Tag: جنگ عظیم

  • قتل و غارت کے وکیل-اوریا مقبول جان

    قتل و غارت کے وکیل-اوریا مقبول جان

    orya

    سگمنڈ فرائڈ وہ شخص ہے جس سے نفسیات کا علم منسوب کیا جاتا ہے۔ یوں تو انسانی نفسیات اور نفسیاتی  بیماریوں پر قدیم طب میں بہت سا مواد ملتا ہے لیکن جس شخص نے اپنے آپ کو انسانی ذہن اور نفسیات کے مطالعے کے لیے خاص کرلیا وہ سگمنڈ فرائڈ ہی تھا۔ وی آنا کے شہر میں پیدا ہونے والا یہ یہودی ہٹلر کے ظلم و بربریت کا گواہ بھی تھا اور اس کے وزیر گوئبلز کے پراپیگنڈے کا شکار، گوئبلز وہ شخص ہے جس نے اس دنیا کو یہ فقرہ تحفے میں دیا کہ ’’اس قدر جھوٹ بولو اور بار بار بولو کہ وہ سچ محسوس ہونے لگے‘‘۔ فرائڈ نے انسانی ذہن کو شعور،لاشعور اور تحت الشعور جیسی اصلاحات میں تقسیم کیا۔ اس کے نزدیک انسان کے ہر فعل کے پس پردہ جنسی جذبہ چھپا ہوتا ہے۔

    اسی لیے خوابوں کی تعبیر کے بارے میں اس کی کتابیں ہر خواب کا تجزیہ کرتے ہوئے اس میں جنس ضرور ڈھونڈ نکالتی ہیں۔ ایک وسیع یہودی خاندان ہمیشہ اپنے زیر کفالت افراد کی تربیت اور تعلیم پر خصوصی توجہ دیتا ہے۔ فرائڈ کی زیر تربیت بھی صرف اس کی بیٹی اینا فرائڈ ہی نہیں بلکہ اور بہت سے لوگ شامل تھے۔ ان میں اس کا ایک دوسرے رشتے سے بھانجہ ایڈورڈ برنیز ”Edward Bernays” بھی شامل تھا۔ اس کی ماں فرائڈ کی بہن اور اس کا باپ فرائڈ کی بیوی کا بھائی تھا۔ اس کا خاندان جرمنی کی یہودی نفرت یلغار سے تنگ آکر امریکا جاکرآباد ہوگیا۔

    وہ جنگ عظیم اول کے زمانے میں امریکی صدر کی پراپیگنڈہ مہم کا انچارج تھا۔ جنگ کے زمانے میں لوگوں کو جنگ پر آمادہ کرنا، اپنی فتوحات کا ڈھول پیٹنا، دشمن کو ظالم ثابت کرنا اور اپنی افواج کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے گئے افراد کو انسانیت کی بدترین مخلوق ثابت کرنا دراصل پراپیگنڈے کا حصہ بلکہ مقصد ہوتا ہے۔ فرائڈ کی محبت اور تربیت کے ساتھ ساتھ زرخیز یہودی ذہن کی وجہ سے اس نے جدید دور کی میڈیا انڈسٹری کو انسانی ذہنوں کو مسخر کرنے کی ایک سائنس بنادی۔ اس نے پہلی دفعہ لفظ پبلک ریلیشنز استعمال کیا جو آج تک دنیا بھر میں مستعمل ہے۔ اس کے نزدیک پراپیگنڈہ یا میڈیا صرف خیالات کی ترویج کا نام نہیں بلکہ یہ لوگوں کی رائے بنانے، اسے تبدیل کرنے اور اسے اپنی رائے کے مطابق ڈھالنے کا نام ہے۔

    امریکی صدر وڈرو ولسن کی جنگ عظیم اول کے زمانے کی پراپیگنڈہ ٹیم کے انچارج کی حیثیت سے اس نے امریکی عوام کو ایک نعرہ دیا کہ ’’امریکا اس لیے جنگ میں ممدو معاون ہے تاکہ پورے یورپ میں جمہوریت نافذ ہوجائے‘‘ یہ وہ زمانہ تھا جب عورتوں کی آزادی اور حقوق نسواں کی تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ اس نے مردوں سے آزادی کی علامت کے طور پر عورتوں کو مشورہ دیا کہ 1929ء میں جب ایسٹر پریڈ ہو تو عورتیں اس میں سگریٹ پیتی ہوئی شامل ہوں۔ اس طرح ان میں اور مردوں میں آزادی کا فرق نظر نہیں آئے گا۔ اسی کے پراپیگنڈے نے امریکی عوام کو جنگ عظیم اول کے دوران ہونے والے قتل و غارت پر قائل کرلیا۔ اپنے اس سارے منصوبے اور سوچ کو وہ ”Engineering Consent” کہتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو میڈیا اور پراپیگنڈے کے زور سے ایک ایسی بات پر قائل کرنا جسے وہ نہیں چاہتے ہیں۔ ایڈورڈ برنیز کا یہ تصور آج بھی دنیا بھر میں میڈیا کی روح ہے۔

    آپ کس قدر آسانی سے امریکی، برطانوی، یورپی بلکہ پسماندہ ممالک کی اکثریت کو قائل کرلیتے ہیں کہ افغانستان کے دور دراز اور پسماندہ ترین ملک جہاں ٹیلیفون، ٹیلی ویژن اور ریلوے جیسی بنیادی چیزیں بھی میسر نہیں وہاں بیٹھے چند لوگوں نے ایک سازش تیار کی اور پھر نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر تباہ کردیا۔ اس کے بعد آپ دنیا کو اس بات پر بھی قائل کرلیتے ہیں کہ افغانستان میں بسنے والے انسانیت کے دشمن ہیں اور پھر جب امریکی جہاز ان پر بم برساتے ہیں، ٹینک ان کو روندتے ہیں یا گولیاں ان کے سینے چھلنی کرتی ہیں تو کسی کو ان سے ہمدردی نہیں ہوتی۔

    یہی میڈیا دنیا بھر کو صدام حسین کے بارے میں جھوٹی اور من گھڑت رپورٹیں دکھا کر قائل کرلیتا ہے کہ عراق کے عوام کو مارنا اور ان کا خون بہانا جائز ہے۔ پھر جب کئی منزلہ عمارت پر امریکی میزائل آکر گرتا ہے تو ہم ٹیکنالوجی کی داد دے رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ اس عمارت میں عورتیں بچے اور بوڑھے بھی تھے جو اس میزائل گرنے سے موت کی آغوش میں چلے گئے ہوں گے۔

    جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنا اسی میڈیا کا کمال ہے۔ اس وقت گزشتہ کئی ہفتوں سے دو شہروں کا محاصرہ جاری ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ دنیا بھر کا آزاد میڈیا جسے آپ انسانیت کا فخر تصور کیا جاتا ہے۔ ان دونوں شہروں میں ایک شہر کے محاصرے کو جائز اور دوسرے شہر کے محاصرے کو ناجائز قرار دیتا ہے۔ ایک شہر ’’موصل‘‘ ہے اور دوسرا ’’حلب‘‘۔ دونوں پر اس میڈیا کے مطابق شدت پسند اسلامی گروہ قابض ہیں۔ لیکن موصل کا محاصرہ کرنے والے سرکاری فوجی انھیں شدت پسندوں سے آزادی دلانے کے لیے ان پر خوراک پانی اور دوائیں بند کررہے ہیں۔

    انھیں چن چن کر مار رہے ہیں۔ پوری دنیا کا میڈیا لوگوں کو قائل کرنے میں مصروف ہے کہ یہ سب کچھ انسانیت، آزادی اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے ہورہا ہے۔ مغربی صحافی جو عراقی افواج کے ساتھ ہیں وہ روز ان فوجیوں کی وکٹری کا نشان بنانے والی تصویریں اخباروں کے صفحہ اول پر لگاتے ہیں۔ دوسری جانب حلب ہے جہاں بشارالاسد کے سپاہیوں کو ظالم بناکر پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے حلب شہر کا محاصرہ کررکھا ہے۔

    اسی میڈیا کے تحت حلب کے شدت پسند دراصل آزادی کے ہیرو ہیں جب کہ وہی شدت پسند موصل میں انسانیت کے دشمن۔ جان پجر Jahn Piger ان لوگوں میں سے ہے جو اس دنیا میں قتل و غارت اور بربریت کا ذمے دار میڈیا کو ٹھہراتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر اس قدر زور دار پراپیگنڈہ نہ ہوتا تو دنیا پر القاعدہ، داعش اور النصرہ کا وجود معمولی سا ہوتا اور آج عراق اور شام کے شہری اپنی جانیں بچانے کے لیے دنیا بھر میں دربدر نہ ہورہے ہوتے۔ لیبیا کی تباہی اور قدافی کی المناک موت صرف اور صرف میڈیا کی جنگ اور فتح ہے۔ ایک پر امن ملک جس کے شہری دنیا کے ہر جائزے کے مطابق مطمئن زندگی گزار رہے تھے۔ پہلے اسے دنیا کی نظروں میں ظالم بنایا گیا ، یورپ اور امریکا کے عوام کو فائل کیا کہ اب اس ملک کی تباہی انسانیت کے لیے بہترہے۔

    اس کے بعد نیٹو کے جہاز نو ہزار سات سو دفعہ اڑے اور انھوں نے یورینیم وارڈ ہیڈز والے میزائل عوام الناس پر پھینکے۔ کوئی ایک آنسو ان معصوم عوام کی موت پر آنکھوں سے نہ نکلا، کوئی دل خوف سے نہ کانپا۔ کسی کو اندازہ تک نہ ہوا کہ وہاں کتنی معصوم جانیں موت کے گھاٹ اتار دی گئیں۔ اس لیے مغربی میڈیا پوری دنیا کو قائل کرچکا تھا کہ ان سب کیڑے مکوڑوں کی موت دنیا کے امن کے لیے ضروری ہے۔

    یہ مغربی میڈیا امریکی انتخابات کے موقع پر اپنے جھوٹ اور پراپیگنڈہ تکنیک کے عروج پر ہوتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس کے نزدیک ڈونلڈ ٹرمپ جس نے ایک قتل نہیں کیا وہ خوفناک آدمی ہے جب کہ ٹرومین، کنیڈی، جانسن، بش وغیرہ امن کی فاختائیں ہیں۔ اوباما جس نے گزشتہ تیس سال میں خرچ ہونے والی رقم سے بھی زیادہ امریکی ایٹمی ہتھیاروں پر خرچ کی ہے جو ایک ہزار ارب بنتی ہے۔ وہ اس وقت منی ایٹم بم بنوا رہا ہے جنھیں B-61 اور ماڈل 12 کہا جاتا ہے۔ اس کے دور میں سب سے زیادہ ڈرون حملوں میں لوگ مارے گئے۔ وہ امن کا نوبل انعام حاصل کرتا ہے۔ لیکن میڈیا اس کے کسی جرم پر گفتگو نہیں کرتا۔ اسے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے بڑبولے اور منہ پھٹ نہیں چاہیں، ہیلری جیسے منافق چاہیں جس کے ہاتھ لیبیا کے عوام کے خون میں رنگے ہوں لیکن پھر بھی امن کی فاختہ دکھائی دے

  • جنگ کی آرزو، مردم خور جبلت کی وراثت – فارینہ الماس

    جنگ کی آرزو، مردم خور جبلت کی وراثت – فارینہ الماس

    وہ دونوں بھائی رات بھر قبر کھودتے رہے۔ رتی رتی مٹی اپنے نوکیلے اور وحشی ناخنوں سے کھرچتے اور پاس ہی ننھی منی ڈھیریوں میں ڈھالتے چلے جاتے۔ قبر کی مٹی ابھی تازہ تھی۔پانی کی بوندوں سے اٹی سوندھی سوندھی مٹی کے ساتھ بھینی بھینی خوشبو بکھیرتے دلکش سرخ گلابوں تلے کوئی ابھی کچھ ساعتوں قبل ہی دنیا کے دل آزار بکھیڑوں سے مکتی پا کر گہری نیند سویا تھا۔ ابھی آج ہی کی گہری شام کے سائے تلے تو وہ وجود اس مٹی کی آغوش کو سونپا گیا تھا۔ دونوں بھائی کسی دور کی بیگانی قبر پر بیٹھے اس کی تدفین کا نظارہ کر رہے تھے۔ تازہ انسانی گوشت بنا کسی سرانڈ اور خراش سے پہلے، وہ خراش جو مٹی کے ہمجولی حشرات کے اس لاش کو بھنبھوڑنے سے ماس پر آجاتی ہے، جہاں کالا پڑتے لہو کی جمی ہوئی قطار گوشت کو بد ذائقہ اور بدنما کر دیتی ہے، اس سے پہلے کا انسانی گوشت ان دونوں بھائیوں کی مرغوب غذا تھا۔ انہیں اس مردم خوری کی خواہش پاگل کر رہی تھی۔ کام جلد از جلد نپٹانے کے لیے وہ وقتاً فوقتًا پاس رکھی کھرپیوں سے بھی مدد لے رہے تھے۔ پسینے کی غلیظ اور ناقابل برداشت باس بکھیرتے قطرے ان کے مکروہ چہروں کو اور بھی زیادہ کریہہ بنا رہے تھے۔ کسی کسی لمحے خوف کی تھر تھری ان کے وجود میں چھوٹتی لیکن فوراً ہی ان کے اندر کی درندگی اور ہوس ان کی گھبراہٹ پر قابو پاکر ان کے وجود میں پلنے والی وحشی بھوک کو جگا دیتی۔ انہیں انسانی وجود کی بوٹیاں نوچنی تھیں۔ بہت دن گزر گئے تھے انسانی لہو کا ذائقہ چکھے۔

    کہتے ہیں انسان کو انسانی ماس نوچنے کی عادت ورثے میں ملی ہے۔ نسل انسانی کے ارتقائی مراحل کی تفصیلات کا جائزہ لیں تو مردم خوری اس کی جبلت سے جڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا ماننا ہے کہ جنوب مغربی جرمنی میں دریافت ہونے والی، انسان کی تین ہزار سال پرانی قدیمی باقیات پر تحقیق کرنے سے بھی آدم خوری کے شواہد بآسانی مل جاتے ہیں۔گو کہ یورپ میں پتھر کے دور کے آغاز میں آدم خورموجود تھے۔ لیکن اگر تاریخی شواہد کا مزید مطالعہ کیا جائے تو اس حقیقت کا ادراک بھی ہوتا ہے کہ انسان کی مردم خوری کے آثار کسی ایک انسانی خطے میں نہیں بلکہ اس کائنات کی تقریباً تمام انسانی آبادیوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ رسم عموماً مذہبی تقریبات کا ایک خاص حصہ سمجھی جاتی تھی۔ کبھی سخت قسم کے قحط کی صورتحال میں بھی دشمن قبیلے کے افراد کو مار کر کھایا جاتا تھا۔ انسانی تاریخ میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ کسی رشتے دار کے مر جانے پر احتراماً بھی اس کے مردہ جسم کے کچھ حصے کو غذا کے طور پرکھایا جاتا تھا۔ بعض قبائل دنیا سے رخصت ہوجانے والے کے سر کو دفنا کر اس کا باقی ماندہ وجود اپنی خوراک کا حصہ بنا لیا کرتے۔ انیسویں صدی میں افریقہ اور بحرالکاہل کے بعض جزائر میں تحقیق کاروں نے ایسے علاقوں کی کھوج لگائی جو باقی دنیا سے بلکل کٹے ہوئے تھے اور ان کی غذا کا سب سے آسان وسیلہ مردم خوری ہی سمجھا جاتا تھا۔ تاریخ میں بعض ایسے افریقی قبائل بھی پائے جاتے ہیں جو تبلیغ کے لیے آئے مشنری عیسائیوں کو سزا کے طور پر مار کر اپنی خوراک کا حصہ بناتے۔ تقریباً ایک ہزار سال پہلے ہندوﺅں میں ”آگوری قبیلہ“ بھی انسانی گوشت رغبت سے کھایا کرتا تھا۔ اس قبیلے کے سادھو گنگا جمنا سے انسانی لاشیں نکال کر ان کا بھوجن کرتے۔ ویسے تو عموماً قدیم ہندو بھی اپنے مُردوں کو شمشان گھاٹ میں جلایا کرتے تھے لیکن کچھ ہندو کبھی کبھار اپنے مُردوں کو گنگا جمنا میں بھی بہا دیا کرتے۔ اور جنہیں یہ سادھو نہ صرف طویل العمری پانے کی خاطر اپنے منہ کا نوالہ بناتے بلکہ ان کا عقیدہ یہ بھی تھا کہ اس طریقے سے کچھ مافوق الفطرت شکتیوں کا حصول بھی ممکن ہو پاتا ہے۔ ایسے سادھو آج بھی شمالی بھارت کی پہاڑیوں میں قلیل تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ انڈونیشیا کے قریب بحرالکاہل میں واقع ملک نیوگنی کے دور افتادہ جنگلوں میں آج بھی مردم خور قبیلہ موجود ہے۔ فجی کو تو آدم خوری کی وجہ سے کسی زمانے میں ”آدم خوروں کا جزیرہ “ کہا جاتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران سردیاں شروع ہوئیں تو فوجیوں کے لیے پرندے ،چوہے اور دوسرے جانور دستیاب ہونا ختم ہو گئے تو ایسے کڑے وقت میں پیٹ کی آگ بجھانے کو فوجیوں نے مردہ اور سڑے ہوئے جسموں کو کھا کر اپنی بقاءکا انتظام کیا۔گویا مردم خوری کا تعلق بہت شدید حد تک انسان کی بھو ک سے رہا ہے۔ اور بہت ہی قلیل طور پر کسی ذہنی و دماغی عارضے سے۔

    شاید انسان اپنے ارتقاء کے پہلے مرحلے میں ایسا نہ رہا ہو شاید محض جڑی بوٹیاں اور جنگلی بیریاں ہی اس کی غذا رہی ہوں۔ پھر انسان کی وحشت کے ایسے دور کا آغاز ہوا جب اس نے جنگلی جانوروں سے اپنی جان کے تحفظ کی خاطر اپنا پہلا ہتھیار ایجاد کیا۔ وہ درختوں پر اپنا بسیرا کر کے، شکار کی تاک میں رہتا اور نا صرف اپنے ہتھیار سے خود اپنی جان محفوظ بناتا بلکہ ان جنگلی جانوروں کا شکار کر کے اپنی بھوک بھی مٹاتا تھا۔ لیکن پھر اس ہتھیار کو خود انسان پر بھی آزمایا جانے لگا۔ کبھی زندہ دشمن نما انسان کا شکار تو کبھی مردہ انسان کے جسم سے گوشت نوچنا اس نے سیکھ لیا۔ بعد ازاں جنگلوں سے نکل کر دریاﺅں اور پہاڑوں کا رخ کیا تو خوراک کی جدوجہد نے اسے جنگلوں کو کاٹ کر کھیتوں اور کھلیانوں میں بدلنا سکھایا۔ وہ اپنی وحشی فطرت کو قابو کرنے میں قدرے کامیاب ہوا ۔پھر لوہے کے ہتھیاروں کا استعمال بھی بڑھا ۔اور اس کے استعمال میں بھی بہت جدت اختیار کی گئی۔ لیکن جب دنیاوی سفر کو آسمانی ضابطے عطا ہوئے ،تو یہی آسمانی ضابطے ،انسانی اخلاقیات کو قانونی اور آئینی شقوں میں ڈھالنے میں کامیاب ہوئے اور انسان کو انسان سے اماں ملی۔

    کہتے ہیں انسانی ماس جب کسی کے منہ کو لگ جائے تو اس کی لت کبھی چھٹتی نہیں، وقتاً فوقتاً مختلف روپ میں ڈھل کر اس کی ہوس کو تسکین دے ہی لیتی ہے۔گو کہ وقت کے پنے بدلتے رہے۔ انسانی اخلاقیات کے ضابطے روز بروز نکھرتے رہے۔ انسان نے علم اور شعور کی منازل بھی بڑی سرعت سے طے کیں۔ وہ اپنے فلسفے اور خیال کی ندرت کے ساتویں آسمان کو چھونے لگا۔اس کے افکار کو انوکھے پر لگ گئے ۔دریافت کا زمانہ آیا اور انسان اپنے ہنر اور بے پایاں صلاحیتوں کے عوض اس دنیا کی افضل ترین مخلوق بن گیا۔ لیکن انسان اپنی جبلت نہ بھول سکا۔ وہ محفوظ ہو کر بھی غیر محفوظ ہی رہا۔ وہ معاشرت کے انسانی جنگلوں میں بھی وحشت کے سبق کو قصہءماضی نہ بنا پایا۔ وہ بربریت کے اصولوں کو اخلاقی ضابطوں کے صحیفوں سے بدل نہیں پایا۔ وہ” آدم خوری “جیسے قبیہہ فعل کو آزماتا ہی رہا۔ اس کی ہوس اور وحشت، کامیابی کے زعم، انا کی تسکین اور طاقت کے حصول جیسے عناصر میں ڈھل گئی۔ انسان اپنی خونی جبلت کی تسکین خونی جنگوں سے کرتا رہا۔ کبھی مذہب اور سیاست کے نام پر ،کبھی فلسفے اور نظریے کے دام میں آ کر تو کبھی جمہوریت و آزادی کے حصول کی جدوجہد میں وہ جنگیں لڑتا رہا۔ اور اپنے جیسے لاکھوں انسانوں کے وجود نوچتا رہا اوربارود سے اس کی دھجیاں اڑاتا رہا۔ انسان نے تین ہزار سالوں میں پانچ ہزار جنگیں لڑیں۔ تیرھویں صدی عیسوی میں منگولوں کی قتل و غارت گری بحرالکاہل کے قریب سے اٹھی اور موت و ہلاکت کا یہ سلسلہ بحیرہ روم کے کناروں تک پھیل گیا۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں لاکھوں کروڑوں انسانی وجود نگل گئیں۔ کئی خوبرو اور با صلاحیت ،غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل انسان بڑی بے دردی سے قبروں میں اتار دیے گئے۔ میدانوں میں لاشیں مکئی کی کٹی فصلوں کے ڈھیر کا نظارہ پیش کرنے لگیں۔ آسمان سے بارود مون سون کی بارش بن کر برستا رہا۔ ہیرو شیما میں 66 ہزار ،اور ناگا ساکی میں 39ہزار جیتے جاگتے انسان آن ہی آن میں لقمہءاجل بن گئے۔ ہٹلر کی مردم خوری کی جبلت 6 ملین انسان نگل گئی۔ انسان جیت گیا انسانیت ہار گئی۔ ان جنگوں کے علاوہ فلسطین میں 50 لاکھ اور کشمیر میں ایک لاکھ سے زیادہ انسانوں کا قتل، عراق میں2003ء سے اب تک پانچ لاکھ انسانوں کا قتل، شام میں چار لاکھ ستر ہزار بے گناہ شہریوں کا قتل انسان کی انسانیت کا منہ چڑاتا رہا۔ کون کہاں ،کیسے اور کس قدر انسانی خون اور لوتھڑوں کا تماشا برپا کیے ہوئے ہے یہ ایک طویل داستان ہے۔ لیکن کیا عالمی طاقتیں، عالمی ادارے مردم خور نہیں؟ جو اپنے مفادات کی خاطر غریب اور بے بس انسانوں کو لڑاتے اور مرواتے ہیں اور خود چپ سادھے رہتے ہیں۔ دل دھلا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ جدید نیوکلئیر ہتھیار ان ہتھیاروں سے طاقت میں اس قدر مہلک ہیں کہ محض 50 ہتھیار استعمال کر کے 2 ارب لوگ ہلاک کیے جا سکتے ہیں۔ اسی لیے آئن سٹائن سے جب کسی نے پوچھا کہ تیسری عالمی جنگ کیسی ہوگی تو اس نے جواب دیا ”تیسری عالمی جنگ کا تو مجھے علم نہیں لیکن چوتھی جنگ تلواروں اور ڈنڈوں سے ہو گی۔“ یعنی تیسری عالمی جنگ کی ہولناکی کی لپیٹ ایسی شدید ہو گی کہ انسانی تہذیب و تمدن کو ملیا میٹ کر کے رکھ دے گی۔

    اب پہلی کہانی کے باقی حصے کی طرف آئیں، دونوں بھائی بہت محنت اور ریاضت کے بعد اس لاش کو باہر نکال پائے۔ وہ بہت عجلت سے کفن کو کھول کر لاش کا جائزہ لینے لگے۔وہ11,12 سال کے ایک معصوم بچے کی لاش تھی۔ دونوں کے منہ سے رال ٹپکنے لگی وہ سوچنے لگے کہ اس لاش کو بوری میں بھر کر اطمینان سے اس کے پارچے بنا کر پکائیں گے۔ یکایک وہاں پولیس پہنچ گئی۔ شاید ان کے فرار سے پہلے ہی مخبری ہو چکی تھی۔ وہ یہ واردات پہلے بھی لاتعداد مرتبہ ڈال چکے تھے اور کم سے کم 40 انسانی لاشوں کو اپنی خوراک بنا چکے تھے۔ لیکن اس بار کامیاب نہ ہو سکے۔ ان پر مقدمہ چلا اور انہیں سزا بھی ہوئی لیکن انہیں کوئی پشیمانی نہ ہوئی۔ ان کی ہر پیشی پر لوگوں کا ہجوم بےقابو رہتا اور ہر کوئی اس مکروہ دھندے کو چلانے والے ذہنی بیمار درندوں کے منہ پر تھوکنا ، یا انہیں زدوکوب کرنا چاہتا تھا۔ ان سے پوچھا گیا کہ وہ لاشوں کو کیوں کھاتے تھے؟ وہ کہنے لگے ”بھوک مٹانے کو“. کسی نے سوال داغا کہ کیا انہیں ایسا کرنے پر خود اپنے آپ سے نفرت محسوس نہیں ہو رہی؟ لیکن وہ کہہ رہے تھے۔”کون مردم خور نہیں۔ یہاں سب مردم خور ہیں۔ ہاں ہم میں اور ان میں انسانیت کا کچھ فرق ہے، لوگ زندہ انسانوں کا شکار کرتے ہیں اور ہم مردہ لوگوں کا۔“ کس کا فعل زیادہ قبیح ہے، اس کا فیصلہ مشکل تو نہیں۔

  • جنگ، امن اور چرچل – محمد عرفان ندیم

    جنگ، امن اور چرچل – محمد عرفان ندیم

    سر ونسٹن چرچل برطانیہ کے مشہور وزیراعظم تھے، انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز ایک سپاہی اور اخباری نمائندے کی حیثیت سے کیا، وہ1901ء میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور مختلف عہدوں سے ہوتے ہوئے 1965ء میں انتقال کرگئے۔ وہ ہوم سیکرٹری، نیوی اور فضائیہ کے سربراہ، وزیرجنگ، وزیر خزانہ اور اسلحے کے وزیر سے ہوتے ہوئے وزیراعظم کے عہدے تک پہنچے۔ 1936ء میں برطانوی وزیراعظم چیمبر لین نے ہٹلر کو خوش کرنے کی پالیسی اپنائی تو چرچل میدان میں کو د پڑا، یہی وہ وقت تھا جب چرچل کو برطانوی سیاست میں نمایاں ہونے کا موقع ملا۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو اسے ایڈ مرل کی حیثیت سے کابینہ میں شامل کر لیا گیا اور وہ مئی 1940ء میں برطانیہ کا وزیراعظم بن گیا۔ ہٹلر نے خود کشی کی اور 1945ء میں جنگ ختم ہوگئی، برطانیہ میں لیبر پارٹی کی حکومت قائم ہوئی، چرچل قائد حزب اختلاف بن گیا. یہ وہ دور تھا جب روس اور مغربی اتحادیوں میں سرد جنگ عروج پر تھی، چرچل نے اس سرد جنگ میں روس اور مغربی اتحادیوں میں اختلافات بڑھانے میں اہم کر دار ادا کیا، وکٹری کا نشان اور روس کے خلاف ’’آہنی پردے ‘‘ کی اصطلاح بھی اسی نے ایجاد کی۔ 1951ء کے انتخابات میں قدامت پسند پارٹی کو دوبارہ منظم کیا، الیکشن ہوئے، قدامت پسند پارٹی جیت گئی، چرچل دوبارہ وزیر اعظم بنا اور 1955ء میں بڑھاپے کی وجہ سے سیاست سے الگ ہوگیا۔ ونسٹن چرچل کو سیاست کی دنیا کا امام کہا جاتا ہے، دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر اور جرمنی کی شکست میں اس نے اہم کردار ادا کیا. کہا جاتا ہے کہ اگر دوسری جنگ عظیم میں چرچل نہ ہوتا تو آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہو تا۔ جرمنی کے بعد وہ روس کا بھی خاتمہ چاہتا تھا اور اس کے لیے اس نے مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر بھر پور لابنگ کی، امریکی صدر روزویلٹ نے اس لابنگ کی مخالفت کی جس کی وجہ سے روس بچ گیا۔ چرچل برطانوی نوآبادیات کی آزادی کا سخت مخالف تھا، اس نے صرف اس وجہ سے وزیراعظم بننے سے انکار کر دیا تھا کہ اسے بطور وزیراعظم ہندوستان کی آزادی کی تقریب کی صدارت کرنی پڑنی تھی۔چرچل اگرچہ اسلام اور مسلمانوں کا سخت مخا لف تھا لیکن وہ اسلامی تہذیب و ثقافت کا دلدادہ تھا، بلنٹ اس کا ایک عربی دوست تھا، چرچل اس کی پارٹیوں میں جاتا تو عربی جبہ اور لباس زیب تن کرتا، اسلامی تہذیب کی طرف اس کا رجحان اس قدر شدید تھا کہ اس کے گھر والوں کو اس کے مسلمان ہونے کا ڈر رہتا، چرچل نے ایک بار خط میں لکھا کہ وہ پاشا بننا چاہتا ہے جس پر اس کی بھابھی نے اسے ایک خط تحریر کیا جس میں لکھا ’’مہربانی کر کے آپ اسلام قبول نہ کریں، میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ آپ میں مشرقی تہذیب کو قبول کرنے اور پاشا بننے کے رجحانات پائے جاتے ہیں ‘‘

    ونسٹن چرچل کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک بار قوم سے خطاب کے لیے اسے ریڈیو اسٹیشن جانا تھا، وہ سڑک پر آیا اور ایک ٹیکسی والے کو اشارہ کیا کہ اسے برٹش براڈ کاسٹنگ ہاؤس جانا ہے، ٹیکسی ڈرائیور نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ چرچل کی تقریر سننے جا رہا ہے، چرچل یہ سن کو جھوم اٹھا اور جیب سے ایک پاؤنڈ نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا، ٹیکسی ڈرائیور نے پاؤنڈ دیکھا تو بولا ’’بھاڑ میں جائے چرچل اور اس کی تقریر، آپ بیٹھیں میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں، آپ جیسا رحم دل اور نیک انسان مجھے کہاں ملے گا‘‘ چرچل نے بتایا کہ میں ہی چرچل ہوں اور مجھے ہی تقریر کرنے جانا ہے تو ٹیکسی ڈرائیور بہت شرمندہ ہوا اور اپنی گستاخی کی معافی چاہی، چرچل نے اسے سمجھاتے ہو ئے کہا ’’کوئی بات نہیں، روپیہ پیسہ اکثر تعلقات اور رشتے بھلا دیتا ہے‘‘. چرچل ایک بار پاگل خانے گیا اور وہاں کھڑے ایک شخص سے پوچھا ’’آپ کا تعارف‘‘ اس شخص نے جواب دیا ’’میں پاگل خانے میں زیرعلاج تھا، اب صحت یاب ہوگیا ہوں اور آج گھر جا رہا ہوں ۔‘‘ اس نے چرچل کا تعارف پوچھا تو چرچل نے کہا ’’میں برطانیہ کا وزیراعظم ہوں‘‘، وہ شخص قہقہے لگانے لگا، آگے بڑھا اور بڑی ہمدردی کے ساتھ چرچل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’میاں فکر نہ کرو آپ بہت جلد ٹھیک ہو جاؤ گے، یہ بہت اچھا ہسپتال ہے، یہاں آنے سے پہلے میں بھی خود کو برطانیہ کا وزیراعظم سمجھتا تھا لیکن اب میں مکمل طور پر ٹھیک ہوں.‘‘

    بات دور نکل گئی ہم واپس آتے ہیں، چرچل نے دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کو شکست سے بچایا تھا، جنگ کے فورا بعد برطانیہ میں الیکشن ہوئے تو برطانوی عوام نے چرچل کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا. برطانوی عوام کا کہنا تھا کہ چرچل ایک جنگی ہیرو ہے اور اب ہمیں جنگ نہیں امن چاہیے، اس لیے چرچل برطانیہ کی تعمیر نو اور امن کے لیے موزوں امیدوار نہیں۔ برطانوی عوام نے مناسب وقت پر درست فیصلہ کیا تھا، برطانوی عوام جانتے تھے کہ چرچل ایک جنگجو ہے اور ایک جرنیل سے صرف جنگ کی امید ہی کی جا سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ چرچل اگر الیکشن جیت جاتا تو دنیا ایک نئی جنگ میں مبتلا ہوجاتی۔

    برطانوی عوام اور یورپ وہ سبق آج سے ستر سال پہلے سیکھ چکا تھا جو پاک انڈیا عوام، میڈیا اور حکمران ستر سال بعد بھی نہیں سیکھ سکے۔ پاکستان اور انڈیا کے عوام ہر دو ماہ بعد جنگ جنگ کھیلنے لگ جاتے ہیں، ایشیا کے اکثر خطے آج بھی جنگ کی لپیٹ میں ہیں ،کبھی شمالی اور جنوبی کوریا آمنے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کبھی پاک بھارت فوجیں بارڈر پر آ جاتی ہیں، کبھی روس اور چین کے حالات خراب ہو جاتے ہیں اور کبھی عرب اسرائیل تنازع زور پکڑ لیتا ہے. یہ براعظم ایشیا کی بدقسمتی ہے کہ یہ ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے سانحات سے سبق نہیں سیکھ سکا. جنگ عظیم اول اور دوم میں بھی ایشیا میں کروڑوں افراد ہلاک ہوئے لیکن ایشیا نے پھر بھی سبق نہیں سیکھا اور آج ایک بار پھر ایشیا کے دو اہم ممالک، ان کا میڈیا اور ان کے عوام جنگ کے لیے پر تول رہے ہیں. یہ ثابت کرتا ہے کہ ایشیائی عوام کا شعور آج بھی 1945ء کے یورپی عوام سے بہت پیچھے ہے، ان لوگوں نے 1945ء میں سیکھ لیا تھا کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہوا کرتی اور یہ پورے کے پورے ملک ہڑپ کر لیتی ہے لیکن ایشیائی عوام آج بھی جنگوں کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور یہ جنگوں کی پٹاری سے اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔

    آپ دنیا کا نقشہ اپنے سامنے میز پر پھیلائیں اور دنیا کے 260 ممالک کی فہرست بنائیں، اس فہرست میں آپ ترقی یافتہ ممالک کو الگ کریں، آپ کو نظر آئے گا کہ ترقی یافتہ ممالک صرف اس لیے ترقی یافتہ ہیں کہ وہاں امن اور قانون ہے اور ان ممالک نے اپنے ہمسائیوں سے جنگ بندی کے معاہدے کیے ہوئے ہیں جبکہ ترقی پذیر اور تیسری دنیا صرف اس لیے پیچھے ہے کہ وہاں امن ہے نہ قانون اور یہ ممالک اپنے ہمسائیوں سے الجھے رہتے ہیں۔ آج پاکستان اور بھارت اپنا دفاعی بجٹ کم کر دیں تو اگلے دس سال میں ان ممالک سے غربت ختم ہو جائے گی اور اگلے پندرہ سال میں یہ ممالک ایشیا کے ترقی یافتہ ممالک کہلائیں گے۔ میں پاک بھارت میڈیا، عوام اور حکمرانوں کے جنگی جنون کو دیکھتا ہوں تو سر پکڑ لیتا ہوں کہ ڈیڑھ سے پونے دو ارب آبادی والے خطے میں کوئی بھی ایسا نہیں جو جنگ کے بجائے امن کی بات کرے اور یہ بات سمجھ سکے کہ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوا کرتیں بلکہ ہیروشیما اور ناگا ساکا جیسے وہ مسائل پیدا کرتی ہیں جن کے زخم ستر سال گزرنے کے بعد بھی نہیں بھرتے۔

  • نظریۂ پاکستان اور ہم عصر مسلم دنیا – محمد دین جوہر

    نظریۂ پاکستان اور ہم عصر مسلم دنیا – محمد دین جوہر

    محمد دین جوہر اس وقت مسلم دنیا جن حالات میں ہے، وہ معلوم ہیں اور روزمرہ مشاہدے اور تجربے میں ہیں۔ واقعاتی سطح پر حالات کے بارے میں ایک عمومی اور غیررسمی اتفاق پایا جاتا ہے کہ بہت خراب ہیں، اور یہ امکان بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ مزید خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔ لیکن اس بارے میں آرا بہت زیادہ مختلف ہیں، اور شدت سے مختلف ہیں، کہ یہ حالات کیوں پیدا ہوئے، ان کے اسباب کیا تھے، اور ان سے نکلنے کا کیا راستہ ہے؟ ہمارا زوال اور انتشار ایسا موضوع ہے جس نے ہماری دینی روایت اور علوم کو بہت گہرے طریقے سے متاثر کیا ہے اور ساتھ ہی جدیدیت اور جدید دنیا کے بارے میں ہمارے خیالات کی تشریط کی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ نہ صرف ہمارا زوال اور شکست گہری ہوئی ہے، بلکہ ہماری دینی تعبیرات اور علوم کے انتشار میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ زوال و انتشار اور مغربی غلبے کی صورت حال میں ایک اہم پہلو مسلم معاشروں کے چائس یعنی انتخاب کا بھی تھا، جو ہم عصر مسلم دنیا میں اہمیت کا حامل ہے اور نتائج بھی پیدا کرتا ہے۔ سردست اسی کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ وہ انتخاب کیا تھا اور ہم عصر دنیا میں اس کی کیا معنویت ہو سکتی ہے۔

    بیسیویں صدی کے اوائل میں اور پہلی جنگ عظیم کے آس پاس، ترک، عرب اور برصغیر کے مسلم معاشروں کو ایک ہی سوال کا براہ راست سامنا کرنا پڑا۔ سوال یہ تھا کہ تبدیل شدہ اور جدید دنیا میں اسلام کی کیا جگہ ہو گی؟ اس سوال میں اصل نکتہ یہ تھا کہ ان معاشروں کے اجتماعی سیاسی اور معاشی نظام میں اسلام کی کیا جگہ ہو گی؟ اس سوال کو اور سادہ بنایا جائے تو یہ کہ جدید عہد میں اسلام کی کوئی سیاسی معنویت بھی ہے یا نہیں؟ یہ سوال مسلمانوں کے عقائد، عبادات، معاشرت وغیرہ سے فوری طور پر اور براہ راست متعلق نہیں تھا، اور اس کا زور اسلام کی سیاسی حیثیت متعین کرنے تک محدود تھا۔ ان تین مسلم معاشروں نے اس چلینج کا سامنا کیا، اور اس پر جو پوزیشن اختیار کی وہ آج بھی نتیجہ انگیز ہے اور ان معاشروں کے حالات سے براہ راست جڑی ہوئی ہے اور ان کے سیاسی عمل پر مسلسل اثرانداز ہو رہی ہے۔ گزارش ہے کہ ان معاشروں کے انتخاب کو دیکھنا اور ہمعصر دنیا کے سیاسی تناظر میں اسے زیربحث لانا اہم ہے۔

    مختصراً پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ سوال کیوں پیدا ہوا؟ یہ سوال مغرب کے استعماری غلبے، جدید تعلیم کے اثرات اور جدید علم کی غیرمعمولی فتوحات سے پیدا ہوا تھا۔ جدید علم سے لیس اور سیاسی طور پر طاقتور مغرب کا بنیادی موقف یہ تھا کہ مذہب ایک نجی مسئلہ ہے اور انسان کی کسی انفرادی، سماجی اور اجتماعی شناخت کا منبع اور معرف (definer) نہیں ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل تک سیکولر مغرب نے مذہب کو شکست دے کر اسے معاشروں کے اجتماعی عمل یعنی سیاسی اور معاشی نظام سے بے دخل کر دیا تھا اور اپنے پورے تہذیبی نظام کی جدید تشکیل سیکولر افکار پر مکمل کر لی تھی۔ لیکن مغرب نے شکست خوردہ عیسائیت کو اپنے عالمگیر سیاسی ایجنڈے میں نوکری پر رکھ لیا تھا، تاکہ مغلوب دنیا میں اپنے استعماری ایجنڈے اور جرائم کو جواز دینے کے لیے استعمال میں لاتا رہے۔ مغرب کے اس موقف میں زیادہ اصرار اس بات پر تھا کہ مذہب کی اجتماعی معاملات میں کوئی جگہ نہیں ہے، یعنی معاشروں کے سیاسی اور معاشی نظام میں مذہب کی کوئی گنجائش سرے سے ہی نہیں ہے۔ اگر اس موقف کو بالکل ہی سادہ بنایا جائے تو یہ کہ کسی بھی معاشرے میں مذہب انسان کی سیاسی شناخت کے حوالے سے قطعی غیراہم ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ سوال وجودی نوعیت کا تھا اور ہے اور بطور مسلمان ان کی بقا سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔

    سوال یہ ہے کہ ان تین مسلم معاشروں نے اس کا کیا جواب دیا؟ اور یہ جواب بعد ازاں ان معاشروں کی سیاسی نمو اور ارتقا پر کیسے اثرانداز ہوا؟
    پہلی جنگ عظیم کے معاً بعد اس سوال کے روبرو ترک معاشرے کا جواب اور انتخاب یکمشت، دوٹوک اور شدید تھا۔ مصطفی کمال اتاترک کی قیادت میں ترک فرمانروا طبقے نے، جو اناطولیہ کی جغرافیائی وحدت اور ترکوں کی سیاسی آزادی کو بچانے میں کامیاب رہا تھا، ایک بالکل ہی ریڈیکل، سخت اور قطعی فیصلہ کیا۔ انہوں نے تاریخ سے بیک آن اور مکمل انقطاع کا فیصلہ کیا۔ بعد ازاں اس انقطاع کو ایک واقعاتی سماجی حقیقت بنانے کے لیے مکمل ترین ریاستی جبر کو استعمال کیا گیا۔ ترک فرمانروا طبقے کے فیصلے سے قومی شناخت ”ترک قوم پرستی“ پر قائم ہوئی، اور سیاسی عمل کی بنیاد جیکوبن سیکولرزم قرار پایا۔ سادہ لفظوں میں ترک فرمانروا طبقے نے اسلام کو ارادتاً تَرک کر دیا، اور اس کے سماجی مظاہر کو نابود کرنے کے منصوبے پر مسلسل عمل کا آغاز کیا۔ ترک زبان کی مکمل تشکیل نو کی تاکہ ماضی کی طرف کھلنے والے ہر دروازے کو بند کیا جا سکے۔ اپنے تصور حیات اور سیاسی ورلڈ ویو کے طور پر فرانس سے درآمد شدہ ایک عسکریت پسند سیکولرزم کو اختیار کیا۔ یہ سیکولرزم ترک مسلم معاشرے پر پیوند نہیں تھا، بلکہ سرجری کے ذریعے اعضا کی تبدیلی سے مماثل تھا۔ یہ ترک معاشرے میں آنے والی معمول کی تبدیلی نہیں تھی جو تاریخی عمل میں سامنے آئی ہو۔ اس میں بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ترک معاشرہ تاریخ اور مذہبی روایت میں گھرا ہوا تھا، اور طاقت کے ریاستی نظام کی جبری تشکیل جدید سیکولر تصورات پر کی گئی تھی۔ اس چائس سے جدید اور سیکولر ترک ریاست اور روایتی معاشرے میں تناقض اور تضاد کی ایک مستقل صورت حال پیدا ہو گئی تھی، اگرچہ جدید ریاست اپنی سیکولر ترجیحات کو معاشرے پر نافذ کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہی۔ لیکن اس سے ترک معاشرے اور ریاست میں ایک ایسے جدلیاتی عمل کا آغاز ہوا جو ان کی مابعد تاریخ کے انجن کی حیثیت رکھتا ہے۔

    بیسیوں صدی کے اوائل میں ترک فرمانروا طبقے کا یہ فیصلہ آج سو سال بعد بھی ترک اجتماعی عمل کا بنیادی ترین معرف (definer) ہے۔ اس فیصلے نے گزشتہ ایک صدی میں ترک معاشرے کی نمو اور ارتقا کے عمل کو ”نارمل“ نہیں رہنے دیا۔ اس فیصلے کے بعد ترک معاشرہ جزوی طور پر ہی جدید بن سکا، اور مجموعی طور پر ایک مسخ شدہ معاشرے کی صورت اختیار کر گیا، کیونکہ سیاسی جبر، معاشی استحصال، سماجی انتشار، عدم استحکام، خانہ جنگی کی صورت حال اور مغربی مغلوبیت اس کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہو گئے۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں اے کے پارٹی کی سیاسی حکومت نے اس وجودی بحران سے نکلنے کے لیے اگرچہ بہت ریڈیکل اقدامات کیے گئے ہیں لیکن ان کے حتمی نتائج کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید سیکولر ریاست اور روایتی مذہبی معاشرے کی خونریز کشمکش کو حل کرنے میں اردوگان حکومت نے غیرمعمولی جدوجہد کی ہے۔

    مختصر یہ کہ بیسویں صدی کے اوائل میں ترک ریاست اور اس کے فرمانروا طبقے نے اسلام کو رد کر دیا، اور مغربی سیکولرزم کو سیاسی ورلڈ ویو کے طور پر اختیار کیا، اور تاریخی اور تہذیبی روایت سے انقطاع کو ایک ریاستی پالیسی کے طور پر روا رکھا۔ مابعد ترکی اس فیصلے کا حاصل ہے۔ فی الوقت ہم یہ بحث نہیں اٹھا رہے کہ ترک فرمانروا طبقے نے عمومی ترک معاشرے کی ترجیحات کو نظرانداز کر کے ہی یہ موقف اختیار کیا تھا اور یہ معاشرہ ایک صدی سے اسی فیصلے کی قیمت ادا کر رہا ہے۔

    پہلی جنگ عظیم کے معاً بعد، عرب معاشرے کو بھی بعینہٖ یہی سوال درپیش تھا۔ عرب دنیا کا فیصلہ منقسم لیکن اپنے لب لباب میں وہی تھا جو ترک معاشرے نے کیا تھا۔ عرب دنیا کے روایتی اور بڑے تہذیبی مراکز میں سامنے آنے والے سیاسی عمل کی بنیاد بعثی تصورات سے تشکیل پانے والے عرب نیشنلزم پر رکھی گئی۔ اور کم گنجان آباد قبائلی معاشروں میں ملوکیانہ تصورات کو جدید ریاست پر پوت کے مذہبی تعزیرات سے گانٹھ دیا گیا تاکہ سیاسی جبر کو مذہبی قانونی اساس فراہم کی جا سکے۔ بعثی عرب نیشنلزم ایک نسل پرستانہ اور سیکولر سیاسی نظریہ ہے، اور اس پر کاربند عرب قوم پرستوں نے اسلام کو ایک سیاسی تصور کے طور پر بالفعل رد کر دیا اور اپنے ملکوں کے سیاسی عمل کی بنیاد بعثی سیکولر نظریے پر استوار کی۔ عرب معاشرے سے مذہب کے انخلا اور معاشرے کو جدید بنانے کے لیے انہوں نے ترکی ریاست جیسی پالیساں اختیار کیں۔ بعثی نیشنلزم کی طرح، ملوکیانہ وہابیت بھی کسی تاریخی اور روایتی تسلسل کا نام نہیں ہے، بلکہ اس سے جڑے ہوئے سیاسی افکار انقطاع کے عمل کو توسیع دے کر جغرافیے میں بھی مؤثر کر دیتے ہیں۔ سیکولرزم روایت سے انقطاع کو معاشرے، تاریخ اور علم میں واقعاتی بنا دیتا ہے۔ وہابیت یا ملوکیانہ وہابیت میں ”انقطاع“ کا تصور سیکولرزم سے بھی زیادہ شدید، گہرا اور توسیع دادہ ہے۔ یہ انقطاعِ محض کی تشکیل ہے، جو تاریخ کے دائرے میں ممکن ہی نہیں اور فوراً تشدد اور nihilism کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ عرب معاشرے میں بعث نیشنلزم اور ملوکیانہ وہابیت اجتماعی سیاسی عمل کی بنیاد بنے اور عربوں کی قومی شناخت کو بعثی عرب نیشنلزم پر استوار کیا گیا۔ ملوکیانہ وہابیت اور سیکولرزم کو اجتماعی سیاسی عمل کے لیے رہنما بنایا گیا۔ عملاً اس کا بھی عین وہی نتیجہ نکلا جو ترکی میں سامنے آیا۔ عرب معاشرے بھی مسلسل سیاسی جبر، عمومی معاشی استحصال، عدم استحکام، انتشار اور مغربی غلبے کا شکار رہے۔ آج کی عرب دنیا ان فیصلوں کا حاصل ہے جو عربوں نے جنگ عظیم اول کے فوراً بعد استعمار کی نگرانی میں یا اس سے سازباز میں کیے۔

    ابھی تک ہم نے جو بات عرض کی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بیسویں صدی کے اوائل میں ترک اور عرب معاشروں نے جو فیصلے کیے وہ معمولی ظاہری فرق کے ساتھ تقریباً ایک جیسے تھے۔ ان دونوں مسلم معاشروں میں قائم ہونے والے ریاستی نظام اور اس کو کنٹرول کرنے والے فرمانروا طبقے نے اسلام کو اجتماعی سیاسی اور معاشی امور سے سے بے دخل کر دیا، اور اسلام کو ایک سیاسی ورلڈ ویو کے طور پر مسترد کر دیا۔ آج کی عرب دنیا جس صورت حال سے دوچار ہے وہ اس فیصلے کا حاصل ہے۔ اجتماعی سیاسی نظام کی حیثیت معاشرے میں سر کی طرح ہوتی ہے۔ سیاسی نظام کی اساس سیکولرزم پر منتقل ہونے کی وجہ سے اناطولیہ اور مشرق وسطیٰ کے مسلم معاشرے سربریدہ معاشروں میں تبدیل ہو گئے۔ سربریدہ معاشرے استعماری گِدھوں کی نہایت مرغوب غذا ہے، بلکہ ان کی یہی غذا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز سے مسلم تہذیب کا مرکزی جغرافیہ ان گدھوں کی روئے ارض پر سب سے بڑی آماجگاہ بن گئی ہے۔

    بیسویں صدی کے اوائل میں برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی صورت حال ترکوں اور عربوں سے کہیں ابتر تھی۔ ہندوستانی مسلم معاشرہ گزشتہ دو صدیوں سے سیاسی انتشار، عمومی طوائف الملوکی، ایرانی غارت گری، مرہٹہ سیادت گیری، گہری فرقہ واریت، جنگی شکست، استعماری ملک گیری اور غلامی، اور سنگین معاشرتی انتشار سے دوچار تھا۔ ہندوستانی مسلمانوں کو استعمار کے غلبے میں رہتے ہوئے آئندہ ہندو غلبے کے یقینی امکان کا سامنا تھا۔ ان کی تہذیب ملبے کا ڈھیر تھی، دینی روایت پارہ پارہ تھی، سیاسی غلامی مکمل تھی، معاشی دریوزہ گری معمول تھی۔ ان کے پاس انتخاب کے راستے اور مواقع نہایت محدود تھے۔ اور بیسویں صدی کے اوائل میں ترک اور عرب معاشروں کی طرح ہندوستانی مسلم معاشرے کو بھی عین اسی سوال کا سامنا تھا۔ ہم عصر تاریخ کے ادراک اور اس سے نبردآزما ہونے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہندوستان کے مسلم معاشرے نے اس سوال کا سامنا کس طرح کیا اور اس کا کیا جواب دیا؟ اور ہندوستانی مسلم معاشرے کا جواب اور انتخاب، ترک اور عرب معاشرے کے جواب اور انتخاب سے بالکل مختلف تھا۔ اور یہ انتخاب پاکستانی معاشرے اور اس کے سیاسی ارتقا پر گہرے طریقے سے اثرانداز ہوا۔

    برصغیر کے مسلم معاشرے کا جواب نظریۂ پاکستان کی صورت میں سامنے آیا۔ زیر بحث عالمی سیاق و سباق میں نظریۂ پاکستان کی تہذیبی معنویت کو جاننا ضروری ہے۔
    ترک اور عرب معاشرے نے مغربی اور استعماری جدیدیت کے اساسی اصول کو قبول کرتے ہوئے اسلام کو اپنی سیاسی شناخت کے معرف (definer) کے طور پر رد کر دیا۔ جبکہ برصغیر کے مسلمانوں نے اس کے بالکل برعکس اپنی دینی شناخت ہی کے سیاسی شناخت ہونے پر اصرار کیا اور اس میں کامیاب رہے۔ یعنی نظریۂ پاکستان کا اساسی ترین موقف ہی یہ ہے کہ مسلمانوں کی مذہبی شناخت دراصل ان کی سیاسی شناخت بھی ہے اور اس شناخت کا معنی بھی۔

    بیسیوں صدی کے اوائل میں ترک اور عرب معاشرے نے اسلام کو ایک سیاسی ورلڈ ویو کے طور پر مسترد کر دیا، جبکہ برصغیر کے مسلمانوں نے اسلام کو اپنے سیاسی ورلڈ ویو کے طور پر اختیار کیا۔
    ترک اور عرب معاشرے نے سیکولرزم کو اختیار کرتے ہوئے متحجر دینی روایت اور اس کے روایتی ورلڈ ویو کو رد کر دیا اور سیکولر سیاسی اقدار کو اپنے اجتماعی عمل کی بنیاد بنایا۔ جبکہ برصغیر کے مسلم معاشرے نے نظریۂ پاکستان کے بیان میں متحجر دینی روایت سے جڑے ہوئے سیاسی افکار اور سیکولرزم دونوں کو مسترد کر دیا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے سیاسی نظام اور معاشرے کی تشکیل کے لیے اپنے بنیادی تہذیبی تصور، یعنی اسلام، سے وابستگی کو برقرار رکھا، اور اسلام کی تہذیبی اقدار کو اپنے اجتماعی نظام کی اساس بنانے پر اصرار کیا۔
    ترک اور عرب معاشرے نے متحجر دینی روایت اور اس کے سیاسی ورلڈ ویو کو مندرس قرار دے کر مسترد کر دیا کیونکہ وہ اسے جدید علوم و فنون کے حصول اور جدید ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ ترک اور عرب فرمانروا طبقے کا خیال تھا کہ پرانے تصورات کے ہوتے ہوئے معاشرے کو جدید اور ترقی یافتہ نہیں بنایا جا سکتا۔ نظریۂ پاکستان نے مذہب کی متحجر تعبیرات اور ان سے جڑے ہوئے سیاسی افکار اور جدید سیکولر تصورات دونوں کو رد کر دیا، لیکن اسلام کی اجتماعی اقدار کی بالا دستی پر اصرار کیا، اور جدید علوم و فنون اور ترقی کے جدید ذرائع کے حصول کا راستہ بھی کھلا رکھا۔

    ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں سیکولرزم کا کیس بہت کمزور اور بے بنیاد ہے، اور نظریۂ پاکستان اور پاکستان کی جڑواں حیثیت کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے اہل علم اور دانشور بات یہاں ختم کر دیتے ہیں، لیکن ہماری دانست میں بات یہاں سے شروع ہوتی ہے۔

    مسئلہ یہ ہے کہ نظریہ تاریخ پر غالب آ جاتا ہے، لیکن ریاست سے شکست کھا جاتا ہے۔ نظریۂ پاکستان نے برصغیر کی تاریخی حرکیات پر غالب آ کر اسے بدیہی طور پر تبدیل کر دیا، لیکن ورثے میں ملنے والی ”استعماری“ ریاست سے شکست کھا کر کمزور ہو گیا، اور اسلامی معاشرے اور عدل اجتماعی کا آدرش حاصل نہ ہو سکا۔ نظریۂ پاکستان کی تاریخ اور ریاست سے نسبتوں میں ایک ایسا التباس پیدا ہو گیا، جو ہمارے موجودہ حالات کا صورت گر ہے اور ہم عصر دنیا میں نظریۂ پاکستان کے ”بحران“ کی اصل وجہ ہے۔ اس وقت نظریۂ پاکستان کو نئی فکری تشکیلات کی ضرورت ہے تاکہ اس کے سیاسی اور تہذیبی آدرش کو واضح رکھا جا سکے، اور نظریے اور ریاست کے باہمی تعلق میں عدل اجتماعی کا راستہ تلاش کیا جا سکے، تاکہ یہ ہم عصر تاریخ سے ہم قدم ہونے کے قابل ہو۔

  • بقا کی جنگ – قاضی حارث

    بقا کی جنگ – قاضی حارث

    13713507_10205280484611378_968149985_nپہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک دور سرد جنگ کا بھی شروع ہوا. یہ سرد جنگ دراصل نظاموں کی جنگ تھی جو ابھرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام (کیپٹلزم) اور اشتراکیت (سوشلزم) کے مابین تھی جو بالترتیب امریکہ و سوویت یونین میں رائج تھے۔ یہ سرد جنگ سوویت یونین کے ٹوٹنے پر ختم ہوئی اور کیسے ختم ہوئی، کیا فوائد اور کیا نقصانات ہوئے اس کی بحث میں پڑے بغیر میں اصل بات بتانا چاہوں گا کہ اس کے بعد 1989 سے ایک دور شروع ہوا جسے “گلوبلائزیشن” کا نام دیا گیا۔
    گلوبلائزیشن کا مقصد پوری دنیا کے انسانوں کو ایک جیسا بنانا تھا تاکہ مابین جنگ و جدال ختم کیا جاسکے۔ ہوموجینس سوسائٹی کے نام پر دنیا کو سب سے بڑا فریب یہ دیا گیا کہ معاشی طور پر طاقتور ممالک نے کمزور ممالک کو قرضوں وغیرہ کے نام پر غلام بنانا شروع کیا۔ مانیٹری پالیسی اور فوجی حکمت عملیاں اپنے ہاتھ میں لے کر ان کو نہ صرف معاشی طور پر کمزور کیا گیا بلکہ ان کی پالیسیاں بھی کمزور کی گئیں مبادا ترقی کرلیں۔
    پوری دنیا میں ایک جیسی سوسائٹی کے نام پر سب سے بڑا فریب یہ دیا گیا کہ دولت صرف چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی اور باقی لوگ ان چند ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن گئے۔ ٹیکنالوجی کا منبع مغرب قرار پاگیا کیونکہ اس کے لیے کافی و وافی زر مبادلہ کے ذخائر یا انویسٹمنٹ مشرقی ممالک میں غریب ممالک کے پاس نہ تھی۔ راستے میں جہاں رکاوٹ نظر آئی اسے بمباری کرکے یا بلڈوزر پھیر کر برابر کیا گیا۔ بعض ممالک کے تختے الٹنے پڑے، بعض حکمرانوں کو قتل کرانا پڑا۔ بعض جگہ بغاوتیں کرائی گئیں اور نہ جانے کیا کچھ!!
    پوری دنیا کے انسانوں کو ایک جیسا بنانے کےلیے عالمی طور پر حکمت عملیاں ترتیب دی گئیں، زور و شور سے کام شروع کیا گیا۔ بلینز آف ڈالرز کا خرچہ کیا گیا۔ پوری دنیا میں برانڈز کو پھیلایا گیا۔ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک مکڈونلڈ اور کے ایف سی تقریبا ایک ہی قیمت میں فراہم کیےگئے۔ پوری دنیا نائکی کے شوز پہنے، پوری دنیا کوٹ پیٹ پہنے، پوری دنیا زارا کے کپڑے پہننے میں فخر محسوس کرے، سب خواتین لوریلز کی پراڈکٹ استعمال کریں وغیرہ وغیرہ۔
    اس کے لیے جو سب سے بڑی رکاوٹ ان کو نظر آئی وہ مذہب اور نظریات تھے۔ انھوں نے پوری دنیا میں سیکولرزم کا نعرہ لگایا اور یہ انسان کی فلاح کے لیے نہیں بلکہ اپنا تختہ قدرت بڑھانے کے لیے کیا گیا تاکہ دولت اور ٹیکنالوجی میں پوری دنیا ان کی غلامی میں رہے۔ سوسائٹی سے مذہب کو ختم کرنے کے لیے انہوں نے تمام ممالک میں سیکولرز کا رجحان اور موافق حالات پیدا کیے اگرچہ اس کے لیے سینکڑوں لاشیں گرانی پڑیں، کہیں مسلمانوں کی تو کہیں غیر مسلمانوں کی۔ نظریات کو بدلنے اور ترجیحات کو معلوم کرنے کے لیے انہوں نے موبائل اور ٹیکنالوجی کو فروغ دیا تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کی ذہن سازی اور ترجیحات معلوم کرکے اسی مطابق گلوبلائزیشن پر کام کیا جاسکے۔
    وائے ناکامی! کہ افغانستان کی جنگ میں معاشی طور پر نقصان کے بعد انھیں پے درپے ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا جس کا ظہور تین دن پہلے ترکی میں بھی ہوا۔
    اس وقت ان کی سب سے بڑی کوشش مذہب سے وابستہ لوگوں کو مذہب سے متنفر کرنے کی ہے تاکہ وہ سب مل کر ان کی غلامی میں آجائیں لیکن ہم اس ایک ہستی کے غلام ہیں جس نے دنیا کو تخلیق کیا اور جو دنیا کا اصل مالک و خالق ہے۔ لوگوں کو مذہب سے دور کرنے کے لیے باقاعدہ پراجیکٹ شروع کیے گئے جن پر سرمایہ لگایا گیا جن کی تفصیل پھر کبھی ان شاء اللہ۔