Tag: خبر

  • اس بار جمہوریت کو نہیں افراد کو خطرہ ہے-خالد مسعود خان

    اس بار جمہوریت کو نہیں افراد کو خطرہ ہے-خالد مسعود خان

    khalid masood
    گزشتہ کالم کے حوالے سے ایک دو چیزوں کے سلسلے میں ایک باخبر دوست نے تھوڑی تصحیح کی ہے۔ اس واقف حال نے بڑی ذمہ داری سے بتایا کہ وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے ہوئے تمہارے دوست نے کم از کم گزشتہ ایک سال سے تو کسی سکیورٹی میٹنگ میں سرے سے شرکت ہی نہیں کی‘ اب یہ تمہارے دوست کی ذاتی سمجھداری ہے یا اوپر والوں کی بے اعتمادی‘ لیکن یہ بات پوری ذمہ داری اور وثوق سے بتا رہا ہوں کہ ایسی میٹنگز میں تمہارا دوست موجود نہیں ہوتا۔ جب ہوتا ہی نہیں تو بات لیک کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں نے کہا معاملہ خیر لیک کرنے کا نہیں، فیڈ کرنے کا ہے۔ وہ کہنے لگا تمہیں خود علم ہے کہ تمہارے دوست کا کم از کم سیرل المیڈا سے نہ ذاتی تعلق ہے اور نہ ہی کوئی راہ و رسم ہے ‘لہٰذا اس کو خبر دینا بعید از قیاس لگتا ہے کہ ایسی خبریں دینے کے لیے کسی حد تک ذاتی تعلقات کا ہونا نہایت ضروری ہے‘ راہ چلتے کو اپنا تعارف کروا کر خبر تو نہیں دی جاتی اور خاص طور پر ایسی خبر جو بارودی سرنگ سے بھی زیادہ خطرناک ہو۔

    اور یہ سیرل المیڈا کوئی رپورٹر تو ہے نہیں کہ کہیں سے خبر نکال کر لے آئے۔ ایک اسسٹنٹ ایڈیٹر ٹائپ آدمی ہے اور اخبار کا باقاعدہ ملازم ہے۔ تمہارا دوست سرکاری ملازم ہے اور پنجاب حکومت کے ساتھ بڑی کامیابی سے کام کر چکا ہے اور اب وفاقی حکومت میں ہے اسے پتا ہے کہ کل کلاں اس کو پھر صوبائی حکومت میں کام کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ اس خبر کے بعد رائے ونڈ کے وفاداران کی واضح تقسیم ہو گئی ہے۔ بڑے میاں صاحب والے اور چھوٹے میاں صاحب والے۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگا اس خبر پر غور کرو تو تمہیں دو باتیں فوراً سمجھ میں آجانی چاہئیں۔ پہلی یہ کہ اس خبر کے پیچھے وہ لابی ہے جو بھارت سے تعلقات بگڑنے پر پریشان ہے۔ حافظ سعید کو اس ساری گیم میں گھسیٹنے اور اس کے حوالے سے پنڈی والوں کے دل میں نرم گوشے کا اظہار کرکے جہاں بھارت کے اس موقف کو تقویت دی گئی ہے کہ آئی ایس آئی والے بھارت کے خلاف کشمیر میں متحرک ”نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ کے سرپرست ہیں وہیں دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ اردگرد کے ممالک میں مداخلت سول حکومت نہیں بلکہ ”دوسرا فریق‘‘ کر رہا ہے۔ لیکن تمہیں علم ہے کہ اس خبر سے ملکی سلامتی کوجو خطرات لاحق ہوئے ہیں اس کے اثرات سے نکلنا کتنا مشکل ہے؟ یہ حرکت ویسے تو باقاعدہ قومی جرم ہے لیکن یہ جرم سے بڑھ کر گناہ ہے کہ ریاست کے اداروں کو عالمی سطح پر خوار کرنا جرم نہیں رہتا گناہ ہوتا ہے۔

    نپولین عالمی تاریخ میں عسکری نابغہ ہے۔ نپولین کا کہنا ہے :”فوج تو بہر حال رہے گی۔ اب یہ آپ کی اپنی فوج ہو یا پھر دشمن کی‘‘۔ اپنی فوج کے خلاف (جرنیلوں کی طالع آزمائی سے قطع نظر یہ بات صرف فوج کی ہو رہی ہے) گڑھا کھودنے والے دشمن کی فوج کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔ فی الوقت وزیراعظم کے قریب موجود ساری کاروباری لابی بھارت سے تجارت، بھارت میں اپنے بنکوں کی برانچیں کھولنے اور اپنی فیکٹریوں کا مال بیچنے یا اس کے لیے سستا خام مال خریدنے کے لیے بے چین ہیں۔ مودی کی حرکتوں نے ان کا سارا پلان چوپٹ کر دیا اور کشمیر میں جاری حالیہ سودن سے زائد عرصہ سے جاری بھارتی جبر کی لہر اور کشمیریوں کی بے مثال پر امن مزاحمت نے جہاں پہلی بار بھارت کو عالمی سطح پر دفاعی حالت میں لانے میں مرکزی کردار سر انجام دیا ہے وہیں وزیراعظم کو مجبوراً اقوام متحدہ میں کشمیر کے مسئلے پر بات کرنا پڑی ہے۔ ایسی صورتحال میں اپنے بھارتی کرم فرماؤں کو مطمئن کرنے اور اپنے اخلاص کا ثبوت دینے کے لیے یہ سٹوری بڑی کارآمد ثابت ہوئی ہے اور وزیراعظم بھارت میں اپنے ہمدردوں کو یہ پیغام دینے میں کسی نہ کسی صورت میں کامیاب ہوئے ہیں کہ وہ مجبور محض ہیں اور پاکستان میں بھارت مخالف جذبات کو اُبھارنے میں معروف تنظیموں کے خلاف کچھ کرنا تو چاہتے ہیں مگر ڈنڈے والے انہیں ایسا نہیں کرنے دے رہے۔

    دوسری طرف خاندان کے اندر وراثت کی چپقلش بھی زوروں پر ہے اور اس کہانی میں سکرپٹ رائٹر نے ایک تیر سے دو شکار کھیلے ہیں۔ ایک بھارت کے خلاف دامے، درمے، سنخے کام کرنے والوں کا ”مکو ٹھپنے‘‘ کی بھرپور کوشش کی گئی اور دوسرا وار میاں شہباز شریف پر کیا گیا۔ سٹوری میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ آئی ایس آئی والوں سے میاں شہباز شریف کی تلخی ہوئی ہے اور انہوں نے کہا کہ ہم بندے پکڑتے ہیں اور پنڈی والے بندے چھڑوا لیتے ہیں‘ یعنی کہ ہم تو دہشت گردوں کی سرکوبی کرنا چاہتے ہیں مگر ڈنڈے والے ان کی سرپرستی فرما رہے ہیں۔ خواہ اس میں اشارہ ایک دو افراد کی طرف تھا مگر پیغام واضح تھا۔ اور اس بدمزگی کو ختم کروانے میں میاں نواز شریف نے مصالحانہ کردار سر انجام دیا اور بیج بچائوکروایا۔ صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ تقریباً دو سالوں سے جب بھی معاملات بگڑے ہیں میاں شہباز شریف علی الصبح اُٹھ کر ملاقات کے لیے نکل کھڑے ہوئے ہیں اور گرمی سردی کو ٹھنڈا کرکے واپس آتے ہیں۔ اب ان کے حوالے سے اس بات کو اچھالنے کا مطلب جہاں انہیں خراب کرنا ہے وہیں یہ بھی ہے کہ اب وہ اس معاملے میں اپنا مصالحتی کردار بھی آئندہ سر انجام نہ دیں اور لڑائی کھُل کر ہو جائے۔

    اس لڑائی کی تیاری کم از کم ایک طرف تو پوری شدو مد سے جاری ہے۔ اس ہفتے کا اگر سیرل المیڈا کا کالم پڑھا جائے اور اس کی عامیانہ زبان پر غور کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ میاں صاحب کی چار چھ بندوں پر مشتمل لڑاکا بٹالین ایک زور دار معرکے کی پوری تیاری کر چکی ہے اور وہ اس معرکے میں اپنی فتح کے لیے مکمل پُر یقین ہیں کہ انہیں یہ بات سمجھ آ چکی ہے کہ مارشل لاء کا لگنا خارج از امکان ہے اور دوسری کوئی صورت انہیں گھر نہیں بھیج سکتی۔

    اس ہفتے کے کالم میں سیرل المیڈا لکھتا ہے: ”جہاں تک بات ہے چیف کی تقرری کی اور لونڈوں (Boys) کے غصے کی، تو ان سترہ دنوں کے طلاطم کو بڑی آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک طرف سخت غصہ ہے تو دوسری طرف نواز شریف قدرے اطمینان میں! کیوں؟ اگرچہ غصہ بالکل صاف نظر آرہا ہے لیکن ایک ایسا چیف جس کی چھٹی ہو رہی ہے اگرچہ وہ تاریخ کا مقبول ترین ہی کیوں نہ ہو لیکن اسے سیاسی مات ہو چکی ہے اور اس کا ایک فاتحانہ رخصتی کا خواب چکنا چور ہو چکا ہے۔ اس وقت چار معزز لوگ (chaps) لائن میں ہیں جو نواز شریف کی منظوری کے منتظر ہیں اگر ان کی موجودہ چیف سے ہمدردی بھی ہو تو وہ نواز شریف کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔

    سر! آپ کا وقت پورا ہوا۔ آپ کے ساتھ بہت بُرا ہوا۔ آپ گھر جائیے اور میرے معاملات خراب نہ کیجئے‘‘۔
    میں نے ایمانداری سے حرف بحرف صرف ایک پیرے کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کالم میں زبان ایسی ہے جو ان پڑھ امریکی گلیوں میں استعمال کرتے ہیں جسے ”لینگوئج‘‘ نہیں بلکہ ”سلینگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ سیرل کا پاوا تگڑا ہے اور اسے اس سلسلے میں رتی برابر پریشانی نہیں، البتہ میاں نواز شریف نہ صرف پریشان ہیں بلکہ حواس باختہ بھی۔ ایک دوست رحیم یار خان میں ہیلتھ انشورنس والی تقریب میں موجود تھا‘ بتانے لگا کہ میاں صاحب اتنے پریشان اور ٹینشن میں تھے کہ کوئی بچہ بھی ان کی اس حالت کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتا تھا کہ میاں صاحب کی کیفیت کیا ہے۔ وہ دوست کہنے لگا‘ اگر حالت ٹھیک نہ ہو اور پریشانی شکل سے ہویدا ہو تو بندے کو پبلک میں نہیں آنا چاہئے۔ ہر دو منٹ بعد وہ ایک پرچی لکھ کر کہیں بھجواتے تھے اور جوابی ہدایت والی پرچی وصول کرتے تھے۔ گمان غالب ہے کہ وہ یہ پرچی مریم بی بی کو بھجواتے تھے اور وہاں سے مشورہ طلب کرتے تھے۔ واللہ اعلم۔ حقیقت کیا تھی مگر پس پردہ کوئی ایڈوائزر ضرور موجود تھا۔

    ڈان والی سٹوری میں یہ واضح نظر آتا ہے کہ میاں شہباز شریف کو فریق ثانی کے آمنے سامنے لایا گیا اور سارے معاملے کی خرابی کا ملبہ ان پر ڈال کر ان کے تعلقات جو کم از کم میاں نواز شریف کی نسبت فوج سے کہیں بہتر تھے خراب کرنے کی پوری سعی کی گئی ہے اور یہ خاندان کے اندر جاری سیاسی وراثت اور جانشینی کی جنگ کو ظاہر کرتی ہے جو ابھی تک تو کھل کر سامنے نہیں آئی مگر آثار صاف نظر آرہے ہیں۔ بقول شخصے رحیم یار خان کے جلسے میں میاں صاحب کو جو رونا آیا تھا وہ غریبوں کی حالت پر نہیں اپنی موجودہ حالت پر آیا تھا کہ لڑائی چھیڑلی ہے اور ”تپڑ‘‘ ہیں نہیں۔

    حالات خرابی کی طرف جا رہے ہیں اور ان حالات کو اس جگہ کسی اور نے نہیں خود میاں صاحب نے بڑی محنت سے پہنچایا ہے۔ پاناما پر ٹی او آرز بن جاتے تو عمران خان کو سڑکوں پر نکلنے کی ضرورت نہ رہتی کہ معاملہ سڑکوں پر آنے کے بجائے پارلیمنٹ میں طے پا جاتا مگر صورتحال یہ ہے کہ میاں صاحب پارلیمنٹ سے لے کر نیب تک اور ایف آئی سے لے کر عدالتوں تک، ہر ادارے کو عام آدمی کے لیے بے اعتبار کر چکے ہیں اور کسی کو بھی یقین نہیں کہ وہ میاں نواز شریف کے مقابلے میں یہاں سے دادرسی پا سکے گا۔ جب تمام گلیاں بند ہو جائیں تو معاملہ سڑکوں پر آ جاتا ہے اور اب آچکا ہے۔

    جمہوریت اگر میاں نواز شریف کا نام ہے تو وہ اس وقت دباؤ میں ہے (خطرے کا لفظ شاید مناسب نہیں) اور اگر جمہوریت کا مستقبل پارلیمنٹ سے وابستہ ہے تو اسے قطعاً کوئی خطرہ نہیں۔ جمہوریت کا مطلب ہی نظام ہے نہ کہ فرد۔ لیکن ہمارے ہاں عجب جمہوریت ہے جو افراد سے جڑی ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں جب بھی جمہوریت کی بساط لپٹی ہے افراد کی خاطر لپٹی ہے۔ تا ہم اب جمہوریت کی بساط کو نہیں افراد کو مصیبت کا سامنا ہے۔

  • بڑی خبر کا بڑا تنازع۔ حقیقت کیا ہے؟-سلیم صافی

    بڑی خبر کا بڑا تنازع۔ حقیقت کیا ہے؟-سلیم صافی

    saleem safi

    اس حقیقت سے کوئی بڑے سے بڑا شریف بھی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان میں سول ملٹری تنائو کی شکلیں تو بدلتی رہتی ہیں، لیکن ہر دور میں وہ موجود ضروررہتا ہے ۔تاہم شریفوں کے دور میں یہ معمول بعض اوقات حد سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ اپنے ہاتھوں کا تراشا ہوا پتھر اگر بھگوان بننے کی کوشش کرے تو عام بتوں کی بنسبت اس پر زیادہ غصہ آتا ہے۔ اہل صحافت کی صفوں میں بھی اسٹیبلشمنٹ کا زیادہ غصہ ان لوگوں سے متعلق دیکھنے کو ملتا ہے ،جن کو میدان صحافت میں عروج اس کے طفیل حاصل ہوا۔ بدقسمتی سے رائے ونڈ کے شریفوں کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ جب اپنی بلی کے منہ سے اپنے خلاف میائوں میائوں کی آوازیں سنتی ہے تو اسے غصہ بھی کچھ زیادہ آجاتا ہے۔

    دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ شریف نہ تو کھل کر مخالف کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور نہ گجرات کے چوہدریوں یا عمران خان کی طرح شریفانہ طریقے سے اندھی تابعداری کرتے ہیں۔ شریف عدلیہ اورمیڈیا کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی سیاست سے کام لیتے ہیں۔ ضرورت پڑنے یا پھر دبائو آجانے کی صورت میں وہ ہاتھ قدموں میں لے جانے میں دیر نہیں لگاتے لیکن چونکہ تاثر ہے کہ بڑے شریف حد درجہ کینہ پر وربھی ہیں، اس لئے موقع ملتے ہی قدموں میں پڑے ہاتھ گریبان میں لے جانے میں دیر نہیں لگاتے۔یہ بھی تاثر ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے وہ دوبارہ گریبان میں ہاتھ ڈالنے والی پوزیشن میں آگئے تھے اور اداروں کے ساتھ بھی لڑائو اور حکومت کرو والی پالیسی اپنانے لگے تھے۔ اس کا اظہار کبھی وزرا کے بیانات کی صورت میں کیا جاتا ہے، کبھی مختلف عہدوں پر مخصوص قسم کے لوگوں کی تعیناتی کی شکل میں ہوتا ہے تو کبھی کلبھوشن یادیو جیسے ایشوز پر پراسرار خاموشی کی صورت میں۔ دوسری طرف فریق ثانی اپنے طریقے سے اپنا دفاع کرتارہتا ہے۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں کہ جو کم و بیش ہر صحافی اور ہر سیاستدان کے علم میں ہوتے ہیں لیکن بوجوہ کھل کر اس کا ظہار نہیں ہوتا۔ جو صحافی بہت زیادہ بہادر یا پھر ضمیر کے غلام ہوتے ہیں وہ بھی مشکل سے اشاروں کی زبان میں بات کرلیتے ہیں۔ سرکاری طور پر وزیر مشیر دن رات بیانات تو یہ جاری کرتے ہیں کہ فریقین مکمل طور پر ایک صفحے پر ہیں لیکن وہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بول رہے ہیں اور کم وبیش ہر صحافی کو بھی علم ہوتا ہے کہ جو دعویٰ کیا جارہا ہے، وہ حقیقت سے کتنا دورہے۔

    اب کی بار تو بدقسمتی سے میڈیا کی اکثریت بھی دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ایک، ایک کی پراکسی کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور دوسرا، دوسرے کی پراکسی کا۔ اس تناظر میں جب کوئی سورس ،ایسی خبر لے آتا ہے کہ جوسول ملٹری تنائو یا تفریق سے متعلق ہو، تو صحافی بجا طور پر جلدی یقین کرلیتا ہے بلکہ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ہم آہنگی کی علامت کسی خبر پر یقین نہیں کیا جاتا۔ ان حالات میں انگریزی اخبار کے ایک بڑے اور مستند رپورٹر کے پاس خبر لائی گئی اور شاید اسی تناظر میں انہوں نے یقین کرلیاحالانکہ میں نے خبر کی اشاعت یا پھر اس کے بعد اپنے ذرائع سے جو معلومات حاصل کیں، اس کی رو سے میٹنگ میں اگرچہ انہی موضوع پر بات ہوئی تھی لیکن وہ قطعاً اس انداز میں یا پھر تلخ ماحول میں نہیں ہوئی تھی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ یہ موضوعات سول قیادت کی طرف سے اٹھائے گئے تھے بلکہ خود عسکری حکام ایک منصوبہ عمل کے ساتھ اس میٹنگ میں گئے تھے اور جب انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اگلے مرحلے کا منصوبہ عمل سامنے رکھا تو اس پر انتہائی خوشگوار ماحول میں بعض سوالات بھی اٹھائے گئے اور بعض مشکلات کا بھی تذکرہ ہوا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس گفتگو کے دوران بھی سول ملٹری کی تقسیم نہیں تھی کیونکہ بعض سوالات خود عسکری سائیڈ سے اٹھائے گئے اور اسی طرح عسکری سوچ کی نمائندگی بعض وزراء بھی کرتے رہے جبکہ اسی طرح کی بحث کم وبیش کابینہ کی کمیٹی برائے سلامتی جیسے فورمز کی ہر میٹنگ میںمعمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔

    میری اطلاعات کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی یہ تجویز پہلے سے لے کر آئے تھے کہ وفاقی حکومت کے نمائندے کے ساتھ وہ ہر صوبائی ہیڈکوارٹر کا دورہ کریں گے اور وہاں اپنے ادارے کے حکام کو صوبائی حکومتوں کے ساتھ بٹھا کر آگے کا لائحہ عمل طے کریں گے۔ گویا میٹنگ میں انگریزی اخبار کی خبر میں شائع ہونے والے بعض اختلافی موضوعات پر گفتگو ضرورہوئی تھی لیکن نہ توماحول تلخ تھا اور نہ وہاں سول ملٹری کی تقسیم موجود تھی۔ کسی بھی فریق کا انداز طعنے یا ناراضی والا نہیں تھا۔ پھر مکمل ہم آہنگی کے ساتھ آئندہ کا لائحہ عمل بنایا گیا جس کی رو سے صوبائی سطح پر بھی سول ملٹری اداروں کے کوآرڈنیشن کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات ہونے تھے لیکن خبر سے تاثر یہ ملا کہ جیسے انتہائی تلخ ماحول میں ایسی میٹنگ ہوئی کہ جس میں سول ملٹری قیادت دو انتہائوں پر تھی اور جس میں سول قیادت نے ملٹری سائیڈ کو کھری کھری سنائیں۔ ظاہر ہے اس خبر سے کئی حوالے سے نقصان ہوا اور یوں عسکری حلقوں کی ناراضی اور برہمی بلاجواز نہیں تھی۔ پہلا نقصان یہ ہوا کہ ہندوستان کے ساتھ جنگی فضا میں باہر یہ پیغام گیا کہ پاکستان میں سول ملٹری قیادت میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ جو منصوبہ عمل بنایا گیا تھا ،وہ سارے کا سارا سبوتاژ ہوگیا۔ جن لوگوں سے متعلق منصوبہ تھا، ان کو پہلے سے علم ہوگیا اور اس کے لئے جو سول ملٹری ہم آہنگی چاہئے تھی، اس کی طرف قدم تو کیا اٹھتا، الٹا تنائو بڑھ گیا۔

    تیسرا نقصان یہ ہوا کہ اگلے مرحلے میں داخلے کے لئے بعض اہم دوست ملکوں کا بھی دبائو تھا اور ان کے ساتھ کچھ وعدے بھی کئے گئے تھے۔ ان دوست ممالک کو یہ غلط پیغام گیا کہ ان کو جو تاثر دیا گیا تھا، اس کے مطابق عمل کرنے کا ارادہ نہیں ۔اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت پوری قوت کے ساتھ خبر کی تردید کرتی اور ایک دو روز میں تحقیقات مکمل کرکے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرتی لیکن ایسا کرنے کی بجائے معاملے کو تین مختلف تردیدی اور وضاحتی بیانات کے ذریعے مزید خراب کردیا گیا۔ عسکری حلقوں کو یقین ہے اور اس کا اظہار کور کمانڈر ز میٹنگ کے بعد آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں کیا گیا کہ خبرفیڈ (Feed) کی گئی۔ فیڈکرنے والوں کے بارے میں ان کے ہاں یہ قوی خیال ہے کہ وہ حکومتی صف کے بعض اہم ذمہ دار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سارے معاملے کی تحقیق ایک دن میں کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ سانحہ مشرقی پاکستان نہیں کہ جس کے ذمہ داروں کے تعین میں سالوں کی تحقیق درکار ہو لیکن ایسا کرنے کی بجائے حکومت ضدپر اڑ گئی ہے۔

    دوسری طرف حکومتی عہدیدارنجی حلقوںمیں اپنے خلاف سیاسی ہلچل کو ایک بار پھراشارے سے تعبیر کررہے ہیں۔ نتیجتاً پیدا ہونے والی سیاسی بے یقینی اور بداعتمادی کی وجہ سے ملک داخلی اور بالخصوص سفارتی محاذوں پر غیرمعمولی نقصان اٹھارہا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آمنے سامنے بیٹھ کر معاملات کو صاف کرنے اور ضروری اقدامات اٹھانے کی بجائے اب کی بار وزیراعظم صاحب روایتی پراسراریت کی پالیسی پر گامزن ہیں اور ساتھ ہی ساتھ دو نومبر کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینےکے موڈ میں بھی نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جیسے لوگوں کو اس ملک کے نظام کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم جانتے ہیں کہ یہاں آمریت سیاسی ہوتی ہے اور جمہوریت خاندانی آمریت کا دوسرا نام۔ لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ اس وقت چین جتنا پاکستان میں سیاسی استحکام کا متمنی ہے، اتنا امریکہ اورہندوستان، پاکستان میں مارشل لا کا نفاذ چاہتے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ امریکہ نے پھر 1999 والا کام شروع کردیا ہے کہ چور سے کہے چوری کرو اور گھر والے سے کہے بیدار رہو۔

  • چودھری شجاعت والی مٹی؟-ہارون الرشید

    چودھری شجاعت والی مٹی؟-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed
    رحمت للعالمین کا وہی ارشاد: الصدق یُنجی والکذب یہلک۔ سچ نجات دیتا اور جھوٹ ہلاک کرتا ہے۔ سچ سننے کی تاب مگر ہم میں نہیں۔ کسی گروہ میں نہیں۔

    وعدہ نبھانے کا سوال تھا اور ایک مرد شریف سے‘ جس کے خاندان سے 46 برس سے تعلقات ہیں۔ بروقت گھر سے روانہ ہوئے۔ غلطی یہ کی کہ بڑی شاہراہ کی بجائے اس کے پہلو میں‘ قدرے چھوٹی سڑک پہ گاڑی موڑ لی۔ ایک سکول‘ دوسرا اور پھر تیسرا۔ سبھی کے باہر کاروں کی طویل قطاریں۔ جی ہاں‘ عریض بھی‘ تین قطاریں۔ دو اڑھائی کلومیٹر کا فاصلہ باقی تھا۔ ملاقات کے وقت میں پندرہ منٹ باقی تھے‘ اندازہ تھا کہ چھ سات منٹ میں مسافت طے ہو جائے گی۔ سست رفتاری سے‘ مگر پہلے سکول سے سلامت گزرے کہ چوکیدار چوکس تھا۔ دوسرے سے بھی مگر تیسرے پر جا پھنسے۔ ڈیڑھ سال سے‘ ایک سرکاری دفتر میں وہ صابر آدمی ستم جھیل رہا ہے۔ اس پہ ترس آتا ہے اور کبھی کبھار اپنے آپ پہ بھی کہ ہاتھ بٹانے کا پیمان کیوں کر لیا۔ وارداتِ قلبی ہی نہیں‘ کچھ اور معاملات میں بھی وہی رونما ہوتا ہے‘ شاعر نے جس کی دہائی دی تھی ؎

    مجبوری و دعوائے گرفتاریٔ الفت
    دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے

    تین ماہ ہوتے ہیں پروفیسر احمد رفیق اختر برطانیہ‘ سپین اور فرانس کے لیے پا بہ رکاب تھے‘ ناخوش و مجبور۔ عرض کیا: مت جائیے۔ بولے: وعدے کا کیا کروں۔ لوٹ کر آئے تو نڈھال۔ صبر کی بے پایاں توفیق درویش کو عطا ہوتی ہے۔ جھیل گئے۔ ہم سے عامی مگر کیا کریں؟
    فراق نے کہا تھا ؎
    اس دور میں زندگی بشر کی
    بیمار کی رات ہو گئی ہے

    زندگی کا دھاگہ ہمارے سماج میں الجھ گیا ہے‘ اور اس بری طرح کہ کسی طور بھی سلجھتا نہیں۔ وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف کی خدمت میں ایک بار عرض کیا تھا: لوحِ زماں پہ دائم نقش رہنے والے کارنامے الگ‘ اتنی سی عنایت ہو کہ لاہور کی ٹریفک رواں ہو جائے۔ شہر کے قلب میں وہ گندے ڈرامے بند کر دیجئے‘ جس نے ایک پوری نسل کو ذہنی مریض بنا دیا ہے‘ ہزاروں‘ ہزاروں کو۔ بھارتی فلمیں اس کے سوا ہیں‘ آدمی کو جو حیوان بننے کی ترغیب دیتی ہیں۔

    بے یقینی کی گرفت میں جو جیتے ہوں‘ ذہنی سکون سے جو معاشرے محروم ہو جائیں‘ اپنی ترجیحات کا تعین وہ نہیں کر سکتے۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ الجھائو بڑھتا چلا جاتا ہے۔ عدم تحفظ کا نوچ کھانے والا احساس‘ حواس مختل کر دیتا ہے۔ ایسے میں بقا کی غالب آنے والی جبلّت آسیب بن جاتی ہے۔ آدمی پھر آدمی نہیں رہتا‘ وحشی جانور سا ہو جاتا ہے‘ بے رحم بے رحم۔ حیات کا سارا جمال دھل جاتا ہے۔ زندگی بوجھ بن جاتی ہے۔ بازار شکارگاہیں بن جاتے ہیں اور گھر بازار۔ فیض احمد فیض کا شعر سمجھ میں نہ آسکا تھا ‘ اب آیا ؎
    گھر رہیے تو ویرانیٔ دل کھانے کو آوے
    رہ چلے تو ہرگام پہ غوغائے سگاں ہے

    تین عشرے قبل‘ پہلی بار یہ مصرعے سنے تو تعجب ہوا کہ ہمارے عہد کے شائستہ شاعر نے آدمی کو سگ کیسے کہہ دیا۔ پچھلے دو دن اسی خیال میں گزرے۔ تب دوسری صدی ہجری کے ایک عارف کا قول نظر سے گزرا‘ ”شیر جنگلوں میں بھوکے ہیں اور بستیوں میں کتے ہرن کا گوشت کھاتے ہیں‘‘۔

    ظالم حکمران لعنت سہی‘ طوائف الملوکی مگر اس سے بڑی لعنت ہے۔ ہشام بن عبدالملک نے کوفہ کے گورنر کو لکھا کہ منڈی میں غلے کی فروخت روک دی جائے‘ جب تک اس کی جاگیر کا اناج بازار میں پہنچ نہیں جاتا۔ اس گورنر کو ”ابن النصرانیہ‘‘ کہا جاتا‘ مسلمان باپ کا بیٹا مگر زندگی کی آخری سانس تک عیسائی رہنے والی ماں کا فرزند۔ تین چار گنا قیمتیں بڑھ گئیں تو خلقِ خدا میں بغاوت کے آثار اٹھے۔ گورنر بڑا ہی بدبخت تھا۔ مساجد کے مینار گرا دیے تھے کہ مؤذن گھروں میں جھانکتے ہیں۔ ایک افسانہ جو اس کے تعصب نے تراش دیا تھا۔ آخرکار منبر پر وہ نمودار ہوا اور یہ کہا: اس پر لعنت ہو جس کی وجہ سے غلے کی قیمت بڑھی۔ ایک کے بعد بنو اُمیّہ کا دوسرا حکمران تخت پر بیٹھا حتیٰ کہ نوبت خانہ جنگی تک پہنچی۔ پھر بے یقینی کے بطن سے عباسی لشکر نمودار ہوئے۔ سپین کے سوا ہر کہیں بنو اُمیّہ کے چراغ بجھ گئے۔ ان کی ایک بڑی تعداد نے سندھ سمیت دور دراز کی سرزمینوں کو ہجرت کی۔ بھیس بدل گئے اور قبیلوں کے نام تک۔ ظلم‘ وحشت کی آندھی میں پھوٹتا ہے‘ عقل کا دیا جس میں جلتا نہیں۔ نتائج کا ظالم کو ادراک نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر پانچ کروڑ لاشوں پر سوویت یونین میں کمیونزم کی سلطنت تعمیر کرنے والے۔

    پاکستان کا معاملہ مختلف ہے۔ دمشق کے تخت پر عبدالملک براجمان ہوا۔ مسجدِ نبوی میں خطبہ دیا: خلفائے راشدین کے عہد میں مسلمان بے باک ہو گئے‘ حتیٰ کہ ابوبکر صدیقؓ‘ عمر فاروق اعظمؓ اور عثمان غنی ؓ تک کو ٹوک دیتے: اتق اللہ۔ اللہ سے ڈرو۔ کسی نے یہ بات مجھ سے کہی تو گردن اڑا دوں گا۔ حجاج اسی پس منظر میں اٹھا اور حدِ نظر تک لاشیں بچھا دیں۔ مرا تو خواجہ حسن بصری سجدہ ریز ہو گئے۔ کہا‘ بارِ الہا‘ اس ظالم سے‘ جس طرح نجات دی ہے‘ اسی طرح اس کے اثرات بھی تمام کر دے۔ سرکارؐ کا فرمان مگر راہ میں حائل تھا: برائی سے جب روکا نہ جائے گا‘ بھلائی کی جب ترغیب نہ دی جائے گی تو بدترین حاکم تم پر مسلط کیے جائیں گے‘ سخت ترین ایذا وہ تمہیں دیں گے اور تمہارے نیک لوگوں کی دعائیں بھی تب قبول نہ ہوں گی۔ کچھ عرصے بعد‘ صرف سوا دو سال کا استثنا ملا۔ درویشوں کے درویش عمر بن عبدالعزیز کا عہد‘ جب دنیا بہشتِ برّیں سی ہو گئی۔ افتادگانِ خاک سر اٹھا کے جینے لگے۔ رحمۃ اللہ علیہ‘ جنہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھنے کو جی چاہتا ہے۔

    آزادی ہی میں نمود ہے‘ جس طرح ابر و باراں سے ہریالی۔ ڈسپلن کے بغیر کوئی معاشرہ مگر پنپ نہیں سکتا۔ حکمرانوں کے ظلم ہی سے معاشرے نہیں اجڑتے‘ جتھے اگر بن جائیں‘ قبیلوں میں ڈھل کر گروہوں کے گروہ‘ مقابل آ جائیں تو پھر نفرت کی حکمرانی ہوا کرتی ہے‘ تعصبات کی فراوانی‘ اعتدال جس میں روند دیا جاتا ہے‘ عدل تمام ہوتا اور سچائی بے دردی سے ذبح کر دی جاتی ہے۔ زندگی کو خالق نے تنوع میں تخلیق کیا ہے۔ آزمائش اور کشمکش دائمی ہے مگر جتھے داری میں‘ زندگی کا تنوع بھاپ بن کے اڑ جاتا ہے۔ رواداری کا نام تک نہیں رہتا۔ کسی بھی گروہ کے لئے سچائی‘ فقط اس کا اپنا مؤقف رہ جاتی ہے۔ امن باقی نہیں رہتا‘ جو بشر کے لیے اللہ کا سب سے بڑا انعام ہے۔

    خبر یہ ہے کہ متنازعہ خبر کی تحقیقات میں ہونے والے انکشافات ہولناک ہیں۔ سرکاری شخصیات تو ملوث ہیں ہی‘ اخبار نویس اور خود اخبار کے بطن میں کینسر کی علامتیں پائی گئیں۔ اخبار نویس برادری اور ان کی انجمنیں مُصر ہیں کہ آزادی ٔ اظہار پہ حرف نہ آئے۔ حکومت کی آرزو ہے کہ بچ نکلے۔ فوجی قیادت نے اول یلغار کی‘ پھر یہ کہا کہ صحافی سے کوئی غرض اسے ہے اور نہ بنیادی طور پر اخبار سے۔ پورا سچ سننے کو کوئی بھی تیار نہیں۔ چار دن میں تحقیقات مکمل ہونا تھیں۔ قرائن اور شواہد یہ ہیں کہ نسبتاً طویل عرصہ درکار ہوگا۔
    بیرونِ ملک اخبار نویس اور اخبار کے روابط کا سراغ ملا ہے۔ تمام سرزمینیں‘ اخبار نویسوں کے لئے کھلی ہوتی ہیں۔ سب وادیاں‘ سب میدان اور چراگاہیں۔ اصول یہ ہے کہ جوچراگاہ کے اردگرد گھومے گا‘ وہ اس میں داخل بھی ہو سکتا ہے۔ درجنوں داخل ہیں۔ آدمی جی دار ہیں‘ مگر تحقیقات میں وزیر داخلہ پر یقینا ذہنی دبائو ہو گا‘ تینوں طرف سے۔ اب ایک سوال ان کے سامنے ہو گا۔ تمام تر حقائق کھول کر اگر بیان کر دیے جائیں تو سبھی ناشاد ہوں گے۔ سبھی کی غلطیاں ہیں۔ حافظ سعید اور مولانا اظہر مسعود کو گوارا کیا گیا۔

    سازش میں دو تین حکومتی شخصیات ملوث ہیں۔ پوری سچائی بیان ہوئی تو ایک برادری کے طورپر اخبار نویس بھی شاید برہم ہوں۔ اس کے سوا پھر کیا چارہ رہے گا کہ اندر خانہ مفاہمت کر لی جائے۔ قربانی کے بکرے تلاش کیے جائیں اور بھینٹ چڑھا دیے جائیں۔ فوج اور سول میں کشمکش بڑھی ہے۔ بظاہر کپتان کا دھرنا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس سے بڑھ کر مگر ملک کے محافظوں اور منتخب حکمرانوں کی آویزش۔ کوئی دن میں اندازہ ہو گا کہ حقائق آشکار ہوتے ہیں یا چودھری شجاعت والی مٹی ان پر ڈال دی جاتی ہے۔
    رحمت للعالمین کا وہی ارشاد: الصدق یُنجی والکذب یہلک۔ سچ نجات دیتا اور جھوٹ ہلاک کرتا ہے۔ سچ سننے کی تاب مگر ہم میں نہیں۔ کسی گروہ میں نہیں۔

  • وہ جانتا ہے، وہ نہیں جانتا ہے – نوید احمد

    وہ جانتا ہے، وہ نہیں جانتا ہے – نوید احمد

    نوید احمد وہ جانتا ہے کہ انتہائی حساس اور اعلیٰ نوعیت کے اجلاس کی مبینہ تفصیلات قارئین تک پہنچانا آزادی صحافت کا کامریڈ بننے کے لیے کتنا ضروری ہوتا ہے، لیکن وہ نہیں جانتا ہے کہ ہائی پروفائل خبر رپورٹ کرنے کے لیے کتنا احساس اور ذمہ داری درکار ہوتی ہے.

    وہ جانتا ہے کہ نام نہ بتانے کی شرط پر خبر دینے والے ذرائع کس قدر قابل اعتماد، بےخوف اور باوقار ہوتے ہیں، لیکن وہ نہیں جانتا ہے کہ یہ ذرائع اصل میں کس ذریعے کے ذرائع ہوتے ہیں.

    وہ جانتا ہے کہ اعلیٰ حکام کی خبر بریک کرنے کے بعد تصدیق، تردید، اعتراف، انکار، مذمت اور خاموشی جیسے عناصر ترکیبی دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں، نئی بحثیں جنم لیتی ہیں، صحافی کو گوگل پر پذیرائی ملتی ہے، اس کی ریٹنگ کے مینار بلندی کی طرف پرواز کرتے ہیں، بین الاقوامی ایکسپوژر ملتا ہے، لیکن وہ نہیں جانتا ہے کہ صحافی کی اصل طاقت سچائی اور ذمہ داری ہوتی ہے، مقدار کے بجائے اقدار اس کا زیور ہوتا ہے، تخریب اور تشکیک کے بجائے تخلیق اور تحقیق اس کے قد و قامت کا تعین کرتی ہے.

    وہ جانتا ہے کہ کسی اہم شخصیت یا قومی ادارے کے خلاف رپورٹ کرنے کے بعد مذکورہ کی پوزیشن کمزور ہو جاتی ہے، اگر خبری کردار خاموش رہے تو خبر کی تصدیق سے موسوم کر دیا جاتا ہے، اگر ردعمل ظاہر کرے تو غصہ، بغض، عناد اور آزادی اظہار پر قدغن سے تشبیہ دی جاتی ہے، لیکن وہ نہیں جانتا ہے کہ خبر کے لوازمات اگر پورے نہ ہوں تو وہ خبر زیادہ دیر زندہ نہیں رہتی.

    وہ جانتا ہے کہ حکومت اور عسکری قیادت ایک صفحے پر نہیں بلکہ بند کمروں میں ہونے والے اجلاسوں کی روداد مکمل جانتا ہے، لیکن وہ نہیں جانتا ہے کہ اس کے میڈیا گروپ، ایک کاروباری ادارے، قومی ائیرلائن کے سربراہ اور حکومت وقت کا آپس میں کیا تعلق ہے.

    وہ جانتا ہے کہ صحافی اسے کہتے ہیں جس کو پڑوسی ملک سمت مغربی حلقوں سے تائیدی سرٹیفیکیٹ ملے، لیکن وہ نہیں جانتا کہ صحافت دراصل صحیفہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مقدس صفحات کے ہیں.

    وہ جانتا ہے کہ پاکستان کے اکثر ادارے اور شخصیات اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتا کہ میڈیا اس وقت ملک میں طاقت کے حصول کا ذریعہ بن چکا ہے، اور اس کے بعض پیشہ ور کردار اس طاقت کے نشے میں چور ہو چکے ہیں، جو دخل در معقولات کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں.

  • جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر!-رؤف کلاسرہ

    جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر!-رؤف کلاسرہ

    m-bathak.com-1421245675rauf-kalasra
    ایک دفعہ پھر سول ملٹری تعلقات خراب ہو چکے ہیں۔ بے چارے ایک دفعہ پھر کٹہرے میں کھڑے ہیں۔
    مزے کی بات ہے‘ ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ یہی دیکھ لیں کہ ایک دور تھا جب بے نظیر بھٹو نے اپنی پہلی حکومت میں راجیو گاندھی کو اسلام آباد بلایا تھا تو اس وقت کی ملٹری اور انٹیلی جنس قیادت نے انہیں (بینظیر بھٹو کو) سکیورٹی رسک قرار دے دیا تھا۔ کچھ عرصے بعد بینظیر حکومت توڑ دی گئی۔ وہ آخری دم تک سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لیے سکیورٹی رسک رہیں کیونکہ وہ گاندھی خاندان کے قریب سمجھی جاتی تھیں۔ جب راجیو گاندھی قتل ہوئے تھے تو بینظیر بھٹو افسوس کے لیے نیو دہلی گئیں۔ وہاں ان کی ملاقات سابق بھارتی وزیر اعظم آئی کے گجرال سے بھی ہوئی۔ اپنی آٹو بائیوگرافی میں گجرال لکھتے ہیں کہ انہوں نے بینظیر بھٹو کو بتایا کہ ایک دفعہ ان کے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان نے نیو دہلی آ کر یہ دھمکی دی تھی کہ اگر معاملات درست نہ ہوئے تو پاکستان بھارت پر بم مار دے گا۔ گجرال حیران تھے کہ سویلین وزیر اعظم ہوتے ہوئے وہ کیسے اپنے وزیر خارجہ کو یہ دھمکی دے کر بھارت بھیج سکتی تھیں۔ گجرال لکھتے ہیں کہ یہ سن کر بینظیر بھٹو کو جھٹکا سا لگا اور وہ بولیں: بھلا میں کیسے ایٹم بم کی دھمکی دے کر اپنے وزیر خارجہ کو بھارت بھیج سکتی ہوں؟ بعد میں پتا چلا کہ اس وقت کی فوجی قیادت نے وزیر خارجہ کو بھارت کو یہ دھمکی دینے کے لیے بھیجا تھا‘ اور اس پیغام کا وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو علم نہ تھا۔

    اسی بینظیر بھٹو کا بیٹا کشمیر کے الیکشن میں نواز شریف کے خلاف نعرے لگا رہا تھا کہ ‘مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘۔ کبھی یہ نعرہ بینظیر بھٹو کے خلاف لگتا تھا۔ وہی کھیل اب بلاول بھٹو کھیل رہا تھا۔ اپنے اپنے وقت پر دونوں اس وقت کی ملٹری قیادت پر یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ وہ اپنے مخالف سیاستدانوں سے زیادہ محب وطن ہیں‘ اور دوسرا غدار ہے۔
    ہر دور میں اپوزیشن کے سیاستدان فوجی قیادت کو اپنی وفاداریاں ثابت کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ پھانسیاں بھی لگتے ہیں، قتل بھی ہوتے ہیں‘ دہشت گردی کے الزام میں عمر قید کی سزا بھی پاتے ہیں اور جلاوطنی بھی بھگتتے ہیں۔

    سویلین اپنے تئیں کوشش بہت کرتے ہیں‘ پھر بھی کہیں نہ کہیں پھنس جاتے ہیں۔ نواز شریف کچھ زیادہ ہی پھنس جاتے ہیں‘ اگرچہ ماضی میں وہ ہر وقت زرداری اور گیلانی کو طعنے دیتے رہتے تھے کہ وہ ملٹری کے نیچے لگے ہوئے ہیں اور ان کی سکیورٹی اور فارن پالیسی آزاد نہیں ہے‘ اور یہ کہ وہ اگر وزیر اعظم ہوتے تو ان معاملات کو خود چلاتے۔ ایک دفعہ نواز شریف صاحب صدر زرداری سے ملنے ایوان صدر گئے تو باتوں باتوں میں حسبِ عادت زرداری صاحب نے کچھ بڑھکیں ماریں۔ یہ دعویٰ کیا کہ سب کچھ انڈر کنٹرول ہے۔ اس پر نواز شریف نے کہا: جرنیلوں پر زیادہ بھروسہ نہ کرنا۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے نواز شریف صاحب نے ایک واقعہ بھی سنایا تھا‘ جو بعد میں مجھے اس ملاقات کے شرکا نے سنایا۔ نواز شریف صاحب کے بقول‘ ان کے دوسرے دورِ حکومت میں ایک دفعہ ایک اہم وزارت کے سیکرٹری ایک فائل ان کے پاس لائے‘ جو اس وقت کے ایک سرونگ کور کمانڈر کی فیصل آباد میں زمین کو کمرشل بنانے کے حوالے سے تھی۔ نواز شریف ہچکچاہٹ کا شکار ہوئے تو سیکرٹری صاحب بولے: سر آپ کو پتہ ہے کبھی کوئی کام آ جاتا ہے۔ یہ سن کر وزیر اعظم فوراً قائل ہو گئے اور وہ فائل کلیئر کر دی‘ جس سے اس جنرل کو بیٹھے بٹھائے کروڑں روپے کا فائدہ ہوا۔ جب بارہ اکتوبر کی بغاوت ہوئی تو وزیر اعظم کو اسی جنرل نے گرفتار کیا جس کی فائل انہوں نے کلیئر کی تھی۔ نواز شریف صاحب کا کہنا تھا کہ آپ کچھ بھی کر لیں ان جرنیلوں نے کرنا وہی ہے جو ان کا اپنا ایجنڈا ہے۔

    یہ الگ کہانی ہے کہ وہی نواز شریف جو زرداری کو سمجھدار بنانے کی کوشش کر رہے تھے‘ بعد میں میمو گیٹ پر جنرل کیانی اور جنرل پاشا کی دی ہوئی لائن پر چلتے ہوئے سپریم کورٹ جا پہنچے تھے۔ اُس وقت یہ پروا بھی نہ کی گئی کہ قانون کے تقاضوں کے مطابق جب سپریم کورٹ نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے جواب طلب کیے تو یہ جوابات وزارتِ دفاع کو بھیجے جانے چاہئیں تھے‘ اور پھر وہ جوابات وزارتِ دفاع سپریم کورٹ کو بھجواتی‘ لیکن آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے حکومت کو بائی پاس کیا۔ اس پر وزیر اعظم گیلانی نے ایک چینی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ غیر قانونی عمل ہے‘ حکومت کی اجازت کے بغیر یہ جوابات داخل نہیں کرائے جا سکتے۔ اس پر جنرل کیانی سخت ناراض ہوئے اور بعد میں وزیر اعظم گیلانی کو ہی معذرت کرنا پڑی تھی۔
    اس وقت نواز شریف اور شہباز شریف صاحبان جنرل کیانی اور جنرل پاشا کے ساتھ کھڑے تھے۔ کیا نواز شریف، گیلانی اور زرداری کی مخالفت میں سب قاعدے قوانین بھول گئے تھے؟ وہ حکومتِ وقت کو غدار قرار دلوانے کے لیے سپریم کورٹ جا پہنچے تھے۔ انہوں نے اس وقت سویلین کی کوئی فکر نہیں کی تھی۔

    اس سے پہلے نواز شریف صاحب نے لندن میں بینظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تو اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اپوزیشن پارٹیاں کسی بھی سرونگ جنرل سے خفیہ ملاقات نہیں کریں گے۔ لیکن پھر ایک دن خبر نکلی کہ چوہدری نثار علی خان (اپوزیشن لیڈر) اور شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب‘ جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتیں کرتے رہے۔ دو ہزار تیرہ کے الیکشن سے پہلے ان کی بارہ خفیہ ملاقاتیں ہوئیں۔ جب بعد میں رپورٹر اعزاز سید نے یہ خبر بریک کی تو چوہدری نثار نے قومی اسمبلی میں خود اس خبر کی تصدیق کی لیکن وہ رپورٹر پر تبّرہ بھیجنا نہ بھولے۔

    اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جب یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کی گفتگو کچھ اور ہوتی ہے۔ ارشد شریف کو یاد ہو گا کہ دو ہزار سات میں جب نواز شریف لندن میں صحافیوں کو ملتے تھے تو کیا کیا بڑھکیں ماری جاتی تھیں… کیا کیا دعوے کیے جاتے تھے۔ لگتا تھا کہ بندہ بدل گیا ہے اور اگر انہیں موقع مل گیا تو وہ راتوں رات اس ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔نواز شریف صاحب جب بھی صحافیوں سے ملتے تو فخر سے فرماتے کہ انہوں نے ہمیشہ ملٹری قیادت کے ساتھ ٹکر لی‘ چاہے اس کی انہیں کتنی ہی بڑی قمیت کیوں نہ ادا کرنا پڑی ہو۔ شاید ان کا اشارہ اس بات کی طرف ہوتا تھا کہ جنرل مشرف کے ساتھ لڑائی کی وجہ جہاں کارگل کی جنگ تھی‘ وہیں ان دنوں ان کی ایک خفیہ ملاقات اس وقت کے کوئٹہ کے کور کمانڈر جنرل طارق پرویز سے بھی ہوئی تھی۔ جنرل مشرف نے چونکہ خود بھی جنرل کرامت کے مستعفی ہونے کے بعد آرمی چیف بننے سے پہلے‘ نواز شریف سے خفیہ ملاقات کی تھی‘ لہٰذا وہ جانتے تھے نواز شریف اس طرح کی خفیہ ملاقاتیں کس کام کے لیے کرتے ہیں۔ اسی لیے جنرل مشرف نے دوسرے دن ہی جنرل طارق پرویز کی چھٹی کرا دی تھی۔

    اب آتے ہیں موجودہ بحران کی طرف۔ یہ سب جانتے ہیں کہ نواز شریف صاحب کے خیالات ان ایشوز پر واضح ہیں۔ وہ اس خطے میں امن چاہتے ہیں۔ وہ ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے حامی ہیں۔ یہ کریڈٹ ان کو جاتا ہے کہ انہوں نے واجپائی صاحب کو لاہور لا کر اہم پیش رفت کی تھی‘ جب دونوں ملک کشمیر سمیت تمام ایشوز کو حل کرنے پر تیار ہو گئے تھے۔ نواز شریف صاحب کو داد دینا پڑے گی کہ جنرل مشرف کی بھارت کے ساتھ کارگل پر جنگ کو لے کر ان کی حکومت برطرف کی گئی تھی، لیکن جب وہ تیسری دفعہ وزیر اعظم بنے تو مودی صاحب کی دعوت پر نیو دہلی گئے اور ان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ مودی نے نواز شریف کے ساتھ غلط کیا‘ جب بنگلہ دیش جا کر پاکستان کو توڑنے کا کریڈٹ لیا۔ اس سے نواز شریف کمزور ہوئے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر دفعہ مودی صاحب نے نواز شریف کو اپنی باتوں یا حرکتوں سے کمزور کیا‘ اور وہ (نواز شریف) امن کی خواہش دل میں ہی لے کر رہ گئے۔ شاید بھارتی قیادت بھی جانتی ہے کہ پاکستان میں سیاستدانوں کی کوئی نہیں سنتا‘ لہٰذا فوجی حکومتوں میں بھارت کے اندر سکون رہتا ہے۔ بھارت کو علم ہے کہ سیاستدانوں کے تلوں میں تیل نہیں ہے۔

    جس اجلاس کو لے کر طوفان کھڑا ہو گیا ہے کہ اندرونی اجلاس کی کہانی کیسے باہر نکلی، اس پر بھی سیاستدان شرمندہ ہو رہے ہیں۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے۔ چار سابق سفیروں نے کھل کر لکھا ہے کہ ہمارے بارے میں دنیا میں غلط یا درست تاثر پیدا ہو گیا ہے کہ ہمارے نان سٹیٹ ایکٹر بھارت اور افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اسے کیسے دور کیا جائے؟ ہم کب تک انکار کی حالت میں رہیں گے؟ رانا افضل پارلیمانی سیکرٹری نے قائمہ کمیٹی میں جو کہانی سنائی وہ خوفناک ہے کہ فرانس کے دورے میں انہیں اپنے نان سٹیٹ ایکٹرز کے بارے میں کیا کیا کچھ سننا پڑ گیا… اور یہ کہ بنگلہ دیش، سری لنکا، افغانستان کے علاوہ روس، امریکہ اور جرمنی‘ سب بھارت کے موقف کو وزن دے رہے ہیں۔ وہ بھارت کے سرجیکل سٹرائیک کے حق کو مان رہے ہیں۔

    کل رات میں جنرل مشرف کا ایک انٹرویو سن رہا تھا‘ جس میں انہوں نے فرمایا کہ مسعود اظہر کی جیش محمد ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور اسے قتل کرانے کی کوشش اسی تنظیم نے کی تھی۔ اسی گروپ کے لیڈر مسعود اظہر کے خلاف اقوام متحدہ میں کارروائی کو چین نے پاکستان کے کہنے پر ویٹو کر دیا تھا۔ ایسا خطرناک کھیل ہم کیوں کھیل رہے ہیں؟
    حب الوطنی ایک حد کے اندر اچھی لگتی ہے‘ ورنہ جرمن نازی بھی حب الوطنی کے نام پر یورپ کو دوسری جنگ عظیم میں گھسیٹ لے گئے تھے جس میں چھ کروڑ انسان مارے گئے۔
    جہاں تک اس اجلاس کی بات ہے‘ جہاں سے یہ خبر نکلی ہے‘ جس میں پہلی دفعہ کھل کر سیاسی قیادت نے ایک سٹینڈ لیا تھا اور اس کے بعد جس طرح حکومت مکر گئی ہے‘ اس سے مجھے اردو غزل کے غالب کے بعد بڑے شاعر ظفر اقبال کا شعر یاد آ گیا ہے:
    جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر
    آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے!