Tag: حزب اسلامی

  • جنرل حمید گل کیا کرتے؟- رؤف کلاسرہ

    جنرل حمید گل کیا کرتے؟- رؤف کلاسرہ

    m-bathak.com-1421245675rauf-kalasra مجھے نہیں معلوم آج اگر مرحوم جنرل حمید گل زندہ ہوتے تو ان کا رد عمل کیا ہوتا؟ تاہم ان کے مداح میجر عامر مل گئے اور ان سے ہی پوچھ لیا۔ میجر عامر کے بعد لنچ پر اپنے پیارے دوست اور ٹی وی اینکر سے بھی پوچھا کہ ہماری ساری توجہ بھارت پر ہے لیکن یہ کابل میں کیا ہوا ہے؟ وہ بے ساختہ بولے گلبدین حکمت یار کو عقل آ گئی ہوگی۔

    اس ایک جملے میں اس دوست نے دریا کوزے میں بند کر دیا۔ میں نے اجازت چاہی کہ یہ جملہ تمہارے نام سے کالم میں لکھ دوں۔ دوست بولا: ہرگز نہیں۔ میں نے مایوس نظروں سے دوست کو دیکھ کر کہا، اگر تمہارے جیسا سمجھدار، فارن کوالیفائیڈ اور بہادر اینکر بھی سچی بات کہنے سے ڈرتا ہے اور وہی کہنا چاہتا ہے جو ہماری اسٹیبلشمنٹ یا عوام سننا چاہتے ہیں تو پھر کس سے شکایت کی جائے؟

    وہ ہنس کر بولا، اگر میرے نام سے فقرہ منسوب کرنا ہے تو پھر کچھ اور بتاتا ہوں۔ میں نے کہا، یار رہنے دے۔ پاپولر جرنلزم کا کیا فائدہ جو بلے بلے کرانے کے لیے کی جائے، صرف وہ بات کی جائے جسے سن کر سب تالیاں بجائیں؛ حالانکہ تم جانتے ہو کہ تالیوں کا نقصان عوام ہی کو ہوگا۔ سچی بات وہی تھی جو پہلے بے ساختہ تمہارے منہ سے نکل گئی کہ حکمت یار کو عقل آگئی ہوگی۔

    میجر عامر سے کافی دنوں بعد اتفاقاً ملاقات ہوگئی۔ اسلام آباد میں ان کا گھر ایسے مہمان نواز پختون کا روایتی ڈیرہ ہے جس کی چھت کے نیچے آگ اور پانی اکٹھے ہوتے ہیں۔ وہاں آپ کو ہر شام ہر قسم کا ہجوم ملتا ہے۔ حیران ہوتا ہوں، اس پختون کا دل کتنا بڑا ہے اور وہ کیسے اس خدائی لنگر کا خرچہ برداشت کرتا ہے۔ ان سے میرے تعلق کو دس برس بیت گئے ہیں، مجال ہے کسی رات میں نے ان کے گھر دس سے کم مہمان دیکھے ہوں۔ اسلام آباد میں صحافت کرنی ہو تو میجر عامر کے ڈیرے کا چکر ضرور لگانا پڑتا ہے۔ وہاں سیاستدان، صحافی، ریٹائرڈ فوجی، سول افسر اور عام آدمی سمیت سبھی سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ وہ دوستی نبھانے کا فن جانتے ہیں۔ وہاں آپ کو ہر رنگ اور ہر نسل کا انسان ملے گا۔ اکثر اپنے والد مرحوم کا قول سناتے ہیں: جو دوستی تیس سال میں بنتی ہے اسے ٹوٹنے میں بھی تیس برس لگنے چاہییں۔ اگر کبھی کسی بات پر میرے جیسا کوئی دوست کچھ دن ڈیرے پر نہ جائے تو اپنی انا کا پہاڑسامنے نہیں آنے دیں گے، خود ہی فون کر کے اپنے والد کا قول دہرا کر کہیں گے بدبخت! اب اتنی بھی کیا ناراضگی ہے!

    خبر میجر عامر کے ڈیرے سے ہی سے نکلتی ہے۔ بقول کالم نگار دوست ہارون الرشید خبر میجر عامر کو سونگھتی اور ڈھونڈتی پھرتی ہے۔ میں نے اپنے دوست کالم نگار ارشاد بھٹی کو کہا، میجر عامر جیسے افسروں کو ریٹائر نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح میں سمجھتا تھا، ڈاکٹر ظفر الطاف اور طارق کھوسہ جیسے افسروں کو بھی ریٹائر نہیں ہونا چاہیے تھا۔

    میں نے میجر عامر سے کہا، آپ افغان جنگ کے دوران آئی ایس آئی میں تھے جو اس آپریشن کو ہینڈل کر رہی تھی۔گلبدین حکمت یار کبھی پاکستان کا افغانستان میں اثاثہ سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے اب کابل کے ساتھ اس وقت امن معاہدے پر دستخط کیے ہیں جب اشرف غنی اور ان کے ساتھی سارک اجلاس میں اس لیے شریک نہیں ہوئے کہ بھارت ناراض تھا۔ آپ اس صورت حال کو کیسے دیکھتے ہیں؟ میجر عامر کا جواب سن کر میں تھوڑا حیران ہوا کیونکہ وہ بولے گلبدین حکمت یار نے بالکل درست کیا ہے۔ اب وقت بدل گیا ہے۔ تیس برس قبل حالات کچھ اور تھے اب اور ہیں۔ میجر عامر مجھے کافی دیر سمجھاتے رہے، اس معاہدے کے کتنے اچھے اثرات ہوسکتے ہیں، پاکستان کو مزید افغان طالبان کو اس معاہدے میں لانا چاہیے کیونکہ دو برس بعد افغانستان میں الیکشن ہوں گے تو وہ سب اس میں شریک ہو کر اقتدار میں شامل ہوسکتے ہیں۔ افغانستان میں امن کا یہی واحد حل ہے اوراس میں پاکستان کا بھی فائدہ ہے، جہاں اتنی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین مقیم ہیں، افغانستان میں امن ہوگا تو ہی وہ واپس جائیں گے۔

    میجر عامرکی بات سن کی مجھے اس لیے بھی خوشی ہوئی کہ وہ سابق فوجی ہیں جو افغان جنگ کے دوران تمام معاملات کو دیکھتے رہے۔ وہ حکمت یارکے اس معاہدے کو اس لیے اچھا سمجھتے ہیں کہ زمینی حقائق بدل گئے ہیں۔ افغانوں نے روس اور امریکہ دونوں کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھایا۔ اب وہ پاکستان پر الزام لگاتے ہیں کہ روس اور امریکہ کے بعد پاکستان نے انہیں نقصان پہنچایا ہے۔ ان کا اشارہ پاکستانی سرزمین پر موجود حقانی گروپس سے ہے۔ کابل میں ان افغان گروپوں کی طرف سے آئے روز بازاروں میں کیے جانے والے بم دھماکوں میں سیکڑوں بے قصور افغان بچے، عورتیں اور مرد مارے جاتے ہیں۔ میرے اپنے ذہن سے دو تین سال پرانی وہ تصویر نہیں اترتی جس میں کابل کی مارکیٹ میں بم دھماکے کے بعد ایک بوڑھا افغان اپنی بیٹی کی لاش کے قریب چند ماہ کے نواسے کے ساتھ خاموش بیٹھا تھا۔ اس تصویر میں ایسا درد اور تکلیف تھی جو بیان سے باہر ہے۔ اس خطے میں جاری تشدد نے پاکستان اور افغانستان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ جواباً افغان پراکسی نے پاکستان میں حملے کیے، پشاور سکول کا واقعہ سب سے زیادہ دل دہلا دینے و الا تھا۔

    پاک بھارت جنگی ماحول میں یہ بات دب کر رہ گئی کہ کابل میں کیا انقلاب آگیا ہے۔ حزب اسلامی کے لیڈرگلبدین حکمت یار نے چپکے سے افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ ایک معاہدہ کر کے باقاعدہ حکومت کا حصہ بننے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ حکمت یار کے معاہدے کی جو تفصیلات اب تک سامنے آئیں، ان سے پتا چلتا ہے کہ حکمت یار نے بہتر فیصلہ کیا ہے۔ پہلے تو یہ طے ہوا کہ مستقبل میں جو بھی کابل حکومت فیصلے کرے گی اس سے حکمت یار کو آگاہ رکھا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں اب حکمت یار حکومت کے اہم فیصلوں میں شریک ہوا کریں گے۔ حکمت یارکے حامیوں کو فوج اور دیگر اداروں میں ملازمت مل سکے گی۔ ان سے بھی بڑھ کر اس معاہدے میں یہ اہم نکات شامل ہیں کہ ان تیس برسوں میں حکمت یار کے تقریباً اسی ہزار لوگ یا خاندان جو خانہ جنگی سے متاثر ہوئے، ان کو مالی ہرجانہ ادا کیا جائے گا۔ آخری بات یہ کہ اب اشرف غنی اقوام متحدہ اور امریکہ کو خط لکھیں گے کہ حکمت یارکی حزب اسلامی کو دہشت گرد گروہ کی فہرست سے نکال دیا جائے۔ اس طرح حکمت یار نے ایک ہی ہلے میں نہ صرف حکومت میں حصہ لے لیا بلکہ اپنے لوگوں کو مزید خانہ جنگی سے بچا کر ان کے لیے مالی امداد اور نوکریوں کے دروازے بھی کھول دیے۔ اب وہ دنیا بھر میں سفر کرسکتے ہیں اور افغان لوگوں کے بہتر مستقبل کے لیے اپنا کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔

    سوال ایک ہی بنتا ہے کہ کیا ہم تیس برس پرانی پالیسی اپناکر خطے میں زندہ رہیں گے؟ پراکسی جنگیں لڑیں، وار لارڈز کو اپنا مہمان بنا کر رکھیں، اپنے اوپر دہشت گرد ریاست کے الزامات لگوائیں، اقوام متحدہ میں ہمارے شہریوں کو دہشت گرد قرار دینے کی قرادادیں پیش ہوں اور ہم چین کی مدد سے انہیں ویٹو کراتے رہیں؟

    یہ بات ہمیں کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ جب ہم افغانستان میں طالبان کے ذریعے جنگ لڑ رہے تھے تو اس وقت امریکن اور یورپین بلاک ہماری پشت پر تھا۔ اسلحے اور ڈالروں کی ریل پیل تھی۔ اب اسی امریکہ کی کانگریس میں بل پیش کیا گیا کہ پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہے۔ اب پورا یورپ خود پراکسی جنگوں اور تشدد کا شکار ہو رہا ہے۔ امریکی متھ ٹوٹ رہی ہے کہ وہاں دہشت گردی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اب کوئی بھی دنیا میں پراکسی وار کا نام سن کر ہی بدک جاتا ہے۔ ہم لاکھ کہتے رہیں، ہماری کوئی نہیں سنے گا کیونکہ 9 ستمبر 2011ء کے بعد دنیا بدل گئی ہے۔ لیکن ہم بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ دنیا میں دو سو سے زائد ممالک ہیں لیکن ہم اپنے آپ کو شمالی کوریا کے ساتھ نتھی کرانا چاہتے ہیں۔ اس کی مثالیں دیتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ نے اس کا کیا بگاڑ لیا۔ ایران نے سمجھداری سے کام لیا۔ روس اور یورپی ملکوں کی مدد سے جہاں وہ امریکی جارحیت سے بچا رہا وہیں اس نے موقع پا کر امریکہ سے نیوکلیئر ڈیل کر لی کیونکہ ایرانی کرنسی تباہ ہوکر رہ گئی تھی اور کاروبار ختم ہوگیا تھا۔ امریکہ سے ایران کی صلح کے بعد اب گلبدین نے بھی امریکہ سے صلح کر لی۔ اس خطے کی سیاست بدل رہی ہے۔ دشمن دوست بن رہے ہیں۔ ایسے ہی دنیا چلتی آئی ہے۔ ہمیں بھی حقانیوں پر زور ڈالنا چاہیے کہ وہ تشدد کا راستہ چھوڑکر افغان حکومت کے ساتھ اس طرح کی ڈیل کر لیں جیسے حکمت یار نے کی ہے۔ دو تین برس بعد وہ الیکشن میں حصہ لے کر اقتدار میں اپنا حصہ لیں۔

    ویسے گلبدین حکمت یار کی امن ڈیل کے بارے میں سن کر فوراً جنرل حمید گل یاد آئے۔ آج وہ ہوتے تو گلبدین حکمت یار کے اس فیصلے پر کیا تبصرہ کرتے؟ اپنے روایتی انداز میں افغانیوں کے خلاف غداری سے تعبیرکرتے کیونکہ وہ آخر تک اپنے خیالات بدلنے کو تیار نہ تھے۔ یا پھر اپنے چہیتے میجر عامر کی طرح بدلتے ہوئے حقائق اوربدلتی دنیا میں اس فیصلے کی تعریف کرتے!

  • حزب اسلامی اور گلبدین حکمتیار کا مستقبل – فیض اللہ خان

    حزب اسلامی اور گلبدین حکمتیار کا مستقبل – فیض اللہ خان

    فیض اللہ خان حزب اسلامی کا افغانستان میں جاری مزاحمت میں بہت بڑا کردار نہیں تھا، عسکریت کی میدان میں افغان طالبان کی حکمرانی ہے. اگرچہ گلبدین حکمت یار کا حصہ بہت کم تھا لیکن اس کی ایک علامتی حیثیت ضرور تھی کہ جب اتحادی افواج افغانستان پہ چڑھ دوڑیں اور سابق جہادی قیادت اقتدار کے مزے لوٹنے کی تیاری میں تھی، ایسے میں حکمتیار نے مزاحمت کو ترجیح دی. ستر اور اسی کی دہائی میں حزب اسلامی افغانستان کی اہم ترین سیاسی و جہادی جماعت تھی، روس کےخلاف مزاحمت میں حزب اسلامی کا نمایاں کردار رہا، لیکن نوے کی دہائی میں امریکہ و پاکستان نے مل کر ”سرکش“ حکمتیار کو سزا دی. طالبان کی آمد کے بعد گلبدین حکمت یار کے لیے تہران نے اپنے دروازے کھول دیے اور حزب اسلامی کے سربراہ نے وہاں سیاسی پناہ حاصل کی لیکن ایران کی خواہش کے باوجود حکمتیار نے شمالی اتحاد میں شمولیت اختیار نہیں کی۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ دو ہزار آٹھ میں اپنے ادارے کے لیے میں نے حکمتیار کو ایک سوالنامہ بھیجا تھا جس کا جواب ویڈیو کی شکل میں آیا اور اس میں حکمتیار نے عالمی قوتوں کے ساتھ پاکستان اور ایران کو افغانستان کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیا۔

    گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد افغانستان میں حامد کرزئی کی سربراہی میں حکومت قائم ہوئی تو اس میں کئی وزراء اور اراکین اسمبلی کا تعلق حزب اسلامی سے تھا. القاعدہ کے علاوہ حکمتیار وہ واحد جہادی لیڈر تھے جنہوں نے امریکہ پر حملوں کو القاعدہ یا عربوں کی کارروائی قرار دیا اور ان قیاس آرائیوں کی تردید کی کہ اس میں یہودی یا امریکہ خود ملوث تھا.

    گلبدین حکمتیار کی بدقسمتی رہی کہ ان کے ساتھی نظریاتی طور پر کمزور ثابت ہوئے اور بدلتے حالات میں اکثریت نے پہاڑوں پہ چڑھنے کے بجائے حکومتی ایوانوں میں بیٹھنا پسند کیا۔ اس کے برعکس ملاعمر کے پیروکار ان کے مکمل وفادار رہے، اگر کسی نے طالبان تحریک سے علیحدگی اختیار کی تو بھی حکومت میں شامل نہیں ہوا۔

    اس میں شک نہیں کہ ایک زمانے میں حکمتیار کو شمال و جنوب یعنی مختلف اقوام میں مقبولیت حاصل تھی لیکن اب پل کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور منظر نامے میں خاصی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ حکمتیار کی سیاسی حیثیت اسی صورت میں مستحکم ہوسکتی ہے کہ حزب اسلامی کے سارے دھڑے ان کی اطاعت تسلیم کرلیں ورنہ معاملات مشکل رہیں گے۔

    پاکستان کے لیے صورتحال اس حد تک حوصلہ افزاء ضرور ہے کہ افغانستان کی سابقہ جہادی قیادت میں واحد گلبدین حکمتیار ہیں جو ہماری پالیسیوں سے اختلاف کے باوجود پاکستان سے نفرت والا رویہ نہیں رکھتے بلکہ افغان مہاجرین کی میزبانی پر انھوں نے ہمیشہ شکریہ ادا کیا ہے۔

    افغانستان میں طالبان طاقتور فریق کے طور پر موجود ہیں، وہاں امن یا جنگ کا فیصلہ انہوں نے ہی کرنا ہے اور میسر معلومات کے مطابق وہ فی الحال مذاکرات کی میز پہ بیٹھنے کو لیے تیار نہیں ہیں۔ حکمتیار کو انہوں نے پہلے بھی خاص اہمیت نہیں دی تھی اب بھی نہیں دیں گے۔

  • افغان حکومت اور حزب اسلامی کا معاہدہ – کاشف نصیر

    افغان حکومت اور حزب اسلامی کا معاہدہ – کاشف نصیر

    کاشف نصیر کابل حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان دو سال سے جاری مذاکرات کے بعد آج معاہدے پر باضابطہ دستخط ہوگئے ہیں۔ دستخط کی تقریب امن کونسل کے دفتر میں منعقد ہوئی جہاں دونوں اطراف کے نمائندوں نے حتمی مسودے پر دستخط کیے جبکہ اشرف غنی اور حکمتیار کے دستخط ابھی باقی ہیں۔ امریکہ نے اپنے ابتدائی ردعمل میں اس معاہدے کو خوش آمدید کہا ہے جبکہ کابل حکومت کے اہم ستون عبداللہ عبداللہ نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

    معاہدے کی رو سے کابل حکومت تمام اہم فیصلوں میں حزب اسلامی سے مشاورت کی پابند ہوگی، اسیر کارکنان رہا کردیے جائیں گے، جنگجو فدائین کو سرکاری فوج میں جگہ ملے گی، تمام مقدمات واپس لے لیے جائیں گے اور طویل جنگ میں ہمدردوں کو پہنچنے والے مالی نقصان کی زر تلافی ادا کی جائے گی۔ اس کے بدلے میں گلبدین حکمتیار کابل حکومت کی قانونی حیثیت کو قبول کرکے ملک کے سیاسی عمل میں شامل ہوجائیں گے اور حزب اسلامی کے تمام عکسری ڈھانچوں کو ختم کردیا جائے گا۔

    کہا جارہا ہے کہ معاہدے کی غیراعلانیہ دفعات کے مطابق امریکہ جلد گلبدین حکمتیار کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دے گا۔ یوں حکمتبیار کے منظرعام پر آنے کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ختم ہوجائے گی۔ پاسپورٹ مل جائے گا اور وہ باآسانی غیرملکی سفر کرسکیں گے۔

    افغانستان کی موجودہ صورتحال میں حزب اسلامی ملک کے کسی بھی علاقے میں اپنا اثر و رسوخ نہیں رکھتی ہے۔ اس لیے بظاہر یہی لگتا ہے کہ سیاسی عمل کا حصہ بن کر حکمتیار ایک بار پھر پختون صوبوں میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ یہ فیصلہ 2001ء میں کرتے تو شاید آج ملک کے صدر ہوتے لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ کابل پر ان کی حریف قوتوں کی گرفت انتہائی مظبوط ہے۔ دوسری طرف حکمتیار کے مزاج میں سیاسی تنوع بالکل بھی نہیں ہے اور وہ اتحاد کرنے اور جلد ہی توڑ دینے کے لیے مشہور ہیں۔ اس لیے یہ امید رکھنا کہ وہ بدلے ہوئے کابل میں زیادہ عرصے گزارا کرلیں گے، بہت مشکل ہے۔

    تنازعات کا پرامن تصفیہ تلاش کرنا قابل ستائش ہے لیکن اصولوں پر سمجھوتہ کبھی بھی عزیمت کا راستہ قرار نہیں دیا جاتا۔ اگر حکمتیار کو امریکی فوج کے انخلا کی بنیادی شرط کے بغیر سیاسی عمل کا حصہ بننا تھا تو وہ یہ کام پہلے بھی کر سکتے تھے. نہیں معلوم کہ وہ 2001ء میں غلط تھے یا آج غلط ہیں۔