Tag: بیماری

  • گھر کی مرغی دال برابر – ریحان احمد صدیقی

    گھر کی مرغی دال برابر – ریحان احمد صدیقی

    ریحان احمد صدیقی وہ سردیوں کی ایک ٹھنڈی شام تھی جب اس سے ملنے کاحسین اتفاق ہوا۔ہم ایک عرصے بعد ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ علیک سلیک کے بعد اس نے چھوٹتے ہی اپنی بیماریوں کے سلسلے گنوانا شروع کر دیے، جو اس کی پرانی عادتوں میں سے ایک عادت تھی۔ میں نے پوچھا یہ بتاؤ کہ آج کل کون سی بیماری ’ہٹ لسٹ‘ پہ چل رہی ہے۔ اس نے کہا یار تو نے دکھتی کمر پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ میں نے کہا مطلب؟ جواب ملا یار آج کل کمر میں بہت درد ہو رہا ہے۔ میں نے پوچھا نماز پڑھتے ہو؟ ایک لمحے وہ حیرت سے مجھے دیکھتا رہا۔ کچھ توقف کے بعد اس نے کہا میرے کمر میں ایک عرصے سے درد اتنا ہے کہ اٹھا بیٹھا نہیں جا رہا اور تو نماز کی بات کر رہا ہے۔میں نے کہا اچھا چلو رہنے دو ،یہ بتاؤ کہ اب تک کتنے ڈاکٹر کے معاش کا ذریعہ بن چکے ہو؟ کہنے لگا اب تو اپنی ’فلاسفی‘ بند کر اور یہ بتا کہ چائے پیے گا یا کافی۔ میں نے کہا کہ چائے اور کافی بھی پی لیں گے لیکن میری مانو آج سے نماز شروع کر دو اور رکوع ذرا ٹھیک سے کرنا۔ اس سے کم ازکم تمھارے پرفیوم خریدنے کے شوق تو پورے ہو سکیں گے۔ ایک بار پھر وہ سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا۔ میں نے اسے مزید کچھ بولنے کا موقع دیے بغیراس کی پریشان نگاہوں کو پرسکون کرنے کےلیے آسان الفاظ کا سہارا لیا اور کہا کہ اگر تم نماز پڑھو گے اور رکوع ٹھیک سے کرو گے تو اس سے تمہارے ایک فرض کی ادائیگی بھی ہوجائے گی اور تمہارے کمر کا درد بھی ٹھیک ہو جائے گا۔ ڈاکٹروں کی جو فیس بچے گی اس سے تم اچھے اچھے پرفیوم خرید لینا اور ایک آدھ مجھے بھی ’گفٹ‘کردینا۔ کہنے لگا یار تو پھر شروع ہو گیا۔ اتنے بڑے بڑے ڈاکٹرز موجود ہیں، سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے، جدید سے جدید طریقہ علاج مارکیٹ میں آگئے ہیں۔ میں نے کل ایک بہت بڑے فزیوتھراپسٹ سے اپوائنٹمنٹ بھی لے لیا ہے ، اس نے کہا ہے کہ صرف دو مہینوں کی ایکسرسائز سے درد بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔ اور تو اور میں نے سنا ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب امریکہ میں پانچ سال کام کرنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ اور انہوں نے بڑے بڑے کیسز کو بہت اچھی طرح سے ہینڈل کیا ہے۔ بس یار ان کی فیس تھوڑی زیادہ ہے پر کوئی بات نہیں جب صحت کا معاملہ ہو تو ہمیں پیسوں کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ اس کی نہ ختم ہونے والی باتیں ایک بار پھر پٹری پہ چل پری تھیں۔ میں نے سوچا یہا ں گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلنے والا۔میں نے اسے ایک غیر مسلم سائنسدان حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان صاحب سے نماز پہ بڑی ریسرچ کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ نماز سے بہتر کوئی ایکسر سائز نہیں ہے اور خاص طور پہ جب بندہ رکوع کرتا ہے تو اس کے کمر کے عضلات کی ایکسرسائز بھی ہوجاتی ہے اور اگر کمر درد کی بیماری ہو تو وہ بھی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ کہنے لگا یار تو پہلے کہاں تھا۔ واقعی یار کسی غیر ملکی سائنسدان نے اس پہ ریسرچ کی ہے تو اس کی بات میں وزن بھی ہے اور بات دل کو بھی لگتی ہے۔

    ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ’ کیا‘ کہا جا رہا ہے بلکہ ہماری توجہ کا مرکز و محور یہ ہوتا ہے کہ ’کون‘ کہہ رہا ہے۔اگر ہم واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی سوچ کے انداز کو بدلنا ہوگا۔چلیں اس بات کو بھی رہنے دیں ورنہ آپ بھی کہیں گے کہ میں اپنی شیخی بگھارنے بیٹھ گیا۔ مجھے تو یہ فکر لگ گئی ہے کہ اس دال کو مرغی کا درجہ دینے کے لیے ایک آدھ امریکہ یاترا بھی ضروری ہے۔ تو ڈئیر چلیں گے نا آپ میرے ساتھ امریکہ؟؟؟

  • اعمال کا مدار انجام پر ہے – پروفیسر مفتی منیب الرحمن

    اعمال کا مدار انجام پر ہے – پروفیسر مفتی منیب الرحمن

    مفتی منیب الرحمن اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    (1) ’’اور ظلم کرنے والے عنقریب جان لیں گے کہ اُن کا (آخری) ٹھکانا کیا ہے؟ (الشعراء: 227)‘‘۔
    (2) ’’جس دن اُن کے چہرے آگ میں پلٹ دیے جائیں گے، وہ کہیں گے: کاش! ہم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہوتی اور وہ کہیں گے: اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا کہا مانا، تو انہوں نے ہمیں گمراہ کردیا، اے ہمارے پروردگار! انہیں (ہم سے) دگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت فرما (الاحزاب:66-68)‘‘۔
    (3) ’’اور متکبرین نے (اپنے عہد کے) بےبس لوگوں سے کہا: تمہارے پاس ہدایت آنے کے بعد کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روکا تھا، بلکہ تم (خود ہی) مجرم تھے (سبا:32)‘‘۔
    (4) ’’اور جب اہلِ جہنم آپس میں جھگڑا کریں گے، تو کمزور لوگ (اپنے عہد کے) متکبرین سے کہیں گے، ہم تو تمہارے پیچھے چلنے والے تھے، کیا (آج) تم جہنم کے عذاب سے نجات کے لیے ہمارے کسی کام آؤگے؟، (المؤمن: 47)‘‘۔

    حدیثِ پاک میں ہے:
    ’’سہل بن سعد ساعدی بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ نے ( میدانِ جنگ میں) ایک شخص کو دیکھا کہ وہ مشرکوں سے قتال کر رہا ہے اور وہ (بظاہر) مسلمانوں کی طرف سے بہت بڑا دفاع کرنے والا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: جو کسی جہنمی شخص کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ اس شخص کو دیکھے۔ پھر ایک شخص (اس کی حقیقت جاننے کے لیے) مسلسل اُس شخص کا پیچھا کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ زخمی ہوگیا، سو اُس نے (تکلیف سے بے قرارہوکر) جلد موت سے ہمکنار ہونے کی کوشش کی، وہ اپنی تلوار کی دھار کی طرف جھکا اور اُسے اپنے سینے کے درمیان رکھ کر اپنے پورے بدن کا بوجھ اس پر ڈال دیا، یہاں تک کہ تلوار (اُس کے سینے کو چیر کر) دوشانوں کے درمیان سے نکل گئی، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ بندہ لوگوں کے سامنے اہلِ جنت کے سے عمل کرتا چلا جاتا ہے، حالانکہ درحقیقت وہ اہل جہنم میں سے ہوتا ہے، اسی طرح ایک بندہ لوگوں کے سامنے بظاہر اہل جہنم کے سے کام کرتا چلا جاتا ہے، حالانکہ درحقیقت وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے اور اعمال کے نتائج کا مدار اُن کے انجام پر ہوگا (بخاری:6493)‘‘۔

    اس کی شرح میں علامہ بدرالدین عینی لکھتے ہیں:
    اس سے پہلی حدیث میں مذکورہے: اُس شخص نے اپنے تَرکش سے تیر نکال کر ُاس سے اپناگلا کاٹ ڈالا اور اس حدیث میں مذکور ہے: اُس نے تلوار کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر اپنے آپ کو اُس پر گرادیا حتیٰ کہ وہ اُس کے بدن کے آر پار ہوگئی۔ سو ان دونوں حدیثوں میں بظاہر تعارض ہے، دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے: ہو سکتا ہے کہ اُس نے پہلے تیر سے اپناگلا کاٹنے کی کوشش کی ہو اور پھر تکلیف سے جلد نجات پانے کے لیے تلوار کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر اپنے آپ کو اس پر گرا دیا ہو۔ یہ تاویل اُس صورت میں ہے کہ دونوں حدیثیں ایک ہی واقعے سے متعلق ہوں اور اگر یہ دو الگ الگ واقعات ہیں، تو پھر کوئی تعارض نہیں ہے (عمدۃ القاری ج 23 ،ص:236)‘‘۔

    اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اُس وقت کو یاد کرو جب آ پ کے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا اور اُن کو خود اپنے آپ پر گواہ بناتے ہوئے فرمایا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟، اُن سب نے (یک زبان ہوکر) کہا: کیوں نہیں! (یقینا تو ہمارا رب ہے)، (اللہ تعالیٰ نے فرمایا:) ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں، مبادا تم (کل) قیامت کے دن یہ کہہ دو کہ ہم اس سے بے خبر تھے، (الاعراف:172)‘‘۔

    ایک حدیث میں ہے: حضرت عمر بن خطاب سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس حدیث کی بابت فرماتے ہوئے سنا: ’’بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا، پھر اپنے دائیں ہاتھ سے اُن کی پشت کو چھوا، اُس سے اُن کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: ان کو میں نے جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ اہلِ جنت کے سے عمل ہی کرتے چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے پھر اُن کی پشت کو چھوا، اُس سے اُن کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: میں نے ان کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ جہنمیوں کے سے عمل ہی کرتے چلے جائیں گے ‘‘۔ اس پر ایک شخص نے عرض کی: (اگر سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے) تو عمل کی کیا حیثیت ہے؟، (حضرت عمر بیان کرتے ہیں:) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ جب بندے کو جنت کے لیے پیدا فرماتا ہے تو اُس سے اہلِ جنت کے سے کام کراتا ہے یہاں تک کہ اُس کی موت اہلِ جنت ہی کے کسی عمل پر ہوتی ہے اور اُس کے سبب اُسے جنت میں داخل فرما دیتا ہے اور جب اللہ بندے کو جہنم کے لیے پیدا کرتا ہے، تو اُس سے جہنمیوں کے سے کام کراتا ہے یہاں تک کہ اُس کی موت اہلِ جہنم ہی کے کسی عمل پر ہوتی ہے، سو اُسے جہنم میں داخل فرما دیتا ہے ،(موطا امام مالک:3337)‘‘۔

    اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’پس جس نے (اللہ کی راہ میں مال) دیا اور تقوے پر کاربند رہا اور نیک باتوں کی تصدیق کرتا رہا، تو بہت ہم اُسے آسانی مہیا کردیں گے ،(اللیل:5-7)‘‘۔ یعنی بندے کی مخلصانہ مساعی بار آور ہوں گی۔ اسی مفہوم کو ایک اور حدیث میں ان کلمات میں بیان فرمایا: ’’ہر ایک کا انجام اللہ تعالیٰ کے ہاں مقدر ہے، صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! تو کیا ہم صحیفۂ تقدیر پر توکّل کرتے ہوئے عمل سے دست بردار نہ ہوجائیں؟، آپ ﷺ نے فرمایا: تم (اللہ تعالیٰ کی توفیق سے) نیک کام کیے چلے جاؤ، جسے جس جبلّت پر پیدا کیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس منزل کے حصول کی خاطر اُس کے لیے آسانیاں مقدر فرمادیتا ہے (بخاری :4949)‘‘۔

    امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تقدیر کی بابت سوال ہوا، تو آپ نے فرمایا: ’’یہ تاریک راستہ ہے، اس پر نہ چلو( بھٹک جاؤ گے)، یہ گہرا سمندر ہے، اس میں غوطہ نہ لگاؤ( غرق ہوجاؤگے)، یہ اللہ کے پوشیدہ رازوں میں سے ایک راز ہے، اپنے آپ کو اس کے جاننے کا پابند نہ بناؤ(گمراہ ہوجاؤگے)‘‘۔ یعنی انسان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم ﷺ اور شریعتِ مطہرہ کے احکام پر کاربند رہنا چاہیے، کیونکہ اُنہیں اسی کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔ تقدیر ایسا امر ہے جس کی حقیقت جاننے کا مسلمانوں کو پابند نہیں بنایا گیا۔

    حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معمول تھا کہ اسلامی ریاست میں اَسفار کے دوران راستے میں آنے والی بستیوں کا مشاہدہ کرتے، لوگوں کے احوال معلوم کرتے اور اُن کی ضرورتوں کو پورا کرتے۔ فتحِ بیت المقدس کے لیے شام کے سفر پر تھے کہ سَرغ کے مقام پر پہنچے۔ وہاں انہیں معلوم ہوا کہ اس بستی میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ آپ نے اکابر صحابۂ کرام سے مشورے کے بعد اس بستی میں داخل نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: اِس موقع پر حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے کہا: (عمر!) اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہو؟، حضرت عمر نے فرمایا: ’’ اے ابوعبیدہ! کاش کہ یہ بات تمہارے علاوہ کسی اور نے کہی ہوتی (یعنی یہ بات آپ کے شایانِ شان نہیں ہے) ، کیونکہ حضرت عمر اُن سے اختلاف کو پسند نہیں فرماتے تھے، پس انہوں نے جواب دیا: ہاں! اللہ کی تقدیر سے بھاگ کر اُسی کی تقدیر کی پناہ میں جا رہا ہوں۔ اس بحث کے دوران حضرت عبدالرحمن بن عوف وہاں تشریف لائے اور کہا: ایسی صورتِ حال کے بارے میں میرے پاس رسول اللہ ﷺ کی ہدایت موجود ہے، آپ ﷺنے فرمایا: جب تم سنو کہ کسی بستی میں طاعون ہے، تو وہاں نہ جاؤ اور جس بستی میں یہ وبا آجائے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو، تو وہاں سے نکل کر باہر نہ جاؤ۔ حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: یہ حدیث سُن کر حضرت عمر نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور چلے گئے‘‘۔ نوٹ: یہ صحیح مسلم کی حدیث:2219 میں بیان کردہ طویل روایت کاخلاصہ ہے۔

    واضح رہے کہ طاعون (Plague) ایک متعدّی (Infectious) بیماری ہے، جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے۔ یہاں یہ تعلیم فرمایا گیا کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا تقدیر کے منافی نہیں ہے، بلکہ یہ تقدیر کا حصہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ’’لا عَدْویٰ‘‘ (کوئی بیماری متعدی نہیں ہے )، اس پر محمول ہے کہ بیماری کا متعدی ہونا اسباب میں سے ہے، مگر اسباب کی تاثیر مُسَبِّبُ الاَسباب یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے۔ اگر بیماری کی تاثیر ذاتی ہو تو جس جگہ وبا پھیل جائے، کوئی انسان نہ بچ پائے اور اگر دوا میں ذاتی شفا ہو، تو اُس دوا کے استعمال سے ہر بیمار شفا یاب ہوجائے، حالانکہ ہمارا مشاہدہ اس کے برعکس ہے۔ پس ہر چیز کی تاثیر اللہ تعالیٰ کے حکم اور مشیت پر موقوف ہے۔ صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: یارسول اللہ! ہمارے اونٹ ریگستان میں ہرنیوں کی طرح اچھل کود کر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی خارش زدہ اونٹ اُن میں اچانک داخل ہوتا ہے اور اُس کی وجہ سے سب کو خارش کی بیماری لگ جاتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پہلے اونٹ کو بیماری کہاں سے لگی؟ (بخاری:5770)‘‘۔ یعنی اسباب کی تاثیر اللہ کی مشیت پر موقوف ہے ۔

    رہا یہ سوال کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ طاعون زدہ بستی سے کوئی باہر نہ جائے، اگر سبھی صحت مند لوگ اپنی جان بچانے کے لیے بستی سے نکل کر باہر چلے جائیں تو وبا میں مبتلا لوگوں کا علاج کون کرے گا؟ اور قضائے الٰہی سے جن کی موت واقع ہوجائے، اُن کی نمازِ جنازہ، تکفین اور تدفین کا انتظام کون کرے گا؟، کیونکہ یہ امور بھی شریعت کی رُو سے لازم ہیں اور اسلامی معاشرے پر بحیثیتِ مجموعی فرضِ کفایہ ہیں۔

  • بیسٹ ٹری بیوٹ-جاوید چوہدری

    بیسٹ ٹری بیوٹ-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    جنرل پرویز مشرف اور افتخار محمد چوہدری دونوں بیک وقت خوش نصیب اور بدقسمت ترین کردار ہیں‘ آپ ان کی اٹھان اور آخر میں کٹی پتنگ کی طرح گرنے کی داستان پڑھیں‘ آپ توبہ استغفار پر مجبور ہو جائیں گے‘ یہ دونوں ثابت کرتے ہیں اللہ جن بااختیار لوگوں سے ناراض ہوتا ہے یہ انھیں کرسی سے اتار کر طویل زندگی دے دیتا ہے اور یہ باقی زندگی عظمت رفتہ کا نوحہ بن کر گزارتے ہیں‘ جنرل پرویز مشرف کون تھے؟

    یہ کلرک سید مشرف اور اسکول ٹیچر زرین مشرف کے بیٹے تھے‘ ماں کرائے کے پیسے بچاتی تھی‘ فروٹ خریدتی تھی اور پرویز مشرف یہ فروٹ کھاتے تھے‘ یہ بھائیوں کے مقابلے میں نالائق تھے‘ یہ فوج میں بھی ’’ایوریج‘‘ تھے‘ فوج سے کئی بار نکلتے نکلتے بچے‘ کیریئر کے شروع میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف نے ان کی مدد کی‘ جنرل اعجاز عظیم بھی ایک بار ان کے لیے غیبی فرشتہ بنے‘ یہ میجر جنرل راشد قریشی کے سسر تھے‘ جنرل مشرف اور راشد قریشی کے تعلقات کے پیچھے جنرل اعجاز عظیم کا احسان تھا‘ یہ 1998 میں منگلا کے کور کمانڈر تھے‘ ریٹائرمنٹ یقینی تھی‘ یہ سامان پیک کر رہے تھے‘ میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار نے ان کی سفارش کی اور میاں نواز شریف نے سینئر جرنیلوں کو مسترد کر کے انھیں آرمی چیف بنا دیا‘ یہ شکل اور خاندان سے مسکین لگتے تھے‘ میاں برادران نے ان کی مسکینی کی وجہ سے انھیں آرمی چیف بنایا تھا لیکن پھر اسی مسکین نے میاں صاحبان کا دھڑن تختہ کر دیا اور شریف خاندان ہیوی مینڈیٹ سمیت جنرل مشرف کی قید میں آگیا۔

    دنیا نے شروع میں جنرل پرویز مشرف کو قبول نہیں کیا‘ سعودی عرب‘ امریکا اور برطانیہ تینوں میاں نواز شریف کے ساتھ تھے‘ صدر بل کلنٹن 25 مارچ 2000 کو چند گھنٹوں کے لیے پاکستان آئے‘ صدر رفیق احمد تارڑ سے ملاقات کی اور سامنے بیٹھے جنرل پرویز مشرف کی طرف آنکھ اٹھا کربھی نہ دیکھا‘ سعودی سفیر بھی ملک کے نئے چیف ایگزیکٹو سے ملاقات کے لیے تیار نہیں تھا اور برطانیہ نے بھی پاکستان سے قطع تعلق کر لیا تھا لیکن پھر جنرل پرویز مشرف کی قسمت چمکی‘ نائن الیون ہوا اور یہ پوری دنیا کی آنکھ کا تارا بن گئے‘ وہ امریکا جو کبھی جنرل مشرف سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار نہیں تھا وہ انھیں کانگریس میں خطاب کی دعوت دینے لگا۔

    وہ سعودی عرب جس نے اپنے سفیر کو جنرل مشرف سے ملاقات سے روک دیا تھا وہ جنرل پرویز مشرف کے لیے خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ کے دروازے کھولنے لگا اور وہ برطانیہ جس نے پاکستان سے قطع تعلق کر رکھا تھا اس کی ملکہ محل کے دروازے کھول کر ملٹری ڈکٹیٹر کا استقبال کرنے لگی‘ میں دل سے یہ سمجھتا ہوں اگر نائن الیون ایک سال پہلے ہو گیا ہوتا تو جنرل مشرف میاں نواز شریف کو پھانسی دے دیتے اور دنیا کا کوئی ملک احتجاج نہ کرتا‘ یہ میاں نواز شریف کی ’’لک‘‘ تھی‘ نائن الیون شریف خاندان کی جلاوطنی کے بعد ہوا ورنہ آج تاریخ مختلف ہوتی‘ بہرحال نائن الیون کے بعد جنرل پرویز کا ستارہ مزید چمکنے لگا‘ یہ وہ سب کچھ کرتے چلے گئے جو ان کے دل میں آتا تھا‘ جنرل پرویز مشرف 2007تک عروج پر رہے لیکن پھر مارچ 2007میں ملک کے دوسرے خوش نصیب ترین شخص چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ان سے ٹکرا گئے۔

    افتخار محمد چوہدری بھی کوئٹہ کے درمیانے درجے کے وکیل تھے‘ یہ 1990میں عدلیہ میں آئے اور بلوچستان کے ڈومی سائل کی وجہ سے ترقی کرتے چلے گئے‘ جنوری 2000میں سپریم کورٹ کے چھ ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا‘ چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی بھی ان میں شامل تھے ‘افتخار محمد چوہدری کوئٹہ ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ آف پاکستان آ گئے‘یہ 30 جون 2005 کو ملکی تاریخ میں طویل ترین مدت کے لیے چیف جسٹس بن گئے‘ یہ پاکستانی عدلیہ کے خوش نصیب ترین جج اور جنرل مشرف فوج کے خوش قسمت ترین جرنیل تھے‘ یہ دونوں 2007میں ٹکرائے اور جنرل پرویز مشرف کا ستارہ پسپا ہونے لگا‘ جنرل مشرف نے 28 نومبر 2007 کو یونیفارم اتار دی۔

    یونیفارم اترنے کی دیر تھی جنرل مشرف کی طاقت‘ سیاست اور بھرم تینوں ننگے ہو گئے‘ شوکت عزیز لندن گئے اور واپس مڑ کر نہ دیکھا‘ چوہدریوں نے پاکستان مسلم لیگ ق پر قبضہ کر لیا‘ فوج نئے کمانڈر جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ہاتھ میں چلی گئی‘ ایوان صدر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے خالی کرا لیا ‘ یہ مہاجر بن کر ایم کیو ایم کی طرف گئے تو الطاف بھائی نے  پرانے کھاتے کھول لیے اور پیچھے رہ گئی جمع پونجی تو یہ درانیوں‘ میمنوں اور شیخوں کے پیٹ میں چلی گئی‘ امریکا‘ برطانیہ‘ یو اے ای اور سعودی عرب نے شروع میں اپنے پرانے ساتھی کا ساتھ دیا لیکن پھر یہ بھی پیچھے ہٹتے چلے گئے ‘ جنرل مشرف نے آخری کوشش کی‘ اپنی پارٹی بنائی لیکن جو باقی بچا تھا وہ فواد چوہدری جیسے ماہرین کے کام آ گیا اور یوں جنرل پرویز مشرف آہ‘ اف اور ہائے بن کر رہ گئے۔

    میاں نواز شریف 2013میں اقتدار میں آئے اور جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی شروع کر دی‘ یہ مشرف کو ہر صورت سزا دینا چاہتے تھے‘ جنرل کیانی اس معاملے میں نیوٹرل تھے لیکن پھر راحیل شریف آرمی چیف بن گئے‘ یہ اپنے شہید بھائی میجر شبیر شریف کے دوست جنرل مشرف کے ساتھ کھڑے ہو گئے‘ یہاں سے فوج اور حکومت میں اختلافات پیدا ہوئے‘ فوج نے جنرل مشرف کو آرمی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کرا دیا‘ پھر دھرنے آ گئے‘ حکومت کمزور ہو گئی‘ جنرل پرویز مشرف کو اس کمزوری کا فائدہ پہنچا‘ حکومت نے جنرل مشرف کا پیچھا چھوڑ دیا اور یوں یہ اپنی ’’مصروفیات‘‘ میں مصروف ہو گئے لیکن یہ پاکستان میں رہ رہ کر تھک گئے تھے۔

    یہ دبئی‘ لندن اور نیویارک کو ’’مس‘‘ کر رہے تھے‘ یہ مارچ 2016 میں ’’شدید بیمار‘‘ ہو گئے‘ کراچی کے نجی اسپتال میں داخل ہو ئے‘ ڈاکٹروں کے بورڈ نے ریڑھ کی ہڈی اور بائیں پاؤں میں تکلیف کی نشاندہی کی‘ پاکستان میں اس ’’خوفناک‘‘ مرض کا علاج نہیں تھا چنانچہ طبی بورڈ نے انھیں ملک سے باہر لے جانے کا مشورہ دیا‘ حکومت اور عدلیہ ’’خوفناک‘‘ مرض کی وجہ سے نرم پڑ گئی‘ جنرل مشرف کا نام ای سی ایل سے ہٹا اور یہ 17 مارچ کودبئی چلے گئے‘ آپ ہوائی سفر کی ’’برکت‘‘ ملاحظہ کیجیے‘ جنرل مشرف وہیل چیئر پر جہاز میں سوار ہوئے لیکن یہ دبئی میں دوڑتے ہوئے سیڑھیوں سے نیچے اترے اور اترتے ہی اپنے پسندیدہ سگار کا کش لگا کر صحت مندی کا جشن منایا۔

    جنرل مشرف پچھلے چھ ماہ سے لندن اور نیویارک میں زندگی انجوائے کر رہے ہیں جب کہ عدالتیں پاکستان میں دھڑا دھڑ ان کی جائیدادوں کی ضبطی کے احکامات جاری کر رہی ہیں‘ جنرل مشرف کی رہائش گاہوں پر حکومتی نوٹس لگ رہے ہیں‘ یہ سلسلہ چل رہا تھا لیکن پھر اچانک نہلے پر دہلہ آ گرا‘ جنرل پرویز مشرف اپنی اہلیہ صہبا مشرف کے ساتھ 25 ستمبر 2016 کو نیویارک میں اپنی بھتیجی کی شادی میں شریک ہوئے‘ خوشی سے ان کے پاؤں تھرکنے لگے‘ جنرل مشرف کے رقص کی ویڈیو ان کے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اپ لوڈ ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو گئی‘یہ ویڈیو دنیا کے کروڑوں لوگ دیکھ چکے ہیں‘ جنرل مشرف ویڈیو میں صحت مند لوگوں سے زیادہ اپنی کمر مٹکا رہے ہیں‘ یہ اس وقت 73 سال کے ہیں‘ آپ ان کے ہم عمر ہیں تو آپ اٹھ کر اپنی کمر مٹکا کر دیکھ لیجیے‘ آپ رقص میں جنرل مشرف کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔

    یہ کیا ہے؟ یہ رقص‘ رقص نہیں ہے یہ حکومت‘ عدلیہ اور طبی اخلاقیات کا جنازہ ہے‘ آپ غور کیجیے جنرل مشرف کو 11 پروفیسر ڈاکٹروں کے بورڈ نے ’’خوفناک مریض‘‘ قرار دیا تھا‘ بورڈ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر امتیاز ہاشمی تھے‘ یہ اور ان کے کولیگز تمام لوگ سینئر ڈاکٹر ہیں‘ یہ رپورٹ عدالت میں پیش ہوئی‘ عدالت نے رپورٹ من وعن تسلیم کر لی اور چوہدری نثار نے عدالت کا حکم مان کر جنرل مشرف کا نام ’’ای سی ایل‘‘ سے نکال دیا گویا یہ تمام لوگ اس جعل سازی میں ملوث ہیں۔

    ہماری سپریم کورٹ اگر واقعی سپریم ہے تو پھر یہ ان تمام لوگوں کو طلب کرے اور جنرل مشرف کی جھوٹی رپورٹ جاری کرنے پر ان کا محاسبہ کرے‘ عدالت کو سب سے پہلے 11 پروفیسروں کی ڈگریاں ضبط کرنی چاہئیں اور اس کے ساتھ ہی جونیئر عدالت‘ سندھ حکومت اور وفاقی وزارت داخلہ کو کٹہرے میں کھڑا کردینا چاہیے اور اگر سپریم کورٹ یہ نہیں کرتی تو پھر پوری قوم کو عدل‘ انصاف اور اخلاقیات کا جنازہ پڑھنا چاہیے‘ ہم سب باہر نکلیں‘ صفیں باندھیں‘ تکبیر پڑھیں‘ انصاف کا جنازہ ادا کریں‘ عدل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کریں اور پھر یک آواز ہو کر گائیں ’’میں شکر ونڈاں رے‘ میں شکر ونڈاں رے‘‘ اور اگر کمر اجازت دے تو ہم لوگ یہ گاتے جائیں اور جنرل مشرف کی طرح ناچتے جائیں۔

    یہ قوم کی طرف سے انصاف کے لیے بیسٹ ٹری بیوٹ ہوگا۔