Tag: جدیدیت

  • جدیدیت کی عقلی بنیاد اور شعورِ انسانی – مجیب الحق حقّی

    جدیدیت کی عقلی بنیاد اور شعورِ انسانی – مجیب الحق حقّی

    مجیب الحق حقی نئی اصطلاحات میں آپ نے جدیدیت Modernism ضرور سنی ہوگی، یعنی جدّت پسندی۔ جدیدیت کو عام تو کیا اکثر تعلیم یافتہ بھی لفظی معنوں میں ہی قبول کرتے ہیں یعنی جدید بمعنی نیا new ۔گویا عام لوگوں کے خیال میں جدیدیت میں جدید سائنسی دریافتیں اور نئے طرز ِ زندگی اور فیشن وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔

    حالانکہ جدیدیت کے رد میں ایک اور فلسفہ مابعد جدیدیت Post-Modernism بھی متعارف ہوچکا ہے، جس کے مطابق جدیدیت ناکام ہوچکی ہے اور انسان کا تعارف نئی بنیادوں پر ہونا ہے، لیکن ہمارے اس محدود اور سطحی جائزے کے حوالے سے ان میں خاص جوہری فرق نہیں بلکہ دقیق فلسفیانہ اختلاف ہے۔ آئیے ہم جدیدیت کوبہت سادہ طور پر سمجھتے ہیں۔

    جدیدیت:
    جدیدیت کی آمد سے پہلے دنیا میں الہامی اور خدائی تہذیب کا دور دورہ تھا۔ انسان کسی نہ کسی پیرائے میں خدا کی حاکمیت کو مانتا اور اپنے دنیاوی اور روحانی مسائل کے لیے اس کی طرف رجوع کرتا تھا۔ لیکن اٹھارویں صدی میں خاص طور پر صنعتی انقلاب نے سوچ کے نئے افق متعارف کرائے۔ اس لہر نے فنون لطیفہ سے سفر کرتے ہوئے پورے معاشرے کو متاثر کیا۔ تبھی جدید فکر یعنی جدّت پسندی یا جدیدیت modernism کے فلسفے نے سر اٹھایا اور کمزور پڑتے مذہب کی اتھارٹی کو للکارا اور انسان کو ہر طرح کی پابندی سے جو اس کی سوچ پر قدغن لگاتی ہو، آزاد ہوجانے کا راستہ دکھایا۔ یہ مذہب اور خدا سے کھلی بغاوت کی ابتدا تھی۔

    خدا کے بجائے انسان کی عقل کو رہبرمان لیا گیا۔ انسان بندے کے بجائے آزاد ارادے کا حامل قرار پایا۔ مذہب سمٹ کرگھر اور ذات میں مقید ہوگیا۔ معاشرے میں خدائی احکام اور پیغمبرکی جگہ فلسفی معتبر ٹھہرے۔ فلسفی معاشرے کے رہنما بن گئے۔ ہر چیز کا محور اب انسان ہوا۔ انسان کے لیے ریاست قائم ہوئی جہاں پر قوانین کا منبع رائے عامہّ بنی، یہی جمہوریت کہلائی۔ گویا قوانین اور معاشرتی اصول کی تدوین انسان نے خدا سے لے کر کلّی طور پر اپنے ہاتھ میں لے لی۔

    جدیدیت میں صرف اور صرف انسان ہی حقیقت ہے، وہ مختار و قادر ہے اور ہر طرح کی بیرونی رہنمائی سے بے پرواہ اپنی ذات میں مکمّل اور ہدایت سے مبرّا ہے۔ فلسفہ ٔجدیدیت کے مطابق انسان ہی مرکز ِکائنات ہے، خدا مرکز ِکائنات نہیں کیونکہ انسان کے وجود میں شک نہیں! انسان ہی عقل کُل ہے۔ اسی جدیدیت کی فکر سے ہی کمیونزم، سوشلزم، لبرل ازم، سیکولرازم، جمہوریت، تحریک ِ نسواں اور دوسرے نظریات نکلے۔ اس فکر کو جدیدیت یا ماڈرن ازم کا نام دیا گیاجس کی منشا یہ ہے کہ ماضی کے ہر آثار کو جسے عقل قبول نہ کرے، تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دینا چاہیے۔

    جدید انسان:
    جدید انسان وہ ہے جو صرف شعوری، حواسی، تجرباتی اور سائنسی ذرائع علم پر بھروسہ اور یقین رکھتا ہے کہ یہی سچ ہے اور ہر اس علم اور ہدایت کو مسترد کرتا ہے جس کی انسان کے حواس تصدیق نہ کرسکیں جیسا کہ وحی۔ اسی لیے وحی اور اس سے ماخوذ قوانین اس کی نظر میں دقیانوسی، غیر عقلی اور جہالت کے دور کے پروردہ ہوتے ہیں۔

    ہمارے اس تجزیے کے حوالے سے یہ ضروری ہے کہ جدیدیت کے نظریے نے انسان کو جس ارفع مقام پر لا کھڑا کیا، اس کی تصدیق سائنس، منطق اور حقائق کی روشنی میں کریں کہ کیا واقعی انسان کا مرتبہ یہی ہے۔

    جدیدیت کی عقلی بنیادیں:
    اوپر درج سطور سے آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ اس فلسفے میں کس شدّ و مد سے انسانی شعور و عقل کو رہبرِاعلیٰ مانا اور ان کے فیصلوں کو سچ کا درجہ دیا جارہا ہے کہ جیسے یہی حتمی اور مستند سچّائی ہو۔ چلیے کچھ حقائق پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ اگر کوئی فلسفہ حیات ٹھوس بنیادوں پر نہ ہو یعنی خود انسان اور اس کی عقل اور شعور کی ابتدا اور ماہیّت جانے بغیر اگر فلسفہ تخلیق کیا جاتا ہے تو اس کی بنیاد پر سوال ہمیشہ اٹھتے رہیں گے۔ فلسفی کے دلائل بےشک بڑا دقیق علم لیے ہوتے ہیں لیکن ان کی بنیاد کبھی مناسب اورمضبوط منطق سے خالی بھی ہوتی ہے۔

    فلسفی کی سواری اس کا شعور ہی تو ہے، لیکن اس شعور میں موجود فلسفی یہ کیوں نہیں جاننا چاہتا کہ: شعور کیا ہے؟ کیا وہ خود شعور ہے؟ جو کہ نہیں ہے کیونکہ وہ شعور کا حوالہ دیتا ہے، تو پھر وہ خود کہاں ہوتا ہے؟ کیا وہ ایک خیال abstract ہے جبکہ جسم اس کا لباس اور شعور اس کا ہتھیار؟ انسان شعور میں ہے یا شعور انسان میں؟ عقل کا منبع کیا ہے؟ کیا یہ یہاں سے پہلے بھی کہیں تھی؟ اگر تھی تو کہاں؟، اور نہیں تھی تو یہاں کیسے وارد ہوئی؟

    جدیدیت نے انسان کی عقل کو رہبر تو مانا لیکن دوسری طرف انسان اور کائنات کی اصل پر اسی عقل کے اُٹھائے ہوئے بےشمار سوالات کا جواب جدید افکار میں ندارد ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ان کے فلسفوں کی بنیاد یہ ہے کہ انسان نہ کہیں سے آیا اور نہ ہی اسے کہیں جانا ہے بلکہ یہیں ظاہر ہوا اور اسے یہیں معدوم ہونا ہے۔

    آپ کو آگے چل کر اندازہ ہو جائے گا کہ آخر کیوں جدیدیت Modernism، مابعد جدیدیت Post-Modernism اور دوسرے نظریات، ان میں پسماندہ طبقات کے علمبردار اشتراکیت کو بھی شامل کر لیں، ہر طرح کے دعووں کے باوجود صدیوں میں بھی انسان کو فلاح نہ دے سکے۔

    اس صورتحال میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ اس نظریے کی عقلی بنیاد میں کیا کوئی تضاد یا جھول ہے؟
    یہ ایک بڑے کینوس پر پھیلا ہوا سوال ہے جس کا جواب بھی وسیع پیرائے یعنی انسان کی حقیقی صلاحیتوں اور ان کی وسعت کار میں تلاش کرنا ہوگا۔ یعنی خود انسان کی تعمیری جبلّت اور اجزائے ترکیبی کی ماہیت کا علم اس کی ذہنی اُپچ کے پیرائیوں کا اظہار کرے گا۔ تو آئیے سب سے پہلے تخلیق کے پیرائیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    تخلیق کے مدارج:
    انسان کی اپنی ڈیزائن کردہ تخلیق کے تکمیل پذیر ہونے کے تین مدارج ہیں؛ ارادہ، عمل اور تشکیل پذیری، جو ہمارے حواس اور عقل و قوّت کے استعمال کا حاصل ہے۔ گویا خام شکل سے تکمیل تک مراحل کے تین درجے ہوئے:
    شے کی خام شکل میں موجودگی یا اس کا قدرتی منبع، پہلا مرحلہ
    اس کی تخلیق کسی علم اور عمل سے کی گئی، دوسرا مرحلہ
    انسان کی بنائی شے وجود پذیر ہوئی، تیسرا مرحلہ
    دیگر الفاظ میں یہ تینوں مدارج کسی بھی تخلیق کے وجود کی حقیقت آشنائی کے پہلے سے دوسرے پر محیط و متّصل تین دائرے ہیں۔ انسان کی ہر تخلیق ان تینوں مدارج ارادہ (پلاننگ)، عمل اور ظہور یا تکمیل کی عقلی اور تحریری تشریح رکھتی ہے۔ وجود خواہ جاندار ہو یا بےجان حقائق کے تین دائروں میں مقیّد ہوتا ہے۔ پہلا دائرہ مادّی وجود، اس پر محیط دوسرا دائرہ تخلیقی مدارج اور اس پر محیط تیسرا دائرہ تخلیقی علم کی تمام جہتیں بشمول خالق۔ خالق تخلیقی عمل کے تیسرے وسیع تر دائرے میں مقیم ہوتا ہے خواہ کوئی کیوں نہ ہو۔ فطری آثار کی سائنسی جانچ اُلٹ یعنی معکوس سمت میں چلتی ہے یعنی تحقیق کی ابتدا شے کی موجودگی یا تخلیق کی تکمیل سے شروع ہو کر تمام تخلیقی عمل کو پرکھتے ہوئے تخلیق کی ابتدا پر ختم ہوتی ہے۔ اس کے آگے کا مرحلہ خالق کی شناخت ہے۔

    اب ایک اور رخ پر توجّہ فرمائیں۔
    انسان بھی فطرت اور کائنات کا حصّہ ہے۔ انسان خود بھی موجود ہے، یہ سچائی ہے۔ کیسے پیدا ہوا اور بڑھا؟ اس کا علم سائنسی علوم سے کشیدہ سچائی ہوئی۔ اب انسان کے حوالے سے یہی عقل استفسار کرتی ہے کہ،
    انسان ظاہر ہونے سے پہلے کہاں تھا یا کیا تھا؟ اس کی خام کیا ہے؟ یہ کیوں بنا؟
    یہ منطقی اور سائنسی سوالات ہیں جن کا جواب بھی سائنس، عقل یا حواس کے بموجب تلاش کیا جائے گا کیونکہ یہ اُٹھے ہی انہی بنیادوں پر!
    مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حواس اور عقل جدید ترین سائنسی علوم کی روشنی میں انسان کے وجود کی تشریح طبعی مدارج تک ہی کر پاتے ہیں جبکہ طبعی وجود سے قبل کے مرحلے کے حوالے سے متعلق سوال ہر سائنسی و فلسفیانہ دماغ کو معطل اور زبان کو گُنگ کر دیتا ہے! آپ دیکھیں گے کہ جدیدیت، لبرل یا کوئی بھی جدید حیاتی فلسفہ بمع سائنسی علوم ان سوالات کا ایسا مکمل عقلی اور منطقی جواب دینے سے قاصر ہیں جو جدیدیت کے ممدوح انسان کو ہر طرح مطمئن کرسکے۔

    اس کا حل کیا ہے؟
    کیا ہم یہ سوال کوڑے دان میں ڈال دیں کہ انسان پیدائش سے پہلے کہاں ہوتا ہے؟ اس کی ہیئت کیا ہوتی ہے؟ اس کا شعور کہاں ہوتا ہے؟ اس میں زندگی کیوں آتی ہے؟
    جب ہر موجود شے سچ کے تین مدارج کے ساتھ انسان کے علم میں ہے یا ہو سکتی ہے تو خود انسان کیوں نہیں؟ یعنی انسان ظاہر ہونے سے پہلے خود کیا تھا؟ اس کا شعور کہاں تھا؟ زندگی کہاں سے وارد ہوئی؟ تخلیق کے ان مدارج کو جانے بغیر عقل کیسے مطمئن ہوگی اور جدیدیت کی آزاد خیالی کو منطقی جواز کیسے ملےگا؟
    اس کا جواب ہر اس نظریۂ حیات کو دینا ہوگا جو انسانیت کی رہنمائی کا دعویدار ہے۔ کیا جدیدیت یا مابعد جدیدیت اس کی وضاحت کر سکتے ہیں؟ نہیں!

    اس کی وجہ یہی ہے کہ ان مکاتب فکر کی ابتدا انسان کے جہاں ہے اور جیسے ہے کی بنیاد سے شروع ہوتی ہے جبکہ اس کے وجود سے پہلے کے مراحل کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے کیونکہ اس کی مناسب عقلی تشریح ان کے پاس نہیں۔ ان ہی محدود زاویوں اور نامکمل علم کے بموجب تمام فلاسفر زندگی کے حقائق کا تجزیہ کرتے چلے آرہے ہیں اور نت نئے نظریات پیش کرتے رہے ہیں جن پر ریاستوں نے عمل بھی کیا۔ اب تو تاریخ خود ہی گواہ بن چکی ہے کہ ہر فلسفہ ایک دور کے بعد اپنی خامیاں ظاہر کرتا ہے اور فلسفی نئے نظریات کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔

    تو پھر انسان کا مقام متعیّن کرنے کی تحقیق میں خامی کہاں ہے؟ آئیے اس کی وضاحت کرتے ہیں۔
    انسان اپنی تخلیق پر کنٹرول رکھتا ہے جس کی وجہ سے انسان کی اپنی تخلیق کے تینوں درجے: یعنی(1) تخلیق کا شعوری علم اور قدرت، (2) تخلیقی پراسس یا طریقوں کا اطلاق اور (3) تخلیق کی تکمیل۔ انسانی حواس کی گرفت میں رہتے ہیں اور انسان مکمل تخلیقی علم کے ساتھ اپنی ہر تخلیق کا خالق بن کر عیاں تو ہوجاتا ہے مگر دوسری طرف انسان کی بنائی کوئی بھی چیز اپنے تیاّر کنندہ کو نہیں جان سکتی۔ فلسفوں کی ناکامیوں کی وجہ یہی سامنے آتی ہے کہ مغربی فلسفیوں کے پاس حقیقت کے تیسرے دائرے کا علم نہیں ہے یعنی عدم کا علم کہ جہاں انسان کا خام شکل میں ہونا منطقی ہے اور کسی خالق کی شناخت بھی اتنی ہی ضروری۔ لیکن یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ انسان کس طرح عدم اور خالق کو جان سکتا ہے جبکہ اس کی اپنی تخلیق اس کو نہیں پہچانتی؟

    خالق کا عرفان:
    ایک چڑیا اگر گھونسلہ بناتی ہے تو یہ اس کی تخلیق ہے۔ گھونسلہ پہلے صرف بہت سے بکھرے تنکے ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان کی بنائی مشین پہلے خام لوہا ہوتی ہے۔ کیا گھونسلہ یا مشین جان سکتے ہیں کہ ان کو کس نے بنایا؟ یقیناً نہیں کیونکہ ان میں شعور نہیں ہے۔ گویا کوئی جاندار کسی بےجان کی تخلیق کرنے میں اپنا تخیّل تو طبعی شکل میں تخلیق میں منتقل کردیتا ہے لیکن اپنی ذات کاشعور نہیں کر پاتا، اسی لیے نہ ہی گھونسلہ اور نہ مشین جان سکتے ہیں کہ ان کو کس نے بنایا۔ جب تک کوئی تخلیق کار اتنا قادر نہ ہوجائے کہ اپنی تخلیق میں اپنی ذات کی پہچان کے عناصر پیوست کردے، اس کی تخلیق اس طور پر ادھوری رہے گی کہ وہ اُسے پہچان نہ سکے گی جبکہ کمال درجے کی تخلیق اور مخلوق وہی ہوگی جس میں اپنے خالق کو پہچاننے کی جبلّت بھی ہو۔
    اگرچہ انسان مصنوعی شعور اور ذہانت بنانے کا علم حاصل کرتا جا رہا ہے، پھر بھی فی الحال کوئی انسانی تخلیق اپنے خالق (انسان) کے وجودی پیرائے نہیں جان سکتی الِّا یہ کہ انسان کسی طرح مادّے سے خود انسانی شعور کو بنا کر اپنی تخلیق میں منتقل کرسکے! ایسی صورت میں ہی انسان کی بنائی چیز انسانی شعور کی رمق لے کر شاید انسان کوجان پائے لیکن یہ واضح رہے کہ اُس صورت میں اس کی وجہ خالق (انسان) اور تخلیق کی جبلّت کی کچھ نہ کچھ ہم آہنگی ہوگی۔ یعنی انسان کسی طرح اپنے علم، شعور یا وجود کے کسی گوشے کی رمق یا راز اپنی ہی تخلیق کے حوالے کرکے اسے اپنی ذات کی سمجھ کا وسیلہ دے دے توصرف اسی صورت میں انسانی ایجادات اپنے بنانے والے کی حقیقت جان پائیں گی، دوسرے لفظوں میں اپنے خالق کا عرفان حاصل کرلیں گی۔

    تخلیق اکبر:
    اب خالق کی ذات کی پہچان کے عناصر یا عنصر وہی مئوثر ہوں گے جو اس کی ذات سے ہی متعلق ہوں کیونکہ اسی طرح فطری طور پر مخلوق میں اور خالق میں ایک غیر مرئی ہم آہنگی پیدا ہوگی جس کے باوصف مخلوق کسی نہ کسی پیرائے میں خالق کو جان سکے گی۔ اب اس پہچان کے درجے کا انحصار خالق کی مرضی پر ہوگا کہ وہ کیا چاہتا ہے اور تخلیقی علم اور تخلیقی عمل پر کتنی قدرت رکھتا ہے؟ اس کو اس طرح بھی سمجھیں کہ انسان کی بنائی ہوئی چیزیں انسان کو نہیں جان سکتیں کیونکہ انسان اپنی صلاحیتوں اور حاصل علوم کے باوصف ان کی تکمیل پر اپنے اُس علم کے کمال پر پہنچتا ہے جو طبعیات تک محدود ہیں لہذا اس کی تخلیقات زیادہ سے زیادہ طبعی پیرامیٹر تک ہی محدود رہ جاتی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف خود انسان کے اندر کیونکہ انسان کے خالق نے اپنی ذات کی صفات اور کچھ نادیدہ قوت ودیعت کر دی ہیں جس کی وجہ سے انسان اپنے خالق کو جاننے کی نہ صرف صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اس کے وجود اور عدم وجود کے سوالات کے ساتھ ہی ہر فلسفۂ حیات کی ابتدا پر مجبور ہوتا ہے۔ گویا انسان کے خالق نے اپنی ذات کے حوالے سے بنیادی سوال انسان کی جبلّت میں پیوست کردیے ہیں۔
    قصّہ مختصر! اگر خالق نہیں ہے تو اس سے متعلّق سوال بھی معدوم ہوتا! ہم یہ سوال کرتے ہی کیوں ہیں کہ خداہے یا نہیں، یا خدا کو کس نے بنایا؟ یہی عالیشان تخلیق کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ ہمارے علم کے پیرائے میں یہی تخلیق ِاکبر ہے۔ ابھی جدید سائنس کو بھی پتہ نہیں کہ خیال کیوں آتے ہیں۔ اسی لیے خدا سے انکار ہی غیرفطری ہے۔

    شعور:
    انسانی شعور کیا ہے؟ یہ بہت اہم سوال ہے کیونکہ شعور سائنسی طور پر موجود ہے! اب اگر شعور کا موجود ہونا قابل قبول ہے تو منطقی طور پر شعور کی بھی کوئی تخلیقی سائنس یا کیمسٹری تو ہوگی، تو وہ کیا ہے؟ کیا اس کا جواب جدیدیت یا جدید سائنس کے پاس ہے؟
    درحقیقت انسانی و حیوانی شعور ایک پہیلی ہے جو جدیدیت اور الحاد کے مفکّرین و فلسفیوں کے لیے عذاب سے کم نہیں۔ ان کا مسئلہ یہی ہے کہ اس سے انکار بھی نہیں کرسکتے کیونکہ یہ عیاں حقیقت ہے، مگر آج تک کوئی اسکالر، کوئی فلاسفر، کوئی منکر خدا، کوئی سائنسدان شعور کی ماہیت کی تشریح نہیں کرسکا، نہ بتا پایا کہ یہ جانداروں میں کہاں سے اور کیوں آیا؟
    حقیقت شعور سے لاعلمی ہی وہ کمزوری ہے کہ جس کی وجہ سے فکرجدید کی اڑان صرف مذکورہ دو حقیقتوں کے دائروں میں ہی محو پرواز رہتی ہے جبکہ انسانی وجود کے حوالے سے کائناتی حقیقت درج ذیل تین پرَتی دائروں میں گردش کرتی مجموعی حقیقت ہے۔
    پہلادرجہ ذیلی سچائی (مادّہ) ہے جو موجود ہے یعنی مادّی وجودیت کا دائرہ۔
    اس دائرے پر محیط ایک اور دائرہ ہے جو حواسی اور شعوری سچائی یا حقیقت یعنی طبعی علوم کائنات کا دائرہ۔
    اور اس پر محیط الوہی علم کا لا محدود دائرہ، ایک ابدی، اُلوہی یا روحی سچائی ہے جو تخلیق کا اصل عالم ہے، جہاں ایک ارادہ ہے۔ بالکل اُسی طرح جس طرح انسان اپنی تخلیقی دنیا میں ایک طبعی خلّاقی کے دائرے میں ہوتا ہے۔
    جدید انسان دوسرے دائرے کے کنارے پر کھڑا، مگر آگے کے سامانِ سفر سے تہی دست مسافر ہے۔

    حقیقت اکبر:
    اپنے شعور کے تئیں انسان کے طبعی حواس کے لیے یہی اُلوہی عالم حقیقت اکبر ہوگا، مگر انسانی علوم کی وہاں تک نارسائی کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت علوم کے میرکارواں جدیدیت کے پیروکار اسکالر و فلاسفر ہیں۔ انسان ان کے غیرحقیقی نظریات کی وجہ سے حقیقت اکبر تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ جدیدیت روح کو مسترد کرتی ہے اور شعور کی حقیقت سے بھی نابلد ہے جبکہ شعور روح سے منسلک ڈائمنشن ہے۔ یہ روح کی طرح ہمارے وجود کا غیرمرئی گوشہ ہے۔ گویا موجودہ صورتحال میں شعور کی تخلیقی جہتیں یا تخلیقی منازل کا علم ہی جدید سائنس کو حقیقت کبریٰ کی سمجھ کی طبعی قوّت دے گا۔ تو ثابت یہی ہوتا ہے کہ جب تک انسان مادّے اور شعور کا تعلّق، اس کی جہتیں اور کیمسٹری نہیں جان لیتا، وہ مادّی اور طبعئی طور پر حقیقت ِاکبر کی پرچھائیں تک بھی نہیں پہنچ سکتا خواہ طبعی سائنسی علوم آسمان کی بلندی تک ہی نہ جا پہنچیں۔ وجہ اس کی یہی ہوگی کہ انسانی عقل الوہی علوم کے حقائق تک رسائی کے ذرائع یعنی روحی خصوصیات کی امداد سے محروم رہے گی۔

    منکرین کا مسئلہ:
    منکرین کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ علم کے اہم ذریعے یعنی وحی کو مسترد کرتے ہیں لہذٰا وہ روح اور روحانی صفات کی قوّتوں سے بےگانہ ہوجاتے ہیں جبکہ یہی واحد ذریعہ ہے جو ہر تخلیق کے منبع یعنی انسان کے خالق تک لے جاتاہے۔ یہی انکار ایک سختی سے پیوست تاثر ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہر منکر فلاسفر عقل کی سرحد پر پہنچ کر ایک ناقابل عبور دیوار پاتا ہے تو راستہ بدل بدل کر حواسی حقائق کے بھنور میں بھٹکتا ہی رہتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس کا تذکرہ شروع میں کیا گیا کہ انسان ان خود ساختہ رکاوٹوں کے تئیں اس دیوار کے اندر ہی سینکڑوں سال سے مقید ہے اور فلاسفر نئے نئے فلسفے سوچ رہے ہیں کہ اس بھول بھلیّاں سے کسی طرح نکل جائیں۔ جدیدیت کی غلطی یہ ہے کہ اس نے عقل کے بموجب روح کو مسترد کیا جبکہ خود عقل بھی روحی ڈائمنشن کا جز ہے۔ یہ واضح رہے کہ مذہب میں روح کا تصوّر سائنسی ہے کیونکہ شعور، لاشعور، تحت الشعور، جذبات، خیالات اور دوسرے غیر مرئی آثار جیسے خواب وغیرہ اسی سے منسلک ہیں۔ شعور بھی انسانی روح کی ایک جہت ہے جو انسان کے تخیل کے پیرائیوں کو وہ مہمیز عطا کرتی ہے کہ انسان حواسی سچّائی کا بیرئیر توڑ کر برتر تخلیقی اور روحانی علوم کی حدود میں جا پہنچتا ہے۔ اس عالم سے تعلّق انسان کو پس پردہ حقیقتیں آشکارا کرتا ہے جو اس کی روح کو آسودہ کرتا ہے۔ یہی تعلّق انسان کو اس کے ہر سوال کا جواب سمجھاتا ہے۔

    عقیدے کی فصیل:
    ہر انسان اپنی عقل کی بنیاد پر ایک عقیدے کو قبول کرتا ہے اور انسان کے خیالات اسی خود مرتّب کردہ عقیدے کی فصیل میں ہی مقید ہوجاتے ہیں۔ کسی نئے خیال کی قبولیت کا انحصار اس قلعے کی وسعت اور کُھلے دریچوں پر ہوتا ہے۔ جدیدیت اور الحاد بھی عقیدہ ہے جس کی بنیاد عقل پر رکھی گئی ہے. اب ظاہر ہے کہ اس کی بےثباتی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ الحاد خود اپنی بنیاد یعنی عقل کی تشریح سے نہ صرف قاصر ہے بلکہ اسی عقل کے اُٹھائے سوالات کے جواب بھی نہیں رکھتا۔ یہی فکر کی بھول بھلیّاں ہے جس میں جدیدیت غلطاں ہے اور حقیقت کی طرف صرف دو منازل چڑھنے کے بعد ہانپ رہی ہے۔ انسان کی قیادت جب سے انسان (فلسفی ) کے ہاتھ آئی ہے، کبھی ذرائع پیداوار اور طبقات کی بنیاد پر ڈاکٹرائن بنتے ہیں، کبھی انسانی آزادی اور بنیادی حقوق پر نظریات تشکیل پاتے ہیں، کبھی کمیونزم اور سوشلزم کے نعرے لگتے ہیں اور کبھی کچھ کبھی کچھ، اب مابعد جدیدیت نے سب درہم برہم کردیا. تو انسان جتنا نظریاتی گمراہ آج ہے پہلے کبھی نہ تھا۔

    ان گزارشات سے یہ عیاں ہوا کہ فلسفیانہ نظریات جیسے جدیدیت، مابعد جدیدیت اور الحاد وغیرہ حقیقت آشنائی کے صرف دو دائروں میں مقیّد سوچ ہیں جو انسان کو اس کی اصل بتانے سے قاصر ہیں۔ کئی سو سال میں جدیدیت کے پروردہ بڑے بڑے نامور سائنسدان، اسکالر اور فلاسفر ان ہی دو دائروں میں گھومتے اپنے نظریوں اور فلسفوں کی تشنہ کہانیاں سنا کر چلے گئے۔ آج کے اسکالرز بھی انھی غلام گردشوں میں گردش میں ہیں اور ان کے ساتھ جدید انسان بھی۔ انسانیت آج بھی نظریاتی طور پر یتیم ہی ہے۔
    اس کے مقابلے میں اسلام انسان کو فکر کے ایک کُشادہ تر ماحول کا ادراک عطا کرکے مکمل حقیقت آشنا بناتا ہے اور اس کو اس ماحول سے تعلّق کا موقع عطا کرتا ہے جہاں پر انسان کا لامحدود پیار کرنے والا خالق جلوہ افروز ہے۔ روح اس ذات باری کی ہستی کے کسی گوشے کا عکس ہوسکتی ہے جو انسان کو وہ ذرائع عطا کرتے ہیں کہ وہ ان سے اپنے خالق کو جان سکتا ہے۔ روح کا علم انسان کو کم دیا گیا ہے لیکن اتنا ضرور دیا گیا ہے کہ حقیقت اکبر کو سمجھ لے۔ اسی لیے جدیدیت کے مقابل اپنے وسیع تر افق کے ساتھ مذہب اسلام ایک عالیشان نظریہ حیات کے ساتھ آج بھی جلوہ گر ہے۔ میٹا فزکس اور فزکس کا بہترین امتزاج لیے یہ مذہب ہی ہے جو انسان کی اصل کیمسٹری کو جانتا ہے اور روح کی قوّت اور اس کی صفات و پرواز کے تئیں اس حقیقت کبریٰ تک انسان کو رسائی دیتا ہے جس کی جانکاری کے لیے جدیدیت اور جدید الحادی سائنس سو سال سے زائد سے بھٹک رہی ہیں۔
    ہمیں یہاں چند لمحے رک کر سوچنا ہوگا کہ کیا ہم بھی ازل اور ابد سے اپنے تعلّق سے حقیقی طور پر واقف ہیں؟ ہم یہاں کیوں آئے اور کہاں جانا ہے۔ اس سوال کا جواب ہم کو بتا دے گا کہ باطنی طور پر ہم کیا ہیں؟ جدیدیت کے پروردہ یا اپنے خالق کو جاننے والے۔

    ذرا سوچیں!
    تو دوستو، ہمیں اس سوچ کو خیرباد کہنا ہوگا کہ سائنس اور اسلام دو جدا چیزیں ہیں۔ یہ تاثر کہ سائنس برتر ہے، غلط ہے۔ جدید سائنس دراصل خالق کائنات کی برتر سائنس کی تشریح کر رہی ہے۔ کائنات کی تخلیق کو خالق کی سائنس سمجھیں، جو بہت برتر تخلیقی سائنس ہے جو کہ ہر طرح کی تخلیق میں جاری اور ساری ہے۔ انسان میں شعور، نفس، ضمیر اور عقل اس کی برتری اور پراسراریت کی مثال ہیں۔اسلام اِسی برتر سائنس کا نمائندہ ہے۔ جس دن مادّہ پرستی میں غرق اور بھٹکی ہوئی جدیدیت کو روح کی حقیقت کا سائنسی ادراک ہوجائے گا، جدیدیت اپنا رخ خود بدل لے گی۔ ہم انتظار کرتے ہیں، وہ بھی کریں۔

    امید ہے ان سطور سے قارئین کسی حد تک واقف ہو گئے ہوں گے کہ جدّت پسندی اور جدیدیت کی اصل جڑ root کیا ہے اور کتنی، فطری، منطقی اور عقلی ہے اور انسان کا اپنے آپ کو مر کزِ کائنات کہنا اس کی ذہنی اختراع ہی ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں. یہ بھی غیر عقلی ہے۔

  • اسلام، ریاست اورسیکولرزم-خورشید ندیم

    اسلام، ریاست اورسیکولرزم-خورشید ندیم

    m-bathak.com-1421245366khursheed-nadeem

    سیاست اگر کسی نظامِ ِاخلاق کی پابند ہے تو اسے مذہب سے لاتعلق نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا میں انسانوں کی غیر معمولی اکثریت آج بھی مذہب ہی کو اخلاقیات کا ماخذ سمجھتی ہے۔ اخلاق کو مابعدالطبیعات کے بجائے طبیعات سے متعلق کرنے کی کوشش ایک جدید تجربہ ہے۔ ابھی ہمیں اس معاشرے کا انتظار ہے جو طبیعاتی نظامِ اخلاق (Humanism) کی بنیاد پر تشکیل پائے گا۔جدید مغربی معاشرہ اب بھی مسیحی اخلاقیات پر کھڑا ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ مذہب کو سیاست سے الگ کر دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ مذہب سیاست سے متعلق کیسے ہوگا؟ میں ان کالموں میں اس سوال کو زیر بحث لایا ہوں اور اس ضمن میں تیونس کے نئے تجربے میں بڑی روشنی دیکھتا ہوں۔ تیونس ہی نہیں، ملائشیا اور بالخصوص انڈونیشیا بھی، جہاں اس باب میں غورو فکر کی ایک توانا روایت قائم ہو چکی ہے۔

    ریاست اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک جدید تصور ہے۔ اس لیے اسلامی ریاست کی بحث بھی ہماری روایت میں اجنبی ہے۔ دورِ حاضر کے بعض اہلِ علم بھی یہی بات کہہ رہے ہیں جو دین کی روایتی تفہیم پر یقین رکھتے ہیں اور فہمِ دین کے باب میں فقہا و محدثین ہی کے منہج کو درست سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلامی قانون اعتباری شخصیت کے تصور کو نہیں مانتا۔ اس لیے قانونی اور فقہی اعتبار سے ریاست اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نئے بیانئے کی بحث میں جب یہی با ت جاوید احمد غامدی صاحب نے کہی تو اسے سیکولرزم اور جدیدیت قرار دیا گیا اور ہمارے معروف روایتی علما ان کی رد میں متحرک ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ ریاست اسلامی ہوتی ہے۔یہ اہلِ علم یہ بھی کہتے ہیں کہ جب ریاست جدید ادارہ ہے تو یہ مقدمہ بھی بے بنیاد ہے کہ جہاد کے لیے ریاست کا ہو نا ضروری ہے۔

    یہ بحث، صواب اور نا صواب کے پہلو سے قطع نظر ،یہ بتا رہی ہے کہ مذہب اور سیاست کے باہمی تعلق کی صورت گری، بایں معنی ایک اجتہادی امر ہے کہ اس کا تعین ایک عہد کے معروف سیاسی حقائق سے ہے۔ مثال کے طورپر ریاست موجودہ شکل میں پہلے موجود نہیں تھی، اس لیے ایک رائے یہ ہے کہ اسلامی ریاست کا تصور دراصل تصورِ خلافت کا متبادل ہے۔ روزن تھال سے لے کرحمید عنایت تک ، بہت سے اہلِ علم یہی کہتے ہیں۔ مولانا مودودی کے علمی کام میں جس طرح حکومتِ الہیہ یا اسلامی ریاست کے تصور کو ماضی سے متعلق کیا گیا ہے تو اس میں خلافت ہی کے نظام سے نظائر تلاش کیے گئے ہیں۔ اس باب میں ایک رائے وہ بھی ہے اس کا اظہار ان کالموں میں کیا جاتا رہا ہے۔

    میرا کہنا یہ ہے کہ سماج ایک فطری ادارہ ہے جو اصلاً ہماری توجہ کا مستحق ہے۔ یہ ریاست کی طرح جدید نہیں ہے ۔ خاندان کا ادارہ فطری ہے۔ خاندان ہی سماج کی اکائی ہے۔ خاندان کے ادارے پر معاشرتی ارتقا اثر انداز ہوا ہے لیکن اس کا جوہر ہر دور میں باقی رہا ہے۔ یہ بات کہ خاندان ایک مردوزن کے باہمی تعلق سے وجود میں آتا ہے جسے معاشرتی سطح پر قبولیت حاصل ہو، یہ ایک ایسا خیال ہے، جس پر علم البشریات کے محققین کی اکثریت یقین رکھتی ہے۔ صنعتی انقلاب سے پہلے مشترکہ خاندانی نظام تھا، جو آج کے زرعی معاشروں میں بھی موجود ہے۔ صنعتی انقلاب نے نیوکلر فیملی کے تصور کو فروغ دیا۔ یوں معاشرتی ارتقا سماج کی ہیئت پر اثر انداز ضرور ہوا ہے لیکن اس کا جوہری پہلو باقی رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سماج ہمیشہ موجود رہا ہے اور اسے انسانی اجتماعیت کی فطری صورت قرار دینا چاہیے۔

    اگر ہم اجتماعی زندگی کو اسلام کی ہدایت کی روشنی میں مرتب کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے جدوجہد کا فطری میدان ریاست نہیں، سماج ہے۔ سماج اقدار سے قائم ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں ان اقدارپر اصرار کرنا چاہیے جو اسلام دیتا ہے۔ دنیا میں دو طرح کے نظام ہائے اقدارہیں۔ایک وہ جو الہامی ہیں اور ایک غیر الہامی۔اسلام الہامی روایت کا آخری ایڈیشن ہے۔ایک اجتماعیت جس نظامِ اخلاق کو اختیار کر ے گی وہ اس کے سیاسی ، معاشی اور دوسرے اداروں کی تشکیل پر اثر انداز ہو گا۔ہم اگر یہ چاہتے ہیں کہ ہماری سیاست الہامی روایت کے مطابق تشکیل پائے تو اس کے لیے سماجی سطح پر اپنے نظامِ اقدار کو پختہ کرنا ہوگا۔اس نظام ِاخلاق کے تربیت یافتہ ،جب سیاست میں آئیں گے تو ان کے کردار کا عکس سیاست پر پڑے گا۔

    سیاست کے مسائل جوہری طور پر مذہبی نہیں ہوتے۔گڈ گورننس جیسے کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے۔سیاست سے کرپشن کے خاتمے کے لیے کسی مذہبی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ جب یہ کہا جا تا ہے کہ سیاست کا مذہب سے تعلق نہیں ہو نا چاہیے تو اس کا یہی مطلب ہو تا ہے۔مذہب ایک اخلاقی قوت اور مابعد الطبیعیاتی امر ہے۔اجتماعیت کے باب میں دین نے اگر کوئی واضح ہدایت دی ہے تواسے قبول کیا جا ئے گا۔جیسے قرآن مجید میں بعض سزاؤں کا ذکر ہے۔جزاو سزا کا تعلق نظم ِاجتماعی سے ہے۔اس کی تفہیم اور تعبیر میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اصولی طور پر اس ہدایت کو قبول کیا جا ئے گا۔ان احکام کا مخاطب بھی ریاست نہیں،اہلِ اقتدار ہیں۔یہ ان کی ذمہ داریوں کا حصہ ہے کہ وہ انہیں نافذ کریں۔اس نفاذ کی نوعیت کیا ہوگی،اس کا تعین انہیں کرنا ہے۔مسلمانوں کی تاریخ میں اس معاملے میں بہت تنوع ہے۔

    تعبیر ایک فطری امر ہے جو ہر متن سے وابستہ ہے۔پاکستان ایک آئین کی بنیاد پر قائم ہے۔اس آئین کی تعبیر میں اختلاف ہوتاہے۔عدالت کے سامنے جب ایک مقدمہ پیش ہوتا ہے تو دونوں فریق اس آئین یا قانون کو مان کر عدالت سے رجوع کرتے ہیں۔ان میں اختلاف کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔جیسے متعلقہ ملزم پر قانون کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں،یا قانون کا جو مفہوم ایک فریق بتا رہا ہے، دوسرا فریق اس تعبیر کو قبول کرتاہے یا نہیں۔سیاست ایک عمل ہے اور ریاست دورِ حاضر میںایک وجود رکھتی ہے۔یہ ممکن ہے کہ سیاست ہو رہی ہو اور ریاست نہ ہو۔جو چیز ایک نظامِ اخلاق کے تابع ہو گی وہ سیاست ہے۔اگر یہ ریاست کی صورت میں ظہور کر تی ہے تواس کے اداروں پر اس کا اثر ہو گا۔

    میرا کہنا یہ ہے کہ اسلام کو انسان کے نظامِ اخلاق سے متعلق کر نا چاہیے نہ کہ ریاست سے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سماج کی اسلامی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ افراد مسلمان ہوں۔جب ہم ریاست کو اسلامی بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو اداروں کو مخاطب بناتے ہیں کیونکہ ریاست کا وجود اداروں کی شکل میں ظہور کر تا ہے۔پھر ہم کہتے ہیں کہ آئین کو اسلامی بناؤ یاعدالتوں کو اسلامی بناؤ۔یوں آئین اسلامی بن جاتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت بھی قائم ہو جا تی ہے مگراسلام پھر بھی دکھائی نہیں دیتا۔

    اسلام جب سماج سے وابستہ ہوتا ہے توپھر افراد اور اقدارمخاطب بنتے ہیں۔اب معاشی اور سیاسی اداروں کی جو شکل بھی ہو،اسلام کی تعلیمات کے نتائج سامنے آتے ہیں۔میں جو عرض کرر ہاہوں، اس میں مذہب سماج سے وابستہ ہوتا ہے،کسی ادارے سے نہیں۔اس لیے میں ریاست کومخاطب بنانے کے حق میں نہیں۔اس پر اعتراض ہو سکتا ہے کہ سماج بھی تو ریاست کی طرح ایک ادارہ ہے۔میرا جواب ہوگا کہ سماج فطری ادارہ جب کہ ریاست تمدنی ارتقا کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے جسے کسی فطری ادارے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
    میرا خیال ہے کہ اب سیکولرزم اور میری بات کے مابین مو جود جو ہری فرق کی کسی قدر وضاحت ہو گئی ہوگی۔تاہم اس پر مکالمہ جاری رہنا چاہیے کہ یہ اس باب میںکہی گئی آخری بات نہیں ہے۔

  • روایت و جدیدیت کی کشمکش – عبدالمتین

    روایت و جدیدیت کی کشمکش – عبدالمتین

    جددیت و روایت کی کشمکش کوئی نیا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ کشمکش خلفائے راشدین کے سنہری دور سے چلتی آ رہی ہے، جس کی تاریخی مثال معتزلہ کی عقلی موشگافیوں کی صورت میں آج بھی پڑھی جاسکتی ہے. یہ معاملہ صرف معتزلہ کی تحریک تک محدود نہیں، بلکہ اسلام کی روایت کو ہمیشہ سے اس طرح کی کشمکش سے واسطہ پڑتا رہا ہے.

    جدیدیت کی روایت آخر ہے کیا؟ وہ کون سی چیز ہے جو ان دونوں کے درمیان خطہ امتیاز کھینچ دیتی ہے کہ اس دور کو واقعی جدیدیت کی ضرورت ہے؟ کیا روایت فقط اندھی تقلید کا نام ہے؟ کیا تحقیق صرف جدیدیت ہی کے حصے میں آئی ہے؟
    ان سب سوالات کا صحیح جواب یہ ہے کہ اسلام کو ہمیشہ روایت ہی نے پروان چڑھایا ہے، اور دفاع اسلام کا گراں قدر کام بھی ان روایتیوں ہی کے حصے میں آیا ہے، اسلام کی حقیقی تصویر انھی نے پیش کی ہے اور کر رہے ہیں۔ اس بات سے کوئی صاحب عقل انکار نہیں کرسکتا کہ اسلام کو ہمیشہ عظیم فتنوں کا سامنا رہا ہے، ایسے فتنے جو بےانتہا معقول اور معیاری معلوم ہوتے تھے، جن کا شکار ہر ظاہر پرست باآسانی ہوتا گیا، لیکن سوال یہ کہ ان تمام فتنوں کا تعاقب جن لوگوں نے کیا، وہ کس طبقے سے تعلق رکھتے تھے؟ آیا وہ جدت پسند تھے یا روایت پسند؟ جواب یہ ہے کہ وہ سب کے سب روایت پسند تھے، جن میں معتزلہ کے مقابل ہمیں امام احمد بن حنبل اور امام ابوحنیفہ رحمھما اللہ جیسے جبال علم و عمل صعوبتیں سہتے، امام غزالی رحمہ اللہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فلسفہ یونان کا ابطال کرتے، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسے بالغ نظر منطقیوں کی دھجیاں بکھیرتے، مجدد الف ثانی رحمہ اللہ جیسی کامل اور عبقری شخصیت دین الہیٰ کے سامنے سینہ سپر ہوتے، مولانا رومی رحمہ اللہ اپنی مثنوی میں ابطال جدت کرتے ہوئے محافظ روایت، اور علامہ اقبال رحمہ اللہ جیسی جامع شخصیت اپنے کلام میں اسی روایت کو پروتے نظر آتے ہیں۔

    کیا ہم اپنی جدت کا ثبوت دے کر ان تمام اکابرین کی راہ سے الگ ہونا چاہتے ہیں؟ اور ’’اگر یہ سب غلط ہوسکتے ہیں‘‘ کہہ کر ہم اسلام کو اتنا بےبس اور کمزور سمجھتے ہیں کہ اسے کسی زمانے کی باگ ڈور ہاتھ نہیں آسکی. حقیقت یہ ہے کہ جدیدیت نے ہمیں ہمیشہ زوال اور نقصان ہی کی راہ دکھلائی ہے، ہمیشہ دین کے اجتماعی ورثہ سے متنفر کرنے کی کوشش کی ہے، اور اس انجام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں روحانیت کے بجائے مادیت، اطاعت کے بجائے آزادی اور معرفت خداوندی کے بجائے نام نہاد ترقی کا درس ہو۔

    ماضی میں اس طریقہ واردات کو سمجھ کر بروقت اس کا بھرپور تعاقب کیا جاتا رہا، لیکن اب یہ بدمعاشی سر عام، اور اس منظم انداز سے کی جارہی ہے کہ غیر تو غیر اپنے بھی اس دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پانی سر سے گزر جانے سے قبل اس خطرے سے نمنٹنے کا سامان کیا جائے، غزالی و رومی رحمھما اللہ کی یاد بہار تازہ کی جائے، جو ان سے انھی کے اسلوب میں نمٹ سکے اور دین کی عظیم روایت کے دھارے کو جاری رکھ سکے۔