Tag: بچپن

  • یاد ہے میرے دل کا وہ زمانہ – عائشہ افق

    یاد ہے میرے دل کا وہ زمانہ – عائشہ افق

    بچپن ایک خوبصورت یاد کی صورت ہمیشہ ساتھ رہتا ہے۔ کبھی اس قدر شدت سے یاد آتا ہے کہ انہی یادوں میں ساری رات گزر جاتی ہے۔ کبھی پڑھتے پڑھتے کتاب پر ہی یادیں کسی فلم کی صورت چلنے لگتی ہیں اور حال یہ ہوتا ہے کہ نظریں کتاب پر، دل و دماغ یاد پر۔

    اور جب ہم درزی بنے زندگی کے اس دور کی کہانی ہے جب ہم ساتویں کلاس میں تھے ۔بڑا عجیب سا میکانزم فٹ کیا ہے اللہ نے ہمارے اندر ۔یوں تو ہمارے بہت سارے شوق ہیں لیکن ہمارا طریقہ کار یہ رہا ہے کہ سال کا ایک حصہ ہم پہ ایک شوق حاوی ہوتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے جب ہم اس شوق سے تھک جاتے ہیں تواک نئے ولولے ،اک تازہ جوش کے ساتھ اگلے شوق پہ کام شروع کر دیتے ہیں اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

    گرمیوں کی چھٹیوں کے آغاز سے ہی بازار کے چکر لگا کر زنانہ کپڑے، ربنز، لیسز اور متعلقات خرید لیے جاتے۔ دونوں سلائی مشینیں ٹھیک کروا لی جاتیں۔ پھر دن کا ایک حصہ امی درزی کے روپ میں دکھائی دیتی اور میں پڑھائی اور کھیل سے فارغ ہو کر ان کی معاون کا کردار ادا کرتی۔ میرے کاموں کٹنگ میں مدد کرانا ، قریبی دکان سے سوئیاں،رنگ برنگ نلکیاں لانا،پیکو کروانا اور بٹن وغیرہ بنوا کے لانا شامل تھا ۔امی کپڑے سلائی کرتیں اور میں بڑے انہماک سے یہ منظر دیکھتی رہتی ۔ اسی طرح کپڑے سلائی کرنے کا شوق میرے دل میں بھی انگڑائیاں لینے لگا۔ ہم نے کافی بار امی سے آنکھ بچا کے مشین پہ اپنا شوق پورا کرنے کوشش کی مگر اکثر ناکام رہے ۔اگر کبھی کامیاب ہوئے تو بھی بات مشین خراب ہونے اور ہماری شامت پہ ختم ہوئی۔ یہ تو تھا نقطہ آغاز ۔

    جب ہم دوسرے کھیل کھیل کر اکتا گئے تو بلآخر ہم نے چھت کا رخ کیا ۔ ارے گھبرائیے نہیں چھت کا رخ چھت سے کودنے کے لئے تھوڑی کیا تھا ۔چھت والے کمرے میں دادی اماں کی مشین پڑی رہتی تھی جسے ٹھیک کروانے کے بعد وہاں رکھ دیا جاتا تھا اور کم ہی استعمال میں لائی جاتی تھی۔ہم نے بچے کھچے کپڑے ،لیسز ،ربنز اکھٹے کئے ،ایک قینچی پکڑی اور آنکھ بچا کر اوپر لے آئے ۔روزانہ عصر سے مغرب تک کا وقت کھیلنے کی بجائے اب ہم چھت پر ہی گزارتے۔ کالے پیلے ،نیلے،سرخ ،سبز ،رنگوں کی دنیا اس دنیا نے مجھے پوری طرح اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔

                   _______________
    

    اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ ہم گڑیا کے کپڑے سلائی کر کے شوق پورا کرتے ہوں گے تو آپ غلط ہیں۔گڑیا کے کپڑوں تو لفٹ کرانا بھی ہم پسند نہیں کرتے تھے۔اتنےچھوٹے چھوٹے کپڑوں سے ہمیں بلا کی الرجی تھی۔ہم تو سلائی کیا کرتے تھے اک جیتی جاگتی گڑیا کے کپڑے ۔ہمارے سلائی کئے گئے کپڑے پہننے کا شرف بعد میں نمرہ کو حاصل ہوا جو بہ مشکل ایک سال کی تھی۔اس میں بڑا ہاتھ ہماری خالہ کا بھی تھا کہ وہ بڑے خلوص اور چاہت سے ہمارے سلائی کئے گئے کپڑے نمرہ کو ضرور پہناتیں خواہ ایک آدھ بار ہی سہی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے زیادہ تر اتنے چست تھے کہ پہنتے ہی پھٹ گئے ۔ اب ہم نہ امی کی مشین کے ساتھ چھیڑ خانی کیا کرتے تھے بلکہ الٹا ہم امی کو منع کرتے کہ میرے سوٹ پر کوئی لیس نہ لگائی جائے۔امی حیران تھیں کہ کایا کیسے پلٹ گئی ۔سوٹ بننے کے بعد کپڑا اور لیسز بچنے پہ جو خوشی ہمیں ہوا کرتی تھی وہ لفظوں کی محتاج نہیں۔ہم سب کچھ اکٹھا کرتے اور پہنچ جاتےاپنے “درزی خانے ” میں ۔وہاں یہ سارے کپڑے ایک بیگ میں جمع کئے جاتے۔ وہ شاید نہیں یقینا ہماری دلچسپی انہماک اور لگن کی انتہا تھی ۔یہ الگ بات ہے کہ ہمیں کچھ خاص سلائی کرنا نہیں آتا تھا لیکن عزم جواں تھا۔ کپڑا ہمارے ہاتھوں جن مراحل سے گزر کر سلائی ہوتا ملاحظہ کیجئے۔سب سے پہلے تو ہم کپڑوں کا بیگ چارپائی پر الٹ دیتے ۔اگلا مرحلہ کلر کمبینیشن بنانے اور لیس کے انتخاب کا تھا اور یوں مختلف مراحل سے گزرتا ہوا سوٹ پایہ تکمیل کو پہنچتا تھا۔اس سارے عمل میں ہم خود کو بڑا ہی منجھا ہوا دزری تصور کرتے ۔روایتی گلا ہم بنایا نہیں کرتے تھے ۔بازو بھی ہم کم و بیش ہی بناتے تھے ،پائنچے بنانے کا سوال قبل از پیدائش ہی ختم تھا ۔ البتہ باقی چیزوں میں ہم امی کو کاپی کرنے کی کوشش ضرور کرتے ۔فراک پہ رنگ برنگی لیس لگانا ،جھالر بنانااور وہ کپڑے کی ” تتلیاں ” بنا کے لگانا پھر انہیں موتیوں کے ذریعے آپس میں جوڑنامیرے دلچسپ ترین کام تھے ۔جب ایک سوٹ مکمل ہو جاتا تو ہم خوشی سے پھولے نہ سماتے،خود کو ہواوں میں اڑتا ،بادلوں میں تیرتا محسوس کرتے اور اک نئے جوش سے اگلے سوٹ پر کام شروع کر دیتے۔چوڑی دار پاجامہ سلائی کرنے کی حسرت حسرت ہی رہی کیونکہ جب بھی ہم نے چوڑی پاجامہ کے لئے کٹنگ شروع کی کپڑے کی بربادی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آیا ۔
    _________________
    شاید یہ سلسہ یونہی جاری رہتا لیکن ۔۔۔۔
    جب ہمیں کپڑوں کی قلت سے سامنا ہوا تو مرتے کیا نہ کرتے کے مصادق ہم نے اپنا ایک نیا ڈوپٹہ کاٹ کر اس شوق میں لگا دیا ۔ادھر امی شام کو ہمارے چھت پہ گھسے رہنے پہ حیران تھیں ۔چونکہ چھت کا استعمال صرف رات کو سونے کے لئے کیا جاتا تھا تو ہمارے درزی خانے میں کم ہی کسی کا آنا جانا ہوتا ۔ایک روز خدا کا کرنا کیا ہوا کہ ہم زور وشور سے کپڑے سلائی کر ہے تھے کہ امی اچانک دروازے سے نمودار ہوئیں ۔کمرہ اس وقت کسی لنڈا بازار کا منظر پیش کر رہا تھا ۔۔ چارپائی پہ رنگ برنگ کپڑے بکھرے پڑے تھے ۔ اور ہم میز پہ چڑھ کر مشین سنبھالے بیٹھے تھے۔کچھ دیر تو امی چپ چاپ دیکھتی رہیں لیکن جب ان کی نظر میرے نئے ڈوپٹے کے کٹے ہوئے ٹکڑوں اور لیسز پہ پڑی تو بس پھر جو ہماری شامت آئی نہ پوچھیے ۔ تاہم وہ سارے کپڑے بعد میں ہم نے اپنے طے شدہ پلان کے مطابق خالہ کے حوالے کر دیے ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • باپ کے نام ایک بیٹے کا خط – اعجازالحق عدیم

    باپ کے نام ایک بیٹے کا خط – اعجازالحق عدیم

    %d8%a7%d8%b9%d8%ac%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d9%84%d8%ad%d9%82-%d8%b9%d8%af%db%8c%d9%85 بیٹوں کی مائوں سے جذباتی وابستگی ایک حقیقت ہے لیکن ایک بیٹے کی زندگی کا کل اثاثہ اس کا باپ ہی ہوتا ہے۔ دنیا کا ہر بیٹا زندگی میں سب سے پہلے اپنے باپ سے متاثر ہوتا ہے اور باپ کی شخصیت ہی اس کے لیے پہلی آئیڈیل پرسنالٹی ہوتی ہے۔ بیٹے کو خود پر یقین ہو نہ ہو لیکن اپنے بابا پر اس کے یقین کا لیول اپنی حدوں کو چھو رہا ہوتا ہے۔ باپ کا وجود ہی ایک بیٹے کے کونفیڈنس اور اعتماد کی پہلی وجہ ہوتی ہے، اس کے لیے ہمت کا سبب اور دنیا کے مشکل سے مشکل چیلنج سے نبردآزما ہونے کے لیے انرجی کی حیثیت رکھتی ہے۔باپ بیٹے کے لیے خدا کی سب سے بڑی نعمت اور دنیا میں سب سے مضبوط سہارا ہوتا ہے۔ ایک بیٹا اپنے باپ سے کیا کہنا چاہتا ہے، یہی سوچ کر آج میں نے قلم اٹھایا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کا ہر بیٹا اپنے باپ سے ایسے ہی مخاطب ہونا چاہے گا، کچھ ایسے ہی الفاظ میں اپنے بابا سے شکوے اور اظہارِ محبت کرنا، اور اسی طرح اپنے بابا سے اپنے دل کی باتیں کرنا چاہے گا۔ اس لیے میں اپنے ان ٹوٹے پھوٹے جملوں، خام خیالات اور بچگانہ احساسات کو دنیا کے ہر باپ کے نام کرتا ہوں۔

    بابا! امیتابھ بچن نے نواسیوں، عامر خاکوانی صاحب نے بیٹیوں اور عامر امین صاحب نے بیٹوں کے نام خط لکھا۔ میرے لیے دنیا میں سب سے عظیم ہستی آپ ہیں۔
    بابا! میری باتیں اور میرے خیالات آپ سے منسوب ہیں. آپ میں مجھے دنیا کے ہر باپ کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ دوسرے والدین کی طرح اولاد کے حق میں آپ بھی رویے کی سختی کے قائل ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بچپن میں آپ نے مجھے سو روپے دے کر گھر کے ساتھ والی شاپ سے دودھ لانے کا کہا اور جب میں واپس آیا تو میری مٹھی میں پیسے دودھ کے ریٹ کے حساب سے کم تھے۔ آپ نے صرف بقیہ پیسوں کا پوچھا تھا اور میں سہم کر بیڈ کے نیچے چھپ گیا تھا۔ جب آپ نے بیڈ کے نیچے جھک کر دوبارہ سوال کیا تو میں رونے لگا تھا۔ بابا! اس وقت میں صرف سات سال کا تھا۔ مجھے کائونٹنگ نہیں آتی تھی اور آپ کا رعب مجھ پر اس قدر حاوی تھا کہ میں آپ سے یہ وضاحت بھی نہ کر سکا تھا کہ پیسے مجھے دکاندار نے کم دیے ہیں۔ اسی طرح گھر آئے مہمان کزن کا ہونٹ زخمی تو میری وجہ سے ہوا تھا لیکن میں نے جان بوجھ کر انہیں چوٹ نہیں لگائی تھی۔ آپ عین موقع پر آگئے اور میرا موقف جانے بغیر میری پٹائی کر دی۔ کزن کے سامنے یوں بےگناہ پٹنے کی وجہ سے مجھے کئی دنوں تک کمتری اور ذلت کا احساس ہوا تھا۔

    بابا! رویے کی اس سختی کے پیچھے ضرور آپ کے ذہن میں کوئی معقول وجہ ہوگی لیکن آپ کا وہ رویہ ہمیشہ میری خود اعتمادی، سیلف ریسپیکٹ اور خودداری میں کمی کا سبب بنتا رہا۔ اسی سخت رویے کی وجہ سے بچپن میں آپ کے ساتھ کھیلنا اور باتیں شیئر کرنا تو درکنار میں آپ سے کبھی کہانی سنانے کی فرمائش بھی نہ کرسکا۔

    بابا! میں ہمیشہ چاہتا تھا کہ آپ میری تعریف کریں، میری حوصلہ افزائی کریں اور میرا دل بڑھائیں۔ جب سالانہ امتحان میں کلاس میں پہلی پوزیشن میرے نام آئی تو تب آپ نے امی سے میری تعریف کی جو میں نے کمرے کے باہر سن لی تھی۔ لیکن میں چاہتا تھا کہ آپ امی کو بتانے کے بجائے براہ راست مجھے تھپکی دیں۔ میں نے جب بھی گھر آکر اپنا کوئی کارنامہ بیان کرنا چاہا تو آپ نے مجھے ٹوکا اور میرے طریقے پر تنقید کر کے اپنے طریق کار پر عمل کرنے کی تاکید کی۔ تبھی تو آج بھی کرکٹ میں مجھے بائولنگ کرنا نہیں آتا، فٹبال کو کبھی کک نہیں لگائی اور بیڈمنٹن کا ریکٹ کبھی ہاتھ میں نہیں لیا۔

    بابا! زندگی کے قدیم آداب پر آپ کا ایقان اپنی جگہ درست ہے لیکن موجودہ وقت کا تقاضا ہے کہ نئے دور کی کئی چیزوں کو قبول کیے بغیر ہم آگے نہیں جا سکتے۔ میں نے کئی دفعہ گھر میں ٹی وی رکھنے اور صرف پی ٹی وی چینل چلانے کی اجازت چاہی تاکہ میرے علاوہ گھر کے دوسرے بچے بھی باہر کی دنیا اور نت نئی چیزوں سے آگاہ ہو سکیں لیکن آپ کبھی نہیں مانے۔ میری تحریریں اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں لیکن میں نے آپ کو کبھی نہیں بتایا کہ مجھے لکھنے کا شوق ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ یہ جان کر مجھے فضول کی اکٹویٹیز ترک کرنے اور پڑھائی پر توجہ دینے کا کہیں گے۔

    بابا! آپ مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے لیکن جب میں نے لٹریچر پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو میری توقعات کے برعکس آپ نے کہا ”جو اچھا لگے وہی پڑھو“۔ یہ بات میں نے بڑے فخر سے اپنے ان تمام دوستوں کو بتائی تھی جن کے والدین نے انہیں ان کی مرضی کے خلاف سبجیکٹس پڑھنے پر مجبور کیا تھا۔

    بابا! میں جانتا ہوں کہ آپ کی مجھ سے بہت توقعات وابستہ ہیں۔ مجھے آپ نے اپنی حیثیت سے زیادہ مہنگے تعلیمی اداروں میں داخل کیا اور میری ہر خواہش اور ضرورت کا خیال رکھ رہے ہیں۔ میں بھی آپ کی آنکھوں میں سجے خوابوں کی تعبیر بننے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہوں بلکہ میں نے تو اپنی زندگی کا مقصد ہی آپ کی خوشیوں کو بنا لیا ہے لیکن آپ کی مجھ سے وابستہ حد سے زیادہ بڑھی ہوئی توقعات کی وجہ سے میں نفسیاتی دبائو کا شکار ہوں۔ مجھے ہر وقت یہ خوف ستائے رکھتا ہے کہ اگر میں آپ کی توقعات پر پورا نہ اترا تو آپ کی مایوسی مجھ سے دیکھی نہیں جائے گی۔ اس لیے میں آپ سمیت دنیا کے تمام والدین سے التجا کرتا ہوں کہ خدارا اپنی ناکامیوں کا بوجھ اپنی اولاد کے کمزور کندھوں پر مت ڈالیے گا۔ اگر آپ اپنے بچوں سے ان کی حیثیت سے بڑھ کر توقعات رکھیں گے تو وہ فرسٹریشن کا شکار ہو کر اپنی پڑھائی کا لطف نہیں اٹھا سکیں گے۔

    بابا! مجھے آپ کی محبت کا پورا یقین ہے، اور یہ بھی پتہ ہے کہ ہر معاملے کو آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں لیکن غصے میں کئی دفعہ آپ وہ باتیں بھی کہہ دیتے ہیں جو باپ کو ایک جوان بیٹے سے نہیں کہنی چاہییں۔ اسی طرح مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ دنیا کے تمام والدین کے لیے ان کی اولاد چاہے جس عمر میں بھی ہو چھوٹی اور ناسمجھ رہتی ہے۔ آپ مجھے اکیس سال کی عمر میں بھی بڑے چیلنج قبول کرنے سے منع کرتے ہیں، مجھے کوئی بھی ایسا قدم جو آپ کے حساب سے نیا ہو، اٹھانے نہیں دیتے اور کسی بھی نئے تجربے سےگزرنے سے منع کرتے ہیں۔ یہ احتیاط سے زیادہ اولاد کی صلاحیتوں پر عدم یقین کی علامت ہے۔

    بابا! والدین کا اولاد کی شخصیت پر اثر ہوتا ہی ہے لیکن ایک بیٹا اپنی شخصیت کے غالب رنگ اپنے باپ سے ہی مستعار لیتا ہے۔ اس لیے احتیاط اور حساسیت کا دامن چھوڑے بغیر باپ کو اپنے بیٹے پر ویسا ہی یقین اور اعتماد رکھنا چاہیے جیسا وہ خود اپنی ذات پر رکھتا ہے۔

    بابا! میں جانتا ہوں کہ خط میں گستاخی کے پہلوئوں کو نظرانداز کر کے آپ ایک بیٹے کے دل میں موجود باپ کی محبت اور عظمت کے جذبات کو سمجھ سکتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ آپ کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھے۔ آمین!

  • آتا ہے یاد مجھ کوگزرا ہوا زمانہ – ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    آتا ہے یاد مجھ کوگزرا ہوا زمانہ – ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    ننکانہ صاحب میں میں نے ٹاٹ مارکہ سکول میں تختی سیاہی دوات قلم کا مزا لیا ہوا ہے، ہاتھ والا نلکا ہوتا تھا سکول میں جس پر آدھی چھٹی کے وقت لڑکیوں کی لائن لگ جاتی تھی، تختی دھو نے اور گاچنی ملنے کے لیے.
    proper-old-school-amritsar مقابلہ اس بات پر ہوتا تھا کہ کس کا قلم زیادہ باریک اور نفیس لکھائی کرتا ہے اور کس کی سیاہی زیادہ کالی گاڑھی اور ملائم ہے. تختی کا پوچا کس نے بہتر اور ملائم لگایا ہے. ہم لوگ سکول کی دیوار کے ساتھ گیلی تختی کو سکھانے کے لیے کھڑا کرتے تھے اور اس کے سوکھ جانے کے بعد تختی پر لگی اضافی گاچنی مٹی کہ جس کی وجہ سے لکیریں پڑ جاتی تھیں اور آرام سے نہیں لکھا جاتا تھا. اسے ایک کھردرے کپڑے سے رگڑ کر ملائم کرتے تھے. حتیٰ کہ تختی مثل کانچ چمکنے لگتی. آہ! کیا خوب آزادی کے دن تھے.

    سکول کی پچپن کی شرارتیں بہت یاد آتی ہیں
    بہت حسن دن تھے،
    سلیٹ سلیٹی کا اپنا ہی مزا تھا،
    تھوک سے سلیٹ صاف کرنی اور پھر سکول کی وردی سے صاف ????

    • ککلی ڈالنا، پٹھو گول گرم کھیلنا لیکن مٹی، بنٹے اچھال کر ٹھیکری اٹھانے والا کھیل، اس کا نام یاد نہیں آ رہا، کوئی بتا دے.
    • سٹاپ کے لیے کچی زمیں پر گہری لکیریں کھینچنا. کس کی ٹھیکری زیادہ گول اور سیدھی ہے. مٹی کے ٹوٹنے والے برتن میں سے مناسب سائز کی ٹھیکری ڈھونڈنا اور اسے دیوار یا فرش پر رگڑ رگڑ کر گول کرنا.
    • کوکلا چھپاکی جمعرات آئی جے
      جنے اگے پچھے ویکھیا اوندی شامت آئی جے.
    • بھائیوں کے ساتھ کرکٹ، ہاکی، بنٹے کھیلنا.
    • ہاں تختی سے لڑائیاں بھی کی ہیں اور دوسروں کے سر پر تختیاں توڑی بھی ہیں، اپنے سر پر بھی تڑوائی ہیں.
    • کچی پینسل، لیڈ پینسل سے ایک طرف اردو لکھنے کے لیے کھلی اور سیدھی لکیریں لگانا اور دوسری جانب حساب کے سوال حل کرنے کے لیےگراف پیپر کی طرح چار خانے والا ڈیزائن بنانا.
    • کبھی کبھار انگریزی حروف تہجی کے لیے چار چار سیدھی لکیریں لگانی اور پھر تھوڑے تھوڑے فاصلے سے اسی چار سطری نمونے کو دہرانا.
    • کچھ اور ترقی ہوئی تو تختی کے چاروں کناروں پر حاشیہ کھینچنے لگی. اس سے تختی مزید خوبصورت لگتی.

    والد صاحب نے بغیر کسی سکیل کے سیدھی لکیر کھینچنے کا ایساگر سکھایا تھا کہ آج بھی کبھی کاپی یا ڈائری میں حاشیہ لگانا ہو تو سکیل استعمال نہیں کرتی. طریقہ یہ ہے کہ سیدھے ہاتھ کی شہادت کی انگلی اور انگوٹھے میں پینسل کو سکے سے ذرا فاصلے پر پکڑیں. درمیانی انگلی کو تختی کے کنارے کے ساتھ لگائیں، اس طرح کے پینسل تختی کے اوپر لکیر کھینچنے والی جگہ پر ہو اور درمیانی انگلی تختی کے کنارے پر سلائیڈ کرے. بس اوپر سے نیچے ہاتھ سلائیڈ کریں پنسل کا سکہ تختی کے اوپر پھسلتا ہوا چلے گا، سیدھا حاشیہ لگتا چلے گا.

    ننکانہ کے سکول میں ہینڈ پمپ سے پانی پیتے تھے اور دریوں یا پیڑھیوں پر بیٹھتے تھے. ایک دفعہ اپنے سکول کا صحن مرمت کرنے کے لیے ہم سب کلاس فیلوز نے خود اپنے ہاتھوں سے روڑی کوٹی تھی.
    آہ! کیا خوبصورت یادیں ہیں.
    میں نے بہت اسکول بدلے ہیں، اردو میڈیم بھی انگلش میڈیم بھی، سرکاری بھی اور پرائیویٹ بھی، فوجی بھی، زیرو سٹار بھی اور فائیو سٹار بھی، ہر طرز کے سکول میں زندگی مختلف انداز سے سانس لیتی ہے.
    میں اپنے رب کی شکرگزار ہوں کہ مجھے اتنے مختلف رنگ دیکھنے کو ملے.

  • ہائے وہ سیاہی کی بوتل‌ – مدیحی عدن

    ہائے وہ سیاہی کی بوتل‌ – مدیحی عدن

    مدیحی عدن میں کوئی چھ سات سال کی تھی تو ایک شام تایا کی بیٹی جنہیں میں باجی بولتی تھی، نے دکان سے سیاہی لانے کو بولا۔ اس زمانے میں انک پین ہوا کرتے تھے جن میں نیلے یا کالے رنگ کی سیاہی بھری جاتی تھی اور سیاہی دوات یا چھوٹے پیکٹ میں آتی تھی۔ میں سیاہی کا پیکٹ لے کے باجی کے پاس آئی تو انھیں دوات کی شیشی والی سیاہی چاہیے تھی، پیکٹ میں نہیں۔ انھیں پیکٹ دیکھ کے غصہ آیا اور پوچھا کہ یہ تمہیں کس نے دیا؟ میں نے جواب دیا کہ دکاندار نے۔
    انھوں نے کہا جائو، یہ پیکٹ دکان دار کے منہ پہ مار کے آئو، اور واپس کر کے سیاہی کی بوتل لے کر آنا۔
    خوش قسمتی سے دکاندار میرے سے کوئی تین چار سال ہی بڑا بھائی تھا۔ میں اس کی دکان پر گئی اور پیکٹ اس کے منہ پہ مارتے ساتھ ہی کہا کہ میری باجی نے کہا ہے کہ یہ پیکٹ آپ کے منہ پہ ماروں اور سیاہی کی بوتل لے کے آئوں۔ دکاندار کو ہنسی آگئی۔ اس نے ہنستے ہنستے مجھے بوتل دے دی۔
    آ کر باجی کو معصومیت سے بتایا کہ میں نے پیکٹ اس بھائی کے منہ پہ مارا اور واپس کر کے بوتل لے آئی۔
    باجی نے حیرانگی کے عالم میں پوچھا :کیا؟؟؟
    میں نے پھر وہی بات دہرائی۔
    باجی: وہ تو میں نے غصے میں کہا تھا، میرا مطلب اصل میں یہ نہیں تھا۔
    میں سوچ میں پڑ گئی کہ یہ غصے میں کہنے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔
    باجی: تو دکاندار نے تمہیں کچھ کہا نہیں؟
    میں: نہیں، بس وہ ہنستا جا رہا تھا۔

    زندگی میں کچھ باتیں بہت دیر بعد جا کے سمجھ آتی ہیں کہ ہر بات کا وہ مطلب نہیں ہوتا جو ایک سادہ لوح انسان کا ذہن سمجھ لیتا ہے۔ بچوں کے چہرے ہی معصوم نہیں ہوتے، دل اس سے بھی کہیں زیادہ معصوم اور سادے ہوتے ہیں۔ چالاکیاں، دغا بازیاں، جھوٹ، یہ سب تو وہ بچہ اپنے اردگرد کے ماحول سے سیکھ رہا ہوتا ہے۔ پھر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی چیزیں اس کی فطرت کا حصہ بن جاتی ہیں، اور فطرت کو بدلا نہیں جا سکتا۔

    بچوں کی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے خطرناک عمر ایک سے تین سال کی ہوتی ہے۔ اس دوران بچے دنیا کی ہر چیز کی تسخیر کرنا چاہتے ہیں اور ان کے لیے ہر چیز نئی ہوتی ہے، اس لیے وہ بہت زیادہ متجسس ہوتے ہیں۔ اس عمر میں بچہ ہر کسی کو کاپی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آپ کیسے کھاتے ہیں؟ کیسے باتیں کرتے ہیں؟ کیا باتیں کرتے ہیں؟ سب کچھ بچہ آپ سے سیکھ رہا ہوتا ہے۔ پھر بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ آپ جو بچے کو بنانا چاہیں، بچہ وہ ہی بن جاتا ہے۔
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے تو اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
    حیران کن بات ہے کہ آج کی ریسرچ اور ماہرین نفسیات جو باتیں ثابت کرتے ہیں، رسول اللہ ؐ نے آج سے چودہ سو سال پہلے بڑے سادہ لفظوں میں ان کی حقیقت بیان کر دی تھی۔ یہی پیدا ہونے والا بچہ کل کو جب بالغ ہو گا تو اپنے ماں باپ کے دین پہ ہوگا۔
    ”بچے تو پودے ہیں، کھاد ڈالی جائے، پانی دیا جائے اور پودے کا خاص خیال رکھا جائے تو وہ پودا پھلتا پھولتا ہے۔“

  • ہمارا بچپن اور 14 اگست – محمد فیصل شہزاد

    ہمارا بچپن اور 14 اگست – محمد فیصل شہزاد

    ہمارے بچپن میں 14 اگست کا دن ہزاروں خوشیاں لے کر آتا تھا. مجھے یاد ہے ہم سب بہن بھائی ایک دن پہلے ہی امی جان کے بکسے سے گھر کا سلا ہوا وہ پرچم نکالتے جس کے کنارے پر سنہری گوٹا جھلملاتا تھا. برسوں سے وہ ہر 14 اگست کو ہمارے محب وطن ہونے کا ثبوت بن کر، ہمارے گھر کی چھت پر لہراتا. اور پھر 15 اگست کو ہم اسے پیٹی میں تہہ کر کے ایک سال کے لیے سلا دیتے. بڑے بھائی خرم شہزاد 13 اگست کو ہی بانس پر پرچم لگا دیتے. پرچم کے اوپر ایک 100 پاور کا بلب بھی لگایا جاتا، جو روشن ہوتا تو اس کی روشنی میں پرچم لہراتا بہت ہی خوبصورت لگتا. ادھر ہم چھوٹے بہن بھائی امی سے گیلا آٹا لے کر کاغذ کی جھنڈیوں کو ایک دھاگے پر چپکاتے، جنہیں جھنڈے کے بانس کے ساتھ ساتھ اوپر سے نیچے تک ایک اہرام کی طرح فرش سے منسلک کر دیا جاتا. یہ کاغذ کی جھنڈیاں، جب ہوا چلتی تو چھرر شرر بڑی خوبصورت آوازیں پیدا کرتیں. سن کر یوں لگتا جیسے ان سے بھی ملی نغمے پھوٹ رہے ہوں!

    اس رات مارے جوش کے ہم سب ہی بمشکل سوتے، سب بچوں کے چہروں پر اک دبا دبا سا جوش جھلکتا، ہم بار بار بہانے سے صحن میں جا کر اپنا عَلم دیکھتے اور خوش ہوت، گھر گھر ہی نہیں، پوری گلی کو سارے محلے والے پیسے ملا کررنگ برنگی کاغذی جھنڈیوں سے بھر دیتے تھے، واہ کیا حسین سماں ہوتا تھا۔ صبح صبح ناشتہ بعد میں کیا جاتا، سب سے پہلے پرانا ٹیپ ریکارڈر عین جھنڈے کے سائے تلے رکھ کر اس میں ملی نغموں والی کیسٹ بجائی جاتی، کیا سحر انگیز ملی نغمے ہیں ہمارے یار!، ایک سے بڑھ کر ایک، میرے خیال میں پاکستان کے ملی نغمے شاید جذبات انگیزی میں، دنیا کے کسی بھی ملک کے ملی نغموں سے بہت آگے ہیں، یہی دیکھ لیں کہ ان نغموں کے بہت سارے الفاظ کی معنویت شاید ہم بچوں کو سمجھ میں نہ آتی تھی مگر سن کر نجانے کیوں ہم بچوں کی بھی آنکھیں بھیگنے لگتیں. اسی وقت سارے بچے ایک دوسرے کے گھر جا کر تیاریاں بھی دیکھ آتے. دیکھتے کیا تاڑتے! دزدیدہ نگاہوں سے ایک دوسرے کی سجاوٹ دیکھتے کہ کس نے کیسا گھر سجایا ہے؟

    پھرجناب! اپنا آپ سجانے کی باری آتی، سبز ہلالی کیپ اور پرچم والا بیج تو خیر ضروری تھا ہی، اماں ابا پر اگر زور چل جاتا تو ہرے سفید رنگوں سے مزین پلاسٹک کی گھڑیاں بھی مل جاتیں، خیر صاف ستھرے کپڑے پہنے ہم پھر اپنے اپنے اسکول روانہ ہو جاتے!

    14 اگست کو اسکول کے مزے ہی الگ ہوتے تھے، ہم عموماً ملی نغموں میں حصہ لیتے تھے جس کی بھرپور تیاری ہماری مسز (مس کی جمع) ہفتہ عشرہ پہلے سے ہی کروانا شروع کردیتی تھیں، اس دن وہ بھی معمول کے یونیفارم سے ہٹ کر گھر کے لباس میں آتیں، قصہ مختصر ہمارے بچپن کے مذہبی اور ملی تہوار کے مزے ہی کچھ اور ہوتے تھے، مگر اب!
    اب تو لگتا ہے کہ 14 اگست کی وہ رومانویت ختم ہو کر رہ گئی ہے، گو اب بھی قوم جشن آزادی مناتی ہے مگر مغربی انداز غالب آ گیا ہے، فائرنگ، آتش بازی، ناچ، گانا، سڑک بلاک، ہاؤ ہو، چیخنا چلانا.

    جب کہ ہماری مشرقی ثقافت میں اک مدھر سا دھیما پن تھا، جذبات تھے مگر دھیمی آنچ کی طرح اندر ہی اندر وطن کے لیے سب کچھ لٹا دینے پر آمادہ کرنے والے، نہ کہ آج کی طرح طوفان بن کر اپنے ہی ہم وطنوں کو تکلیف پر ابھارنے والے…جس کی ایک جھلک ہم نے کل رات بارہ بجے کراچی میں دیکھی، اور تو اورہمارے بچے بھی اب گھر نہیں سجاتے بلکہ فیس بک پراپنی آئی ڈی کو سجاتے ہیں!

  • مدھیرا – حق نواز انصاری

    مدھیرا – حق نواز انصاری

    حق نواز انصاری اسی کی دہائی کو ہمارے بچپن کا زمانہ ہونےکا اعزاز حاصل ہے۔ ایسا دور جب ہم نصف درجن بچے جمعہ کے روز اپنے درجن بھر بزرگوں پر بھاری پڑ ا کرتے تھے۔ نانی اماں کی مو جودگی میں کسی کی مجال نہیں تھی کہ ہمیں کچھ کہہ سکتا۔ ان کی چارپائی ہماری واحد پناہ گاہ ہوا کرتی ۔ جہاں وہ ہمیں ہر کسی کے ظلم سے بچا لیا کرتیں۔ ہم ان کو پورے ہفتے کی رپورٹ پیش کرتے اور خود پرہونے والے مظالم کی داستان سنایا کرتے۔ کہ کیسے ہم کو روز رات کو جبراً دودھ پلایا جاتا ہے اور دوپہر کو اوپر جانے سے روکا جا تا ہے اور چاچا بہارو سے لال پری سپاری لیکر کھانے پر ڈانٹا جاتا ہے۔

    گھر میں وی سی آر کے آ جانے سے رفتہ رفتہ یہ سلسلہ ختم ہی ہوگیا . کہانی کی جگہ فلم نے لے لی اور بچپن میں ہم نے خوب فلمیں دیکھیں. اور وہ بچپن آج تک ختم نہیں ہوا. سن 60 کے بعد سے پاکستان میں انڈین فلموں پر پابندی تھی. وی سی آر کے آ جانے سے فلموں کے شوقین حضرات نے ساری قضا فلمیں دیکھیں. نئی فلموں کو اس وقت بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا. پرانی بلیک اینڈ وائٹ فلمیں آج کل کی فلموں کے مقابلے میں ہومیوپتھک فلمیں تھیں. ہمارے شہر کے وسط میں ایک سنیما ہوا کرتا تھا. رات کی خاموشی میں سنیما میں چلنے والے آخری شو کی آوازیں فضا میں گونجتی تھیں.
    کبھی فن کے سلطان کی للکار تو کبھی ’چانجر دی پاواں جھنکار‘ سنائی دیا کرتی. 60 70 سال پہلے ایک گیت مشہور ہوا، جس کے بول شاید کچھ یوں تھے کے ’’ ماے نی میں نوں بڑا چا میریا دو گتاں کر دے‘‘ سنیما کے بالکل سامنے شہر کی معزز شخصیت جناب خان صاحب کی رہائش گاہ تھی اور ان کے گھر سنیما میں چلنے والی فلم کی آواز کچھ زیادہ ہی پہنچتی. جناب خان صاحب نے اس گیت کی بولوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور سنیما مالکان کے سامنے بھرپور احتجاج کیا. ان کا کہنا تھا کہ یہ نہایت بیہودہ گیت ہے جس میں لڑکی اپنی ماں سے دو چوٹیاں کرنے کی فرمائش کر رہی ہے تا کہ وہ زیادہ خوبصورت نظر آئے.

    ہم جو بھی قصہ سنتے دوسرے دن اسکول میں بریک کے وقت سب دوستو ں کو سنایا کرتے، سب نے ہی وہ قصّے پہلے سن رکھے ہوتے تھے. یعنی تمام والدین اپنے بچوں کو ان سچے کرداروں سے متعار ف کرایا کرتےتھے. لیکن جب ہم نے اپنے دوستوں کو فلموں کی کہانیاں سنانا شروع کیں تو سب بس ہمیں ہی سنتے، ہم کبھی کبھار دھیمی آوازمیں گانا بھی گایا کرتے کیوں کہ ہم اسمبلی میں دعا اور قومی ترانہ بھی پڑھا کرتے تھے. کبھی کبھار جمعرات کو چھٹی سے کچھ دیر پہلے استاد محترم کی موجودگی میں بزم ادب آ راستہ کی جاتی. سارے بچے اس بزم میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا کرتے.
    شیشی بھری گلاب کی پتھر پہ توڑ دوں
    خط کا جواب نہ ملے تو خط لکھنا ہی چھوڑ دوں
    یا
    لطیفہ کسے کہتے ہیں
    لطیف کی بیو ی کو
    جیسے ادبی آئٹم پیش کیے جاتے. ایسی سرگرمیاں بہت کم ہوا کرتیں اس لیے جو کچھ اور جیسا بھی پیش کیا جاتا اس کی خوب پذیرائی ہوتی. ساری کلاس دیوانہ وار تالیاں پیٹا کرتی .

    ایسی ہی ایک چلتی بزم میں ڈیٹول کے منہ والے ہمارے ایک دوست نما دشمن نے استاد جی کو بتا دیا کہ ہم بریک کے وقت ٹیوب ویل کے ساتھ والے پلاٹ میں بیٹھ کر دوستوں کو گانا سنایا کرتے ہیں. ہمارا بس نہیں چل رہا تھا کہ ہم اس ڈیٹول کے منہ والے کی گردن مروڑ دیں کیوں کہ کچھ دن پہلے ہی ہمارے بستے جسے اسکول بیگ کہا جاتا ہے، میں سے اس زمانے کی قومی بھابھی رینا رائے کا ایک روپیہ والا تصویری کارڈ نکل آیا تھا، جسے دیکھ کر ہمارے پیٹ سے ذومعنی آوازیں برآمد ہوا کرتی تھیں. فوٹو برآمد ہونے پر ہم بال بال سزا سے بچ چکے تھے. استاد جی نے ہمیں کلاس کے سامنے گانا گانے کا حکم دیا. ہم ڈرتے کانپتے استاد جی کے ساتھ جا کے کھڑے ہو گئے. ان کی آواز کسی جابر بادشاہ کے انداز میں کلاس میں گونج اٹھی. گاؤ …. ہم نے نہایت ادب سے سینے پہ ہاتھ باندھے آنکھیں بند کیں اور بلند میں کس کس کے کھینچ کھینچ کر گانا شروع کر دیا .
    ’’دھوپ میں نکلا نہ کرو روپ کی رانی گورا رنگ کالا نہ پڑ جائے‘‘
    ’’مست مست آنکھوں سے چھلکاؤ نہ مدھیرا مدھو شالا میں تالا نہ پر جائے‘‘

    دوسرے بول پہ استاد جی نے بےاختیار واہ کہا تو ہماری کچھ ہمت بندھی اور ہم نے اپنا ایک ہاتھ فضا میں بلند کر کے گانا شروع کر دیا. آر کسٹرا تھا نہیں تو گانے میں مناسب جگہوں پر ہم نے تی ری ری ری پڑنگ اور پوئیں جیسی آوازیں نکال کے ماؤتھ میوزک دیا. ہمارے دوست منہ کھولے آنکھیں پھاڑ کے ہمیں دیکھ رہے تھے. ہمارا یہ ٹیلنٹ ان کےلیے نیا تھا. گانا تھنڈر کلیپ پر ختم ہوا جس میں استاد جی کی بھی دو نابالغ تالیاں شامل تھیں. ہم ہواؤں میں اڑتے اپنے ڈیسک پہ پہنچے. دوستوں نے پیٹھ تھپک کر ہمیں شاباش دی. استاد جی نے سوال جواب کرنا شروع کر دیے. کس فلم کا گانا ہے وغیرہ وغیرہ. پھر پوچھتے مدھیرا کا کیا مطلب ہے؟ ہم نے ترت جواب دیا، شراب، کیونکہ ہم بزرگوں سے اس کا مطلب پوچھ چکے تھے. جواب سن کر ایک دم استاد جی کے چہرے کے تاثرات بدلے جو ہمارے سوا پوری کلاس نے دیکھے. انہوں نے ہمیں اپنے حضور میں دوبارہ طلب فرمایا. ہم کامیابی کے نشے میں سرشار ان کے سامنے پہنچ گئے. ہمیں کیا پتہ تھا ان کے اندر کا روحانی باپ جاگ اٹھا تھا. انہوں نے ہمیں بالوں سے پکڑ کر تیکھے لہجے میں دوبارہ سوال پوچھا. اب ہماری آواز کہاں نکلنی تھی. ہمیں اپنا انجام صاف نظر آرہا تھا. استاد جی ہمیں بالوں سے پکڑ کر آگے پیچھے آگے پیچھے دھکیل رہے تھے. ہمارا تو سینٹر ہی آؤٹ ہو چکا تھا. فن کی دنیا میں کسی فن کار کا عروج اتنی جلدی زوال میں نہیں بدلا ہوگا. استاد جی بار بار ایک ہی بات کا مطلب پوچھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ جگہ کا تعین کیے بغیر ایک ردھم میں بطور داد زوردار جھانپڑ رسید کر رہے تھے. ویسے تو منہ پھاڑ کےاونچے سروں میں رونے میں ہم اپنی مثال آپ تھے لیکن اس وقت ہمارا منہ تو کھلا تھا لیکن آواز نہیں نکل رہی تھی. استاد جی کی تسلی نہ ہوئی تو انہوں نے مولابخش سے داد و تحسین کے ڈونگرے برسانا شروع کر دیے. بچے کو جب چوٹ لگے یا سزا ملے تو وہ متاثرہ جگہ کو دیکھ کر رویا کرتا ہے لیکن اس وقت ہمارا پیچھے گردن موڑنا ناممکن تھا .

    ’’استاد جی ول کینا کرے ساں‘‘ کی مسلسل گردان سے ہماری جان چھوٹی جو یقیناً لال ہو چکی تھی. ہم کھا جانے والی نظروں سے اس ڈیٹول کے منہ والے کو دیکھتے ہوئے اپنے ڈیسک کی طرف بڑھے ہی تھے کہ وہ ظالم کا بچہ پھر کھڑا ہو کے چیخنے لگا.
    ’’استاد جی اے میں کوں آ ھدے، چھٹی دے بعد تیرے کول پچھ گھنساں‘‘
    استاد جی نے ہمیں واپس گھسیٹ لیا. ہم بےاختیار قسمیں کھانے لگے تو استاد جی کو یقین آیا. اس وقت تو ہم نے گانے سے توبہ کر لی جو کافی وقت قائم رہی. اب تو یہ حال ہے کہ توبہ کی بھی توبہ ہے کہ توبہ نہ کریں گے. اس شام غریباں کے بعد جب ہم گھر پہنچے تو والد صاحب کو نامعلوم ذرائع سے پہلے ہی سب کچھ پتہ چل چکا تھا. آج تک ہم ان ذرائع کی تلاش میں ہیں تاکہ شدید ترین تشدد کے بعد ان کو قتل کر سکیں کیونکہ ان کی وجہ سے کافی بار والد صاحب کے ہاتھوں ہماری ٹھیک ٹھاک سروس ہوتی رہی تھی.
    ہفتہ کے روز والد صاحب استاد جی سے ملنے اسکول تشر یف لائے. ہم پہ فلم دیکھنے پر پابندی لگ گئی. پھر تادیر دونوں اس گیت کے بولوں اور فلموں پر تبادلہ خیال کرتے رہے. عبدالحمید عدم اور ریاض خیر آبادی نامی اشخاص کے ذکر پر دونوں بہت جذباتی ہو گئے. اس وقت تو ہمارے فرشتوں کو بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ دونوں کون ہیں البتہ بعد میں پتہ چل گیا.
    اس دلخراش واقعہ کے کچھ روز بعد ہی ہم نے اس ڈیٹول کے منہ والے سے بدلہ لے لیا. اور وہ داستان ناقابل بیان ہے.

  • بڑوں کے بچوں کے ساتھ بدلتے تعلقات اور رویے – سحرش عثمان

    بڑوں کے بچوں کے ساتھ بدلتے تعلقات اور رویے – سحرش عثمان

    ماؤنٹینز ایکوڈ کے اندر بک مارک لگاتے ہوئے سوچ کا پنچھی اپنے اردگرد بکھری بہت کہانیوں کے تانے بانوں میں الجھ گیا. بہت سے بچے، ان کے اپنے والدین کے ساتھ تعلقات، بچوں پر اس تعلق کے اثرات، بہن بھائیوں کے کردار کی اک فرد کی زندگی میں اہمیت سے ذہن الجھتا الجھتا تعلقات کی نوعیت اور وقت کے ساتھ اس میں بدلاؤ پہ جا اٹکا.

    عمر کے اس حصے میں تو پہنچے نہیں جہاں اپنا بچپن اور اس میں موجود خوشیاں ہی زندگی کا حاصل لگتی ہیں. ابھی ناسٹلیجیا کا وہ دور بھی نہیں آیا کہ بس اپنا بچپن ہی سہانا لگے. ویسے کبھی کبھی یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ ہمیں بچپن اس لیے پیارا نہیں ہوتا کہ وہ بہت شاندار زمانہ ہوتا ہے بلکہ اس لیے بھی خوبصورت لگتا ہے کہ اس دور کی بے فکری آنے والی زندگی میں پھر نصیب نہیں ہوتی. اس دور میں اپنی ہنسی کی آواز سننے کے لیے محنت نہیں کرنا پڑتی، انتظار نہیں کرنا پڑتا. بس یونہی بلاوجہ ہی قہقہے پھوٹ پڑتے ہیں. مور کے پر ملنے کا مطلب ہوتا تھا کہ آپ دنیا کے بہترین بک مارکس کے حامل ہیں. بارش میں آنگن میں لگی انگور کی بیل اور اس پر اترتی چڑھتی گلہری.گل دوپہر کے کھلنے کے انتظار میں کڑی دھوپ میں کیاریوں کا طواف اور اس پر اماں کی ڈانٹ. سوچ کر ہی مسکراہٹ ہونٹ سے آنکھ اور وہاں سے دل کے کسی گوشے میں پہنچ جاتی ہے.

    بچپن کی باتوں میں سے یہ ایسی باتیں ہیں جو اب بھی میسر ہیں لیکن اب انھیں دیکھنے اور اسی محویت سے دیکھنے کی نہ تو فرصت ملتی ہے نہ ویسی خوشی، شاید گلہری کی شرارت کا تعلق بھی میرے بچپن سے تھا اور شاید پلاسٹک منی ہی کی طر ح اب ہم پلاسٹک بک مارکس کے عادی ہوگئے ہیں. اب ہر چیز اپنی افادیت کے پیراہن میں نظر آتی ہے. اسی لیے بھی شاید ہمیں، ہم سب کو اپنا بچپن بہت پیارا ہوتا ہے کہ تب چیزیں “فائدہ مند نہیں خوشی دینے” والی ہوتی تھیں.

    بات تعلق کے بدلاؤ سے شروع کر کے اپنے بچپن اور گلہری کی شرارت تک لے جانا بھی کسی خاتون کا ہی خاصہ ہو سکتی ہے.

    خیر! تعلق تو واقعی بدل گئے ہیں. مثبت اور منفی ہر دو طرح کی تبدیلیاں اب والدین اور بچوں یا یوں کہہ لیں بڑوں اور بچوں کے درمیان تعلقات پر اثر انداز ہوئی ہیں. بچہ چونکہ معاشرے کا مستقبل اور امید ہوتی ہے اور پورے معاشرے کی معاشرتی ذمہ داری بھی لہذا جب جب بچوں کے ساتھ تعلقات اور ان پر اثر انداز ہونے والے عوامل پر بات ہوگی تو وہ ہم سب کی بات بھی ہوگی اور سب کی ذمہ اری بھی.
    جہاں وقت نے تعلق پر مثبت تبدیلیاں جیسا کہ دوستی بے تکلفی کو رواج دیا ہے اور والدین یا بڑے جہاں خوف کی علامت نہیں رہے وہاں ہی وقت نے تعلقات کی بہت سی خوبصورتیاں بھی چھین لی ہیں.
    اب بچے برینڈڈ کپڑے پہنتے ہیں اور بارش میں نہیں بھیگتے.
    اب بلی طوطے پالنے سے (بچوں کو کم اور ان کی ماؤں کو زیادہ) انفیکشن ہوجاتا ہے.
    وقت نے ماؤں کو اس قدر “مصروف” کر دیا ہے کہ اب ان کے پاس بچوں کو سنانے کے لیے کہانیاں ہیں نہ وقت
    مائیں تو مائیں اب تو نانیاں دادیاں بھی ورکنگ ہو گئی ہیں اور بچے ‘پوکی مان’ تلاش کرتے کرتے اپنی ثقافت، اپنے رویوں اور اپنے لوگوں سے بہت دور چلے گئے ہیں. اس سارے چکر میں جو ناقابل تلافی نقصان ہوا وہ کہانیوں قصوں کا کہانی ہی ہو جانا ہوا. جی ہمارے بچے کہانی سے دور چلے گئے. انہیں قصے سنانے اور کہانی ہی کہانی میں اچھائی کی برائی کے درمیاں فرق سمجھانے والے نہ رہے. وہ جنوں پریوں کے قصے، دوستی محبت کی داستانیں، جادگروں کا انجام، ہیرو کی بہادری، ہیروئن سے ہمدردی، اس کو بچانے کے لیے کبھی کوہ قاف، کبھی پرستان تو کبھی گہرے مہیب جنگلوؤں کے پھیرے، ان پھیروں کے درمیان کوئی نادانستہ ہی سمجھا جاتا تھا کہ آپ سے وابستہ خواتین آپ کی ذمہ داری ہوتی ہیں. کوئی سمجھا جاتا تھا کہ برائی کی حد ہے، اچھائی کی نہیں، اور سب سے زیادہ یہ کہ ہر شب غم کی ایک صبح ہے، تیرگی کو بہر کیف زوال ہے.

    اور پتا ہے آپ سب کو! ایسی کہانیاں سن کے بڑے ہونے والے بچے ڈپریشن فرسٹریشن جیسے لفظوں سے آگاہ نہیں تھے. یہ جو ہمارے بچے شاخ پہ لگی ننھی کونپل کی عمر میں ہی ڈپریشن اور مایوسی جیسے لفظوں سے آگاہ ہیں تو یہ اسی کا شاخسانہ ہے. ٹیکنالوجی کی ایکسس، ہر شے میں جلدی، طاقت کا بلاجواز اور بےدریغ استمال سکھانے والی گیمز.
    اب یوں ہے کہ وقت کا پہیہ الٹا چلانے پر تو ہم آپ قادر ہیں نہیں، نہ اس ٹیکنالوجی کو اپنے بچوں کی زندگیوں سے یکسر نکال ہی سکتے ہیں لیکن ہاں! ہم اس کے بےدریغ استعمال کو کم تو کر سکتے ہیں، ہم اپنے بچوں کو لفظوں میں موجود احساسات کی چاشنی سے تو متعارف کرا سکتے ہیں جو انھیں آپ سے، ہم سے، اپنی جڑوں سے، اپنی تہذیب سے جوڑے رکھے. تاکہ ہمارے بچے شاخ سے ٹوٹے پتے کی مانند بے یقین مستقبل کے حامل تو نہ ہوں.

    لہذا میں نے تو فیصلہ کیا ہے کہ آج سے اپنی بھتیجی کے لیے کہانیاں لکھا کروں گی، جنوں کی پریوں کی کہانیاں، اچھائی کے برائی کے قصے.
    میں اسے بتاؤں گی کہ جادوگروں کے انجام اچھے نہیں ہوا کرتے اور میں اسے بتاؤں گی کہ بہادری اور سچائی وہ ٹریٹس ہیں جو فقیر کو بادشاہ بنا دینے پر قادر ہوتے ہیں.
    اور میں اسے بتاؤں گی کہ ظلم کے خلاف لڑنے والے ہی درحقیقت ہیرو ہوتے ہیں چاہے وہ کسی لکڑ ہارے کہ بچے ہوں یا مزدور کے.
    اور میں چپکے سے رفتہ رفتہ اس کے اندر اچھی پریوں کی محبت اور ظالم دیو سے نفرت ڈال دوں گی تاکہ جب وہ پریکٹیکل لائف میں آئے تو پھر کسی ظالم جابر نا انصاف کو وقت کا “جی ون” سمجھ کے خاموش نہ رہے بلکہ اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑی ہو.