Tag: جیل

  • شربت بی بی سے شربت قیدی تک-سلیم صافی

    شربت بی بی سے شربت قیدی تک-سلیم صافی

    saleem safi

    اسی کی دہائی کا تذکرہ ہے کہ جب جنرل محمد ضیاالحق کی قیادت میں پوری پاکستانی ریاست افغانوں کو ترغیب دے رہی تھی کہ وہ سوویت یونین کے خلاف بندوق اٹھائیںاور اپنے گھر کو چھوڑ کر پاکستان کے کیمپوں میں تشریف لے آئیں ۔تب پولیس کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے کارکن بھی مہاجر کیمپوں کے باہر اس نیت سے پہرہ دیا کرتے تھے کہ کوئی ان معزز مہمانوں کو نقصان نہ پہنچائے ۔ تب ہم پاکستانیوں کے لئے پستول کے لائسنس کا حصول ناممکنات میں سے تھا لیکن افغان مہاجرین اور مجاہدین کے ساتھ کلاشنکوفوں کے انبار لگے رہتے تھے ۔ ان کو پاکستان کے ان حساس مقامات اور علاقوں میں بھی وی آئی پی پروٹوکول ملتا تھا جہاں ہم پاکستانیوں کا داخلہ بھی حرام سمجھا جاتا ہے ۔ تب پاکستانیوں کے لئے امریکی اور یورپ جانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا لیکن افغان مہاجرین کو امریکہ اور برطانیہ کے ویزے ، مجاہدین لیڈروں کی سفارشی چٹ پر منٹوں میں جاری ہوتے تھے ۔ تب سعودی عرب سے لے مصر تک اور قطر سے لے کر چین تک ، من وسلویٰ کے جہاز بھرکرپاکستان لائے اور پھر پورے تزک و احتشام کے ساتھ ان معزز مہمانوں کی خدمت میں پیش کئے جاتے ۔ کئی جگہ پر پاکستانی پختونوں کی زمینوں پر ریاست نے جبراً قبضہ کرکے انہیں مہاجر کیمپوں میں تبدیل کیا اور یوں افغان مہاجر ہونا اتنا فائدہ مند اور معزز بن گیا تھا کہ ہزاروں پاکستانیوں نے بھی افغان مہاجر ین کے کارڈز اور افغانی پاسپورٹ بنالئے ۔ تب افغان مجاہدین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہیرو تھے اورمغربی میڈیا ان مہاجرین کی کوریج کرکے انہیں کمیونزم کا مقابلہ کرنے کے لئے گھر بار چھوڑنے والے آزاد دنیا کے محسنوں کے طور پر پیش کررہا تھا۔

    چنانچہ اسی تسلسل میں نیشنل جیوگرافک کے فوٹو گرافر اسٹیو میک کری (Stev McCurry) نے ایک مہاجر کیمپ میں نیلی اور حسین آنکھوں کی حامل ایک افغان بچی کی ایسی شانداراور پرکشش تصویر بنالی کہ وہ نیشنل جیوگرافک کے میگزین کے ٹائٹل پیج پر جگہ پاگئی ۔ حسین آنکھوںاور معصومیت کی وجہ سے وہ تصویر پوری دنیا میں مشہور ہوگئی اور اسے مونالیزا کی مشہور زمانہ پینٹنگ سے تشبیہ دی جانے لگی تاہم چونکہ وہ بچی ماڈل یا ایکٹر نہیں بلکہ ایک روایتی معصوم افغان بچی تھی ، اس لئے پوری دنیا میں شہرت پانے کے باوجود وہ اپنی تصویر کی شہرت کو کیش نہ کرسکی اور نہ پشاور یا پاکستان میں وہ بعد کے سالوں میں توجہ کا مرکز بنی ۔ نائن الیون کے بعد جب افغانستان اور اس کی وجہ سے پاکستان ایک بار پھر مغربی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا تو نیشنل جیوگرافک کے اسی فوٹوگرافر کو خیال آیا کہ وہ پوری دنیا میں شہرت پانے والی اور خود ان کی وجہ شہرت بننے والی اس معصوم اور حسین آنکھوں والی افغان بچی کو تلاش کرلیں ۔ چنانچہ وہ ان کی تلاش میں پہلے افغانستان آئے اور پھر پاکستان ۔ بڑی کوششوں کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ وہ بچی اب کئی بچوں کی ماں بن کر ایک عام مہاجر خاتون کی حیثیت میں پشاور کے ناصر باغ کیمپ میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے ۔

    مقامی صحافیوں کے تعاون سے اسٹیو میک کری ان تک پہنچے اور اور انہیں برقع میں آنکھوں کی تصویر پر آمادہ کیا۔ اس تصویر کا یورپ کی لیبارٹریوں میں یہ جاننے کے لئے ٹیسٹ کرایا گیا کہ واقعی یہ وہی بچی ہے یا نہیں اورتصدیق ہوجانے کے بعد ان پر پوری ڈاکومینٹری تیار کرلی گئی ۔ اس ڈاکومینٹری کے ذریعے وہ ایک پھر عالمی شہرت حاصل کرنے لگی اور پتہ چلا کہ اس بچی کا اصل نام شربت گلہ ہے جو اس شہرت کے بعد شربت بی بی کے نام سے مشہور ہوئی۔ شربت بی بی اب ایک بار پھر عالمی ، پاکستانی اور افغانی میڈیا پر چھا گئی لیکن ظاہر ہے اس کی اپنی حالت نہ بدلی ۔ حالت بدلی تو یوں کہ گزشتہ چند سالوں سے دوسرے افغان مہاجرین کی طرح وہ بھی پاکستان کے لئے بوجھ بن گئی ۔ امریکہ ، ہندوستان اور بعض دوسرے ممالک کی شہہ پر افغان حکمرانوں نے پاکستان کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا شروع کیا تو سزا ان معصوم اور مجبور افغان مہاجرین کو ملنے لگی ۔

    افغان میڈیا پاکستان کے خلاف جو نفرت پھیلارہا ہے ، اس کے جواب میں پاکستانی میڈیا نے جو نفرت پھیلائی ، اس کا نشانہ یہی مہاجر بننے لگے ۔ پھر خیبر پختونخوا میں بعض حکمرانوں نے افغان مہاجر کیمپوں کی زمینوں پر قبضے کے لئے منصوبے بنائے ہیں ، اس لئے یہاں مہاجرین کے خلاف کچھ ضرورت سے زیادہ پھرتی دکھائی جارہی ہے ۔ انتہائی غلط وقت پر ، انتہائی غلط طریقے سے افغان مہاجرین کی پکڑ دھکڑ شروع کردی گئی لیکن ظاہر ہے کہ کسی جرم میں ملوث مہاجرین کی بجائے پہلی فرصت میں وہ مہاجرین نشانہ بننے لگے کہ جن کا ریکارڈ موجود تھا اور جو یہاں کاروبار کررہے تھے یا پھر اپنے گھر بنارکھے تھے ۔ دوسری طرف نادرا ، ایف آئی اے اور اسی نوع کے دیگر ادارے بھی حرکت میں آگئے چنانچہ پہلی فرصت میں شربت بی بی نشانہ بنی ۔ جعلی پاکستانی شناختی کارڈ رکھنے کے جرم میں پچھلے ہفتے ان کو گھر سے اٹھا کر پشاور جیل میں بند کردیا گیا ۔ اب ہے تو وہ ایک عام ، مجبور اور بے بس افغانی خاتون لیکن دوسری طرف پوری دنیا میں شہرت پاگئی ہے ۔ چنانچہ عالمی میڈیا میں ان کی گرفتاری کا غلغلہ بلند ہوا ۔ افغانی اور ہندوستانی میڈیا اسے پاکستان کے خلاف ایک چارج شیٹ کے طو رپر استعمال کرنے لگا۔ نیشنل جیوگرافک کے وہی فوٹوگرافر ان کے معاملے پر ایک اور فلم بنانے کے لئے پاکستان آرہے ہیں لیکن دوسری طرف خیبرپختونخوا کے حکمران اسلام آباد بند کروانے اور اسلام آباد کے حکمران ،اپنی حکومت بچانے میں مگن ہیں ۔

    افغان سفیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال پہلے دن سے کوششوں میں لگ گئے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ اس دوران مجھے یہ دردناک حقیقت بھی معلوم ہوئی کہ شربت بی بی کے میاں کچھ عرصہ قبل وفات پاگئے ہیں اور اس وقت وہ خود بھی ایک موذی مرض میں مبتلا ہیں ۔ گزشتہ روز میں نے فون کرکے ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل عاصم سلیم باجوہ صاحب سے درخواست کی کہ اگرچہ ان کا ڈومین نہیں لیکن انسانی ہمدردی کے ناطے وہ اس میں دلچسپی لیں اور انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ ایسا کریں گے ۔ میں خود بھی دکھی تھا کہ چوہدری نثار علی خان ، جو موجودہ حکومتی ٹیم میں انسانی اور اخلاقی حوالوں سے سب سے بہتر انسان سمجھے جاتے ہیں کیوں کر اس معاملے پر خاموش ہیں لیکن یہ جان کر مزید دکھ ہوا کہ اسلام آباد کھلا رکھنے کی کوششوں کی وجہ سے یہ معاملہ ان کے نوٹس میں ہی نہیں آسکا ۔ گزشتہ روز جب پریس کانفرنس میں یہ معاملہ ان کے نوٹس میں لایا گیا تو انہوں نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ مکمل کیس وہ یوں ختم نہیں کرسکتے کہ جعلی سازی میں ملوث ان کے محکمے کے لوگ نہ بچ سکیں لیکن وہ فوری طور پر ان کی ضمانت کرادیں گے ۔

    اتفاق کی بات ہے کہ جب چوہدری نثار علی خان یہ اعلان کررہے تھے تو میں محترم بھائی میجر عامر اورقیصر بٹ صاحب کے ساتھ شربت گلہ کا معاملہ ڈسکس کررہاتھا ۔ میں نے شربت گلہ کی بیماری کا بتایا تو میجر عامر صاحب نے ان کے علاج کی ذمہ داری بھی اٹھالی لیکن اب شربت گلہ کی جیل سے رہائی کا انتظار ہے ۔ مجھے امید ہے کہ قول کے پکے انسان کی شہرت رکھنے والے چوہدری نثار علی خان اپنا وعدہ پورا کرکے شربت بی بی کو رہا کردیں گے اور مجھے یقین ہے کہ میجر عامر صاحب کے ذریعے ان کا اور ان کے بچوں کے علاج معالجے کا بندوبست بھی ہوجائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کی جو بدنامی ہوئی ، اس کو نیک نامی میں کون بدلے گا؟۔ ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ یہاں اسلام آباد میں دھرنوں کے ڈرامے بنا کر اور ٹی وی کیمروں کا رخ اس طرف کرکے شترمرخ کی طرح آنکھیں بند کرلیںتو کیا دنیا نے بھی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ۔ ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر جو کچھ ہونا ہے ، وہ ہورہا ہے ۔ جب ہم ڈراموں سے فارغ ہوکر اس طرف متوجہ ہوں گے تو لگ پتہ جائے گا کہ پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ گیا ہے اور وہ بھی پاکستان کے مخالف سمت میں

  • سعودی عرب کی جیلوں میں اسیر پاکستانی – احسان کوہاٹی

    سعودی عرب کی جیلوں میں اسیر پاکستانی – احسان کوہاٹی

    اب سیلانی انجانے نمبروں سے آنے والی ٹیلی فون کالز کا نوٹس نہیں لیتا نہ سوچتا ہے کہ کال وصول کرتے ہی اسے وہ الفاظ سننے کو مل سکتے ہیں جو کسی کتاب میں موجود نہ ہونے کے باوجودسب سے زیادہ مستعمل ہیں۔ اب سیلانی ان رویوں کا عادی ہوچکا ہے اس لیے وہ سیل فون کی اسکرین پر انجانا دیکھ کر سوچ میں نہیں پڑا اور کال وصول کرلی۔
    573e86b246bbb ’’السلام علیکم سیلانی بھائی!‘‘
    ’’وعلیکم السلام ‘‘
    ’’ہم ادھر سعودیہ کی شمیسی جیل سے بات کر رہا ہوں۔‘‘
    ’’ہیں …. کیا کیا کیا …. جیل سے، وہ بھی سعودیہ کی؟‘‘
    ’’جی بھائی ہم جیل میں ہے اور بڑی مشکل میں ہے، ہمارا مدد کرو، آپ ہمیں جانتے ہو، میں گل اعظم بات کر رہا ہوں، وہ جو شیرشاہ سے آپ کو فون کرتا تھا۔‘‘
    سیلانی کے ذہن میں ایک دم سے جھماکا ہوا، اسے گل اعظم یاد آگیا، کراچی کے علاقے شیرشاہ میں گل اعظم کی پشاوری چپلوں کی دکان تھی۔ جس گلی میں گل اعظم کی دکان تھی وہیں اس کے دوست حضرت بلال کا گھر بھی تھا۔گل اعظم اکثر اسے فون کرتا، اس کے کالم پر بات کرتا اور چائے کی دعوت دے کر کہتا کہ سیلانی بھائی! میں آپ کا انتظار کرتا ہوں۔
    سیلانی نے گل اعظم سے پوچھا ’’گل اعظم! آپ سعودیہ اور پھر جیل میں کیسے آگئے؟ ماجرا کیا ہے اور یہ کیساجیل ہے کہ آپ کو فون کرنے کی بھی سہولت ہے؟‘‘
    ’’سیلانی بھائی !مت پوچھو لمبا داستان ہے، ہم ادھر بہت مصیبت میں ہے، نوازشریف اور آرمی چیف سے بولو خدا کے لیے ہمارا مدد کرے، ہم بےگناہ ہے، بڑی مشکل میں ہے۔‘‘
    ’’گل اعظم،گل اعظم …. مجھے پوری بات تو بتاؤ۔ تم نے کیا کیا ہے ،کسی عربی سے جھگڑا تو نہیں ہوا،کسی کو پیٹا ویٹا تو نہیں ہے؟‘‘
    ’’نہیں ،نہیں …. ہم ایسا کیوں کرے گا سیلانی بھائی، بس ہمارا نصیب خراب تھا کہ ہم ادھر سعودیہ آگیا، اچھا خاصا چلتا ہوا دکان تھا، سارا کام بھی خراب ہوگیا اور ہم بھی خوار ہوگیا، ہوا ایساہے کہ ادھر شارع فیصل پر ایک ویزہ بیچنے والا ایجنٹ ہے۔ ایک دوست نے اس خبیث کے بچے سے ہمارا سلام دعا کرایا، اس نے ہم کو کہا کہ میرے پاس حرم شریف کا ویزہ آیا ہوا ہے، خانہ کعبہ میں خدمت کا کام ہوگا، اب بتاؤ کون مسلمان اس عزت کو چھوڑے گا کہ اس کی آنکھ بند ہو تو وہ حرم شریف میں ہو، صبح آنکھ کھلے تو حرم شریف میں ہو۔ ہمارا تو خوشی سے دل جھوم گیا، ہم نے اس کو دو لاکھ پینتیس ہزار روپے دیا اور پروٹیکٹر، میڈیکل کروا کر گھر والوں کا دعائیں اور بچوں کا فرمائشوں کا پرچی لے کر جہاز پر چڑھ گیا۔ راستے بھر میں دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرتا رہا کہ پتہ نہیں اللہ کو ہمارا کون سا نیکی اچھا لگ گیا کہ اس نے ہم کو اپنے گھر کی خدمت کے لیے بلایا۔ واللہ! خوشی سے ہمارا کیفیت ہی عجیب تھا، ہم ادھر پہنچا تو پتہ چلا کہ ادھر تو بات ہی کچھ اور ہے، ہم کو ہمارے کفیل نے ادھر ایک ہوٹل میں برتن دھونے پر لگا دیا۔ سیلانی بھائی! ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہوا، اس ایجنٹ نے جھوٹ بول کر ہمیں ادھر پھنسا دیا، ہم پٹھان محنت سے نہیں گھبراتا لیکن ہم تو ادھر حرم شریف کاخدمت کے لیے آیا تھا، جتنا تنخواہ ہمیں کفیل دے رہا تھا، اس سے زیادہ تو پاکستان میں کما لیتا تھا، سب گھر والا بھی پاس ہوتاتھا، ہم نے کسی نہ کسی طرح تین مہینہ کاٹا اور پھر وہاں سے کام چھوڑ دیا، ہم سے ذلت برداشت نہیں ہوتا تھا، ہم ادھر سے بھاگ گیا اور چھپ گیا۔ ہمارا ارادہ تھا کہ حج کرکے واپس آجائے گا، top-saudi ہم نے حج کیا اور پھر خود کو پولیس کے حوالے کر دیا، اس نے ہمیں جیل ڈال دیا۔ اب ادھر کا حال یہ ہے کہ ادھر کا دنیا ہی الگ ہے، ایک ایک ہال میں ستر ستر پاکستانی ہے، ہمیں بس اتنا کھانا ملتا ہے کہ ہم زندہ رہے، دو خمس سے کیا ہوتا ہے اور کھانا بھی ایسا کہ حلق سے نیچے نہیں اترتا اور پیشاب پاخانہ کا الگ مصیبت ہے۔ ایسا گندا غلیظ جگہ ہے کہ انسان کا بدبو سے دماغ پھٹ جائے،گندگی سے کپڑا بھی بلماس ہوجاتا ہے۔ ادھر ہم لوگوں کا نماز پڑھنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ جب کپڑا صاف نہیں ہوتا تو نماز کیسے پڑھے؟ بہت مشکل میں ہوں سیلانی بھائی! ہمارے لیے کچھ کرو، ہم لوگ مجرم نہیں ہیں۔‘‘

    ’’مجھے یہ بات بتاؤ کہ آپ کفیل سے بھاگے کیوں؟ آپ نوکری چھوڑ دیتے۔‘‘
    ’’سیلانی بھائی! ہمارا پاسپورٹ کفیل کے پاس تھا، وہ ہم کو نہیں چھوڑتا، اسی کے پاس نوکری کرنا ہوتا ہے، آزاد ویزے والے کا مرضی ہوتا ہے کہ وہ کہیں بھی کام کرے۔ ہم ایگریمنٹ والے ویزے پر آیا تھا، ہم کوجس نے ویزہ جاری کیا تھا اسی کے پاس کام کرنا ہوتا ہے۔‘‘
    گل اعظم سے بات کرنے کے بعد سیلانی نے اسے کہا کہ آپ کو سیل فون رکھنے کی اجازت ہے؟
    ’’ہاں! ہمارے پاس موبائل ہے، یہ منع نہیں ہے۔‘‘
    ’’اس سے ایک وڈیو بنا کر بھیجو، اس میں اپنا سارا حال بتاؤ۔‘‘
    ’’ہم بنا کر بھیجے گا بس آپ یہ ہمارا کام کرو، ادھر پندرہ بیس ہزارپاکستانی ہے، سب آپ کو دعا دے گا، ہم لوگ بڑی مشکل میں ہے۔‘‘

    51771739 گل اعظم واقعی بڑی مصیبت میں تھا۔ وہ دور کے ڈھول کی تھاپ سن کر چل پڑا تھا اور اب قریب پہنچنے پر کانوں میں انگلیاں ڈالے ہوئے پریشان کھڑا تھا کہ یہ کیا مصیبت ہے۔گل اعظم کے ساتھ واقعی زیادتی ہوئی، اس سادہ لوح انسان کو ایک عیار ایجنٹ نے لوٹ لیا، اس میں اس کی سادگی یا حماقت کا بھی بڑا حصہ تھا لیکن اس وقت تو مسئلہ مکہ مکرمہ کے قریب شمیسی جیل میں موجود ہزاروں پاکستانیوں کا تھا جو دیار غیر میں اپنے خوابوں کی تعبیریں ڈھوندنے نکلے تھے، جو اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں کے یونی فارم میں دیکھنے کی خواہش میں دربدر ہوئے تھے، جو کرائے کے مکان سے اپنے نام کی تختی والے مکان کی آرزو میں باہر نکلے تھے، جو بہنوں کی ڈولیوں کا بوجھ ڈھونے کے لیے ہزاروں میل دور بوجھ ڈھونے پہنچے تھے۔ سیلانی کو ویزے اور بیرون ملک ملازمتوں کی پیچیدگیوں کا کچھ پتہ نہیں، اس نے معاملہ سمجھنے کے لیے اپنے کزن نذر الرحمان کو کال کی وہ ساری بات سننے کے بعد کہنے لگا:
    ’’ایک آزاد ویزہ ہوتا ہے اور دوسرا کمپنی کا یا جاب ایگریمنٹ والا، آزاد ویزے میں بندہ اپنی ملازمتیں تبدیل کر سکتا ہے لیکن ایگریمنٹ والے ویزے میں اسے اس کمپنی یا بندے کے پاس کام کرنا پڑتا ہے جس نے اسے بلایا، اب اگر اس کی اس بندے یا کمپنی سے نہیں بنتی یا کوئی تنازعہ ہوجاتا ہے تو وہ سعودی عدالت سے رجوع کر سکتا ہے یا اس سے پہلے ہی کفیل سے بات چیت کر کے معاملہ نمٹا سکتا ہے، اگر وہ اسے بتائے بنا کہیں اور چلا جاتا ہے اور وہ کفیل وہاں کی متعلقہ وزارت کو آگاہ کر دیتا ہے تو وہ سعودی قوانین کے حساب سے مجرم قرار پاتا ہے اور ایسے لوگوں کو ملک بدر کر دیا جاتا ہے‘‘۔

    اب جب سیلانی نے گل اعظم سے بات کی تو یہی معاملہ نکلا، وہ سعودی عرب خانہ کعبہ کے خدمت گاروں میں شامل ہونے کے لیے آیا تھا، ہوٹل میں برتن دھونے کے لیے نہیں، اس نے دو تین مہینے کام کیا اور پھر وہاں سے بھاگ نکلا، وہ چھپتا چھپاتا پاکستانیوں کے ڈیروں میں ادھر ادھر نہایت معمولی اجرت پر کام کرتا رہا، وہ حج کرنا چاہتا تھا، حج کے بعد اس نے خود کو پولیس کے حوالے کردیا کہ اسے ڈی پورٹ کر دیا جائے، اور پولیس نے اسے شمیسی جیل میں ڈال دیا جہاں کی ایک اور ہی دنیا تھی۔

    گل اعظم نے اپنے سیل فون سے وہاں موجود پاکستانیوں کے انٹریو کر کے سیلانی کو بھیجے، جنہیں سن کر سیلانی کا دل بوجھل ہوگیا۔ یہ سنہرے دنوں کی آس میں وطن چھوڑ کر گئے تھے اور جیل کی کوٹھڑیوں میں پڑے پاکستانی سفارتخانے والوں کا انتظار کر رہے تھے۔گل اعظم کا کہنا تھا کہ سفارتخانے والے آتے ہیں لیکن گنے چنے پاکستانیوں کو ہی لے جاتے ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ روزانہ دو دو تین تین سو پاکستانی شمیسی جیل میں سنہرے خواب دیکھنے کی سزا کاٹنے پہنچ رہے ہوتے ہیں۔

    گل اعظم کا کہنا ہے کہ یہاں صفائی ستھرائی اور تازہ ہوا نہ ہونے کے سبب ہر دس میں سے آٹھ قیدی بیمار ہیں۔ جب ایک ہال میں ستر ستر پچاسی پچاسی لوگ بھرے جائیں گے تو صفائی کہاں سے ہوگی اور صحت کیا رہے گی؟ ان پاکستانیوں کی وطن واپسی کے لیے یقینی طور پر حکومت کو حج آپریشن کی طرح کا کوئی سلسلہ کرنا پڑے گا اور ساتھ ساتھ ان سفاک عیار ایجنٹوں کے خلاف بھی وہ ایکشن لینا ہوگا جو کبھی نہیں لیا گیا۔ ایک آپریشن ضرب عضب ان دہشت گردوں کے خلاف ہونا چاہیے جو سادہ لوح پاکستانیوں کو بیرون ملک ’’بیچ‘‘ ڈالتے ہیں۔

    سیلانی اپنی اس تحریر کے ذریعے شمیسی جیل میں موجود ہزاروں گل اعظموں کی اپیل وزیر اعظم کے سامنے رکھ رہا ہے کہ انسانی بنیادوں پر ہی سہی، ان پاکستانیوں کو وطن واپس لایا جائے، انہیں اچھے دنوں کی خواہش اور خوابوں کی سز امل چکی ہے۔ سیلانی اچھی امید کے ساتھ یہ اپیل کرتے ہوئے واٹس اپ پر شمیسی جیل کے پریشان حال ہم وطنوں کو ہمدردی اور افسوس بھری نظروں سے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • مائی لارڈ!-توفیق بٹ

    مائی لارڈ!-توفیق بٹ

    taufiq butt

    مائی لارڈ!میں آپ کا شکرگزار ہوں 19سال بعد میرے کیس کا فیصلہ ہوگیا، میری پھانسی کی سزارد کرکے مجھے باعزت بری کرنے کے احکامات جاری کردیئے گئے۔ آپ کو شاید معلوم نہیں تھا قدرت مجھے پہلے ہی ”بری“ کرچکی ہے، میرے انتقال کو دوبرس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ آپ کو شاید یہ بھی معلوم نہ ہواِس ملک میں انصاف کا انتقال کب ہوا تھا ؟۔ مجھے پتہ تھا میں نے قتل نہیں کیا۔ اِس کیس میں مجھے پھنسایا گیا تھا۔ اِس کی پہلی سماعت ایڈیشنل سیشن جج نے کی تھی۔ مجھے عدلیہ پرپورا اعتماد تھا۔ خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے میرے پاس ٹھوس شواہد تھے۔ میں چیختا رہا، چلاتا رہا، دہائیاں دیتا رہا، میں بے گناہ ہوں۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے وکیل کرسکوں، کچھ لوگ مجھے کہتے تھے وکیل کے ساتھ تمہیں کچھ اوربھی کرنا پڑے گا، ورنہ ساری زندگی انصاف کو ترستے رہو گے۔ بڑی مشکل سے میرے والدین نے گھر کا کچھ سامان بیچ کر وکیل کیا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا اِس مقصد کے لئے میری ماں نے زیور بیچا تھا، باپ نے گھر گروی رکھا تھا،

    ہمارے حکمران اکثر کہتے ہیں ہم عوام کو سستا انصاف فراہم کریں گے۔ اِس کا مطلب ہے اُنہیں پتہ ہے انصاف مہنگا ہے۔ حکمران شاید چاہتے بھی یہی ہیں انصاف مہنگا ہو۔ ”سستا انصاف“ ہرکوئی خرید سکتا ہے، جبکہ ”مہنگا انصاف“ صرف حکمران خرید سکتے ہیں۔ کیونکہ اُن کے پاس دولت کے انبار ہوتے ہیں، مجھے اپنی عدالت پر پورا یقین تھا، شاید اِس لئے کہ اِس سے قبل کِسی عدالت سے میرا واسطہ نہیں پڑا تھا، اب میں سوچتا ہوں میں ”عادی مجرم“ ہوتا تب بھی اپنی عدالت پر مجھے پورا یقین ہوتا۔ تب شاید عدالت میرے یقین پر پورا بھی اُتر جاتی۔ ایک بار جیل میں میرا ایک عزیز مجھ سے مِلنے آیا۔ اُس نے جج سے متعلق کچھ ایسی بات کی کہ میں نے اُس کے منہ پر تھپڑ ماردیا، وہ چُپ کرکے چلا گیا۔ میرا وکیل مجھے پوری تسلی دیتا تھا۔ وہ کہتا تھا ”ہم گناہ گاروں کو بچا لیتے ہیں، تم تو ویسے ہی بے گناہ ہو “۔ میں بھی یہی سوچتا تھا۔ میں جیل میں روروکر دعائیں مانگتا تھا ”اے میرے مالک تو سب جانتا ہے، تجھے سب پتہ ہے میں بے گناہ ہوں، پھراِس آزمائش سے مجھے نکال دے، یہ شاید کِسی اور گناہ کی سزا ہے، میرا وہ گناہ بخش دے “ ….ہربار نئی تاریخ مل جاتی،”تاریخ پہ تاریخ“ کے ”تاریخی کلچر“ کے بارے میں نے سنا ضرورتھا۔ اُس کا شکار خود ہوجاﺅں گا ، یہ نہیں سوچا تھا، ہر تاریخ پر میرا وکیل مجھ سے کہتا ”اگلی تاریخ پر تم بری ضرور ہو جاﺅ گے“۔

    اگلی تاریخ پر پھر نئی تاریخ مِل جاتی، جو لوگ جیل میں مجھ سے ملنے آتے اکثر مجھ سے کہتے ”پولیس کی طرح ہمارے کچھ وکیل بھی دونوں پارٹیوں سے پیسے پکڑ لیتے ہیں “۔ میں اُن سے کہتا ”کوئی اور وکیل کروں گا وہ بھی تو ”وکیل“ ہی ہوگا۔ پھر ایڈیشنل سیشن کورٹ سے میرا کیس سیشن کورٹ میں چلا گیا۔ دوسری طرف جیل کی زندگی بھی اِک عذاب بن گئی تھی۔ ایک جیب عدالت میں کٹتی دوسری جیل میں کٹ جاتی تھی۔ میرے والدین نے جوکچھ بیچا تھا، اُس سے حاصل ہونے والی ساری رقم خرچ ہوگئی تھی، گھر میں فاقوں کا بسیرا ہوگیا، پھر وہ بے چارے رشتہ داروں سے اُدھار مانگ مانگ کر ”تاریخےں“ بھگتتے رہے، پھر رشتہ داروں نے بھی منہ موڑ لیے۔ وکیل صاحب کو پیسے ملنا بند ہوگئے، اُن کا رویہ بدل گیا، پہلے ہر تاریخ پر وہ خود جاتے تھے، پھر اُن کا منشی جانے لگا۔ آہستہ آہستہ منشی نے بھی جانا بند کردیا۔ جب تک جیل کے عملے کی جیبیں گرم ہوتی رہیں وہ مہربان رہا۔ پھر اُس کارویہ بھی بدل گیا، اس دوران میرے والد شدید بیمار ہوگئے۔ اُنہیں میری ”فِکر کی بیماری“ تھی، یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوئی۔ میں اُن کے جنازے میں شریک نہ ہوسکا۔ یہ میری زندگی کا سب بڑا دُکھ تھا…. مائی لارڈ اللہ نہ کرے یہ دُکھ آپ کے بچوں کو کبھی اُٹھانا پڑے۔

    ابا جی کی وفات پر میں نے سوچا کاش اب تک مجھے پھانسی ہوگئی ہوتی، یہ لمحات میری زندگی میں کبھی نہ آتے۔ زندگی کی سب سے قیمتی شے رخصت ہورہی تھی، میں اُس کی میت کو کاندھا تک نہ دے سکا، مائی لارڈ اُس روز مجھ پر جو گزری اللہ نہ کرے آپ کے بچوں پر کبھی گزرے۔ ….والد کے بعد کیس کی پیروی اپنی ہمت اوقات کے مطابق چجا کرنے لگے۔ جانے کتنے برس بیت گئے۔ کیس اب ہائی کورٹ میں تھا۔ یوں محسوس ہورہا تھا کیس ابھی تک ”ایڈیشنل سیشن کورٹ “ سے باہر نہیں گیا۔ اُمید آہستہ آہستہ دم توڑرہی تھی۔ اِس دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ”سربلندی“ کا بڑا شور اُٹھا ۔ میں اُن کی بحالی کے لئے رات دِن دعائیں مانگتا رہا۔ صرف میں نہیں پورا جیل دعائیں مانگتا رہا۔ پھر وہ بحال ہو گئے۔ مجھے یقین ہے اب انصاف اگلے دو چار روز میں ہی مجھے مل جائے گا۔ ایک بار ایک عزیز جیل میں مجھ سے مِلنے آیا۔ اُس نے بتایا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اداکارہ عتیقہ اوڈھو کی شراب نوشی کا ازخود نوٹس لیا ہے۔ مجھے لگا میرا مسئلہ بھی حل ہونے والا ہے۔ کوئی ازخود نوٹس ہزاروں کی تعداد میں جیلوں میں بند بے گناہ قیدیوں کے بارے میں بھی اب وہ لے لیں گے، یا اُن کیسوں کے بارے میں بھی لیں گے جو سالہا سال سے عدالتوں کی الماریوں میں بند پڑے ہیں، افسوس وقت تیزی سے گزر گیا، وہ ریٹائرہوگئے، اور وہ اُمید فوت ہوگئی جسے ان کی بحالی پر نئی زندگی ملی تھی۔ پھر میرے چچا بھی فوت ہوگئے۔ باپ کی وفات کے بعد وہی میرے باپ تھے۔ میرا دوسرا باپ چلا گیا۔

    میں بے بس تھا۔ میں سوائے آنسو بہانے کے کچھ نہ کرسکا۔ میرے خونی رشتے داروں نے ہمت نہ ہاری۔ کیس کی پیروی میرے دوسرے چچا کرنے لگے۔ مجھے بے گناہ ثابت کرنے کے لئے جو اُن سے بن پڑا، اُنہوں نے بھی کیا، پھر وہ بھی فوت ہوگئے۔ پھر میں بھی فوت ہوگیا۔ موت نے میرے وہ سارے دُکھ دور کردیئے جو اِس ملک کے عدالتی نظام نے ٹنوں کے حساب سے مجھے دیئے تھے، ….مائی لارڈ آپ کو شاید پتہ نہیں تھا میں مرچکا ہوں، آپ کو شاید یہ بھی پتہ نہیں عدالتی نظام کی بہتری کے حوالے سے تقریباً ساری اُمیدیں مرچکی ہیں۔ آپ کو میری موت کا پتہ چل جاتا آپ شاید اِس کیس کو دبا رہنے دیتے۔ کیونکہ کسی بے گناہ کی موت کے بعد اُسے باعزت بری کرنے سے عدالتی نظام مزید ننگا ہوجاتا۔ آپ کا شکرگزار ہوں آپ نے مجھے بری کردیا۔ مگر مجھے اب اُس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ آپ کو بھی شاید کوئی فائدہ نہ ہو۔ آپ نے ”پوراانصاف “ نہیں کیا۔ پورا انصاف یہ تھا ماتحت عدلیہ کے جن ججوں نے اِس کیس کو غیرضروری طورپر لٹکائے رکھا، جن پولیس والوں نے اس کیس میں مال بنایا، جن وکیلوں نے اُلو سیدھے کیے، سب کے خلاف کسی نہ کسی کارروائی کا آپ حکم دیتے۔ اُن سب کو سزا ملتی۔ کوئی مثال قائم ہوتی ….جِس وقت یہ فیصلہ آپ نے سنایا میرا کوئی عزیز عدالت میں نہیں تھا، ورنہ بہت سوال آپ سے کرتا ؟۔مگر ایک وقت روز حساب کا مقرر ہے۔ اب سارے سوال وہیں ہوں گے۔

    میں یہ بات تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں جج اور وکیل میں فرق اب صرف ریٹ کا ہوتا ہے، مگر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا لوگوں کو صاف ستھرا، سچا انصاف فراہم کرنے میں عدلیہ کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔ یہ نشان کب مٹے گا ؟۔ کسی ملک کسی معاشرے کا نظام عدل ٹھیک ہو، اُس کے سارے نظام خود بخود ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ہمارا نظامِ عدل کب ٹھیک ہوگا؟ وہ وقت کب آئے گا جب کوئی غریب، کوئی عام آدمی یہ سوچ سوچ کر نہیں مرجائے گااُس کے ساتھ کوئی ظلم زیادتی ہو گئی کوئی ادارہ اُسے انصاف فراہم نہیں کرے گا۔ اللہ نے شاید ”روز حشر“ اِسی لئے مقرر کیا تھا اُسے پتہ تھا ہمارے جج لوگوں کو انصاف نہیں دے سکیں گے ….مائی لارڈ، اس کیس کی نذر ہونے والی تین زندگیاں آپ واپس لاسکتے ہیں ؟؟ چلیں وہ نہیں تو عدلیہ کی روزبروز گرتی ہوئی ساکھ ہی واپس لے آئیں !

  • ایک قصہ عبرت اثر، تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو – سیّد سلیم رضوی

    ایک قصہ عبرت اثر، تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو – سیّد سلیم رضوی

    ٹھیک پندرہ برس پیشتر جب میاں نوازشریف جنرل پرویزمشرف کے ہاتھوں زیرِعتاب آ کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا چکے تھے مگر کسی بیرونی مداخلت سے ان کی ایک مبینہ معاہدے کے تحت سعودی عرب روانگی یا جلاوطنی عمل میں نہیں آئی تھی تو اٹک قلعہ میں قائم احتساب عدالت نے معزول وزیرِاعظم نوازشریف کو ہیلی کاپٹر ریفرنس میں 14 سال قید بامشقت، 2 کروڑ روپے جرمانہ اور 21 سال کے لیے نااہلی کی سزا سنا دی جو بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کرپشن پر اِتنی بڑی سزا تھی۔ یہ سزا اِس اعتبار سے بھی منفرد تھی کہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے کسی ممتاز سیاست دان کو دی گئی تھی۔ تب میاں نوازشریف کی حالت زار کو شاعر نے اِس طرح اپنے شعر میں باندھا تھا:
    انجام اس غریب کا ہوتا نہیں بخیر
    یہ عہدۂ جلیلہ جسے کارساز دے
    دُشمن کو ایک شخص نے کل دی یہ بد دُعا
    یا رب! اِسے وزارتِ عُظمیٰ نواز دے

    انہی پہلوئوں کے پیشِ نظر ملک بھر میں جو حلقے ایک مدت سے بدعنوان حکمرانوں کے کڑے احتساب پر زور دیتے آ رہے تھے، ان میں سے بعض نے کھل کر ایک سرکردہ سیاسی شخصیت کی اس سزایابی پر اطمینان کا اظہار کیا تو ان کے چاہنے والوں کو یقینا اس کا دکھ بھی سہنا پڑا۔ اس تاثر کی بنیاد یہ تھی کہ اس سے پہلے مقتدر سیاستدانوں کو چھوٹی سزائیں تو دی جاتی رہی ہیں مگر اتنا کڑا احتساب کسی کا نہیں ہُوا جو اقتدار و اختیار کے مناصب پر فائز ہونے والے افراد کے لیے عبرت آموز ثابت ہو سکے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کرپشن نے طویل مدت سے جس حد تک زور پکڑ رکھا ہے اس نے معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اسی کے نتیجے میں کڑے احتساب کا مطالبہ ہر کسی کا معمول بنا رہا ہے۔ اُس غیر سیاسی حکومت کے دور میں پہلی بار نسبتاً زیادہ بڑی تعداد میں احتساب عدالتوں کا قیام، مقدمات کی امکانی حد تک کم مدت میں سماعت اور سخت تر سزاؤں کا اعلان احتساب کے عمل کو سبق آموز بنانے میں کارآمد ثابت ہوا۔ یہ وہ عبرت آموز مرحلہ تھا کہ بہت سے حلقوں نے اپنے دکھ کے اظہار کے ساتھ یہ خواہش بھی ظاہر کی تھی کہ کاش پوری قوم اِس سے کوئی سبق سیکھے اور ہمارے عدالتی فیصلے قانون کی بالادستی قائم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوں۔

    ہمارے ہاں جس شدت کی سیاسی تقسیم موجود ہے، اس کے باعث متذکرہ فیصلے سے متاثر ہونے والے فریق اور اس کے حامی عناصر نے نہ صرف اس فیصلے پر برہمی کا اظہار کیا کہ عدالت اِنصاف نہیں کرے گی اور اس کا فیصلہ انتقام کا مظہر ہوگا۔ اگرچہ قانون و عدل کی عمل داری پر یقین رکھنے والے حلقے عدالتوں کے معاملے میں اس طرح کی عیب جوئی اور بدگمانی کو پسند نہیں کرتے اور کسی فیصلے کے اعلان سے پہلے ہی فیصلہ دینے والی عدالت کو مطعون کرنا عدلیہ کے وقار کے بھی منافی سمجھا جاتا ہے مگر اس عمومی نقطہ نظر کی معقولیت سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ ملک میں نہ صرف کسی کے ساتھ اِنصاف ہو بلکہ ضروری یہ بھی ہے کہ کوئی فیصلہ آئین اور قانون کی رو سے وجہ نزاع بھی نہ بنے۔ ہم جس دور کی بات کر رہے ہیں تب فوجی حکومت نے فوجی عدالتیں قائم نہیں کی تھیں ورنہ ماضی میں قائم ہونے والی مارشل لاء عدالتوں سے قانون و انصاف کے تقاضے بالعموم مجروح ہوتے رہے ہیں۔ اِس کے برعکس مقدمات کی جلد سماعت کے لیے تشکیل پانے والی عدالتوں سے اور ان کے طریق کار کا ڈھانچہ خود معزول حکومت کا قائم کردہ تھا۔

    قصہ مختصر اب جبکہ ’قسمت کی دیوی‘ تیسری مرتبہ میاں صاحب کو اقتدار کی راہداریوں میں لے آئی ہے اور انہوں نے تین سال تک حالات کے سرد وگرم کا مشاہدہ بھی فرما لیا ہے، اس بات کا انہیں بخوبی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ اقتدار کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے، احتساب اور قصاص کی تحریکیں پھر سے سر اٹھا رہی ہیں اور ان طوفانوں کی تہہ میں نہ جانے کیا کیا کچھ حشر برپا ہونے کو ہے، ان پرخطر حالات کو سامنے رکھتے ہوئے میاں نوازشریف کو اپنا ماضی بھولنا نہیں چاہیے کہ اللہ رب العزت ہی ہے جو انسان کے اوپر اچھے برے دنوں کو پھیر پھیر کے لاتا ہے تاکہ وہ خود فراموشی میں گرفتار ہونے کے بجائے خوف خدا کو دل میں بٹھا کر حقیقت پسندی سے فیصلے کرے اور کسی غلط فہمی کے نتیجے میں ٹھوکر کھانے سے بچ جائے۔ زیرنظر سطور میں ہم ان تلخ ایام کو ایک آئینے کی مانند جناب نوازشریف کے روبرو رکھ رہے ہیں کہ انھیں اپنے اوپر آنے والا پندرہ برس پیشتر کا وہ اندوہناک وقت یاد رہے اور میاں صاحب ماضی کی غلطیاں دہرانے سے باز رہیں جن کی پاداش میں انھیں ابتلاء کے دن دیکھنا پڑے تھے، ایسے دن جنھیں وہ دوران اقتدار کی اپنی لاپرواہانہ اور لااُبالی زندگی میں کبھی تصور میں بھی نہ لائے ہوں گے۔ وگرنہ اللہ کی پکڑ کی کسے کیا خبر؟