Tag: بہن

  • حقوق کے چکر میں گرد آلود ہوتی عورت – اسریٰ غوری

    حقوق کے چکر میں گرد آلود ہوتی عورت – اسریٰ غوری

    اسری غوری پھر آگیا عورت کے حقوق کا دن۔ کیوں مناتے ہیں اس دن کو دنیا بھر میں؟
    کیا ملتا ہے یہ دن منانے سے؟
    کیا عورت کی تمام حق تلفیوں کی تلافی ہوجاتی ہے اس ایک دن کے منانے سے؟
    بس عورت سے حقوق کے نام پر وہ کچھ کروا لو جو کسی طرح اس کے مرتبہ کے شایان شان نہیں، برابری کا جھانسا دے کر اسے سڑکوں پر لے آؤ یا خوبصورتی کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے نام پر اس کے جسم کی قیمت لگا دو، چاہے ایک روپے والی ٹافی ہی کیوں نہ ہو۔ کتنی سستی خریدی جا رہی ہے آج کی عورت، مگر افسوس کہ اسے ادراک ہی نہیں۔
    رابیل غصے میں بولتی ہی چلی گئی. ابھی تو وہ ثمرا کے گھر جانے کا سوچ رہی تھی مگر فون کرنے پر پتہ چلا کہ وہ کسی این جی او کے ساتھ خواتین ڈے منانے کسی فائیو سٹار ہوٹل میں گئی ہوئی ہے۔
    اس نے فون رکھا اور اور سارا غصہ سامنے بیٹھی شانزے پر نکال دیا۔
    شانزے ہلکے سے مسکرائی اور کہنے لگی، عورت کو وہ تمام حقوق تو چودہ سو سال پہلے بتا دیے گئے تھے، جن کی تلاش میں یہ نادان سرگرداں ہیں، اور آج اس سے بھی کم ان لوگوں سے مانگنے چلے ہیں جو عورت کو کچھ دینے نہیں بلکہ اس سے سب چھیننے کے درپے ہیں۔
    کیا صرف حقوق بتا دینے سے حقوق مل جاتے ہیں؟ رابیل نے شانزے کی بات کاٹتے ہوئے دکھ بھرے لہجے میں سوال کرڈالا۔
    کیا مطلب کیا کہنا چاہتی ہو ؟ شانزے نے چونک کر پوچھا۔
    مطلب یہ کہ اگر یہ این جی اوز اور مغربی تہذیب کے دلدادہ ایک مشرقی عورت کو حقوق کا جھانسا دینے میں کامیاب ہوتے ہیں تو کیوں آخر؟
    کیا کبھی آپ نے یہ سوچا کہ جن حقوق کی بات چودہ سو سال پہلے کی گئی تھی، ان میں سے کتنے حقوق ہیں جو آج یہ معاشرہ عورت کو دے رہا ہے؟
    کیا اس معاشرے نے عورت کو اس کے وہ سب حقوق دے دیے ہیں جو اسے اسلام نے دیے تھے؟
    ایک عورت جس کے لیے کہاگیا کہ ماں ہو تو پیروں تلے جنت، بیٹی ہو تو دوزخ سے آزادی کا پروانہ، بیوی ہو تو بہترین متاع، بہن ہو تو عزت، کہاں ہے آج وہ جنتیں؟ جائیں ذرا جا کر اولڈ ہاؤسز میں دیکھیں، ان دیمک لگتی جنتوں کو جو اپنی اولادوں کے ہاتھوں اس انجام سے دوچار ہوئی ہیں.
    وہ رحمتوں کی قدر کرنے والے کہاں ہیں؟ میں کبھی بھی نہیں بھول سکتی وہ روح کو ہلا دینے والا واقعہ جب ثمینہ کے پڑوس میں پانچویں بیٹی پیدا ہونے پر باپ نے تیل گرم کر کے کھولتے تیل میں نومولود بچی کو ۔
    آہ ۔۔۔
    رابیل کی آواز رندھ گئی تھی اور آنکھیں بہنے لگی تھیں۔
    اور بہن جو عزت کہلاتی ہے مگر سب کچھ کھلے عام کرتا پھرتا بھائی جب بہن کے بارے میں کوئی ایسی بات سن لیتا ہے تو اس کی غیرت جوش میں آجاتی ہے اور وہ تصدیق کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا اور غیرت کے نام پر اپنی ہی بہن کا قتل کرنے سے نہیں چوکتا۔
    یعنی اپنے لیے کچھ اور معیار اور بہن کے لیے کچھ اور۔
    وجہ یہ کہ وہ ایک عورت ہے؟
    دنیا کی بہترین متاع وہ ہے جس کے لطیفہ بنائے جاتے ہیں، قہقہہ لگائے جاتے ہیں، اور پبلک میں ایسے ڈسکس ہوتی ہے جیسے اس کی کوئی عزت نفس ہی نہیں، گھر کی عزتوں کے چوک میں بیٹھ کر ٹھٹھے نہیں اڑائے جاتے۔ اسے ایسا بنا دینا جیسے ہر برائی کی جڑ بس ایک بیوی ہی ہے۔ جس کی خوبیوں کو سراہنے کا، اس کی تعریف کرنے کا، اسے محبت دینا فرض کر دیا شوہر پر، مگر شوہر اس کی ہر خوبی کو نظر انداز کرنا اور ہر خامی کو اجاگر کرنا فرض عین سمجھتا ہے۔
    جو سجی سنوری بیوی پر ایک نگاہ نہیں ڈال سکتا، اس کی نظریں دور جاتی ماسی کو بھی گلی نکڑ تک چھوڑنے جاتی ہیں۔
    ابھی پچھلے ہفتے ہی تو میں اور سارا ایک ساتھ پارلر گئے تھے، جب پارلر والی نے اس کی آئی بروز زیادہ باریک کردی تھیں تو میں نے اسے کہا کہ لو آج تمھارا شوہر تمہیں نہیں پہچانے گا، بالکل ہی لک چینج آ رہی ہے۔
    اس کے لہجہ سے جھلکتی احساس محرومی کو میں نے خوب محسوس کر لیا تھا.
    وہ بولی، ان کو تو اس وقت بھی نہیں پتہ چلتا اگر یہ میری پوری آئی بروز بھی غائب کر دیتی۔ ان کو نہیں پتہ ہوتا کہ میں کیا پہنتی ہوں، کیسی لگتی ہوں؟ وہ بولتے ایک دم چپ ہوگئی تھی۔ شاید پارلر میں بیٹھی دوسری خواتین کی موجودگی کے احساس سے.
    ایک دم مجھے ساتھ والی مسز گل یاد آئیں کہ اکثر اپنے شوہر کی بات کرتے ہوئے کہتی تھیں کہ گل کا تو یہ حال ہے کہ وہ میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھا ہوتا ہے اور اس کو ساتھ والی گاڑی میں بیٹھی عورت کی لپ سٹک کا کلر بھی پتا چل جاتا ہے، کہتا ہے اس کی لپ اسٹک کا کلر دیکھو کتنا اچھا ہے، تم ایسی کلر کی کیوں نہیں لگاتی۔ میرا خون جل جاتا ہے کہ ابھی بھی میں نے اسی کلر کی لگائی ہوئی ہے، تم نے دیکھا بھی ہے۔ ایک کے حقوق ادا نہیں کرسکتے اور شوق چار چار کا۔ مسز گل بڑ بڑاتیں۔
    میں نے اس وقت تو ان کی بات سن کر ہنسی میں اڑا دی تھی مگر آج مجھے لگتا ہے کہ وہ ان کی اندر کی خواہش تھی محبت کی، سراہے جانے کی، جو اب دکھ بن کر نکل رہی تھی۔
    مگر یہ حقیقت ہے شانزے کہ جاہل سے جاہل مرد جسے قرآن کی کوئی آیت یاد نہ ہو مگر اسے یہ ضرور یاد ہوگا کہ اسلام نے چار شادیوں کی اجازت دی ہے، اسے یہ نہیں معلوم کہ اگر دونوں بیویوں میں عدل نہیں کرپایا تو قیامت کے دن آدھے دھڑ سے اٹھایا جائےگا۔ اور یہ کہ یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ اگر تم دوسری بیوی لانے کا اردہ کرلو تو جو کچھ پہلی کو دے چکے ہو، اس میں سے کچھ بھی واپس نہیں لے سکتے۔
    یاد ہے بشری باجی کی بہن، چار سال سے شوہر طلاق دیتا ہے نہ ساتھ رکھتا ہے، خود دوسری شادی کر چکا اور اپنا دیا ہوا سامان دینا تو درکنا وہ تو اس کے جہیز کا سامان تک دینے کو تیار نہیں، چار سال سے خلع کا مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے۔ کیا قصور اس کا، یہی نا کہ بس ایک عورت ہے؟
    ایک درجہ ہی زیادہ دیا ہے نا اللہ پاک نے مرد کو۔
    مگر بیوی سے محبت سے پیش آنے اور اس کی عزت کرنے کا حکم دیا ہے، کسی کی عزت نفس کو مجروح کرنے کی اجازت تو نہیں دی نا، ایک انسان ہونے کے ناتے تو برابر کے حقوق دیے ہیں۔ پھر جو سارا دن گھر میں ماسی بھی بنی رہے تو بھی اس کی ماسی جتنی عزت بھی نہیں۔ پچیس تیس سال کی ازدواجی زندگی میں بہترین ماہ و سال دینے کے بعد بھی مرد کا پہلا طعنہ اور دھمکی یہی ہوتی ہے نا کہ نہیں کر سکتی گزارا تو جاؤ، یہ راستہ ہے، جاؤ اپنے باپ کے گھر۔
    پھر کہتے ہیں کہ معاشرے میں طلاق کا ریشو بہت بڑھ گیا۔
    کیا یہ بھی سوچا کہ کیوں بڑھا ہے؟ یہی ہیں وہ وجوہات جو گھروں کو گھر نہیں بننے دیتیں۔
    معاشروں میں بگاڑ حق تلفیوں کی وجہ سے آتے ہیں، عورت محبت چاہتی ہے اور وہ محبت جو صرف اس کا شوہر دے سکتا ہے مگر آج جب اسے وہ محبت وہاں سے نہیں ملتی تو شیطان اسے دوسری طرف لے جانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
    تمہیں یاد ہے نا شاہین خالہ کی بیٹی رضیہ، چار بچوں کی ماں، بڑی بیٹی بارہ سال کی اور سب سے چھوٹا بیٹا تین سال کا، یاد ہے ہم پچھلے مہینے جب گاؤں گئے تھے تو میں رات اسی کے ساتھ سوئی تھی، اس نے جو کچھ بتایا، میرے لیےوہ سب ناقابل یقین تھا۔
    اس کی فیس بک پر کراچی کے کسی لڑکے سے دوستی ہوگئی تھی جو ڈاکٹر بن رہا تھا اور وہ اس سے شادی کا وعدہ کر چکا تھا۔
    میں سن کر چونک گئی کہ تم شادی شدہ ہو۔
    اس نے کہا کہ میں نے خلع لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
    مگر کیوں؟
    اس نے اپنے ہاتھوں کو گھورتے ہوئے کہا، شاید مجھ سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں کر پا رہی تھی، تم جانتی ہو نا میری شادی کو تیرہ برس ہونے کو آئے ہیں، اور میں نے آئی آر میں ماسٹرز کیا تھا، اور پوزیشن ہولڈر ہوں اپنی یونیورسٹی کی، مگر آج مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں گھر کی ہر خرابی کی ذمہ دار، ایک جاہل، پھوہڑ، ناسمجھ اور بدتمیز نافرمان عورت ہوں، اور یہ سب کون مجھے اٹھتے بیٹھتے باور کرواتا ہے، وہی جس کو اللہ نے میرا لباس بنایا اور مجھے جس کا لباس بنایا، جس کو مجھ سے محبت کرنے کہا گیا، مگر وہ مجھے ہر ایک کے سامنے ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، اس وقت مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں بے لباس ہوگئی ہوں، میرا لباس پھٹ گیا ہے، میری روح تار تار ہوگئی ہے ۔ میری تعلیم، میری عبادتیں، میرے لیے طعنہ بن چکی ہیں، جب بھی کوئی بات ہونے لگتی ہے، میں کچھ کہوں تو جواب ملتا ہے، اپنی ڈگری کی دھونس مت دو، اپنے پاس رکھو، مجھے مت پڑھاؤ، مجھے پتہ ہے تم کتنی نیک ہو۔
    میں خاموشی سے اس کا ایک لفظ پنے اندر گرتا محسوس کر رہی تھی۔
    میں نے ٹوٹے ٹوٹے لہجے میں اس سے پوچھا تمہاری تیرہ برس کی ازدواجی زندگی میں کوئی محبت کے لمحات نہیں آئے، تمہارے چار بچے ہیں؟
    اس نے میری بات کاٹ کر کہا، تم جسے ازدواجی تعلقات کہتی ہو، وہ مرد کی ضرورت تو ہو سکتی ہے مگر محبت نہیں۔ وہ ضرورت تو جانوروں کی بھی ہوتی ہے، بچے ان کے بھی ہوتے ہیں مگر یہ محبت ہی ہے جو انسان اور جانور کے درمیان تمیز کرتی ہے، محبت چند لمحوں کے لیے نہیں ہوتی، محبت اور عزت ساتھ ہوں تو گھر بنتے ہیں، جہاں عزت نہ ہو وہاں محبت پیدا ہونے کا امکان بھی نہیں ہوتا۔
    وہ کون ہے جو تمہیں یہ سب دے سکتا ہے؟ میں نے سوال کیا۔
    وہ میڈیکل کے فائنل ائیر میں ہے، وہ میری ہر بات سمجھتا ہے، میری کیفیات کو محسوس کرتا ہے، وہ میری عزت کرتا ہے، وہ سب جانتا ہے میرے بارے میں، اس کے باوجود مجھے اپنانے کو تیار ہے۔
    تم جانتی ہو، یہ سب گناہ ہے؟ میرا اگلا سوال تھا۔
    ہاں! میں جانتی ہوں مگر رابیل، اگر وہ نہ ہوتا تو میں شاید خودکشی کر لیتی یا میرا نروس بریک ڈاون ہوجاتا۔
    وہ مجھے وقت دیتا ہے، مجھے سنتا ہے، اس نے مجھ میں زندگی کی خواہش پیدا کی، میں بھی اسی گناہ سے بچنے کے لیے خلع لینے کا فیصلہ کر چکی ہوں۔
    میں سناٹے میں تھی، رضیہ جہاں تک پہنچ چکی تھی، وہاں اسے سمجھانا بےکار تھا۔ مگر یہ سوچ رہی تھی کہ دونوں طرف سے وہ مرد ہی کے ہاتھوں پامال ہو رہی تھی، ایک طرف ایک مرد اگر اس کی عزت نفس کو مجروح کر رہا تھا، اسے اس کا جائز مقام نہیں دے رہا تھا، اور اسے اس مقام تک لانے والا تھا، تو دوسری طرف اسے بےراہ روی پر ڈالنے اور خواب دکھانے والا بھی اک مرد ہی تھا۔
    رضیہ یہ دنیا بھول بھلیوں کی طرح ہے، کبھی کبھی جو نظر آرہا ہوتا ہے، حقیقت میں وہ ویسا ہوتا نہیں، اور کبھی ہم ان پگڈنڈیوں سے بچنے کی چاہ میں انھی میں کھو جاتے ہیں اور کبھی ان ہی میں رلتے ہوئے پھر وہیں آ کھڑے ہوتے ہیں، جہاں سے نکلے تھے، اپنی زندگی کو ان پگڈنڈیوں سے بچانے کے لیے بس اللہ کی ذات کا سہارا اور اسی پر بھروسہ کام آسکتا ہے، میں بس اسے اتنا ہی کہہ پائی تھی۔
    دیواروں سے صرف مکان بنتے ہیں شانزے! انھیں گھر بنانا ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے سے اور محبتوں کے تبادلے سے بنتا ہے۔
    محبتیں جن کا حق ہوں ان کے لیے ناپید ہوجائیں تو پھر ایسے معاشرے ناسور بن جایا کرتے ہیں۔
    رابیل کا چہرہ بولتے بولتے سرخ ہوچکا تھا اور آج لگا تھا جیسے وہ ساری دنیا کی عورتوں کی وکیل بنی کھڑی ہے اور اس نے آج سب حساب چکا دینے کی ٹھانی ہے۔
    شانزے نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور اپنے ساتھ لگا لیا۔
    دھیرے سے بولی، اچھا تم بتاؤ کہ اس میں اسلام کا کیا قصور؟
    میں نے اسلام کو کچھ نہیں کہا مگر میں صرف اتنا کہتی ہوں آپ آج اس معاشرے میں اسلام کے دیے ہوئے حقوق عورت کو دینا شروع کر دیں تو آپ کی عورت مغربی تہذیب کے جھانسے میں نہیں آئے گی، وہ ان سب کو دھتکار دے گی مگر یہ تب ہوگا جب ماؤں کی جنت تلاش کرنے والے اس وقت اس کے پاس ہوں گے جب اس کا ساتھ اس کے اپنے اعضاء بھی نہیں دیتے۔
    بہترین متاع کو بہترین متاع بنانا ہوگا، سمجھنا ہوگا۔ میں یہ نہیں کہتی کہ عورتیں سب ٹھیک کرتی ہیں مگر میرے نبی ﷺ نے تو لونڈی تک کی تربیت کر کے اس سے نکاح کرنے کا کہا، تو کیا اس بہترین متاع کی تربیت نہیں ہوسکتی؟
    ہوسکتی ہے شانزے! عورت سب کچھ چھوڑ دیتی ہے، سراپا تبدیل ہو سکتی ہے، مگر محبت سے، نفرت، سختی اور تذلیل سے نہیں۔
    جھوٹ جوگناہ کبیرہ کہا گیا، مگر میاں بیوی کے درمیان جو محبت کے لیے بولا جائے، اسے جھوٹ نہیں کہا گیا۔
    کیا کہتا ہے رب کہ اگر تمہیں اپنی بیوی کی ایک بات نہ پسند آئے تو درگزر کرو کہ نجانے اور کتنی خوبیاں اس میں ہوں گی۔
    سختی کا تو حکم اللہ نے بھی نہیں دیا، نبی ﷺ نے بھی فرمایا کہ عورت کی تخلیق پسلی سے کی گئی، اس لیے اس میں ٹیڑھ ہے، اس کے ساتھ نرمی سے رہو۔
    جس کی تخلیق اللہ نے ہی ایسی کی ہو، اس میں اس عورت کیا کیا قصور۔
    جو مرد اپنی بیویوں کی عزت کرتے ہیں، انہیں محبت دیتے ہیں، ان کے گھر جنت ہوتے ہیں، اگرچہ ایسی مثالیں بہت کم ہی ہیں، مگر ہیں تو سہی نا۔ کیا ہمارے نبیﷺ کی مثال ہمارے سامنے نہیں، ان کا اسوہ ﷺ کہ کیسے انہوں نے اپنی ازواج سے محبت کی؟ کیسے ان کی تربیت کی اور کیسے انہیں رکھا؟ سب کچھ ہے بس، اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے،
    بیٹی کو دوزخ سے آزادی کا پروانہ بنانا ہوگا، اس کی بہترین تربیت کر کے۔ بہن کو عزت بنانے کے لیے بھائی کو عزت دار بننا ہوگا۔ معاشرہ مردوں کا نہیں بلکہ اسلامی معاشرہ بنانا ہوگا۔
    تب ہی ہم اسلام کے چودہ سو سال پہلے کے دیے ہوئے حقوق عورت کو دے سکیں گے ورنہ مزید چودہ سو سال تک بھی اگر ہم صرف یہ پڑھ پڑھ کر سناتے رہے تو بھی کچھ نہیں ہوگا۔ صرف سنانے سے حقوق نہیں مل جایا کرتے، حقوق و فرائض ادائیگی کے لیے ہیں، دوسروں کی خوبیوں کو دل سے تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ اصلاح کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کی غلطیوں کوتاہیوں سے صرف نظر کیا جائے، پہلے اسے یہ یقین دیا جائے کہ سامنے اس سے محبت کرنے والا اور اس کی پرواہ کرنے والا ہے جو کبھی اس کی تذلیل نہیں چاہے گا، اور جو اس کے لیے سب بہتر سوچ رکھنے والا ہے، ایک عورت کو یہ یقین اور اعتبار دینا ہوگا، جب یہ دے دیا جائےگا تو تم یقین جانو شانزے! عورت خود کو اس کے لیے قربان کر دینے سے بھی دریغ نہیں کرے گی اور عورت کا یہ اعتماد ایک نسل اور قوم کا اعتماد بن جائے گا.
    شانزے اس کی تمام باتوں کے جواب میں صرف آمین کہہ پائی کہ ان میں سے کسی بات سے اختلاف ممکن نہ تھا۔

  • مشترکہ خاندانی نظام، نعمت ہے یا زحمت؟ ریحان اصغر سید

    مشترکہ خاندانی نظام، نعمت ہے یا زحمت؟ ریحان اصغر سید

    ریحان اصغر سید جوائنٹ فیملی سسٹم اسلامی نہیں ہندوانہ نظام ہے ! نامی بلاگ جو کچھ دن پہلے دلیل پر ہی شائع ہوا ہے، نظروں سے گزرا۔ بلاگ میں مخصوص پاکستانی انداز میں ایک انتہائی مؤقف لیتے ہوئے اپنے حق میں دلائل دیے گئے ہیں۔ پڑھ کے یہ احساس ہوا کہ اس وسیع موضوع کے بہت سے گوشوں کو شعوری یا لاشعوری طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ میرے ذاتی خیال میں یہ دو انتہائی سنجیدہ موضوعات ہیں جھنیں ایک ہی بلاگ میں بھگتانے کی کوشش کی گئی ہے۔

    پہلا یہ کہ یہ سوال اہم نہیں کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام ہندوانہ نظام ہے یا نہیں؟ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام اسلام مخالف ہے؟
    دوسرا یہ کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام پاکستانی معاشرے کے لیے زیادہ موزوں اور سود مند ہے یا نہیں؟

    مذکورہ بلاگ کے نام میں پہلے موضوع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور متن میں اسے دوسرے موضوع کی مدد سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ بہتر یہ ہو گا کہ ان کو علیحدہ علیحدہ موضوع بحث بنایا جائے۔ پہلے دوسرے سوال پر بات کر لیتے ہیں کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام پاکستان کے شہریوں کے لیے ایک رحمت ہے یا زحمت؟

    حضرت علی بن عثمان ہجویری ؒ سے کسی نے دریافت کیا، حضرت، شادی کرنا سنت ہے یا واجب؟
    آپ نے فرمایا، جو طاقت رکھتا ہو اور اس کے گناہ میں پڑ جانے کا قوی اندیشہ ہو اس کے لیے فرض ہے۔ جو طاقت رکھتا ہو لیکن نفس پر قدرت رکھتا ہو اس کے لیے واجب ہے۔ صحت مند لیکن تنگ دست کے لیے سنت ہے اور نامرد کے لیے حرام ہے۔

    ایسا ہی کچھ معاملہ مشترکہ خاندانی نظام کا بھی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں کہیں اسےاپنانا مجبوری ہے، کہیں یہ خیر کا باعث ہے اور کہیں یہ ٹوٹ پھوٹ اور ناکامی کا شکار ہے۔ بیشتر جگہوں پر یہ یہ واحد چوائس اور مجبوری کے طور پر نافذ ہے اور جب آپ کے پاس کوئی دوسری چوائس نہ ہو تو بہتر ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں رہتے ہوئے نظام میں آنے والی خرابیوں کو دور کر کے بہتری کی طرف سفر جاری رکھا جائے۔

    اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً 37 فیصد حصہ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ یعنی تقریباً سات کروڑ لوگ روٹی اور فاقے کے درمیان ڈول رہے ہیں کسی قسم کی جائیداد اور اس کی تقسیم ان کے لیے دیوانے کا خواب ہے ۔ ایک دو کمرے کے مکان میں چھ سے لے کر درجن تک لوگ رہتے ہیں۔ تمام تر مسائل اور مشکالات کے باوجود مشترکہ خاندانی نظام کو اپنائے رکھنا ان کی مجبوری ہے۔

    اگر پاکستان کی اشرافیہ اور اپر مڈل کلاس کی بات کریں تو جوائنٹ فیملی سسٹم ان کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ یہ سب لوگ اپنے الگ الگ شاندار محل نما گھروں اور مختلف شہروں، ملکوں میں مقیم ہوتے ہیں۔ اگر کہیں اکٹھے ہوں بھی تو پورشن اور ہانڈی روٹی علحیدہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس ہی رہ جاتی ہے۔ ان میں سرکاری ملازم بھی ہوتے ہیں اور درمیانے اور چھوٹے کاروباری لوگ بھی۔ روزگار کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی اکثریت کو بھی آپ ان میں شامل کر لیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جس میں مشترکہ خاندانی نظام وجہ نزاع بنا ہوا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اس طبقے کے لیے بھی اس نظام کا متبادل ڈھونڈنا آسان نہیں۔ کمر توڑ مہنگائی، محدود آمدنی، کم وسائل، مہنگے پلاٹ، بےپناہ تعمیری لاگت، اور کرایہ کے گھر کے جھنجھٹوں کی وجہ سے مشترکہ خاندانی نظام سے چاہ کر بھی چھٹکارا پانا اس طبقے کے لیے بھی آسان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ دیگر مسائل اور سوال ہیں۔

    اگر گھر میں چار پانچ بھائی رہتے ہیں، والد کی وفات کے بعد اگر وہ مکان بیچ دیں تو بہنوں کو بھی حصہ دینے کے بعد ان کے پاس شاید آٹھ دس لاکھ بھی حصہ نہیں آئے گا۔ ظاہر ہے ان پیسوں میں پلاٹ ملنا ہی مشکل ہے، سب کے گھر کیسے بنیں گے؟ چھوٹے اور طالب علم بھائی اپنا کرایہ اور دیگر اخراجات کیسے پورے کریں گے؟ چھوٹی بہنیں اور والدہ کہاں جائیں گی؟ ایک اوسط مڈل کلاس لڑکی کی شادی پر آٹھ سے دس لاکھ جہیز اور دوسرے اخراجات آتے ہیں، والد کے بعد وہ کون پورے کرے گا؟

    عموماً کاروبار بڑے بھائی ہی سنبھالتے ہیں۔ اگر بیرون ملک بھیجا گیا تھا تو والدین نے جمع پونجی اور زیوارت بیچ کے بھیجا تھا۔ بڑے لڑکوں کی شادی بھی والد صاحب خود کر جاتے ہیں جس میں لگنے والے لاکھوں کا خرچہ بھی انھوں نے اُٹھایا تھا۔ یہ اضافی وسائل اور سہولیات دوسرے بھائیوں کے حصے میں تو نہیں آئیں؟ اگر کوئی شخص اس حال میں دنیا سے چلا گیا کہ اس کے دو تین بچے سیٹل اور دو تین بچے پڑھ رہے ہیں ۔ بچوں کے لیے طالب علمی اور نوکری ملنے تک کا مرحلہ بہت حساس ہوتا ہے، اگر ان کی کفالت سے ہاتھ اٹھا لیا جائے تو ہر گھر میں کچھ بچوں کا مستقبل تباہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ گھر اور کاروبار کی فوری بندر بانٹ سے کاروبار بھی ختم ہو جائے گا اور سب کے سروں سے اپنی چھت بھی چھن جائے گی اور امید ہے بیشتر نوجوان کچھ ہی عرصے میں اپنا حصہ ضائع کر کے سڑک پر آ جائیں گئے (یہاں وارثت اور قرآن کے احکام کی خلاف ورزی کی تاویل نہیں دی جا رہی، اس بات کی وضاحت اگلے بلاگ میں کی جائے گی.)

    دوسری طرف مشترکہ خاندانی نظام سے کچھ حقیقی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں جس کا ذکر مذکورہ بلاگ میں بھی کیا گیا ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو ان مسائل کا شکار طبقے کی بھی دو تین قسمیں ہیں۔ پہلی قسم کے وہ گھر ہیں جس میں تین چار بھائی اپنے بال بچوں اور والدین کی زندگی کی صورت میں ان کے سمیت ایک گھر میں رہتے ہیں، سب برسرروزگار ہیں، کوئی نوکری کرتا ہے تو کوئی دکان، کوئی رزق کی تلاش میں بیرون ملک مقیم ہے لیکن اس کے بیوی بچے اسی گھر میں رہتے ہیں، بچے بڑے ہو رہے ہیں، ان کی آپسی لڑائیوں، خواتین کی گھریلو سیاست اور بھائیوں کی آمدنی کے تفاوت کی وجہ سے دلوں میں نفرتیں اور دوریاں جنم لے رہی ہیں لیکن کوئی بھی فی الحال علحیدہ کرایہ کا یہ اپنا گھر افورڈ نہیں کر سکتا۔ یا سب نے مکان کی تعمیر میں حصہ ڈال رکھا ہے، کوئی بھی گھر چھوڑنے کو تیار نہیں، بعض دفعہ والدین آسودہ اور صاحب جائیداد ہوتے ہیں، ان کی خوشنودی بھی عزیز رکھنی پڑتی ہے۔ اور کچھ لوگ واقعی ہی سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے معاشی طور پر کمزور بہن بھائیوں کی مدد کریں اور ان کو سہارا دیں، اس سے بعض دفعہ ان کے اپنے بیوی بچوں کے حقوق کچھ متاثر ہوتے ہیں لیکن یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔

    اکثر مشترکہ خاندانی نظام کے مسائل کی وجہ معاشی کمزوری، معاشی ناہمواری، والدین کی ایک دو بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کی کامیابی کے لیے والدین کا کردار انتہائی اہم ہے۔ بہتر ہو کہ والدین بچپن سے ہی بڑے بچوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں۔ جب بوجھ بڑے بچوں پر پڑے تو چھوٹے بچوں کو جلد سے جلد عملی زندگی کے لیے تیار کیا جائے اور کامیاب ہونے کی صورت میں بھائی اور ان کے بچوں کے ساتھ ان سے بڑھ کے نیکی اور احسان کریں۔ والدین سب بچوں سے ہر معاملے میں یکساں سلوک کریں۔ کماؤ اور بیرون ملک بچوں کے بچوں کی خصوصی نگہداشت اور پروٹوکول ان کا حق ہے، سب بھائیوں اور بہنوں سے یکساں اور پیار والا سلوک کیا جائے۔ کمانے والے کے پیسوں سے بنائی گئی جائیداد اس کے نام پر ہی خریدی جائے۔ اگر سارے بچے آسودہ حال ہیں اور اکٹھے نہیں رہنا چاہتے تو ان کو ایموشنل بلیک میل کر کے اکٹھا رہنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ گھر بناتے ہوئے پورشن اور نقشہ ہی اس حساب سے ترتیب دیا جائے کہ بعد میں ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی علیحدہ رہائش اختیار کی جا سکے۔ بچوں کی لڑائیوں کو سنجیدہ نہ لیا جائے، جب ایک ہی گھر میں رہنا ہے تو تحمل، درگزر اور برداشت، سے کام لیا جائے۔ اولاد کو والدین ، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کے حقوق کے معاملے میں توازن لانے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر والدین کی حق تلفی کسی صورت نہیں ہونی چاہیے، اگر کوئی زرعی زمین یا دوسری وارثت ہے تو اس کی جلد سے جلد منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے، بلکہ اگر حکومت اگر کوئی ایسا قانون بنا دے کہ جس میں زمین کی مقررہ حد کی وارثت میں مالک کے فوت ہوتے ہی شرعی طریقے کے مطابق اس کی تقیسم متعلقہ حق داروں میں خودکار طریقے سے ہو جائے تو کافی مسائل سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔

    مشترکہ خاندانی نظام کوئی آئیڈیل نظام تو نہیں لیکن پاکستان کی عوام کے موجودہ حالات کے لحاظ سے نہ صرف کافی موزوں ہے بلکہ ہماری معاشرتی اور سماجی نظام زندگی سے کافی ہم آہنگ ہے۔ کیوں کہ یورپ اور امریکہ وغیرہ میں جہاں ایک اکائی ایک خاندان کا نظام رائج ہے وہاں ویلفیئر حکومتیں کام کر رہی ہیں، سوشل قرضوں کا نظام مؤثر ہے۔ نابالغ، طالب علموں، اور بوڑھے لوگوں کی بہبود اور پرورش کوئی مسئلہ نہیں۔ علحیدہ مکان بنک فنانس پر لینا یا کسی بھی برسر روزگار شخص کے لیے کرایہ کا مکان اور ہانڈی روٹی اس کی کل آمدنی کا تیس سے پچاس فیصد بنتا ہے، جبکہ پاکستان میں صورتحال یکسر مختلف ہے۔ یہاں مشترکہ خاندانی نظام کے علاوہ کوئی سوشل سکیورٹی کا نظام میسر نہیں ہے، اس لیے ابھی مشترکہ خاندانی نظام ہی ہمارے بچاؤ کی واحد صورت ہے۔

    اگلے بلاگ میں قرآن و حدیث اور سنت رسولﷺ کی روشنی میں ہم دیکھیں گے کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام واقعی ہی اسلام کی آئیڈیالوجی سے متصادم ہے؟

  • خوش قسمت بہن بھائی – محمد سجاد

    خوش قسمت بہن بھائی – محمد سجاد

    محمد سجاد شادی سے پہلے بھائیوں کو اپنی بہن یا بہنوں سے اپنے بہت سارے کام کرانے ہوتے ہیں۔ چوں کہ امی گھر کے ضروری کاموں جیسے کچن ، کپڑے دھونے یا کسی خوشی و غم میں جانا وغیرہ میں مصروف ہوتی ہیں، ایسے میں بہن کا رشتہ ایسا ہوتا ہے جو اپنی بھائیوں کے سارے کام بخوشی بھاگتے بھاگتے کرتی ہیں۔ بھائیوں کی ڈانٹ ڈپٹ بھی خوشی سے برداشت کرتی ہے جبکہ بھائی بھی اپنی بہنوں سے بےحد محبت اور انسیت رکھتے ہیں۔ بھائیوں کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی بہنوں کو خوش رکھیں، ان کی ضروریات پوری کریں، اور ان کے ناز اٹھائیں۔ بہن اگر ایک ہو تو لاڈ و پیار اور بھی زیادہ ہوتا ہے۔ بہن بھائی ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھتے ہیں، کبھی شرارت، کبھی مستی، کبھی غصہ، کبھی ڈانٹ، کبھی لاڈ و پیار، اسی طرح دن رات گزرتے رہتے ہیں۔ اور بچے بچپن کی دہلیز عبور کرکے جوانی میں داخل ہوجاتے ہیں جہاں بہنیں دوسرے گھر بیاہی جاتی ہیں اور بھائیوں کے لیے دلہنیں لائی جاتی ہیں۔ یہ قدرت کا قانون ہے، اسی معاشرہ اور دنیا قائم ہے۔

    بھائی کی شادی ہو تو سب سے زیادہ خوشی بہنوں کو ہوتی ہے، کپڑے بناتی تیاریاں کرتی ہیں۔ خوشی سے پاؤں زمین پر نہیں پڑتے، ان کے ناز دیکھنے کے لائق ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف جب بہن کی رخصتی کا وقت آتا ہے تو بھائی کتنا بھی بہادر یا ڈھیٹ اور سخت دل ہو، اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔ یہ آنسو خوشی کے بھی ہوتے ہیں، اور جدائی کے غم کے بھی، خوشی اس بات کی کہ بہن اس پرفتن دورمیں عزت اور حیا کے ساتھ بیاہی جا رہی ہے، اور غم اس بات کا کہ بچپن کی ساتھی، بھائیوں کی لاڈلی، گھر کی جان رخصت ہو رہی ہوتی ہے۔ پشتو میں ایک ٹپہ ہے۔
    خوئندی چی کینی رونڑہ ستائی
    رونڑہ چی کینی خوئندی بل لہ ورکوینہ
    (یعنی جب بہنیں آپس میں بیٹھتی ہیں تو بھائیوں کو یاد کرتی ہیں اور جب بھائی آپس میں بیٹھتے ہیں تو بہنیں دوسروں کو بیاہ کر دیتے ہیں)

    بہن کی رخصتی انسان کو دکھی کرتی ہے، اس کیفیت کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جو خود اس مرحلے سے گزرے ہو۔ بہنیں اپنی معصومانہ اور پیار بھری باتوں سے گھر میں خوشیاں بکھیرتی ہیں۔ ان کی شوخیوں اور شرارتوں سے گھر کے آنگن مہکتے ہیں۔ بہنیں بھائیوں کے لیے ہر وقت دعائیں کرتیں، اپنے حصے کی قربانی دیتی ہیں، بھائی بھی بہنوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتے۔ بہنیں بڑی محبت سے بھائیوں کی بکھری چیزیں ترتیب اور سلیقے سے رکھتی ہیں۔ پسند و ناپسند کا خیال رکھتی ہیں، کہی ان کہی، کسی بات پر بہن روٹھ بھی جائے تو بھائی سے یہ ناراضگی زیادہ دیر برداشت نہیں ہوتی اور بڑی چاہت سے مناتے ہیں ۔ بھائیوں اور بہنوں کی نوک جھونک اور چھوٹی موٹی لڑائیاں اس تعلق کا خاص حصہ، اور اس رشتے کی خوبصورتی ہے۔

    خوش نصیب ہیں وہ بھائی جو اپنی بہنوں کی ہر جائز خوشی کے امین ہیں۔ جو اپنی بہنوں کا ہر طرح خیال رکھتے ہیں۔ ان کو بوجھ نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے انمول تحفہ سمجھتے ہیں اور ہر وقت اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کس طرح بہنوں کو خوشیاں دیں اوران کے لیے آسانی اور سہولت کا باعث بنیں، اور خوش نصیب ہیں وہ بہنیں جواس مادی دور میں ایسے بھائی پائیں جو ان کو بوجھ نہ سمجھیں، ان کے دکھ درد اور خوشی غمی کا خیال رکھیں، اور زندگی کے ہر موڑ پر ساتھ ہوں۔ بہنیں بھائیوں کو دعائیں ہی دے سکتی ہیں جو ان کا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔ خوش قسمت بھائیوں کو یہ سرمایہ ملتا رہتا ہے، اور بدبخت بھائی اس قیمتی سرمائے سے محروم ہوتے ہیں۔ بہنوں اور بیٹیوں کے حقوق کی ادائیگی کے حوالے سے ایک حدیث شریف ہے، جسے اگر دل سے پڑھا اور اس پر عمل کیا جائے تو ہم جنت کے مستحق بن سکتے ہیں ۔

    آپ ﷺ نے فرمایا: جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، وہ ان سے اچھا سلوک کرے اور ان کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرے تو اس کے لیے جنت ہے۔(جامع ترمذی جلد نمبر 1حدیث نمبر 549 حدیث مرفوع)

  • اسلام اور بیٹیوں کا وراثت میں حق – حافظ سلیمان طاہر

    اسلام اور بیٹیوں کا وراثت میں حق – حافظ سلیمان طاہر

    %d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85%d8%a7%d9%86-%d8%b7%d8%a7%db%81%d8%b1 مخلوق کو پیدا کرنے والا اللہ رب العزت ہے جس نے پیدا کیا ہے ،اسی نے روزی کا بندو بست کیا ہے، اسی نے وراثت کے احکام اپنی کلام باری تعالیٰ میں بیان کیے ہیں، اسلام سے قبل ایک ظلم یہ بھی موجود تھا کہ عورتوں اور بچوں کو وراثت سے محروم کردیا جاتا تھا پھر قرآن نے آکر ان کو حصہ دلوایا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے’’ اللہ تعالیٰ تمہیں تمھاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اور اگر لڑکیاں دو سے زیادہ ہوں تو ان کو متروکہ مال کا دوتہائی حصہ ملے گا اور اگر ایک لڑکی ہو تو اس کو نصف ملے گا متروکہ مال میں سے ( النساء :11) یہ آیت بہت بڑی نص ہے اس بات کی کہ بیٹیوں کا وراثت میں حق ہے جیسا کہ تفسیرابن کثیر میں منقول ہے یہ بات کہ جاہلیت میں بچیوں کو وراثت سے حصہ لوگ انھیں مہیا نہیں کرتے تھے۔ دور جاہلیت میں لوگ بیٹی کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔ تاریخ مذاہب عالم اور تہذیبوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بیٹی جو کہ ہمیشہ مظلومیت سے دوچار رہی، اس پر تاریک ترین اور سخت برے ادوار بھی آئے ہیں لیکن دین اسلام کا بیٹی پر بہت بڑااحسان ہے۔ وہ بیٹی جس کو مجسم گناہ، زہریلی ناگن، ہزاروں مکاریوں کا محل نظر، جہنم کا دروازہ اور بدی کا منبع تصور کیا جاتا رہا تھا، اس کے لیے نبی اکرمﷺ نے فرمایا:’’ جس شخص کی دوبیٹیاں جوان ہوجائیں، وہ ان سے اس وقت تک اچھا سلوک کرتا رہے جب تک وہ اس کے ساتھ رہیں، وہ اسے جنت میں ضرور داخل کروا دیں گی۔ ( سنن ابن ماجہ؛ 3670)

    اسلام نے بچیوں کی تمدنی حالت پر نہایت مفید اور گہرا اثر ڈالاہے اور انھیں ذلت کے بجائے عزت و رفعت سے نوازا ہے۔ کم و بیش ہر میدان میں ترقی سے ہمکنار کیا۔ چنانچہ قرآن کا قانون وراثت و حقوق نسواں یورپ کے قانون وراثت و حقوق نسواں کے مقابلہ میں بہت زیادہ مفید اور زیادہ وسیع تر ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے آیت میراث میں بیٹی کے لیے دوثلث جب ایک سے زیادہ ہو، اگر ایک ہو تو نصف حصہ بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بیٹی کو بالکل وراثت سے محروم نہیں کیا بلکہ اس کا جتنا حق تھا وہ اس کو عطا کیا ہے۔ احادیث میں بھی بیٹی کی وراثت کے احکام وارد ہوئے ہیں۔ جیسا کہ:
    سیدنا سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی دو بیٹیوں کو لے کر نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ یہ سعد کی بیٹیاں ہیں۔ وہ غزوہ احد میں آپ کے ساتھ جہاد کرتے جام شہادت نوش کر گئے تھے. اب سعد کے بھائی نے سارا مال اپنے قبضے میں کر لیا ہے۔ مال کے بغیر عورت کا نکاح بھی نہیں ہوتا۔ نبیﷺ خاموش ہو گئے یہاں تک کہ آیت میراث نازل ہو گئی. آپﷺ نے سعد کے بھائی کو بلایا اور فرمایا کہ سعد کی دو بیٹیوں کو دو ثلث ترکہ سے دو، اس کی بیوی کو آٹھواں حصہ، باقی خود رکھ لو ( سنن ابی داود2891، جامع ترمذ ی؛ 2092، مسند احمد؛ 14798)
    ایک آدمی سیدنا ابو موسیٰ اشعری اور سیدناسلمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے بیٹی، پوتی اور سگی بہن کی وراثت کے متعلق سوال کیا۔ انہوں نے کہا کہ بیٹی کے لیے نصف اور باقی سارا بہن کے لیے ہے اور سائل سے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاؤ اور امید ہے کہ وہ ہماری تائید کریں گے۔ اس آدمی نے سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا اور ان دونوں کی بات بھی بتلائی. ابن مسعودؓ کہتے ہیں۔ تب تو میں گمراہ ہو جاؤں گا۔ میں فیصلہ وہ کروں گا جو رسول کریمﷺ نے کیا تھا۔ بیٹی کے لیے نصف اور پوتی کے لیے چھٹا حصہ جس سے دو ثلث پورے ہو جائیں گے، باقی ماندہ متروکہ بہن کے لیے ( صحیح البخاری:6737)۔ اس حدیث سے بیٹی اور بہن کی وراثت کا علم ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث میں بیٹی و بہن کی وراثت ہے۔
    سیدنا سعد بن وقاص ؓ کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوگیا۔ اللہ کے نبیﷺ میری تیمار داری کے لیے حاضر ہوئے۔ میں نے کہاکہ اے اللہ کے رسولﷺ اللہ مجھے ایڑیوں کے بل نہ لوٹائے۔ آپ نے فرمایا ہو سکتا ہے کہ اللہ تجھے بلندی دے اور تیرے ذریعے سے لوگوں کو نفع دے۔ صحابی رسول کہتے ہیں کہ ایک میری بیٹی ہے، میں چاہتا ہوں کہ اپنے مال میں سے نصف کی وصیت کردوں۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ زیادہ ہے۔ میں نے کہاکہ ثلث کی، فرمایا کر دو ( صحیح البخاری)
    امام بخاری نے اپنی جامع میں باب قائم کیا ہے ( باب میراث البنات) امام ترمذی نے بھی اپنی جامع میں باب قائم کیا ہے ( باب ما جاء فی میراث البنات). ان تمام باتوں کا حاصل یہ ہے کہ بیٹی کی وراثت بہت اہمیت کی حامل ہے۔ فتح الباری میں لکھاہے کہ جاہلیت میں بیٹیوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا ( جلد 15 صفحہ 437) لیکن نبی کریم ﷺ نے بیٹی کو حصہ دلوا کر اس کی حوصلہ افزائی کی لیکن آج بیٹی کو حصہ نہیں دیا جاتا۔ اس کو جاہلیت والے انداز سے منحوس سمجھا جاتا ہے۔ یہ صرف ہماری دین سے دوری کی وجہ سے ہے وگرنہ دین نے ہر ایک کا حق بیان کیا لیکن ہم قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنے سے غافل ہیں۔ دین اسلام میں ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ آج کل پڑھا لکھا طبقہ اور دینی ذہن رکھنے والے افراد بھی بیٹی اور بہن کو وراثت میں حصہ دینے سے لیت ولعل سے کام لیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺکی محبت کا دم بھرنے والو! نبی محمد کریم ﷺ کی تعلیمات ہی دینی و دنیاوی کامیابیوں کا سبب ہے۔ اپنی عورتوں کو وراثت میں شریعت اسلامیہ کے مطابق حصہ دیں تاکہ روز قیامت اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے اس شرمندگی سے بچ سکیں اور معاشرہ بھی اخلاقی بگاڑ سے محفوظ رہ سکے۔ اللہ ہم کودین کی سمجھ عطا فرمائے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے (آمین )

  • ایک بہن کا عالم برزخ سے اپنے بھائی کو خط – محمد مبین امجد

    ایک بہن کا عالم برزخ سے اپنے بھائی کو خط – محمد مبین امجد

    پیارے بھائی رب نواز!
    سب سے پہلے میں رب کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے آپ جیسے ’’پیارے‘‘ بھائی سے نوازا۔
    بھائی میں نے تو ہر ہر لمحہ آپ کی خوشی چاہی، آپ کی خدمت کی۔
    سردیوں کی صبحوں میں کہر اور دھند میں، جس بستر سے اٹھنے کو جی نئیں چاہتا، میں نے اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو کر کے تمہاری بھلائی کے لیے دعائیں مانگیں، اور تمہارے نہانے کے لیے پانی گرم کرنے کو رکھتی۔ اپنے ہاتھوں سے تمہارے لیے پراٹھے پکاتی، اس دوران میرے ہاتھ بھی جلے، مگر کبھی شکایت نہیں کی۔
    بڑے چاؤ سے تمہارے کپڑے دھوتی اور پھر استری کرتی، استری کرتے ہوئے کئی بار مجھے کرنٹ کے جھٹکے بھی لگے مگر اف تک نہیں کی۔
    بھائی تمہیں شاید یاد نہیں کہ جون جولائی کی آگ برساتی دوپہروں میں میں تمہارے لیے آگ جلا کر دوپہر کا کھانا بناتی تھی، اور پسینہ پسینہ ہو جاتی تھی۔
    جب کوئی پھل گھر میں آتا تو خواہش کرتی کہ بھائی کو زیادہ حصہ ملے، چاہے میں کھاؤں نا کھاؤں۔
    میں جو زندگی میں اپنے جائز حق کے لیے بھی آپ سے اونچے لہجے میں بات نہیں کر سکی۔ آج میری خامشی کو زبان ملی ہے تو کہنے دیجیے کہ بغیر کسی ستائش اور صلے کے آپ کی خدمت کی کیونکہ ہمیشہ تمھیں اپنا محافظ اور رکھوالا جانا۔
    آہ! بھائی آپ تو میرا مان تھے۔ آپ کو دیکھ کر میرا سر ہمیشہ فخر سے بلند ہو جاتا۔
    مگر آپ ہی میری خوشیوں کو کھا گئے، میری جان کے دشمن ہو گئے۔ ایک ایسے شخص سے جدا کرنے کے لیے میری جان لے لی جس نے خوشبو سے میرا تعارف کروایا تھا، جو میری خوشیوں کا ضامن بننے والا تھا، جسے میں سوچتی تھی تو آپ ہی آپ شرم سے میرے گال گلنار ہو جاتے، اور آج جبکہ میری خوشیوں میں چند لمحے رہ گئے تھے تو، اور
    آج جب میں دلہن بنی بیٹھی تھی، میرے ہاتھوں کی ان ریکھاؤں میں جو تمہاری خدمت کرتے کرتے گھس چکی تھیں، آج مہندی رچی تھی،
    مگر آہ بھائی تم نے ان میں خون کی لالی رچا دی، نہ جانے کس جرم کی پاداش میں۔
    میں تو اپنا قصور بھی نہیں جانتی سوائے اس کہ آپ جیسے شقی القلب بھائی کی بہن تھی، شاید یہی جرم میری تمام وفاؤں پہ بھاری پڑ گیا۔
    بھائی یاد رکھنا، وہ بہن جو کبھی تم سے اونچے لہجے میں بات نہیں کرتی تھی، محشر میں تمہارا گریبان پکڑے گی، اور اس منصف سے انصاف چاہے گی جو ذرا سی بھی نیکی اور بدی کا بھی پورا پورا بدلہ دیتا ہے۔ کیا ہم نے مل کر بچپن میں قاری صاحب سے مل کر پڑھا نہیں تھا کہ
    [pullquote]فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْـرًا يَّرَهٝ (7) وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٝ (8)[/pullquote]

    پھر جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔

    فقط
    تمہاری بد نصیب بہن