Tag: تعلقات

  • بڑی خبر کا بڑا تنازع۔ حقیقت کیا ہے؟-سلیم صافی

    بڑی خبر کا بڑا تنازع۔ حقیقت کیا ہے؟-سلیم صافی

    saleem safi

    اس حقیقت سے کوئی بڑے سے بڑا شریف بھی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان میں سول ملٹری تنائو کی شکلیں تو بدلتی رہتی ہیں، لیکن ہر دور میں وہ موجود ضروررہتا ہے ۔تاہم شریفوں کے دور میں یہ معمول بعض اوقات حد سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ اپنے ہاتھوں کا تراشا ہوا پتھر اگر بھگوان بننے کی کوشش کرے تو عام بتوں کی بنسبت اس پر زیادہ غصہ آتا ہے۔ اہل صحافت کی صفوں میں بھی اسٹیبلشمنٹ کا زیادہ غصہ ان لوگوں سے متعلق دیکھنے کو ملتا ہے ،جن کو میدان صحافت میں عروج اس کے طفیل حاصل ہوا۔ بدقسمتی سے رائے ونڈ کے شریفوں کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ جب اپنی بلی کے منہ سے اپنے خلاف میائوں میائوں کی آوازیں سنتی ہے تو اسے غصہ بھی کچھ زیادہ آجاتا ہے۔

    دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ شریف نہ تو کھل کر مخالف کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور نہ گجرات کے چوہدریوں یا عمران خان کی طرح شریفانہ طریقے سے اندھی تابعداری کرتے ہیں۔ شریف عدلیہ اورمیڈیا کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی سیاست سے کام لیتے ہیں۔ ضرورت پڑنے یا پھر دبائو آجانے کی صورت میں وہ ہاتھ قدموں میں لے جانے میں دیر نہیں لگاتے لیکن چونکہ تاثر ہے کہ بڑے شریف حد درجہ کینہ پر وربھی ہیں، اس لئے موقع ملتے ہی قدموں میں پڑے ہاتھ گریبان میں لے جانے میں دیر نہیں لگاتے۔یہ بھی تاثر ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے وہ دوبارہ گریبان میں ہاتھ ڈالنے والی پوزیشن میں آگئے تھے اور اداروں کے ساتھ بھی لڑائو اور حکومت کرو والی پالیسی اپنانے لگے تھے۔ اس کا اظہار کبھی وزرا کے بیانات کی صورت میں کیا جاتا ہے، کبھی مختلف عہدوں پر مخصوص قسم کے لوگوں کی تعیناتی کی شکل میں ہوتا ہے تو کبھی کلبھوشن یادیو جیسے ایشوز پر پراسرار خاموشی کی صورت میں۔ دوسری طرف فریق ثانی اپنے طریقے سے اپنا دفاع کرتارہتا ہے۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں کہ جو کم و بیش ہر صحافی اور ہر سیاستدان کے علم میں ہوتے ہیں لیکن بوجوہ کھل کر اس کا ظہار نہیں ہوتا۔ جو صحافی بہت زیادہ بہادر یا پھر ضمیر کے غلام ہوتے ہیں وہ بھی مشکل سے اشاروں کی زبان میں بات کرلیتے ہیں۔ سرکاری طور پر وزیر مشیر دن رات بیانات تو یہ جاری کرتے ہیں کہ فریقین مکمل طور پر ایک صفحے پر ہیں لیکن وہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بول رہے ہیں اور کم وبیش ہر صحافی کو بھی علم ہوتا ہے کہ جو دعویٰ کیا جارہا ہے، وہ حقیقت سے کتنا دورہے۔

    اب کی بار تو بدقسمتی سے میڈیا کی اکثریت بھی دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ایک، ایک کی پراکسی کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور دوسرا، دوسرے کی پراکسی کا۔ اس تناظر میں جب کوئی سورس ،ایسی خبر لے آتا ہے کہ جوسول ملٹری تنائو یا تفریق سے متعلق ہو، تو صحافی بجا طور پر جلدی یقین کرلیتا ہے بلکہ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ہم آہنگی کی علامت کسی خبر پر یقین نہیں کیا جاتا۔ ان حالات میں انگریزی اخبار کے ایک بڑے اور مستند رپورٹر کے پاس خبر لائی گئی اور شاید اسی تناظر میں انہوں نے یقین کرلیاحالانکہ میں نے خبر کی اشاعت یا پھر اس کے بعد اپنے ذرائع سے جو معلومات حاصل کیں، اس کی رو سے میٹنگ میں اگرچہ انہی موضوع پر بات ہوئی تھی لیکن وہ قطعاً اس انداز میں یا پھر تلخ ماحول میں نہیں ہوئی تھی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ یہ موضوعات سول قیادت کی طرف سے اٹھائے گئے تھے بلکہ خود عسکری حکام ایک منصوبہ عمل کے ساتھ اس میٹنگ میں گئے تھے اور جب انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اگلے مرحلے کا منصوبہ عمل سامنے رکھا تو اس پر انتہائی خوشگوار ماحول میں بعض سوالات بھی اٹھائے گئے اور بعض مشکلات کا بھی تذکرہ ہوا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس گفتگو کے دوران بھی سول ملٹری کی تقسیم نہیں تھی کیونکہ بعض سوالات خود عسکری سائیڈ سے اٹھائے گئے اور اسی طرح عسکری سوچ کی نمائندگی بعض وزراء بھی کرتے رہے جبکہ اسی طرح کی بحث کم وبیش کابینہ کی کمیٹی برائے سلامتی جیسے فورمز کی ہر میٹنگ میںمعمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔

    میری اطلاعات کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی یہ تجویز پہلے سے لے کر آئے تھے کہ وفاقی حکومت کے نمائندے کے ساتھ وہ ہر صوبائی ہیڈکوارٹر کا دورہ کریں گے اور وہاں اپنے ادارے کے حکام کو صوبائی حکومتوں کے ساتھ بٹھا کر آگے کا لائحہ عمل طے کریں گے۔ گویا میٹنگ میں انگریزی اخبار کی خبر میں شائع ہونے والے بعض اختلافی موضوعات پر گفتگو ضرورہوئی تھی لیکن نہ توماحول تلخ تھا اور نہ وہاں سول ملٹری کی تقسیم موجود تھی۔ کسی بھی فریق کا انداز طعنے یا ناراضی والا نہیں تھا۔ پھر مکمل ہم آہنگی کے ساتھ آئندہ کا لائحہ عمل بنایا گیا جس کی رو سے صوبائی سطح پر بھی سول ملٹری اداروں کے کوآرڈنیشن کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات ہونے تھے لیکن خبر سے تاثر یہ ملا کہ جیسے انتہائی تلخ ماحول میں ایسی میٹنگ ہوئی کہ جس میں سول ملٹری قیادت دو انتہائوں پر تھی اور جس میں سول قیادت نے ملٹری سائیڈ کو کھری کھری سنائیں۔ ظاہر ہے اس خبر سے کئی حوالے سے نقصان ہوا اور یوں عسکری حلقوں کی ناراضی اور برہمی بلاجواز نہیں تھی۔ پہلا نقصان یہ ہوا کہ ہندوستان کے ساتھ جنگی فضا میں باہر یہ پیغام گیا کہ پاکستان میں سول ملٹری قیادت میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ جو منصوبہ عمل بنایا گیا تھا ،وہ سارے کا سارا سبوتاژ ہوگیا۔ جن لوگوں سے متعلق منصوبہ تھا، ان کو پہلے سے علم ہوگیا اور اس کے لئے جو سول ملٹری ہم آہنگی چاہئے تھی، اس کی طرف قدم تو کیا اٹھتا، الٹا تنائو بڑھ گیا۔

    تیسرا نقصان یہ ہوا کہ اگلے مرحلے میں داخلے کے لئے بعض اہم دوست ملکوں کا بھی دبائو تھا اور ان کے ساتھ کچھ وعدے بھی کئے گئے تھے۔ ان دوست ممالک کو یہ غلط پیغام گیا کہ ان کو جو تاثر دیا گیا تھا، اس کے مطابق عمل کرنے کا ارادہ نہیں ۔اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت پوری قوت کے ساتھ خبر کی تردید کرتی اور ایک دو روز میں تحقیقات مکمل کرکے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرتی لیکن ایسا کرنے کی بجائے معاملے کو تین مختلف تردیدی اور وضاحتی بیانات کے ذریعے مزید خراب کردیا گیا۔ عسکری حلقوں کو یقین ہے اور اس کا اظہار کور کمانڈر ز میٹنگ کے بعد آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں کیا گیا کہ خبرفیڈ (Feed) کی گئی۔ فیڈکرنے والوں کے بارے میں ان کے ہاں یہ قوی خیال ہے کہ وہ حکومتی صف کے بعض اہم ذمہ دار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سارے معاملے کی تحقیق ایک دن میں کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ سانحہ مشرقی پاکستان نہیں کہ جس کے ذمہ داروں کے تعین میں سالوں کی تحقیق درکار ہو لیکن ایسا کرنے کی بجائے حکومت ضدپر اڑ گئی ہے۔

    دوسری طرف حکومتی عہدیدارنجی حلقوںمیں اپنے خلاف سیاسی ہلچل کو ایک بار پھراشارے سے تعبیر کررہے ہیں۔ نتیجتاً پیدا ہونے والی سیاسی بے یقینی اور بداعتمادی کی وجہ سے ملک داخلی اور بالخصوص سفارتی محاذوں پر غیرمعمولی نقصان اٹھارہا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آمنے سامنے بیٹھ کر معاملات کو صاف کرنے اور ضروری اقدامات اٹھانے کی بجائے اب کی بار وزیراعظم صاحب روایتی پراسراریت کی پالیسی پر گامزن ہیں اور ساتھ ہی ساتھ دو نومبر کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینےکے موڈ میں بھی نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جیسے لوگوں کو اس ملک کے نظام کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم جانتے ہیں کہ یہاں آمریت سیاسی ہوتی ہے اور جمہوریت خاندانی آمریت کا دوسرا نام۔ لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ اس وقت چین جتنا پاکستان میں سیاسی استحکام کا متمنی ہے، اتنا امریکہ اورہندوستان، پاکستان میں مارشل لا کا نفاذ چاہتے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ امریکہ نے پھر 1999 والا کام شروع کردیا ہے کہ چور سے کہے چوری کرو اور گھر والے سے کہے بیدار رہو۔

  • جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر!-رؤف کلاسرہ

    جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر!-رؤف کلاسرہ

    m-bathak.com-1421245675rauf-kalasra
    ایک دفعہ پھر سول ملٹری تعلقات خراب ہو چکے ہیں۔ بے چارے ایک دفعہ پھر کٹہرے میں کھڑے ہیں۔
    مزے کی بات ہے‘ ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ یہی دیکھ لیں کہ ایک دور تھا جب بے نظیر بھٹو نے اپنی پہلی حکومت میں راجیو گاندھی کو اسلام آباد بلایا تھا تو اس وقت کی ملٹری اور انٹیلی جنس قیادت نے انہیں (بینظیر بھٹو کو) سکیورٹی رسک قرار دے دیا تھا۔ کچھ عرصے بعد بینظیر حکومت توڑ دی گئی۔ وہ آخری دم تک سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لیے سکیورٹی رسک رہیں کیونکہ وہ گاندھی خاندان کے قریب سمجھی جاتی تھیں۔ جب راجیو گاندھی قتل ہوئے تھے تو بینظیر بھٹو افسوس کے لیے نیو دہلی گئیں۔ وہاں ان کی ملاقات سابق بھارتی وزیر اعظم آئی کے گجرال سے بھی ہوئی۔ اپنی آٹو بائیوگرافی میں گجرال لکھتے ہیں کہ انہوں نے بینظیر بھٹو کو بتایا کہ ایک دفعہ ان کے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان نے نیو دہلی آ کر یہ دھمکی دی تھی کہ اگر معاملات درست نہ ہوئے تو پاکستان بھارت پر بم مار دے گا۔ گجرال حیران تھے کہ سویلین وزیر اعظم ہوتے ہوئے وہ کیسے اپنے وزیر خارجہ کو یہ دھمکی دے کر بھارت بھیج سکتی تھیں۔ گجرال لکھتے ہیں کہ یہ سن کر بینظیر بھٹو کو جھٹکا سا لگا اور وہ بولیں: بھلا میں کیسے ایٹم بم کی دھمکی دے کر اپنے وزیر خارجہ کو بھارت بھیج سکتی ہوں؟ بعد میں پتا چلا کہ اس وقت کی فوجی قیادت نے وزیر خارجہ کو بھارت کو یہ دھمکی دینے کے لیے بھیجا تھا‘ اور اس پیغام کا وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو علم نہ تھا۔

    اسی بینظیر بھٹو کا بیٹا کشمیر کے الیکشن میں نواز شریف کے خلاف نعرے لگا رہا تھا کہ ‘مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘۔ کبھی یہ نعرہ بینظیر بھٹو کے خلاف لگتا تھا۔ وہی کھیل اب بلاول بھٹو کھیل رہا تھا۔ اپنے اپنے وقت پر دونوں اس وقت کی ملٹری قیادت پر یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ وہ اپنے مخالف سیاستدانوں سے زیادہ محب وطن ہیں‘ اور دوسرا غدار ہے۔
    ہر دور میں اپوزیشن کے سیاستدان فوجی قیادت کو اپنی وفاداریاں ثابت کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ پھانسیاں بھی لگتے ہیں، قتل بھی ہوتے ہیں‘ دہشت گردی کے الزام میں عمر قید کی سزا بھی پاتے ہیں اور جلاوطنی بھی بھگتتے ہیں۔

    سویلین اپنے تئیں کوشش بہت کرتے ہیں‘ پھر بھی کہیں نہ کہیں پھنس جاتے ہیں۔ نواز شریف کچھ زیادہ ہی پھنس جاتے ہیں‘ اگرچہ ماضی میں وہ ہر وقت زرداری اور گیلانی کو طعنے دیتے رہتے تھے کہ وہ ملٹری کے نیچے لگے ہوئے ہیں اور ان کی سکیورٹی اور فارن پالیسی آزاد نہیں ہے‘ اور یہ کہ وہ اگر وزیر اعظم ہوتے تو ان معاملات کو خود چلاتے۔ ایک دفعہ نواز شریف صاحب صدر زرداری سے ملنے ایوان صدر گئے تو باتوں باتوں میں حسبِ عادت زرداری صاحب نے کچھ بڑھکیں ماریں۔ یہ دعویٰ کیا کہ سب کچھ انڈر کنٹرول ہے۔ اس پر نواز شریف نے کہا: جرنیلوں پر زیادہ بھروسہ نہ کرنا۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے نواز شریف صاحب نے ایک واقعہ بھی سنایا تھا‘ جو بعد میں مجھے اس ملاقات کے شرکا نے سنایا۔ نواز شریف صاحب کے بقول‘ ان کے دوسرے دورِ حکومت میں ایک دفعہ ایک اہم وزارت کے سیکرٹری ایک فائل ان کے پاس لائے‘ جو اس وقت کے ایک سرونگ کور کمانڈر کی فیصل آباد میں زمین کو کمرشل بنانے کے حوالے سے تھی۔ نواز شریف ہچکچاہٹ کا شکار ہوئے تو سیکرٹری صاحب بولے: سر آپ کو پتہ ہے کبھی کوئی کام آ جاتا ہے۔ یہ سن کر وزیر اعظم فوراً قائل ہو گئے اور وہ فائل کلیئر کر دی‘ جس سے اس جنرل کو بیٹھے بٹھائے کروڑں روپے کا فائدہ ہوا۔ جب بارہ اکتوبر کی بغاوت ہوئی تو وزیر اعظم کو اسی جنرل نے گرفتار کیا جس کی فائل انہوں نے کلیئر کی تھی۔ نواز شریف صاحب کا کہنا تھا کہ آپ کچھ بھی کر لیں ان جرنیلوں نے کرنا وہی ہے جو ان کا اپنا ایجنڈا ہے۔

    یہ الگ کہانی ہے کہ وہی نواز شریف جو زرداری کو سمجھدار بنانے کی کوشش کر رہے تھے‘ بعد میں میمو گیٹ پر جنرل کیانی اور جنرل پاشا کی دی ہوئی لائن پر چلتے ہوئے سپریم کورٹ جا پہنچے تھے۔ اُس وقت یہ پروا بھی نہ کی گئی کہ قانون کے تقاضوں کے مطابق جب سپریم کورٹ نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے جواب طلب کیے تو یہ جوابات وزارتِ دفاع کو بھیجے جانے چاہئیں تھے‘ اور پھر وہ جوابات وزارتِ دفاع سپریم کورٹ کو بھجواتی‘ لیکن آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے حکومت کو بائی پاس کیا۔ اس پر وزیر اعظم گیلانی نے ایک چینی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ غیر قانونی عمل ہے‘ حکومت کی اجازت کے بغیر یہ جوابات داخل نہیں کرائے جا سکتے۔ اس پر جنرل کیانی سخت ناراض ہوئے اور بعد میں وزیر اعظم گیلانی کو ہی معذرت کرنا پڑی تھی۔
    اس وقت نواز شریف اور شہباز شریف صاحبان جنرل کیانی اور جنرل پاشا کے ساتھ کھڑے تھے۔ کیا نواز شریف، گیلانی اور زرداری کی مخالفت میں سب قاعدے قوانین بھول گئے تھے؟ وہ حکومتِ وقت کو غدار قرار دلوانے کے لیے سپریم کورٹ جا پہنچے تھے۔ انہوں نے اس وقت سویلین کی کوئی فکر نہیں کی تھی۔

    اس سے پہلے نواز شریف صاحب نے لندن میں بینظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تو اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اپوزیشن پارٹیاں کسی بھی سرونگ جنرل سے خفیہ ملاقات نہیں کریں گے۔ لیکن پھر ایک دن خبر نکلی کہ چوہدری نثار علی خان (اپوزیشن لیڈر) اور شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب‘ جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتیں کرتے رہے۔ دو ہزار تیرہ کے الیکشن سے پہلے ان کی بارہ خفیہ ملاقاتیں ہوئیں۔ جب بعد میں رپورٹر اعزاز سید نے یہ خبر بریک کی تو چوہدری نثار نے قومی اسمبلی میں خود اس خبر کی تصدیق کی لیکن وہ رپورٹر پر تبّرہ بھیجنا نہ بھولے۔

    اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جب یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کی گفتگو کچھ اور ہوتی ہے۔ ارشد شریف کو یاد ہو گا کہ دو ہزار سات میں جب نواز شریف لندن میں صحافیوں کو ملتے تھے تو کیا کیا بڑھکیں ماری جاتی تھیں… کیا کیا دعوے کیے جاتے تھے۔ لگتا تھا کہ بندہ بدل گیا ہے اور اگر انہیں موقع مل گیا تو وہ راتوں رات اس ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔نواز شریف صاحب جب بھی صحافیوں سے ملتے تو فخر سے فرماتے کہ انہوں نے ہمیشہ ملٹری قیادت کے ساتھ ٹکر لی‘ چاہے اس کی انہیں کتنی ہی بڑی قمیت کیوں نہ ادا کرنا پڑی ہو۔ شاید ان کا اشارہ اس بات کی طرف ہوتا تھا کہ جنرل مشرف کے ساتھ لڑائی کی وجہ جہاں کارگل کی جنگ تھی‘ وہیں ان دنوں ان کی ایک خفیہ ملاقات اس وقت کے کوئٹہ کے کور کمانڈر جنرل طارق پرویز سے بھی ہوئی تھی۔ جنرل مشرف نے چونکہ خود بھی جنرل کرامت کے مستعفی ہونے کے بعد آرمی چیف بننے سے پہلے‘ نواز شریف سے خفیہ ملاقات کی تھی‘ لہٰذا وہ جانتے تھے نواز شریف اس طرح کی خفیہ ملاقاتیں کس کام کے لیے کرتے ہیں۔ اسی لیے جنرل مشرف نے دوسرے دن ہی جنرل طارق پرویز کی چھٹی کرا دی تھی۔

    اب آتے ہیں موجودہ بحران کی طرف۔ یہ سب جانتے ہیں کہ نواز شریف صاحب کے خیالات ان ایشوز پر واضح ہیں۔ وہ اس خطے میں امن چاہتے ہیں۔ وہ ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے حامی ہیں۔ یہ کریڈٹ ان کو جاتا ہے کہ انہوں نے واجپائی صاحب کو لاہور لا کر اہم پیش رفت کی تھی‘ جب دونوں ملک کشمیر سمیت تمام ایشوز کو حل کرنے پر تیار ہو گئے تھے۔ نواز شریف صاحب کو داد دینا پڑے گی کہ جنرل مشرف کی بھارت کے ساتھ کارگل پر جنگ کو لے کر ان کی حکومت برطرف کی گئی تھی، لیکن جب وہ تیسری دفعہ وزیر اعظم بنے تو مودی صاحب کی دعوت پر نیو دہلی گئے اور ان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ مودی نے نواز شریف کے ساتھ غلط کیا‘ جب بنگلہ دیش جا کر پاکستان کو توڑنے کا کریڈٹ لیا۔ اس سے نواز شریف کمزور ہوئے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر دفعہ مودی صاحب نے نواز شریف کو اپنی باتوں یا حرکتوں سے کمزور کیا‘ اور وہ (نواز شریف) امن کی خواہش دل میں ہی لے کر رہ گئے۔ شاید بھارتی قیادت بھی جانتی ہے کہ پاکستان میں سیاستدانوں کی کوئی نہیں سنتا‘ لہٰذا فوجی حکومتوں میں بھارت کے اندر سکون رہتا ہے۔ بھارت کو علم ہے کہ سیاستدانوں کے تلوں میں تیل نہیں ہے۔

    جس اجلاس کو لے کر طوفان کھڑا ہو گیا ہے کہ اندرونی اجلاس کی کہانی کیسے باہر نکلی، اس پر بھی سیاستدان شرمندہ ہو رہے ہیں۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے۔ چار سابق سفیروں نے کھل کر لکھا ہے کہ ہمارے بارے میں دنیا میں غلط یا درست تاثر پیدا ہو گیا ہے کہ ہمارے نان سٹیٹ ایکٹر بھارت اور افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اسے کیسے دور کیا جائے؟ ہم کب تک انکار کی حالت میں رہیں گے؟ رانا افضل پارلیمانی سیکرٹری نے قائمہ کمیٹی میں جو کہانی سنائی وہ خوفناک ہے کہ فرانس کے دورے میں انہیں اپنے نان سٹیٹ ایکٹرز کے بارے میں کیا کیا کچھ سننا پڑ گیا… اور یہ کہ بنگلہ دیش، سری لنکا، افغانستان کے علاوہ روس، امریکہ اور جرمنی‘ سب بھارت کے موقف کو وزن دے رہے ہیں۔ وہ بھارت کے سرجیکل سٹرائیک کے حق کو مان رہے ہیں۔

    کل رات میں جنرل مشرف کا ایک انٹرویو سن رہا تھا‘ جس میں انہوں نے فرمایا کہ مسعود اظہر کی جیش محمد ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور اسے قتل کرانے کی کوشش اسی تنظیم نے کی تھی۔ اسی گروپ کے لیڈر مسعود اظہر کے خلاف اقوام متحدہ میں کارروائی کو چین نے پاکستان کے کہنے پر ویٹو کر دیا تھا۔ ایسا خطرناک کھیل ہم کیوں کھیل رہے ہیں؟
    حب الوطنی ایک حد کے اندر اچھی لگتی ہے‘ ورنہ جرمن نازی بھی حب الوطنی کے نام پر یورپ کو دوسری جنگ عظیم میں گھسیٹ لے گئے تھے جس میں چھ کروڑ انسان مارے گئے۔
    جہاں تک اس اجلاس کی بات ہے‘ جہاں سے یہ خبر نکلی ہے‘ جس میں پہلی دفعہ کھل کر سیاسی قیادت نے ایک سٹینڈ لیا تھا اور اس کے بعد جس طرح حکومت مکر گئی ہے‘ اس سے مجھے اردو غزل کے غالب کے بعد بڑے شاعر ظفر اقبال کا شعر یاد آ گیا ہے:
    جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر
    آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے!

  • سول ملٹری تعلقات اور سقراط-عبدالودود قریشی

    سول ملٹری تعلقات اور سقراط-عبدالودود قریشی

    abdul-wadood-qurashi-312x360

    اقتدار کے ایوانوں میں حادثاتی طور پر داخل ہونے والوں کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ وہ موقع ملتے ہی چغلی کھائیں سقراط کو جب اس کے شاگرد نے یہ بتانا چاہا کہ وہ بازار سے یہ باتیں سن کر آیا ہے کہ اس کا نوکر اس کے خلاف گفتگو کرتا ہے تو شاگرد نے سقراط کو کہا کہ میں آپ کے نوکر کے بارے میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں تو سقراط نے اسے روک دیا اور کہا کہ جو بات آپ کرنا چاہتے ہیں وہ تین شرائط پر پوری اترتی ہے تو مجھے بتاﺅ ورنہ نہ بتانا، ”اول “یہ کہ جو بات تم بتانا چاہتے ہو وہ سو فیصد درست اور سچ ہے جس کے تم براہ راست عینی شاہد اور سامع ہو ”دوم “یہ کہ جو بات تم بتانا چاہتے ہو وہ اچھی ہے اور ”تیسری بات “کہ وہ نہ تو چغلی ہے اور نہ ہی میرے فائدے اور کسی کے نقصان میں ہے۔ شاگرد نے کہا یہ بات میں نے خود نہیں سنی اور سچی ہونے کا نہ میں گواہ نہ عینی شاہد ہوں دوم یہ بات اچھی بھی نہیں ہے اور تیسری بات یہ کہ یہ آپ کے فائدے کی بات نہیں اس سے کسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس پر سقراط نے کہا مجھے وہ بات مت بتاﺅ جو ان شرائط پر پوری نہیں اترتی اور خود بھی اسی پر عمل کرنا۔

    اگر ہمارے حکمران سقراط کے اس فارمولے پر عمل کریں یا اگر مجبور ہوں تو آنے والی بات کو ان شرائط پر پرکھ لیں تو ان کی ذات کے علاوہ قوم کا بھی بھلا ہو گا۔ ہمارا ایک دوست اس طرح کی بات ایک چینل پر کر کے وزارت کا قلمدان کھو بیٹھا یہ الگ بات کہ وزیراعظم نے اس سے وزیر والی مراعات واپس نہیں لیں، حال ہی میں ایک اخبار نے اس طرح کی خبر شائع کرائی جیسے گلی محلے کے بچے بنٹے کھیلتے لڑ پڑے اور قریب تھلے پر بیٹھے شخص نے جو عمر رسیدہ اور معتبر ہے نے یہ بات اسے بتا دی اور اس نے تمام جملے شائع کر دیئے، حکمران جماعت میں حادثاتی طور پر آنے والے لوگ حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے بڑی سے بڑی چغلی کھانے کے لیے دور کی کوڑی لاتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اس سے نہ تو سٹیبلشمنٹ کو کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ ہی حکمرانوں کو مگر اس کے برے اثرات قوم پر مرتب ہوتے ہیں اور نچلی سطح پر دونوں اطراف مورال کم ہوتا ہے اور دشمن خوش ہوتا ہے اس کا مورال بڑھتا ہے کہ فوج اور حکومت میں تناﺅ بڑھ رہا ہے، سیاسی ورکر سوچتا ہے کہ نہ جانے کب حکمرانوں کی شامت آ جائے اور سیاست دانوں کے بیانات قوم کے تقسیم ہونے کا تاثر دیتے ہیں، دانشمند حکمران اپنے ہاں ایسی صورت حال پیدا ہی نہیں ہونے دیتے اور اس طرح کے تاثر کو دو قدم آگے بڑھ کر مسترد کر کے قیادت اپنے ہاتھ لے لیتے ہیں۔ بیورو کریسی بھی اپنا کام کرنے کی بجائے اپنا ملبہ دوسروں پر ڈال کر سرخرو ہونا چاہتی ہے۔ دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ ناکام نہیں ہوئے جس ملک میں جاتے ہیں ہم سے یہ یہ سوال پوچھے جاتے ہیں ہمارا وفد فرانس گیا تو یہ سوال پوچھے گئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض عیاشی کی خاطر باہر گئے انہوں نے اپنا کام مکمل نہیںکیا ،اپنی بیورو کریسی سے ایک سوال تو کیا جا سکتا ہے کہ ملک سے حافظ سعید ”ایٹمی پروگرام“، ”حقانی نیٹ ورک “اور دو قومی نظریہ کو ختم کر دیا جائے تو بھارت کشمیر کو آزاد کر دے گا اور فرانس ، امریکہ، برطانیہ، پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

    مندرجہ بالا عوامل فلسطین میں بھی ہیں؟، لیبیا میں بھی تھے؟ ، عراق میں بھی تھے؟، کوریا میں بھی ہیں ؟، دفتر خارجہ کے لوگ یہ کیوں فرض کر لیتے ہیں کہ وہ امریکی، یورپی اور برطانوی سفارت کار ہیں، گو یہ مراعات ان سے زیادہ وصول کرتے ہیں۔ دفتر خارجہ کی جانب سے گزشتہ دنوں دی جانے والی تمام تر بریفنگ نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ فلاں ملک یہ کہتا، فلاں ملک یہ کہتا ہے وہ اس لیے کہتے ہیں کہ بھارت کے دفتر خارجہ نے وہاں کام کیا ہے آپ نے اپنے بچوں کو گلوکاری سکھا کر عدنان سمیع بنایا جس نے بھارت کی شہریت لے لی، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی امور خزانہ میں ہمار ے رپورٹر علی شیر موجود تھے نے مجھے بتایا کہ اویس لغاری کی صدارت میں پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا افضل نے سیکرٹری خارجہ سے سوال کیا کہ میں 25 سال سے سیاست کر رہا ہوں حافظ سعید کو نہیں جانتا مگر دنیا جانتی ہے وہ کونسے انڈے دیتا ہے اور پھر بھارت میں نہیں پاکستان کی پارلیمانی کمیٹی میں یہ بات کی گئی کہ حکومت ان تمام وجوہات کا خاتمہ کرے جن کی وجہ سے بھارت مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے ہمارا کیس خراب کرتا ہے گویا ملک سے فوج ختم کر دی جائے، ایٹمی پروگرام ختم کر دیا جائے ، میزائل پروگرام ختم کر دیا جائے، دو قومی نظریہ ختم کر دیا جائے، کشمیر کی بات کرنے والے افراد کو مار دیا جائے ، گائے کی قربانی بند کر دی جائے

    کیا اس کے بعد یہ پارلیمانی سیکرٹری گارنٹی دے سکتے ہیں کہ بھارتی ان کے خاندان پر گائے کا پیشاب پینے کی شرط نہیں لگائیں گے، اجتماعی طور پر جرنیلوں کے خلاف ایک وزیر کا بیان سوشل میڈیا پر کس نے چڑھایا اور وزیراعظم ہاﺅس سے پی ٹی وی کی کرنٹ افیئرکی ریکارڈنگ کس نے لیک کی۔ انگریزی اخبار میں صفحہ اول پر شائع ہونے والی خبر کس نے لیک کی یا یہ مکمل جھوٹ تھی تو اس رپورٹر کا ایکری ڈیشن کیوں منسوخ نہیں کیا گیا، روزانہ دس سے پندرہ عدد نوٹس مجھے روزانہ وصول ہوتے ہیں جن میں کسی بیوہ کی سچی اپیل چھاپنے ، کسی غریب سے زیادتی کا ذکر ہوتا ہے مگر نوٹس سورج کی پہلی کرن کے ساتھ میری میز پر ہوتا ہے اس حوالے سے کیا کیا گیا یہی کہ اس اخبار کے اشتہارات کو بہتر کر دیا گیا اور اس کے ٹی وی کو بھی نوازا گیا یہ ساری واردات حکمرانوں کے خلاف نچلے طبقے کے لوگ ڈال رہے ہیں جو لوگ عمران خان کا سیاسی سطح پر مقابلہ نہیں کرنا چاہتے اور کر بھی نہیں سکے وہ قبل از وقت یہ ملبہ بنا کر کسی اور پر ڈالنا چاہتے ہیں اگر کوئی ملک میں حکومت کو ختم کرنا چاہے تو ان کے راستے میں کون سی بڑی دیوار حائل ہے یا کونسا گیٹ ان کی دسترس سے باہر ہے ، اصل بات اس سازش تک پہنچنے کی ہے جو کسی اور کو فائدہ پہنچانے اور ملک کے دشمنوں کو ناداستہ تقویت پہچانے اور اپنی ذمہ داریوں سے فرار کے لیے بہانے تراشنے کے لیے تیار کی جا رہی ہے جو ملک دشمنوں کا ایجنڈا ہے، کبھی حکومت اور فوج میں اختلاف اور کبھی سی پیک کے خلاف نعرے کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔

  • روشنی سے ڈرنے والے-ہارون الرشید

    روشنی سے ڈرنے والے-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    کوئی تعجب نہیں کہ ابھی سے حکمت یار کے خلاف پروپیگنڈے کا آغاز ہو گیا ہے۔ روشنی سے ڈرنے والے‘ اجالے سے خوف زدہ لوگ!
    پاک افغان تعلقات کی خرابی میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔ ایک یہ ہے کہ اوّل دن سے‘ بھارت نے حکمران طبقات اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ صدیوں میں ڈھلنے والا‘ افغان مزاج یہ ہے کہ متحارب قوتوں کی کشمکش سے فائدہ اٹھایا جائے۔ افغانوں کا المیہ ہے کہ ان کے وسائل محدود ہیں‘ پھر جو اور جس قدر ہیں‘ انہیں ترقی دینے کی کبھی کوشش نہ کی گئی۔

    بقا کی انسانی جبلّت بہت طاقتور ہے۔ مدتوں تک دو دو عالمی طاقتوں برطانیہ اور روس کی کشمکش میں‘ وہ راستے تلاش کرتے رہے۔ پھر امریکہ اور روس کی سرد جنگ میں۔ صوبہ سرحد کے عبدالغفار خان اور بلوچستان کے عبدالصمد اچکزئی‘ کانگریس سے گہرے مراسم رکھتے تھے‘ بالترتیب دونوں کو سرحدی گاندھی اور بلوچ گاندھی کہا جاتا۔ سوویت یونین کے زیرِ اثر ”ترقی پسند‘‘ قبائلی رہنما بھی‘ خیر بخش مری جن میں نمایاں تھے۔ اپنے قبائل کو سوچ سمجھ کر اور خالص ذاتی اغراض کی بنا پر انہوں نے پسماندہ رکھا‘ سیاست میں ان کا نعرہ قوم پرستی اور سوشلزم تھا۔

    تحریک پاکستان اور قائد اعظمؒ کی قیادت پر مسلم برصغیر‘ یکسو ہو چکا تو کمیونسٹوں نے‘ جن کے تار ماسکو سے ہلائے جاتے تھے‘ پاکستان کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ مقصد یہ تھا کہ نئے وطن میں پر پرزے نکال سکیں۔ دل سے مگر پاکستان کو کبھی تسلیم نہ کیا۔ پاکستان میں قومیتوں کا فروغ‘ روس کی مستقل حکمت عملی تھی۔ ذہنی تطہیر سے گزرے ہوئے لوگ‘ جو اپنی آنکھ سے زندگی کو دیکھنے کا یارا نہ رکھتے تھے۔ معاشرے کا ناراض عنصر۔ نفسیاتی سہارے کے لیے‘ ایسے لوگوں کو ہمیشہ کسی نظریے کی تلاش ہوتی ہے۔ اس سوال پر بہت کم غور کیا گیا ہے کہ سوویت یونین بکھر چکا تو ترقی پسندوں کی اکثریت ماسکو کی گود سے اتر کر واشنگٹن کی گود میں کیوں بیٹھ گئی؟ بہت بڑی تعداد این جی اوز کی وظیفہ خوار ہو کر‘ اپنے وطن کے خلاف وعدہ معاف گواہ کیوں بن گئی۔ اب بھی الحاد کی تبلیغ کیوں کرتے اور پاکستان کے جواز کو چیلنج کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب اسی موضوع پر غور کرنے میں پوشیدہ ہے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے البتہ یہ خیال کوندے کی طرح لپکا کہ ناراض بچوں کو مسترد کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ سمجھانا بجھانا چاہیے۔ ان سے بات کرنی چاہیے۔

    اب تو مصروفیت نے آ لیا اور تنہائی کی آرزو بڑھ گئی ہے۔ ایک زمانے میں بعض معروف ترقی پسندوں سے رابطہ مسلسل تھا۔ جناب حبیب جالبؔ اور حضرت ظہیر کاشمیری سے روزانہ ملاقات ہوا کرتی۔ بے پناہ پذیرائی اپنی جگہ‘ جالبؔ کو پڑھنے لکھنے سے اور سنجیدہ گفتگو سے کم ہی تعلق تھا۔ مطالعے کے خوگر‘ ظہیر کاشمیری آخری برسوں میں سوشلزم سے اکتا چکے تھے۔ ایک بار بہت طویل گفتگو ہوئی تو اچانک ایسی بات انہوں نے کہی کہ میں ششدر رہ گیا۔ فرمایا: اگر ان (سوشلسٹوں) کی پوری روداد میں بیان کر دوں تو لوگ ان کی بوٹیاں نوچ لیں۔ پھر کہا: آج مجھے احساس ہوتا ہے کہ دشمن کے مورچے میں بیٹھ کر اپنے لوگوں پر میں گولی چلاتا رہا۔

    اردو شاعری کے مطالعے میں‘ وہ میرے مکرّم استاد تھے۔ بعض دوسرے اخبار نویس کے برعکس جو بے تکلفی روا رکھتے‘ میں ان کے سامنے مؤدب رہتا۔ بایں ہمہ‘ نہایت ادب سے گزارش کی: آپ اپنے مورچے میں واپس کیوں نہیں آ جاتے؟ فرمایا: تم ایک سپاہی نہیں‘ تم اس بات کو نہیں پا سکتے کہ سپاہی اپنا مورچہ ترک نہیں کیا کرتا۔ جواب میں یہ خاکسار کیا عرض کرتا۔

    جناب عبداللہ ملک سے البتہ کچھ بے تکلفی تھی‘ ان کی عنایت کے طفیل کہ ایک سادہ اور بے ساختہ سے آدمی تھے۔ زعم اور عُجب انہیں چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ سرما کی ایک شام مجھ سے اچانک کہا: جیکٹ تو اس طرح ڈانٹ رکھی ہے‘ جیسے حکمت یار نے دی ہو۔ عرض کیا: ملک صاحب! انہی نے دی ہے۔ کہا: ہم لوگوں کی تُم عیب جوئی کرتے ہو‘ تم لوگ بھی کسی سے کم نہیں۔ نذیر ناجی اور کچھ دوسرے نمایاں لوگ موجود تھے۔ ماحول کچھ ایسا سنجیدہ نہ تھا۔ میں نے جسارت کی: ملک صاحب‘ ایمان کی کہیے‘ کیا آپ لوگ فقط ایک آدھ جیکٹ پہ اکتفا فرماتے ہیں؟ بولے: ہرگز نہیں‘ ہر ماہ دو کریٹ اور ہر چند برس کے بعد‘ سوویت یونین کا سرکاری دورہ۔ ایسے ہی ایک دورے کی یادوں پر مشتمل فیض احمد فیض کی کتاب ”مہ و سالِ آشنائی‘‘ پڑھیے تو آپ دنگ رہ جائیں۔ ایسا عظیم دانشور اور شاعر‘ ایسی سطحی کتاب اور ایسا خوشامدانہ لہجہ! کہیں بھی اور کیسی بھی ہو‘ مرعوبیت ایک برباد کر دینے والی چیز ہے۔ سوویت یونین سے یہ لوگ حد درجہ مرعوب تھے‘ اب امریکہ اور بھارت سے۔ کچھ لوگ اپنے قدموں پہ کبھی کھڑے نہیں ہوتے‘ عمر بھر انہیں سہاروں کی ضرورت رہتی ہے۔

    آج حکمت یار کی بہت یاد آئی۔ ایک گہرا ذاتی تعلق‘ ان سے تھا اپنے حصے کی غلطیاں‘ ان سے بھی سرزد ہوئیں… اور یہ کہ بڑے آدمیوں کی غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ اپنے وطن کی آزادی کے لیے بہرحال انہوں نے بڑی مخلصانہ جدوجہد کی۔ ساری عمر دکھ جھیلے اور اپنی رائے پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے وہ لاڈلے تھے۔ جی نہیں‘ ان کی جماعت سب سے بڑی تھی۔ میں گواہ ہوں اور تفصیلات بیان کر سکتا ہوں کہ کئی اہم مواقع پر جنرل محمد ضیاء الحق کی بات ماننے سے انہوں نے انکار کیا۔ مثلاً 1983ء میں جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر افغان مجاہدین کے نمائندے کی حیثیت سے وہ نیو یارک میں تھے‘ ریکارڈ شدہ امریکی تاریخ کے سب سے مقبول صدر رونالڈ ریگن ان سے ملاقات کا ارادہ رکھتے تھے۔ حکمت یار سے پوچھے بغیر‘ فقط جنرل محمد ضیاء الحق کے مشورے سے‘ ملاقات کے وقت اور تاریخ کا اعلان کر دیا گیا۔ حکمت یار نے انکار کر دیا۔ حکومتِ پاکستان‘ امریکی انتظامیہ‘ حتیٰ کہ بعض عرب سفیروں کی طرف سے اصرار کے باوجود انکار پر وہ قائم رہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق برہم تھے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمن سے انہوں نے کہا: انہیں بتا دیجئے۔ اگر ہم انہیں بنا سکتے ہیں تو تباہ بھی کر سکتے ہیں۔ جنرل اختر نے، جنہیں عظیم حکمت کار (Super Strategist) کہا جاتا تھا، براہ راست بات کرنے کی بجائے، اپنے نائب بریگیڈیئر یوسف کو یہ فرض سونپا‘ شب و روز جو ان کے ساتھ رابطے میں رہا کرتے۔ بریگیڈیئر نے‘ جو سر تا پا ایک سپاہی اور نہایت صاف ذہن کا آدمی تھا‘ جنرل اختر کے انداز فکر کی تائید کی اور یہ کہا: حکمت یار، ایسا آدمی ہے کہ جہاں وہ کھڑا ہو جائے، وہاں گھاس نہیں اُگ سکتی۔ جنرل ضیاء الحق نے بعد میں ادراک کر لیا۔ حکمت یار لوٹ کر آئے تو نقصان پہنچانے اور حریف سمجھنے کے بجائے، اس موضوع پر بات کرنے سے بھی گریز کیا۔

    حکمت یار کی حزبِ اسلامی آج بھی زندہ ہے؛ اگرچہ تین دھڑوں میں بٹی ہے۔ وہ حیرت انگیز تحرّک اور صلاحیت کے آدمی ہیں۔ اشرف غنی کی حکومت سے اگر ان کا سمجھوتہ ہو گیا، جس کی امید کی جا رہی ہے‘ تو افغانستان کی سیاست پر اس کے نہایت گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ سب سے بڑھ کر‘ یہ موقع ملا تو پاکستان اور افغانستان کے بگڑے مراسم کو بہتر بنانے میں وہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہر حال میں وہ پُرامید رہتے ہیں۔ بدترین دبائو برداشت کر سکتے ہیں۔ غور و فکر کے عادی ہیں۔ دلیل کو وہ تھامے رکھتے ہیں اور دوسروں کو قائل کر سکتے ہیں۔ حزب اسلامی کے دھڑ وںکو متحد کرکے، وہ ایک قومی جماعت تشکیل دے سکتے ہیں۔ مقابلے میں دوسری پارٹیاں اُبھر سکتی ہیں اور افغان سیاست کے نئے عہد کا آغاز ہو سکتا ہے۔ وہ واحد شخص ہیں، پشتونوں میں پذیرائی کے علاوہ، کسی حد تک جو شمال کے لیے بھی قابل قبول ہو سکتے ہیں۔ کس طرح آج تڑپ کر دل چاہا کہ کاش اس آدمی سے ملاقات ہو سکے۔

    کوئی تعجب نہیں کہ ابھی سے حکمت یار کے خلاف پروپیگنڈے کا آغاز ہو گیا ہے۔ روشنی سے ڈرنے والے‘ اجالے سے خوف زدہ لوگ!