Tag: جنرل اسمبلی

  • نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا – رضوان الرحمن رضی

    نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا – رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہو رہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری حکومت کو حاصل ہوا، ورنہ وردی والی جمہوریت کے دور میں تومعاملہ کبھی ملک میں موجود ’’نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ کے خلاف عالمی مدد کی بھیک مانگنے کی جدوجہد سے آگے نہیں بڑھ پایا جو کہ دراصل دہشت گردی میں ملوث ہونے کا بالواسطہ اعتراف ہوا کرتا تھا۔

    گذشتہ پندرہ سال تو ہمیں وہ پچیس لاکھ افغان مہاجرین بھی بھولے رہے، جن کی ہم اب تک میزبانی کرتے رہے ہیں۔ اور کشمیر کا تو ذکر ہی کیا کہ اس پر کمانڈو جنرل پرویز مشرف نے وہ وہ قلابازیاں کھائیں اور اس کے اتنے ایک حل تجویز کر دیے کہ محسوس ہونے لگا کہ مسئلہ کشمیر اب دفن ہوگیا ہے۔ لیکن کشمیری بہت سخت جان نکلے اور برہان مظفر وانی نے خون دے کر اپنی آزادی کی جدوجہد کو جو مہمیز بخشی تو اب یہ لازم تھا کہ پاکستان کے عوام کی منتخب قیادت اس پر اپنے ووٹرز کے جذبات کے عین مطابق عمل کرتی۔ جس طرح بھارتی فوجیون نے شہید کا گلا کاٹنے کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالی اور بھارتی عوام نے اس پر تالیاں بجا کر داد دی تو پوری چناروادی میں آگ سی لگ گئی۔ اب وہاں کا ہر جوان برہان مظفر بننے گھر سے نکل پڑا ہے۔

    بھارت نے اس کو جنگی جنون بنانے کی کوشش کی اور پاکستان کی بحثیت ریاست اور اس کے عوام کا ردعمل جاننے کے لیے ایک ماحول بنایا تو اسے سرحد سے اس پار سے مسکت جواب گیا جس سے اس کی ’تسلی‘ ہو گئی۔ اس کے میڈیا کی کذب بیانی سے دیا گیا تاثر کہ نیپال، بنگلہ دیش اور افغانستان بھی پاکستان مخالفت میں اس کے ساتھ ہیں، چوبیس گھنٹے کی عمر بھی نہ جی پایا۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے سوشل میڈیا پر پاک فوج کے ایک جرنیل کے کپتان صاحبزادے کے ہاتھوں موٹروے پولیس کے انسپکٹرز کی درگت بنانے کی وجہ سے سوشل میڈیا پر ہمارے اداروں کے بارے میں جن جذبات کا اظہار ہو رہا تھا، وہ سب پس منظر میں چلے گئے اور قوم نے یک زبان ہو کر بتایا کہ ہم کس طرح یک جان ہیں۔ یہ پیغام نئی دہلی میں بہت تشویش کے ساتھ سنا اور سمجھا گیا۔

    وزیراعظم کی تقریر سے محض ایک دن قبل برطانوی فوج کے سربراہ کی اسلام آباد آمد، پاکستان کے آرمی چیف سے ملاقات اور اس کے بعد آرمی چیف کا میاں نواز شریف کو امریکہ فون کرنا اس امر کی غمازی کرتے تھے کہ بھارتی خواہش پر امریکہ نے اپنا کوئی بالواسطہ پیغام بھیجا ہے۔ دراصل امریکی خواہشات کے ہم تک پہنچانے کے لیے گذشتہ ڈیڑھ دہائی سے یہی راستہ استعمال ہوتا رہا ہے۔ لیکن ظاہر ہے سامنے ایک فون پر ڈھیر ہوجانے والی قیادت نہیں تھی، اس لیے تقریر سے تو یہی پتہ چلا کہ بات نہ بن سکی۔ اور آخرکار امریکی دفترِ خارجہ کا ایک غیرجانبدار سا بیان آ گیا کہ دونوں ملک اپنے مسائل کو باہمی گفت و شنید سے حل کریں، حالاں کہ پاکستان کی قیادت یہ باور کروا چکی تھی کہ باہمی مذاکرات سے مسئلہ حل نہ ہونے کی وجہ سے ہی ہم سے عالمی فورم پر لے کر آئے تھے۔

    میاں نواز شریف نے اقوامِ متحدہ روانہ ہونے سے پہلے مقامی طور پر کچھ اداروں سے بھی رعایتیں طلب کی تھیں جو عطا کر دی گئیں۔ عمران خان صاحب جو اس سے قبل رائیونڈ دھرنے کی تاریخ بیس سے بائیس ستمبرکے درمیان رکھنے پر مُصر تھے، انہوں نے اس کو دس دن آگے بڑھا دیا اور قادری صاحب جو برطانیہ پدھارنے سے پہلے یہ کہتے ہوئے پائے گئے تھے کہ وہ وہاں جا کر یورپی یونین کے سامنے موجودہ نواز شریف حکومت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مہم چلائیں گے، ان کو بھی ایک سخت ’’شٹ اپ‘‘ کال دی گئی۔ کال اتنی سخت تھی کہ موصوف تا دمِ تحریر نہ صرف بولنے سے انکاری ہیں بلکہ ان کی عمرانی دھرنے مین شرکت بھی مشکوک نظر آتی ہے۔

    میاں نواز شریف نے کمال ہوشیاری اور عقل مندی سے خود پر ’مودی کا یار‘ ہونے والے الزامات لگانے والوں کو مودی کی بغل میں کھڑا کردیا ہے۔ وہ اپنے اوپر پڑنے والا مقامی دبائو بڑی چالاکی سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس ڈائس پر چھوڑ آئے ہیں جہاں انہوں نے کھڑے ہو کر تقریر فرمائی تھی۔ اب ان کے سیاسی مخالفین کو ان کے خلاف ماحول بنانے کے لیے معاملہ پھر صفر سے شروع کرنا پڑے کرے گا جس کے لیے ’بہاماس‘ سے نئی کمک پہنچ چکی ہے۔

    پاکستان کے دفترِ خارجہ نے بھی پہلی مرتبہ پیشہ ورانہ دیانت داری کے ساتھ اس اہم موقع کی تیاری کی اور شاید ان کے لیے بھی پہلا موقع تھا کہ انہیں معاملات کو خالص پیشہ ورانہ انداز میں دیکھنے کی ’’اجازت ‘‘ ملی تھی۔ اور ’جس کا کام اسی کو ساجھے‘ کے مصداق جب یہ کام پیشہ ورانہ ہاتھوں میں آئے (جن میں سے کسی کو دعویٰ نہیں تھا کہ اسے سب پتہ ہے) تو سائیڈ لائن پر او آئی سی کا اجلاس بھی ہوا، جس میں پاکستان کی ’ہرقسم‘ کی حمایت کا نہ صرف زبانی اعادہ کیا گیا بلکہ اس کے عملی ثبوت بھی نظر آئے۔ دنیا بھر کی اہم قیادت سے ملاقاتیں بھی ہوئیں اور ان تک اپنا نکتہ نظر بھی موثر انداز میں پہنچایا گیا۔

    جب اجلاس سے پاکستانی وزیراعظم نے خطاب کرلیا اور اس ضمن میں امریکی و بھارتی خواہشات کو بھی خاطر میں نہیں لائے تو پھر ایران کے صدر کو بھی پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات کرنا یاد آ گیا۔ اور اس کے بعد ایران نژاد پاکستانی لابی، سوشل میڈیا پر روبہ عمل ہو گئی جس کا واحد مقصد سعودی عرب کو شیریں مزاری اور مشاہد حسین ٹائپ کی پارلیمانی تقریر کے موافق سوشل میڈیائی گدڑ کٹ لگانا اور گالم گلوچ کرنا تھا۔ حالاں کہ طے شدہ معاملات کے مطابق او آئی سی، جس کی نمائندگی سعودی عرب کے پاس تھی، اس نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سائیڈ لائن پر اجلاس طلب کر کے پاکستان کو جو سفارتی کمک فراہم کی تھی، اس نے بھارت کا سارے کا سارا بیانیہ اڑا کے رکھ دیا تھا، شاید اسی کا اندازہ کرتے ہوئے بھارت نے اپنے نودریافت شدہ ’متر‘ امریکہ کو اس معاملے میں اتارا۔

    سوشل میڈیا پر اور تو کچھ نہیں ہوسکا لیکن سب سے پہلے یہ بیانیہ چھوڑا گیا کہ نواز شریف نے جی ایچ کیو کی لکھی ہوئی تقریر پڑھی۔ حالاں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ جی ایچ کیو ادھر ہی واقع ہوا کرتا تھا جب بہادر کمانڈو جنرل پرویز مشرف نے کشمیر پر قلابازیاں لگانے کی انتہا کر دی تھی۔ تو پھر انہوں نے اتنی اہم تقریر اپنے چیف کو کیوں نہیں لکھ کر دی؟ حیرت ہے۔

    بھارت نے بھی میاں نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے بعد جنگی جنون سے مراجعت کا سفر اختیار کر لیا ہے، مناسب ہوگا کہ ان کے مقامی ناقدین بھی کچھ دنوں تک اپنے خیالات سے مراجعت نہ بھی کریں تو کم ازکم میاں نوازشریف کی وطن واپسی کا انتظار کرلیں ۔ان سے گذارش ہے کہ میاں صاحب بھی ادھر ہی ہیں اور سیاست بھی کہیں نہیں جاتی، اور اب قدرے تاخیر سے ہی سہی لیکن اگر ایرانی قیادت کی طرح، جناب عمران خان کو بھی کشمیریوں کا بہتا خون نظر آ گیا ہے تو پھر کیوں نہ چند روز کے لیے وہ کان بند کر لیں، کہ بعض موقعوں پر خاموشی بھی بہت بڑی عقل مندی ہوتی ہے۔

  • جنرل اسمبلی کا اجلاس اور پاکستان کو سفارتی محاذ پہ درپیش چیلنجز – محمد اشفاق

    جنرل اسمبلی کا اجلاس اور پاکستان کو سفارتی محاذ پہ درپیش چیلنجز – محمد اشفاق

    محمد اشفاق پاکستان اور وزیراعظم نواز شریف کے لیے بھارت کی بدلی ہوئی حکمت عملی کی وجہ سے سفارتی محاذ پہ چیلنجز بڑھتے چلے جا رہے ہیں.

    بھارت پاکستان کے حوالے سے دو تین پہلوؤں پہ ایک ساتھ کام کر رہا ہے. ایک تو وہ کشمیر کے معاملے پر پاکستانی کی جارحانہ سفارتی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے ناراض بلوچ رہنماؤں کو اپنے ساتھ ملا کر بلوچستان کے مسئلے کو ہائی لائٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے. دوسرا اور زیادہ خطرناک وار ”سی پیک“ کو متنازعہ بنانا ہے. اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موجودہ سیشن میں بلوچستان کے خود ساختہ نمائندے جناب مہران مری نے سی پیک کو چیلنج کر کے بھارتی عزائم آشکار کر دیے ہیں. ان کا کہنا یہ ہے کہ بلوچی سرزمین کا چین کے حوالے کیا جانا ان کے لیے ناقابل قبول ہے اور وہ پاکستان اور چین کے خلاف عالمی عدالت تک جانے کو تیار ہیں. دوسری جانب براہمداغ بگٹی صاحب نے بھی بھارت میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ساتھ میں ملتے جلتے عزائم دہرائے ہیں. ان کے اس موقف کو عالمی سطح پہ زیادہ پذیرائی تو کبھی نہیں مل پائے گی، لیکن یہ ان کا مقصد بھی نہیں ہے. اصل مقصد چین کو سی پیک کے معاملے پر تشویش کا شکار کرنا ہے. ایک چینی تھنک ٹینک کے مطابق چین کو اندیشہ ہے کہ سکیورٹی خطرات کے سبب شاید سی پیک کی لاگت ابتدائی تخمینے سے کہیں زیادہ بڑھ جائے گی، اور ہمسایہ ممالک خصوصا افغانستان کی مخالفت کی وجہ سے اس سے شاید وہ معاشی فوائد بھی نہ حاصل ہو پائیں جن کی توقع کی جا رہی تھی. چین اس کے باوجود یقینا سی پیک کو ہر صورت میں آگے بڑھانا چاہےگا مگر چینی حکومت کی تشویش پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے.

    بھارت افغانستان کو اپنا ہمنوا بنا کر اکنامک کاریڈور کو مزید متنازعہ بنانا چاہتا ہے، ہماری بدقسمتی کہ افغانستان کے امور پر فیصلہ سازی کا اختیار ہم سویلین حکومت کو دینے پر تیار نہیں ہیں اور ہماری اپنی سوچ کا یہ حال ہے کہ آج چلغوزوں کی تجارت پہ پابندی لگا کر ہم اپنی وسط ایشیائی ریاستوں سے مستقبل کی اربوں ڈالر کی تجارت کو داؤ پہ لگا رہے ہیں. ہمیں یہ چیز سمجھنا ہوگی کہ سی پیک کی کامیابی کے لیے افغانستان کا کردار بہت اہم ہے اور اسے ہم نے ہر صورت ساتھ رکھنا ہے. اشرف غنی جیسے سمجھدار اور صابر لیڈر کا بھارتی کیمپ میں چلے جانا ہمارے پالیسی سازوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے. مزید ستم یہ کہ اپنے جن اثاثوں کی خاطر ہم نے اشرف غنی کو ناراض کیا، آج وہ بھی ہم پہ اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں. افغانستان بھی اگر بھارت کی ہمنوائی میں جنرل اسمبلی میں کراس بارڈر ٹیررازم کا راگ الاپتا ہے تو ہمارے لیے مشکلات مزید بڑھ جائیں گی. اور یہی وہ تیسرا پہلو ہے جس پہ بھارت کام کر رہا ہے.

    اڑی میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعے کو بھارت ممکنہ حد تک اچھالےگا اور اس سے پاکستان کے کشمیر پہ موقف کو کمزور کرنے کی کوشش کرے گا. بھارت کی دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش ہوگی کہ کشمیر میں موجودہ شورش ایک عوامی تحریک نہیں ہے بلکہ پاکستان کے سپانسرڈ دہشت گردوں کا کیا دھرا ہے. اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے موجودہ اجلاس میں بھارتی نمائندے نے نہ صرف کشمیر بلکہ بلوچستان میں بلوچ راہنماؤں کی گرفتاری،گمشدگی اور قتل، سندھ میں اقلیتوں کو نشانہ بنائے جانے اور ایم کیو ایم راہنماؤں کی گرفتاری، کے پی کے میں جاری آپریشن میں لاکھوں لوگوں کے بےگھر ہونے کے حوالے سے بھی پاکستان پہ سنگین الزامات عائد کیے ہیں. اس سے بھارت کے عزائم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے.

    اس کے جواب میں ہم کیا کر رہے ہیں؟
    وزیراعظم نواز شریف نے اپنے بیس نمائندے مختلف ممالک میں بھیجنے کا جو فیصلہ کیا وہ بھی ایک مثبت اقدام تھا. سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو وزیراعظم کا خط بھی ایک اچھا فیصلہ ہے. جنرل اسمبلی سے خطاب سے پہلے کشمیر جانا اور جناب راجہ مسعود کو اپنے ساتھ نیویارک لے کر جانا بھی اچھا سفارتی اقدام ہے جبکہ وزیراعظم سائیڈ لائن میٹنگز میں مصروف ہوں گے، راجہ صاحب او آئی سی کے کشمیر پہ ورکنگ گروپ کو بریفنگ دیں گے.

    جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں پانچ چھ ایشو مرکزی اہمیت رکھتے ہیں، جن میں شام کی صورتحال، یوکرائن کا تنازعہ، شام اور یوکرائن دونوں میں سیزفائر پر عملدرآمد یقینی بنانا، مہاجرین کا مسئلہ جسے پہلی بار اتنی اہمیت ملی ہے. شام کے ایک علاقے کو سیف زون قرار دے کر وہاں لوگوں کی آبادکاری، ایران سے کیے گئے جوہری معاہدے پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ ان ایشوز میں شامل تھے. پاکستان کی بروقت اور تندوتیز سفارتی کوششوں کے نتیجے میں اب عالمی ذرائع ابلاغ ان معاملات کے ساتھ ساتھ کشمیر پر پاک بھارت کشیدگی کا بھی ذکر کر رہے ہیں، جو بلاشبہ ہماری کامیابی ہے. کئی برسوں بعد کشمیر کے معاملے کو ایک بار پھر عالمی توجہ ملنے کا امکان پیدا ہوا ہے، اسے اب ضائع نہیں ہونا چاہیے.

    کل جنرل اسمبلی سے وزیراعظم کا خطاب اس حوالے سے بہت اہم ہے. ان کے الفاظ کے چناؤ سے اندازہ لگایا جائے گا کہ پاکستان اس معاملے پہ کس حد تک جانے کو تیار ہے. عین ممکن ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے بھی پاکستانی وزیراعظم ایک دو وضاحتی جملے کہہ دیں، جبکہ بلوچستان کے معاملے پر بولنا اس مسئلے کو زیادہ اہمیت دینے کے مترادف ہوگا اس لیے شاید اس پر خاموشی اختیار کی جائے، یا پھر یہ بھی امکان ہے کہ اسے بھارتی مداخلت کے ثبوت کے طور پہ پیش کیا جائے.

    ایک سخت اور جارحانہ تقریر وزیراعظم کی ضرورت بھی ہے. طاہرالقادری صاحب نے مسلسل وزیراعظم کو سکیورٹی تھریٹ قرار دیا ہے اور ان پہ بھارت نوازی کے سنگین الزامات لگائے ہیں، گو کہ قادری صاحب کو کوئی بھی سیریس نہیں لیتا، مگر ایک نرم تقریر مخالفین کو ان الزامات کا اعادہ کرنے پہ اکسائے گی. دوسری جانب عمران خان صاحب کی ایجی ٹیشن کے خلاف عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے بھی اور فوج کو راضی رکھنے کے لیے بھی ایک جارحانہ اور تندوتیز تقریر کام آئے گی. اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم کراؤڈ کے لیے کھیلنا پسند کرتے ہیں یا پھر ایک ٹھوس، سنجیدہ مگر مدبرانہ موقف اپناتے ہیں.

    مگر یہ چیلنجز محض جنرل اسمبلی کے اجلاس تک محدود نہیں ہیں، اب یہ طے ہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کی بھرپور کوشش ہوگی کہ پاکستان کو خارجی محاذ پہ دفاعی پوزیشن پہ دھکیلا جائے. نومبر میں پاکستان میں سارک سربراہ اجلاس ہونا ہے جس میں چینی صدر اور بھارتی وزیراعظم کی شرکت متوقع تھی، پاکستان کے پاس بین الاقوامی امیج بہتر بنانے، سارک کے چھوٹے ممبرز سے اپنے کشیدہ تعلقات بہتر کرنے اور سفارتی محاذ پہ چند اچھے پوائنٹ سکور کرنے کا بہترین موقع تھا مگر اب یہ اجلاس بھی منسوخ ہوتا دکھائی دے رہا ہے. ہمیں یہ سوچنے کی بھی ضرورت ہے کہ وہی سارک جس میں کبھی بھارت اور نیپال کو چھوڑ کر سب ملک ہمارے ہم خیال ہوا کرتے تھے، آج اس میں سری لنکا کے علاوہ ہمیں اپنا کوئی اور ہمدرد کیوں نہیں ملتا. بری خبر یہ بھی ہے کہ سری لنکا کے موجودہ صدر بھی اپنی بھارت نوازی کے لیے مشہور ہیں.

    ہمیں اپنے خیرخواہ بڑھانے اور ناقدین کم کرنے کی اشد ضرورت ہے. اس کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنا گھر سیدھا کرنے کی کوشش کریں، بلوچستان اور افغانستان کے مسئلوں پہ سویلین حکومت کو آگے بڑھ کر حالات سنبھالنے کا موقع دیں. اپنے ملک میں موجود عسکریت پسندوں کو، خواہ وہ ماضی میں ہمارے کتنے ہی لاڈلے کیوں نہ رہے ہوں، یہ موقع بالکل نہ دیں کہ وہ کشمیر میں کم سن بچوں کی قربانیوں کے نتیجے میں پنپنے والی خالصتا مقامی تحریک کو اپنے کسی بیہودہ ایڈونچر سے سبوتاژ کر سکیں. لائن آف کنٹرول پہ نگرانی کا نظام بہتر کیا جانا چاہیے، اب ہم مجاہدین درآمد یا برآمد کر کے کشمیر کاز کو فائدہ نہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گے. زمانے کے انداز بدلے گئے، اب ہماری اسی کے عشرے کی پالیسیاں ہمارے کام نہیں آنے والی.

    پاکستان کے لیے آنے والے ماہ و سال آسان نہیں ہیں، مگر یہ پاکستانیوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں رہی. ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری حکومت اور ادارے متوقع خطرات سے پوری طرح آگاہ ہوں اور ان سے نبٹنے کا ایک واضح لائحہ عمل رکھتے ہوں.

  • اقوام متحدہ کے حاشیے پر کشمیر کا مقدمہ – فاروق اعظم

    اقوام متحدہ کے حاشیے پر کشمیر کا مقدمہ – فاروق اعظم

    %d9%81%d8%a7%d8%b1%d9%88%d9%82-%d8%a7%d8%b9%d8%b8%d9%85اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 71واں سالانہ اجلاس نیو یارک میں شروع ہوچکا ہے۔ پیر کے روز تارکین وطن اور شام کے بحران جیسے بڑے مسائل پر اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا۔ جس کا مقصد آئندہ دو سالوں میں پناہ گزینوں کے سبب دنیا پر پڑنے والے اثرات سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دینا تھا۔ جنرل اسمبلی کا عمومی اجلاس منگل 20 ستمبر سے شروع ہوکر آئندہ ایک ہفتے تک جاری رہے گا۔ جس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے سربراہانِ مملکت اور مندوبین اپنا نقطہ نظر پیش کریں گے۔ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں امریکی صدر بارک اوباما آخری مرتبہ شرکت کر رہے ہیں، جب کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کا بھی یہ آخری اجلاس ہے۔ قریباََ ایک عشرے تک عالمی ادارے کے سربراہ رہنے کے بعد وہ 31 دسمبر کو اپنے منصب سے سبک دوش ہو رہے ہیں۔ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر اعظم نواز شریف کر رہے ہیں۔ وہ بدھ 21 ستمبر کو اجلاس کے 17ویں مقرر ہوں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف اپنے خطاب میں پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ 70 برس سے باعثِ نزاع بننے والے مسئلہ کشمیر پر خصوصی روشنی ڈالیں گے۔ دوسری جانب بھارت کا مؤقف پیش کرنے کے لیے نریندر مودی کے بجائے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نمائندگی کر رہی ہیں، ان کا خطاب 26 ستمبر کو ہوگا۔

    جنرل اسمبلی کے 71ویں اجلاس میں مسئلہ کشمیر ایک ایسے موقع پر زیر بحث ہونے جا رہا ہے، جب پاک بھارت کے مابین تعلقات کشیدگی کی انتہاء پر ہیں۔ گزشتہ دنوں مقبوضہ کشمیر میں اُڑی کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر بڑے حملے کے بعد بھارت نے ایک بار پر پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے، جس کی پاکستان نے سختی سے تردید کی ہے۔ علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ ڈھائی ماہ سے زبردست تحریک بھی برپا ہے۔ جس میں اب تک سو سے زائد شہادتیں ہوچکی ہیں اور زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اُڑی حملے کے تناظر میں تجزیہ کاروں اور مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت اس حالیہ حملے پر ’’کراس بارڈر ٹیررازم‘‘ کا شدید واویلہ کرکے عالمی رائے عامہ کو اپنی ’’مظلومیت‘‘ کی جانب مبذول کرائے گا۔ یہ کہنا بڑی حد تک درست ہے۔ اسی ضمن میں بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہے اور اسے الگ تھلگ کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ تاہم ہماری رائے میں اُڑی حملہ بھارت کے لیے عالمی منظر نامے پر ہزیمت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ چوں کہ کشمیری اپنی جدوجہد آزادی کو بھارت کے خلاف ہر محاذ پر جاری رکھنے میں حق بجانب ہیں۔ اقوام متحدہ کا عالمی منشور بھی انہیں اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کا بھرپور حق دیتا ہے۔ ان حالات میں کشمیر کے مقدمے کو مضبوط بنیادوں پر اٹھاکر عالمی رائے عامہ کو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی جانب مبذول کرایا جاسکتا ہے۔ پاک بھارت کے مابین یہ واحد دیرینہ تنازع ہے، جس پر تین جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔ اسی مسئلے کے سبب خطے پر آئے روز جنگ کے خطرات بھی منڈلاتے رہتے ہیں۔ جہاں تک اُڑی حملے پر بھارت کا پاکستان کے خلاف الزامات کی بات ہے، تو وہ محض الزامات ہی ہیں۔ الزام سے کسی پر فردِ جرم عائد نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت ممبئی سے پٹھان کوٹ تک الزامات ہی عائد کرتا رہا ہے۔ اس سلگتی آگ کو بجھانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں استصواب رائے کا حق دیا جائے۔

    وزیر اعظم ہائوس کے بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف اپنے دورہ کے دوران سائیڈ لائنز پر مختلف ممالک کے سربراہان مملکت سے دوطرفہ ملاقاتیں بھی کریں گے۔ اگر وزیر اعظم اقوام متحدہ کے حاشیے پر مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب عالمی منظرنامے کا رخ موڑنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ سرخرو رہیں گے۔ ورنہ اس سے قبل بھی نواز شریف تین بار جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرچکے ہیں اور یہ ان کا چوتھا خطاب ہوگا جو نشستاََ برخاستاََ ہی کہلائے گا۔