Tag: حاکمیت

  • جمہوریت، جمہور کی طاقت؟ رضوان اسد خان

    جمہوریت، جمہور کی طاقت؟ رضوان اسد خان

    رضوان اسد خان نوم چومسکی اپنی کتاب ”Who Rules The World“ میں لکھتے ہیں کہ جمہوریت کی علمبردار بڑی طاقتوں میں بھی عوام کا ملکی پالیسی پر اثر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے. امریکہ میں نامور محققین نے اس بات کے ٹھوس شواہد پیش کیے ہیں کہ ”معاشی اشرافیہ اور منظم گروپس جو مخصوص کاروباری مفادات کے حامل ہوتے ہیں، ان کا اثر حکومتی پالیسی سازی پر کافی گہرا ہے اور اپنی الگ انفرادی حیثیت میں ہے، جبکہ متوسط طبقے، عام آدمی اور عوامی مفاد کے نمائندہ گروپس کا اثر یا تو بالکل نہیں ہے اور یا پھر نہ ہونے کے برابر ہے.“ بنا بریں چند دیگر تحقیقات سے اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ کم آمدنی والے طبقے کو بڑے مؤثر طریقے سیاسی عمل سے (عملاً) باہر کر دیا جاتا ہے اور ان کے نمائندے ان کی آراء اور رجحانات کو نظرانداز کر دیتے ہیں جبکہ معاشی طور پر مستحکم ایک چھوٹا سا طبقہ اس معاملے میں مکمل اجارہ داری کا حامل نظر آتا ہے. اس لحاظ سے دیکھا جائے تو طویل مدتی تحقیق میں امیدواروں کی الیکشن کیمپین کی فنڈنگ ہی پالیسی سازی کے اہم ترین محرک کے طور پر سامنے آتی ہے.

    اس میں ایک سبق تو جمہوریت کے متوالوں کے لیے ہے کہ جن قوموں کو ہم انسانی آزادی اور سماجی ترقی کی معراج پر سمجھتے ہوئے اندھا دھند ان کے نظام جمہوریت کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں، وہاں عام آدمی کا حکومت کے اصل معاملات اور پالیسی سازی میں کتنا حصہ ہے اسے دیکھ کر عبرت پکڑیں اور دیکھیں کہ اصل سٹیک ہولڈرز کیپٹل ازم کے پروردہ نظام جمہوریت میں بھی سرمایہ دار ہی ہیں اور انھی کی چلتی ہے. جبکہ عام آدمی کے لیے محض سبز باغ ہی ہیں.

    اس ضمن میں ”اسلامی جمہوریت“ کے آکسی مورون (oxymoron: متضاد الفاظ پر مشتمل ترکیب) کے علمبرداروں کو تو دس گنا زیادہ عبرت پکڑنی چاہیے کہ نہ تو اس فضول جدوجہد سے حقیقی جمہوریت ہی ممکن ہے اور نہ ہی اسلام. جمہوریت کے معاملے میں اوپر پیش کی گئی گزارشات دیکھ لیں اور اسلام کے معاملے میں مصر، بنگلہ دیش اور ترکی (ابھی خطرہ مکمل طور پہ نہیں ٹلا) کا حال دیکھ لیں، بلکہ عینک کے شیشے صاف کر لیں تو اپنے وطن عزیز میں بھی کچھ کم مثالیں نہیں.

    ایک بڑا ہی لطیف سبق یہاں ان جہادی تنظیموں کے لیے بھی ہے جو اس ڈاکٹرائن/”اجتہاد“ کی قائل ہیں جس کے مطابق مسلمان علاقوں پر حملہ آور اور مسلمانوں سے جنگ میں مصروف جمہوری کافر ملکوں کے عوام بھی متحارب قرار دیکر مباح الدم سمجھے جاتے ہیں؛ کیونکہ ان کے مطابق وہ ”ووٹ کی طاقت“ سے حکومتی پالیسی کے پشت پناہ اور اس پر اثر انداز ہونے والی مؤثر قوت سمجھے جاتے ہیں. تو بھائی صاحب دیکھ لیں کہ ان ”بےچاروں“ کا اپنے خبیث حکمرانوں کی پالیسیوں میں کتنا ہاتھ ہے. خدارا ان کی جان بخش دیں اور ان تحقیقات کی روشنی میں اپنے اجتہاد پر نظرثانی فرمائیں. ان کی طاقت کو دعوت و تبلیغ سے اپنے حق میں موڑیں نہ کہ ان پہ حملے کر کہ سچ مچ ان کی رائے عامہ کو ویسا ہی بنا دیں جیسا کہ آپ (غلط طور پر) سمجھتے ہیں.

  • جمہوریت اور حاکمیت عوام، چند منطقی مغالطے – محمد عمار خان ناصر

    جمہوریت اور حاکمیت عوام، چند منطقی مغالطے – محمد عمار خان ناصر

    عمار خان ناصر جمہوریت کو ’’حاکمیت عوام’’ کے نظریے کی بنیاد پر کفریہ نظام قرار دینے اور حاکمیت عوام کو اس کا جزو لاینفک قرار دینے والے گروہ کی طرف سے ایک عامۃ الورود اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ جمہوریت میں اگر دستوری طور پر قرآن وسنت کی پابندی قبول کی جاتی ہے تو اس لیے نہیں کی جاتی کہ وہ خدا کا حکم ہے جس کی اطاعت لازم ہے، بلکہ اس اصول پر کی جاتی ہے کہ یہ اکثریت نے خود اپنے اوپر عائد کی ہے اور وہ جب چاہے، اس پابندی کو ختم کر سکتی ہے۔ اس لیے دستور میں اس کی تصریح کے باوجود جمہوریت درحقیقت ”حاکمیت عوام“ ہی کے فلسفے پر مبنی نظام ہے۔

    اس استدلال کے دو نکتے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ دونوں منطقی مغالطوں کی شاہکار مثالیں ہیں۔

    پہلا نکتہ یہ ہے کہ دستور میں قرآن وسنت کی پابندی دراصل قرآن وسنت کے واجب الاتبا ع ہونے کے عقیدے کے تحت نہیں بلکہ محض اس لیے قبول کی جاتی ہے کہ اکثریت یہ پابندی قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر دستور میں اس تصریح کا مطلب یہ نہیں کہ دستور ساز اسمبلی خود کو قرآن وسنت کا پابند سمجھتی ہے اور یہ محض حاکمیت عوام کے اصول کا ایک اظہار ہے تو اس مقصد کے لیے اسمبلی کو یہ تصریح کرنے کی آخر ضرورت اور مجبوری ہی کیا درپیش ہے؟ پھر تو دستور میں سادہ طور پر صرف یہ بات لکھنی چاہیے کہ قانون سازی کا مدار اکثریت کی رائے پر ہے اور اس بنیاد پر جو بھی قانون بنے گا، وہ اس وقت تک قانون رہے گا جب تک اسے اکثریت کی تائید حاصل رہے۔ جب دستور ساز اسمبلی اس سے آگے بڑھ کر باقاعدہ ایک اصول کے طو رپر یہ نکتہ دستور میں شامل کر رہی ہے کہ مقننہ قرآن وسنت کے احکام کی پابند ہوگی تو کس اصول کی رو سے اس پر یہ الزام عائد کیا جا سکتا ہے کہ وہ قرآن وسنت کی پابندی کو بالذات اور مستقل اصول کے طور پر قبول نہیں کر رہی؟ اس سامنے کی بات کو صاف نظر انداز کر دینے کو آخر تحکم کے علاوہ کیا عنوان دیا جا سکتا ہے؟

    استدلال کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ چونکہ دستور میں اکثریت کی رائے کی بنیاد پر تبدیلی کی جا سکتی ہے اور اس اصول کے تحت اگر کسی وقت اکثریت قرآن وسنت کی پابندی کی شرط کو ختم کرنا چاہے تو کر سکتی ہے، اس لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن وسنت کی پابندی کو فی نفسہ اور بالذات نہیں بلکہ محض اکثریت کی رائے کی بنیاد پر قبول کیا جا رہا ہے۔
    یہ نکتہ پہلے سے بھی بڑھ کر عجیب بلکہ مضحکہ خیز ہے۔ سوال یہ ہے کہ دین وشریعت بلکہ دنیا کے کسی بھی قانون یا ضابطے کی پابندی قبول کرنے کا آخر وہ کون سا اسلوب یا پیرایہ ہو سکتا ہے جس میں یہ امکان موجود نہ ہو کہ کل کلاں کو پابندی قبول کرنے والا اس کا منکر نہیں ہو جائے گا؟ مثال کے طور پر ایک شخص کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کرتا ہے تو اسے اس بنیاد پر مسلمان تسلیم کر لیا جاتا ہے کہ اس نے اپنی مرضی اور آزادی سے یہ فیصلہ کیا ہے، حالانکہ اس بات کا پورا امکان ہے کہ وہ کسی بھی وقت اسی آزادی کی بنیاد پر اسلام سے منحرف ہونے کا فیصلہ کر لے۔ اب کیا اس کے متعلق یہ کہا جائے گا کہ چونکہ کل کلاں کو وہ اپنی مرضی سے اسلام کو چھوڑ سکتا ہے، اس لیے آج اس کے کلمہ پڑھنے کا مطلب بھی یہ ہے کہ وہ اسلام کو فی نفسہ واجب الاتباع نہیں سمجھتا، بلکہ اپنی ذاتی پسند اور مرضی کی وجہ سے قبول کر رہا ہے؟ دنیا کے ہر معاہدے اور ہر ضابطے کی پابندی کی بنیاد اسی آزادی پر ہوتی ہے جو انسانوںکو حاصل ہے اور جو آج کسی پابندی کے حق میں اور کل اس کے خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہے، لیکن ہم اس آزادی کے منفی استعمال کے بالفعل ظہور پذیر ہونے سے پہلے کبھی مستقبل کے امکانی مفروضوں کی بنیاد پر حال میں یہ قرار نہیں دیتے کہ فلاں شخص یا گروہ درحقیقت اس قانون یا ضابطے کو فی حد ذاتہ واجب الاتباع ہی تسلیم نہیں کرتا۔

    جمہوریت اور ”حاکمیت عوام’’ کے تصور کو لازم وملزوم قرار دینے کے ضمن میں ایک اور منطقی مغالطہ جو بالعموم دیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ جمہوریت میں شریعت کے واضح اور مسلمہ احکام بھی کسی ملک میں اس وقت تک قانون کا درجہ اختیار نہیں کر سکتے جب تک کہ منتخب قانون ساز ادارہ اسے بطور قانون منظور نہ کر لے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جمہوریت میں اللہ کی شریعت، نفاذ کے لیے انسانوں کی منظوری کی محتاج ہے۔ اگر وہ بطور قانون اس کی منظوری نہ دیں تو کوئی حکم شرعی نافذ نہیں ہو سکتا اور ظاہر ہے کہ یہ ایک کفریہ تصور ہے۔

    اس دلیل میں جو منطقی مغالطہ ہے، اسے ایک مثال کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ فرض کریں، ایک شخص کسی کو قتل کر دیتا ہے۔ ایسی صورت میں شریعت کا واضح اور قطعی حکم ہے کہ قاتل کو مقتول کے قصاص میں قتل کیا جائے۔ لیکن شریعت کا یہ حکم اس وقت تک عملاً نافذ نہیں ہو سکتا جب تک یہ مقدمہ باقاعدہ کسی با اختیار عدالت کے سامنے پیش نہ کیا جائے اور وہ یہ فیصلہ نہ سنا دے کہ قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت کا حکم اپنے نفاذ کے لیے ایک جج کی منظوری کا محتاج ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں، اس لیے کہ شریعت کے حکم اور اس پر عمل درآمد کے درمیان عدالت کا کردار اس تصور کے تحت نہیں رکھا گیا کہ خدا کی شریعت کو انسانی تائید کی احتیاج ہے، بلکہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس حکم کے نفاذ کے عمل کو منضبط اور غلطیوں سے محفوظ بنایا جا سکے۔

    بالکل یہی معاملہ کسی شرعی حکم کو قانون سازی کے مرحلے سے گزارنے کا ہے۔ جب دستور میں اصولی طور پر یہ مان لیا گیا کہ شریعت بالادست قانون ہوگی تو تمام واضح اور قطعی احکام اصولاً قانون کا درجہ اختیار کر گئے۔ اس کے بعد ان احکام کے حوالے سے قانون سازی کے مراحل بنیادی طور پر پروسیجرل ہیں نہ کہ اس بنیاد پر کہ احکام شرعیہ کو ابھی قانون بننے کے لیے منظوری کی احتیاج ہے۔ اس حوالے سے یہ نکتہ خاص طور پر ملحوظ رہنا چاہیے کہ شریعت کا کوئی بھی واضح اور صریح حکم اس وقت تک نفاذ میں نہیں آ سکتا جب تک اس کے ساتھ جڑے ہوئے چند اجتہادی سوالوں کا جواب نہ دے دیا جائے۔ مثلاً چوری کو لیجیے۔ محض یہ تسلیم کر لینے سے کہ چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے، کسی بھی چوری کے مقدمے کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ حکم کے اطلاق کے لیے شاید درجنوں اجتہادی سوالات کا جواب دینا پڑے گا اور اس کے لیے کسی نہ کسی اجتہادی تعبیر کو قانون کا درجہ دینا پڑے گا۔ مثلاً یہ کہ چوری کا مصداق کیا ہے، کتنے مال کی چوری پر یہ سزا لاگو ہوگی، کیا ہر طرح کے حالات میں یہ سزا دی جائے گی یا کچھ مخصوص حالات میں رعایت بھی دی جا سکتی ہے، ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب اجتہادی سوالات ہیں جو نص میں تصریحاً مذکور نہیں اور ان کا جواب طے کیے بغیر کسی ایک مقدمے کا فیصلہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔

    گویا ہر واضح اور قطعی شرعی حکم نفاذ کے لیے ایک اجتہادی تعبیر کا محتاج ہے۔ قانون سازی دراصل اسی درمیانی مرحلے کو طے کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ قانون کے بنیادی پہلووں کی ایک متعین تعبیر کے بغیر، جس کی روشنی میں عدالتیں فیصلے کر سکیں، قانون کے نفاذ میں بہت سی پیچیدگیاں اور مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ جدید سیاسی نظام میں قانون ساز ادارے اس نوعیت کی پیچیدگیوں کو کم کرنے اور قانون کے بنیادی پہلووں کو واضح اور متعین کرنے کے کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر قانون کے بنیادی خطوط اور حدود اربعہ متعین نہ ہوں تو ظاہر ہے کہ قانون کی براہ راست تعبیر کا کام عدالتوں کو کرنا پڑے گا جس میں اختلافات کا پیداہونا اور اس کے نتیجے میں قانونی سطح پر پیچیدگیوں کا سامنے آنا ناگزیر ہے۔ علمی اور نظری سطح پر کسی قانون کی تعبیر میں اختلافات ہوں تو ان سے عملی پیچیدگیاں پیدا نہیں ہوتیں، لیکن قانونی نظام کی سطح پر بہرحال ایک بنیادی نوعیت کی یکسانی پیدا کرنا انتظامی پہلو سے ایک مجبوری کا درجہ رکھتا ہے۔ جمہوریت میں شرعی احکام کو نفاذ سے پہلے قانون ساز ادارے کی منظوری کے مرحلے سے گزارنا دراصل اسی پہلو سے ضروری ہوتا ہے، نہ کہ اس مفروضہ تصور کے تحت کہ شریعت کا حکم تب واجب العمل ہوگا جب انسان اسے قانون کے طور پر منظور کر لیں گے۔ چنانچہ صورت حال کی درست تعبیر یہ ہوگی کہ دستور کی اسلامی نوعیت طے ہو جانے کے بعد تمام احکام شریعت کی پابندی قبول کر لی گئی، البتہ انھیں قانون کی سطح پر نافذ کرنے کے لیے کچھ درمیانی مراحل طے کرنا ضروری تھا جن میں سب سے اہم مرحلہ قانون کی تعبیر کا تھا۔

    جمہوریت کو علی الاطلاق کفر ثابت کرنے والی ایک مشہور کتاب میں دلائل کا سارا زور صرف کرنے کے بعد آخر میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ ”اگر یہ جمہوریت کفر ہے تو پھر بعض علمائے کرام اس نظام میں کیوں شریک ہوتے ہیں؟“
    اگرچہ ”بعض علمائے کرام’’ (جس سے مراد قیام پاکستان کے بعد سے لے کر آج تک پاکستان کی مین اسٹریم مذہبی قیادت کے، چند ایک کے استثنا کے ساتھ، تمام علماءکرام ہیں) کہہ کر سوال کی مشکل کو کافی کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن بہرحال سوال تو مشکل ہے۔ اب اس کا جواب ملاحظہ فرمائیے:
    ”وہ علماءجو اس نظام میں شریک ہوئے اور اب اس دنیا سے جا چکے، ان کے بارے میں ہم یہی کہیں گے کہ ان پر اس جمہوری نظام کا کفر واضح نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا شریعت میں یہ ایک عذر ہے اور عذر کے ہوتے ہوئے کسی خاص شخص کی تکفیر نہیں کی جا سکتی۔ …. کسی کفر کا ظاہر ہونا نہ ہونا، اس کفر کا کسی پر پہلے ظاہر ہونا، کسی پر بعد میں، یہ کسی کے تقویٰ اور علم کے منافی نہیں۔ اس بحث میں یہ کہنا بے کار بات ہے کہ اگر جمہوریت کفر ہوتی تو تمام بڑے علماءاس کو کفر کیوں نہیں کہتے؟’’

    سوال یہ ہے کہ ارشاد نبوی میں کسی چیز پر کفر کا اطلاق کرنے کے لیے ’’کفرا بواحا عندکم من اللہ فیہ برھان’’ کے الفاظ آئے ہیں اور فقہاءاس کے لیے مطلوبہ احتیاط کو یوں واضح کرتے ہیں کہ وہ کفر ایسا ہونا چاہیے کہ اس کے کفر ہونے میں کسی کو کوئی شبہ نہ ہو اور تمام اہل علم اسے کفر قرار دینے میں کوئی تردد محسوس نہ کریں۔اگر جمہوریت ایسا ہی کفر صریح اور کفر بواح ہے تو ان ”تمام بڑے علماء’’ کو آخر یہ کیوں دکھائی نہیں دیا؟ اور کیوں اس کی ضرورت پیش آ رہی ہے کہ مختلف منطقی مغالطوں سے کام لے کر ایسے دلائل گھڑے جائیں جو صرف سادہ ذہن اور جذباتی نوجوانوں کو متاثر کر سکیں اور انھیں مطمئن کرنے کے لیے ”تمام بڑے علماء’’ پر وہ آیتیں منطبق کرنی پڑیں جو قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرنے والوں کے متعلق نازل ہوئی ہیں؟ ملاحظہ فرمائیے:
    ”داعیوں کے سامنے جو اعتراض بار بار کیا جاتا ہے، وہ یہ ہوتا ہے کہ آپ زیادہ سمجھ دار ہیں یا بڑے زیادہ سمجھ دار ہیں؟ اگر یہ سب جو آپ بیان کر رہے ہیں، حق ہوتا تو ہمارے بڑے اس کو کیوں نہ اختیار کرتے؟ لیکن کیا ”قوم“ کے بڑے ہمیشہ حق پر ہوتے ہیں؟ کیا ”نوجوان“ ہمیشہ غلط ہوتے ہیںاور ان کا طریقہ کار کبھی بھی درست نہیںہوتا؟ کیا شریعت اسلامیہ میں یہ کوئی معیار ہے کہ بڑوں اور چھوٹوں کی آرا جب مختلف ہو جائیں تو بڑوں کی بات ہی قابل اعتبار اور قابل عمل ہوگی؟ اور کیا حق کو صرف اس لیے رد کر دیا جائے گا کہ وہ معاشرے کے مشہور ونامور افراد کی زبان سے جاری نہیں ہوا؟ کیا اس قسم کے اعتراض حق کو رد کرنے والے پہلے ہی سے نہیں کرتے چلے آ رہے؟ خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی ایسے ہی اعتراضات کیا کرتے تھے:
    وقالوا لولا نزل ہذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم (الزخرف)
    ”وہ کہتے کہ اس قرآن کو دونوں بستیوں (مکہ وطائف) میں کسی بڑی شخصیت پر کیوں نہ اتارا گیا۔“
    حالانکہ یہاں سوال بڑوں اور چھوٹوں یا اکثریت واقلیت کا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ فقہ وشریعت کی رو سے یہ ضروری ہے کہ جس بات کو ”کفر’’ قرار دیا جا رہا ہو، وہ ایسی ہو کہ اس کے کفر ہونے میں کسی کو کوئی شبہ نہ ہو اور تمام اہل علم اسے کفر قرار دینے میں کوئی تردد محسوس نہ کریں۔ اگر جمہوریت ایسا ہی کفر صریح اور کفر بواح ہے تو ان ”تمام بڑے علماء’’ کو آخر یہ ”کفر’’ کیوں دکھائی نہیں دیا؟
    ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔

  • قوم پرستی کیا ہے؟ صابر علی

    قوم پرستی کیا ہے؟ صابر علی

    صابر علی قومی ریاست کی حقیقت و ماہیت سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قوم پرستی کے آغاز، موجدین، خصوصیات اور ارتقا کو سمجھا جائے۔ قوم پرستی کا پہلا موجد انگلینڈ ہے. فرانس، جرمنی، روس اور امریکا اسی سے متاثر ہیں۔ قوم پرستی کا خاصا یہ ہے کہ اس میں فرد کی شناخت کا سرچشمہ قوم ہوتی ہے۔ قوم حاکمیت کی مالک، وفاداری کا مرکز اور معاشرتی اتحاد کی بنیاد ہوتی ہے۔ قوم افراد کا گروہ ہوتی ہے جو مختلف حیثیتوں، طبقات، خطوں اور نسلوں میں بٹا ہوا ہوتا ہے۔

    کسی بھی قوم پرستی کی بنیاد جس کے بغیر کسی قوم پرستی کا تصور نہیں کیا جا سکتا وہ ہے نظریہ۔ قوم پرستی ایک نقطہ نظر اور فکری رویے کا نام ہے۔ اور یہ نظریہ کیا ہے؟ قوم پرستی کا جوہر قوم ہونے کا نظریہ ہے۔ کسی بھی قوم پرستی میں باقی تمام حیثیتیں اور شناختیں پس پردہ چلی جاتی ہیں اور صرف ایک شناخت ابھرتی ہے وہ ہے قوم کی شناخت۔ اسی وجہ سے ہر قوم میں مختلف النوع لوگ ہونے کے باوجود اسے یکساں اور یک نوعی تصور کیا جاتا ہے۔ قوم کی تشکیل کی شکلیں اور اس کے اجزائے ترکیبی مختلف ہو سکتے ہیں لیکن بنیادی اصول یہی نظریہ ہے۔ زبان، علاقہ، مشترکہ روایات، مشترکہ تاریخ ، نسل یا مذہب قومی خصوصیات ضرور ہوتی ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کو قوم کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ یعنی قوم پرستی ایک سیاسی نظریہ ہے جسے کسی مخصوص کمیونٹی کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔

    قوم اور انسانیت میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اسی نظریے کے اعتبار سے اقوام متحدہ بھی ایک قوم ہے۔ قوم کے معانی ہر دور میں مختلف رہے لیکن جدید سیاسی نظریات میں قوم کی متفقہ تعریف یہ ہے کہ قوم منفرد حاکمیت کی حامل ہوتی ہے۔ قدیم دور میں قوم کا مطلب تھا غیر ملکی لوگ، ازمنہ وسطیٰ میں کسی خاص رائے رکھنے والے گروہ کو قوم کہا گیا، چرچ کونسلز میں اس کا مطلب برتر اور عالی لوگ تھا اور انگلینڈ میں قوم سے مراد یہ لی گئی کہ حاکمیت کے حامل منفرد افراد۔

    قوم پرستی اور جمہوریت میں گہرا تعلق ہے۔ حاکمیت کا سرچشمہ عوام کو قرار دینا اور ہر فرد کو مساوی حیثیت میں شناخت کرنا قوم پرستی کا جوہر بھی ہے اور جمہوریت کا بنیادی اصول بھی۔ جمہوریت قوم پرستی کی کوکھ سے نکلی ہے۔ دونوں میں خلقی اور فطری تعلق ہے۔ اس لیے ان کو الگ الگ نہیں سمجھا جا سکتا۔ ابتدا میں جمہوریت اور قوم پرستی میں فرق سمجھا جاتا تھا لیکن جب قوم پرستی پھیلی اور قوم بمعنی منفرد حاکمیت سمجھی جانے لگی تو دونوں میں فرق مٹ گیا۔ اس سے یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ جمہوریت برآمد یا درآمد نہیں کی جا سکتی۔ اس کی درآمد کے لیے ضروری ہے کہ قوم اپنی شناخت میں اساسی نوعیت کی تبدیلی لائے۔

    قوم کی حاکمیت اصل میں انفرادیت پسندی ہے۔ قوم کی حاکمیت اسی صورت میں معقول ہے جب ہر فرد کی حاکمیت مانی جائے۔ اگر ہر فرد انفرادی طور پر حاکمیت نہیں رکھتا تو قوم کی حاکمیت کیا معنی۔ قوم پرستی کا یہ نظریہ انفرادیت پسندانہ ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرا نظریہ اجتماعیت پسندانہ ہے جس کے مطابق قوم اپنی تعریف کے اعتبار سے مقتدر ہوتی ہے۔ یعنی انفرادیت پسند قوم پرستی میں ہر فرد کو خیر و شر کا خالق مانا جاتا ہے اور اجتماعیت پسند قوم پرستی میں خیر و شر کی خالق قوم من حیث القوم ہوتی ہے۔ لیکن ذرا تفصیل میں جایا جائے تو ان دونوں میں یہ فرق بھی ختم ہو جاتا ہے کیوں کہ اجتماعیت پسندی میں بالآخر تسلیم کیا جاتا ہے کہ قوم نے اجتماعی عمل سے یہ جان لیا ہے کہ فرد حاکمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اجتماعیت پسند قوم پرستی نسل پرستانہ ہوتی ہے لیکن نسل پرستی کو الگ سے قوم پرستی نہیں کہا جاتا۔

    قوم پرستی سے جو چیز برآمد ہوتی ہے وہ ہے قومی شناخت۔ یہ قومی شناخت مذہبی اور طبقاتی شناخت وغیرہ سے قطعاً مختلف ہوتی ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ مذہب اور نسل سے قوم پرستی نکلے اور اس قوم پرستی سے قومی شناخت برآمد ہو لیکن جب قومی شناخت پختہ ہوتی ہے تو وہ مذہب سے لاتعلق ہوتی ہے۔ کسی بھی قسم کی شناخت میں اصل چیز ادراک اور شعور ہوتا ہے اگر کسی قوم میں قومی شناخت کا شعور نہ ہو تو قومی شناخت باقی نہیں رہتی۔

    قوم کا اصل تصور سولھویں صدی کے انگلستان میں ظاہر ہوا اور انگریز پہلی قوم تصور کی جاتی ہے۔ یہاں فروغ پانے والی انفرادیت پسندانہ قوم پرستی امریکی کالونیوں میں پھیلائی گئی جو اپنی انتہائی شکل میں ریاست ہائے متحدہ امریکا کی امتیازی خصوصیت ہے۔ قوم پرستی اپنے نسل پرستانہ اور جغرافیائی اعتقادات کے ساتھ اٹھارھویں صدی میں یورپ میں ظاہر ہوئی اور یہاں سے باقی دنیا میں پھیلی۔ اجتماعیت پسند قوم پرستی فرانس اور روس میں ظاہر ہو کر انیسویں صدی کے شروع میں جرمن قوم میں اپنی انتہا کو پہنچی۔ جب قوم پرستی پوری دنیا میں پھیلنا شروع ہوئی تو دوسری اقوام میں اصل نظریے کے بجائے درآمدی اور مستعاری عنصر زیادہ رہا۔ اس درآمد اور شناختی تبدیلی کی خاص وجہ یہ تھی کہ قوم بننے کے خواہاں معاشرے اپنی موجودہ شناختوں سے بیزار ہو گئے تھے یا ان کو گھٹیا اور کم تر تصور کرنے لگے تھے۔ یعنی شناخت کی تبدیلی اصل میں شناخت کے بحران کی علامت ہے۔ جب سامراجی قوموں قوموں نے کالونیوں میں اپنی جھلک دکھلائی تو کالونیل قومیں نفسیاتی طور پر خود کو کم تر تصور کرنے لگیں۔ ہر غلام قوم نے جب قومیت کا نظریہ اپنانا چاہا ہے تو اپنے اپنے متعلقہ آقا کی نقالی کی۔ کالونیل اقوام کی قوم پرستی ردِّعمل سے پیدا ہوئی ہے۔ یہ ردعمل رشک و رقابت کا ملا جلا احساس ہے جسے نطشے کی نسل پرستانہ قوم پرستی میں اہم مقام حاصل ہے۔ کالونیل اقوام کی اس کیفیت نے انہیں اس احساس میں مبتلا کیا کہ وہ تہذیبی طور پر اپنی حاکم اقوام سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ حاکم قوموں کے برابر آنے کے لیے حاکموں جیسا بننا لازمی خیال کیا گیا۔ سامراجی قوموں کے برابر آنے کی خواہش ہی پوسٹ کالونیل ریاستوں کے شناختی بحران کا اصل سبب ہے۔

    رشک و رقابت کی نفسیات میں تخلیقی یا تخریبی قوت موجود ہوتی ہے جو اقدار کی ماورائی اقداریت کا سبب بنتی ہے۔ یعنی اقوام میں اقداری پیمانے تبدیل ہو جاتے ہیں جو پرانی سپریم اقدار کو منہدم کر دیتے ہیں۔ ان کی جگہ نئی اقدار لیتی ہیں جو بظاہر تو قوم کی اپنی اقدار سمجھی جاتی ہیں لیکن یہ سب اقدار اصل میں خارجی، غیراہم اور منفی ہوتی ہیں۔ یہ عمل تعمیری ان معنوں میں ہے کہ ثقافتی اعتبار سے مضبوط قوم کبھی بھی براہِ راست اپنی اقدار کے متضاد اقدار جوں کی توں درآمد نہیں کرتی بلکہ خارجی اقدار سے متاثر ہوتے ہوئے ردعمل میں اپنی اقدار میں تبدیلیاں کی جاتی ہیں ۔ ردعمل کبھی بھی اپنے خلاف نہیں ہوتا اور کالونیل اقوام میں ردعمل بنیادی خصوصیات رہا ہے۔ یہ تعمیری عمل بہت شفاف ہوتا ہے یعنی مقامیت میں ملبوس بدیسی اقدار بڑی آسانی سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ برصغیر کے تناظر میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جس طرح اسلام یہاں باہر سے آیا اور اس پر مقامی ذوق و شوق کا رنگ چڑھا، اسی طرح جمہوریت اور قوم پرستی بھی یہاں مغرب سے وارد ہوئی اور اس پر ہندو قومیت کے ردعمل میں مسلم قوم پرستی کا رنگ چڑھایا گیا۔ یہیں سے نظریے کی طاقت سمجھی جا سکتی ہے۔ نظریہ اپنا لینا خوش فہمی ہے، نظریہ اپناتا ہے۔

    نظریاتی تبدیلی کا یہ عمل تین مراحل میں مکمل ہوتا ہے: ہیئت میں، ثقافت میں اور نفسیات میں۔ نئی قومی شناخت اختیار کرنے پر اندرونی معاشرتی ترتیب ازسرنو قائم ہوتی ہے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں روایتی ثقافتی تعریف و شناخت ناکافی ثابت ہوتی ہے یعنی تہذیبی علمیت ساتھ نہیں دیتی اور شناختی بحران پیدا ہوتا ہے۔ اس بحران کے بعد نئی شناخت کی تلاش شروع ہوتی ہے۔ شناختی بحران سے اس بات کی وضاحت تو نہیں کی جا سکتی کہ آخر نئی شناخت کیوں تلاش کی جاتی ہے البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ نئی ثقافت عام طور پر قومی ہی ہوتی ہے۔ نئی شناخت اختیار کرنے کےبعد موجودہ مقامی روایات کو نئے معنی دیے جاتے ہیں اور ان کی نئی تعبیرات کی جاتی ہیں۔ یوں ہر قوم پرستی اپنی حتمی شکل میں منفرد ہوتی ہے کیوں کہ ہر قوم کی اپنی ثقافتی روایات مختلف ہوتی ہیں اور درآمدی اقدار بھی، جن کی آمیزش سے نئی قوم کا ملغوبہ تیار ہوتا ہے۔ اسی لیے قوم کی تعریف منفرد حاکمیت کے معنوں میں کی جاتی ہے۔ یہیں سے اس دلیل کی سطحیت و اصلیت بھی صاف ہو جانی چاہیے کہ ہماری جمہوریت و ریاست مغرب کے تصورِ جمہوریت سے مختلف ہے۔

    جب بھی جمہوریت ، قوم پرستی، سرمایہ داری، انسانی حقوق، عقلیت، سائنس وغیرہ کی بات ہو گی تو ان کے اصل ماخذ و مصدر یعنی مغرب کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ قوم پرستی کی بنیاد نسلی تفاخر پر رکھی گئی۔ آج کی دنیا میں یہ احساسِ تفاخر عروج پر ہے۔ فخر اس بات پر کہ ہم قوم ہیں اور ہمارا ایک نظریہ ہے۔ نظریہ یہ ہے کہ ہم قوم ہیں! اس قوم تفاخر میں لالچ اور حسد عام رویے ہیں۔ کم از کم اسٹیٹس کی خواہش تو ہر قسم کی قوم پرستی کا مشترک وصف ہے۔ کچھ اس کا جواز ڈھونڈتے ہیں، کچھ اس کی حفاظت چاہتے ہیں اور باقی اس کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔

    بہرحال قوم پرستی ایک تاریخی نظریہ ہے۔ یہ تاریخ کے ایک خاص دور میں خاص تہذیب میں خاص حالات میں ظہور پذیر ہوا۔ تاریخ کے کسی دور میں یہ ختم بھی ہو جائےگا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ قوم پرستی کے خاتمے کے بعد ماضی کی طرف مراجعت ہو گی یا مستقبل کی طرف پیش قدمی۔ تاہم اتنی بات واضح ہے کہ اگر نیشنل ازم کے بعد پوسٹ نیشنلزم آیا تو دنیا حقیقت میں پوسٹ ماڈرن ہو گی۔ جب تک نیشنل ازم ہے، ماڈرن ازم ہی ہے۔