Tag: تعلیمی ادارے

  • ہندستانی گانوں پر رقص غیر اسلامی ہے – ظفر عمران

    ہندستانی گانوں پر رقص غیر اسلامی ہے – ظفر عمران

    ظفر عمران کسی زمانے میں یہ بحث سنا کرتے تھے، کہ رقص غیر اسلامی ہے، یا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے، یا نہیں۔ اسی طرح موسیقی کی حرمت کے بارے میں بھی مکالمے سے مناظرے تک سنے، پڑھے۔ اس دوران کبھی یہ موضوع سامنے نہیں آیا، کہ کچھ مخصوص گانوں پر جھومنا اسلامی، یا غیر اسلامی ہوسکتا ہے۔ بھلا ہو اس ذاتی حیثیت کا، کہ ہمارے علم میں آیا، ہندُستانی گانوں ”بیڑی لگئی لے“، ”منی بدنام ہوئی“، جیسے گانوں پہ تھرکنا غیر اسلامی ہے۔

    بی بی سی نے رپورٹ کیا ہے، کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے رکنِ صوبائی اسمبلی خرم شیر زمان نے کچھ عرصہ قبل وزیر تعلیم کو ایک خط لکھا تھا، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا، کہ چند نجی تعلیمی اداروں میں رقص کی تعلیم دی جاتی ہے، جو ان کے خیال میں مذہبِ اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے، اس لیے اسے روکا جائے۔ خرم شیر زمان یاتو تحریک انصاف کے جلسوں میں شریک نہیں ہوتے، یا جھومنے کے وقت گھومنے نکل جاتے ہوں گے۔ خیر دل چسپ بات یہ ہے، کہ اس معاملے پر جب شہر کے کئی حلقوں کی جانب سے نکتہ چینی کی گئی تو تحریکِ انصاف نے بحیثیتِ سیاسی جماعت خود کو اس معاملے سے یہ کَہ کر علاحدہ کرلیا، کہ ‘یہ عمل خرم شیر زمان نے اپنی ذاتی حیثیت میں اٹھایا ہے، اور یہ تحریکِ انصاف کی پالیسی نہیں ہے۔’ یہ تو بچہ بچہ جانتا ہے، کہ تحریک انصاف کی پالیسی میں سے ناچ گانا نکال دیا جائے، تو باقی بیمہ بھی نہیں بچتا۔

    تاہم تحریک انصاف نے یہ نہیں بتایا، کہ خرم شیر زمان کی اس ذاتی حیثیت کی کیا حیثیت ہے۔ کیا جماعت نے جناب خرم شیر زمان کی ذاتی حیثیت میں پارٹی کا تاثر برباد کرنے پر کوئی نوٹس لیا، یا بس اپنی طرف سے ایک بیان جاری کرنا ہی کافی سمجھا۔ دوسری جانب تحریکِ انصاف کے رکنِ سندھ اسمبلی خرم شیر زمان نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں اس عمل سے اس لیے مایوسی ہوئی ہے، کہ یہ سارا معاملہ پہلے ہی بہت پے چیدہ بنا دیا گیا تھا۔ ادھر سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے سندھ کے تعلیمی اداروں میں رقص و موسیقی کی تعلیم پر پابندی کی خبروں کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے، کہ یہ پابندی ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔

    وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ چند انتہا پسند عناصر کے ہاتھوں وہ اپنے آزاد اور ترقی پسند منشور کو کسی قیمت پر یرغمال نہیں بننےدیں گے۔ میں یہ سمجھا ہوں، کہ اگر ترقی پسندی رقص کرنا ہے، تو وزیرِ اعلا کا یوں کہنا بہ جا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘موسیقی اور رقص کسی بھی آزاد معاشرے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے، اور وہ ایسی سرگرمیوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔’ وزیرِ اعلا سندھ نے کا کہنا ہے تھا کہ اسکولوں میں رقص پرپابندی سے متعلق جاری ہونے والے اعلامیے کے خلاف ایکشن لیا جارہا ہے۔

    خرم شیر زمان نے کہا کہ ’’میرے پاس بہت سے بچوں کے والدین شکایت لے کر آئے تھے، اور میں نے ان کی شکایات وزیرِ تعلیم کو بھجوا دی تھیں۔’ خرم شیر زمان یہ نہیں سمجھے کہ یہ شکایات تحریک انصاف کے جلسوں میں ناچ گانے کے خلاف تھیں۔ الٹا انھوں نے وزیر تعلیم سندھ کو خط لکھ دیا۔ انھوں نے واضح کیا، کہ اس کام کے لیے انھوں نے اپنا ذاتی لیٹر ہیڈ استعمال کیا تھا، نہ کہ تحریکِ انصاف کا۔ ایک رکن صوبائی اسمبلی کی ذاتی حیثیت کیا ہے، یہ کیسے واضح ہو؟ بھئی آپ اپنی جماعت، اپنے حلقے کے عوام کی نمایندگی کرتے ہیں، اور اگر کوئی شکایت لے کر آیا، تو اپنے نمایندے کے پاس۔ پھر یہ ذاتی حیثیت کیا ہے؟ رکنِ سندھ اسمبلی خرم شیر زمان نے اس کے بعد جو وضاحت پیش کی وہ تو کمال ہے۔ کہتے ہیں، ‘وہ اس ڈانس کے خلاف ہیں جو اسکولوں میں انڈین اور انگلش گانوں پر سکھایا جاتا ہے۔ ثقافتی رقص کے وہ خلاف نہیں ہیں، اور ان کا مقصد صرف شیلا کی جوانی جیسے گانوں پر ہونے والے ڈانس کو روکنا تھا۔’ ہم عمران خان صاحب سے گزارش کرتے ہیں، کہ وہ اپنے جلسوں میں ‘شیلا کی جوانی’ پہ رقص مت کروائیں۔ یہ ‘نچ پنجابن نچ’ جیسے گانوں، اور اس کے گلوکار کی توہین ہے۔

    سید مراد علی جو بھی کہیں،انھی کے کابینہ سے وزیرِ تعلیم جام مہتاب ڈہر سے منسوب ایک بیان مقامی میڈیا میں شائع ہوا تھا، جس میں انھوں نے بعض نجی تعلیمی اداروں میں رقص و موسیقی کی تعلیم پر پابندی کی حمایت کی تھی۔ اس سے پیش تر نجی تعلیمی اداروں کے ڈائریکٹر جنرل منسوب حسین صدیقی نے جمعہ کو ایک سرکلر جاری کیا تھا جس میں تمام نجی تعلیمی اداروں سے کہا گیا تھا، کہ کچھ اسکولوں نے رقص سکھانے کے نام پر استاد بھرتی کیے ہیں، اور وہ بچوں کو ‘فحش رقص’ کی تعلیم دے رہے ہیں۔ اس اعلامیے میں ایسے تمام اسکولوں کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔

    اس ساری کہانی میں سمجھنے کی بات یہ ہے، کہ ہم میں سے کئی مذہب کی تشریح اپنی ذاتی حیثیت میں کرتے ہیں۔ کاش خرم شیر زمان اپنے دین کو اپنی ‘ذاتی حیثیت’ تک رہنے دیتے، اور دوسروں کی ذاتی حیثیت میں مداخلت سے پرہیز کرتے۔ یا کاش عوام ان ‘ذاتی حیثیت’ والوں کے چنگل سے نکل کر، اجتماعی حیثیت والوں کو رہ نما کریں۔ جب تک کسی سیاسی جماعت کے لیٹر ہیڈ کو استعمال میں نہیں لایا جاتا، عوام کو اپنے اپنے رہ نما کے پیچھے رقص کی کھلی آزادی ہے، اور میری’ذاتی حیثیت’ میں یہ رائے ہے، کہ اپنے اپنے قائد کے نعروں پہ جھومنا، عین اسلامی ہے۔ تو آئیے رقص کریں۔ جب کہ دھرنے کی آمد آمد ہے۔ بھلا بنا رقص کے بھی کوئی دھرنا، دھرنا ہے!

  • آخر ایسا کیوں ہوتا ہے – عبداللہ عالم زیب

    آخر ایسا کیوں ہوتا ہے – عبداللہ عالم زیب

    کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر پاک وطن کے تعلیمی اداروں میں معصوم بچوں کے بے ہودہ ڈانس کی پکچرز دیکھ کر حد درجے کی شرمندگی کے ساتھ ساتھ افسوس بھی ہوا کہ وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا، کارواں کےدل سے احساس زیاں جاتا رہا. یقینا ان بچوں کو انعامات سے بھی نوازاگیا ہوگا، ان کی دل جوئی بھی کی گئی ہوگی، انہیں مستقبل میں آگے بڑھنے کا شوق بھی دلایا ہوگا، سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم اپنے کلچر اور اپنی ثقافت کو پس پشت ڈال کر غیروں کی بےہودہ ثقافت اپنا کر خوشی محسوس کرتے ہیں. میرے ناقص فہم کے مطابق اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں ذرا تاریخ کے اوراق پر ایک نظر ڈالنی ہوگی تب ہمیں سمجھ آئے گی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔

    تاریخ یہ بتاتی ہے کہ برصغیر پر انگریز کےقبضے سے پہلے کسی بھی جگہ دینی اور دنیاوی تعلیم میں تفریق نہیں تھی، مدارس کے نام کے ساتھ دینی و دنیاوی تعلیم دونوں کا تصور ذہن میں آتا تھا تبھی تو ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے سائنسدان، انجینئرز، ڈاکٹرز، ماہرین فلکیات، ماہرین ریاضیات اپنے اپنے فن میں مہارت کے ساتھ ساتھ ان کو دینی علوم پر بھی دسترس حاصل تھی. 1780ء سے پہلے ایک ہی نظام تعلیم ہوا کرتا تھا، لیکن جب انگریز برصغیر میں آیا تو اس نے رفتہ رفتہ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں پر پابندی لگانا شروع کردی۔ 1830ء میں برطانوی بادشاہ ولیم جب انتہائی کوشش کے باوجود اس علاقے پر اپنا پنجہ مظبوط نہ کرسکا تو بالآخر اس نے وائسرائے ہند کے ذریعے لارڈ میکالے سے دریافت کیا کہ ہم کس طرح سے اس علاقے پر اپنا کنٹرول برقرار رکھ سکتے ہیں؟

    لارڑ میکالے نے جوابا لکھا: میری تجویز یہ ہے کہ برٹش گورنمنٹ فوری طور پر مسلمانوں کا ایجوکیشن سسٹم تبدیل کرے، اس سے خود بخود بہت ہی کم عرصے میں کلچر اور اپنی ثقافت تبدیل ہو جائیں گے، غیر محسوس طریقے سے ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جن سے مسلمانوں کو اپنا کلچر اپنی ثقافت پسماندہ لگنے لگے، وہ انگریزی طرزِ معاشرت پر فخر، اپنی ثقافت اپنی معاشرت کو گھٹیا تصور کرنے لگیں، اپنی روایات اور اپنی تاریخ کو بھول کر وہ اس کلچر میں ضم ہوجائیں گے۔ لارڈ میکالے کا منصوبہ برطانوی حکومت کو پسند آیا اور اس بھاری ذمہ داری کو انگریز حکومت نے لارڈ میکالے کے ہی کندھوں پر ڈال دیا. مسلمانوں کی تہذیب و تمدن پر شب خون مارنے والے لارڈ میکالے نے اس وقت کہا تھا کہ: میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایسا نظام تعلیم بنا رہا ہوں جس کو پڑھنے کے بعد مسلمان بچے اگر عیسائی اور یہودی نہ بنے تو کم از کم مسلمان بھی نہیں رہیں گے.

    میں یہ نہیں کہتا کہ میرے معاشرے کے نوجوان مسلمان نہیں رہے لیکن اتنا میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان میں مغرب سے مرعوبیت پائی جاتی ہے، اپنے کلچر اور ثقافت پر فخر کرنے کے بجائے اس پر انھیں شرم محسوس ہوتی ہے. تبھی تو میرے ملک کے مستقبل کو بچپن سے نچایا جا رہا ہے. یاد رکھیےکہ کسی بھی قوم کے عروج و زوال کا قصہ ذہنی غلامی پر آکر ختم ہوجاتا ہے، جب کوئی بھی قوم ذہنی غلام بن جائے تو صرف آزادی کے اظہار اور آزادی کے نعروں سے وہ آزاد نہیں ہوسکتی، کیوں کہ جسمانی غلامی سے تو انسان ایک نہ ایک دن نکل ہی جائے گا لیکن ذہنی اور فکری غلامی کے چنگل سے نکلنا بہت ہی دشوار ہے.

  • خوش تو ہیں ہم بھی ’’نتائج‘‘  کی ترقی سے مگر؟ سید وقاص‌ جعفری

    خوش تو ہیں ہم بھی ’’نتائج‘‘ کی ترقی سے مگر؟ سید وقاص‌ جعفری

    1403082_950943444941841_901843455806731279_oپنجاب کے تعلیمی بورڈز نے چند روز قبل میٹرک پارٹ فرسٹ یعنی نہم کے نتائج کا اعلان کیا ہے۔ اس لحاظ سے نتائج میں کوئی خبریت نہیں کہ ابلاغیات کی زبان میں’’لڑکیوں‘‘ نے ایک بار پھر میدان مار لیا ہے۔ نتائج کے اعلان کے بعد تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ چھاج تو چھاج، چھلنی بھی بولنے لگی ہے۔ کیا اسکول، کیا اکیڈمی، کیا استاد اور کیا والدین!! محسوس یہی ہوتا ہے کہ ہر اسکول اور ہر اکیڈمی نے ٹاپ کیا ہے۔ بینرز، فلیکس، اشتہارات، مبارکباد، انعامات اور جو رہ گئی کسر وہ بڑے تعلیمی اداروں کی طرف سے ترغیبات نے پوری کردی۔ گذشتہ ماہ یہ منظر ہم نے میٹرک کے نتائج کے موقع پر دیکھا۔ ٹاپرز کو انعام میں کار، موٹر سائیکل دینے والے ادارے اِن بچوں اور بچیوں کو اخبارات میں اپنے کریڈٹ اور تعلیمی معیار کے ثبوت کے طور پر پیش کر رہے ہیں بھلا کوئی ان سے پوچھے حضور! آپ نے یہ ٹیلنٹ تراشا ہے یا خریدا ہے مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز بھلا کون سنتا ہے.

    بات ذرا دور نکل جائے گی۔ نہم کے امتحانات میں ایک یا دو طالبات نے 505 نمبرز میں 504 نمبر حاصل کیے ہیں، گویا ان کے مجموعی نمبروں سے صرف ایک نمبر کاٹا گیا ہے۔ ہم اپنی اس بیٹی کی کامیابی کا مزہ کِرکرا نہیں کرنا چاہتے۔ بلاشبہ ایسے طلبہ و طالبات ادارے، خاندان، شہر اور ڈویژن بھر کے لیے عزت اور فخر کا باعث ہیں۔اِس طرح ہمارے ایک دوست نے اپنے کسی عزیز کے505 میں سے501 نمبر آنے پر گلہ کیا ہے کہ نہ جانے کس شقاوتِ قلبی سے ’’سنگدل‘‘ ممتحن نے دستِ قابل سے چند نمبر نوچ پھینکے ہیں۔ 490 نمبر لینے والے طلبہ و طالبات تو ہر بورڈ میں شاید ہزاروں سے کم نہ ہوں۔ خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ کے مصداق اس موقع پر ہم کچھ گزارشات والدین، اساتذہ، بورڈ انتظامیہ اور حکومت کے کار پردازان کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔

    ہم سمجھ نہیں پا رہے کہ جائزہ، پیمائش کے وہ کون سے اصول اور کلیے ہیں جس کی بنا پر میٹرک کے امتحانات میں اس قدر قریب مارجن سے نمبر آجاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ریاضی وہ واحد مضمون تھا جس میں صد فی صد نمبر آیا کرتے تھے اس کے علاوہ کسی مضمون میں فرسٹ ڈویژن آجانا طالب علم کے لیے کامیابی کا عروج ہوا کرتا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ امتحانات اب تحریری (descriptive) کے بجائے ملٹی پل چوائسز، کوئز اور مختصر نویسی پر منتقل ہوگئے ہیں لیکن اس سب کے باوجود طلبہ کو محض ’’نگ گننے‘‘ (counting) تک محدودنہیں ہونا پڑتا، انہیں بیالوجی، کیمسٹری، فزکس، اردو، اسلامیات، مطالعہ پاکستان اور انگریزی میں بہرحال کچھ نہ کچھ بیان (describe) کرنا پڑتا ہے. ہماری رائے میں بورڈز کے ذمہ داران کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ امتحانات کا یہ پورا عمل ہی مشکوک ہوجائے۔ پنجاب نے ایک حد تک اپنے نتائج اور تعلیمی بورڈز کی لاج رکھی ہوئی ہے۔ اتنے متعین (accurate) نمبرز تو شاید مغرب کی اُن الیکٹرانک مشینوں سے بھی نہیں لگائے جاسکتے جو وہاں کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کے امتحانی پرچوں کی آٹو میٹک طریقے سے جانچ پرکھ کرتی ہیں۔

    اچھے نمبر لینا، نمایاں پوزیشنز حاصل کرنا اور بورڈ میں قابل اعزاز ٹہرنا بجا طور پر قابل تعریف، مگر ہر قیمت پر نمبر، زیادہ سے زیادہ نمبر اور اچھے نمبرز کے حصول کو قابلیت، لیاقت اور ذہانت کی معراج مان لینا ماہرین کے نزدیک بھی درست روّیہ نہیں۔ نمبرز کی اس نہ ختم ہونے والی دوڑ نے بہت سارے مسائل پیدا کردیے ہیں جو صرف تعلیمی اور مادّی نہیں اخلاقی اور نفسیاتی بھی ہیں۔ میٹرک، ان معنوں میں کیرئیر کے انتخاب کا مرحلہ نہیں ہوتا۔ تاہم اس درجے کے تعلیمی نتائج کو جس hype کے ساتھ مرتب، اعلان اور propagate کیا جاتا ہے، وہ کئی طرح کی پیچیدگیوں کا باعث بن رہا ہے۔ چونکہ یہاں سائنس کے مضامین کو ہی ترجیح دی جاتی ہے، شور اِسی کا زیادہ ہے۔ اس نمبر گیم نے بچوں کو تو نفسیاتی طور پر دباؤ سے دوچار کیا ہوا ہوتا ہے، والدین اور اساتذہ بھی کم زیرِ بار نہیں ہوتے۔ والدین کی جیب اور اساتذہ کی نوکری یا ترقی ہر آن سُولی پر ٹنگی دکھائی دیتی ہے۔ سالِ رواں کے آغاز میں حکومت پنجاب نے بظاہر والدین کے اصرار پر تعلیمی اداروں کی فیسوں کو ریگولیٹ کرنے کی (زیادہ) سیاسی اور انتظامی (غیر مخلصانہ) کوششیں کیں تو زیریں متوسط کلاس کے اکثر تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو بقا کے مسئلے سے دوچار ہونا پڑا۔ کیا کوئی جانتا ہے کہ بڑے شہروں میں 7،6 گھنٹے کی ریگولر سکولنگ کے مقابلے میں شام کے اوقات میں چند گھنٹوں کے لیے اکیڈمیاں ایک طالب علم سے 7000/- روپے ماہانہ وصول کرتی ہیں۔ بچے صبح کے اوقات میں نام کی حد تک بورڈ کے قواعد کو پورا کرنے کے لیے تو ان اسکولز میں رجسٹرڈ ہوتے ہیں جبکہ زیادہ نمبر لینے کی دوڑ میں اصل بادشاہ گر یہی اکیڈیمیز ہیں جنہوں نے ایک مخصوص نفسیاتی فضا میں والدین اور طلبہ کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔

    بورڈ کے امتحانات اور بعد ازاں اِنٹری ٹیسٹ میں ایک طالب علم اپنی تمام تر قابلیت کے باوجود خاص مقدار میں نمبر نہ لے پانے پر جس نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے اس کا اندازہ شاید ماہرین نفسیات و سماجیات زیادہ بہتر طور پر کرسکتے ہیں۔ ہمارے جاننے والوں کی ایک بچی صرف اس وجہ سے نروس بریک ڈاؤن سے بال بال بچی کہ اس کے نمبر 478کے بجائے 480کیوں نہیں آئے؟

    ان امتحانات کاایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے طلبہ اعلیٰ نتائج اور پوزیشن کے حوالے سے ’’ہر چند ہیں کہ نہیں ہیں‘‘ کا نمونہ بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اہل علم، سماجی ماہرین اور اربابِ اختیار کے لیے یہ کوئی فکرمندی کا موضوع ہے یا نہیں، مگر اس سے سرسری طور پر عہدہ برآ نہیں ہوا جاسکتا۔ خواتین کے لیے تعلیم، ترقی اور ایک حد تک روزگار کے مواقع و امکانات سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر متعدد انتظامی، سماجی، معاشی اور طبعی مصالح کے پیش نظر طلبہ کا تعلیم کے اِن مدارج میں پیچھے رہ جانا یا آگے نہ بڑھ پانا ایسا عمل نہیں جس سے سرسری طور پر گزر جایا جائے۔ ذرا گہرائی میں جاکر اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے کو چلانے، بالخصوص ایک خاص دائرے میں چلانے کے لیے بہرحال مردوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا بصورت دیگر سماجی اور انتظامی مسائل بڑھتے جائیں گے۔ یہ بات خود مجموعی طور پر اہل دانش کے سوچنے کی بھی ہے اور ان کے لیے بھی فکرمندی کا باعث ہے جو ایسے معاملات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ خواتین کے بہت سے فضائل اور مسائل کی بنا پر معاشرے کے ہر دائرے اور زندگی کے ہر شعبے میں یکساں مہارت اور آسودگی سے کام کرنا ممکن نہ ہوگا۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا کہ عضویاتی قوانین (physiological) بھی اُتنے ہی اٹل ہیں جس قدر فلکیاتی قوانین (universal)۔ بالکل قریب میں میڈیکل کے شعبے کے اعداد و شمار ہمارے سامنے ہیں جہاں زیادہ تر داخلے لینے والوں میں طالبات شامل ہیں جب کہ انہی فارغ التحصیل طالبات میں طب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میڈیکل پریکٹس کو جاری رکھنے کا تناسب، تعلیم حاصل کرنے کی نسبت بہت کم ہے. اس حوالے سے PMDC کے اعداد و شمار سے تصدیق کی جاسکتی ہے۔

    اس ضمن میں ایک اور بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ سالانہ تحریری، امتحانات کبھی بھی کسی طالب علم کی قابلیت کو جانچنے کا پیمانہ نہیں ہوا کرتے۔ ہمارے ہاں یہ صرف یادداشت اور رفتار کی پیمائش کا ذریعہ رہ گئے ہیں۔ دنیا طالب علموں کی جانچ پرکھ کے حوالے سے نہ جانے کہاں پہنچ چکی ہے۔ طالب علموں کو پرائمری تعلیم کے دوران اُن کے مخصوص رجحانات کی بنیاد پر درجنوں نہیں سینکڑوں پیشوں اور مہارتوں کی طرف رہنمائی دی جارہی ہے مگر ہم ابھی تک میڈیکل، انجیئرنگ، میٹرک ایف ایس سی کے گرداب سے باہر آنے کے لیے تیار نہیں۔

    چند اہم پیشوں کی بنیاد پر عزت کو متعین کرنے کا taboo نہ جانے کب ٹوٹے گا؟ تعلیم کے میدان میں صف اوّل کے ممالک نے امتحانات، جائزے، نصابیات اور طریقہ ہائے تدریس کو نئے مفہوم عطا کردیے ہیں جبکہ ہم ابھی تک نصف صدی پرانے نظام کی لکیر کو پیٹ رہے ہیں۔ گزشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک امریکی اسکول کی انتظامیہ کا خط پڑھنے کو ملا جو اُن والدین کے نام لکھا تھا جن کے بچے امتحانات میں شریک ہونے جا رہے تھے۔ ذرا نفسِ مضمون ملاحظہ فرمائیے۔

    پیارے والدین!
    آپ کے بچے کے امتحانات جلد شروع ہو رہے ہیں، آپ بجا طور پر اپنے بچے کی کامیابی کے لیے متفکر ہوں گے۔ براہِ کرم یہ ضرور یاد رکھیے کہ امتحان دینے والے بچوں میں ایک آرٹسٹ (فنکار) بھی ہوگا جو شاید ریاضی میں زیادہ دلچسپی نہ لیتا ہو۔ ممکن ہے ان امتحانات میں کوئی اِنٹرپرینئر بھی ہو جسے انگلش لٹریچر اور تاریخ کے مضمون سے رغبت نہ ہو۔ جن بچوں سے آپ اعلیٰ نمبروں کی توقع رکھتے ہوں ان میں کوئی کھلاڑی ہو جس کے لیے فزیکل فٹنس، فزکس کے مضمون سے زیادہ اہمیت کی حامل ہو۔ کوئی خوش گُلو، خوش آواز ایسا بھی ہوسکتا ہے جس کے لیے کیمسٹری کوئی اہمیت نہ رکھتی ہو۔ اگر آپ کابچہ اچھے نمبر حاصل کرلیتا ہے تو فبھا۔ اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو براہ کرم اُن سے اُن کی خودی اور اعتماد مت چھینئے۔ انہیں بتائیے کہ یہ کوئی زندگی کا اختتام نہیں بلکہ صرف ایک امتحان ہے۔ انہیں زندگی میں ابھی اور بڑے کام کرنا ہیں۔ اگر ان کے نمبر کم بھی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کی محبت ان کے لیے کم ہوگئی ہے جسے نمبروں سے جانچنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھیئے اور دیکھیے کس طرح آپ کا بچہ زندگی کو فتح کر رہا ہوگا۔ ایک امتحان یا کم نمبر آپ کے بچے کے خواب اور قابلیت کو ضائع نہیں کرسکتے۔ اور آخری بات یہ کہ مت سمجھیے کہ ڈاکٹرز یا انجینئرز ہی صرف اس دنیا کے خوش نصیب ترین فرد ہیں۔

    مضمون کی طوالت ہمیں پابند کر رہی ہے ورنہ یہ موضوع سب سے اہم ہے کہ ہر سطح کے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والا جوہر قابل کیا اپنے تعلیمی اداروں سے وہ تربیت، ہمت اور جذبہ کشید کر رہا ہے جو اُسے معاشرے کے ناسوروں پر مرہم رکھنے کے قابل بناسکے۔ جدید دنیا پرائمری میں پڑھنے والے بچوں کو اِیکٹو سٹیزن بنانے کا عملی پلان وضع کرچکی ہے۔ مغرب اپنے مسائل کی انتہا پر آکر معاشرے اور تعلیمی ادارے کو ہم آہنگ کرنے کے لیے connecting classrooms کی بات کر رہا ہے ہماری اسلامی تاریخ میں تعلیم ہمیشہ تربیت کے پہلو بہ پہلو معاشرے کو سنوارتی رہی ہے۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں، ماہرین تعلیم کے لیے یہ موضوع بھی اچھی تعلیم اعلیٰ تعلیم اور معیار تعلیم کے زیادہ نہیں تو اس کے برابر اہمیت ضرور دیں۔

  • ہاں سازش تو کہیں ہے-انصار عباسی

    ہاں سازش تو کہیں ہے-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    آج کے اخبار ات میں ایک خبرپڑھی تو بہت دکھ ہوا۔ لیکن جب میں نے تصدیق کےلیے متعلقہ افراد سے بات کی تو معاملہ بالکل مختلف نکلا۔ گزشتہ چند ہفتوں سے میں اس معاملےپر لکھنا چاہتا تھا لیکن کسی نہ کسی وجہ سے تاخیر ہوتی گئی۔ آج کے تقریباً تمام اخبارات میں اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالےسے ایک خبر شائع ہوئی۔ خبر کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نےوفاق کی جانب سے تعلیمی اداروں میں قرآن پاک کی تعلیم کےلیے تیار کردہ نصاب پر اعتراض کر دیاجس کی وجہ جہادسے متعلق آیات نصاب میں شامل نہ کرناہے۔ ان خبروں کے مطابق کونسل کے ممبران کی اکثریت کاموقف تھا کہ جہادسے متعلق 484 آیات میں سے کسی ایک آیت کو نصاب میں شامل نہ کرنا ایک سازش ہے۔ مجھے چونکہ حکومت کی طرف سےا سکولوں کالجوں میں مسلمان طلبا و طالبات کو قرآن حکیم ناظرہ اور ترجمہ کے ساتھ پڑھانےکےفیصلے کےبارےمیں علم تھا اور اس بارے میں میں نے کچھ عرصہ قبل ایک خبر بھی جنگ اورنیوز میںشائع کی تھی، اس لیے نظریاتی کونسل کے حوالےسے یہ خبرپڑھ کر دکھ ہوا کہ یہ کیا ہو گیا۔

    دکھ اس بات پر تھا کہ حکومت کس طرح قرآن پاک کے کسی بھی حصہ کو اسکولوں کالجوں کے نصاب سے نکال سکتی ہے۔ میں نے سوچا ہو سکتا ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک کےپریشر میں حکومت نے واقعی یہ فیصلہ کر لیا ہو کہ جہادسے متعلق قرآنی احکامات کو نصاب میں شامل نہ کیا جائے۔ لیکن اس بارے میں جب میں نے متعلقہ وزیر مملکت جناب بلیغ الرحمنٰ سے بات کی تو معلوم ہوا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔

    بلیغ الرحمنٰ جنہوں نے قرآن پاک کو اسکولوں کالجوں میں پڑھانے کی حکومتی پالیسی کے بننے میں کلیدی کردار ادا کیاتھا، کا کہنا ہے کہ نصاب میں سے قرآن پاک کا کوئی ایک لفظ بھی وہ نکالنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کے تحت اسکول کے بچوں کو مکمل قرآن پڑھایا جائے گا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلی سے پنجم جماعت تک کے بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھایا جائے گا۔ چھٹی جماعت سے بارہویں جماعت تک کے طلبہ کو قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ پڑھایا جائے گا۔ ترجمہ پڑھانےکےلیے قرآن پاک کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ مکی سورتوں کو چھٹی سےلے کر دسویں جماعت تک کے طلبہ کوپڑھایا جائے گا جبکہ گیارویں اور بارہویں جماعت کے بچوں کو مدنی سورتیں ترجمعہ کے ساتھ پڑھائی جائیں گی۔ بلیغ الرحمنٰ کا کہنا تھا کہ چونکہ مدنی سورتوں میں جہاد سمیت دوسرے قرآنی احکامات کا ذکر ہے اس لیے یہ مناسب سمجھا گیا کہ بچے جب نسبتاً سمجھ کے قابل ہوں تو انہیں قرآن پاک کے اس حصہ کا ترجمہ پڑھایا جائے۔ مکی سورتوں کا نصاب تیار ہو چکاہے جسے اسلامی نظریاتی کونسل کے سامنے رکھا گیا جبکہ مدنی سورتوں کا نصاب تیاری کے عمل میںہے۔

    سوچا حکومتی وزیر ہونے کی حیثیت سے ہو سکتا ہے بلیغ الرحمنٰ کوئی بات چھپا رہے ہوں تو نظریاتی کونسل کے ایک ممبر کے علاوہ ایک سینئر افسر سے بات کی تو دونوں حضرات نے میڈیا کی خبروں کے بالکل برعکس مجھے بتایا کہ کونسل نے تو حکومت کی اس پالیسی سے اتفاق کیا ہے۔ دونوں حضرات نے جہادسے متعلق قرآن پاک کے حصہ کو نصاب سے نکالنے کی بات کی تصدیق نہیں کی اور وہی بات کی جو بلیغ الرحمنٰ صاحب نے کی۔ کونسل نے ترجمہ میں بہتری کی کچھ تجاویز دیں اور ساتھ ہی یہ مطالبہ کیا ہے حکومت جلد از جلد مدنی سورتوں سے متعلقہ نصاب کو بھی تیار کرے تا کہ قرآنی تعلیم کا یہ سلسلہ جلد از جلد شروع ہو سکے۔ جو خبر بدھ کے روز کے اخبارات میں شائع ہوئی اور جو کچھ متعلقہ وزیر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے دو معتبر ذرائع نے مجھ سے کی، اُن دونوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔

    آج کے خبارات کی خبروں میں جہاد کی آیتوں کو نکالنےکے حوالے سے ـ’’سازش‘‘ کی بھی بات کی گئی۔ یقینا ًسازش تو کہیں ہے لیکن شاید اُس کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کے اس قابل تحسین فیصلےپر عمل درآمد کو روکا جائے۔ اگر ہمارے بچوں نے قرآن پاک پڑھ لیا، اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس کلام کو سمجھ لیا تو پھر اس پر تکلیف تو ملک کے اندر اور ملک سےباہر بیٹھے بہت سوں کو ہو گی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ مختلف مکاتب فکر کےبڑےبڑے علمائے کرام سے حکومت نے متعلقہ نصاب کے سلسلے میں رابطہ کیا اور تقریباً ہر ایک نے نصاب میں شامل کیےگئے ترجمہ کواصولی طورپر منظور کرتےہوئےحکومت کے اس عمل کو سراہا۔ ترجمہ کو مزید بہتر کیا جا سکتا ہے اور اس سلسلے میں علم فاونڈیشن کے متعلقہ افراد نے منگل کے روز نظریاتی کونسل کے اجلاس میں بھی شرکت کی اور بہتری سے متعلق تجاویز حاصل کیں۔

    اب دیکھنا یہ ہے کہ تمام تر سازشوں کے باوجود حکومت کس طرح اس فیصلےپر عمل درآمد کرتی ہے۔ بلیغ الرحمنٰ صاحب کے مطابق وفاقی حکومت تواس سلسلے میں کافی سنجیدہ ہے جبکہ صوبوںنےابھی اس بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔ میری وزیر اعظم نواز شریف صاحب سے گزارش ہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کےلیے وہ ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے فوری طورپر وفاقی اسکولوں کالجوں میں اس نصاب کو پڑھانے کا حکم صادر کریں۔ جہاں تک صوبوں کا تعلق ہے تو پنجاب اور بلوچستان میں تو ن لیگ ہی کی حکومت ہے جبکہ خیبر پختون خوا میں اس فیصلے پر عملدرآمد کےلیے جماعت اسلامی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ امید کرتےہیں کہ سندھ میں بھی اسکولوں کالجوں کے بچوں کو قرآن پڑھایا جائے گا۔ یقین جانیں اس اقدام سے یہاں بہت بہتری آئے گی