Tag: برطانیہ

  • قتل و غارت کے وکیل-اوریا مقبول جان

    قتل و غارت کے وکیل-اوریا مقبول جان

    orya

    سگمنڈ فرائڈ وہ شخص ہے جس سے نفسیات کا علم منسوب کیا جاتا ہے۔ یوں تو انسانی نفسیات اور نفسیاتی  بیماریوں پر قدیم طب میں بہت سا مواد ملتا ہے لیکن جس شخص نے اپنے آپ کو انسانی ذہن اور نفسیات کے مطالعے کے لیے خاص کرلیا وہ سگمنڈ فرائڈ ہی تھا۔ وی آنا کے شہر میں پیدا ہونے والا یہ یہودی ہٹلر کے ظلم و بربریت کا گواہ بھی تھا اور اس کے وزیر گوئبلز کے پراپیگنڈے کا شکار، گوئبلز وہ شخص ہے جس نے اس دنیا کو یہ فقرہ تحفے میں دیا کہ ’’اس قدر جھوٹ بولو اور بار بار بولو کہ وہ سچ محسوس ہونے لگے‘‘۔ فرائڈ نے انسانی ذہن کو شعور،لاشعور اور تحت الشعور جیسی اصلاحات میں تقسیم کیا۔ اس کے نزدیک انسان کے ہر فعل کے پس پردہ جنسی جذبہ چھپا ہوتا ہے۔

    اسی لیے خوابوں کی تعبیر کے بارے میں اس کی کتابیں ہر خواب کا تجزیہ کرتے ہوئے اس میں جنس ضرور ڈھونڈ نکالتی ہیں۔ ایک وسیع یہودی خاندان ہمیشہ اپنے زیر کفالت افراد کی تربیت اور تعلیم پر خصوصی توجہ دیتا ہے۔ فرائڈ کی زیر تربیت بھی صرف اس کی بیٹی اینا فرائڈ ہی نہیں بلکہ اور بہت سے لوگ شامل تھے۔ ان میں اس کا ایک دوسرے رشتے سے بھانجہ ایڈورڈ برنیز ”Edward Bernays” بھی شامل تھا۔ اس کی ماں فرائڈ کی بہن اور اس کا باپ فرائڈ کی بیوی کا بھائی تھا۔ اس کا خاندان جرمنی کی یہودی نفرت یلغار سے تنگ آکر امریکا جاکرآباد ہوگیا۔

    وہ جنگ عظیم اول کے زمانے میں امریکی صدر کی پراپیگنڈہ مہم کا انچارج تھا۔ جنگ کے زمانے میں لوگوں کو جنگ پر آمادہ کرنا، اپنی فتوحات کا ڈھول پیٹنا، دشمن کو ظالم ثابت کرنا اور اپنی افواج کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے گئے افراد کو انسانیت کی بدترین مخلوق ثابت کرنا دراصل پراپیگنڈے کا حصہ بلکہ مقصد ہوتا ہے۔ فرائڈ کی محبت اور تربیت کے ساتھ ساتھ زرخیز یہودی ذہن کی وجہ سے اس نے جدید دور کی میڈیا انڈسٹری کو انسانی ذہنوں کو مسخر کرنے کی ایک سائنس بنادی۔ اس نے پہلی دفعہ لفظ پبلک ریلیشنز استعمال کیا جو آج تک دنیا بھر میں مستعمل ہے۔ اس کے نزدیک پراپیگنڈہ یا میڈیا صرف خیالات کی ترویج کا نام نہیں بلکہ یہ لوگوں کی رائے بنانے، اسے تبدیل کرنے اور اسے اپنی رائے کے مطابق ڈھالنے کا نام ہے۔

    امریکی صدر وڈرو ولسن کی جنگ عظیم اول کے زمانے کی پراپیگنڈہ ٹیم کے انچارج کی حیثیت سے اس نے امریکی عوام کو ایک نعرہ دیا کہ ’’امریکا اس لیے جنگ میں ممدو معاون ہے تاکہ پورے یورپ میں جمہوریت نافذ ہوجائے‘‘ یہ وہ زمانہ تھا جب عورتوں کی آزادی اور حقوق نسواں کی تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ اس نے مردوں سے آزادی کی علامت کے طور پر عورتوں کو مشورہ دیا کہ 1929ء میں جب ایسٹر پریڈ ہو تو عورتیں اس میں سگریٹ پیتی ہوئی شامل ہوں۔ اس طرح ان میں اور مردوں میں آزادی کا فرق نظر نہیں آئے گا۔ اسی کے پراپیگنڈے نے امریکی عوام کو جنگ عظیم اول کے دوران ہونے والے قتل و غارت پر قائل کرلیا۔ اپنے اس سارے منصوبے اور سوچ کو وہ ”Engineering Consent” کہتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو میڈیا اور پراپیگنڈے کے زور سے ایک ایسی بات پر قائل کرنا جسے وہ نہیں چاہتے ہیں۔ ایڈورڈ برنیز کا یہ تصور آج بھی دنیا بھر میں میڈیا کی روح ہے۔

    آپ کس قدر آسانی سے امریکی، برطانوی، یورپی بلکہ پسماندہ ممالک کی اکثریت کو قائل کرلیتے ہیں کہ افغانستان کے دور دراز اور پسماندہ ترین ملک جہاں ٹیلیفون، ٹیلی ویژن اور ریلوے جیسی بنیادی چیزیں بھی میسر نہیں وہاں بیٹھے چند لوگوں نے ایک سازش تیار کی اور پھر نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر تباہ کردیا۔ اس کے بعد آپ دنیا کو اس بات پر بھی قائل کرلیتے ہیں کہ افغانستان میں بسنے والے انسانیت کے دشمن ہیں اور پھر جب امریکی جہاز ان پر بم برساتے ہیں، ٹینک ان کو روندتے ہیں یا گولیاں ان کے سینے چھلنی کرتی ہیں تو کسی کو ان سے ہمدردی نہیں ہوتی۔

    یہی میڈیا دنیا بھر کو صدام حسین کے بارے میں جھوٹی اور من گھڑت رپورٹیں دکھا کر قائل کرلیتا ہے کہ عراق کے عوام کو مارنا اور ان کا خون بہانا جائز ہے۔ پھر جب کئی منزلہ عمارت پر امریکی میزائل آکر گرتا ہے تو ہم ٹیکنالوجی کی داد دے رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ اس عمارت میں عورتیں بچے اور بوڑھے بھی تھے جو اس میزائل گرنے سے موت کی آغوش میں چلے گئے ہوں گے۔

    جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنا اسی میڈیا کا کمال ہے۔ اس وقت گزشتہ کئی ہفتوں سے دو شہروں کا محاصرہ جاری ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ دنیا بھر کا آزاد میڈیا جسے آپ انسانیت کا فخر تصور کیا جاتا ہے۔ ان دونوں شہروں میں ایک شہر کے محاصرے کو جائز اور دوسرے شہر کے محاصرے کو ناجائز قرار دیتا ہے۔ ایک شہر ’’موصل‘‘ ہے اور دوسرا ’’حلب‘‘۔ دونوں پر اس میڈیا کے مطابق شدت پسند اسلامی گروہ قابض ہیں۔ لیکن موصل کا محاصرہ کرنے والے سرکاری فوجی انھیں شدت پسندوں سے آزادی دلانے کے لیے ان پر خوراک پانی اور دوائیں بند کررہے ہیں۔

    انھیں چن چن کر مار رہے ہیں۔ پوری دنیا کا میڈیا لوگوں کو قائل کرنے میں مصروف ہے کہ یہ سب کچھ انسانیت، آزادی اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے ہورہا ہے۔ مغربی صحافی جو عراقی افواج کے ساتھ ہیں وہ روز ان فوجیوں کی وکٹری کا نشان بنانے والی تصویریں اخباروں کے صفحہ اول پر لگاتے ہیں۔ دوسری جانب حلب ہے جہاں بشارالاسد کے سپاہیوں کو ظالم بناکر پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے حلب شہر کا محاصرہ کررکھا ہے۔

    اسی میڈیا کے تحت حلب کے شدت پسند دراصل آزادی کے ہیرو ہیں جب کہ وہی شدت پسند موصل میں انسانیت کے دشمن۔ جان پجر Jahn Piger ان لوگوں میں سے ہے جو اس دنیا میں قتل و غارت اور بربریت کا ذمے دار میڈیا کو ٹھہراتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر اس قدر زور دار پراپیگنڈہ نہ ہوتا تو دنیا پر القاعدہ، داعش اور النصرہ کا وجود معمولی سا ہوتا اور آج عراق اور شام کے شہری اپنی جانیں بچانے کے لیے دنیا بھر میں دربدر نہ ہورہے ہوتے۔ لیبیا کی تباہی اور قدافی کی المناک موت صرف اور صرف میڈیا کی جنگ اور فتح ہے۔ ایک پر امن ملک جس کے شہری دنیا کے ہر جائزے کے مطابق مطمئن زندگی گزار رہے تھے۔ پہلے اسے دنیا کی نظروں میں ظالم بنایا گیا ، یورپ اور امریکا کے عوام کو فائل کیا کہ اب اس ملک کی تباہی انسانیت کے لیے بہترہے۔

    اس کے بعد نیٹو کے جہاز نو ہزار سات سو دفعہ اڑے اور انھوں نے یورینیم وارڈ ہیڈز والے میزائل عوام الناس پر پھینکے۔ کوئی ایک آنسو ان معصوم عوام کی موت پر آنکھوں سے نہ نکلا، کوئی دل خوف سے نہ کانپا۔ کسی کو اندازہ تک نہ ہوا کہ وہاں کتنی معصوم جانیں موت کے گھاٹ اتار دی گئیں۔ اس لیے مغربی میڈیا پوری دنیا کو قائل کرچکا تھا کہ ان سب کیڑے مکوڑوں کی موت دنیا کے امن کے لیے ضروری ہے۔

    یہ مغربی میڈیا امریکی انتخابات کے موقع پر اپنے جھوٹ اور پراپیگنڈہ تکنیک کے عروج پر ہوتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس کے نزدیک ڈونلڈ ٹرمپ جس نے ایک قتل نہیں کیا وہ خوفناک آدمی ہے جب کہ ٹرومین، کنیڈی، جانسن، بش وغیرہ امن کی فاختائیں ہیں۔ اوباما جس نے گزشتہ تیس سال میں خرچ ہونے والی رقم سے بھی زیادہ امریکی ایٹمی ہتھیاروں پر خرچ کی ہے جو ایک ہزار ارب بنتی ہے۔ وہ اس وقت منی ایٹم بم بنوا رہا ہے جنھیں B-61 اور ماڈل 12 کہا جاتا ہے۔ اس کے دور میں سب سے زیادہ ڈرون حملوں میں لوگ مارے گئے۔ وہ امن کا نوبل انعام حاصل کرتا ہے۔ لیکن میڈیا اس کے کسی جرم پر گفتگو نہیں کرتا۔ اسے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے بڑبولے اور منہ پھٹ نہیں چاہیں، ہیلری جیسے منافق چاہیں جس کے ہاتھ لیبیا کے عوام کے خون میں رنگے ہوں لیکن پھر بھی امن کی فاختہ دکھائی دے

  • پاکستانی ریاست کے سٹیک ہولڈر – رضوان الرحمن رضی

    پاکستانی ریاست کے سٹیک ہولڈر – رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی پاکستان میں متعین چین کے سفیر نے گذشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان سے ان کی رہائش گاہ پر جا کر ملاقات کی اور انہیں ’پاک چین اقتصادی راہداری‘ کے ثمرات کے حوالے سے اعتماد میں لیا جس پر خان صاحب کو کہنا پڑا کہ وہ اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی رکاوٹ ڈالیں گے بلکہ وہ تو ملک میں موجودہ حکمران طبقے (پنجاب اور وفاق اور سندھ) کی طرف سے ہونے والی عمومی بدعنوانی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ چلیں اچھا ہوا، کم از کم یہ بات تو یقینی ہو گئی کہ اس مرتبہ کنٹینر پر سے اقتصادی راہداری کے جعلی یا جھوٹ ہونے یا پھر بھاری سود کے عوض لیے گئے قرضوں پر شروع ہونے والے منصوبے کہہ کر ان کی ایسی تیسی نہیں کی جائے گی۔

    اس ملاقات کی ایک تصویر تو یہ تھی جو اخبارات کی زینت بنی اور جس سے بظاہر وہ پیغام مل رہا تھا جو ہم نے یہاں بیان کیا اور یہ ہر کسی کو سمجھ میں آگیا۔ لیکن اس تصویر کا ایک پوشیدہ پیغام بھی تھا اور وہ یہ کہ اب پاکستان کی حکومتی فیصلہ سازی کے عمل میں بہت سے دیگر ممالک کے علاوہ چین بھی دخیل ہو گیا ہے۔ گذشتہ کم از کم ساڑھے تین دہائیوں سے ہم یہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں صرف امریکہ بہادر یا پھر اس کی منظوری یا اشارہ ابرو کے بعد برطانیہ بہادر کے سفارت کار دخل اندازی کیا کرتے تھے۔ لیکن اب چین بھی ایک نیا ’سٹیک ہولڈر‘ بن گیا ہے اور روس بس دروازے کے ساتھ لگا کھڑا ہے کہ امریکہ میں تربیت یافتہ سول اور وردی والی بیوروکریسی اس کو اجازت دے اور وہ بھی ہمارے ملکی معاملات میں داخل ہوجائے؟

    یادش بخیر جب ضیاء الحق صاحب نے افغانستان میں روس کے خلاف یورپ اور امریکہ کی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا تو کم از کم اتنا بھرم تو رکھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو براہِ راست مقامی افغانوں (اور پاکستانیوں) سے لین دین نہ کرنے دیا اور یہ پالیسی طے کروائی کہ اس حوالے سے ان کے ادارے کی خدمات کو استعمال کیا جائے گا۔ یوں روس کے خلاف افغان جہاد کے نتیجے میں ہم نے درجنوں جرنیلوں کو ارب پتی ہوتے دیکھا۔ محلے میں ہماری چوہدراہٹ بھی قائم ہو گئی۔ لیکن اپنا جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگا کر اقتدار پر قبضہ کرنے والا بہادر کمانڈو جناب پرویز مشرف صاحب جب اپنے اقتدار کے جواز میں دنیا میں منمناتا پھرتا تھا تو نیو ورلڈ آرڈر کے تحت اس سے ایک معاہدے پر اس صدی کی ابتدا میں دستخط کروا لیے گئے، اس کے بعد تو ساری شرم ہی اتار دی گئی۔ اب امریکیوں کو براہِ راست افغانیوں (اور پاکستانیوں) سے لین دین کرنے کی اجازت دے دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان ممالک نے افغانستان اور اسے ملحقہ پاکستانی آزاد قبائلی علاقوں میں میں ڈالر کے بھوکے وار لارڈز کا ایک بہت طبقہ پیدا ہو گیا بلکہ ہمارے ملک کے شہری علاقوں میں بھی (این جی اوز کی صورت میں) راتب خوروں کا ایک ’فرقہ‘ پیدا ہوگیااور یوں اب ہمارے ملک کے ہر کونے سے ایسی ایسی مخلوق برآمد ہو رہی ہے کہ اللہ کی پناہ! اب امریکی خال خال ہی ہمارے ملک کے دورے پر تشریف لاتے ہیں اور جو کچھ کہنا ہو وہ یہ این جی اوز کرتی کراتی ہیں یا پھر امریکہ اپنے پالتو کتورے (پوڈل) برطانیہ کو حکم دیتا ہے اور اس کی فوجی یا سول قیادت ہمیں آ کر بتا دیتی ہے کہ امریکہ بہادر کی کیا مرضی ہے؟ حال ہی میں برطانوی چیف آف جنرل سٹاف کا دورہ پاکستان بھی انہی پیغامات کے سلسلے کی ایک کڑی تھی، جس کے نتیجے میں ہمارے اداروں نے اپنے اچھا بچہ ہونے کا سرٹیفیکیٹ لینے کے لیے ان کو وزیرستان میں ’موقع واردات‘ پر لے جا کر مشاہدہ اور یقین دہانی کروانا ضروری خیال کیا کہ ہم حکم کے عین مطابق عمل پیرا ہیں۔

    لیکن اس معاہدے کو دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ عدالت سے سزایافتہ ایک مجرم کو جیل کی کوٹھڑی میں سے نکال کر عدالتی احکامات کا منہ چڑاتے ہوئے خاندان کے بچوں سمیت جہاز پر سوار کروا دیا گیا۔ اس پورے معاہدے کا ایک اہم’’ عملی جزو‘‘ (سٹیک ہولڈر) میاں صاحب بھی تھے۔ لہٰذا میاں نواز شریف صاحب نے ملک میں واپسی کے باوجود سال 2012ء تک عملی سیاست میں حصہ نہیں لیا اور معاہدے کے تحت سیاست سے دس سال دور رہنے کے معاہدے پر اس کی ’روح‘ کے مطابق عمل کیا۔ اس دوران بےنظیر بھٹو صاحبہ بھی اس معاہدے کا عملی جزو بننے کے لیے امریکیوں سے ملیں اور نوازشریف کو اعتماد میں لے کر اس میں کود پڑیں۔ لیکن ان کا پاؤں سرخ لکیر پر آ گیا جس کے بعد ان کو اس کھیل سے ہی نہیں بلکہ دنیا سے ہی ’فارغ‘ کر دیا گیا۔ ان کے سیاسی ورثاء نے ناک رگڑ کر پورا کھیل نہ بگاڑنے کی یقین دہانیاں کروائیں تو ان کو اس کھیل کا حصہ بنا لیا گیا۔ اس کھیل کا قدرتی انجام تو یہ ہونا چاہیے تھاکہ جب جمہوریت بحال ہوئی تھی تو پاکستان کی حاکمیت بحال ہو جاتی اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخیل عناصر کو نکال باہر کیا جاتا لیکن اس سارے معاہدے کی یقین دہانی اس ادارے نے کروا رکھی ہے جس نے قوم کو یہ بیانیہ دن رات رٹا دیا ہے کہ ’’ادارہ توبس ایک ہی بچا ہے‘‘۔

    اہم قصہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ہم آج کل امریکیوں اور افغان طالبان کے درمیان قطر میں ہونے والے مذاکرات سے باہر ہیں جبکہ کچھ ہفتے پہلے امریکی اور ان کے کابل میں مسلط ایجنٹ ہم سے مطالبہ کرتے پائے جاتے تھے کہ ہم افغان طالبان کو گھیر گھار کر مذاکرات کی میز پر ان کے حوالے کریں اور دوسری طرف بھارت کو ہلہ شیری دے کر راجھستان کی سرحد پر بھی بجلی والی خاردار تاریں لگوا کر اسے بند کروانے کی دھمکی دے دی گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس پر بھی عمل درآمد کروا دیا جاتا جس طرح بھارتی پنجاب اور حتیٰ کہ کشمیر میں خطِ متارکہ جنگ پر یہ کام مکمل کروایا گیا تھا لیکن ادھر دفترِ خارجہ نے اس معاملے میں بھی چین کو ملوث کر کے رنگ میں بھنگ ڈال دی اور معاملات وہیں پر روکنا پڑ گئے۔

    میاں نواز شریف کی جمہوریت ایک اور کھیل کھیلنے میں بھی مصروف ہے۔ میاں صاحب کا خیال ہے کہ اگر عامل جزو کی تعداد و مقدار بڑھا لی جائے تو اس میں پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کی کچھ بچت ہوجائے گی، یہی وجہ ہے کہ وہ چین کو اپنے گھر کے اندر نہیں بلکہ پچھلے سٹور تک لانے میں کوئی تامل محسوس نہیں کر رہے۔ جبکہ دوسری طرف گارنٹر ادارہ یہ یقین دہانی کروانے میں مصروف ہے کہ طے شدہ معاہدے پر پوری روح کے ساتھ عملدرآمد جاری ہے اور جاری رہے گا اور معاملات ویسے ہی طے ہوں گے جیسے آپ چاہیں گے۔

    یہ جو آپ کوبہت سے ملکی معاملات میں سول اور فوجی کشمکش نظر آتی ہے ناں؟ یہ اسی معاہدے پر عملدرآمد کرنے میں ہونے والی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ اور ہاں یہ جو مشرف کے وزرا اور مشرا جو پہلے مشرف صاحب، پھر زرداری حکومت اور آج کل میاں نواز شریف کی حکومت کا حصہ ہیں ناں تو یہ وہ ’مقدم‘ ہیں جو امریکیوں نے سارے معاملات پر نظر رکھنے کے لیے متعین کر رکھے ہیں۔ آپ کو مصدق ملک، زاہد حامد اور نجم سیٹھی کی ہر حکومت میں بمعہ اہل و عیال موجودگی کا جواز تو سمجھ میں آ گیا ہوگا؟

    چینی سفیر اور عمران خان کی اس ملاقات کا ایک اور پیغام یہ بھی ہے کہ اس معاہدے میں، سیاسی قوتوں میں سے پی ٹی آئی، جو اس پورے عمل سے باہر تھی یا رکھی گئی تھی، کو بھی شریک کیا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں آئندہ کچھ دنوں میں آپ کو اس کے سیاسی نکتہ نظرمیں کچھ نرمی محسوس ہوگی۔ آپ بس معاملات پر نظر رکھیے گا۔

  • اسٹیبلشمنٹ کیا ہے؟ رضوان اسد خان

    اسٹیبلشمنٹ کیا ہے؟ رضوان اسد خان

    رضوان اسد خان اوون جونز اپنی کتاب ”دی اسٹیبلشمنٹ“ میں لکھتے ہیں:

    The Establishment includes politicians who make laws; media barons who set the terms of debate; businesses and financiers who run the economy; police forces that enforce a law which is rigged in favour of the powerful. The Establishment is where these interests and worlds intersect with each other, either consciously or unconsciously. It is unified by a common mentality, which holds that those at the top deserve their power and their ever-growing fortunes, and which might be summed up by the advertising slogan of cosmetics giant L’Oréal: ‘Because I’m worth it’. This is the mentality that has driven politicians to pilfer expenses, businesses to avoid tax, and City bankers to demand ever greater bonuses while plunging the world into economic disaster. All of these things are facilitated – even encouraged – by laws that are geared to cracking down on the smallest of misdemeanours committed by those at the bottom of the pecking order.

    “The Establishment”
    By:
    Owen Jones

    ”اسٹیبلشمنٹ“ میں شامل ہیں:
    .. وہ سیاستدان جن کا کام (اپنے مطلب کی) قانون سازی ہے.
    .. میڈیا کے وہ کرتا دھرتا جو مباحث کے (موضوع اور) اصول وضع کرتے ہیں.
    .. وہ تاجر اور سرمایہ دار جن کی مٹھی میں معیشت ہے.
    .. وہ پولیس جو اس قانون کو بزور نافذ کرتی ہے جو طاقتور کی طرفداری کرتا ہے.

    اسٹیبلشمنٹ وہ مقام ہے جہاں یہ مختلف جہان اور ان کے مفادات آپس میں ارادی یا غیر ارادی طور پر آ ملتے ہیں.
    انہیں ایک ایسی متفقہ ذہنیت نے آپس میں باندھ رکھا ہے جس کے مطابق چوٹی پر موجود لوگ اپنی طاقت اور دن دگنی رات چگنی ترقی کرتے اثاثوں کے ”مستحق“ ہیں. اور اس بات کو مختصراً مشہور کاسمیٹکس برانڈ ”لوری ایل“ کے اشتہاری پیغام میں بخوبی سمویا جا سکتا ہے:
    ”کیونکہ یہ میری حیثیت کا تقاضا ہے.“
    ”I am worth it“
    کا حقیقی ترجمہ تقریباً ناممکن ہے
    یہی وہ ذہنیت ہے جو سیاستدانوں سے غبن اور کاروباری حضرات سے ٹیکس چوری کرواتی ہے اور بینکنگ کے سورماؤں کو بونس پر بونس دلواتی ہے، باوجود اس کے کہ دنیا کو وہ معاشی تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں.
    اور ان سب باتوں کی سہولت دیتے ہیں بلکہ بسا اوقات حوصلہ افزائی کرتے ہیں. وہ قوانین جو اپنی ساخت کی بدولت نچلی ترین سطح کے کارکنوں کی معمولی ترین لغزشوں کو بھی نظر انداز کرنے پر تیار نہیں.

    یعنی اسٹیبلشمنٹ کی یک سطری تعریف یوں بن سکتی ہے:

    ”ما انزل اللہ“ کے سوا کسی بھی بنیاد پر قائم نظام کے وہ تمام ”اہل حل و عقد“ جن کا مفاد اور بقا ”ہر قیمت پر“ اس کی مروجہ شکل (سٹیٹس کو) کو برقرار رکھنے سے ہی وابستہ ہو.
    …………….

    احقر کی رائے:

    .. اوون جونز چونکہ برطانیہ اور مغربی اقوام کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی وضاحت کر رہے ہیں، جہاں فوج کا کردار اور دائرہ کار محدود ہے، لہٰذا اس فہرست میں اس کا ذکر نہیں. جبکہ ہمارے ماحول میں وہ فوج جو متعدد بار اقتدار پر براہ راست قابض رہ چکی ہے، اس کے ذکر کے بغیر یہ لسٹ قطعاً نامکمل ہے.

    .. بہت سے لوگ میڈیا کو اسٹیبلشمنٹ کا حصہ نہیں سمجھتے، جو کہ اس کی طاقت کے انکار کے مترادف ہے. میڈیا کے جغادریوں اور چودھریوں کا معاشی اور نظریاتی مفاد بھی اسی نظام کی بقا سے جڑا ہے جس میں ان پر پابندی صرف اور صرف اپنے ”قبیلے“ کے لوگوں کے خلاف بولنے اور لکھنے پر ہو جبکہ دنیا کے دیگر موضوعات پر انہیں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہو، خواہ معاملہ کتنا ہی سنجیدہ، حساس یا تکنیکی نوعیت کا ہی کیوں نہ ہو.

    .. ہمارے یہاں سیاست دانوں کو ”پرو اسٹیبلشمنٹ“ اور ”اینٹی اسٹیبلشمنٹ“ میں تقسیم کیا جاتا ہے، جو اس لحاظ سے بجا ہے کہ اسلام پسند جماعتوں کے منشور کے مطابق وہ اقتدار کے حصول کے بعد نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی علمبردار ہیں جو کہ ”سٹیٹس کو“ کے تسلسل کی خواہاں قوتوں کے مفاد کے خلاف ہے. شاید اسی وجہ سے ان جماعتوں کو کبھی بھی ”گیم چینجنگ“ حیثیت حاصل نہیں کرنے دی گئی.
    البتہ جن سیکولر پارٹیوں یا سیاستدانوں کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے، وہاں اسٹیبلشمنٹ کا نہایت محدود تصور کارفرما ہے.

    .. اور آخر میں ہو سکتا ہے کہ آپ میری بات سے اتفاق نہ کریں، لیکن ایک ایسا طبقہ بھی اسٹیبلشمنٹ کا ایک طاقتور حصہ بننے میں کامیاب ہو چکا ہے جس نے (دہشتگردی کی طرح)، نہایت غیر محسوس طریقے سے ”فرقہ واریت“ کی بھی ایک نئی تعریف وضع کر دی ہے.

  • جنگ، امن اور چرچل – محمد عرفان ندیم

    جنگ، امن اور چرچل – محمد عرفان ندیم

    سر ونسٹن چرچل برطانیہ کے مشہور وزیراعظم تھے، انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز ایک سپاہی اور اخباری نمائندے کی حیثیت سے کیا، وہ1901ء میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور مختلف عہدوں سے ہوتے ہوئے 1965ء میں انتقال کرگئے۔ وہ ہوم سیکرٹری، نیوی اور فضائیہ کے سربراہ، وزیرجنگ، وزیر خزانہ اور اسلحے کے وزیر سے ہوتے ہوئے وزیراعظم کے عہدے تک پہنچے۔ 1936ء میں برطانوی وزیراعظم چیمبر لین نے ہٹلر کو خوش کرنے کی پالیسی اپنائی تو چرچل میدان میں کو د پڑا، یہی وہ وقت تھا جب چرچل کو برطانوی سیاست میں نمایاں ہونے کا موقع ملا۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو اسے ایڈ مرل کی حیثیت سے کابینہ میں شامل کر لیا گیا اور وہ مئی 1940ء میں برطانیہ کا وزیراعظم بن گیا۔ ہٹلر نے خود کشی کی اور 1945ء میں جنگ ختم ہوگئی، برطانیہ میں لیبر پارٹی کی حکومت قائم ہوئی، چرچل قائد حزب اختلاف بن گیا. یہ وہ دور تھا جب روس اور مغربی اتحادیوں میں سرد جنگ عروج پر تھی، چرچل نے اس سرد جنگ میں روس اور مغربی اتحادیوں میں اختلافات بڑھانے میں اہم کر دار ادا کیا، وکٹری کا نشان اور روس کے خلاف ’’آہنی پردے ‘‘ کی اصطلاح بھی اسی نے ایجاد کی۔ 1951ء کے انتخابات میں قدامت پسند پارٹی کو دوبارہ منظم کیا، الیکشن ہوئے، قدامت پسند پارٹی جیت گئی، چرچل دوبارہ وزیر اعظم بنا اور 1955ء میں بڑھاپے کی وجہ سے سیاست سے الگ ہوگیا۔ ونسٹن چرچل کو سیاست کی دنیا کا امام کہا جاتا ہے، دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر اور جرمنی کی شکست میں اس نے اہم کردار ادا کیا. کہا جاتا ہے کہ اگر دوسری جنگ عظیم میں چرچل نہ ہوتا تو آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہو تا۔ جرمنی کے بعد وہ روس کا بھی خاتمہ چاہتا تھا اور اس کے لیے اس نے مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر بھر پور لابنگ کی، امریکی صدر روزویلٹ نے اس لابنگ کی مخالفت کی جس کی وجہ سے روس بچ گیا۔ چرچل برطانوی نوآبادیات کی آزادی کا سخت مخالف تھا، اس نے صرف اس وجہ سے وزیراعظم بننے سے انکار کر دیا تھا کہ اسے بطور وزیراعظم ہندوستان کی آزادی کی تقریب کی صدارت کرنی پڑنی تھی۔چرچل اگرچہ اسلام اور مسلمانوں کا سخت مخا لف تھا لیکن وہ اسلامی تہذیب و ثقافت کا دلدادہ تھا، بلنٹ اس کا ایک عربی دوست تھا، چرچل اس کی پارٹیوں میں جاتا تو عربی جبہ اور لباس زیب تن کرتا، اسلامی تہذیب کی طرف اس کا رجحان اس قدر شدید تھا کہ اس کے گھر والوں کو اس کے مسلمان ہونے کا ڈر رہتا، چرچل نے ایک بار خط میں لکھا کہ وہ پاشا بننا چاہتا ہے جس پر اس کی بھابھی نے اسے ایک خط تحریر کیا جس میں لکھا ’’مہربانی کر کے آپ اسلام قبول نہ کریں، میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ آپ میں مشرقی تہذیب کو قبول کرنے اور پاشا بننے کے رجحانات پائے جاتے ہیں ‘‘

    ونسٹن چرچل کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک بار قوم سے خطاب کے لیے اسے ریڈیو اسٹیشن جانا تھا، وہ سڑک پر آیا اور ایک ٹیکسی والے کو اشارہ کیا کہ اسے برٹش براڈ کاسٹنگ ہاؤس جانا ہے، ٹیکسی ڈرائیور نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ چرچل کی تقریر سننے جا رہا ہے، چرچل یہ سن کو جھوم اٹھا اور جیب سے ایک پاؤنڈ نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا، ٹیکسی ڈرائیور نے پاؤنڈ دیکھا تو بولا ’’بھاڑ میں جائے چرچل اور اس کی تقریر، آپ بیٹھیں میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں، آپ جیسا رحم دل اور نیک انسان مجھے کہاں ملے گا‘‘ چرچل نے بتایا کہ میں ہی چرچل ہوں اور مجھے ہی تقریر کرنے جانا ہے تو ٹیکسی ڈرائیور بہت شرمندہ ہوا اور اپنی گستاخی کی معافی چاہی، چرچل نے اسے سمجھاتے ہو ئے کہا ’’کوئی بات نہیں، روپیہ پیسہ اکثر تعلقات اور رشتے بھلا دیتا ہے‘‘. چرچل ایک بار پاگل خانے گیا اور وہاں کھڑے ایک شخص سے پوچھا ’’آپ کا تعارف‘‘ اس شخص نے جواب دیا ’’میں پاگل خانے میں زیرعلاج تھا، اب صحت یاب ہوگیا ہوں اور آج گھر جا رہا ہوں ۔‘‘ اس نے چرچل کا تعارف پوچھا تو چرچل نے کہا ’’میں برطانیہ کا وزیراعظم ہوں‘‘، وہ شخص قہقہے لگانے لگا، آگے بڑھا اور بڑی ہمدردی کے ساتھ چرچل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’میاں فکر نہ کرو آپ بہت جلد ٹھیک ہو جاؤ گے، یہ بہت اچھا ہسپتال ہے، یہاں آنے سے پہلے میں بھی خود کو برطانیہ کا وزیراعظم سمجھتا تھا لیکن اب میں مکمل طور پر ٹھیک ہوں.‘‘

    بات دور نکل گئی ہم واپس آتے ہیں، چرچل نے دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کو شکست سے بچایا تھا، جنگ کے فورا بعد برطانیہ میں الیکشن ہوئے تو برطانوی عوام نے چرچل کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا. برطانوی عوام کا کہنا تھا کہ چرچل ایک جنگی ہیرو ہے اور اب ہمیں جنگ نہیں امن چاہیے، اس لیے چرچل برطانیہ کی تعمیر نو اور امن کے لیے موزوں امیدوار نہیں۔ برطانوی عوام نے مناسب وقت پر درست فیصلہ کیا تھا، برطانوی عوام جانتے تھے کہ چرچل ایک جنگجو ہے اور ایک جرنیل سے صرف جنگ کی امید ہی کی جا سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ چرچل اگر الیکشن جیت جاتا تو دنیا ایک نئی جنگ میں مبتلا ہوجاتی۔

    برطانوی عوام اور یورپ وہ سبق آج سے ستر سال پہلے سیکھ چکا تھا جو پاک انڈیا عوام، میڈیا اور حکمران ستر سال بعد بھی نہیں سیکھ سکے۔ پاکستان اور انڈیا کے عوام ہر دو ماہ بعد جنگ جنگ کھیلنے لگ جاتے ہیں، ایشیا کے اکثر خطے آج بھی جنگ کی لپیٹ میں ہیں ،کبھی شمالی اور جنوبی کوریا آمنے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کبھی پاک بھارت فوجیں بارڈر پر آ جاتی ہیں، کبھی روس اور چین کے حالات خراب ہو جاتے ہیں اور کبھی عرب اسرائیل تنازع زور پکڑ لیتا ہے. یہ براعظم ایشیا کی بدقسمتی ہے کہ یہ ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے سانحات سے سبق نہیں سیکھ سکا. جنگ عظیم اول اور دوم میں بھی ایشیا میں کروڑوں افراد ہلاک ہوئے لیکن ایشیا نے پھر بھی سبق نہیں سیکھا اور آج ایک بار پھر ایشیا کے دو اہم ممالک، ان کا میڈیا اور ان کے عوام جنگ کے لیے پر تول رہے ہیں. یہ ثابت کرتا ہے کہ ایشیائی عوام کا شعور آج بھی 1945ء کے یورپی عوام سے بہت پیچھے ہے، ان لوگوں نے 1945ء میں سیکھ لیا تھا کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہوا کرتی اور یہ پورے کے پورے ملک ہڑپ کر لیتی ہے لیکن ایشیائی عوام آج بھی جنگوں کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور یہ جنگوں کی پٹاری سے اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔

    آپ دنیا کا نقشہ اپنے سامنے میز پر پھیلائیں اور دنیا کے 260 ممالک کی فہرست بنائیں، اس فہرست میں آپ ترقی یافتہ ممالک کو الگ کریں، آپ کو نظر آئے گا کہ ترقی یافتہ ممالک صرف اس لیے ترقی یافتہ ہیں کہ وہاں امن اور قانون ہے اور ان ممالک نے اپنے ہمسائیوں سے جنگ بندی کے معاہدے کیے ہوئے ہیں جبکہ ترقی پذیر اور تیسری دنیا صرف اس لیے پیچھے ہے کہ وہاں امن ہے نہ قانون اور یہ ممالک اپنے ہمسائیوں سے الجھے رہتے ہیں۔ آج پاکستان اور بھارت اپنا دفاعی بجٹ کم کر دیں تو اگلے دس سال میں ان ممالک سے غربت ختم ہو جائے گی اور اگلے پندرہ سال میں یہ ممالک ایشیا کے ترقی یافتہ ممالک کہلائیں گے۔ میں پاک بھارت میڈیا، عوام اور حکمرانوں کے جنگی جنون کو دیکھتا ہوں تو سر پکڑ لیتا ہوں کہ ڈیڑھ سے پونے دو ارب آبادی والے خطے میں کوئی بھی ایسا نہیں جو جنگ کے بجائے امن کی بات کرے اور یہ بات سمجھ سکے کہ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوا کرتیں بلکہ ہیروشیما اور ناگا ساکا جیسے وہ مسائل پیدا کرتی ہیں جن کے زخم ستر سال گزرنے کے بعد بھی نہیں بھرتے۔

  • دہشت گرد کون، مغرب یا مسلمان؟ محمد عتیق الرحمن

    دہشت گرد کون، مغرب یا مسلمان؟ محمد عتیق الرحمن

    عتیق الرحمن سٹینڈفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر فلپ زمباڈو کا خیال ہے کہ’’ دہشت گردی میں عام آبادی کو خوف زدہ کیا جاتا ہے، لوگوں کے خود پر موجود اعتماد کو مجروح کیا جاتا ہے اور ایک محفوظ و آرام دہ دنیا کو خار زار میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ دہشت گرد غیر متوقع طور پر تشدد کی کارروائی کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ دہشت گرد لوگوں کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے اس صورت میں یا تو مقابلہ کیا جاتا ہے یا گریز اختیار کیا جاتا ہے۔‘‘

    دہشت گردی ایک ایسا لفظ ہے جس سے ہم سب کی واقفیت ہے اور پاکستانی اسے کئی بار سن چکے ہیں۔ ہم دہشت گردی کو قرآن مجید کی رو سے فساد فی الارض سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ اسلام بمعنیٰ سلامتی ہے۔ پیغمبر اسلام رحمۃ اللمسلمین نہیں بلکہ رحمۃ اللعالمین بن کر آئے۔ اسلام ساری دنیا میں امن وسلامتی کا داعی ہے۔ اسلام جہاں اپنے ماننے والوں کو امن دیتا ہے وہیں غیر مسلموں کے ایسے حقوق رکھے ہیں جن سے ان کی جان، مال، عزت اور آزادی محفوظ رہتی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ خبردار جس نے ذمی کافر پر ظلم کیا یا اسے نقصان پہنچایا، اس کی طاقت سے زیادہ اس سے کام لیا یا اس سے کوئی تھوڑی سی چیز بھی بغیر اس کی رضا کے لی تو کل قیامت کے دن میں ایسے شخص سے جھگڑوں گا۔جس نے کسی ذمی کافر کو اذیت پہنچائی تو میں اس کا مخالف ہوں اور جس کا میں مخالف ہوا قیامت کے دن اس کی مخالفت ہو گی۔‘‘ ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ﷺ ہے’’ جو کسی جان دار (انسان یا جانور) کو مْثلہ کرے (شکل و صورت یا حلیہ بگاڑے) اس پر اللہ تعالیٰ، ملائکہ اور بنی آدم سب کی لعنت ہے۔‘‘

    مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور ایشیا کے علاقوں میں غالب اکثریت اسلام کے ماننے والے ہیں جبکہ چین، مشرقی یورپ اور روس میں بھی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی آباد ہے۔مسلم مہاجرین کی بھی ایک بڑی تعداد یورپ میں آباد ہے۔ جہاں عیسائیت کے بعد سب سے بڑا مذہب اسلام ہے اور مغربی تجزیہ نگاروں کے مطابق بہت جلد اسلام یورپ کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ مغربی ممالک میں دیگر مذاہب کے لوگ بڑی تیزی سے اسلام کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ غیر مسلم ممالک اگر ایک طرف اسلام کی اشاعت سے خوفزدہ ہیں تو دوسری طرف عالم اسلام میں معدنیات کے خزانے ان کی حریصانہ نظروں میں ہیں۔ سید عاصم محمود 1990-91 کے سالوں کے متعلق لکھتے ہیں’’ابھی مغرب اور القاعدہ کا باقاعدہ تصادم شروع نہیں ہوا تھا۔ پھر بھی مغربی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں سے ناپسندیدگی و نفرت کے ملے جلے جذبات پائے جاتے تھے۔‘‘ تاہم اس وقت ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ لیکن اس وقت یہ صورت حال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ اسلام مخالفت میں جہاں انفرادی طور پر لوگ مصروف عمل ہیں وہیں باقاعدہ طور پر یورپ میں اسلام مخالف تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں جو وقتا فوقتااسلام کے مختلف اصولوں پر طعن و تشنیع اور پابندیوں کا مطالبہ کرتے اور اسلام کو دہشت گرد مذہب گردانتے نظر آتے ہیں۔ ہالینڈ کا اسلام مخالف Greet Wilders جو کہ چوتھی بڑی سیاسی پارٹی کا بانی اور سربراہ ہے، اٹھتے بیٹھتے اسلام مخالف زہر اگلتا رہتا ہے اور قرآن مجید کو ہٹلرکی آپ بیتی سے تشبیہ دیتا ہے (نعوذباللہ )۔

    اسلام اور اس کے ماننے والے امن کے داعی ہیں جبکہ بڑے بڑے حادثات میں غیر مسلم ممالک بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہوتے ہیں۔ اگر ہم پہلی جنگ عظیم کی بات کریں جو 28جون 1914ء کو آسٹریا ہنگری کے ولی عہد اور شہزادہ فرانسس فرڈی ننڈ کو سلاو دہشت گرد کی طرف سے گولی مارنے کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔ اس جنگ میں 1 کروڑ ہلاک ہوئے. ’’پچھلے ایک سو برس میں ہوئی لڑائیوں میں ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ‘‘ اور دو کروڑ دس لاکھ کے قریب افراد زخمی ہوئے۔ یکم جولائی 1916ء کو ایک دن کے اندر اند ر 57 ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔ جرمنی کے 17 لاکھ 73ہزار سے زائد، روس کے 17 لاکھ کے قریب اور فرانس کو اپنی 16 فیصد فوج سے محروم ہونا پڑا۔ کیا یہ جنگ اسلام اور اسلام کے نام لیواؤں نے انسانیت پر مسلط کی تھی؟ دوسری جنگ عظیم میں 13 سے 15 فروری 1945ء تک 3 ہزار 900 ٹن کے قریب بارود اور دیگر دھماکہ خیز مواد انسانیت پر برسایا گیا۔ یہ جنگ بھی اسلام نے انسانیت پر مسلط نہیں کی تھی۔ 60 لاکھ یہودیوں کو قتل کرنے والا ایڈولف ہٹلر بھی مسلمان نہیں تھا۔ یورپ اور جرمنی میں آج بھی ہٹلر کی حمایت اور ہولوکاسٹ کی مخالفت کرنا جرم ہے۔ شاہ لیوپولڈ ثانی کے ہاتھوں مرنے والے افراد کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ 1880ء سے 1920ء کے دوران اس کے زیر قبضہ علاقے کی 50 فیصد آبادی کم ہوئی۔ شاہ کے جبری مزدوری فلسفے کو بعد میں فرانس، جرمنی اور پرتگال نے اپنے نوآبادیاتی نظام میں اپنایا۔ میسولینی ایتھوپیا پر قبضہ کے دوران وہاں کی 7فیصد آباد ی کو قتل کیا اور 1936ء میں ہٹلر کے ساتھ اتحاد کے بعد جنگ عظیم میں کود پڑا اور جوزف سٹالن کے ہاتھوں 8 لاکھ افراد کو موت دی گئی، جبری کیمپوں میں 17لاکھ کے قریب افراد مارے گئے اور جبری ہجرت کے دوران مرنے والوں کی تعداد 3 لاکھ 90 ہزار سے زائد تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے چین، کوریا، گوئٹے مالا، انڈونیشیا، کیوبا، بلجن کانگو، پیرو، لاؤس، ویتنام، کمبوڈیا،گریناڈا، سوڈان، یوگوسلاویہ، افغانستان، عراق اور شام سمیت دیگر ممالک کے ساتھ جنگ کی یا پھر اتحادی ہونے کی صورت فضائی بم باری میں حصہ لیا۔ مصنف ایلیٹ لیٹن نے نکتہ اٹھایا کہ ‘تناسب کے اعتبار سے امریکہ، دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ قاتل پیدا کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان قاتلوں کے ذاتی، سیاسی اور مذہبی نظریات ہوں مگر یہ نہ تو کسی منظم سیاسی یا مذہبی جماعت کے رکن ہوتے ہیں اور نہ ان کی سرگرمیاں کسی پارٹی کے ایجنڈے کا حصہ، جیسا کہ آج کل دہشت گردوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

    ایرن ملر کا کہنا ہے کہ’’2004ء سے 2013ء کے درمیان ہونے والے تمام دہشت گرد حملوں میں سے نصف حملے عراق، افغانستان اور پاکستان میں ہوئے اور 60 فی صد ہلاکتیں انھی ممالک میں ہوئیں اور یہ تینوں مسلم ممالک ہیں۔‘‘ دنیا میں دہشت گرد حملوں میں مرنے والے 95 فی صد مسلمان ہیں جیسے دعووں پر شک ہے، تاہم ان کے خیال میں یہ دعویٰ سچ سے بہت زیادہ دور بھی نہیں ہے۔ ایرن ملر نے اس حوالے سے کہا’’مسلم اکثریتی ممالک میں زیادہ تر حملے مرکوز ہونے کی صورت حال میں یہ دعویٰ ناممکنات میں سے نہیں ہے۔‘‘ 2004ء سے 2013ء کے درمیان برطانیہ میں 400 دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ ان میں سے زیادہ تر شمالی آئرلینڈ میں ہوئے لیکن زیادہ تر میں ہلاکتیں نہیں ہوئیں۔ اسی درمیان امریکہ میں 131 حملے ہوئے اور 20 سے بھی کم ہلاکتیں ہوئیں۔ فرانس میں اس مدت میں 47 حملے ہوئے جبکہ اس دوران عراق میں 12 ہزار حملے ہوئے اور ان میں 8ہزارسے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ذرا مزید ماضی بعید میں جائیں تو یورپی ممالک اور شمالی امریکہ باقی دنیا کو سینکڑوں برس سے تشدد، جنگ وجدل، قتل وغارت گری اور دیگر ہتھکنڈوں سے فتح کیے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے فلپائن پر چڑھائی کی اور فلپائنی عوام کو قتل کیا، انگلستان نے ہندوستان پر قبضہ کیا، فرانس نے الجزائر پر چڑھائی کی اور بیلجیئم نے افریقہ کے لاکھوں افراد کو قتل کیا. یورپ کی تاریخ تو خانہ جنگی سے بھرپور تاریخ ہے۔ برطانیہ نے واشگٹن کو جلا کر راکھ کر دیا تھا۔ سترہویں صدی کی ایک جنگ میں جرمنی کی ایک تہائی آبادی ہلاک کر دی گئی تھی اور بیسیویں صدی کے بارے میں توکچھ بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔ جس میں جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم اور ہٹلر، میسولینی اور جوزف سٹالن جیسی شخصیات پیدا ہوئیں۔ افغانستان کے اوپر مسلط ہوئی جنگ میں 1ل اکھ 73ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئیں اور حملہ کرنے والا کوئی اور نہیں امریکہ اور نیٹو اتحاد ہے۔ اس سے پہلے افغانستان پر روس گرم پانیوں کی تلاش میں یلغار کرچکا ہے۔ عراق پر امریکی حملے کی صورت میں ایسوسی ایٹڈ پریس کے محتاط اندازے کے مطابق 1لاکھ 10ہزار لوگ ہلاک ہوئے۔ شام میں جاری خانہ جنگی میں امریکہ و روس جیسی طاقتوں کی پراکسی وار سے 4 لاکھ 70کے قریب ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ زخمیوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے اور مہاجرین کی تعداد اس کے ماسوا ہے جو در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور بھوک،گرمی، سردی اور بیماری سے جوہلاکتیں ہوئیں وہ الگ ہیں۔

    پاکستان، سعودی عرب، اور ترکی سمیت دیگر اسلامی ممالک میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیاں اس کے علاوہ ہیں۔ جس میں نام نہادمسلمان (انہیں مسلمان کہنا بھی لفظ مسلمان کی توہین ہے ) جنہیں پورے عالم اسلام میں سے کسی بھی اسلامی رہنما یا معروف اسلامی سکالر کی حمایت حاصل نہیں ہے ملوث پائے جاتے ہیں۔ جن کے متعلق خبریں اور انٹیلی جنس رپورٹس کچھ اور ہی کہانی بیان کرتی ہیں۔ داعش کے متعلق تو میڈیا میں خبریں آچکی ہیں کہ اس کو بنانے میں امریکہ و مغرب کا کردار ہے۔ فلسطین وکشمیر میں یہود و ہنود کس کی ملی بھگت سے مسلمانوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں؟ فلسطینی مجاہدین کو دہشت گرد کہا جاتا ہے اور کشمیریوں کی حمایت تک کرنے والوں کو بھارت دہشت گرد ڈکلیئر کروا دیتا ہے۔ پچھلے 75دن سے بھارت کشمیر میں مسلمانوں پر جدید ترین ٹیکنالوجی آزما رہا ہے۔ اسرائیلی ڈرونز، پیلٹ گنز اور دیگرجدید اسلحہ ان کشمیری حریت پسندوں پر چلایا جا رہا ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ برما میں مسلمانوں کو بدھ مت گاجر مولی کی طرح کاٹتے ہیں، جہاں بھر کا ظلم ان پر برما کی حکومت روا رکھے ہوئے ہے،گلیوں، بازاروں اور گھروں میں برمی مسلمانوں کو زندہ جلایا جاتا ہے۔ فلسطین میں اسرائیل بیت المقدس کے محافظ نہتے فلسطینیوں کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں اکٹھا کرکے شہید کر رہا ہے۔ کبھی غزہ کا پانی بند کردیا جاتا ہے تو کبھی عین سکول کی چھٹی کے وقت بمباری کرکے معصوم فلسطینی بچوں کو شہید کیا جاتا ہے۔ دنیا میں فساد کی جڑ اسلام کے نام لیوا بالکل نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے مسلم ممالک میں خانہ جنگی کروائی۔ کہیں خود جنگ مسلط کی اور کہیں اپنے ایجنٹس کے ذریعے خانہ جنگی کروادی۔ عالم اسلام اس وقت جس اضطراب کی کیفیت سےگزر رہا ہے، اس میں عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کو اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی روش چھوڑنی ہوگی۔ دہشت گرد کسی بھی روپ میں ہو، اسلام پسند بالکل نہیں ہوسکتا۔ دنیا پر جو جنگ مسلط ہوچکی ہے یا مستقبل قریب میں ہوگی اس میں عالم اسلام کی پالیسیوں کا کوئی کردار نہیں ہوگا بلکہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی ہٹ دھرمی اور عالم اسلام کی دولت پر قبضہ کرنے کی خواہش اس کی بنیادی وجہ ہوگی۔ جدید ترین جنگوں میں میڈیا کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ مسلم ممالک کو اپنے میڈیا کو اس حوالے سے تیار کرنا ہوگا تاکہ اسلام اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت میں ذرائع ابلاغ اپنا کردار ادا کرسکے۔ عالم اسلام کو اتحاد عالم اسلامی کی جانب جلد سے جلد بڑھنا ہوگا تاکہ جو جنگ اسلام کے نام پر حرمین شریفین کے دروازوں پر پہنچ چکی ہے اسے ختم کیا جا سکے۔

  • ڈیوڈ کیمرون اور شہباز شریف میں فرق – ڈاکٹر ماجد

    ڈیوڈ کیمرون اور شہباز شریف میں فرق – ڈاکٹر ماجد

    %da%a9%db%8c%d9%85%d8%b1%d9%88%d9%86 یہ 14جون 2011ء ہے، مہذب دنیا کا ایک ملک ہے جس کا منتخب وزیراعظم جو کہ دنیا کی طاقتور ترین شخصیات میں شمار ہوتا ہے، ایک ہسپتال کے دورے پر جاتا ہے، نائبین اور میڈیا کے نمائندے ساتھ ہیں، وارڈ میں پہنچتے ہی وارڈ کے ایک ڈاکٹر صاحب مداخلت کرتے ہیں اور انھیں فوری طور پر وارڈ سے نکلنے کا حکم دیتے ہیں. وجہ کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب کی دانست میں وزیراعظم وارڈ کا ماحول خراب کرنے کا موجب ہو سکتے ہیں. ڈاکٹر کی ڈانٹ ڈپٹ سن کر منتخب وزیراعظم معذرت کرتے ہیں اور انا کا مسئلہ بنائے بغیر رخصت ہو جاتے ہیں. اخبار میں اس کیپشن کے ساتھ تصویر آتی ہے: معزز ڈاکٹر نے وزیر اعظم کو وارڈ سے نکال دیا.

    %d8%b4%db%81%d8%a8%d8%a7%d8%b2-%d8%b4%d8%b1%db%8c%d9%81 یہ ستمبر 2015ء ہے، تیسری دنیا کا ایک ملک ہے جس کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ صوبہ کے دارالخلافہ کا ایک مضافاتی شہر ہے جہاں قریب ہی ملک کے طاقتور ترین سیاسی خاندان کا سینکڑوں ایکڑ پر محیط رہائشی علاقہ ہے. صوبے کا وزیر اعلی جو کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے صوبے کے سیاہ و سفید کا مالک ہے، ایک ہسپتال کے دورے پر پورے جاہ و جلال کے ساتھ جاتا ہے، ہسپتال کی انتظامیہ بےبس اور اپنی صفائیاں پیش کرتے ہوئے نظر آتی ہے، اور اخبار میں اس کیپشن کے ساتھ تصویر آتی ہے: وزیر اعلی ہسپتال کے ایم ایس کی سرزنش کرتے ہوئے.

    میں نے جب سے یہ مناظر دیکھے تب سے ذہن میں خیالات کا ایک طوفان برپا ہے جو مضطرب کیے ہوئے ہیں.
    وہ کیا وجوہات ہیں کہ ہم ایسی پستی کا شکار ہیں؟
    ہم کیوں اپنے اداروں کو مضبوط نہیں کر سکے؟
    کیوں ہم نے ہر ادارے میں سیاسی مداخلت کا راستہ کھولا ہوا ہے؟
    کیوں ہم اہل اور ایماندار لوگوں کو سامنے نہیں لا سکے؟ اگر ہم سیاسی بھرتیوں، دھونس دھاندلی، کرپشن اور نا اہل لوگوں کے چنگل سے نہ نکل پائے تو ہمارا انجام کیا ہوگا؟

    یہ ہمیں سوچنا ہوگا کیونکہ ہم نے ہی اس ملک میں رہنا ہے نہ کہ ان حکمرانوں نے جو گھٹنے کے معمولی درد کا معائنہ کروانے بھی وہیں جاتے ہیں جہاں ادارے آزاد ہیں، جہاں ڈاکٹر
    اپنے مریضوں کی بہبود کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں اور جہاں وزیر اعظم کو بھی کسی پر کسی قسم کی فوقیت حاصل نہیں.

  • پھر اس خنجر کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر-ہارون الرشید

    پھر اس خنجر کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    اللہ پاکستان کی حفاظت کرے گا۔ طالب علم کو رتی برابر شبہ نہیں مگر وہ جو مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا : ؎

    توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھنا اپنا
    پھر اس خنجر کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر

    جیسا کہ سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا : ہر آدمی کا اپنا سچ ہے اور ہر آدمی اپنے سچ کا خود ذمہ دار۔

    اتوار کی شب کراچی پہنچا اور اب بدھ کی دوپہر تک کئی باخبر لوگوں سے ملاقات ہو چکی۔ کچھ ان کے سوا بھی جو اندازوں اور افواہوں پہ بسر کرتے ہیں۔ ایک رائو انوار باقی ہیں۔ اُمید ہے کہ کچھ دیر میں ان کے نیاز حاصل ہونگے اور ایک حد تک تصویر مکمل ہو جائے گی۔
    بیس برس ہوتے ہیں‘ لاہور کے قوّت متخیلہ سے مالا مال ایک اخبار نویس دہلی پہنچے۔ کلدیپ نیئر سے ملاقات ہوئی تو فصاحت کا انہوں نے مظاہرہ کیا۔ کچھ دیر ہنستے رہے۔ پھر پوچھا : کب سے آپ اس شہر پہ عنایت فرما رہے ہیں۔ ”سات دن سے‘‘ انہوں نے کہا۔ بزرگ اخبار نویس نے حیرت سے انہیں دیکھا اور بڑ بڑائے‘ نصف صدی سے دارالحکومت میں مقیم ہوں‘ مگر اس اعتماد سے گفتگو نہیں کر سکتا۔

    جو جانتے ہیں‘ وہ محتاط ہیں؛ چنانچہ فتویٰ صادر کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ آنے والا کل کیا لائے گا۔ جن کی کوئی ذمہ داری نہیں اور کسی کے سامنے وہ جوابدہ نہیں‘ وہ کچھ بھی ارشاد کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک دوست نے کاروبار جن کی تگ و تاز کا مظہر ہے‘ کل شب سمندر کنارے کی ضیافت میں ہم سب کو مطلع کیا کہ کراچی میں رینجرز کا ہر چوتھا آدمی ذاتی کاروبار میں مصروف ہے۔ مزید برآں یہ کہ امسال پاکستانی فوج نے‘ شوال میں اربوں روپے کی چلغوزوں کی فصل کا نصف ہتھیا لیا۔ پہلی بات پر حتمی تبصرے سے مسافر نے گریز کیا۔ دوسری افواہ پر عرض کیا : اپنی ایک ماہ کی تنخواہ میں آپ کی نذر کروں گا‘ اگر آپ یہ الزام ثابت کر سکیں۔ اس پر تھوڑا سا وہ کسمسائے‘ حسب توفیق تھوڑا سا شرمائے اور یہ فرمایا : مارکیٹ میں اطلاع یہی ہے۔

    افواہوں اور مغالطوں کی اس گرم بازاری کے باوصف‘ خواص اور عامی‘ ملکی اور غیر ملکی‘ لیڈر اور اخبار نویس‘ این جی اوز کے بھڑبونجے‘ اپنی استعداد کے مطابق، مسلسل جس میں حصہ ڈالتے رہتے ہیں، کچھ حقائق واضح ہیں اور کچھ سوالات پوری طرح نمایاں۔

    سب سے اہم یہ کہ 22 اگست سے پہلے کا کراچی اب کبھی بحال نہ ہو سکے گا۔ وہ دن جب الطاف حسین نے پاکستان کو دنیا کا کینسر کہا اور پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا۔ دوسری جماعتوں سے یہ مختلف رہی ہے۔ ایم این اے، ایم پی اے، سیاسی کارکن اور عہدیدار، دوسری پارٹیوں میں بھی ہوتے ہیں۔ اس کا ایک لشکر ہے، تربیت یافتہ اور اشارے کا منتظر۔ خون بہانے کا عادی Trigger Happyسیکٹر انچارج، جن کے دفاتر تھے اور جو ایک مافیا کی تشکیل کا، اہم ترین حصہ تھے۔ صدر دفتر 90 سمیت، جس کا دوسرا نام بیگم خورشید ہال بھی ہے، یہ سب کے سب دفاتر اُجڑ چکے۔ فاروق ستار خواہ الٹے لٹک جائیں، ان کی بحالی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ الیکشن وہ لڑ سکتے ہیں، ووٹ لے سکتے ہیں، تقریر فرما سکتے ہیں، صف بندی کرسکتے ہیں، مگر ہڑتال نہیں کرا سکتے۔ وہ کیا، کوئی اور بھی شہر کو خوف زدہ نہیں کرسکتا۔ بلیک میل نہیں کر سکتا۔

    غیر قانونی طور پر تعمیر کردہ درجنوں دفاتر گرائے جا چکے، باقی برباد ہیں۔90 اب کبھی انہیں واپس نہ ملے گا۔ اس کا ایک بڑا حصہ سرکاری اراضی پر مشتمل ہے۔ جتنا جائز ہے، وہ الطاف حسین کے ایک بھائی کے نام ہے۔ پارٹی کا کوئی تعلق اس سے نہیں۔ کیا اسے گرا دیا جائے گا، یا کسی قومی ادارے کی شکل اختیار کرے گا۔ اس سوال پرسنجیدگی سے غوروفکر کا آغاز ابھی نہیں ہوا۔

    تربیت یافتہ قاتلوں میں سے ساڑھے چھ سو گرفتار ہیں، کچھ فرار ہو کر بیرون ملک چلے گئے یا ملک کے باقی حصوں میں۔ واپسی کے وہ آرزومند ہیں مگر واپس آ نہیں سکتے۔ پیر اور منگل کے دن واسع جلیل اور ندیم نصرت کی تقاریر سے آشکار ہے کہ وطن واپسی کی امید ختم ہو چکی۔ باقی زندگی وہ بھارت کا گیت گاتے رہیں گے۔ مہاجروں، بلوچوں اور پشتونوں کے لیے ”آزادی‘‘ کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔ برطانوی حکومت سے کچھ زیادہ امید نہیں کہ ان کے خلاف کارروائی کرے۔ امریکہ بہادراور بھارت کا وہ تزویراتی حلیف ہے اور کم از کم لندن کی ایم کیو ایم بھارت کے علاوہ‘ خود ان کا ایک اثاثہ۔چین کے ساتھ‘ پاکستان کے بڑھتے ہوئے معاشی روابط‘ ارض پاک میں بیجنگ کی طرف سے‘ سینکڑوں ارب ڈالر کی ممکنہ سرمایہ کاری کے امکان نے انکل سام کو ناراض کر دیا ہے‘ انگریز سرکار کو بھی‘ بھارت مشتعل ہے۔ اس کے لیڈر اعلان کر چکے کہ پاک چین تجارتی راہداری بنانے کی وہ اجازت نہ دیں گے۔

    بار بار جنرل راحیل شریف کا جملہ یاد آتا ہے‘ ایوان صدر اسلام آباد میں‘ صدر اشرف غنی کے اعزاز میں برپا تقریب میں‘ جو انہوں نے میرے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا۔ امریکہ کا وہ قصد رکھتے تھے۔ عرض کیا: افغانستان اور چین کے دورے تو کامیاب رہے‘ امید ہے ‘ اس کی بھی بھر پور تیاری آپ نے کی ہو گی۔ ایک ذرا سی تمہید کے بعد کسی توقف اور تامل کے بغیر کہا: اس خطے کی صورت حال یکسر بدل جائے گی۔

    چین کو امریکہ اب اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتا ہے۔ وہ امریکہ جو ستر برس سے ایک نیا عالمی نظام تشکیل دینے کے لیے سرگرم ہے اور جنرل ڈیگال کے بقول دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی ہے۔ پاکستان چین کا حلیف ہے ۔ دفاعی معاہدہ کوئی نہیں۔ مستقبل قریب میں ہو گا بھی نہیں لیکن پاکستان کی بقا اور استحکام‘ بیجنگ کے لیے اتنے ہی اہم ہیں جتنے امریکہ کے لیے اسرائیل کے۔ اسرائیل کے برعکس پاکستان ایک ناجائز ریاست نہیں۔ اس کے اندرونی معاملات میں چین کی کوئی مداخلت بھی نہیں۔ بھارتی عزائم اور دونوں کی مشترکہ ضروریات اب انہیں قریب تر لاتی جائیں گی۔ اڑی حادثے کے بعد‘ پاکستان کی سلامتی کو جو خطرات لاحق ہیں‘ چین کو اس پر لازماً تشویش ہوگی۔ معلومات نہیں‘ تجزیے کی بنیاد پر میں عرض کرتا ہوں کہ تبادلہ خیال کاسلسلہ خاموشی سے جاری ہو گا۔ بعید نہیں کہ جلد ہی اعلیٰ سطح کا ایک چینی وفد پاکستان کا دورہ کرے۔

    امریکہ اور برطانیہ یہ پسند کریں گے کہ پاکستان کو بھارت کم از کم چھوٹا موٹا زخم لگانے میں کامیاب رہے۔ چین اسے ٹالنے کی کوشش کرے گا۔ نریندر مودی عوامی جذبات سے کھیلنے والے ایک اتھلے سیاستدان ہیں۔ وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں مگر پاکستان میں ان کے (کارندے) کمزور پڑ گئے۔ مہم جوئی اگر کی تو لازم نہیں کہ اسے محدود رکھ سکیں گے۔ پاکستان کو وہ نقصان پہنچا سکتے ہیں مگر بھارت کا عالمی طاقت بننے کا خواب ہمیشہ کے لیے زمین بوس ہو جائے گا۔ یہ ہے پاکستان کا ایٹمی میزائل پروگرام اور یہ پاکستان کی فوج کھڑی ہے۔

    دہشت گردی کے خلاف تیرہ سالہ جنگ نے‘ جسے دنیا کی بہترین لڑاکا فوج بنا دیا ہے۔ وہ مستعد اور بیدار ہے۔ برطانیہ کے ایک ممتاز عسکری تھنک ٹینک کے بہت پہلے مرتب کئے گئے ایک مطالعے کے مطابق‘ خارجی خطرہ برپا ہوا تو پاکستانی قوم تیزی سے متحد ہو جائے گی۔ عمران خان کا احتجاج باقی نہ رہے گا۔ پرویز رشید‘ طلال چوہدری اور دانیال کی زبانیں بند کردی جائیں گی۔ منظر ہی دوسرا ہوگا۔
    ایک طرف پاکستان کا ایک ایک دشمن بے نقاب ہو رہا ہے۔ دوسری طرف لاحق خطرات کی شدت میں اضافہ ہے۔ ایک آدھ دن کی کسل مندی کے بعد بھارت کے مقابل‘ عسکری اور سیاسی قیادت ‘ایک ساتھ بروئے کار آئی ہے۔ اگلے چند دنوں میں زیادہ سرگرمی کا امکان ہے۔
    اللہ پاکستان کی حفاظت کرے گا۔ طالب علم کو رتی برابر شبہ نہیں مگر وہ جو مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا: ؎

    توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھنا اپنا
    پھر اس خنجر کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر

  • جنرل پیٹن، دوسری جنگ عظیم کا عظیم کردار – عمران زاہد

    جنرل پیٹن، دوسری جنگ عظیم کا عظیم کردار – عمران زاہد

    عمران زاہد دوسری جنگ عظیم کے موضوع پر ہالی وڈ نے بہت سی فلمیں بنائی ہیں جیسے کہ:
    Guns of Navaron, The Bridge o river Kawai, Casablanca, U-571, Das Boot, The longest day وغیرہ وغیرہ۔
    یہ سب فلمیں ہی شاندار ہیں۔ آج بھی جب سینما میں لگتی ہیں تو اچھا خاصا بزنس کرتی ہیں۔ حال میں ہی ایک مووی جو بہت پسند آئی Patton ہے۔ یہ فلم 1970ء میں ریلیز ہوئی تھی۔

    جنرل پیٹن امریکہ کی طرف سے دوسری جنگ عظیم میں شریک تھا اور اپنی جارحانہ پیش قدمی اور تیز رفتاری کے لیے جانا جاتا تھا۔ غیر محتاط زبان کے استعمال کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی آنکھ میں کھٹکھتا بھی تھا۔ اس کی بدتمیزی اور بدکلامی کے سبب ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب اسے کمانڈ سے فارغ کرنے پر غور کیا جا رہا تھا۔ جنرل پیٹن کی بدکلامی ایسی مشہور تھی کہ آج کے مشہور امریکی صدارت کے امیدوار ٹرمپ کو بھی اس سے تشبیہہ دی گئی ہے۔

    جنرل پیٹن نے شمالی افریقہ (تیونس وغیرہ) میں جرمنی اور اٹلی کی مشترکہ فوج، جو جرمنی کے جنرل رومیل کی کمانڈ میں تھی، کو ٹینکوں کی جنگ میں شکست دی۔۔ اس کے بعد سسلی سے یورپ کے میدانِ جنگ میں داخل ہوا۔ برٹش جنرلز امریکی جنرل کو کسی بڑے اعزاز سے محروم رکھنا چاہتے تھے، لہٰذا اس کو بڑا ثانوی قسم کا ٹاسک سونپا گیا تھا لیکن جنرل نے چالاکی سے کام لے کر ہائی کمانڈ کے احکام کی من مرضی کی تشریح کر کے سسلی کے قصبوں پالئیرمو (ُPalermo) اور مسینا (Messina) پر قبضہ کر کے برٹش جنرلوں کو پریشان کر دیا۔ ہائی کمانڈ نے جنرل کو مسینا سے دور رہنے کا کہا تھا لیکن جنرل نے بہانہ بنایا کہ وائرلیس پیغام ٹھیک طرح سے نہیں ملا، اس لیے پیغام دوبارہ بھیجا جائے۔ جب پیغام دوبارہ موصول ہوا اس وقت جنرل مسینا میں داخل ہو رہا تھا۔ جنرل کی ظریفانہ طبعیت کا اس کے اس پیغام سے پتہ چلتا ہے جو اس نے جواباً اپنی کمانڈ کو بھیجا:
    Have taken Messina, Do you want me to give it back.

    سن چوالیس میں جب اتحادی فوجوں نے نارمنڈی کے ساحلوں پر دھاوا بولا اس وقت جنرل پیٹن زیرِعتاب تھا اور اسے بےضرر سی پوزیشن پر تعینات کر دیا گیا تھا۔ وہ چاہنے کے باوجود اس جنگ میں کوئی اہم کردار ادا کرنے سے قاصر تھا۔ جنرل کو بہت سے مواقع پر جب وہ جرمنی میں داخل ہو سکتا تھا، ایندھن اور سپلائی سے محروم رکھا گیا اور دوسروں کو اس پر ترجیح دی گئی۔ تاہم پھر بھی جنگ کے خاتمے تک بہت سے معرکے اس کے اعزاز پر ہیں۔ اس کو قدرت کی طرف سے مواقع ملے جن میں اس نے دل کھول کر اپنی صلاحیتوں کا استعمال کیا۔ جنرل پیٹن کی بہت زیادہ دلچسپی عسکری تاریخ سے تھی۔ اس کی تقریباً تمام جنگی چالوں میں تاریخی عسکری واقعات کی جھلک ملتی ہے۔

    سن پنتالیس کے وسط میں ہٹلر کی خودکشی اور جرمن افواج کی پسپائی کے بعد یورپ میں جنگ کو خاتمہ ہو گیا اور جنرل جرمنی میں مقیم واپس امریکہ جانے اور کرسمس اپنے خاندان کے ساتھ منانے کا منصوبہ بنا رہا تھا کہ اس کے ساتھی جنرل نے اسے کھانے پر مدعو کیا تاکہ طبعیت کا تکدر دور کیا جا سکے۔ سڑک کے کنارے تباہ شدہ گاڑیوں کو دیکھ کر جنرل نے تبصرہ کیا کہ
    ”How awful war is. Think of the waste.“
    چند لمحے بعد ہی اس کی اپنی کار ایک امریکی ٹینک سے جا ٹکرائی۔ باقی لوگوں کو تو ہلکی پھلکی چوٹیں آئیں، لیکن اس کے سر پر شدید چوٹ آئی۔ اس حادثے کے نتیجے میں اس کے سر پر فریکچر آئے، اس کا حرام مغز شدید متاثر ہوا اور گردن سے نیچے سارے جسم اپاہج ہو کر رہ گیا۔ تیرہ چودہ دن بعد وہ سوتے ہوئے ہی اللہ کے پاس پہنچ گیا۔ بسترِ مرگ پہ اس نے تبصرہ کیا کہ
    ”This is a hell of a way to die.“

    جس جرنیل کو چار سالوں میں جنگ ہلاک نہ کر پائی وہ جنگ ختم ہونے کے صرف چار ماہ بعد ایک معمولی حادثے میں جاں بحق ہو گیا۔ اللہ کے رنگ نیارے۔
    اس فلم میں جنرل پیٹن کا کردار جارج سی سکاٹ نے ادا کیا۔ بہترین اداکاری پر اسے اکیڈمی ایوارڈ کے لیے چنا گیا لیکن اس نے اکیڈمی ایوارڈ کے گرد ہونے والی سیاست پر احتجاجاً یہ ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا۔

  • مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (2) – مولوی روکڑا

    مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (2) – مولوی روکڑا

    اسی کی دہائی میں سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہوئی تو ملکوں کے پوائنٹ آف انٹرسٹ کا اور ایک محاذ خلیج کی جنگ کی صورت میں کھل گیا. ایران اور عراق کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو امریکہ، اسرائیل اور دوسرے ممالک نے اپنے اپنے مفاد کے پیش نظر فیصلے کیے. امریکہ اور برطانیہ نے کیمیکل ویپن (Chemical weapon) عراق کو دیے اور ساتھ میں guaranteed loan یعنی امریکا کے ٹیکس payer کا پیسہ ڈبل کیا. فنانشل ٹائمز کے مطابق امریکہ کی جن کمپنیز نے چور دروازے سے عراق کو اپنی ٹیکنالوجی بیچی، ان میں نامی گرامی ہیولٹ پیکارڈ Hewlett – Packard، اور Tektronix اور میٹرکس (Matrix) شامل تھیں. فرانس نے عراق کو ہائی ٹیک فوجی سازوسامان اور یورینیم فروخت کی. پرتگال نے بھی یورینیم فروخت کیا. برطانیہ نے عراق کو Sodium cyanide for chemical weapons، اور پلوٹونیم، اور گیس سپیکٹرومیٹر ( gas spectrometer) فروخت کیے. جبکہ ایران کو اسرائیل نے 75 ملین امریکی ڈالر مالیت کے ہتھیار اسرائیل ملٹری انڈسٹریز کے اسٹاک سے فروخت کیے. اس خلیجی جنگ میں سعودی عرب کا پوائنٹ آف انٹرسٹ عراق کو سپورٹ کرنا تھا، وہاں پاکستان کا پوائنٹ آف انٹرسٹ ایران کو سپورٹ کرنا تھا، اس وقت کے صدر ضیاء الحق جس کو آج ہر سیکولر گالی دینا فرض بلکہ سیکولرزم کی معراج سمجھتا ہے، اس کے لیے عرض ہے کہ اسی ضیاء الحق نے عراق ایران جنگ میں ایران کا نہ صرف ساتھ دیا تھا بلکہ surface-to-air missile دیے اور خفیہ مالی امداد بھی کی، باوجود اس کے سعودی عرب اور امریکہ کا بہت زیادہ پریشر تھا. اس کے علاوہ چائنیز ہتھیار ، اور امریکہ کے وہ ہتھیار جو افغان جہاد کے نام پر لیے گئے تھے، وہ بھی ایران کو دیے گئے.

    اس خلیجی جنگ کی گود سے مسلم ممالک میں جو تنازع پیدا ہوا، وہ سنی شیعہ جنگ کا روپ اختیار کرکے فرقہ وارانہ شکل میں ڈھل گئی. مذہبی رہنمائوں نے ایک دوسرے پر قسم قسم کے حملے کیے، اس کے اثرات پاکستان میں بھی ظاہر ہونے لگے، ایک طرف توہین آمیز لٹریچر، صحابہ کرام کو گالیاں، ازواج مطہرات پر بہتان سامنے آئے تو نتیجتا دوسری طرف سے کفر کے فتویٰ سر عام ہونے لگے. اس توہین آمیز لٹریچر کی وجہ سے پاکستان میں فرقہ وارنہ اختلاف کتابوں سے نکل کر سڑکوں اور تقریروں میں آ گئے، اور پاکستان کو ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش کی طرف دھکیلتے گئے. اس کےلیے تنظیمیں بنیں، جنھوں نے بعد ازاں مسلح جتھوں کی صورت اختیار کر لی. یہ تھی وہ سوغات جو ایران عراق کی صورت میں پاکستان کو نصیب ہوئی. اس فرقہ وارانہ جنگ میں جہاں دوسرے ممالک نے اپنا اپنا پوائنٹ آف انٹرسٹ تلاش کیا وہیں خود پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ان تنظیموں کو اپنے سیاسی فوائد کے لیے استعمال کیا اور ان کے ساتھ مل کر الیکشن لڑے اور جیتے. برادر اسلامی ممالک نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے اپنے فرقے کی تنظیموں کو نہ صرف فنڈنگ فراہم کی بلکہ گوریلا ٹریننگ سے بھی لیس کیا جس کے شواہد اب سامنے آ رہے ہیں. آج اس فرقہ واریت کا ملبہ ضیاء الحق اور افغان جہاد پر ڈالا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ خلیجی جنگوں کا شیعہ سنی تنازعے کی شکل اختیار کرنا پاکستان میں اس فرقہ واریت کی بنیادی وجہ ہے. توہین آمیز لٹریچر کی اشاعت سے اشتعال پھیلا، شدت میں اضافہ ہوا اور اس نے باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر لی جس میں دونوں طرف مرنے والے عام شہری ہیں. اگر فرقہ واریت کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو نہ صرف بلاتفریق کالعدم تنظیوں کا خاتمہ کرنا ہوگا بلکہ توہین آمیز لٹریچر پر بھی پابندی لگانی ہوگی اور دیگر ممالک کی مداخلت کا بھی قلع قمع کرنا ہوگا.

    نوے کی دہائی میں پاکستانی توجہ کشمیر جہاد اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کو سہارا دینے میں مرکوز رہی. پاکستان کے اندر فرقہ وارنہ تنظیموں پر سیاسی چھتر چھایا ہونے کی بدولت پولیس اور دوسرے اداروں نے اسے کنٹرول کرنے کو خاص ترجیح نہیں دی جس کی وجہ سے سنی اور شیعہ فرقے کے وہ نامی گرامی علمائے کرام، پروفیسرز اور ڈاکٹرز بھی قتل ہوئے جن کا فرقہ واریت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا. سیاسی جماعتوں نے اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کے لیے عسکری ونگز سے چشم پوشی کی. وہ ممالک جن کے پوائنٹ آف انٹرسٹ اس وجہ سے بڑھ گئے تھے انہوں نے بھی اس فرقہ وارانہ کشمکش کو بڑھاوا دیا، ان دنوں پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا تھا اور ریاستی ادارے ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مصروف رہے، اور اندرونی معاملات پولیس جیسے ادارے پر چھوڑ دیے گئے. سیاسی قیادت اور ایلیٹ کلاس نے ہر کیس میں سیاسی مداخلت کو جیسے فرائض میں شامل کر لیا ہو، مقصود اپنی قوت میں اضافہ ہو، اس تناظر میں معیشت کی مضبوطی پر توجہ نہ رہی، نتیجتا بےروزگاری بڑھتی گئی اور نوجوان ان تنظیموں کے ہاتھ چڑھتے گئے !
    (جاری ہے)

    پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

    تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • وسعت اللہ خان ، ایم اے ، پی ٹی ایس ڈی-وسعت اللہ خان

    وسعت اللہ خان ، ایم اے ، پی ٹی ایس ڈی-وسعت اللہ خان

    wusat

    مرتا وہ نہیں جو مر جاتا ہے۔ مرتا  وہ ہے جو  مرنے والے کے بعد  بھی زندہ رہتا ہے۔

    یہ بات مجھے بھی رفتہ رفتہ سمجھ میں آئی تھی۔ بس آپ کو تصور کرنا پڑے گا ایک بم دھماکے کا، اندھا دھند فائرنگ کے ایک واقعہ کا اور پھر ان کا جو زخمی ہو گئے اور ان زخموں کے ساتھ  ایسے گردونواح میں زندہ ہیں کہ جس میں نفسا نفسی اور لپاڈکی کا خمیر ملا دیا گیا ہو۔ جگہ کی قید نہیں۔ آرمی پبلک اسکول پشاور نام رکھ لیں یا چار سدہ یونیورسٹی یا گلشن اقبال پارک لاہور یا سول اسپتال کوئٹہ یا مردان کی کچہری کچھ  بھی۔ نام میں کیا رکھا ہے۔

    ایک برطانوی فلاحی ادارے ایکشن آن آرمڈ وائلنس نے دھشت گردی سے  جسمانی طور پر متاثر ہونے والوں کی زندگیوں کا مطالعہ کیا ہے۔ اس مطالعے میں پاکستانی متاثرین کی سمپلنگ کی گئی ہے اور بطور خاص ایسوں کی جو آئی ای ڈی (امپروائزڈ ایکسپلوسیو ڈیوائس) کا نشانہ بنے۔

    آئی ای ڈیز ایسی اشیا کی شکل میں بنائے جاتے ہیں جنھیں دیکھ کے بظاہر شبہہ نہیں ہوتا کہ یہ بھی جان لیوا ہو سکتے ہیں۔ جیسے دیوار میں لگی اینٹ کو کھوکھلا کر کے اس میں بارود بھر دیا جائے اور پھر اسے دوبارہ دیوار میں چن دیا جائے اور پھر ریموٹ کنٹرول سے پھاڑ دیا جائے (یہ طریقہ عراق میں استعمال ہوا اور اب پاکستان تک آ گیا ہے)۔ یا پارکنگ میں کھڑی سیکڑوں موٹر سائیکلوں اور کاروں میں سے کوئی ایک پھٹ جائے۔ یا بچے نے راستے میں پڑا کھلونا اٹھا لیا اور وہ پھٹ گیا۔ یا ڈاک سے کوئی پیکٹ ملا اور وصول کرتے ہی اس نے آپ کا ہاتھ اڑا دیا۔ یا سبزیوں کا ٹھیلہ چلتے چلتے  اڑ گیا وغیرہ وغیرہ۔

    برطانوی فلاحی ادارے نے اپنی تحقیق کا موضوع آئی ای ڈیز کو اس لیے بنایا  کہ اس وقت دنیا میں جتنے بھی لوگ دھماکا خیز مواد سے زخمی ہوتے ہیں ان میں سے دو تہائی آئی ای ڈیز کا نشانہ بنتے ہیں۔ اور نشانہ بننے والوں میں نوے فیصد عام شہری ہوتے ہیں۔ اس وقت چار ممالک کے شہری آئی ای ڈیز سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ پہلے نمبر پہ  شام، پھر عراق، پھر پاکستان اور پھر افغانستان۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پچھلے بارہ برس کے دوران  ایک لاکھ سے زائد افراد ان آئی ای ڈیز کی زد میں آ کر معمولی سے لے کے شدید زخموں تک کا شکار ہو چکے ہیں۔ (ان میں مرنے والے شامل نہیں)۔ زخمیوں کی اس تعداد میں وہ لوگ بھی شامل نہیں جو بارودی سرنگوں کا شکار ہوئے۔

    جو لوگ کسی بندوق کی گولی سے زخمی ہوتے ہیں ان کا علاج نسبتاً آسان ہے کیونکہ جسم پر گولیوں کے زخم عموماً  الگ الگ لگتے ہیں۔ لیکن خودکش بم یا آئی ای ڈیز سے لگنے والے زخم اور ان کے جسمانی و نفسیاتی اثرات خاصے پیچیدہ ہوتے ہیں۔ لہذا ان کے علاج کے لیے خصوصی تربیت یافتہ طبی عملہ اور سہولتیں درکار ہوتی ہیں۔ لیکن جن ممالک میں یہ سہولتیں موجود ہیں وہ ایسے حملوں کا بہت کم شکار ہوتے ہیں اور جن ممالک میں بنیادی طبی سہولتوں کے لالے ہیں سب سے زیادہ متاثرین بھی وہیں ہیں۔

    چنانچہ اب ہو یہ رہا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک جہاں صحت کی سہولتوں پر ویسے ہی اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر رقم خرچ ہوتی ہے  سرکاری اسپتالوں پر ہر وقت دہشت گردی کے ہاتھوں زخمی ہونے والے کا بے پناہ دباؤ رہتا ہے اور ان علاج گاہوں کو جو تھوڑا بہت بجٹ ملتا ہے وہ ان زخمیوں کی دیکھ بھال میں صرف ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں باقی بیماروں کو بستر ملنے محال ہو جاتے ہیں۔ تنگ آ کے وہ نجی اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور اپنی بیماری کے ساتھ ساتھ صحت مند مسیحاؤں کے ہاتھوں بھی لٹ لٹا جاتے ہیں اور گھوم پھر کر دوبارہ گھر کے بستر پر اللہ کے آسرے کی لاٹھی ٹیکتے ٹیکتے واپس پڑ جاتے ہیں۔

    مرنے والے کے ورثا کو ایک سہولت یہ ہوتی ہے کہ وہ رونے پیٹنے کے بعد خود کو زندہ رکھنے کی معاشی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں لیکن جس گھر میں کوئی واحد کفیل کسی بھی دن محنت مزدوری پر جاتے ہوئے اچانک کسی بم یا آئی ای ڈی کا شکار ہو کر ناکارہ ہو جائے اس کے گھر والوں پر دہری مصیبت ٹوٹ پڑتی ہے۔ انھیں لازماً کوئی ایسا کام ڈھونڈنا پڑتا ہے کہ اپنا پیٹ بھی بھریں اور بستر پر پڑے زخمی کماؤ پوت کا بھی علاج کروائیں۔ چنانچہ بچوں کی تعلیم اور دیگر ضروریات فوراً پسِ پشت چلی جاتی ہیں۔ کیونکہ پاکستان جیسے ملکوں میں کوئی یونیورسل ہیلتھ انشورنس تو ہے نہیں۔ سارا نظام ’’جو جتنا افورڈ کر سکے‘‘  کی بنیاد پر رواں ہے۔ گویا زندہ بھی اپنے خرچے پے رہو اور مرو بھی اپنے خرچے پے۔

    یونیورسل ہیلتھ انشورنس نظام نہ ہونے کے سبب زخمیوں کے ورثا اکثر مخیر حضرات کی راہ دیکھتے ہیں۔ کسی کو کوئی خدا ترس مل جاتا ہے بہت سوں کو نہیں ملتا اور پھر وہ کوئی قرضہ دینے والا ڈھونڈتے ہیں۔ ہاں واقعے کے فوراً بعد زخمیوں اور ان کے اہلِ خانہ کو شہرت البتہ مل جاتی ہے۔ ٹی وی رپورٹروں اور کیمروں کا چند گھنٹے کے لیے تانتا بندھ جاتا ہے۔ سماجی کارکن اور سیاستداں عیادت کے لیے آتے ہیں۔ گلدستہ زخمی کے سینے پے رکھ دیا جاتا ہے تا کہ فوٹو میں تھوڑا رنگ آ جائے۔ جذباتی حکومتیں فی زخمی ایک سے دس لاکھ روپے تک کی مالی امداد کا اعلان بھی کرتی ہیں۔ کوئی جوشیلا مقتتدر سیاستداں مرنے یا زخمی ہونے والے کے بچوں کی تعلیم کا خرچہ اٹھانے کا اعلان بھی کر ڈالتا ہے۔ لیکن اگلا ہی دن ’’تو کون میں کون‘‘  کی سفاکی کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ حقیقت کا تپتا سورج متاثر اور اس کے اہلِ خانہ کو جھلسانا شروع کر دیتا ہے۔

    ابھی تو میں نے ان کا تذکرہ نہیں کیا جنھیں بظاہر کوئی جسمانی زخم نہیں۔ بس وہ اندر سے چھلنی ہو کر شدید ڈیپریشن کے آکٹوپس کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں اور یہ آکٹوپس ان روحانی زخمیوں کو  آہستہ آہستہ سینت سینت کے چباتا ہے۔

    حکومتوں کو یہ تو یاد رہ جائے گا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک ایک سو سات ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا ہے۔ ساٹھ ہزار جانیں گئی ہیں۔ مگر یہ کون یاد رکھے یا رکھوائے گا  کہ اٹھارہ کروڑ میں سے نو کروڑ افراد کو ان حالات نے پوسٹ ٹرومیٹک سٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کے کنوئیں میں دھکا دے دیا ہے۔ یوں سمجھئے کہ پی ٹی ایس ڈی ذہنی عدم توازن کی بھول بھلئیاں میں داخلے کا صدر دروازہ ہے۔ پر سننے میں کانوں کو بہت بھلا لگتا ہے جیسے پی ٹی ایس ڈی کوئی اعلی تعلیمی ڈگری ہو۔ مثلاً وسعت اللہ خان ایم اے ، پی ٹی ایس ڈی…