصطلاح جتنی ان پر صادق آتی تھی شاید ہی کسی اور کے حصے میں آئی۔ جنرل مشرف کے مارشل لا کے بعد انہوں نے پاکستان کی دو قطبی سیاست کے دونوں قطب اکٹھے کر دئیے، نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی ”ذاتی دشمنی‘‘ کو ختم کرا کے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ بھی اپنی سیاسی مخالفت کو اسی انداز میں باقی رکھیں جس طرح امریکہ اور برطانیہ کے دو جماعتی نظام میں رکھا جاتا ہے۔

    نوابزادہ کے سوا کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو تمام اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر سکے اوران کا یہ اعزاز آخر تک قائم رہا۔ وہ مردِ اختلاف ہی نہیں، مردِ اتحاد بھی تھے۔ آج مگردور یکسر بدل چکا۔ آج عمران خان جیسے بہت سے لیڈروں کے لئے مخالف کی کردار کشی اقتدار تک پہنچنے کی کنجی بن چکی۔ وزیراعظم نواز شریف قدرے مختلف ہیں۔ بینظیر بھٹو بھی سنجیدہ تھیں‘ آصف زرداری مگر الٹ نکلے۔ فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان انہیں ملک بدر کر گیا۔ شیخ رشیداور ڈاکٹر طاہرالقادری جیسے بھی یہاں موجود ہیں‘ جو آگ لگا دو‘ سب کچھ مٹا دو کے نعرے سے تقریر کا آغاز کرتے ہیں۔ عوام بھی ایسی مصالحہ دار تقاریر کے عادی ہو چکے۔ جو جتنا زیادہ منہ پھٹ ہو‘ الیکٹرانک میڈیا بھی اسے ہی زیادہ وقت دیتا ہے۔

    بدگوئی کا یہ سلسلہ معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ عمران خان صاحب کے پاس بھی سوائے تنقید کے کوئی ہتھیار باقی نہیں رہا‘ان کے اپنے صوبے کا حال یہ ہے کہ گزشتہ دنوں لکی مروت میں کنٹینر سکول منصوبے کا افتتاح ہوا تو ان کے غالباً ایف اے پاس صوبائی وزیر تعلیم ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر افتتاح کرنے گئے۔ کیا یہ کرپشن یا بدانتظامی نہ تھی؟صرف ڈیڑھ گھنٹے کا یہ زمینی راستہ تھا جس پر فضائی سفر اور سرکاری وسائل کے اندھے استعمال کو ترجیح دی گئی۔

    لوگ پوچھتے ہیںکیا یہی وہ تبدیلی تھی جس کا راگ الاپا جاتاتھا؟ کہاں دوسروں کو سادگی کے درس اور کہاں اپنے ایک وزیر کاہیلی کاپٹربے دریغ استعمال کرنا؟ میں نے نہیں سنا کہ خان صاحب نے عاطف خان کی سرزنش کی ہو۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا البتہ ٹویٹ آیا کہ ان کا کوئی وزیر ان کی اجازت کے بغیر سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال نہیں کر سکتا۔تو کیا اُوپر سے نیچے تک آوے کا آوا بگڑ چکا ہے؟ کیا فرماتے ہیں خان صاحب اس بارے میں؟ کیا ان کے وزیر احتساب سے بالا تر ہو چکے؟

    پرویز خٹک سادگی کا سوال تو گول کر ہی گئے‘یہ بھی نہیں بتایا کہ ہیلی کاپٹر لے جانا کیوں ضروری تھا۔ ان کے صوبائی دارالحکومت پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی سی ٹی سکین مشین کئی ہفتوں سے خراب ہے‘ لوگ باہر سے مہنگے ٹیسٹ کروا رہے ہیں۔ اس کا جواب وہ کیا دیں گے؟ کیا ان کی مرضی سے متبادل مشین یا مرمت کا انتظام نہیں کیا جا رہا؟ چلیں اسے چھوڑیں‘ کیا انہیں معلوم ہے‘ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈسٹرکٹ ٹیچنگ ہسپتال میں ٹارچوں کی روشنی میں مریضوں کی جراحی کی جا رہی۔ گزشتہ ایک ہفتے میں وہاں سرجنوں نے گیارہ آپریشن ٹارچ کی روشنی میں کیے۔ اگر ہسپتال میں بھی جنریٹرز دستیاب نہیں تو پھر صحت کے وسائل کہاں کھپائے جا رہے ہیں؟ کیا تبدیلی کی یہی وہ مثالیں ہیں جو ہمیں تین سال گزرنے کے بعد خیبرپختونخوا میں دیکھنے کو ملنا تھیں؟سارے کا سارا زور جس جماعت کا مخالفین کی کردار کشی پر رہا‘ وہاں کے حالات دیکھ کر کون اسے آئندہ ووٹ دے گا؟

    بدگوئی سے بچنا جتنا سیاستدانوں‘ صحافیوں اور علماء کے لئے ضروری ہے اتنا ہی والدین کے لئے۔اپنی زبان اگر انسان کے قابو میں نہ رہے تو اس کا جاہ و جلال‘ عہدہ و منصب کس کام کا؟ایسے لوگوں کیلئے قرآن میں ہلاکت کی وعید ہے۔”ہر طعنہ زن اور عیب جوئی کرنے والے کے لیے ہلاکت ہے‘‘(الھمزہ)۔ ایک حدیث میں ہے ۔”جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے‘‘( صحیح بخاری)۔ آپﷺنے فرمایا۔”جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرتا ہے تو اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی‘‘( صحیح بخاری) ۔آپ ﷺکا ارشاد ہے ”جو شخص اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (یعنی شرمگاہ) کا ضامن ہو تو اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں‘‘(صحیح بخاری)

    جن لوگوں کے نزدیک نظام میں تبدیلی بدگوئی سے آئے گی ‘ ان ارشادات کی روشنی میں وہ اپنا قبلہ درست کرنا پسند فرمائیں گے؟

  • شکایت ڈاٹ کام-جاوید چوہدری

    شکایت ڈاٹ کام-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    مجھے چند دن قبل ڈیرہ غازی خان کے کسی صاحب نے ای میل کی‘ ان کی دکھ بھری کہانی میں وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کے لیے بے شمار سبق ہیں چنانچہ میں یہ ای میل میاں شہباز شریف کے سامنے رکھ رہا ہوں‘ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو ایسی صورتحال کے تدارک کے لیے چند تجاویز بھی پیش کروں گا‘ میاں شہباز شریف اگر ذرا سی توجہ دے دیں تو ہزاروں لاکھوں مجبوروں کا بھلا ہو جائے گا‘ آپ پہلے یہ ای میل ملاحظہ کریں۔

    ’’میں ڈی جی خان کی بزنس فیملی سے تعلق رکھتا ہوں‘میں اپنی بیوی کو ڈیلیوری کے لیے ڈی جی خان کے سب سے بڑے اسپتال کئیر سینٹر لے گیا‘ رات ساڑھے نو بجے ڈیلیوری ہوئی‘ ڈاکٹروں نے بچے کو نرسری میں شفٹ کر دیا‘ ساڑھے بارہ بجے بتایا گیا بچے کے پھیپھڑے صحیح کام نہیں کر رہے‘ آپ اسے ملتان لے جائیں‘ میں بچے کو لے کر رات دو بجے سٹی اسپتال ملتان پہنچا ‘ انھوں نے بچے کو ایڈمٹ کرنے سے معذرت کر لی‘ میں ایک اور پرائیویٹ اسپتال میڈی کئیر پہنچا وہاں بھی سینئر ڈاکٹر نہ ہونے کا بہانہ کر کے بچے کو ایڈمٹ کرنے سے انکار کر دیاگیا‘ میں اب سرکاری اسپتال چلڈرن کمپلیکس ملتان پہنچا‘ انھوں نے بھی’’ہاوس فل ہے‘ آپ نشتراسپتال چلے جائیں یہاں ایک بھی بچہ ایڈمٹ کرنے کی گنجائش نہیں ‘‘ کاجواب دے کر مجھے جواب دے دیا‘ میں نشتر کی چلڈرن وارڈ کی ایمرجنسی پہنچا ‘ انھوں نے بچہ داخل کر کے کہا’’ مسئلے کا حل سرونٹا انجکشن ہے ‘یہ وزن کے حساب سے لگتا ہے۔

    آپ کے بچے کا وزن تین کلو ہے لہٰذا بچے کو تین انجکشن لگیں گے‘ فی انجکشن پندرہ ہزار روپے ہے‘‘۔میں انجکشن لینے چلا گیا‘ میں جب پینتالیس ہزار روپے کے تین انجکشن لے کر پہنچا تو ایک اور مصیبت سر پر آ گری‘ ڈاکٹر نے بتایا وینٹی لیٹر کے بغیر انجکشن نہیں لگ سکتا اور پنجاب کے تیسرے بڑے شہر کے ایشیا کے سب سے بڑے اسپتال میں وینٹی لیٹر نہیں تھا‘ میری جیب میں چالیس ہزار روپے تھے اور وینٹی لیٹر ڈھائی لاکھ روپے کا تھا‘ میں نے کرائے پر  وینٹی لیٹر لینے کی تجویز دی ‘ ڈاکٹر نے جواب دیا‘ بھائی صبح ساڑھے پانچ بجے کون اٹھ کر کرائے پر وینٹی لیٹر دے گا‘ وینٹی لیٹر میڈی کئیر میں ہے‘ آپ میڈی کئیر رابطہ کر کے انھیں یہ گارنٹی دے دیں اگر انجکشن لگنے کے دوران بچہ فوت ہو گیا تو ذمے داری آپ کی ہوگی تو وہ آپ کا بچہ ایڈمٹ کر لیں گے‘ میں نے میڈی کئیر رابطہ کیا ‘ انھوں نے جواب دیا‘ آپ آ جائیں‘ میں ایمبولینس لینے گیا تو اسپتال نے پیچھے سے بچے کو یہ کہہ کر نرسری میں شفٹ کر دیا ہم بچہ زیادہ دیر ایمرجنسی میں نہیں رکھ سکتے‘ نرسری میں اے سی تو دور پنکھے بھی اتنے اونچے تھے کہ ہوا نہیں آ رہی تھی۔

    میں جب ایمبولینس لے کراسپتال میں پہنچا تو بچہ قریب المرگ تھا‘ میری بہن اسے مصنوعی سانس دے رہی تھی‘ میں ایمبولینس سے آکسیجن کا سلنڈر نکال کے وارڈ میں پہنچا تو بچے کا انتقال ہو چکا تھا۔میںوزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں‘میں ایک صاحب ثروت بزنس مین ہوں‘ میں جیب میں ایک لاکھ روپے ڈال کرگھر سے نکلا لیکن میں اپنے بچے کی زندگی نہیں بچا سکا تو دس بیس ہزار روپے ماہانہ لینے والے ملازمین کے بچوں کا کیا ہوتا ہوگا؟

    میں مسلم لیگی ہوں لیکن میری ساری مسلم لیگیت اور میاں شہبازشریف کی ساری گڈ گورننس ڈھائی لاکھ روپے کے ایک سلنڈر نے نکال کے باہر کچرے میں پھینک دی ‘ میں میاں برادران سے پوچھنا چاہتا ہوں‘پچاس ارب روپے کی میٹرو کے شہر کے اسپتالوں میں ڈھائی لاکھ کے وینٹی لیٹر کیوں نہیں ہیں؟نہ جانے اب تک کتنے ننھے پھول مسلے جاچکے ہیں ‘ہمارے بچوں کو وینٹی لیٹر میسر نہیں ہیں ہم میاں صاحب کی میٹرو کا اچار ڈالیں گے؟خدارا میاں صاحبان سڑکیں نہیں اسپتال بنائیں‘ نجی اسپتال والوں کو ایمرجنسی کیسز لینے کا پابند بنائیں‘سرکاری اسپتال میں مفت ادویات اور اے سی کو یقینی بنائیں اور خدا را تحصیل نہیں تو ضلع کی سطح پر ایک معیاری اسپتال ضرور بنائیںورنہ آپ میرے جیسے بدنصیب لوگوں کی بددعاؤں کا شکار ہو جائیں گے‘‘۔

    یہ داستان ایک تلخ حقیقت ہے‘ پنجاب کے اسکولوں اور اسپتالوں کی حالت واقعی بہت خراب ہے‘ آپ جوں ہی میٹرو سے اتر کر پنجاب کے کسی اسپتال یا سرکاری اسکول میں داخل ہوتے ہیں تو گڈ گورننس دہلیز پر ہی دم توڑ دیتی ہے مگر آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں پنجاب کے اسکولوں اور اسپتالوں کی حالت دوسرے صوبوں سے کہیں بہتر ہے‘ عمران خان کے تبدیل شدہ صوبے میں دل کے امراض اور بچوں کا کوئی اسپتال نہیں چنانچہ دل کے تمام مریض اسلام آباد کے پمز یا پھر راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل ہوتے ہیں جب کہ بیمار بچوں کے والدین سیدھے لاہور پہنچتے ہیں‘ آپ لاہور کے چلڈرن اسپتال کا ریکارڈ دیکھ لیجیے‘ آپ کو وہاں نصف سے زائد بچے خیبر پختونخواہ کے ملیں گے۔

    بلوچستان کی صورتحال اس سے بھی دگر گوں ہے جب کہ سندھ کے اسپتالوں میں پانی اور بجلی تک موجود نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے ہم دوسرے صوبوں کی خراب کارکردگی کا کریڈٹ وزیراعلیٰ پنجاب کو نہیں دے سکتے‘ میاں شہباز شریف کو اسپتالوں اور اسکولوں کو بھی اتنی ہی توجہ دینی چاہیے جتنی توجہ یہ میٹرو اور اورنج ٹرین کو دے رہے ہیں‘ یہ پنجاب میں آٹھ سال سے حکمران ہیں‘ ان کی دوسری مدت اقتدار کے دو سال باقی ہیں‘ یہ دو سال بعد ملکی تاریخ میں دس سالہ وزارت اعلیٰ کا ریکارڈ قائم کر دیں گے لیکن اگر پنجاب کے اسپتال دس سال کی ریکارڈ مدت کے بعد بھی وینٹی لیٹر‘ آکسیجن‘ واش رومز‘ پانی‘ بجلی اور ایمرجنسی سے محروم رہتے ہیں تو پھر عوام کو میاں صاحب کے ریکارڈ کا کیا فائدہ ہوا؟ پنجاب کے لوگ میاں شہباز شریف کو کیوں یاد رکھیں؟ چنانچہ میری میاں شہباز شریف سے درخواست ہے آپ نے جتنی میٹروز بنانی تھیں آپ نے بنا لی ہیں‘ آپ اب اگلے دو سال اسپتالوں اور اسکولوں کے لیے وقف کر دیں‘ آپ اب پنجاب کے اسپتالوں اور اسکولوں کی حالت پر توجہ دیں۔

    آپ اس سلسلے میں چند کام کر سکتے ہیں‘ آپ ہر تحصیل میں ایک ایک ایمرجنسی اسپتال بنا دیں‘ یہ اسپتال صرف ایمرجنسی مریضوں کا علاج کریں‘ مریض جوں ہی ایمرجنسی سے نکلے‘ ڈاکٹر اسے عام اسپتال میں شفٹ کر دیں‘ ایمرجنسی اسپتالوں میں بجلی سے لے کر ادویات تک تمام طبی سہولتیں دستیاب ہوں‘ ڈاکٹرز بھی موجود ہوں اور دس دس ایمبولینسز بھی‘ آپ تمام پرائیویٹ اسپتالوں کو پابند کر دیں یہ ایمرجنسی کے شکار کسی مریض کو انکار نہیں کریں گے‘ یہ پہلے مریض کو داخل کریں گے اور پھر کاغذی کارروائی کریں گے اور جو اسپتال اس کی خلاف ورزی کرے اسے بھاری جرمانہ عائد کر دیا جائے‘ آپ اسپتالوں کو تین اقسام میں تقسیم کر دیں‘ ہر قسم کے لیے ’’ایس او پی‘‘ بنائیں‘ آپ صوبے کے تمام اسپتالوں کو دو برسوں میں ان ’’ایس او پیز‘‘ کے برابر لے آئیں‘ آپ ہر ڈویژن میں بین الاقوامی سطح کا ایک اسپتال بنا دیں۔

    اس اسپتال میں تمام شعبے موجود ہوں‘ اگر اس ڈویژن کا کوئی مریض علاج کے لیے دوسری ڈویژن جائے تو حکومت ڈویژنل ہیلتھ آفیسر کے خلاف کارروائی شروع کر دے‘ آپ تمام اضلاع میں انڈسٹریل سائیٹس کی طرز پر میڈیکل سائیٹس بھی بنا دیں‘ ضلع کا کوئی بھی مخیر شخص‘ کوئی بھی کاروباری خاندان اور کوئی بھی ڈاکٹر اس سائیٹ میں اسپتال یا کلینک بنانا چاہے تو حکومت اسے مفت زمین دے دے‘ یہ اسکیم مریضوں کا سفر کم کر دے گی‘ یہ علاج کے لیے پورے شہر میں خوار ہونے کے بجائے صرف ایک جگہ جائیں گے‘ حکومت بھی پورے شہر کے بجائے صرف ایک جگہ توجہ دے گی اور آخری مشورہ پنجاب 9 کروڑ لوگوں کا صوبہ ہے‘ یہ درست ہے حکومت ہر شخص اور ہر دفتر پر نظر نہیں رکھ سکتی لیکن آپ عوامی شکایات اور ان کے فوری تدارک کے لیے سسٹم تو بنا سکتے ہیں‘ پنجاب حکومت شکایت ڈاٹ کام کے نام سے ایک ویب سائیٹ بنائے۔

    صوبے کے تمام لوگ اس ویب سائیٹ پر اپنی شکایت درج کرا سکیں‘ لوگ اپنی شکایت تحریر بھی کر سکیں‘ آڈیو بھی ریکارڈ کرا سکیں اور وڈیو پیغام بھی دے سکیں‘ حکومت کے تمام ادارے ویب سائیٹ کے ساتھ منسلک ہوں‘ یہ ادارے فوری طور پر شکایت کا ازالہ کریں‘ اداروں کی طرف سے ازالے کی وڈیو بھی سائیٹ پر لگائی جائے اور شکایت کنندہ کے اطمینان کا پیغام بھی‘ یہ ویب سائیٹ عوام‘ سرکاری اداروں اور حکومت تینوں کو آپس میں جوڑ دے گی‘ میرا خیال ہے اگر عوام کی شکایات میاں شہباز شریف تک پہنچ جائیں تو بھی نوے فیصد مسئلے حل ہو جائیں گے اور سوشل میڈیا آج کے دور میں حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کا شاندار ذریعہ ہے۔

    یہ ذریعہ اگر موجود ہوتا تو آج ڈی جی خان کے اسپتالوں میں وینٹی لیٹرز پورے ہوتے اور بچے آکسیجن کی کمی سے نہ مر رہے ہوتے چنانچہ میرا مشورہ ہے وزیراعلیٰ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام سے رابطہ رکھیں اور روزانہ ہزاروں لوگوں کی دعائیں لیں ‘ عوام ہی وہ طاقت ہیں جو حکمرانوں کو حکمران بناتے ہیں‘یہ ہی حکمرانوں کو بچاتے ہیں‘ آپ اگر حکمران رہنا چاہتے ہیں تو عوام کو خوش رکھیں‘ عوام کی خوشی سے اللہ تعالیٰ خوش ہوگااور یہ حقیقت ہے جب اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کون کون آپ سے ناراض ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اور عوام آپ سے ناخوش ہیںتو آپ پوری دنیا کو خوش رکھ کر بھی حکمران نہیں رہ سکتے۔

  • شاباش خیبر پختون خواہ اسمبلی-انصار عباسی

    شاباش خیبر پختون خواہ اسمبلی-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    خیبر پختون خواہ اسمبلی کو خراج تحسین جس نے سود کے خاتمہ کے لیے قانون سازی کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں چاہے وہ تحریک انصاف ہو یا پیپلز پارٹی، ن لیگ ہو، قومی وطن پارٹی یا عوامی نیشنل پارٹی سب نے ایک ایسے مسودہ قانون کی مکمل حمایت کی جس کا مقصدصوبہ بھر میں سود کے کاروبار کوخلاف قانون قرار دینا اور اس میں ملوث افراد اور نجی کمپنیوں کو دس سال تک سزا دینے کی تجویز ہے۔ خبر کے مطابق گزشتہ ہفتہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن فخر اعظم، قومی وطن پارٹی کے سلطان محمد خان اور تحریک انصاف کے محمود جان نے اس سلسلے میں ایک مسودہ قانون خیبر پختون خواہ اسمبلی میں پیش کیا جس کی اسمبلی میں موجود تمام اراکین نے حمایت کی۔

    اس مسودہ قانون کو فوری پاس ہو جانا تھا لیکن فیصلہ یہ ہوا کہ مشاورت کے بعد مسودہ میں مزید بہتری لائی جائے اور دوبارہ اسمبلی میں پیش کر کے قانون سازی کی جائے۔ اسمبلی میں موجود حکومت اور اپوزیشن کے تمام رہنمائوں نے سودی کاروبار کے خاتمہ کے لیے اس کوشش کو سراہا اور اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ خبر کے مطابق اسپیکر پختون خواہ اسمبلی اسد قیصر نے اراکین کو بتایا کہ انہیں کئی افراد
    نے شکایت کی کہ کس طرح سودی کاروبار میں شامل افراد اور نجی کمپنیاں لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔

    اسد قیصر کے مطابق سودی کاروبار میں استحصال کی یہ حالت ہے کہ انہیں ایک شخص ملا جس نے شکایت کی اُس نے ایک فرد سے چار لاکھ روپیہ قرضہ لیا لیکن واپس چوبیس لاکھ روپیہ کرنا پڑے۔ یعنی چار لاکھ کے قرض پر اُس شخص کو بیس لاکھ روپیہ سود ادا کرنا پڑا۔ ایک اور شخص نے شکایت کی کہ اُسے سود پر آٹھ لاکھ کی گاڑی پچاس لاکھ میں فروخت کی گئی۔

    خیبر پختون خواہ اسمبلی نے اسی سیشن کے دوران ایک قرارداد بھی متفقہ طور پر پیش کی جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ قانون سازی کے ذریعے سودی کاروبار کو پاکستان بھر میں خلاف قانون قرار دیا جائے۔ سود کے خاتمہ کے لیے اگرچہ وفاقی حکومت کا کردار قلیدی نوعیت کا ہو گا لیکن خیبر پختون خواہ اسمبلی جو کرنے جا رہی ہے وہ نہ صرف ایک حوصلہ افزا اقدام ہے بلکہ دوسروں کے لیے قابل تقلید بھی۔ ہو سکتا ہے خیبر پختون خواہ اسمبلی کو دیکھ کر ہی دوسرے صوبے اور مرکز کو بھی احساس ہو جائے کہ سودی کاروبار کرنے والوں کے چنگل سے کس طرح انگنت شہریوں کو بچایا جائے۔

    سود کی لعنت کا مسئلہ کسی ایک صوبہ کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا ہے۔ اس لعنت نے کئی افرادکی جانیں تک لے لیں، خاندان کے خاندان اجڑ گئے، اچھے خاصے کھاتے پیتے افراد کو سود نے گھر سے بے گھر اور مانگنے پر مجبور کر دیا۔ سود کے بھنور میں پھنسے مجبور افراد مختلف قسم کی معاشرتی برائیوں کے علاوہ جرائم تک میں بھی ملوث ہو جاتے ہیں۔ سود کے خاتمہ کے لیے جو کام ایک صوبائی اسمبلی کرنے جا رہی ہے وہ پارلیمنٹ یعنی قومی اسمبلی اور سینٹ کو بہت پہلے کر دینا چاہیے تھاکیوں کہ جو آئین سود کے خاتمہ کی بات کرتا ہے وہ آئین اسی پارلیمنٹ کا بنایا ہوا ہے۔

    اگر ایک صوبائی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن پارٹیاں اس بارے میں اتفاق کر سکتی ہیں تو یہی اتفاق وفاق اور دوسرے صوبوں اور متعلقہ اسمبلیوں میں ممکن کیوں نہیں ہو سکتا۔ میری رائے میں نجی طور پر سودی کاروبار کرنے والے افراد اور کمپنیوں کے ساتھ ساتھ سرکاری اور نجی بنکوں کو بھی سود سے پاک بنکاری کرنے کے بارے میں قانون سازی کی جائے۔ اس سلسلے میں خیبر پختون خواہ اسمبلی کے پاس سنہری موقعہ ہے کہ وہ سود کے خاتمہ سے متعلق مجوزہ قانون سازی میں خیبر بنک کو بھی شامل کر دے۔ کوئی صوبہ وفاقی قانون کے مطابق چلنے والے بنکوں کے بارے میں تو فیصلہ نہیں کر سکتا لیکن صوبہ کے ماتحت چلنے والے بنکوں کے ضابطہ کار اور پالیسی کو بنانے اور اُسے تبدیل کرنے کا حق اُسے حاصل ہے۔ اگر پاکستان کے ایک صوبہ کو سود سے پاک کر دیا جائے تو یہ عمل اُسے دوسرے صوبوں اور علاقوں کے مقابلہ میں نکھار دے گا۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ صوبہ خیبر پختون خواہ اسمبلی کو اس کوشش میں کامیاب کرے اور دوسروں کو بھی اپنی اپنی حدود میں سود کے خاتمہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

  • انٹر ڈسٹرکٹ سرکولر ریلوے پراجیکٹ، خیبرپختونخوا کے عوام سے ایک ظالمانہ مذاق – محمد اشفاق

    انٹر ڈسٹرکٹ سرکولر ریلوے پراجیکٹ، خیبرپختونخوا کے عوام سے ایک ظالمانہ مذاق – محمد اشفاق

    محمد اشفاق خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھیجی گئی 3 اگست کی رپورٹ کے مطابق کے پی کے حکومت نے پشاور، نوشہرہ، چارسدہ اور مردان کے درمیان 220 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی سرکولر ٹرین پراجیکٹ کے لیے چائنا کمیونیکیشن کنسٹرکشن کمپنی کے ساتھ 1.6 ارب ڈالر مالیت کی مفاہمت کی ایک یادداشت پہ دستخط کیے ہیں. مزید تفصیلات بھی پریس ریلیز میں موجود ہیں مگر ٹھہریے ذرا یہیں رک جائیے.

    کس کمپنی کے ساتھ، چائنا کمیونیکیشن کنسٹرکشن کمپنی یعنی CCCC کے ساتھ. برسبیلِ تذکرہ یہ وہی کمپنی ہے جسے ورلڈ بنک 2009ء میں فلپائن کے روڈز کنسٹرکشن کے ایک میگا پراجیکٹ میں (جسے ورلڈبنک فنانس کر رہا تھا) بےایمانی اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت ڈی بار کر چکا ہے. اب 2017ء تک یہ کمپنی ورلڈبنک کے فنانس کیے گئے کسی پراجیکٹ میں شریک نہیں ہوسکتی. چائنیز حکومت کی کوششوں سے 2011ء میں اس فیصلے کا دوبارہ سے جائزہ لے کر بھی ورلڈبنک نے اسے درست قرار دیا.

    اب جناب عمران خان صاحب اور ان کی ٹیم سے پہلا سوال یہ ہے کہ 1.6 ارب ڈالر کا میگا پراجیکٹ سائن کرنے سے پہلے کیا انھوں نے کمپنی کی ساکھ اور عمومی شہرت کے بارے میں ذرا سی تحقیق کی زحمت بھی نہیں کی؟ جو معلومات اس عاجز کو پانچ منٹ گوگل سرچ کر کے مل گئیں، وہ ان کی لائق فائق انتظامیہ کو کیوں نہ مل سکیں؟

    اب کچھ اور آگے بڑھیے، پریس ریلیز میں مہیا کردہ اطلاعات کے مطابق اس منصوبے کی فیزیبلٹی رپورٹ، مجوزہ روٹ اور دیگر تکنیکی معاملات پہ اب یہ کمپنی کام شروع کرے گی. پراجیکٹ کی فنانسنگ کا باقاعدہ معاہدہ اس کے بعد ہوگا.
    دوسرا سوال یہ ہے کہ حضورِ والا جب فزیبلٹی رپورٹ بنی ہے نہ روٹ طے ہوا ہے تو تخمینہ لاگت کیسے نکل آیا؟ آپ نے پوچھا کہ ٹرین چلانی ہے، خرچہ کتنا ہوگا؟ انہوں نے کہا جناب وہی جو اورنج لائن پہ پنجاب کا ہو رہا ہے؟ اب یہاں لامحالہ اورنج لائن میٹرو کا ذکر ہوگا، تو عرض کرتا چلوں کہ اس کی فزیبلٹی جانے کب کی بن چکی تھی بلکہ پراجیکٹ کے آغاز سے دو سال قبل دوبارہ کروائی گئی تھی. اس لیے اس کی لاگت کا تخمینہ کرنا بہت آسان تھا، جبکہ یہاں محض تھُوک میں پکوڑے تلنے پہ اکتفا کیا گیا ہے.

    ہمیں مژدہ یہ سنایا گیا ہے کہ اس سے چاروں مذکورہ بالا اضلاع کے شہریوں کو سفر کی بہتر سہولیات فراہم ہوں گی بلکہ اس کو صوابی تک بڑھانے کا آپشن بھی موجود ہے، نیز اسی کے تحت پشاور تا اسلام آباد بھی ایک تیزرفتار سروس چلائی جائے گی.
    تیسرا سوال یہاں یہ بنتا ہے کہ پشاور تا اسلام آباد موجودہ ٹریکس پہ تو ٹرین کی زیادہ سے زیادہ رفتار پچاسی سے ایک سو پانچ کلومیٹر ہوتی ہے، نیز وہ ٹریک پاکستان ریلوے کی ملکیت ہے جو آپ کے اس منصوبے میں شریک ہی نہیں، تو اب آپ کیا پشاور تا اسلام آباد 220 کلومیٹر کی رفتار سے ٹرین چلانے کے لیے نیا ٹریک بچھائیں گے؟ لگ بھگ ڈیڑھ سو کلومیٹر پہ لگ بھگ چالیس فٹ چوڑائی کے حساب سے دو کروڑ سکوائر فٹ سے زیادہ اراضی درکار ہوگی، اس کی قیمت کا تخمینہ قارئین خود لگاتے رہیں.

    اب معاملہ یہ ہے کہ آپ پشاور صدر سے بائسیکل پہ سوار ہو کر نوشہرہ کو نکلیں تو بھی ایک گھنٹے میں اپنی منزل پہ پہنچ سکتے ہیں. پشاور سے آپ ایک گھنٹے سے بھی کم میں چارسدہ پہنچ سکتے ہیں اگر براستہ نوشہرہ نہ جائیں تو، اور اگر نوشہرہ سے چارسدہ جائیں تو بھی اٹھائیس کلومیٹر کا فاصلہ اتنے ہی وقت میں طے ہوگا. چارسدہ سے مردان بھی محض چالیس کلومیٹر کی دوری پہ واقع ہے. ان سب راستوں پہ ہزاروں پبلک و پرائیویٹ گاڑیاں ہمہ وقت رواں دواں رہتی ہیں، سڑک بہترین ہے اور وقتا فوقتا مرمت ہوتی رہتی ہے. اگر آپ نے پشاور سے براہ راست مردان جانا ہو تو موٹروے کی بدولت یہ فاصلہ بھی محض ساٹھ منٹ کا رہ گیا ہے. اس سے زیادہ وقت آپ کو کارخانو مارکیٹ سے بالاحصار چوک تک پہنچنے میں لگ جاتا ہے. کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا واقعی اس روٹ پہ 1.6 ارب ڈالر سے ٹرین چلانے کی ضرورت ہے؟ یہ چوتھا سوال ہے.

    پانچواں سوال یہ ہے کہ میٹرو اور اورنج لائن پہ ہم جیسوں کا سب سے بڑا اعتراض جس میں تحریکِ انصاف والے ہمارے ہمنوا تھے، یہی تھا کہ اتنی خطیر رقم اگر تعلیم اور صحت پہ خرچ کی جاتی تو پنجاب کی کایا پلٹ سکتی تھی، تو کیا خیبرپختونخوا میں سو فی صد شرح خواندگی اور سو فی صد آبادی کو طبی سہولیات کی فراہمی کا ہدف حاصل کر لیا گیا ہے جو آپ اربوں ڈالر سے بلٹ ٹرین چلانے چلے ہیں؟

    اب کچھ دوست کہیں گے کہ جناب اورنج لائن تو صرف ایک شہر میں چلائی گئی ہے جبکہ ہماری سرکولر ریلوے چار اضلاع کو ملائے گی، تو عرض یہ ہے کہ پشاور اور مردان کے اندر ٹریفک کا مسئلہ جتنا گھمبیر ہے، ان دونوں شہروں کے درمیان اس کا عشرعشیر بھی نہیں. آپ ایک جنگلا بس پشاور میں چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو دوسری مردان چلا لیتے. یہ چاروں اضلاع تو پہلے بھی ایسے باہم ملے ہوئے ہیں کہ ایسے کسی منصوبےکی ضرورت ہی نہیں تھی. پشاور سے نوشہرہ، نوشہرہ سے چارسدہ اور چارسدہ سے مردان کل فاصلہ 107 کلومیٹر بنتا ہے. آپ کو پشاور سے مردان ڈائریکٹ روٹ بھی دستیاب ہے، پشاور سے چارسدہ بھی، اور پشاور سے نوشہرہ بھی، گویا ٹرین چلے یا نا چلے عوام کو قطعی کوئی فرق نہیں پڑتا.

    کہاں کے عوام کو فرق پڑتا ہے، اب یہ بھی سنتے چلیے. ہری پور سے بالاکوٹ کا فاصلہ 102 کلومیٹر، اپروچ صرف ایک روٹ سے ممکن، سیاحتی علاقہ، شاہراہ قراقرم کا حصہ اور انتہائی گنجان آباد ہونے کے سبب واحد ہائی وے پر بے تحاشا رش، ہری پور سے ایبٹ آباد کے انتالیس منٹ رش آورز میں گھنٹوں پہ محیط ہوجاتے ہیں، اسی طرح ایبٹ آباد سے مانسہرہ رش کے اوقات میں جانا کتنی بڑی دردسری ہے یہ بھی وہاں جو ایک بار بھی گیا ہو اسے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے. سیاحت کے سیزن میں وہاں کے حالات ہم اسی عید پہ ایک بار پھر دیکھ آئے ہیں

    آپ کہیں گے کہ سیاست کے سینے میں دل کہاں. یہ بھی بجا فرمایا حضور، مگر آئیے کوشش کرتے ہیں یہ دیکھنے کی کہ بطور ایک سیاسی منصوبے کے بھی اس کے خان صاحب اور ان کی جماعت کو کیا فوائد حاصل ہو سکتے تھے.
    ایک یہ کہ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ آبادی کے ہزارہ ڈویژن میں کے پی کے حکومت کے خلاف کئی تحفظات پائے جاتے ہیں، علیحدہ صوبے کےلیے صوبائی اسمبلی کی قرارداد بھی موجود ہے. یہاں ووٹ بھی نون لیگ اچھے خاصے کھینچ کے لے جاتی ہے اور تین سال میں ایسا لگ رہا تھا کہ اگلے الیکشن میں ہزارہ ڈویژن خان صاحب کی جماعت کے ہاتھوں سے مکمل نکل سکتا ہے. خان صاحب کی جانب سے اس ایک منصوبے کا اعلان ہوا کا رخ ان کے حق میں بدل سکتا تھا. یہ وہ منصوبہ ہوتا جو نون لیگ ہزارہ کے عوام کو دینے میں ناکام رہی. جبکہ یہ ان کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ انھیں ایک متبادل راستہ بھی دیا جائے.
    دوم یہ کہ ہری پور سے بالاکوٹ تک چلنے والی ٹرین سے سیاحت کو بے پناہ فروغ حاصل ہوتا اور منصوبے کی لاگت بہت کم وقت میں وصول ہو جاتی.
    تیسرا یہ کہ جنگلوں، ندیوں، آبشاروں اور دریاؤں سے گزرتی یہ ٹرین بجائے خود بہت بڑی ٹورسٹ اٹریکشن ثابت ہوتی اور دنیا کے خوبصورت ترین ریلوے ٹریکس میں اس کا شمار ہوتا. یہاں جو اصحاب یہ سوچ رہے ہیں کہ اس علاقے میں ریلوے ٹریک بچھانا ناممکن یا بہت زیادہ دشوار ہے یا منصوبے کی لاگت کئی گنا بڑھ جاتی، ان سے عرض ہے کہ حضور! عمر گزری ہے انھی پہاڑوں کی سیاحی میں. آپ خٹک صاحب کے مشیرِ خصوصی برائے ٹرانسپورٹ جنہوں نے اس یادداشت پہ دستخط فرمائے ہیں، کو میرے ساتھ بھیج دیجیے، یہ عاجز ہری پور سے مانسہرہ تک انھیں خود ایسے روٹ کی نشان دہی کروا سکتا ہے جہاں ٹریک بچھانا ایسا ہی ہے جیسا پوٹھوہار ریجن میں.
    چوتھا, آخری اور سب سے بڑا فائدہ پتہ ہے کیا تھا؟ چھوٹے میاں صاحب نے کمال چالاکی و مہارت سے اورنج لائن کو زبردستی سی پیک منصوبے میں شامل کروا دیا جبکہ اس کی وہاں کوئی جگہ ہی نہیں بنتی تھی، جبکہ شاہراہ ریشم پہ، یعنی کہ سی پیک کے مرکزی روٹ پہ واقع اس منصوبے پہ تو چینی خود اش اش کر اٹھتے، کیونکہ سی پیک منصوبے پہ ایک بڑا اور وزنی اعتراض یہ بھی ہے کہ ریلوے ٹریکس روڈز کی نسبت زیادہ سستے اور کارآمد ثابت ہوتے ہیں، ایسے میں یہ منصوبہ اگر ایک دو ارب ڈالر مزید بڑھا کر کے پی کے حکومت چلاس تک لے جاتی تو چینی اسے فنانس کر کے نہ صرف دعائیں دیتے عمران خان کو، بلکہ ریکارڈ وقت میں اسے مکمل کروا کر بھی دکھاتے. اس ایک منصوبے سے خیبرپختونخوا کی کایا پلٹ جاتی. ملکی سطح پہ بھی خان صاحب کی دوراندیشی، وژن اور تدبر کی دھاک بیٹھ جاتی، ایک ہاتھ سے پھسلتا ہوا ڈویژن ان کی جھولی میں آ گرتا اور چونکہ ہزارہ میں سب سے زیادہ سیاح پنجاب سے آتے ہیں تو اہلِ پنجاب اس منصوبے پہ رشک کرتے اور اگلے الیکشن میں یقینا خان صاحب سے بہتر سلوک کرتے، مگر ظاہر ہے کہ جو خوبیاں ان میں سرے سے ناپید ہیں، ان کی دھاک بھلا کیونکر بیٹھے.

    آخری تجزیے میں یہ بیکار، پھسپھسا اور احمقانہ فیصلہ صرف الیکشنز اور اس سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے کہ عوام محض نمائشی اقدامات پہ ووٹ دیتے ہیں. گزشتہ الیکشن کے بعد جس صوبے کے عوام کو پنجاب کے مقابلے میں زیادہ سمجھدار اور بالغ نظر قرار دیا گیا تھا، گویا اب انھی کو بیوقوف سمجھنے کی غلطی کی جا رہی ہے.
    گویا تحریکِ انصاف نے مسلم لیگ نون کی حکمت عملی کو اپنا لیا.
    گویا شہباز شریف اور عمران خان کے وژن میں بال برابر فرق بھی نہ رہا.
    گویا اب بھوکے ننگے عوام کو دو بڑے صوبوں میں ٹرین کے جھولے دے کر بہلایا جاتا رہے گا.
    چھٹا، آخری اور بہت گھسا پٹا سوال خان صاحب سے یہ کہ جناب وہ تبدیلی کیا ہوئی جس کا آپ وعدہ کیا کرتے تھے؟

    ہر گزرتے دن کے ساتھ بدقسمتی سے یہ ثابت ہوتا جا رہا ہے کہ خان صاحب سر سے پاؤں تک ایک روایتی سیاستدان ہی ہیں اور مزید بدقسمتی یہ کہ دستیاب قیادت میں وژن کے لحاظ سے بدترین بھی

  • تو پھر کیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے؟-محمد اظہار الحق

    تو پھر کیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے؟-محمد اظہار الحق

    izhar

    ہمارا آخر عمران خان صاحب سے کیا جھگڑا ہے؟ ہو بھی کیا سکتا ہے؟ ہمارے کھیتوں کی پگڈنڈیاں ایک دوسرے کو چھو رہی ہیں نہ ہم نے ان کے گھر کے سامنے سے جلوس گزارنا ہے۔ ہماری تو کوئی قدر مشترک ہی نہیں! وہ شہرت کے بامِ بلند پر کھڑے ہیں، ہم گمنام ۔ وہ بادشاہ بننے کے خواہش مند ہیں۔ ایسا ہو گیا تو ہم ان کی رعایا میں شمار ہوںگے۔

    ہم اور ہم جیسے ہزاروں جب کئی عشروں بعد پہلی بار گھروں سے نکلے اور عمران خان کو ووٹ دینے کے لیے قطاروں میں جا کھڑے ہوئے تو اس وقت ہماری ان کے ساتھ کون سی رشتہ داری تھی؟

    وہی تین عورتوں والی پرانی کہانی! جو بادشاہ کے دربار میں طلب کی گئیں کہ چُھپ کر سازش کر رہی تھیں۔ انہوں نے بادشاہ کو دیکھا، پھر ایک نے دوسری سے کہا ”یہ تو وہی ہے‘‘ دوسری نے کہا ”مگر اس کے وہ تو نہیں‘‘ تیسری نے جواب دیا ”ان کے بغیر بھی ہوتے ہیں‘‘۔ ان معنی خیز جملوں اور عورتوں کے چہروں پر کھیلتی ہنسی نے ظل الٰہی کو مزید پریشان کر دیا کہ سازش کھلم کھلا دربار کے اندر بنی جا رہی ہے! حالانکہ پہلی عورت نے کہا تھا کہ یہ بھی بیل ہی ہے۔ دوسری نے شک کا اظہار کیا تھا کہ اس کے سر پر سینگ جو نہیں‘ تیسری نے یہ کہہ کر معاملہ نمٹا دیا کہ کچھ بیل سینگوں بغیر بھی ہوتے ہیں اور بادشاہ سلامت کا شمار انہی میں ہے!

    تو پھر اپنی کمر کے گرد پٹکا باندھ لو‘ بال کھول لو‘ سینہ کوبی کرو۔ جی بھر کر سینہ کوبی کرو! تمہاری امید کی فصل پر ژالہ باری ہوئی ہے۔ تمہارے درختوں پر لگا بور تباہ ہو گیا ہے۔ زنداں کی دیوار تمہارے چمن تک آن پہنچی ہے۔ تم نے جسے پانی سمجھا تھا‘ وہ سراب نکلا۔ تم سمجھے تھے کہ طویل سفر کے بعد‘ اگلا موڑ مڑو گے تو سامنے باغ ہوگا اور اس کے درمیان خوبصورت گھر! مگر آہ! موڑ مڑنے کے بعد بھی وہی طویل راستہ‘ سانپ کی طرح بل کھاتا‘ حدِّ نگاہ تک‘ صحرا کے وسط میں جاتا ہوا! منزل کا نشان ہے نہ وجود!

    جاناں! دل کا شہر نگر افسوس کا ہے
    تیرا میرا سارا سفر افسوس کا ہے
    کس چاہت سے زہرِ تمنا مانگا تھا
    اور اب ہاتھوں میں ساغر افسوس کا ہے
    دیکھو اِس چاہت کے پیڑ کی شاخوں پر
    پھول اداسی کا ہے‘ ثمر افسوس کا ہے
    کوئی پچھتاوا سا پچھتاوا ہے فرازؔ
    دُکھ کا نہیں افسوس! مگر افسوس کا ہے!

    تم سمجھے تھے اب ایک ایسا کلچر آئے گا جو زرداریوں‘ شریفوں‘ چوہدریوں‘ فضل الرحمانوں کے کلچر سے مختلف ہوگا۔ تم نے سنگا پور‘ کینیڈا اور برطانیہ میں قانون کی حکمرانی کے خواب اپنے ملک کے لیے دیکھے تھے۔ مگر خواب خواب ہی رہے؟ زور والا اُوپر ہی رہا، بے بس نیچے ہی رہا!

    کاش! تحریک انصاف میں کوئی جرأت مند ہو اور عمران خان کے تین سو کنال کے محل کے باہر‘ فقیر کی طرح صدا بلند کرے ؎

    تیرے امیر مست‘ تیرے غریب حال مست
    بندہ ہے کوچہ گرد ابھی‘خواجہ بلند بام ابھی

    یہ ایک معمولی واقعہ نہیں! بہت سے بزر جمہر ضرور اس کا دفاع کریں گے۔ لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ اوّل، ہر حال میں اپنے لیڈر کا‘ اپنی پارٹی کا‘ اپنی حکومت کا دفاع کرنے والے! دوم، جو غلط کو غلط‘ صحیح کو صحیح‘ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہتے ہیں! انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ شخصیت کون سی اس غلط کام کی پشت پر ہے‘ وہ برملا سچ کہتے ہیں۔ افسوس! صد افسوس! وہ لوگ جو پارٹیوں‘ لیڈروں اور اپنی حکومتوں سے وابستہ ہیں، ان کی بھاری اکثریت غلطی کو غلطی نہیں مانتی، تاویل کرتی ہے، کج بحثی کرتی ہے۔ جب نشان دہی کی جائے تو غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے الزامی جواب دیتے ہیں کہ تمہاری پارٹی نے فلاں وقت اور تمہارے لیڈر نے فلاں موقع پر یہ کیا تھا! یہ ذہنی افلاس ہے‘ یہ دانش کا قحط ہے! یہ زوال کی واضح علامت ہے۔ یہ اس قوم کی وہ بدقسمتی ہے جس نے قائد اعظم کی وفات کے بعد اپنے جبڑے کھولے اور آج تک ہر امید کو ہڑپ کئے جا رہی ہے!

    نہیں جناب! یہ واقعہ معمولی واقعہ نہیں۔ یہ علامت ہے اس حقیقت کی کہ پولیس کی آزادی کے خیبر پختونخواہ میں سب دعوے جھوٹے نکلے۔ تحریک انصاف کے ایم این اے کے والد نے ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزی کی۔ ٹریفک اہلکار نے جو ڈیوٹی پر تھا‘ اپنی ڈیوٹی انجام دی اور چالان کیا۔ کم و بیش سب اخبارات میں ایک جملہ مشترک ہے کہ چالان پر صاحب برہم ہوئے۔ پھر وہی ہوا جو لدھیانہ میں ہوتا آیا ہے۔

    13873133_1771308883112179_3930263588853033351_n
    اس بات پر میڈیا متفق ہے کہ ایم این اے نے مداخلت کی۔ ایم این اے کے والد ڈی پی او سے ملے اور ٹریفک اہلکار کو معطل کر دیا گیا۔ رہا یہ الزام کہ اہلکار نے گالیاں دیں! تو چالان کرنے کے بعد کون اہلکار گالیاں دے گا یا دے سکتا ہے! کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی اہلکار چالان کر کے گالیاں دے؟ جھگڑا چالان کرنے والا نہیں، وہ کرتا ہے جس کا چالان کیا جاتا ہے۔ ایم این اے نے کہا ہے کہ اس کے والد ڈی پی او کے پاس شکایت کرنے گئے جو ان کا حق ہے۔ سیدھا سا سوال یہ ہے کہ دن میں کتنے لوگوں کے ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر چالان ہوتے ہیں؟ کتنے ڈی پی او سے مل سکتے ہیں؟ بات واضح ہے۔ ایم این اے نے مداخلت کی۔ ڈی پی او دب گیا۔ پولیس کے پی میں سیاسی مداخلت سے آزاد ہوتی تو ایم این اے کی مداخلت پر اہلکار کو معطل ہی کیوں کیا جاتا؟ یہ کہنا کہ معطل کر دیا اور پھر انکوائری ہو گی‘ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ پہلے انکوائری کرائو‘ جرم ثابت ہو تب معطل کر و یا جو سزا قانون کے مطابق بنتی ہے دو۔ ایم این اے نے وہی کیا جو پیپلز پارٹی کا یا نون لیگ کا یا قاف لیگ کا یا کسی بھی پاکستانی سیاسی جماعت کا ایم این اے کرتا! عمران خان کا تبدیلی کا دعویٰ تب درست نکلتا جب ایم این اے مداخلت نہ کرتا‘ جب ڈی پی او چالان کرنے پر اہلکار کا دفاع کرتا!

    یہی وہ شرم ناک واقعات ہیں جو اس ملک کے عوام‘ خاص طور پر مڈل کلاس کو مایوسی میں مبتلا کرتے ہیں! ایسے ہی واقعات پر ہزاروں لاکھوں حساس افراد ٹھنڈی سانس بھرتے ہیں اور ان کے منہ سے بلا ارادہ الفاظ نکلتے ہیں کہ”اس ملک پر قانون کی حکمرانی کبھی نہیں آئے گی‘‘ کچھ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں کہ یہ ملک رہنے کے قابل نہیں! اس اہلکار کی ذہنی اذیت کا اندازہ لگائیے جس کا واحد جرم یہ ہے کہ اس نے ایم این اے کے والد کے خلاف قانون توڑنے پر قانونی ایکشن لیا۔ اس کے رفقائے کار کے ذہنوں میں حشر بپا کرنے والے خیالات کا اندازہ لگائیے! کل کو چالان کرتے وقت کون بہادر اہلکار ہے جو جرم کرنے والے سے یہ نہ پوچھے گا کہ حضور! آپ کا کوئی قریبی عزیز ایم این اے یا ایم پی اے یا پارٹی کا عہدیدار تو نہیں؟ جن دنوں جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی اور ریلوے سے لے کر سول کے دیگر محکموں پر جرنیلوں کا قبضہ تھا‘ ایک لطیفہ گردش کرتا تھا۔ بس میں رش تھا‘ مسافر کھڑے تھے۔ ایک صاحب نے دوسرے سے پوچھا‘ آپ کے صاحبزادے فوج میں افسر تو نہیں؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں! پھر اس نے پوچھا آپ کے قریبی عزیزوں میں کوئی جرنیل تو نہیں‘ اس نے پھر جواب نفی میں دیا۔ مگر سوال کرنے والے کی تسلی ہو ہی نہیں رہی تھی۔ اس نے پھر پوچھا کہ حضور! کیا آپ کے دور و نزدیک کے رشتہ داروں میں کوئی بھی فوجی نہیں؟ اس نے کہا کوئی بھی نہیں! اس پر اس نے غصے سے کہا کہ بدتمیز! پھر اپنا پائوں میرے پائوں کے اوپر کیوں رکھا ہوا ہے؟

    3-4-e1470312787175

    ہو سکتا ہے کہ اس واقعہ کو عمران خان کوئی اہمیت نہ دیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے وہ کوئی ضعیف، مری ماری ہوئی دلیل دے کر اپنے ساتھی کا دفاع کریں! اس سے پہلے بھی وہ ایک کچی بات کہہ کر نکّو بن چکے ہیں۔ تیس کروڑ روپے کی ”معمولی‘‘ رقم دینے کے بعد ان کی دلیل یہ تھی کہ مدارس کو مین سٹریم میں لائیں گے۔ خان صاحب جتنا زور لگا لیں‘ اس معاملے میں”مین سٹریم‘‘ کی تعریف ہی نہیں کر سکتے! مین سٹریم سے ان کی مراد کیا ہے؟ کیا انہوں نے کسی مدرسہ کو قریب سے دیکھا ہے؟ کیا آٹھ سال وہاں گزارنے والے طلبہ سے کچھ تبادلۂ خیال کیا ہے؟ کیا انہیں مدارس میں پڑھائے جانے والے کورس سے سرسری سی بھی واقفیت ہے؟ مین سٹریم کی وہ وضاحت ہی کر دیتے؟ وہ تو مدارس میں زیر تعلیم بچوں کے لیے میز کرسی پر بیٹھنے کا کلچر تک متعارف نہیں کرا سکیں گے؟ چلیے‘ وہ صرف ایک کام کر کے دکھا دیں۔ وہ اپنے پسندیدہ مدرسہ میں درس نظامی کے کورس میں ایک مختصر مضمون تحریک پاکستان پر اور حیاتِ قائد اعظم ہی پر شامل کرا کے دکھا دیں۔ وہ مولانا سے یہی بات منوا لیں کہ قائد اعظم کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے‘ ایک بار ہی سہی‘ چلے جائیں گے! مین سٹریم؟ کیا مراد ہے خان صاحب! آپ کی مین سٹریم سے؟

    کیا کیا طعنے نہ سنے خان صاحب کے چاہنے والوں نے! کبھی انہیں ممی ڈیڈی کلاس کہا گیا، کبھی برگر فیملی کا لیبل چسپاں کیا گیا۔ اب وہ اپنے زخم چاٹتے ہیں اور فراقؔ کی زبان میں خان صاحب سے اور ان کی پارٹی سے مخاطب ہو کر کہتے پھرتے ہیں ؎
    تو پھر کیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے؟
    زمانے سے لڑائی مول لے‘ تجھ سے بُرا بھی ہو؟
    بشکریہ روزنامہ دنیا

  • تبدیلی، جو گندی ہوگئی- سلیم صافی

    تبدیلی، جو گندی ہوگئی- سلیم صافی

    saleem safi
    پرویز خٹک کا شمار خیبرپختونخوا کے سنجیدہ اور تجربہ کار سیاستدانوں میں ہوتا تھا۔ پیپلز پارٹی میں تھے تو بے نظیر بھٹو کے خاص بندے اورآفتاب احمد خان شیرپائو جیسے زیرک سیاستدان کے دست راست تھے۔پرویز مشرف کے دور میں ضلع نوشہرہ کے ناظم منتخب ہوئے اور کامیاب ناظمین میں شمار ہوتے تھے ۔ آفتاب شیرپائو نے اپنی جماعت بنائی تو وہ ان کے صوبائی جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے کام کررہے تھے اور اچھا کام کررہے تھے۔ پیپلز پارٹی میں واپس آئے اور حیدر ہوتی کی کابینہ میں صوبائی وزیر بنے تو بھی کسی تنازع میں ان کا نام نہیں آیا۔

    گزشتہ انتخابات سے قبل مسلم لیگ(ن) میں ان کے جانے کے انتظامات مکمل ہوگئے تھے لیکن عمران خان ، جہانگیرترین اور ’’اُن لوگوں‘‘ نے ان کو تحریک انصاف کا راستہ دکھادیا۔ انتخابات کے بعد ان کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نامزد کرنے کی خبریں آئیں تو میں نے ان کی نامزدگی کے خلاف لکھنا اور بولنا شروع کردیا۔ وہ مجھے فون کرتے رہے لیکن میں بات کرنے سے گریز کرتا رہا۔ ایک روز شوکت یوسفزئی نے اپنے نمبرسے کال ملاکر فوراً انہیں تھمادیا۔ مجھے مجبوراً بات کرنی پڑی۔ پرویزخٹک صاحب نے کہا کہ خان صاحب نے میری نامزدگی کا فیصلہ کرلیا ہے اور کوئی میرے خلاف نہیں بولتا لیکن صرف تم بول رہے ہو۔ آج خان صاحب نے بھی مجھے آپ کے بولنے کا طعنہ دیا ۔ میں نے عرض کیا کہ خٹک صاحب میری آپ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ۔ میں مانتا ہوں کہ آپ کے ساتھ سالوں سے عزت و احترام کا تعلق ہے لیکن میرا موقف آپ کی دشمنی یا اسد قیصر کی دوستی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اصولی ہے ۔ میرے نزدیک آپ کی شخصیت پی ٹی آئی کے کلچر کے ساتھ میچ نہیں کرتی ۔ ہر پارٹی اور لیڈر کو اس کے دعوے میں تولا جاتا ہے اور پی ٹی آئی جو معیارات بیان کررہی ہے ، اس پر آپ پورا نہیں اترتے ۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ وہ نئی قیادت لانا چاہتے ہیں اور آپ اچھے انسان ہوں گے لیکن نئی قیادت نہیں ہیں ۔ دوسرا پی ٹی آئی کے ورکرز نے پارٹی انتخابات میں آپ کے گروپ کو ہرا کر اسد قیصر کو صوبائی صدر منتخب کیا ہے ۔ یوں بھی ان کا پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ پندرہ بیس سال کا تعلق ہے اور آپ کا چند ماہ کا۔

    بہر حال خان صاحب نے کب ہم جیسوں کی سننی ہوتی ہے ۔ چنانچہ انہوں نے پرویز خٹک صاحب کو وزیراعلیٰ بنا دیا ۔ اسد قیصر صاحب اور ان کے قریبی ساتھی بہت دکھی تھے لیکن خان صاحب کی خاطر خاموش ہوگئے ۔ میں نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ حکومتی عہدہ یاا سپیکر کا عہدہ لینے کی بجائے پارٹی قیادت ہی اپنے پاس رکھیں اور پارٹی کے ذریعے حکومت پر چیک اور رہنمائی کی کوشش کریں لیکن خان صاحب نے ان کوا سپیکر بنا دیا۔ پارٹی کی صدارت کیلئےپہلے مولانا فضل الرحمان کے سابق دست راست اور امریکہ میں کروڑوں کے کاروبار کے مالک اعظم سواتی کو صوبائی صدر نامزد کیا اور پھر جنرل ضیاء الحق سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک کا ساتھ دینے والے نثار خان لالہ کے بیٹے کو صوبائی صدر نامزد کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کو پارٹی کے نظریاتی کارکنوں نے قبول نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ پختونخوا میں جہاں حکومت کی رہنمائی اور نگرانی کے لئے پارٹی موجود نہیں رہی ،وہاں تنظیمی سطح پر پارٹی بھی انتشار کا شکار ہوگئی ۔

     

    208233_35643381
    وہاں ایک گروپ وزیراعلیٰ کا رہا جسے شروع میں جہانگیر ترین کی سرپرستی حاصل رہی ۔ دوسرا گروپ اسد قیصر کا تھا۔ تیسرا گروپ سیف اللہ نیازی کی قیادت میں ضیاء اللہ آفریدی ، علی امین گنڈا پور، مراد سعید اور ضیاء اللہ آفریدی وغیرہ کا تھا۔ اسی طرح شروع میں عمران خان کے ذاتی خدمت گزاروں کا ایک اور گروپ عاطف خان کی قیادت میں سرگرم عمل رہا ۔ پھر ایک گروپ ناراض ارکان یعنی جاوید نسیم وغیرہ کا بن گیا۔ ضیاء اللہ آفریدی کو وزارت سے ہٹا کر گرفتار کرلیا گیا تو ان کے گروپ کے لوگوں نے وفاداری بدل کر جہانگیر ترین کے ہاں پناہ لے لی ۔ ان گروپوں میں بعض لوگ ایک سے دوسرے گروپ میں آتے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پورے عرصے میں وہ ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکا ررہے اور صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے عمران خان صاحب نئے صوبائی صدر کا تقرر نہیں کرسکےاور یوں پارٹی صوبائی صدر کے بغیر چل رہی ہے ۔

    دوسری طرف پرویز خٹک ایک دن کے لئے بھی حقیقی معنوں میں وزیراعلیٰ نہیں بن سکے ۔ چیف سیکرٹری ، آئی جی پی اور اعلیٰ بیوروکریٹس کی تقرری بنی گالہ سے ہوئی ہے ۔ وہ یہاں رپورٹ کرتے ہیں اور وزیراعلیٰ کے احکاما ت کو خاص اہمیت نہیں دیتے ۔ اعلیٰ بیوروکریٹس کو وزیراعلیٰ کی عدم موجودگی میں اسلام آباد طلب کیا جاتا ہے ۔خان صاحب، جہانگیر ترین اوراسد عمر ان سے بریفنگ لیتے اور ہدایات دیتے ہیں ۔ بعض اوقات تو یہاں وزیراعلیٰ کے خلاف منصوبہ بندی بھی ہوتی ہے ۔ آپ کو ہر وقت پختونخوا کابینہ کے پانچ چھ وزراء بنی گالہ یا کوہسار مارکیٹ میں منڈلاتے نظر آئیں گے ۔ خود وزیراعلیٰ بھی ہفتہ میں دودن اسلام آباد ہوتے ہیں تاکہ خان صاحب اور ان کے خاص مصاحبین کے ساتھ مشاورت کرسکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس حکومت میں اسلام آباد کا پختونخوا ہائوس کھچا کھچ بھرا رہتا ہے کیونکہ اکثر وزراء اور ایم پی ایز نے یہاں ڈیرے ڈالے ہوتے ہیں ۔

    کابینہ میں ایسے وزیر بھی بیٹھے ہیں کہ پرویز خٹک کے ساتھ منہ پر گالم گلوچ کرچکے ہیں لیکن چونکہ بنی گالہ سے ان کا رشتہ مضبوط ہے ، اس لئے وہ ان کو کابینہ سے الگ نہیں کرسکتے ۔ جاوید نسیم اور قربان علی خان وغیرہ ایم پی ایز نے بغاوت کردی ۔ انہوں نے وزیراعلیٰ اور کئی وزراء پر کرپشن کے سنگین الزامات لگائے ۔ وہ میڈیا پر بھی آئے لیکن وہ آج بھی ایم پی ایز ہیں اورپارٹی کا حصہ ہیں ۔ کیونکہ ان کے خلاف خان صاحب کارروائی کرنا نہیں چاہتے اور وزیراعلیٰ کر نہیں سکتے ۔ اب جو نیا باغی گروپ بن گیا ہے تو نہ تو ان کی شکایات کا ازالہ کیا جاتا ہے اور نہ انہیں پارٹی سے نکالاجاتا ہے ۔

    اسی طرح صوبے میں جو احتساب کمشنر مقرر کیا گیا ، وہ کرکٹ کے دنوں سے خان صاحب کے دوست تھے ۔ خان صاحب ہی سے رابطے میں رہتے تھے ۔ انہوں نے ہی ان سے ضیاء اللہ آفریدی کو گرفتار کروایا اور پھر ان کے رویے ہی کی وجہ سے وہ عہدہ چھوڑ گئے ۔ پیڈو کے محکمے میں جو گھپلے ہوئے ، اس معاملے میں بھی وزیراعلیٰ اس لئے کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ ایم ڈی اسد عمر صاحب کے مقرر کردہ تھے اور وزیرخان صاحب کے مقربین میں شامل ہیں ۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ صوبے سے متعلق کوئی بھی اہم فیصلہ صوبائی کابینہ، صوبائی اسمبلی یا پارٹی کی صوبائی تنظیم نہیں کرتی ۔ خان صاحب وزیراعلیٰ کو طلب کرلیتے ہیں ۔ پھر ایک طرف جہانگیر ترین اور دوسری طرف اسد عمر بیٹھ جاتے ہیں ۔ یہاں فیصلے ہوجاتے ہیں اور پھر انہیں صوبائی کابینہ کے سر تھوپ دیا جاتا ہے ۔

    پرویز خٹک اور کے پی کے رہنمائوں کی اکثریت دھرنوں کی شدید مخالف تھی اور صوبائی حکومت کی کارکردگی سب سے زیادہ دھرنوں کی وجہ سے متاثر ہوئی لیکن وزیراعلیٰ اور وزراء کو دھرنوں میںکنٹینر پر کھڑے ہوکر ناچ گانے پر مجبور کردیا گیا۔ اسی وقت سی پیک سے متعلق اہم فیصلے ہوئے لیکن تب خان صاحب کو اس کی فکر تھی اور نہ پرویز خٹک کو فرصت ۔ یہ لوگ دھرنوں میں مصروف تھے اور وفاقی حکومت نے جو کرنا تھا ، وہ کرلیا جس کا صوبے کو بے انتہانقصان ہوا۔

    بنی گالہ سے ڈکٹیشن کی تازہ ترین مثال گزشتہ روز پیش کئے گئے نئے ناقابل عمل ایجنڈے کی ہے ۔ وزیراعلیٰ کو صبح بنی گالہ طلب کیا گیا۔ نہ صوبائی تنظیم ساتھ تھی اور نہ کابینہ ۔ ایک طرف اسد عمر صاحب بیٹھے اور دوسری طرف جہانگیر ترین ۔ سامنے خان صاحب مانیٹر کا رول ادا کررہے تھے۔ صوبے کے لئے ایسا ایجنڈا بنایا گیا جس میں ایم پی ایز کے ترقیاتی فنڈز کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس دل خوش کن ایجنڈے کو اگلے روز کروڑوں روپے خرچ کرکے ملک کے تمام اخبارات میں صفحہ اول پر شائع کرادیا گیا اور پھر دو دن بعد کابینہ کا اجلاس بلایا گیا لیکن اس میں بھی اس کی منظوری نہیں لی گئی۔

    اس تناظر میں اس وقت پختونخوا میں حکومت کے نام پر بدترین بدنظمی دیکھنے کو مل رہی ہے لیکن پی ٹی آئی کے چند گوئبلز رات کو ٹیلی وژن چینلز پر بیٹھ کر اس تکرار سے جھوٹ بول رہے ہیں کہ باقی ملک میں یہ غلط تاثر عام کردیا گیا کہ جیسے واقعی پختونخوا میں کوئی تبدیلی آگئی ہے ۔ باقی پاکستان کو یہ علم نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت ماضی کی کسی بھی حکومت سے بڑھ کر میڈیا اور سوشل میڈیا پر بجٹ خرچ کررہی ہے ۔ لیکن جھوٹ سے کب تک کام چلایا جاتا ۔ اب تین سال مکمل ہوئے تو حقائق سامنے آرہے ہیں ۔ اب گوئبلز کے جھوٹے دعوئوں سے مزید کام نہیں چل سکتا ۔ خود پی ٹی آئی کے قائدین بھی تسلیم کرچکے ہیں کہ تبدیلی تو بہت آئی ہے لیکن مثبت نہیں بلکہ منفی ۔گویا تبدیلی گندی ہوگئی اور مکمل گندی ہوگئی۔ چنانچہ اب پرویز خٹک کو قربانی کا بکرا بنانے اور ناکامی کا ملبہ ان کے سرتھوپنے کی تیاری ہورہی ہے ۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

  • پارٹی خطرے میں-عمار چوہدری

    پارٹی خطرے میں-عمار چوہدری

    emar

    جنوری کے اوائل میں خبر آئی کہ چودھری محمد سرور تحریک انصاف چھوڑ رہے ہیں۔ بتایا گیا وہ پارٹی کی اندرونی سیاست سے مطمئن نہیں ہیں اور انہوں نے پارٹی قیادت کو بھی اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔ تاہم یہ خبر غلط ثابت ہوئی اور چودھری صاحب چھ ماہ گزرنے کے بعد بھی پارٹی میں موجود ہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ انہوں نے پارٹی چھوڑی یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ پارٹی میں ہیں تو کس حیثیت میں؟ کون سی ایسی ذمہ داریاں ہیں جو وہ اتنی خاموشی سے نبھا رہے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو رہی؟ لوگ پوچھتے ہیں‘ایک ایسا شخص جس نے برطانوی شہر گلاسگو میں لیبر پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے 1997ء سے 2010ء تک ہاؤس آف کامن میں بطور رکن خدمات سر انجام دیں‘ جو برطانیہ کا پہلا مسلمان ممبر پارلیمنٹ بنا‘ جس نے پوری دنیا میں کشمیر اورفلسطین کے مسئلہ کو اُجاگر کیا‘ جس نے برطانیہ میں بزنس ایمپائر کھڑی کی اور جس نے گورنر پنجاب جیسے عہدے کو لات مار دی وہ اگر تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت میں بھی کچھ نہیں کر سکا تو اس کی کیا وجوہات ہیں؟ میں نے پوری کوشش کی کہ ان ڈیڑھ برسوں کے دوران ان کی پارٹی میں کارکردگی کا تعین کر سکوں لیکن ناکام رہا۔ کارکردگی تو وہ تب دکھا پاتے جب انہیں کوئی عہدہ‘ کوئی ذمہ داری اور فری ہینڈ دیا جاتا۔

    خیال کیا جا رہا تھا کہ انہیں پارٹی صدر کا عہدہ دیا جائے گا جو اس سے قبل جاوید ہاشمی صاحب کے پاس تھا۔ اس کی بجائے زبانی کلامی ان کی ذمہ داری پارٹی کی تنظیم سازی پر لگا دی گئی۔ یہ کام انہوں نے کیا کرنا تھا کہ ایک سمندر تھا جسے انہوں نے پار کرناتھا۔ وہ جس طرف بھی ہاتھ ڈالتے‘ بھڑوں کا ایک چھتا انہیں کاٹنے کو پڑتا۔ جلد ہی وہ تھک کر بیٹھ گئے۔ لاہور کینٹ میں انہوں نے پارٹی کا ایک خوبصورت دفتر قائم کیا لیکن اس کا بھی انہیں کچھ فائدہ نہ ہوا۔ غالباً پارٹی میں موجود کچھ لوگ یہ چاہتے تھے کہ سرور صاحب صرف پیسہ لگائیں اور تحریک انصاف میں سکہ کسی اور کا چلتا رہے۔ چودھری سرور کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ وہ مضبوط مالی ساکھ کے مالک ہیں چنانچہ قوی امکان ہے کہ ان سے پارٹی کی مالی سپورٹ تو ضرور لی جا تی رہی ہو گی لیکن بدلے میں انہیں سامنے آ کر اپنی صلاحیتیں آزمانے کا موقع نہیں دیا گیا۔

    گویا چودھری سرور واپس اسی کیفیت کو پہنچ گئے جس سے تنگ آ کر وہ گورنر ہائوس سے نکلے تھے۔ گورنری چھوڑتے وقت انہوں نے مسلم لیگ ن اور اس سسٹم پر جو الزامات عائد کئے تھے‘ ٹھیک ڈیڑھ برس بعد وہ اسی پل صراط سے دوبارہ گزر رہے تھے۔ وہ گورنر ہوتے ہوئے بھی اپنی آبائی زمینوں پر سے قبضہ مافیا کو نہیں بھگا پائے تھے جس کا برملا اظہا رانہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا۔ مجھے یاد ہے گورنر پنجاب کے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ عوام کے لیے کچھ نہیں کر سکے ، اس لیے انھوں نے گورنر کے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ گورنر بننے سے قبل انہیں شاید یہ معلوم نہ تھا گورنر کی حیثیت برائے نام ہوتی ہے‘ اصل اختیارات اور طاقت کا منبع وزیراعلیٰ ہوتا ہے۔ یہ اتنی سادہ بات تھی کہ جسے پولیٹیکل سائنس کا عام طالب علم یا اخباری قاری بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ تحریک انصاف میں شامل ہونے کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ عوام کے لئے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ تحریک انصاف میں انہیں اوورسیز پاکستانیوں نے دھکیلا تھا۔ ان کا خیال تھا تحریک انصاف ہی وہ واحد جماعت ہے جو تبدیلی لا سکتی ہے اور جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ آج چودھری صاحب کو دیکھ کر وہی اوورسیز پاکستانی نہ جانے کس کیفیت سے دوچار ہوں گے۔ سوچتے ہوں گے کہ جس جماعت میں چودھری سرور کو عہدہ ملا نہ کام کرنے کی آزادی‘ اُلٹا شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین جیسے پارٹی کے کرتا دھرتا بن گئے اور پارٹی کو یرغمال بنا لیا‘وہ کیا تبدیلی لائے گی۔

    چودھری سرور کو جاوید ہاشمی اور جسٹس وجیہہ الدین کا انجام سامنے رکھنا چاہیے تھا جو پارٹی سیاست کا شکار ہو چکے ہیں۔ جب جسٹس وجیہہ الدین پارٹی میں شامل نہ ہوئے تھے‘ تب خان صاحب کو جسٹس صاحب سے عظیم قانون دان کوئی دکھائی نہ دیتا تھا لیکن جب جسٹس صاحب نے پارٹی کے نظم و ضبط اور دیگر معاملات میں اپنا کردار ادا کرنا چاہا تو انہیں بھی دودھ کے بال کی طرح نکال باہر کیا۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے دوبارہ پارٹی کا اندرونی خلفشار کھل کر سامنے آ رہا ہے۔ کبھی ناراض ارکان سے بات چیت کی جاتی ہے کبھی انہیں پارٹی سے نکال پھینکنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ تین سال حکمران جماعت کو راستے سے ہٹانے کی کوشش میں لگ گئے‘ کبھی شجاع پاشا کی مدد سے دئیے جانے والے دھرنے تو کبھی پاناما لیکس کے ذریعے۔ اس نوراکشتی میں صوبہ خیبرپختونخوا اور اس کے عوام منہ دیکھتے رہ گئے۔

    گزشتہ دنوں خان صاحب نے جن تیرہ نکات کا اعلان کیا‘ انہیں دیکھ کر ایسا لگا جیسے آج ہی صوبہ میں ان کی حکومت شروع ہوئی ہو۔ یہ وہ کام تھے جو انہیں ابتدا میں کرنے تھے۔ تین سال گزرنے کے بعد توعوام نتائج پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا میں ان تیرہ نکات کو پذیرائی مل سکی نہ ہی خان صاحب یہ ثابت کر سکے کہ وہ کوئی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ آزاد کشمیر میں حکمران جماعت کی جیت تحریک انصاف کے لئے بہت بڑا سوال چھوڑ گئی۔ بیرون ممالک سے کئی لوگوں نے فیس بک اور ای میلز پر لکھا کہ خان صاحب فوری طور پر پارٹی کی جانب توجہ کریں وگرنہ یہ اگلے انتخابات میں بری طرح پٹ جائے گی۔ لوگوں نے کمنٹس کئے کہ وہ فلاں فلاں ملک میں رہتے تھے اور صرف تحریک انصاف کو ایک ووٹ دینے کے لئے گیارہ مئی کو پاکستان آئے تھے۔ بعض لوگوں نے اس امر پر مہرتصدیق ثبت کی کہ خان صاحب خود کو تبدیل نہیں کریں گے۔ کچھ لوگوں نے ایدھی صاحب کے جنازے میں عدم شمولیت پر بھی خان صاحب پر کڑی تنقید کی۔ جس درویش کو تینوں مسلح افواج کے سربراہ سلامی دے رہے تھے‘ اسے عمران خان نے کندھا دینا گوارا نہ کیا‘ اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔

    یقینا تحریک انصاف کے سربراہ ان چیزوں سے لا علم نہیں ہوں گے تاہم لوگوں کی اکثریت اب ان سے مایوس ہوتی جا رہی ہے۔ انہیں عمران خان کی احتجاج کی کالوں میں بھی دلچسپی نہیں رہی۔ جو لوگ دھرنے میں گئے تھے ان میں سے کئی آج تک عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں لیکن پارٹی رہنما ان کا فون تک نہیں سنتے۔ جہاں تک تبدیلی کی بات ہے جب انہوں نے چودھری سرور اور جسٹس وجیہہ الدین پر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو فوقیت دے دی ہے تو پھر تبدیلی کے کیسے دعوے؟ تحریک انصا ف کی شہرت‘ مقبولیت اور ساکھ آج شدید خطرے سے دوچارہے‘ خان صاحب سمجھ نہ پائے تو عوام کے پاس حکمران جماعت پر انحصار کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہ رہے گا کیونکہ اطلاعات کے مطابق حکومت کا سب سے زیادہ فوکس لوڈشیڈنگ کے ایشو پر ہے اور اگر الیکشن سے قبل یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے‘ اگر حکمران بڑے ڈیم نہ بھی بنا پائے لیکن اگر انہوں نے پرانے پلانٹ چالو کر دئیے اور آئی پی پیز کو ایڈوانس ادائیگیاں کر دیں تو پھر الیکشن سے چند ماہ قبل لوڈشیڈنگ برائے نام رہ جائے گی اور اگر ایسا ہو گیا تو پھر حکمران جماعت کو آئندہ الیکشن جیتنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ تحریک انصاف بھی نہیں

     

  • قائم علی شاہ سے پرویز خٹک تک- نجم ولی خان

    قائم علی شاہ سے پرویز خٹک تک- نجم ولی خان

    najam description

    کہتے ہیں،میں لاہور میں بیٹھ کر کراچی ، پشاور اور کوئٹہ بارے بات کروں تو یہ صوبائیت کا فروغ اور پاکستانیت کی نفی ہے لیکن اگر وہا ں سے لاہور کی طرف انگلیاں اٹھائی جائیں تو یہ ان کا حق بھی ہے اور فرض بھی، میرا خیال تھا کہ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد کتابی نوعیت کی حب الوطنی ختم ہو گی اوروطن سے محبت کا حقیقی تصور اجاگر ہو گا، وہ تصور جس میں زمین کے ساتھ ساتھ زمین پر رہنے والے بھی اہم ہیں۔

    یہ سندھ والوں کا فیصلہ تھا کہ انہوں نے بھٹو کے خون کے قرض کی ایک اور قسط پچھلے الیکشن میں چکانی تھی سو انہوں نے تیر پر مہریں لگاتے ہوئے چکا دی مگر قائم علی شاہ کوان پر مسلط کرنے کا فیصلہ سوفیصد پیپلز پارٹی کی قیادت کا تھا، میں یقینی طور پر ان کے بارے بہت زیادہ نہیں جانتا مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ قائم علی شاہ ضعیف بھی ہیں اوربھول جانے کے مرض میں مبتلا بھی ، موجودہ دور میں بیڈ گورننس کی علامت بھی، قائم علی شاہ کو تبدیل کرنے کے فیصلے کا کریڈٹ نوجوان بلاول بھٹو زرداری کو دیا جا رہا ہے ۔ اس فیصلے کے پیچھے مجھے سندھ میں بیڈ گورننس کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج بھی نظر آ رہے ہیں۔ میڈیا کے اس دور میں آپ کے اس صوبوں کی حکمرانی ایک دکان کی طرح ہے جہاں آپ اپنی محنت اورکامیابی کے امپریشن کا سٹاک دوسرے صوبوں میں بیچ سکتے ہیں جہاں آپ کی سیاسی دکان پر زیادہ گاہک نہیں ہیں۔

    پنجاب کے مقابلے میں سندھ اور خیبرپختونخواہ کی حکومتی سیاسی دکانیں اپنا اپنا مال بیچنے میں کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوپا رہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پیپلزپارٹی اس تبدیلی کے ذریعے اس سیاسی ڈھلوان کے آگے مراد علی شاہ یا صوبے کے کسی بھی دوسرے چیف ایگزیکٹو کی صورت میں ایک پتھر رکھنے میں کامیاب ہوجائے گی؟ وہ مقبولیت کے غبارے سے تیزی سے نکلتی ہوئی ہوا کو دوبارہ بھر پائے گی اور اپنی سیاسی پتنگ دوبارہ اڑا پائے گی۔ اس وقت تاثر یہ ہے کہ سندھ میں بھی تمام میگا پراجیکٹس چاہے وہ پبلک ٹرانسپورٹ کی صورت ہوں یا موٹرویزکی تعمیر کی صورت، ان کاکریڈٹ مسلم لیگ نون کی مرکزی قیادت کو جا رہا ہے اور دوسری طرف پنجاب میں جدت اور ترقی کا پروپیگنڈہ بھی چھوٹے صوبوں کے عوام کو اپنی اپنی حکمران جماعتوں سے بے زار کر رہا ہے۔ میں پنجاب میں مسائل سے انکار نہیں کرتا۔ یقینی طور پر یہاں بھی عوام کو صحت ، تعلیم اور امن و امان کے بہت سارے مسائل درپیش ہیں مگرفرق حل کے لئے کی جانے والی کوششوں میں ہے ۔

    ابھی چند روز پہلے بتایا گیا کہ پنجاب بھر سے چھ سو جبکہ صرف لاہور سے تین سو سے ز یادہ بچے اغوا ہوئے۔ مجھے کہنے میں عار نہیں کہ جوں ہی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف وطن واپس پہنچیں گے وہ ان وارداتوں کی روک تھام کے لئے کام شروع کر دیں گے مگر کیا دوسرے صوبوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ واسا میں ذمہ داریاں ادا کرنے والے ایک رکن پنجاب اسمبلی نے مجھے بتایا کہ جس وقت الیکٹرانک میڈیا پر کوئی ٹیکر چل جاتا ہے یا پرنٹ میڈیامیں کوئی خبر شائع ہوجاتی ہے، ان کی مصیبت آجاتی ہے، وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھ سکتے جب تک وہ اس کا ازالہ نہ کرلیں کہ اس کارکردگی کی مانیٹرنگ براہ راست وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کا سیکرٹریٹ کر رہاہوتاہے۔

    تعلیم پر’ الف اعلان ‘کی رپورٹ آ چکی،ڈبل ون ڈبل ٹو کا میں نے خود جا کر سارا عمل دیکھا، لاہور ہائیکورٹ کے نئے چیف جسٹس مسٹر جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ وہ لاہور ہائیکورٹ اور ماتحت عدالتی نظام کو دوسرے صوبوں کے لئے ایک مثال بنا دیں گے۔ مجھے ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پنجاب بار کونسل کے عہدے داروں نے غیر رسمی گپ شپ میں بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ مقدموں کے تمام تر بوجھ کے باوجود اس وقت دوسرے صوبوں سے کہیں زیادہ بہترپرفارم کر رہی ہے۔ پنجاب میں بڑی سڑکوں کی تعمیر اور ٹرانسپورٹ کے نظام میں تیزی کے ساتھ آنے والی بہتری پر تو تبصرہ بھی غیر ضروری ہے اور جب یہ پیغامات دوسرے صوبوں میں جاتے ہیں تو وہاں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے، اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کا احساس محرومی بھی ان کی اپنی قیادت کا پیدا کردہ ہے۔ میں اپنے پورے ایمان اور یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کو بھی مضبوط جماعتوں کے طور پر دیکھنا چاہتا ہوں۔

    کسی بھی جمہوری نظام میں حکمرانوں کو درست راہ پررکھنے کے لئے مضبوط اپوزیشن از حد ضروری ہے لیکن اگر اپوزیشن کی جماعتیں اپنے اپنے صوبوں میں گڈ گورننس اورخدمت کی سیاست کو فروغ نہیں دیں گی تو وہ کمزور ہوتی چلی جائیں گی۔ ایک طرف ہمارے سامنے قائم علی شاہ کی حکمرانی کا ماڈل ہے تو دوسری طرف پرویز خٹک ہیں جنہوں نے حال ہی میں اپنی ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان صاحب جس قسم کی تبدیلی چاہتے ہیں اور نوے دنوں کی قلیل مدت میں جس قسم کی تبدیلی لانے کے وعدے کئے گئے اس کے لئے تو پانچ برس بھی تھوڑے ہیں۔ میرے خیال میں پرویز خٹک نے اس قسم کا بیان دے کر اپنی حکومت اور جماعت دونوں کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ جس قسم کی تبدیلی وہ لانا چاہتے ہیں وہ اگر دس برسوں میں آئے گی تو اس کے لئے وہ آدھا کام اسی مدت میں پوراکر لیں گے،سیاست میں امیدکا قائم رہنا سب سے اہم ہوتا ہے۔ امید رہتی تو میرے پختون بھائی ہر مرتبہ الیکشن میں تبدیلی کی روایت تبدیل کر دیتے مگر سیاستدانوں کی طرف سے ناکام ہوجانے کا اعتراف ان کے لئے حقیقی ناکامی سے بھی بڑا المیہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    مجھے یہ تسلیم کرنے میں بھی عار نہیں کہ ہمارے چھوٹے صوبوں میں آبادی کم ہونے کے باوجود ماضی کی کمیوں اور کوتاہیوں کے باعث حکمرانی اور گورننس کے مسائل کہیں زیادہ ہو چکے ہیں۔ میرے ان صوبوں میں اسٹیبلشمنٹ کے مفادات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت کے طور پر موجود ہیں مگر اسے وہاں کی سیاسی جماعتیں کسی کمزوری کی بجائے طاقت کے طور پر بھی لے سکتی ہیں کہ اس وقت ایک لڑائی وسائل کے حصول کی ہے اور جب آپ وسائل حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کے استعمال کا چیلنج آپ کے سامنے آ جاتا ہے۔ کیا یہ دلچسپ امر نہیں کہ وسائل کے درست یا غلط استعمال سے کہیں پہلے ان کے استعمال ہونے کا چیلنج ہے۔ میں مان لیتا ہوں کہ پنجاب میں وسائل کے استعمال کے حوالے سے حکمرانوں کی ترجیحات درست نہیں ہیں مگرآپ کو بھی ماننا پڑے گا کہ غلط ترجیح پر استعمال ہونے والے وسائل بہر حال ان وسائل سے کہیں زیادہ بہتر ہیں جو نااہلی کی وجہ سے استعمال ہی نہ ہو پائیں۔
    سندھ اور خیبرپختونخواہ کے مسائل میں کافی فرق ہے، سندھ کی سیاسی قیادت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی برسرپیکار ہے مگر خیبرپختونخواہ کے حکمرانوں کو یہ مسئلہ بھی درپیش نہیں، وہ بہترین ورکنگ ریلیشن شپ کے ذریعے اپنے صوبے کے عوام کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کر سکتے ہیں۔ سندھ والوں کے لئے مجھے کہنے دیں کہ انہیں پنجاب کا ماڈل ہی اپنا نا پڑے گا اور اسے وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا ماڈل بھی کہہ سکتے ہیں جنہوں نے ایک سے زائد مرتبہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کے ذریعے حکمرانی حاصل کی ۔ ضرورت اسی امر کی ہے کہ بے جاتصادم کی پالیسی سے گریز کرتے ہوئے امن و امان کو یقینی بنایا جائے، سیاست سے تشدد کے عنصر کو باہر نکالا جائے اوراصل توجہ ترقیاتی کاموں کی طرف دی جائے۔میں بوجوہ یہاں بلوچستان کو ڈسکس نہیں کر رہا کہ وہ اپنی جگہ پر ایک علیحدہ اور مکمل موضوع ہے۔سندھ میں بلاول بھٹو زرداری سیاست اور حکومت کا ماڈل تبدیل کرنا چاہ رہے ہیں ۔ سندھ کے عوامی کے مسائل کے حل کے لئے میں ان کے لئے دعا گو ہوں مگر اس کے لئے انہیں پیپلزپارٹی کا پورا ڈھانچہ اور تاثرہی تبدیل کرنا ہوگا۔ اب وقت تیزی سے معجزے دکھانے والے سیاسی رہنماؤں کے درمیان مقابلے کا ہے۔ مصدقہ ہونے کے دعووں کے ساتھ اطلاعات تو موجود ہیں مگر کیا عمران خان خیبرپختونخواہ میں ناکامی کا اعتراف کرنے والے پرویز خٹک کو بھی تبدیل کرنے جا رہے ہیں، میرا خیال ہے کہ مجھے اس سوال کے جواب کے لئے بہت زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔