Tag: تحقیق

  • مثبت سوچ آپ کی ترقی میں رکاوٹ ہے – رینوکا ریاسام

    مثبت سوچ آپ کی ترقی میں رکاوٹ ہے – رینوکا ریاسام

    رینوکا پندرہ برس قبل جب کارجو (entrepreneur) مائیکل سٹاشولم نے اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر کاروبار شروع کیا تو ان کے دوست نے انہیں سہانے مستقبل اور بے شمار کامیابیوں کے خواب دکھائے۔ سٹاشولم نے بھی اپنے دوست کی باتوں کا یقین کرلیا اور بہت برجوش ہوگئے جیسے کہ ان کی باتوں سے مستقبل واقعی بہت حسین ہونے جارہا ہو۔ آخر مثبت سوچ کامیابی کی طرف پہلا قدم ہے۔ نہیں؟
    ”مثبت سوچ بہت سارے کارجووں کے ڈی این اے میں شامل ہوتی ہے.“
    یہ کہنا ہے سٹاشولم کا جو کوپن ہیگن میں مقیم ہیں۔ انہوں نے جہازرانی کی کمپنی Mearsk سے آغاز کیا تھا اور پھر کئی بڑی کمپنیوں کے مشیر کے طور پر کام کیا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ:
    ”اگر آپ کی سوچ مثبت نہیں ہے تو آپ کبھی کاروبار شروع ہی نہیں کرسکتے۔“
    تاہم جب ان کے کاروبار پر برا وقت آیا تو انہیں ایک اور سبق سیکھنے کو ملا۔ وہ یہ کہ مثبت سوچ کے کچھ تاریک پہلو بھی ہیں۔ اب وہ کہتے ہیں کہ:
    ”محض مثبت سوچ اور بےفکرا پن کافی نہیں ہیں۔ آدمی کو تھوڑا حقیقت پسند بھی ہونا چاہیے“۔

    1936 میں نپولین ہل کی کتاب ”سوچیے اور امیر ہوجائیے“ کی اشاعت کے بعد سے مثبت سوچ کو کاروباری لوگوں کے ہاں ایک رہنما اصول کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ دو عشروں بعد نورمنٹ ونسنٹ کی ”مثبت سوچ کی طاقت“ شائع ہوئی جو اتنی مقبول ہوئی کہ دنیا بھر میں اس کے دو کروڑ سے زائد نسخے فروخت ہوئے۔ جبکہ حال ہی میں رہونڈا بائرن نے اپنی کتاب اور ڈاکیومنیڑی ”راز“ کے ذریعے مثبت سوچ کے ذریعے کامیابی کے پیغام سے کاروباری لوگوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو بھی مسحور کیا ہے۔
    مثبت سوچ کے متعلق ان کتابوں کا پیغام یہ ہے کہ منفی سوچیں کامیابی کے راستے کی رکاوٹ ہیں۔ مگر تازہ تحقیقات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مثبت سوچ کے کچھ محدودات بلکہ اپنے نقصانات بھی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ مثبت سوچ آپ کی کامیابی میں رکاوٹ بن رہی ہو!

    ”مثبت سوچ پر نظرثانی“ نامی کتاب کی مصنفہ گبیریئلے اوٹنگن جو نیویارک یونیورسٹی میں نفسیات کی پروفیسر ہیں، کہتی ہیں کہ جب انہوں نے مثبت سوچ پر تحقیق شروع کی تو انہیں معلوم ہوا کہ جب لوگ مستقبل کے متعلق خوش کن تخیلات جیسے کہ اپنی پسندیدہ نوکری یا دولت کے حصول میں مگن ہوتے ہیں تو ان کی توانائی (جس کا پیمانہ انہوں نے فشار خون کو بنایا) کم ہوجاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ:
    ”مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اپنی خواہشات کے حصول کے لیے درکار توانائی نہیں بڑھاتے“۔
    ان کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مستقبل کے متعلق خوش کن تخیلات پالنے والے لوگ اکثر اپنے اہداف کے واقعی حصول کے لیے درکار کوشش نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر انہیں اپنی تحقیق کے دوران پتا چلا کہ دو سال کے عرصے کے بعد یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے ایسے طلبہ جنہوں نے اپنے مستقبل کے متعلق خوش کن تصورات کیے تھے کی آمدنی اور ان کو ہونے والی ملازمت کی پیشکشیں ایسے طلبہ کی نسبت کم تھیں جو اپنے مستقبل کے متعلق زیادہ پریشان اور شکوک و شبہات میں مبتلا تھے۔ مزید تحقیق پر معلوم ہوا کہ دراصل ان طلبہ نے نوکری کے لیے درخواستیں ہی کم دی تھیں۔ پروفیسر اوٹنگن کہتی ہیں کہ ایسے لوگ مستقبل کے متعلق خوش کن تصورات کرتے ہیں اور انہیں یوں لگنا شروع ہوجاتا ہے کہ وہ یہ سب کچھ حاصل کرچکے ہیں۔ یوں ان کے اندر کچھ کرنے کے لیے درکار تحریک ختم ہوجاتی ہے۔

    نمیتا شاہ جو لندن میں کیریئر سائیکالوجسٹس نامی ایک گروپ کی ڈائریکٹر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اکثر ایسے لوگ آتے ہیں جو اس پر پریشان ہوتے ہیں کہ وہ اپنی خواہشات پوری نہیں کر پا رہے۔ پھر وہ اس احساسِ جرم میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ان کی سوچ منفی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ اپنی خواہشات پوری نہ کرپانے کی ایک وجہ ان کی یہ منفی سوچیں بھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ:
    ”مستقبل کے متعلق خوش کن خیالات بھی خوراک میں فوری نوعیت کے ٹوٹکوں کے استعمال جیسے ہیں۔ ان سے تھوڑی دیر کے لیے تو جوش پیدا ہوتا ہے لیکن آگے چل کر یہ تخیلات لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہی کرتے ہیں۔“

    تو کیا ہمیں زیادہ پریشان ہونا اور بدتر مستقبل کے بارے میں زیادہ سوچنا چاہیے؟ یہ بہت مشکل ہے۔
    ”امیدپرستی کی طرف غیر متوازن میلان“ کی مصنفہ اور لندن میں انسانی ذہن پر جذبات کا مطالعہ کرنے والے Affective Brain Lab نامی گروپ کی ڈائریکٹر طالی شیروت کے مطابق امید پرستی انسانی نفسیات میں پیوست ہے۔ جذبات پر ناخوشگوار واقعات کے مطالعے کے دوران ان پر منکشف ہوا کہ انسان اپنی ذہنی ساخت کے لحاظ سے ہی مثبت سوچنے پر مجبو رہے۔ اپنی تحقیق کے آغاز میں انہوں نے لوگوں سے تعلق ختم ہوجانے یا ملازمت چلی جانے جیسے ناخوشگوار اور منفی منظرناموں کے بارے میں سوچنے کو کہا تو انہیں یہ دلچسپ بات معلوم ہوئی کہ لوگ خودکارانہ انداز میں منفی منظرناموں کو مثبت منظر ناموں سے بدل دیتے ہیں۔ مثلاً لوگوں نے ایسے منظر نامے تخلیق کیے کہ ان کا کسی تعلق ٹوٹا تو انہیں اس سے بہتر رفیق مل گیا۔ طالی شیروت کہتی ہیں کہ اس طرح ان کے اصل تجربے کا تو ستیاناس ہوگیا لیکن انہیں یہ احساس ہوا کہ لوگ امید پرستی کی طرف غیر متوازن جھکاؤ رکھتے ہیں۔
    ”لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ مستقبل ماضی سے بہتر ہوگا“۔
    امید پرستی کی طرف یہ غیر متوازن جھکاؤ جو ان کی تحقیق کے مطابق ہر ملک اور کلچر کی تقریباً اسی فیصد آبادی میں پایا جاتا ہے، شیروت کے خیال میں انسانوں کو تحریک دلانے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ تحقیقات یہ بھی بتاتی ہیں کہ امید پرست لمبی زندگی پاتے ہیں اور زیادہ صحت مند رہتے ہیں۔ ان کے مطابق مثبت خیالات خود کو درست ثابت کرنے کا موجب بھی بن سکتے ہیں۔ مثلاً جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ لمبے عرصے تک جیئیں گے وہ صحت بخش خوراک استعمال کرنا اور ورزش کرنا شروع کر سکتے ہیں۔ اسی طرح امید پرستی انسانوں کو (بہتر مستقبل کی امید میں) مشکل حالات سہنے میں بھی مدد دیتی ہے۔

    لیکن یہی امید پرستی انسانوں کو خطرات کو نظرانداز کرنے پر بھی مائل کرتی ہے۔ مثال کے طور پر امید پرستی کی وجہ سے آپ کو کسی منصوبے پر اٹھنے والی لاگت اور لگنے والے وقت کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام ہوسکتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ حد سے بڑھی ہوئی امید پرستی خطرناک ہے اور یہ آپ کے راستے کی رکاوٹ بن سکتی ہے۔

    لیکن اگر ہم فطری طور پر مثبت سوچنے کے ہی عادی ہیں تو پھر آنکھوں پر پڑے امید پرستی کے پردے ہٹانے کے لیے کچھ محنت درکار ہوگی۔
    اپنی دو عشروں پر محیط تحقیق کی روشنی میں پروفیسر اونٹنگن نے ایک کلیہ وضع کیا ہے جو خواہش، نتیجے، رکاوٹ اور منصوبے کے اجزاء پر مشتمل ہے۔ یہ ان کی ویب سائٹ اور سمارٹ فون ایپ کی صورت میں دستیاب ہے اور اس میں ایسی مشقیں ہیں جو مثبت سوچ کے ساتھ ساتھ مشکلات اور ممکنہ ناخوشگوار پہلوؤں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروا کر آپ کو اپنے قلیل اور طویل مدتی اہداف کے حصول کے لیے کارآمد لائحہ عمل مرتب کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
    مثال کے طور پر اگر آپ ایک کمپنی شروع کرنا چاہتے ہیں لیکن پھر آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ تو نہ تو پیسے مانگ سکتے ہیں اور نہ ہی بہت دیر تک کام کرسکتے ہیں تو پھر آپ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کچھ کرسکتے ہیں، جیسے کہ اپنی ٹیم میں سیلزمین کو شامل کرسکتے ہیں اور پہلے سے طے شدہ اوقات میں ہی کام کرسکتے ہیں۔ یا پھر یہ ہوسکتا ہے کہ ان مشکلات کا اندازہ کرنے کے بعد آپ کام شروع کرکے نقصان اٹھانے سے پہلے ہی فیصلہ کرلیں کہ آپ کو یہ کرنا ہی نہیں چاہیے۔
    پروفیسر اونٹینگن کہتی ہیں کہ اس طرح آپ اس طرح کے اہداف کو بغیر کسی افسوس کے ترک کر سکتے ہیں کہ میں نے اس پر غور کیا ہے لیکن یہ فی الحال میری زندگی میں فٹ نہیں بیٹھتا۔

    جب سٹاشولم نے چند سال قبل اپنی ماحول دوست پنسلیں بنانے والی کمپنی شروع کی تو انہوں نے اپنی پچھلی ناکامیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے تمام معاہدات لکھ کر بدترین حالات کے لیے منصوبہ بندی کی۔ اب ان کی کمپنی ایک ماہ میں ساٹھ مختلف ملکوں میں کوئی ساڑھے چار لاکھ پنسلیں بیچتی ہے۔ اتنی کامیابی پر خود سٹاشولم بھی حیران ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ:

    عاطف حسین ”ہر کوئی کاروبار میں مثبت سوچ اپنانے کی بات کرتا ہے لیکن مثبت سوچ کا الٹ منفی سوچ نہیں ہے۔ لیکن آدمی کو حقیقت پسند ہونا چاہیے کہ وہ کیا حاصل کرسکتا ہے اور کیا نہیں۔“

    (یہ مضمون Renuka Rayasam کے مضمون Positive Thinking Can Make You Too Lazy to Meet Your Goals کا ترجمہ ہے جو بی بی سی ڈاٹ کام پر شائع ہوا. عاطف حسین صاحب نے اسے اردو کے قالب میں ڈھال کر دلیل کو فراہم کیا ہے.)

  • مولانا الیاس گھمن کا معاملہ – معظم معین

    مولانا الیاس گھمن کا معاملہ – معظم معین

    معظم معین ا مولانا الیاس گھمن سے متعلق سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا مضمون یکطرفہ الزامات اور بہتان تراشی کی طویل داستان معلوم ہوتا ہے۔ لکھنے والا وہ جو ان میں سے کسی واقعے کا بھی عینی شاہد نہ تھا۔ ایک خاتون کے حوالے سے ایسے ایسے الزامات اور واقعات بے دھڑک لکھے اور شائع ہوئے کہ کانوں سے دھواں نکلتا محسوس ہوتا تھا۔ کسی عام آدمی کے بارے میں بھی ایسا سوچنا محال ہے کجا یہ کہ منبر و محراب کے وارث کے بارے میں ایسے ہوش ربا انکشاف کیے جائیں۔ مولانا الیاس گھمن سے ہزار اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر یوں کردار شکنی اور کیچڑ اچھالنے کا کلچر ہرگز قابل قبول نہیں۔

    ایک سے زیادہ ویب سائٹس نے یہ مضمون شائع کیا، کئی صحافیوں نے ایسے واقعات پہلے سے معلوم ہونے کا دعوی کیا، کچھ اہل مذہب و مسلک نے بھی اس لے میں لے ملائی، ہمیں تو اس دعوے پر ہی حیرت ہوئی کہ لکھنے والے کو تو نہیں جانتے مگر واقعات سب کے علم میں ہیں۔گویا الزامات کی تصدیق کی جا رہی ہے۔ اگر آپ یہ سب معلومات دستیاب تھیں تو ان میں سے خود کسی نے کیوں نہ لکھا اور ایک نامعلوم مفتی کی تحریر کا انتظار کیوں کیا جاتا رہا۔ اگر خود لکھنا نامناسب تھا تو نامعلوم فرد کے نام سے شائع ہونا اور پھر اسے پھیلانا کیونکر مناسب ہو سکتا ہے۔ محض علم میں ہونے اور واقعات کے حقیقت ہونے میں بھی فرق ہے۔ ایک لمحے کو یہی تصور کر لیا جاتا کہ اگر ایسے نامعلوم ذریعے سے موصول ہونے والے واقعات بلاثبوت اگر کسی پیارے سے متعلق ہوتے تو کیا انھیں شائع کیا جاتا۔ حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے یہ بھی فرما دیا جاتا ہے کہ اگر آپ کچھ کہنا چاہیں تو ہمارا فورم حاضر ہے۔ کیا وہ جس پر الزام لگائے گئے ایسا ہی گیا گزرا ہے کہ اگر آپ میں سے کوئی اپنا فورم نہیں دے گا تو وہ بےچارہ کہیں اپنی صفائی ہی پیش نہیں کر پائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کا اپنا حلقہ احباب آپ سب سے بڑا ہی ہو۔ کیا ایسا ہی رویہ اپنے لیے بھی پسند فرمائیں گے کہ گھر بیٹھے کوئی آپ پر بےشمار الزامات بلاتحقیق لگا ڈالے اور کہہ دے کہ آپ بھی جو کہنا چاہیں، کہہ سکتے ہیں۔ لگائی بجھائی اور کسے کہتے ہیں۔ ایسا علمی اور نظریاتی بحث مباحثے میں ہوتا ہے کہ آپ اگر اختلاف رکھتے ہوں تو ہمارے صفحات حاضر ہیں، ذاتی کردار پر حملوں اور اوچھے الزامات کے ضمن میں ایسا ہونا کوئی صحتمند رویہ نہیں۔ علمی و ادبی مکالمہ کرواتے کرواتے یہ ہمارے دوست کہاں جا پہنچے ہیں۔ کیا ایسے سینئر صحافیوں کو بھی سمجھانا پڑے گا کہ ان کا کام ایسا ہے کہ ایسے ہزاروں واقعات اور الزامات آپ کے علم میں آئیں گے، بےشمار خطوط و مراسلات موصول ہوں گے لیکن ایسا ہر خط قابل اشاعت نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ بادشاہوں کے سینے رازوں کے دفینے ہوتے ہیں۔ یہ بات آج کل کے دور میں صحافیوں کے لیے بھی بجا طور پر کہی جا سکتی ہے۔

    مولانا الیاس گھمن کو میں ذاتی طور پر نہیں جانتا مگر طلسم ہوش ربا کی داستان پڑھ کر مجھے حیرت سی ہونے لگی کہ اتنی بہت ساری برائیاں ایک ہی فرد میں آخر جمع کیسے ہو سکتی ہیں؟ وہ بھی یوں کہ ان کے قریب رہنے والوں تک کو بھی پتا نہ چل سکا اور وہ اتنا کچھ کرتا رہا۔ اگر یہ سب واقعات حقیقت بھی ہوں تو کیا یہ مناسب رویہ ہے کہ اس طرح سے برسرعام ان کا تذکرہ کیا جائے۔ افسوس یہ ہے کہ ایسا کرنے والے وہ ہیں جو خود ساری دنیا کو شائستگی اور شرافت کا سبق دیتے ہیں۔ لگتا ہے اخباروں اور چینلز کی طرح اب ویب سائٹس میں بھی ریٹنگ کا بخار چڑھنے لگا ہے کہ جیسے تیسے اپنی ویب سائٹ کو اوپر لانا ہے۔ اس کے لیے جیسا بھی چٹ پٹا مواد ملے چھاپ دو۔ جناب عامر خاکوانی صاحب، آپ تو الگ ہو گئے مگر دلیل ٹیم سے کہہ دیجیے کہ وہ اس دوڑ میں کبھی نہ لگے خدا کے واسطے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا تھا کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ کسی بات کو بلا تحقیق آگے بیان کر دے۔ کمنٹس اور تبصرے میں بھی ہماری قوم کا مزاج صاف نظر آتا ہے۔ بلاثبوت لگائے جانے والے الزامات پر ہماری قوم کتنے آرام سے ایمان لے آتی ہے۔ منفی باتوں پر فورا مہر تصدیق ثبت کرنے کو ہم تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ اور دین بیزار طبقہ جو پہلے ہی تاک میں ہوتا ہے،ں اس کے ہاتھ تو ایسے معاملات میں ترپ کا پتا آ جاتا ہے۔ پھر سب اصول ضابطے، اخلاقیات، اور تحقیق کے درس پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔

    خدارا علمی اور نظریاتی مکالمے کے کلچر کو اس طرح کی ذاتیات سے دور رکھو، ایسا نہ ہو کہ کتاب بینی کی عادت سے دور جو نوجوان علم اور تحقیق کی لالچ میں دلیل اور مکالموں کی اس فضا میں آیا تھا، وہ پھر سے بدظن ہو جائے۔ بڑی مشکل سے بے علمی اور سطحیت کے اس دور میں مثبت گفت و شنید کا ماحول پیدا ہوا ہے، اسے مکدر کرنے سے بچاؤ۔ اس وار کو سمجھو اور اس کا نشانہ بننے سے خود کو بھی بچاؤ اور دوسروں کو بھی۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

  • ابوالاعلی کو ”تحقیق“ پسند ہے – حاشر ابن ارشاد

    ابوالاعلی کو ”تحقیق“ پسند ہے – حاشر ابن ارشاد

    %d8%ad%d8%a7%d8%b4%d8%b1 کہانی ہو کہ افسانہ، مضمون ہو یا خاکہ، تنقید سے کچھ بھی مبرا نہیں مگر تنقید بےسروپا لفظوں کو صفحے پر کھینچنے کا نام نہیں ہے۔ نقاد کے کندھوں پر معیار، اسلوب اور نکتہ آفرینی کا بوجھ ہوتا ہے۔ ہر جملہ دلیل نہیں ہوتا اور ہر دعوی سچ نہیں بنتا جب تک کہ منطق اور حوالوں کی بھٹی سے کندن ہو کرنہ نکلے۔

    لینہ میری شریک حیات ہیں۔ میں انہیں اپنی 4/3 بہتر کہتا ہوں کہ صرف نصف بہتر کہنا ان کے ساتھ ناانصافی ہے۔ کچھ دن پہلے ان کا افسانچہ ”خواجہ سرا کا مرنے کے بعد اپنی ماں کو خط“ چھپا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے الفاظ ضمیر کی وہ دستک بن گئے جنہوں نے کتنے ہی دلوں پر پڑے قفل کھول ڈالے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں اخبار کی اشاعت بھی سینکڑوں اور ہزاروں میں فخریہ گنی جاتی ہے اس کو لاکھوں لوگوں نے پڑھ ڈالا۔ بات پڑھنے تک نہیں رہی، دو صفحات پر لکھے اس نوحے نے آنسووں میں بھیگی ایسی نئی صبح کو جنم دیا جس نے ہر بیدار کے لیے زندگی کو دیکھنے کے زاویے بدل ڈالے۔

    جہاں تحسین ہو وہاں تنقید خود چلی آتی ہے مگر تنقید کے ترکش سے اس پر بس ایک ہی تیر چلا اور میری ناقص رائے میں تیر چلا بھی اندھیرے میں اور اتنا بےڈھنگا کہ شک ہوا کہ تیرانداز نے اپنے دروناچاریہ کو انگوٹھے پہلے بھینٹ کیےاور کمان اٹھانا بعد میں سیکھا۔ دلیل ڈاٹ پی کے پر اشاعت کے بعد جناب عامر خاکوانی نے اس تنقیدی جائزے کو اپنی فیس بک وال سے ”انتہائی اہم“ کی سرخی کے تحت شیئر کیا۔ ابوالاعلی صدیقی صاحب کے اس مضمون کا ایک بہتر عنوان ”وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا“ ہو سکتا تھا، مگر انہوں نے اس کا نام ”افسانے کی حقیقت“ رکھنا مناسب خیال کیا۔ یہ نام بذات خود اس کی ”دلیل“ ہے کہ ان کی سخن فہمی کس مقام پر فائز ہے۔

    لینہ سے پوچھا کہ وہ اس کا جواب لکھنا پسند کریں گی تو وہ ”ہم ہنس دیے، ہم چپ رہے“ کی تصویر بن گئیں۔ کرنے کو تو شاید یہی مناسب تھا مگر ہم نے ویسے زندگی میں اور کون سے مناسب کام کیے ہیں جو اب چپکے بیٹھے رہتے۔ یہی سوچ کر کچھ اس بارے آپ سے بانٹ لیتے ہیں۔

    آغاز مضمون میں حضور نے کہا کہ سوشل میڈیا پر لکھنا وہ انتہائی مشکل سمجھتے ہیں۔ ان کی تحریر کو پڑھنے کے بعد اس جملے سے اس خادم کو بھی کما حقہ اتفاق ہے۔ سچائی کا کوئی مول نہیں۔ اس مشکل کا حل انہوں نےیوں نکالا کہ سب سے پہلے انہوں نے غامدی مکتبہ فکر کو باڑھ پر رکھ لیا ۔ فرماتے ہیں ”غامدی طبقہ فکر پاپولر بیانیے کے مطابق اپنے خیالات کو پیش کرنے میں مہارت رکھتا ہے اور ایک ایسی ہی نئی کوشش”خواجہ سرا کا اپنی ماں کے نام خط“ کے نام سے ایک افسانہ ہے۔ معاملہ یہ ہےکہ اصل زندگی میں حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔“

    جہاں تک میرا تعلق ہے، مجھے اس پر چنداں اعتراض نہیں کہ ابوالاعلی صاحب غامدی طبقہ فکر کو پاپولر بیانیے کا نقیب سمجھیں مگر انہوں نے کس طرح اس افسانے کا تعلق فکر غامدی سے جوڑا ہے، اس راز سے پردہ وہ ہی اٹھائیں تو اٹھائیں، ہم تو بس سر ہی دھن سکتے ہیں۔ اس لیے اس سازشی مفروضے کو یہاں چھوڑتے ہیں اور جناب کے اصل زندگی والے حوالوں پر نظر ڈالتے ہیں۔

    جناب نے امریکہ کے ”شماریاتی ادارہ“ کا حوالہ دے کر یہ فرمایا ہے کہ امریکہ میں پیدائشی خواجہ سرائوں کا تناسب لاکھ میں ایک سے کم ہے اور اسی شرح سے پاکستان میں اس حساب سے پیدائشی مخنث دو ہزار سے زائد نہیں ہو سکتے، کیونکہ تقریبا یہی تعداد امریکہ میں بنتی ہے۔ حضور نے ”شماریاتی ادارہ“ کا نام نہیں دیا نہ ہی تحقیق کے دورانیے کا ذکر کیا ہے۔ اس لیے اس پر کیا تبصرہ کریں، تاہم ہم جواب میں انہیں ایک موقر تحقیق سے آگاہ کیے دیتے ہیں اور وہ بھی حوالوں سمیت۔ کیا یاد کریں گے۔
    ولیم انسٹیوٹ نے جوں 2016ء میں ایک تحقیق شائع کی جس کو نیویارک ٹائمز سمیت تمام اخبارات نے رپورٹ کیا۔ اس رپورٹ سے ہرمن، گیٹس اور براؤن جیسے محققین کا نام وابستہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں چودہ لاکھ سے زائد تیسری جنس کے لوگ موجود ہیں۔ اس کا مطلب ہے ہر ایک لاکھ میں کم ازکم 600 لوگ۔ اب یہ ابوالاعلی صاحب کی بیان کردہ شرح سے کچھ نوری سال کا فاصلہ ہے۔ اب کیا اس پر اور تبصرہ کریں۔

    جان ہاپکنز یونیورسٹی سے اگست 2016ء میں تین مقالے اسی حوالے سے منظر عام پر آئے جس میں تیسری جنس کے حوالے سے جینیاتی، نفسیاتی اور حیاتیاتی بحث موجود ہے۔ یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ کوئی بھی مرد یا عورت جب یہ سمجھنا شروع کر دے کہ وہ ایک غلط جسم میں مقید ہے تو وہ متعین کردہ دو جنسی تعریف سے باہر ہو جاتا ہے۔ اگر کسی بزعم خود محقق کا یہ خیال ہے کہ خواجہ سرا کی تعریف پر صرف وہ پورا اترتا ہے جو کسی جسمانی کمی یا زیادتی کا پیدائشی سزاوار ہو تو اس کو تحقیق کے ہجے دوبارہ سے سیکھنے چاہییں۔

    موصوف نے ایک بڑا کارنامہ یہ کیا کہ ایک مارکیٹ ریسرچ پراجیکٹ کا حوالہ دیا جو ایک ”مشہور“ فاونڈیشن کے لیے کیا گیا تھا۔ پراجیکٹ کا عنوان تھا، ”پاکستان میں خواجہ سراؤں کی زندگی کی مشکلات اور ان کا ممکنہ ازالہ“۔ اب اس پر ناطقہ سر بگریباں ہے۔ ان کی علمیت کے وارے جائوں جنہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ مارکیٹ ریسرچ کس چڑیا کا نام ہے۔ آئیے پہلے تو آپ کو مارکیٹ ریسرچ کی مروجہ تعریف بتا دیں۔
    “Marketing research is the process or set of processes that links the producers, customers, and end users to the marketer through information — information used to identify and define marketing opportunities and problems; generate, refine, and evaluate marketing actions”

    اب کوئی ”پاکستان میں خواجہ سراؤں کی زندگی کی مشکلات اور ان کا ممکنہ ازالہ“ میں سے اس تعریف کا کوئی ایک جز بھی برآمد کر دے تو اس کو ستارہ امتیاز سے نوازنا چاہیے۔ پھر اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ ایک تحقیق جو مشکلات کے ازالے کے موضوع پر ہوتی ہے، اس میں سے نکلتا ہے خواجہ سرا کا ایک بھیانک ولن نما کردار، اغواکار اور قومی شناخت کا ایک عجیب و غریب حساب کتاب، جس کے فورا بعد غامدیت پھر نشانے پر آجاتی ہے۔ ذرا مقالے کا منتہا ملاحظہ کریں
    ”بچوں کے اغوا کار گروہ کو جو بے بس سمجھتا ہے، وہ خیالوں کی اس دنیا میں تو رہ سکتا ہے جہاں سے غامدی صاحب قرآنی آیات منسوخ کرتے رہتے ہیں مگر حقیقی دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہیں.“
    ”حیراں ہوں دل کو رووں کہ پیٹوں جگر کو میں“

    خواجہ سراوں کی مشکلات کا ازالہ کرنے والا ”مارکیٹ ریسرچ پروجیکٹ“ اس دوران پہلے فوکس گروپ اور انٹرویو کا لبادہ اوڑھتا ہے، پھر سروے کا روپ دھارن کرتا ہے اور پھر اپنی زنبیل میں سے مشکلات ڈھونڈتے ہوئے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ اگر مقتول خواجہ سرا ہوں اور قاتل غیر خواجہ سرا اور اگر قاتل دھرے جائیں تو اس سے ثابت ہوا کہ پولیس، ایم آئی، آئی بی، ایف آئی اے اور آئی ایس آئی سب خواجہ سرائوں کے دست شفقت کے محتاج اور نگاہ کرم کے رسیا ہیں۔
    مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
    کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا

    تاہم ابھی بھی تان سلامت تھی، ٹوٹی تو اس انکشاف عظیم پر کہ اوسطا خواجہ سرا 39 سال کی عمر میں ایک کربناک موت کے ساتھ دنیا کو اور اپنی سرپرست غیر ملکی این جی اوز کو داغ مفارقت دے جاتے ہیں۔ اور پیچھے رہ جاتی ہیں ان کی یادیں اور مہلک جنسی بیماریاں۔ اس کے لیے انہوں نے ”ایک سروے کے مطابق“ کا انتہائی معتبر حوالہ بھی دیا، ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ پولیس کو بچے فراہم کرنے کا بین الصوبائی ٹھیکہ بھی خواجہ سرائوں کے پاس ہے۔ آخر دم انہوں نے درخواست کی کہ افسانوں کے ذریعے ان کے لیے ہمدردی جگانے کی کوشش نہ کی جائے۔ ان کی درخواست پر ہم نے مذکورہ افسانے کو پھر سے کنگھالا کہ اس میں سے گرو اور اغواکاروں اور خواجہ سرا گروہوں کے لیے کوئی چھٹانک بھر ہمدردی کی اپیل برآمد کر سکیں مگر وائے ناکامی۔

    خواجہ سرا کا خط ایک المیے سے عبارت ہے۔ ان بچوں کا نوحہ ہے جنہیں ان کے اپنے ماں باپ سمجھ نہیں پاتے۔ اس معاشرے کا مضمون ہے جو ان کی معصومیت کو کچل ڈالتا ہے۔ اس بھوک اور افلاس کی ننگی داستان ہے جو ڈار سے پچھڑ جانے والوں پر گزرتی ہے۔ اس سماج کی تصویر ہے جس میں جسم بیچنے کی سزا بھی موت ہے اور جسم نہ بیچنے کی سزا بھی موت ہے۔ اس دورنگی کی کہانی ہے جو ہر چہرے پر رقم ہے۔ یہ دکھ کے لفظ ہیں۔ آنسووں میں گندھے جملے ہیں جو کسی نے دل ویران کے صفحے پر بکھیرے ہیں۔ ایک جی کا غم ایک افسانہ بنتا ہے۔ اگر پورا شہر روشن ہے تو کہیں ایک گلی تاریک بھی ہوتی ہے۔ اس کا اندھیرا اسی گلی میں دیا جلانے سے کم ہوگا۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے اگر باقی ساری گلیاں نور میں نہائی بھی ہوں۔ درد کی شدت شماریاتی تجزیوں اور تحقیق کے پلندوں سے کم نہیں ہوتی۔ درد دوا مانگتا ہے۔ زخم مرہم کی حاجت رکھتا ہے۔ تم سب زندہ ہو تو ضروری نہیں کہ آج کوئی قبر نہ کھدی ہو۔ یہ سمجھنے کے لیے مگر ایک دل چاہیے جو کسی سروے کے جوابات میں نہیں ملتا۔

    تحقیق کریں مگر پہلے اس کے حروف تہجی تو گن لیں۔ سلطان فلم کا گانا لڑکے بالے بجاتے ہیں۔ ”بے بی کو بیس پسند ہے“، جتنی اس میں بیس ہے اسے بس بے بی ہی پسند کر سکتی ہے اور جتنی حضور کے مضمون میں تحقیق ہے، اسے آپ ہی پسند کر سکتے ہیں۔ خوش رہیے۔

  • ریسرچ کا مختصر تعارف – ارمغان احمد

    ریسرچ کا مختصر تعارف – ارمغان احمد

    سب سے پہلی بات یہ ہے کہ میں کوئی ریسرچر ہوں نہ ہی کوئی اتھارٹی۔ جو تھوڑا سا سیکھا ہے، اس کی بنیاد پر کوشش کر رہا ہوں کہ نوجوانوں کو اپنے محدود علم کے مطابق کچھ بتا سکوں۔ یہ ملک کا قرض ہے جو اتارنا ضروری ہے۔ میری انگریزی بری نہیں ہے مگر اردو میں اس لیے لکھ رہا ہوں تا کہ بات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔ اصطلاحات کا اردو ترجمہ البتہ نہیں کروں گا کیونکہ اس سے بات بہت بورنگ ہو جاتی ہے۔

    ریسرچ یا تحقیق ہے کیا؟
    کوئی بھی نئی دریافت، ایجاد، فارمولا، کوئی پرانا ہی کام کرنے کا نیا طریقہ سب ریسرچ میں شامل ہے۔ غیر شعوری طور پر ہم سب ہر وقت ہی ریسرچ کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں ایک دلچسپ بات بتاتے چلیں کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے، اگر آپ اپنا بیان کردہ مقصد حاصل نہیں کر سکے تو آپ ناکام ہو گئے۔ نہیں آپ تب بھی کامیاب ہوئے۔ آپ نے محض دنیا کو ایک نئی انفارمیشن دے دی کہ یہ مقصد اس طریقے سے حاصل نہیں ہو سکتا جو آپ نے اختیار کیا۔ جی ہاں، آپ اپنی ناکامی کی داستان کو بھی بطور ایک بہت اعلی ریسرچ کے پیش کر سکتے ہیں اگر آپ نے خاصی محنت سے اس پر کام کیا ہو۔ اس لئے کوئی بھی نوجوان جو ریسرچ میں دلچسپی رکھتا ہو سب سے پہلے اپنے ذہن میں اس نکتے کو واضح کر لے تو وہ کبھی ناکام ہو گا نا ہمت ہارے گا۔ اب اسی نکتے کو ایک انگریزی سطر میں بیان کیا جائے گا
    You never fail in research. You simply tell the world that this aim can not be achieved in this manner.

    ریسرچ کا آغاز کیسے ہوتا ہے؟
    سب سے پہلے آپ نے ایک ایسی فیلڈ چننی ہوتی ہے، جس کے بارے میں آپ کو یہ یقین ہو کہ آپ کم از کم تین چار سال اس سے بور نہیں ہوں گے۔ پھر اس فیلڈ میں لکھے گئے ریسرچ پیپرز کو گوگل کریں اور جو جو ملتے جائیں، پڑھتے جائیں۔ فیس بک پر ریسرچ پیپرز کے نام سے گروپس موجود ہیں، آپ کو کسی پیپر کے لیے پیسے دینے پڑ رہے ہوں تو آپ وہاں ریکیوئسٹ کر کے مفت میں پیپر حاصل کر سکتے ہیں، یا مصنفین میں سے کسی کو ای میل کر دیں تو وہ بھی بخوشی بھیج دیتے ہیں۔ کم از کم چار سے پانچ ماہ آپ محض مطالعہ کریں۔ اس سے آپ کو یہ اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کی فیلڈ میں کس ڈائریکشن میں کام ہو رہا ہے، کون لوگ کام کر رہے ہیں، ریسرچ والوں کی تحریروں میں زبان کیسی ہوتی ہے، الفاظ کون سے استعمال ہوتے ہیں، اصطلاحات کون سی ہیں آپ کی فیلڈ میں۔ پیپر کا جنرل سٹرکچر کیا ہوتا ہے اور اسی سے آپ کو یہ اندازہ ہو جائے گا کہ آپ اس سلسلے میں کیا تیر مار سکتے ہیں۔

    تجرباتی یا تھیوری والی ریسرچ؟
    اگر آپ کسی یونیورسٹی میں ملازم ہیں، یا کسی ایسی کپمنی میں جہاں مشینیں موجود ہیں، آپ کچھ تجربات کر سکتے ہیں تو بسم اللہ کریں۔ تجربے کرتے جائیں اور ان کو ریکارڈ کا حصہ بناتے جائیں۔ بعد میں ان کے گراف اور چارٹ، مختلف فیکٹرز اور ان کے باہمی تعلق پر غور کریں اور ان سے حاصل شدہ نتائج کا پرانے پڑھے ہوئے پیپرز کے ساتھ تعلق تلاش کریں، دیکھیں کہ آپ نے اس میں کوئی نیا تعلق یا دلچسپ چیز تو نہیں دریافت کر لی؟ اور پھر اسے لکھنا شروع کریں۔ اگر مشین وغیرہ نہیں ہے تو پھر آپ کو تھیوری، کمپیوٹر سمیولیشنز پر جانا پڑے گا، وہ بھی مشکل نہیں ہے محض کچھ سافٹ وئیرز سیکھنے ہوں گے اور ان سے وہ کام لینے ہوں گے جو پہلے نہیں لئے گئے۔

    ریسرچ کے لیے استعمال ہونے والے ٹولز
    آپ کسی بھی قسم کی ریسرچ کریں، پریزنٹیشن بہت اہمیت رکھتی ہے۔ آپ نے جتنا مرضی اچھا کام کیا ہو اگر آپ کے حاصل کردہ نتائج کے گراف ایکسل وغیرہ میں بنے ہوں، بچوں کی طرح رنگ برنگی لائنیں لگائی ہوں، کسی تصویر کا سائز کچھ ہو، کسی کا کچھ، کسی میں فونٹ کچھ ہو کسی میں کچھ اور باقی ڈاکیومنٹ کا حساب کچھ اور ہو تو وہ کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتا۔ اس سلسلے میں گُر کی باتیں یہ ہیں کہ ورڈ اور ایکسل کو گولی مار دیں، ایک ٹول ہے جس کا نام ہے

    Latex
    اسے بولتے ہوئے لیٹک کہتے ہیں، لیٹکس نہیں، یہ مفت ملتا ہے، اسے سیکھنا شروع کریں، تمام ٹیبل، تصاویر، ٹیکسٹ اسی میں لکھیں، یہ پروفیشنل ریسرچر استعمال کرتے ہیں اور تصاویر کے سلسلے میں یہ اصول یاد رکھیں کہ آپ نے یہ فرض کرنا ہے آپ بلیک اینڈ وہائٹ دنیا میں رہتے ہیں، لائینوں میں فرق رنگوں سے نہیں شیڈز اور پیٹرنز سے ڈالنا ہے۔ دوسرا ٹول جو بہت ضروری ہے میٹ لیب

    Matlab
    یہ آپ کو ضرور آنا چاہیے۔ اگر آپ سٹوڈنٹ ہیں تو ابھی سے ان دونوں ٹولز میں مہارت حاصل کرنا شروع کریں، یہ آئندہ آپ کے بہت کام آئیں گے۔

    اس پوسٹ میں ریسرچ کے محض آغاز پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ وقت اور لوگوں کے رسپانس پر منحصر ہے کہ اگلی پوسٹ کب آئے گی۔ اور ریسرچ کرنے سے آتی ہے۔ اگر فی الحال آپ محض دوسروں کے ریسرچ پیپرز پڑھنا شروع کر دیں، میٹ لیب اور لیٹک سیکھ لیں تو محض چار ماہ بعد آپ اپنے پہلا پیپر پر کام کا آغاز کر دیں گے انشا اللہ۔

  • شعبہ صحافت کے لیے-جاوید چوہدری

    شعبہ صحافت کے لیے-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں اس وقت صحافت کے شعبے قائم ہیں، ہم اگر کسی دن طالب علموں کا ڈیٹا جمع کریں تو تعداد لاکھ تک ضرور پہنچ جائے گی گویا ملک میں ہر دو تین سال بعد لاکھ نئے ’’صحافی‘‘پیدا ہو رہے ہیں لیکن کیا یہ نوجوان واقعی صحافی ہیں؟  یہ دس کروڑ روپے کا سوال ہے!

    میرے پاس یونیورسٹیوں کے ٹورز آتے رہتے ہیں، مجھے شروع میں تیس چالیس طالب علموں کی میزبانی میں دقت ہوتی تھی لیکن پھر ہم نے گھر میں بیس تیس لوگوں کی مہمان نوازی کا مستقل انتظام کر لیا یوں اب میرے پاس مختلف یونیورسٹیوں کے شعبہ صحافت کے طالب علم آتے رہتے ہیں اور میں ان سے سیکھتا رہتا ہوں، میں نے ان چند ’’انٹریکشنز‘‘ کی بنیاد پر چند نتائج اخذ کیے ہیں، میں یہ نتائج یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور شعبہ صحافت کے چیئرمینوں تک پہنچانا چاہتا ہوں، میری خواہش ہے میری رائے کو صحافت کے ایک کارکن کا مشورہ سمجھ کر سنجیدگی سے لیا جائے، صحافت کے وہ طالب علم جو میڈیا انڈسٹری کو جوائن کرنا چاہتے ہیں وہ بھی میری رائے کو سینئر کی تجویز سمجھ کر چند لمحوں کے لیے توجہ ضرور دیں مجھے یقین ہے، یہ توجہ ان کے کیریئر میں اہم کردار ادا کرے گی۔

    میں دس مختلف یونیورسٹیوں کے بارہ ٹورز کی خدمت کر چکا ہوں، یہ خدمت ایک ہولناک تجربہ تھی، مثلاً مجھے ان بارہ ٹورز کے زیادہ تر نوجوان کتاب سے دور ملے اور اگر کسی سے زندگی میں کتاب پڑھنے کی غلطی سرزد ہو چکی تھی تو وہ کتاب کے نام سے ناواقف نکلا اور اگر اسے کتاب کا نام یاد تھا تو مصنف کا نام اس کے ذہن سے محو ہو چکا تھا اور اگر اسے مصنف اور کتاب دونوں کے نام یاد تھے تو وہ موضوع اور کرداروں کے نام ضرور بھول چکا تھا، مثلاً مجھے ان بارہ ٹورز کے طالب علم اخبار سے بھی دور ملے اور یہ ٹیلی ویژن بھی نہیں دیکھتے تھے۔

    میں ایک وفد سے دو گھنٹے گفتگو کرتا رہا آخر میں پتہ چلا، یہ مجھے کامران خان سمجھ رہے ہیں اور یہ میرے جیو چھوڑنے پر حیران ہیں، زیادہ تر طالب علموں کو یہ معلوم نہیں تھا، میرے کالم اور میرے شو کا نام کیا ہے، میں شروع میں اسے اپنی غیر مقبولیت سمجھتا رہا اور یہ سوچتا رہا لوگ اب مجھے پڑھ اور دیکھ نہیں رہے لیکن جب میں نے دوسرے صحافیوں اور دوسرے پروگراموں کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا یہ انھیں بھی نہیں جانتے لہٰذا میں نے اطمینان کا سانس لیا۔

    مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی یہ لوگ صدر پاکستان، چاروں گورنرز، تین صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں، یہ لوگ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کی تعداد بھی نہیں جانتے، یہ آج بھی بل کلنٹن کو امریکا کا صدر اور ٹونی بلیئر کو برطانیہ کا وزیراعظم سمجھتے ہیں، یہ عمران خان کے فین ہیں لیکن عمران خان نے کس کس حلقے سے الیکشن لڑا اور یہ قومی اسمبلی کی کس نشست سے ایوان کے رکن ہیں، ان میں سے کوئی نہیں جانتا تھا۔

    میں اس وقت حیران رہ گیا جب ایک نوجوان نے قذافی کا نام لیا اور میں نے اس سے قذافی کا پورا نام پوچھ لیا، وہ نہیں جانتا تھا، میں نے اس سے قذافی کے ملک کا نام پوچھا وہ بالکل نہیں جانتا تھا، میں نے صدام حسین اور حسنی مبارک کے بارے میں پوچھا، وہ ان دونوں سے بھی ناواقف تھا، میں نے باقی طالب علموں سے پوچھا وہ بھی نابلد تھے، آپ بھی یہ جان کر حیران ہوں گے یہ نوجوان قائداعظم اور علامہ اقبال کے بارے میں بھی دو دو منٹ نہیں بول سکتے تھے۔

    یہ نہیں جانتے تھے مشرقی پاکستان کو مشرقی پاکستان کیوں کہا جاتا تھا اور یہ نائین الیون کی تفصیل سے بھی واقف نہیں تھے، آپ کمال دیکھئے جنوبی پنجاب کی ایک یونیورسٹی کے دو طالب علموں نے مجھ سے آٹو گراف لیے باقی کلاس نے حیرت سے پوچھا ’’یہ آپ کیا کر رہے ہیں‘‘ میں نے بتایا ’’آٹو گراف دے رہا ہوں‘‘ ان کا اگلا سوال تھا ’’آٹو گراف کیا ہوتا ہے‘‘ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، میں شروع میں طالب علموں کو اس جہالت کا ذمے دار سمجھتا تھا لیکن جب تحقیق کی تو پتہ چلا اس علمی گراوٹ کی ذمے دار یونیورسٹیاں اور صحافت کے شعبے ہیں۔

    یونیورسٹیاں طالب علموں کی ذہنی نشوونما پر توجہ نہیں دے رہیں، کتاب، فلم اور سفر سیکھنے کے تین بڑے ذرائع ہیں، یونیورسٹیاں ان تینوں کو حرف غلط کی طرح مٹا چکی ہیں، تقریریں، مباحثے اور مشاہیر کے ساتھ سیشن علم پھیلانے کے بڑے ٹولز ہوتے ہیں، یونیورسٹیاں ان سے بھی فارغ ہو چکی ہیں، پیچھے صرف سلیبس بچتا ہے اور یہ بھی 70 سال پرانا ہے اور طالب علم اسے بھی پڑھنا پسند نہیں کرتے،یہ پچاس سال پرانے نوٹس کی فوٹو اسٹیٹس کرواتے ہیں، رٹا لگاتے ہیں، امتحان دیتے ہیں اور باقی وقت موبائل فون چیٹنگ پر خرچ کر دیتے ہیں اور یوں علم و عرفان کے عظیم ادارے جہالت کی خوفناک فیکٹریاں بن چکے ہیں۔

    یہ چند خوفناک حقائق ہیں ،میں اب یونیورسٹیوں کے ارباب اختیار کے سامنے چند تجاویز رکھنا چاہتا ہوں، ہمارے وائس چانسلرز تھوڑی سی توجہ دے کر صورتحال تبدیل کر سکتے ہیں، ہمارے تحریری اور زبانی الفاظ پھل کی طرح ہوتے ہیں اگر درخت نہیں ہو گا تو پھل بھی نہیں ہو گا، ہمارے طالب علموں کے دماغ خالی ہیں، اگر ان کے ذہن میں کچھ نہیں ہو گا تو پھر یہ کیا بولیں گے، یہ کیا لکھیں گے لہٰذا یونیورسٹیاں اور شعبہ صحافت سب سے پہلے طالب علموں کی دماغی ٹینکیاں فل کرنے کا بندوبست کریں۔

    یہ ان کے ذہن کو درخت بنا دیں، پھل خود بخود آ جائے گا، آپ شعبہ صحافت کے سلیبس کو دو حصوں میں تقسیم کرد یں، ایک حصہ تکنیکی تعلیم پر مشتمل ہو اور دوسرا انٹلیکچول ایجوکیشن پر مبنی ہو۔ 100 کتابوں، 50 فلموں اور 25 مقامات کی فہرستیں بنائیں، یہ تینوں صحافت کے طالب علموں کے لیے لازمی قرار دے دی جائیں، کتابوں میں 50 کلاسیکل بکس، 25 دو سال کی بیسٹ سیلرز اور 25 تازہ ترین کتابیں شامل ہوں، یہ کتابیں اساتذہ اور طالب علم دونوں کے لیے لازم ہوں۔

    فلموں میں 25 آل دی ٹائم فیورٹ،15 دس سال کی اکیڈمی ایوارڈ یافتہ فلمیں اور باقی 10 اُس سال کی بہترین فلمیں ہوں جب کہ 25 مقامات میں قومی اسمبلی اور سینٹ، چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیاں، گورنر ہاؤس اور وزراء اعلیٰ ہاؤسز، دنیا کے پانچ بڑے ملکوں کے سفارتخانے، آثار قدیمہ کے پانچ بڑے پاکستانی مراکز، جی ایچ کیو، آئی جی آفسز اور میڈیا ہاؤسز شامل ہونے چاہئیں، آپ ان کے ساتھ ساتھ نائین الیون سے لے کر ترکی کی تازہ ترین ناکام فوجی بغاوت تک دنیا کے دس بڑے ایشوز کو بھی سلیبس میں شامل کر دیں۔

    یہ ایشوز طالب علموں کو ازبر ہونے چاہئیں، آپ ملک کے بیس بڑے ایشوز کو دو طالب علموں میں تقسیم کر دیں مثلاً دو طالب علموں کو بجلی کا بحران دے دیا جائے، دو کے حوالے گیس کا ایشو کر دیا جائے اور باقی دو دو میں پٹرول، پانی، سیلاب، دہشت گردی، صنعت، بے روزگاری، صحت، تعلیم، ٹریفک، منشیات، انسانی اسمگلنگ، اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری، پراپرٹی مافیا، ٹیکس اصلاحات، آبادی کا پھیلاؤ، بے ہنری، سیاحت، ماحولیاتی آلودگی، خوراک کی کمی اور بے راہ روی جیسے ایشوز تقسیم کر دیے جائیں۔

    یہ طالب علم پورا سال ان ایشوز پر ریسرچ کرتے رہیں، یہ ہر ماہ دوسرے طالب علموں کو ان ایشوز پر ایک ایک گھنٹے کی پریذنٹیشن بھی دیں یوں یہ طالب علم ان ایشوز کے ایکسپرٹس بن جائیں گے اور باقی طالب علم ان کی پریذنٹیشن دیکھ اور سن کر ان ایشوز سے واقفیت پا لیں گے اور آپ طالب علموں کے لیے اخبار، ٹیلی ویژن اور ریڈیو بھی لازمی قرار دے دیں، طالب علموں کے گروپ بنائیں، ہر گروپ روزانہ دو اخبار پڑھے، ٹی وی کا کوئی ایک شو مسلسل فالو کرے اور کوئی ایک ریڈیو روزانہ سنے۔

    یہ گروپ ان دونوں اخبارات، اس شو اور اس ریڈیو کا ایکسپرٹ ہونا چاہیے، ان سے متعلق تمام انفارمیشن ان کی فنگر ٹپس پر ہونی چاہیے، یہ گروپ انٹرن شپ بھی ان ہی اداروں میں کرے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے یونیورسٹیوں کے پاس وسائل کہاں سے آئیں گے؟ یہ بھی بہت آسان ہے، آپ ڈیپارٹمنٹس کی کمپیوٹر لیبس فوراً بند کر دیں، ملک میں تھری جی اور فور جی آنے سے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹس متروک ہو چکے ہیں، آپ اب کمپیوٹر لیبس پر بلاوجہ رقم خرچ کر رہے ہیں، ملک میں اب موبائل فون کمپیوٹر لیب ہیں، آپ ڈیپارٹمنٹس میں تگڑا وائی فائی لگائیں اور طالب علموں کو موبائل فون کے مثبت استعمال کی عادت ڈال دیں۔

    آپ ہر ماہ لاکھوں روپے بچا لیں گے، آپ طالب علموں کو بتائیں اخبار، ٹیلی ویژن، ریڈیو، کتابیں، فلمیں اور تحقیقی مواد یہ تمام چیزیں موبائل فون پر دستیاب ہیں، آپ یہ سہولتیں فون سے حاصل کرسکتے ہیں یوں یونیورسٹی کے پیسے بھی بچیں گے اور طالب علم پڑھ، سن، دیکھ اور سیکھ بھی لیں گے اور پیچھے رہ گئے صحافت کے طالب علم تو میرا مشورہ ہے آپ اگر صحافی بننا چاہتے ہیں تو آپ ان تمام تجاویز کو تین سے ضرب دیں اور آج سے کام شروع کر دیں، میں آپ کو کامیابی کی گارنٹی دیتا ہوں، آپ ہم سب سے آگے نکل جائیں گے۔