Tag: حقوق

  • آنے والا دور عورتوں کا ہے – روبینہ فرید

    آنے والا دور عورتوں کا ہے – روبینہ فرید

    کیا سماج کے دانشوروں کو یہ بات آج پتہ چلی ہے کہ ”آنے والا دور عورتوں کا ہے؟“ کیا وہ یہ بات تسلیم کریں گے کہ سالوں پہلے این جی اوز اور امریکن سفارتخانے نے عورتوں کی قوت و اختیارات کے جس نظریے کی کاشت کا عمل شروع کیا تھا، وہ ان کی توجہ اپنی جانب مبذول نہ کرا سکا اور سماج کے اہل دانش نے اسے معمول کا عمل جان کر اس کے اثرات کا اندازہ لگانے میں وہی غفلت برتی جو پاکستانی معاشرے کے مرد اپنی عورتوں کے بارے میں برتتے چلے آئے ہیں۔

    اپنے مطلوبہ اہداف کا شجر اگانے کے لیے خاموشی سے معاشرے اور ذہنوں کی زمینوں میں نظریے کے بیج بوئے جاتے ہیں، مستقل مزاجی سے ان کو نعروں اور سلوگنز کا پانی دیا جاتا ہے۔ دنیاوی مناصب و آسائشات کے لالچ کی کھاد ڈالی جاتی ہے، مزاحم قوتوں کی جڑی بوٹیوں کو الزامات و جارحانہ اقدامات کی کھرپی سے اکھاڑا جاتا ہے۔ مصنوعی خلوص کی گرمی فراہم کی جاتی ہے تب وہ نظریہ جڑ پکڑتا ہے۔ پھوٹنے والی کونپل کو ہر سرد وگرم سے بچایا جاتا ہے یہاں تک کہ کونپل بنیاد مضبوط کر لیتی ہے اور پھر شجر کا اگنا کچھ عرصے کی بات رہ جاتی ہے۔ کسی بھی سماج میں کسی سوچ اور نظریے کو برگ و بار لانے میں آٹھ دس سال کا عرصہ لگ ہی جاتا ہے اور مزید آٹھ دس سال بعد اس کے اثرات رنگ لانے لگتے ہیں۔

    بیجنگ کانفرنس، بیجنگ 5+ کانفرنس، CEDAW، GRAP اور ملینئیم گول کے نام سے عورت کی کلی آزادی و اختیارات کی سوچ اگرچہ پوری دنیا کی عورتوں کی دی گئی لیکن مسلم ممالک کی عورتیں اس کا خاص ہدف بنائی گئیں جہاں خاندانی نظام کی مضبوطی کو اہل باطل نے اپنے لیے ایک چیلنج قرار دیا۔

    پاکستانی عورت کو اللہ نے بہترین صفات سے نوازا۔ خلوص، وفا، محبت، قناعت، محنت جس کا ورثہ تھے جو عزت دینے والی اور گھروں اور دلوں کو جوڑ کر رکھنے والی تھی۔ اللہ نے اپنی شریعت میں عورت کو ہر طرح کا معاشرتی و معاشی تحفظ فراہم کیا لیکن ہمارے معاشرے کے مردوں نے اسے سختی سے اپنے زیر اثر رکھنے کو اپنا حق سمجھا۔ اللہ نے مرد کو قوام بنا کر عورت کا محافظ بنایا تھا لیکن مرد عورت کے حاکم بن گئے۔
    لڑکیوں نے آگے پڑھنا چاہا تو کہا گیا ”تمہیں اتنا پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ آگے جا کر گھر داری ہی تو کرنی ہے۔“
    شادی ہو گئی تو شوہر نے جانا کہ مہر تو بس طلاق کے وقت ہی دیا جانے والا حق ہے، نان نفقہ کی خواہش کی تو جواب ملا کہ ”جب ساری ضرورتیں پوری ہو رہی ہیں تو الگ سے پیسوں کی ضرورت کیوں ہے؟“
    وراثت تقسیم ہوئی تو بھائیوں نے کہا ”بہنیں جہیز لے چکیں اب انہیں وراثت کی کیا ضرورت ہے؟“
    گھر میں سب سے پہلے اٹھنے اور سب سے آخر میں سونے والی ہستی سے جہاں خدمت میں کوئی کوتاہی ہو گئی تو فورا یہ تلخ جملے سننے کو ملے کہ ”تم گھر میں رہ کر آخر کرتی کیا ہو؟“
    کسی بات میں اپنی رائے دینے کی جسارت کی تو سننے کو ملا کہ ”تمہیں باہر کا کیا پتہ، اپنے گھر کی خبر لو۔“
    مرد نے اپنے کما کر لانے کو اپنا ایسا فخر گردانا کہ گھر بیٹھی عورت کی ساری کارگزاری اس کے آگے حقیر ٹھہری اور یہ بھول گیا کہ کمانا ہی سب سے بڑا کام تھا تو اللہ نے ماں کا درجہ باپ سے تین گنا زیادہ کیوں رکھا؟

    اللہ نے مرد و عورت کو یکساں عزت و احترام کا مستحق ٹھہرایا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں عورت اکثر و بیشتر اس حق سے محروم ہی پائی گئی۔ اور اس کی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات پر عمل سے دوری رہی۔ البتہ وہ گھرانے جو اسلامی اصولوں کے مطابق اپنے رشتوں کو نبھاتے رہے، رشتوں کی مٹھاس سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ جہاں باپ بیٹی کا ماتھا چومنے والے، بیوی کو عزت و احترام دینے والے، والدین کی خدمت کرنے والے ہوتے ہیں وہاں اولاد بھی سعادت مند اور فرمانبردار ہوتی ہے۔ لیکن معاشرے کی اکثریت عورت کے معاملہ میں افراط و تفریط کا شکار رہی ہے۔ جب عورت کے صبر، ایثار، قربانی اور قناعت کو اس کی مجبوری سمجھ لیا گیا تو ایسے میں جب اس کے سامنے ایسے مسیحا آئے جنہوں نے اس کے حقوق، اس کی آزادی، اس کے اختیارات کی بات کی تو اس کی آنکھوں میں تو خوابوں کا ابھرنا لازمی امر تھا۔ کوئی غنیم نقب نہیں لگا سکتا جب تک قلعہ کی فصیل کمزور نہ ہو۔ اور جب اس طرح ایک دبایا جانے والا سپرنگ وزن سے آزادی پاتا ہے تو اپنی اصل سے بھی باہر نکل جاتا ہے۔ اسی طرح جب پاکستان کی عورتوں نے آزادی کی راہ پر چلنا شروع کیا تو آج وہ ہمیں حد اعتدال سے باہر جاتی نظر آ رہی ہیں۔ مائوں نے سوچا کہ جو خوشی اور حقوق ہم نہ پا سکے چلو وہ ہماری بیٹیاں تو پا لیں۔ سماج کے دانشوروں کو آنکھوں کی پتلیاں نہ دھونی پڑتیں اگر وہ اس بیس سال کے عرصے میں عورت کو اسلام کے عطا کردہ تمام حقوق عطا کرنے کی مہم چلا دیتے۔ اس کے گھر اور بچے سنبھالنے اور چلانے پر اس کی قدردانی کرتے۔ اس کے حاکم بننے کے بجائے محافظ بنتے۔ اس کے لیے اس کی فطرت کے مطابق نصاب تعلیم تشکیل دیتے، اس کی کچھ کر گزرنے کی خواہش کے لیے ایسے ادارے بناتے جہاں وہ اپنے ہنر اور صلاحیتوں کو مطابق کام کرنے کے لیے آزاد ہوتی۔ اس کو وہ عزت اور احترام دیتے جس کی وہ مستحق تھی۔

    المیہ تو یہ ہے کہ ترقی و آزادی کے جس سراب کے پیچھے پاکستانی عورت بھاگ رہی ہے وہاں پہنچ کر بھی اس کی تشنگی ختم نہیں ہو گی۔ حاکمیت عورت کی فطرت کے خلاف ہے۔ وہ اپنے مرد کو ہمیشہ اپنے سے اوپر اور اپنا محافظ دیکھنا چاہتی ہے۔ ایک اعلی تعلیم یافتہ مرد تو میٹرک پاس بیوی کے ساتھ بھی ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکتا ہے اور کر لیتا ہے لیکن ایک اعلی تعلیم یافتہ لڑکی ایک کم پڑھے لکھے مرد کے ساتھ ذہنی مطابقت پیدا نہیں کر پاتی۔ آج جبکہ لڑکیاں تعلیم کے ہر شعبہ میں اپنی فوقیت کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں اور معاش کی دوڑ میں مردوں سے آگے نکلتی جا رہی ہیں، اس امر سے غافل ہیں کہ اس طرح معاشرے میں خاندان نہ بن سکنے، شادیاں نہ ہونے یا شادیاں قائم نہ رہ جانے کا خلا پیدا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آج معاشی خود انحصاری کے زعم میں گرفتار عورت گھر کو قائم رکھنے کے لیے ایثار و قربانی و مصالحت کے جذبوں سے نا آشنا ہوتی جا رہی ہے، حالانکہ یہ صفات اس کا اثاثہ تھیں۔ مردوں کے دائرے میں آ کر ان کا مقابلہ کرنے کی خواہش نے اس میں مردانہ پن اور مردوں کے کمزور کاندھوں نے اس کے اندر زنانہ پن پیدا کر دیا ہے جو معاشرے کی تباہی کی علامت ہے۔ اہل دانش تو بہت پہلے بتا گئے ہیں کہ
    جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نا زن
    اس علم کو کہتے ہیں ارباب نظر موت

    آج ضرورت اس بات کی ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں دونوں کی کونسلنگ کی جائے۔ ان پر حقیقی خوشی اور کامیابی کے تصور کو واضح کیا جائے۔ نصاب تعلیم میں معاشرے کی ضرورت کے مطابق عنوانات کو شامل کیا جائے۔ خاندانی نظام کی اہمیت اور قدر و قیمت کو ان کو سامنے لایا جائے اور ایسا نظام بنایا جائے جہاں اگر عورت اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہے تو اپنے خاندان کے ساتھ جڑے رہ کر بھی کام کر سکے۔ اسلام کے عطا کردہ تحفظ اور حقوق کی ادائیگی کو اجتماعی عمل کا حصہ بنایا جائے۔ مادی ترقی سے زیادہ روحانی ترقی کو ہدف بنایا جائے۔ اور اس بات کا سبق دیا جائے کہ خوشی پیسے میں نہیں، نیکی میں پوشیدہ ہے۔

    (روبینہ فرید کیمسٹری اور اسلامیات میں ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہیں، ورکنگ ویمن کی فلاح کے لیے کام کرنے والی این جی او سے گذشتہ سولہ سال سے وابستہ ہیں، خواتین کی آگہی و شعور میں اضافہ کے لیے تدریسی اور تحریری محاذ پر سرگرم مصنفہ ہیں، دو کتابیں مرتب کر کے شائع کیں۔ سماجی مسائل اور عورت کے موضوع پر پچھلے بیس سال سے قلمی جدوجہد میں مصروف ہیں)

  • ہم نئی تاریخ کب بنائیں گے؟-حامد میر

    ہم نئی تاریخ کب بنائیں گے؟-حامد میر

    hamid_mir1

    دوسال پہلے عادل کرمچی نے فرانس سے شام جانے کی کوشش کی لیکن اسے راستے میں گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتاری کے وقت اس کی عمر صرف سترہ سال تھی۔ فرنچ پولیس نے اسے ایک ممکنہ دہشت گرد قرار دیکر جیل بھیج دیا لیکن عدالت اس کے خلاف ثبوت مانگتی رہی۔ کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کئے جانے کے باعث عدالت نے اسے ہر ہفتے ویک اینڈ خاندان کے ساتھ گزارنے کی اجازت دیدی تاہم پولیس نے اس کے جسم پر الیکٹرانک ڈیوائس لگانے کا فیصلہ کیا تاکہ اس کی نقل و حرکت کی نگرانی کی جاسکے۔

    فرانس کے علاقے نارمن ڈے سے تعلق رکھنے والے عادل کرمچی نے عدالت سے ملنے والی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ایک ساتھی عبدالمالک سے رابطہ کیا اور پھر دونوں نے نارمن ڈے کے ایک چرچ پر حملے کا فیصلہ کیا۔ 26 جولائی کو یہ دونوں نارمن ڈے کے ایک چرچ میں گھس گئے۔ چرچ میں 86 سالہ پادری فادر جیکوئس حمل اور تین عورتیں موجود تھیں۔ چاقوئوں سے مسلح عادل کرمچی اور عبدالمالک نے بوڑھے پادری کو آسانی سے قابو کر کے ان کا گلا کاٹ دیا۔ اس دوران ایک عورت بھاگنے میں کامیاب ہوگئی اور اس نے سیکورٹی الارم بجا دیا جس کے بعد پولیس موقع پر پہنچ گئی اور پولیس نے فرار کی کوشش کرنے والے دونوں حملہ آوروں کو گولی مار دی۔ دونوں کی عمریں انیس سال تھیں۔ دونوں فرانس میں پیدا ہوئے تھے۔ دونوں کا تعلق بربر عرب گھرانوں سے تھا۔ دونوں کے بزرگ شمالی افریقہ سے ہجرت کر کے فرانس میں آئے تھے۔

    نارمن ڈے میں آباد مسلمانوں نے فادر جیکوئس حمل کے قتل پر بطور احتجاج عادل کومچی اور عبدالمالک کو اپنے مقامی قبرستان میں دفن کرنے سے انکار کردیا۔ نارمن ڈے کی مسجد کے امام محمد کاربیلا نے اپنی ہی برادری کے ان دونوں مسلمان حملہ آوروں کا جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا۔ فادر جیکوئس حمل کے قتل کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی لیکن داعش نے یہ نہیں بتایا کہ ایک 86 سالہ پادری کو قتل کرانے کی کیا وجہ تھی؟ اس سے قبل نیس میں ایک ٹرک ڈرائیور نے 80 افراد کو روند ڈالا تھا۔ فرانس میں ہونے والے ان حملوں کے بعد سے پورے یورپ میں مسلمانوں کو شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔

    ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف تو شام سے ہجرت کرنے والے لاکھوں مسلمان یورپ میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں دوسری طرف داعش کی جانب سے ان یورپی ممالک کو مسلمانوں کیلئے غیر محفوظ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فرانس اور جرمنی میں مسلمان لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں۔ فرانس میں آباد مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق الجزائر، مراکش اور تیونس سے ہے۔ حالیہ حملوں کے بعد فرانس کی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف اندھا دھند کریک ڈائون کرنے کی بجائے ان کے ساتھ مل کردہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کے باوجود فرانس سمیت مختلف یورپی ممالک میں سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ مغرب میں آبا دمسلمان اپنے لئے جو حقوق اور آزادی مانگتے ہیں کیا انہوں نے یہ حقوق اور آزادی مسلم ممالک میں آباد غیر مسلموں کو دے رکھی ہے؟ طعنہ زنی کرنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ امریکا کے مسلمان ڈونلڈ ٹرمپ سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں؟ کہیں انہیں یہ خطرہ تو نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کا صدر بن گیا تو اپنے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو مسلم ممالک میں غیر مسلموں کے ساتھ کیا جاتا ہے؟

    مذکورہ بالا سوالات اٹھانے والے پڑھے لکھے جاہل کچھ مسلم ممالک کی حکومتوں کی پالیسی پر اعتراض کرنے میں حق بجانب ہوسکتے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ دین اسلام نے ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو ہر قسم کے حقوق دیئے ہیں۔ اگر کسی مسلم معاشرے میں غیر مسلموں کو ان کے تمام حقوق نہیں ملتے تو یہ اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی ہے۔ آجکل مغربی میڈیا میں ڈونلڈ ٹرمپ کو چیلنج کرنے والے ایک پاکستانی نژاد مسلمان خضر خان کو بڑی اہمیت دی جارہی ہے جس نے ٹی وی کیمروں کے سامنے امریکی آئین کا حوالہ دیکر ٹرمپ کو کہا کہ اس آئین نے مجھے جو حقوق دیئے ہیں انہیں جاننے کیلئے تم بھی اس آئین کا مطالعہ کرو۔ خضر خان کا بیٹا کیپٹن ہمایوں خان 2004ء میں عراق میں فوجی خدمات سرانجام دیتے ہوئے ایک خودکش حملے کی نذر ہوگیا تھا۔ خضر خان کی وجہ سے صرف امریکا میں نہیں بلکہ تمام مغربی ممالک میں آباد مسلمانوں کو کچھ نہ کچھ ذہنی ریلیف ملا ہے

    لیکن یہ ریلیف وقتی ہے۔ کچھ انتہا پسند تنظیموں کی یہ کوشش ہوگی کہ کسی نہ کسی طریقے سے مغربی حکومتوں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے لایا جائے کیونکہ یہ لڑائی شروع ہونے کے بعد ہی ان تنظیموں کو زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل ہوسکتی ہے لہٰذا اپنے مقصد کے حصول کیلئے یہ تنظیمیں مغربی ممالک میں مسلمان نوجوانوں کو قتل و غارت کیلئے استعمال کرنے کی کوشش جاری رکھیں گی۔

    بہت سے مسلم ممالک پہلے سے داخلی مسائل کا شکار ہیں۔ مغرب اور مسلمانوں میں محاذ آرائی بڑھی تو اس کا اثر کئی مسلم ممالک پر بھی پڑے گا اور وہاں بھی مغرب سے محاذ آرائی کے حامیوں کو تقویت حاصل ہوگی۔ خدانخواستہ حالات بگڑ گئے تو سب سے زیادہ نقصان کس کا ہوگا؟ سب سے زیادہ نقصان غیر مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کو ہوگا۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر مسلمانوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے والی تنظیموں کے علاوہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو بھی سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ معاملہ بہت نازک اور پیچیدہ ہے۔ ماضی کی نوآبادیاتی طاقتوں نے اپنے غلاموں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ ایک زمانے میں الجزائر بھی فرانس کی نوآبادی تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنوں کو شکست دینے والا چارلس ڈیگال الجزائر کی تحریک آزادی کا مقابلہ نہ کر پایا اور 1962ء میں الجزائر نے آزادی حاصل کرلی۔ تاریخ صرف یہ نہیں بتاتی کہ فرانس کی فوج نے الجزائر کی تحریک آزادی کے مجاہدین پر بہت ظلم کئے۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ فرانس کے مسلمانوں نے پہلی جنگ عظیم میں فرانس کی فوج کے ساتھ مل کر جرمنی کا مقابلہ کیا اور اس جنگ میں مارے گئے لاکھوں مسلمانوں کی یاد میں 1926ء میں پیرس کی سب سے بڑی جامع مسجد بنائی گئی تھی۔ اس مسجد میں دوسری جنگ عظیم کے دوران پیرس کے یہودیوں کو پناہ دی جاتی رہی اور بہت سے جرمنوں نے ہٹلر کے ظلم سے بچنے کیلئے اس مسجد سے مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ یہ مسجد آج بھی فرانس کے مسلمانوں کا فخر ہے۔

    تاریخ بڑی ظالم چیز ہے۔ لندن کے لوگوں نے ایک مسلمان صادق خان کو اپنا میئر بنا کر نئی تاریخ بنا دی ہے۔ اب اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو بھی ایک نئی تاریخ بنانے کی ضرورت ہے۔ جس طرح ایک امریکی مسلمان خضر خان نے پوری دنیا کو بتایا کہ امریکی آئین نے مسلمانوں کو وہی حقوق دیئے ہیں جو غیر مسلموں کو حاصل ہیں اسی طرح او آئی سی کو بھی یہ بتانا ہے کہ اسلام نے غیر مسلم اقلیتوں کو بہت سے حقوق دیئے ہیں اور ایک مسلمان کا خون غیر مسلم کے خون کے برابر ہے۔ او آئی سی کو تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اور اسکالرز کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد ایک مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی۔ دنیا کو بتانا ہوگا کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے جس میں بے گناہوں کے قتل کی کوئی گنجائش نہیں۔ غیر مسلم معاشروں میں مسلمانوں کو حقوق ملیں یا نہ ملیں لیکن او آئی سی اپنے رکن ممالک سے مطالبہ کرے کہ وہ مسلم ممالک میں غیر مسلموں کو وہ تمام حقوق دیں جو مسلمان شہری غیر مسلم ممالک میں مانگتے ہیں.

  • میرا سوال آپ سے ہے – احمد بلال

    میرا سوال آپ سے ہے – احمد بلال

    احمد بلال پاکستان کو بنے 69 سال ہوچکے ہیں اور ہم اب تک نظریاتی کشمکش کا شکار ہیں. ہم نہیں سمجھ سکے کہ کون سا نظام ہمارے لیے سودمند ہے؟ وہ کون سی اقدار ہیں جن پہ عمل پیرا ہونے سے ہم کسی مثبت نتیجے پہ پہنچ سکتے ہیں؟ کب ہماری زندگی میں تمدن کی کوئی راہ ہموار ہوگی؟ یہ سوال بہرحال موجود ہے اور رہے گا، جب تک کہ ہماری قومی زندگی ہیجان سے نکل کر کسی ایک راستے پہ گامزن نہیں ہو جاتی.

    آج کل بہت شور اٹھ رہا ہے اور سوشل میڈیا سے لے کر ٹی وی ٹاک شوز تک ہر طرف فوج کے آنے اور جمہوریت ڈی ریل ہونے کے حق اور مخالفت میں دلیلیں دی جا رہی ہیں. پاکستان نے جمہوریت اور آمریت کے کم و بیش 35،35 سال برداشت کیے ہیں تو کون سا دوراقتدار ایسا تھا جس کے اختتام پہ لوگوں نے خوشی نہیں منائی؟ کون سی ایسی حکومت تھی جس کے خاتمے کے بعد عوام نے سکھ کا سانس نہیں لیا؟ کون سا ایسا سیاست دان یا آمر تھا جس کا انجام قابل رشک ہوا؟

    ہماری مثال اس بیل کی سی ہے جس کی ایک ٹانگ رسی سے بندھی ہو اور رسی کا دوسرا سرا ایک کھونٹی سے باندھا ہو اور وہ مسلسل دوڑ رہا ہو لیکن خود کو ہلکان کرنے کے بعد بھی سمجھ نہ پا رہا ہو کہ وہ ادھر کا ادھر ہی کھڑا ہے جہاں سے اس نے عرق ریزی شروع کی تھی. ہم ایسی بحثوں کا شکار ہوئے ہیں جو ہمارے لیے کسی کام کی نہیں ہیں. یہ بات کہنا کہ فوج آجائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن کیا ہم ہمیشہ کے لیے اس نظام کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جنرل راحیل شریف نے فوج کے وقار کو بحال کیا ہے اور دہشت گردی کے معاملے میں ان کی حکمت عملی قابل تحسین ہے، لیکن کیا وہ نظام حکومت بھی ایسے ہی چلا سکیں گے؟ کیا ہمیں ہمیشہ راحیل شریف جیسے جنرل میسر ہوں گے؟ یقینا نہیں کہ قدرت کا قانون ہی ایسا ہے، تو گویا پھر سے جمہوری نظام کو عوام اپنا نجات دہندہ گردانے گی؟ کیا ہم پھر سے اس روش کے متحمل ہوسکتے ہیں جسے قیام پاکستان سے 2008 تک جاری رکھا گیا؟

    اس میں کوئی شک نہیں کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے. لیکن یہ نعرہ لگا کر کہیں ہم کسی مغالطہ کا شکار تو نہیں ہو رہے؟ ذر ا پنے اردگرد نظر دوڑائیے، کیا جمہوریت ایسی ہوتی ہے؟ جمہوریت کا مطلب جمہور یعنی عوام کی حکومت، لیکن یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں سب سے زیادہ حقوق کی پامالی بھی جمہور کی ہو رہی ہے. کیا اس جمہوری نظام میں امید بھی کی جا سکتی ہے کہ کوئی حقیقی عوامی نمائندہ جو عوام میں سے ہو، اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکتا ہے؟ پہنچنا تو دور کی بات ہے عام آدمی کے لیے تو الیکشن لڑنے کا تصور کرنا بھی محال ہے. جب جمہوریت ملوکیت کا روپ دھارنے لگے اور وہی سرمایہ دار، جاگیر دار ، صنعت کار لوگوں پر بار بار مسلط ہو رہے ہوں تو ایسا جمہوری نظام بھی بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے! عوام کو سوچنا چاہیے کہ وہ نظام جس کی بنیاد عوام ہیں، اگر اس میں عوام کی نمائندگی ہی نہیں تو یہ کیسے ان کے مفاد کی حفاظت کر سکتی ہے؟

    “جمہوریت بہتر نظام زندگی ہے” کے دعوے کے اثبات کے لیے سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جمہوریت میں مفاد کا مرکز عوام ہوتی ہے جبکہ آمریت میں ایک شخص عوامی مفاد کا ٹھیکے دار بنا ہوتا ہے. مگر پاکستانی قوم نے جمہوریت اور آمریت، دونوں کے نام پہ موقع پرست ہی دیکھے ہیں جن کا مقصد محض طاقت کا حصول تھا. ایک سپہ سالار کے لیے اس کی کارکردگی کا امتحان وہ میدان ہوتا ہے جہاں وہ اپنی طاقت سے معرکہ آرائی کرتا ہے، اس تناظر میں وہ ریاستی معاملات کو بھی اسی طرح چلانے کی کوشش کرتا ہے، جس کی کوئی قوم متحمل نہیں ہو سکتی. اسی طرح سرمایہ دار اور جاگیردار سیاستدانوں کی سوچ کی گاڑی کاروباری نفع نقصان کے گرد گھومتی ہے، قوم اور عوام کا نفع نقصان ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتا. دونوں طرح کے لوگ پبلک آفس کے لیے موزوں نہیں ہوسکتے، اگر وہ ہوتے ہیں تو حال ہمارے ملک جیسا ہوتا ہے. مشرف آمریت کے بعد جمہوریت کو آئے ہوئے اب 9 سال ہونے کو ہیں، مگر کیا ایسی جمہوریت کا متحمل ہوا جا سکتا ہے جس میں مثبت پیش رفت کا سفر جامد ہونے کی حد تک آہستہ ہو؟ کب تک عوامی ووٹ سے منتخب ہونے والے نمائندے اپنے ہی ووٹرز کے سامنے جواب دہی کے احساس سے بے پروا رہیں گے؟ کب تک عوام کی قسمت میں مستقبل کے سہانے خواب ہی باندھے جائیں گے؟

    اب وقت بدل رہا ہے، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا نے زندگی میں ماضی جیسا ٹھہراؤ ختم کر دیا ہے. اب لوگ صرف امید کے سہارے کسی بھی نظام کے ساتھ صبر وتحمل سے جڑے نہیں رہ سکتے. لوگ سوال اٹھائیں گے اور اپنی فہم کے مطابق تنقید بھی کریں گے اورممکنہ راستے کریدنے کی تگ و دو بھی. ماضی کو کبھی بدلا نہیں جا سکتا. آمریت اور جمہوریت کے حق میں دلیلیں دینے والے اپنے پسندیدہ نظام کو بہتر ثابت کرنے میں کوشاں ہیں مگر عام آدمی کا استحصال جو گزشتہ سات دہائیوں سے ہو رہا ہے، اسے کس طرح جسٹیفائی کریں گے؟ چاہے جمہوریت ہو یا آمریت، دونوں ادوار میں مختلف طبقات نے صعوبتیں برداشت کی ہیں. عام آدمی کی حالت نہ جمہوریت میں بدلی نہ آمریت میں. ابراہم لنکن نے کہا تھا ” آپ سب لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے بےوقوف بنا سکتے ہیں، کچھ لوگوں کو ہمیشہ بےوقوف بنا سکتے ہیں لیکن آپ ہمیشہ کے لیے سب لوگوں کو بےوقوف نہیں بنا سکتے” ۔ اب ہمیشہ جیسا ہوتا آیا ہے ویسا نہیں ہو سکتا، ماضی کی طرح لوگ اب مٹھائیاں تقسیم نہیں کریں گے. عام آدمی کی حالت نہ بدلی تو وہ جمہوریت ہو یا آمریت، دونوں کے انتقال پہ سکھ کا سانس لے گا. عام آدمی کا مفاد اس کے بنیادی حقوق اور بنیادی ضرورتوں سے جڑا ہوا ہے. جمہوریت کی زندگی جمہور سے مشروط ہے. وقت آ گیا ہے کہ عام آدمی اپنے حق کےلیے کھڑا ہو، آواز بلند کرے، اور فرسودہ جمہوری نظام کو بدلنے کی کوشش کرے. آخر کب تک ہم اس مسخ شدہ موروثی جمہوری بت کی پوجا کرتے رہیں گے؟