Tag: باچا خان

  • باچاخان کی نواسی کی مودی سے مدد کی اپیل – نور الہدیٰ شاہین

    باچاخان کی نواسی کی مودی سے مدد کی اپیل – نور الہدیٰ شاہین

    %d9%86%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%84%db%81%d8%af%db%8c-%d8%b4%d8%a7%db%81%db%8c%d9%86 عوامی نیشنل پارٹی کے بانی اور عدم تشدد کے علمبردار خان عبدالغفار خان المعروف باچاخان کی نواسی یاسمین نگار نے پاکستان سے علیحدگی اور پختونستان کے قیام کے لیے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے مدد کی اپیل کی ہے۔ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز سے بات کرتے ہوئے یاسمین نگار نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد خوش آئند ہے۔ اب وقت آیا ہے کہ ہندوستان پختونوں کے لیے الگ وطن ’’پختونستان‘‘ کے قیام میں ہماری مدد کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس سلسلے نریندر مودی سے ملاقات کرکے ان سے باقاعدہ درخواست کریں گے کہ ہمیں پاکستان سے آزادی دلائی جائے اور ہمارے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھائی جائے۔ یاسمین نگار آج کل بھارتی شہر کلکتہ میں مقیم اور ایک خود ساختہ ’’ پختوادبی ٹولنہ‘‘ یعنی پشتو ادبی انجمن کی سربراہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بہت جلد پشتونوں پر پاکستانی مظالم کے خلاف کلکتہ میں احتجاجی مظاہرے کرکے بھارت سمیت عالمی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کرائیں گے۔

    یاسمین نگار خان کے ہندوستان ٹائمر کو دیے گئے انٹرویو کا لنک

    پاکستان کے مقتدر حلقوں نے یاسمین نگار کے بھارتی اخبار کو دیے گئے انٹرویو پر تاحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔

    کلکتہ میں مقیم یاسمین نگار خان
    کلکتہ میں مقیم یاسمین نگار خان

    قوم پرستوں اور خود باچا خان کے گھرانے سے یہ پہلی آواز نہیں ہے. بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخوا کی قوم پرست ماضی میں بھی علیحدگی مسلح تحریکیں چلا چکے ہیں۔ عدم تشدد کے علمبردار خان عبدالغفار خان کو سرحدی گاندھی بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی زندگی میں ہی ان کے فرزند خان عبدالولی خان اوراجمل خٹک نے پختونستان کے قیام کے لیے پاکستان کے خلاف مسلح جدو جہد کی۔ جس کو باچاخان کی خاموش حمایت حاصل رہی۔

    عبدالولی خان نے اس مقصد کے لیے افغانستان کے صدر سردار دائود سے مدد کی درخواست کی۔ یہ بھٹو کا دور تھا۔ سردار دائود نے ابتدا میں پس و پیش کے بعد قوم پرستوں کی مدد پر رضا مندی ظاہر کی۔ اس کے بعد ابتدائی طور پر پختونخوا کے قوم پرستوں کو خفیہ طور پر عسکری ٹریننگ کے لیے افغانستان اور روس بھیجا گیا جن میں زیادہ تر پختون اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے نوجوان شامل تھے۔ ان تربیت یافتہ نوجوانوں کے لیے الگ تنظیم تشکیل دے کر اس کانام پشتون زلمے رکھا گیا۔ ان میں سے متعدد آج کل عوامی نیشنل پارٹی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔

    سردار دائود کی نگرانی میں افغانستان کے مختلف علاقوں میں عسکری تربیتی مراکز قائم کیے گئے اور پختون نوجوانوں کو تربیت دے کر واپس پاکستان بھیجا جاتا رہا۔ ان تربیت یافتہ نوجوانوں نے ملک کے طول عرض میں عوامی مقامات اور سرکاری املاک کو بموں سے اڑانا شروع کردیا۔ وزیراعلی سرحد حیات شیرپائو کو بھی قتل کیا گیا. بعد ازاں بلوچستان، سندھ اور بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کے بیٹوں شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو نے بھی اپنے جوانوں کو افغانستان میں تربیت دلاکر پاکستان میں تخریب کاری کرائی۔ بھٹو کے بیٹوں نے الذوالفقار کے نام سے دہشت گرد تنظیم بنائی تھی۔ اسی تنظیم کے دہشت گردوں نے پی آئی اے کا جہاز ہائی جیک کرکے افغانستان میں اتارا اور طیارے میں سوار میجر طارق رحیم کو قتل کردیا۔

    افغانستان میں عسکری کیمپ کے مرکزی انچارج اجمل خٹک رہے جو پشتو کے شاعر بھی تھے۔ جمعہ خان صوفی ان کے ساتھ اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے رہے۔ اس دوران افغانستان میں بغاوت ہوئی اور سردار دائود مارا گیا تاہم قوم پرست بدستور افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کراتے رہے۔

    اس جدوجہد لاحاصل میں ناکامی کے بعد جمعہ خان صوفی نے گزشتہ سال ’’فریب ناتمام‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اس مہم جوئی کی تمام تر تفصیلات موجود ہیں۔

  • باچا خان محب وطن تھے یا غدار؟

    باچا خان محب وطن تھے یا غدار؟

    خان عبدالغفار خان کون تھے؟ یہ جاننے کے لیے ان کے خطبات پڑھنا ضروری ہے۔ سینئر صحافی ضیاشاہد نے دلیل پر شائع ہونے والے سلسلہ وار مضامین میں کہا ہے کہ باچا خان غدار تھے۔ قارئین کرام یہ خطبات پڑھیں اور باچاخان کے بارے میں جانیں کہ وہ غدار تھے یا ایک محب وطن۔ (فیاض الدین)

    خان عبدالغفار خان پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
    صدر کو مبارکباد۔ تقریر کرنے سے پہلے میں پاکستان کے اس معزز ایوان کے سامنے یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا مقصد پاکستان کی اس حکومت کو گرانا نہیں ہے اور نہ اس پر تنقید کرنی ہے ۔ حکومت اور غیر سرکاری لوگوں نے میرے خلاف غلط فہمی پھیلائی ہے اس پر کچھ روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے یہ کہا جاتا ہے کہ میں اور میرے لوگ (خدائی خدمتگار) پاکستان کے دشمن ہیں ہم اسے تباہ کرنا چاہتے ہیں اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں، میں بحث نہیں کرنا چاہتا ہوں، اس حوالے سے میں نے اس پر اپنے صوبے میں کافی کچھ کہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اب بھی لوگوں کو شک ہے کہ میں پاکستان کا دشمن ہوں یا دوست۔ لیکن ایسا بولنے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ جب بھی مجھے موقع ملا ہے میں نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے ۔ درحقیقت میں انڈیا کے تقسیم کے خلاف تھا اور انڈیا میں ثابت ہو چکا ہے۔ بچے بوڑھے جوان بہت لوگوں کو تباہ وبرباد کیا گیا۔ یہ میری مخلصانہ رائے تھی کہ انڈیا کو تقسیم نہ کیا جائے لیکن اب جو بن گیا ہے تو مسئلہ ختم ہوا۔ میں نے کئی تقریریں برصغیر کی تقسیم کے خلاف کیں مگر کسی نے ایک نہیں سنی۔ ہم نے سرحد میں مسلم لیگ سے کہا کہ آپ اپنی حکومت جاری رکھیں لیکن حکومت نے پٹھانوں کے ساتھ جو کیا اسے بہت مشکل سے برادشت کیا گیا۔ لوگ میرے پاس آتے تھے کہ آپ کا مستقبل کا منصوبہ کیا ہے؟ آپ کا کیا ارادہ ہے؟ کیونکہ اس طرح کی فضا کو ہم برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم تو وہ ہیں جس نے دنیا کی عظیم طاقت کا مقابلہ کیا جو ہمیں لوٹنا چاہتے تھے۔ میں لوگوں سے کہتا تھا کہ یہ اپنی حکومت ہے۔ وہ انگریز تو پرائے لوگ تھے۔ حکومت کو میں یہ بتاتا جاؤں کہ میں تعمیری بندہ ہوں، تباہی مچانے والا نہیں ہوں۔ میں ایک عملی بندہ ہوں، اگر میری ساری زندگی کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ میں نے لوگوں اور وطن کے فلاح و بہبود کے لیے کام کیا ہے، خدائی خدمتگار ایک سماجی تحریک تھی، سیاسی نہیں تھی۔

    میں آپ کو یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ حکومت پاکستان درست کام کرے گی، ملک کی ترقی چاہے گی خدائی خدمتگار ان کے ساتھ ہوگی، میں دوبارہ یہ بات واضح کر دوں کہ میں پاکستان میں تباہی مچانا نہیں چاہتا، میں ایک تعمیری بندہ ہوں۔ یہ بھی واضح کر دوں کہ میں اور میرے لوگ کسی بھی تباہی مچانے والے کا ساتھ نہیں دیں گے۔ اگر واقعی آپ تعمیری کام کرنا چاہتے ہیں، باتوں سے نہیں بلکہ عمل سے تو میں آپ کے ساتھ ہوں۔ یہ بات میں اس معزز ایوان کے سامنے صاف کہہ دوں۔ ساتھ مہینوں سے میں پاکستان حکومت کی ایڈمنسٹریشن کو دیکھ رہا ہوں لیکن مجھے انگریزوں اور ان کی ایڈمنسٹریشن میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا۔ میں غلط ہو سکتا ہوں مگر یہ رائے عام ہے۔ میں اکیلا بندہ نہیں ہوں جو یہ کہہ رہا ہوں۔ جائیں اور ایک غریب سے پوچھیں پھر آپ کو پتہ چل جائے گا کہ میں ٹھیک بول رہا ہوں کہ غلط۔ یہ ہو سکتا ہے کہ غریبوں کی آواز کو قوت سے دبایا جائے مگر یاد رکھیں کہ یہ قوت زیادہ دیر تک نہیں رہنے والی۔ اس قوت سے صرف آپ وقتی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ لوگوں کی آوازوں کو دبائیں گے تو ان کے دل میں آپ کے لیے نفرت پیدا ہو جائے گی۔ میں آپ کو یہ بتا دوں کہ انگریزوں کے دور سے زیادہ کرپشن آج ہو رہی ہے۔ آپ میرے بارے میں جو بھی رائے قائم رکھیں مگر میری تقریر کا مقصد تباہی لانا نہیں ہے۔ مہربانی کر کے حقائق کی طرف آئیں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ اگر آپ اسے پاکستان کے لیے مفید پائیں تو لے لیں ورنہ اسے ڈسٹ بن میں پھینک دیں ۔

    ہم انگریزوں کو کیوں نکالنا چاہتے تھے اس لیے کہ ہم اپنے وطن پر خود حکومت کریں، اب جب ہم نے انگریزوں سے اپنا وطن لے لیا ہے لیکن اس کے باوجود آپ دیکھیں گے کہ زیادہ سے زیادہ انگریزوں کو بلایا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہم وہی پرانی حکمت عملی دیکھتے آرہے ہیں، وہی پرانی حکمت عملی چاہے صوبہ سرحد میں ہو یا قبائلی علاقوں میں۔ ہم نے اس میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی۔

    مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہندو بھائی لوگوں نے اپنے صوبے کے لوگوں کو گورنر بنایا بلکہ عورتوں کو بھی گورنر بنایا لیکن کیا پنجاب اور بنگال میں مسلمان نہیں ہیں جنہیں گورنر بنایا جاتا؟ مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ انگریزوں کو ہمارے سروں پر سوار کیا گیا ہے. کیا یہ اسلامی برادری ہے؟ کیا ہم اسے بھائی چارہ کہیں؟ یہ اسلامی پاکستان ہے۔ یہ ایڈمنسٹریشن میں نہ خرابی ہے بلکہ یہ وہی آرڈیننسس ہے جو مجھے سخت خفا کر دیتی ہے، اگر کوئی غیر یہاں آیا ہے تو وہ ہمارے فائدے کے لیے نہیں آیا بلکہ وہ اپنے مقصد سے آیا مگر مجھے انگریزوں سے اب کوئی گلہ نہیں۔ گلہ مجھے پاکستانی حکومت سے ہے کیونکہ پاکستانی حکومت چلانے والے ہمارے بھائی ہیں اور یہ ہماری حکومت ہے۔ ہمیں اب انگریزوں کی پرانی چالوں کو خیرباد کہنا چاہیے۔ اگر ہم اسی پرانی حکمت عملیوں پر عمل کریں گے تو میں آپ کو یہ واضح کر دوں کہ یہ پاکستان جو بہت مشکلات کے بعد ملا ہے، ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

  • عید اور قائد اعظمؒ کے حوالے سے غلط بیانیاں-ڈاکٹر صفدر محمود

    عید اور قائد اعظمؒ کے حوالے سے غلط بیانیاں-ڈاکٹر صفدر محمود

    dr-safdar-mehmood

    تین دن کی عید منانے کے بعد اور مختلف اقسام کے لذیذ پکوان اور بکروں کی کلیجیاں کھانے کے بعد شاید آپ کسی سنجیدہ اور تحقیقی کالم کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہوں لیکن میرے مزاج کی مجبوری کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے معاف فرمادیں۔ میری مجبوری یہ ہے کہ جب قائد اعظمؒ یا تاریخ پاکستان کے حوالے سے بے بنیاد یا غیر ذمہ دارانہ باتیں لکھی جائیں تو میں مداخلت کئے بغیر نہیں رہ سکتا بشرطیکہ ایسی تحریریں میرے علم میں ہوںاور میرے محدود مطالعے کے مطابق بے بنیاد ہوں۔

    ظاہر ہے کہ میرا مطالعہ محدود ہے ، مجھے ساری تفصیلات اور تاریخی حقائق کے علم کا دعویٰ نہیں، عید سے دو روز قبل 11ستمبر کو قائد اعظم کا یوم وفات تھا۔ میں بمشکل تین اخبارات پڑھ سکتا ہوں۔ ان میں مجھے بعض ایسی تحریریں نظر آئیں جو حقائق کے منافی تھیں اور ان سے یقیناً قارئین کے ذہنوں میں غلط تاثرات پیدا ہوئے ہوں گے۔ اسے کہتے ہیں تاریخ کو مسخ کرنا اور نوجوان نسلوںکو گمراہ کرنا……اصل موضوع کی طرف آنے سے قبل مجھے اس دکھ کے اظہار کرنے کی اجازت دیجئے کہ ہمارے میڈیا کی قائد اعظم اور تحریک پاکستان میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ عید کے مسلسل تین روز مجھے تقریباً ہر چینل پر بکرے، بیل، اونٹ اور ان کی ادائیں، سجاوٹیں اور بیلوں کی بغاوتوں کے مناظر بے تحاشا نظر آئے، کھابوں اور پکوانوں کے مناظر بھی بھوک پیدا کرتے رہے لیکن گیارہ ستمبر کو قائد اعظم کے حوالے سے ایک بھی ڈھنگ کا پروگرام دیکھنے کو آنکھیں ترستیں رہیں۔

    الیکٹرانک میڈیا ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں اپنا قومی فرض بھول چکا ہے اور وہ قومی فرض ہے قوم کی ذہنی تعمیر، نوجوان نسلوں کی تعلیم و تربیت اور تحریک پاکستان کے جذبوں کا احیاء…..اس کے ساتھ ساتھ قائد اعظم کی شخصیت اور کردار کو اجاگر کرکے ناظرین کے ذہنوں میں ایک آئیڈیل قیادت کے تصور کو پروان چڑھانا بھی ایک اہم قومی فرض ہے۔ ہر قوم اپنے ہیروز پر فخر کرتی ہے اور انہیں قوم کے لئے باعث تفاخر بناتی ہے۔ میرے نزدیک معاشرے میں آئیڈیلز (Ideals)،تاریخی شعور اور عظیم شخصیات کے کردار اور کارناموں کو زندہ رکھنا خود اپنے معاشرے کو زندہ رکھنے کے لئے ناگزیر ہوتا ہے اور یہ کام میڈیا ہی کرسکتا ہے۔ اخبارات نے تو قائد اعظم کو ایک ایک رنگین صفحہ دے کر حاتم طائی کو شرمندہ کردیا لیکن الیکٹرانک میڈیا بدستور سیاستدانوں کے دنگل کروانے اور تجزیات کی آڑ میں نفرتیں پھیلانے میں مصروف رہا یا پھر گانوں سے لوگوں کے دل بہلاتا رہا۔ میری جسارت کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ گانے نہ سنائے جائیں، بکروں کی سجاوٹ، بیلوں کے فرار اور اچھل کود کے مناظر نہ دکھائے جائیں۔

    آپ جس طرح چاہیں قوم کی خدمت کریں اور تفریح کا سامان مہیا کریں لیکن اپنے آٹھ یا بارہ گھنٹوں میں سے اہم قومی ایام کو بھی45منٹ دے دیں تو اس سے قوم کی صحت پر اچھا اثر پڑے گا۔ پھر پورے سال میں اہم قومی ایام ہیں ہی کتنے؟ بس یہی کوئی چھ سات…..اگر ان مواقع پر ریٹنگ کے چکر سے تھوڑا سا آزاد ہوجائیں تو گھاٹے کا سودا نہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس بار14اگست کو بھی یہی بے حسی دیکھنے میں آئی۔ ایک چینل نے 14اگست کے حوالے سے معمولی درجے کا پروگرام کیا اور پھر محسوس کیا کہ اس کی ریٹنگ توقع سے کم تھی۔ میرا مشاہدہ ہے کہ ایسے اہم مواقع پر ریٹنگ کی کمی کا باعث عام طور پر وہ حضرات ہوتے ہیں جنہیں پروگراموں میں مدعو کیا جاتا ہے اگر شریک گفتگو موضوع پر گرفت رکھتا ہو اور گفتگو کا ڈھنگ جانتا ہو تو ناظرین اتنے بدذوق یا علم دشمن نہیں کہ پروگرام نہ دیکھیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے مجھے ہر ہفتے کئی کتابیں موصول ہوتی ہیں اور ہر سال مجھے قائد اعظم اور تحریک پاکستان وغیرہ پر کئی درجن کتابیں ملتی ہیں۔

    اس کا مطلب یہ ہے کہ ان موضوعات پر لکھنے اور پڑھنے کا سلسلہ جاری ہے اور قارئین کی ان موضوعات میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ اس لئے اگر الیکٹرانک میڈیا یا ایسے پروگراموں کے حوالے سے ریٹنگ (Rating)کی شکایت کرے تو مجھے اس کے پروگرام کی کوالٹی پر شبہ ہوگا نہ کہ ناظرین کی دلچسپی پر…..ان دنوں مجھے قائد اعظم کے حوالے سے چند کتابیں موصول ہوئیں جن میں محترم جبار مرزا کی کتاب قائد اعظم اور افواج پاکستان، میاں عطا ربانی مرحوم کی کتاب(Jinnah a political saint) قابل ذکر اور قابل مطالعہ ہیں تحقیق، گہری ریسرچ اور اعلیٰ درجے کی دو کتابیں جن کے مصنّفین نے کئی برس عرق ریزی کی اور حوالہ جاتی کتابیں لکھیں وہ ہیں ڈاکٹر شہلا کاظمی کی کتاب( M A Jinnah leadership pattern) اور ڈاکٹر سکندر حیات کی کتاب(The charismatic leadership)کا نظرثانی شدہ ایڈیشن …..دنیا جہان میں قائد اعظم پر تحقیقی کام جاری ہے اور ہر سال غیر ممالک میں اس موضوع پر اعلیٰ درجے کی علمی کتابیں اور تحقیقی مقالے چھپ رہے ہیں۔ میں یہ کیسے مان لوں کہ پاکستانی عوام کی اپنے قائد ،قائد اعظم اور تحریک پاکستان میں دلچسپی کم ہوگئی ہے جبکہ میں پریس میں ہر روز ایسے مضامین پڑھتا ہوں جن میں موجودہ قائدین کے کردار، کارناموں اور بصیرت کے فقدان کا نوحہ لکھتے ہوئے قائد اعظم کی مثالیں دی جاتی ہیں، ان کی زندگی کے واقعات کے حوالے دئیے جاتے ہیں۔

    دوستو! معاف کرنا بات ذرا دور نکل گئی، میں کہہ رہا تھا کہ گیارہ ستمبر کے حوالے سے صرف تین اخبارات پڑھتے ہوئے مجھے قائد اعظم کے حوالے سے تین ایسے مضامین یا کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا جن میں واقعاتی اور تاریخی غلطیاں تھیں۔ یہ غلطیاں نہ صرف غلط تاثر پیدا کرتی تھیں بلکہ تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف تھیں، اس لئے میں نے تصحیح یا وضاحت اپنا قومی فرض جانا۔ ہمارا پرابلم یہ ہے کہ ہمیں لکھنے کی جلدی ہوتی ہے اور تحقیق کی ہم ضرورت نہیں سمجھتے ،چنانچہ سنی سنائی کو مستند تاریخ کا درجہ دینے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ گہری نظر سے مطالعہ اور تحقیق بڑا کٹھن اور صحت لیوا کام ہے جس کے لئے ہمارے پاس وقت ہی نہیں۔ ا فسوس، میں ان ’’ہوائیوں‘‘ اور بے بنیاد باتوں کی شواہد کے ساتھ کئی مرتبہ وضاحت اور تردید کرچکا ہوں لیکن چونکہ ہمیں پڑھنے کی عادت نہیں اس لئے انہیں دہراتے رہتے ہیں۔

    جنگ میگزین میں جھانکتے ہوئے میری نظر محترم سلطان صدیقی(پشاور) کے مضمون پر پڑی جس میں انہوں نے نیپ سابق نیشنل عوامی پارٹی اور محترم غفار خان کے ساتھیوں کی پھیلائی ہوئی سازش کہانی کو تاریخی واقعے کے طور پر پیش کیا ہے۔ صدیقی صاحب نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ1948کے دورے کے دوران گورنر جنرل قائد اعظم کی غفار خان سے ملاقات نہ ہوسکی جس سے مستقبل کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ افسوس محترم صدیقی صاحب تھوڑی سی تحقیق کرلیتے اور آنکھیں بند کرکے مخالفین کی بات نہ مانتے۔ میں تحقیق کے بعد یہ عرض کررہا ہوں کہ یہ جھوٹ ہے، افسانہ ہے۔ قائد اعظم کی غفار خان اور ڈاکٹر خان صاحب سے ملاقاتیں ہوئیں اور ہر ملاقات ڈیڑھ گھنٹے پر محیط تھی۔16اور17اپریل 1948کی ملاقاتوں کے بعد خود خان برادران نے اخباری رپورٹروں سے کہا کہ گفتگو دوستانہ ماحول میں ہوئی لیکن تفصیل نہیں بتاسکتے۔ اے کاش! صدیقی صاحب صرف اور صرف اپریل1948کا پرانا پاکستان ٹائمز اخبار دیکھ لیتے جس میں ان ملاقاتوں کی خبریں بھی موجود ہیں اور فرنٹیئر ریجن کے جوائنٹ سیکرٹری کرنل اے ایس بی شاہ کی پریس بریفنگ بھی شائع ہوئی ہے۔

    کرنل صاحب قائد ا عظم کی ڈیوٹی پر مامور تھے جو حضرات اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ میرا تفصیلی مقالہ میری کتاب ’’دور آگہی‘‘ میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ میرے ایک محترم دوست نے روزنامہ نوائے وقت میں 11ستمبر1948کو کراچی میں قائد اعظم کی آمد کے موقع پر لیاقت علی خان کی غیر حاضری پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ یہ تاثر لیاقت مخالف لابی نے اتنی محنت سے گھڑا اور قائم کیا ہے کہ ہر شخص اس سازش تھیوری میں یقین رکھتا ہے۔ میں تحقیق کے بعد کئی بار اس کی تردید کرچکا ہوں لیکن مہربان پڑھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے۔ سچ یہ ہے کہ لیاقت علی خان نہ صرف ائیر پورٹ پر آئے بلکہ جب ایمبولینس خراب ہوگئی تو دوسری ایمبولینس کے آنے تک وہیں موجود رہے۔ کیپٹن(بعد ازاں بریگیڈیر) نور حسین قائد اعظم کے اے ڈی سی کی حیثیت سے ساتھ آئے انہوں نے نہ صرف میرے ساتھ انٹرویو میں اس کی تصدیق کی بلکہ اس موضوع پر ایک فکر انگیز مضمون بھی لکھا جو دی نیوز میں شائع ہوا اور میری کتاب’’اقبال جناح اور پاکستان‘‘ میں بطور ضمیمہ شامل ہے۔ بریگیڈیر نور حسن نے اپنے ایک اور انٹرویو میں بھی لیاقت علی خان کی ائیر پورٹ پر موجودگی کی تصدیق کی ہے(بحوالہ دی گریٹ لیڈر، منیر احمد منیر صفحہ155)

    سید بشیر حسین جعفری نے اپنے مضمون پاکستان کے ساتھ میرا سفر میں قائد ا عظم کے سیکورٹی آفیسر کریم اللہ کی خود نوشت ڈائری کا حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ لیاقت علی خان ائیر پورٹ پر آئے۔ ایمبولینس کی کہانی ذرا طویل ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اس کی خرابی کسی سازش کا حصہ نہیں تھی اور اس کی ذمہ داری قائد اعظم کے ملٹری سیکرٹری کرنل نوٹلز ا ور معالج کرنل رحمان پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اس کا انتخاب کیا۔ قائد اعظم سے منسوب تیسری بات جگن ناتھ آزاد کے ترانے کے حوالے سے لکھی گئی جو سراسر بے بنیاد ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ قائد اعظم جگن ناتھ آزاد کے نام سے شناسا تھے، نہ اسے ترانہ لکھنے کے لئے کہا گیا اور نہ ہی کبھی جگن ناتھ آزاد کا ترانہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔ اس حوالے سے ریڈیو پاکستان کا حلفی بیان میرے پاس موجود ہے جو حضرات اس موضوع پر تفصیلی مضمون پڑھنا چاہتے ہیں وہ میری کتاب ’’پاکستان میری محبت‘‘ میں اس پر شامل تحقیقی مقالہ ملاحظہ فرمائیں۔

  • پاکستان کو تقسیم کرنے کی سازش شروع(قسط دوم)-ضیاء شاہد

    پاکستان کو تقسیم کرنے کی سازش شروع(قسط دوم)-ضیاء شاہد

    zia shahid

    سب سے پہلے گاندھی کے سیکرٹری ”ماہا دیوڈیسائی“ نے اپنی کتاب ”خدا کے دو خدمت گار“ میں خان برادران کے بارے
    میں انکشاف کیے جس کا دیباچہ خود گاندھی جی نے لکھا ”جب غفار خان سے اپنے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کی بیوی کے
    بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ شادی کے بعد مسلمان ہو گئی تھیں تو غفار خان نے کہا ”میں نے کبھی اس بارے میں نہیں پوچھا، کیونکہ شادی مذہب کی تبدیلی کا باعث کیوں بنے، خاوند اور بیوی اپنے اپنے مذہب کے کیوں نہ پابند رہیں۔“

    ایک اور موقع پر ڈیسائی لکھتے ہیں ”غفار خان روزانہ صبح آشرم میں آتے تھے اور گاندھی جی سے تُلسی داس کی رامائن سُنا کرتے تھے وہ صبح شام پرارتھنا (دُعا) میں بھی شامل ہوتے تھے، اُن کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب نے ایک مرتبہ کہا کہ ”پیارے لال جی، اس بھجن کی دُھن میری روح کو مسحور کر دیتی ہے مہربانی کر کے اُردو رسم الخط میں اس کا ترجمہ کر دیں۔“اپنی آب بیتی میں غفار خان نے لکھا ہے ۔جس کا نام ”جدوجہد“ ہے۔”ہندوآشرموں کی سادہ زندگی مجھے بہت پسند آئی اور مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ یہ خیال آیا کہ میں بھی ”خدائی خدمت گاروں“ کی تربیت کے لئے ایسے ہی آشرم بناﺅں۔“ بعدازاں ڈاکٹر خان صاحب نے چارسدہ کے قریب اسی طرح کا ایک آشرم تعمیر بھی کروایا جس میں ہندو مرد اور عورتیں آیا کرتے تھے۔ اس آشرم کی تعمیر کیلئے کانگریس نے غفارخان کو 25 ہزار روپے کا چندہ بھی ارسال کیا۔

    ڈاکٹر خان صاحب نے اپنی بیٹی کو انگلستان سے واپس بلا کر واردھا کے کنیا آشرم میں داخل کروادیا جس کے بارے میں ٹنڈولکر نے اپنی مشہور کتاب میں لکھا ہے”ڈاکٹر خان صاحب کا یہ قدم بہت خوب تھا کیونکہ اگر ایک پٹھان لڑکی انگلستان میں تعلیم پاسکتی ہے تو واردھا کے کنیا آشرم میں تعلیم حاصل کرنے میں کیا دقت ہے۔“ڈیسائی کے کتاب کے صفحہ 98 پر لکھا ہے۔”ڈاکٹر خان صاحب نے اپنے بچوںکو نصیحت کی کہ بہادر بننا اور گاندھی اور جمنا لال جی کے سائے میں سادگی اور تہذیب سیکھنا۔“ڈیسائی کی ہی کتاب سے خان عبدالغفار خان کی گفتگو ملاحظہ ہو۔”مہاتما گاندھی کی زندگی میں جب کوئی مشکل موقع آتا ہے تو میرا دل کہتا ہے کہ اس شخص کا فیصلہ درست ہوگا جس نے اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے سپرد کردیا ہے اور خدا کسی کو غلط راستہ نہیں بتلاتا۔“

    گاندھی جی کی سیاست سے ریٹائرمنٹ کے حوالے سے بات چھڑی تو غفار خان نے کہا”گاندھی اپنے معاملات میں اللہ تعالیٰ سے رجوع کرتے ہیں اور پھر اس کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں‘ سچ تو یہ ہے کہ اس مسلح اعظم کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے۔“علماءہی بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں اور فقیہان ہی یہ رائے دے سکتے ہیں کہ خان عبدالغفار خان کے ان نظریات کے بعد وہ کس حد تک مسلمان تھے۔اس موقع پر ڈیسائی کی کتاب ”خدا کے دو خدمتگار“ کے صفحہ 29 پر درج یہ جملہ ملاحظہ کریں‘ غفار خان کہتے ہیں ”مجھے 1930 ءمیں انڈمان کے پنڈت جگت رام نے باقاعدہ گیتا پڑھائی اور اس کا صحیح مفہوم سمجھایا‘ اب تک میں نے تین بار گیتا پڑھی ہے‘

    قرآن شریف میں صاف صاف لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہر قوم میں ہادی بھیجے ہیں اور وہ سب اہل کتاب ہیں۔“اس مسئلے پر ٹنڈولکر کی کتاب ”خان عبدالغفار “ میں صفحہ 73 پر لکھا ہے۔ترجمہ ملاحظہ کیجئے۔”مقدس کتاب (قرآن پاک) کہتا ہے کہ اللہ نے تمام قوموں میں لوگوں کےلئے پیغمبر اور ہدایات دینے والے بھیجے اور وہ سب پیغمبر نبی ہیں۔ سارے اہل کتاب ہیں۔ لہٰذا ہندو کسی بھی طرح عیسائیوں‘ یہودیوں سے کم اہل کتاب نہیں۔ جب غفارخان سے پوچھا گیا کہ اکثر مسلمان تو ایسا نہیں سمجھتے تو انہوں نے جواب دیا۔”وہ نہیں سمجھتے کہ ہندو اور ان کی کتاب ”قرآن مقدس“ میں اس لئے نہیں ہیں کہ قرآن مقدس میں فہرست مکمل نہیں ہے اور اس کی حیثیت محض مثال کے لئے ہے۔ مقدس قرآن میں صرف اصولوں کی صراحت کی گئی ہے وہ سب لوگ جو مقدس کتابوں سے متاثر ہوئے وہ اہل کتاب ہیں۔“

    ماہا دیو ڈیسائی اور ٹنڈولکر دونوں نے اپنی کتابوں میں ایک ہی واقعہ نقل کیا ہے‘ الفاظ ملاحظہ ہوں۔”غفار خان نے جیل میں گوشت چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور جب تک جیل میں رہے کبھی گوشت کو ہاتھ نہیں لگایا۔ جیل سے باہر آنے کے بعد بھی یہ طریقہ جاری رکھا۔ اپنی آپ بیتی میں ان کا بیان ملاحظہ ہو‘ صفحہ 634 پر لکھتے ہیں۔”ایک جلسے میں کسی کی شرارت پر بعض لوگوں نے شور مچایا اور میری تقریر کے دوران سوال کیا کہ ”گائے کو ذبح کرتے ہو؟“ میں نے کہا ”میں قصائی نہیں ہوں اور مسلمانی گائے کے ذبح کرنے پر منحصر نہیں ہے۔“اپنے رسالے ”پشتون“ میں غفار خان نے ایک ڈرامہ شائع کیا جس میں ایک حکیم اور دانش مند کے مابین مکالمہ کچھ یوں ہے۔دانش مند….”نہ کوئی نیکی‘ نہ برائی ‘ کم عقل لوگوں نے بعض چیزیں اچھی قرار دی ہیں‘ دوزخ‘ جنت‘ خیروشر‘ جزا اور سزا‘ انصاف اور ظلم تمہارے اندر ہے‘ تو اپنے آپ کو پہچانو‘ کیونکہ جو اپنے آپ کو نہیں پہچان سکتے ان کے لئے بیوقوفوں نے اپنے لئے خدا بنا رکھا ہے۔

    حکیم….”توبہ کرو اور استغفار پڑھو‘ ہوسکتا ہے کہ خدا تم پر رحم کردے اور تمہیں ایمان نصیب ہوجائے۔“دانش مند……..”کس سے رجوع کروں اور کس سے توبہ کروں‘ کون رحم کرے گا‘ تم عقل کے ہوتے ہوئے بھی بیوقوف ہو جو ایسی باتیں کرتے ہو۔“مفتی مدرار اللہ مدرار کے بقول 1969ءمیں غفار خان کانگریس سے ایوارڈ وصول کرنے بھارت گئے اور ان کی تصویریں اخبارات میں شائع ہوئیں۔ ان تصاویر میں غفار خان کے ماتھے پر مسز اندرا گاندھی نے ”قشقاہ“ یعنی تلک لگایا اور غفار خان نے ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا‘ اپنی کتاب ”دو خدائی خدمت گار“ میں ڈیسائی نے صفحہ 29 پر لکھا ہے۔”غفار خان کے قدر دان محبت سے اور مخالف نظر سے انہیں سرحدی گاندھی کہتے ہیں۔

    غفار خان نے گاندھی کی زندگی کا بڑے غور سے مطالعہ کیا اور ان کی پیروی کی۔ جیل خانے میں نہ صرف وہ ہفتے میں ایک دن روزہ رکھتے بلکہ ایک دن مرن برت بھی رکھتے تھے۔ پچھلے اگست میں مہاتماگاندھی نے سات دن کا برت رکھا تو غفار خان نے کہا کہ میں نے بھی سات دن کا روزہ رکھا اور شام کو صرف نمک ملا ہوا پانی پیا کیونکہ یہ کہنا تنگ نظری ہوگا کہ عام طور پر جس طرح مسلمان روزہ رکھتے ہیں وہی صحیح روزہ ہے۔غفار خان نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمارے رسول کریم نے اکثر دن رات متواتر روزے رکھے۔ آنحضرت کو کسی غذا کی ضرورت نہ تھی کیونکہ ان کا قول تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں روحانی غذا بھیجتا ہے جبکہ عام انسانوں کو یہ غذا نہیں ملتی۔علمائے کرام ان الفاظ پر خود غور فرمائیں اور یہ فیصلہ دیںکہ کیا ان خیالات کے باوجود غفارخان کو مسلمان کہا جاسکتا ہے؟
    (جاری ہے)

    قسط اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کرئے
    بشکریہ روزنامہ خبریں
  • پاکستان کو تقسیم کرنے کی سازش شروع(قسط اول)-ضیاء شاہد

    پاکستان کو تقسیم کرنے کی سازش شروع(قسط اول)-ضیاء شاہد

    nterf

    گزشتہ دِنوں سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان عرف باچا خان یا بادشاہ خاں کے پوتے خان عبدالولی خان کے بیٹے جناب اسفند یار ولی نے اعلان کیا کہ وہ افغانی پیدا ہوئے، افغانی ہیں اور افغانی رہیں گے، اِس سے پہلے بلوچی گاندھی جناب عبدالصمد اچکزئی کے صاحبزادے اور قومی اسمبلی کے رکن جناب محمود اچکزئی یہ فرما چکے ہیں کہ ”کے پی“ کے (جس کا سابقہ نام صوبہ سرحد تھا) افغانستان کا حصہ ہے، اُدھر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین بار بار بھارتی خفیہ ایجنسی” را“ سے حکومت پاکستان کے خلاف مدد کی اپیلیں کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ہمارے نمائندے نے انٹرویو بھیجا ہے جس میں لندن میں مقیم خان آف قلات نے ہندوستان ٹائمز کو انٹرویو دیا ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی کو بلوچستان کی آزادی کے لئے مدد کرنی چاہئے

    اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ضرورت پڑی تو اسرائیل سے بھی مدد لیں گے اور یہ بھی فرمایا کہ اگر چین کی گوادر تک اقتصادی راہداری بن گئی تو چین اور پاکستان کا بھارت کے گرد گھیرا تنگ ہو جائے گا لہٰذا بھارت کو بلوچستان کی مدد کرنی چاہئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کو اتنے برس گزر چکے، پہلے نسل اور زبان کی بنیاد پر مشرقی پاکستان الگ ہوا، اَب موجودہ پاکستان کے کونے کونے سے وطن دشمن اور بھارت کے ایجنٹ اپنے اپنے علاقوں کو آزادی دِلانے کے لئے دو قومی نظریے کے خلاف نسل اور زبان کی بنیاد پر الگ ریاستوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں۔ اِن کا پس منظر کیا ہے اور انہیں بھارت کی خفیہ ایجنسی”را“ کی امداد کیوں حاصل ہے۔ اس موضوع پر ہم یہ قسط وار سلسلہ مضامین شروع کر رہے ہیں۔ آیئے دیکھیں باری باری اِن نام نہاد لیڈروں کے پس منظر سے واقفیت حاصل کریں۔

    عبدالغفار خان عرف باچا خان نے کم و بیش ایک صدی قبل سابقہ صوبہ سرحد (موجودہ ”کے پی کے“) میں خدائی خدمت گار تحریک کی بنیاد رکھی، باچا خان، خان عبدالولی خان کے والد اور اسفند یار ولی کے دادا تھے، ان کا تعلق عثمان زئی قبیلے سے تھا اور عام طور پر وہ انگریز کے خلاف جدوجہد آزادی کے حوالے سے مشہور ہیں تاہم یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ غفار خاں برصغیر کی تقسیم کے مخالف، پاکستان کے نظریئے کے دشمن اور کانگرس اور گاندھی سے بہت قریب تھے۔ چنانچہ قیام پاکستان سے قبل ہی اُنہیں ”سرحدی گاندھی“ اور محمود اچکزئی کے والد عبدالصمد اچکزئی کو ”بلوچی گاندھی“ کہا جاتا تھا، عبدالصمد اچکزئی بھی قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ غفار خان پختونستان کے قیام کے حامی تھے، اُن کے بھائی عبدالقدیر خان انگریز کے وظیفہ خوار تھے جو اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان چلے گئے، یہ حقیقت بہت دلچسپ ہے کہ غفار خان زیادہ تعلیم حاصل نہ کر سکے اِس لئے اُنہوں نے مدرسہ بنا لیا۔

    یہاں اِس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ خیال کچھ درست نہیں کہ یہ خاندان انگریزوں کا شروع سے دشمن تھا کیونکہ غفار خان کے والد بہرام خان نے انگریزوں کے لئے ”غدر“ جسے ہم ”جنگ آزادی“ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور جو 1857ءمیں ہوا، انگریزی افواج کے لئے شاندار خدمات انجام دیں۔ جس کے بدلے میں انگریز نے اُنہیں دھڑا دھڑ زمینیں عطا کیں، غفار خان کا خاندان آج تک اُنہی زمینوں پر قابض چلا آ رہا ہے۔

    غفار خان نے ”اصلاحِ افغان سوسائٹی“ بنائی اور ”پشتون اسمبلی“ کے قیام کے لئے جدوجہد کی اور اس سلسلے میں جیل بھی گئے اُن کے والد بہرام خان کا 1920ءمیں انتقال ہوا، خاندان کے افراد کے مطابق اُنہیں 1857ءکے واقعات یاد تھے کیونکہ اُن دِنوں وہ نوجوان تھے۔
    1945ءمیں خان غازی قابلی نے ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا ”تحریک خدائی خدمت گار‘’ اُسے نرائن دت سیگل اینڈ سنز نے چھاپا تھا، خان غازی نے اس کتاب کی تیاری کے لئے سرحد کا دورہ بھی کیا اور بہت سے لوگوں سے غفار خان سمیت ملے، وہ کتاب کے صفحہ 14 پر لکھتے ہیں۔

    ”خان عبدالغفار خان کے والد بہرام خان کو انگریزوں نے سینکڑوں ایکڑ زمین دے کر جاگیر دار بنایا علاقے کے انگریز افسران اُنہیں چچا کہتے تھے بہرام خان اور اُن کے لوگوں نے 1857ءکے غدر کو ناکام بنانے میں انگریزوں کی بہت مدد کی۔“

    اِس واقعے کی تصدیق ایک اور مصنف ڈاکٹرشیر بہادر خان نے اپنی کتاب ”دیدہ و شنیدہ“ میں بھی کی ہے جسے ”دارالشفا ایبٹ آباد“ نے چھاپا ہے۔ بھارتی اخبار ”ہندوستان ٹائمز“ یکم جنوری 1986ءکو لکھتا ہے:

    ”خان عبدالغفار خان کے والد بہرام خان اپنے گاﺅں کے مکھیا تھے یعنی نمبردار، 1857ءکی جنگ آزادی میں حریت پسندوں کے خلاف انگریزوں کو مدد دی اور اس کے بدلے میں بہرام خان نے بھاری جاگیر حاصل کی۔“

    ان اقتباسات سے ثابت ہوتا ہے کہ ولی خان کا خاندان انگریز کا پروردہ تھا اور غفار خان کے باپ کو انگریز نے جاگیردار بنایا تھا۔ ولی خان کے تایا یعنی غفار خان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کی بیوی انگریز تھیں اور اُن کے بچے بھی انگلستان میں پڑھتے تھے، انگریزوں سے اُن کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ ڈاکٹر خان صاحب کی بیوی اور بچے کے لئے انگریز حکومت خصوصی وظیفہ دیتی تھی۔ انگریز حکومت کی سرکاری خط و کتابت سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔

    ”جب ایک افسر نے اس رقم کے بارے میں سوال کیا تو مسٹر ہیلمٹ نے سیکرٹری سرحد حکومت کو لکھا کہ یہ رقم ڈاکٹر خان صاحب کی بیوی اور بچے کے لئے انگریزوں کی طرف سے دی جا رہی ہے۔“

    واضح رہے کہ ڈاکٹر خان صاحب کا نام خان عبدالجبار خان تھا گویا یہ بات واضح ہے کہ ولی خان کے دادا بہرام خان نے زمین انگریزوں سے 1857ءکی جنگ آزادی میں حریت پسندوں کی مخالفت اور انگریز سرکار کی حمایت کے بدلے حاصل کی اور غفار خان صاحب کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب انگریزی حکومت سے خطاب یافتہ بھی تھے اور اُن کی بیوی اور بچوں کو برطانوی ہند کی مرکزی حکومت سے خصوصی وظیفے کے طور پر بھاری رقم ملتی تھی۔

    غفار خان گاندھی کے فلسفے کے پرچارک تھے، انہوں نے 1929ءمیں گاندھی جی سے ملاقات کی۔ غفار خان کی آپ بیتی میں اس ملاقات کا ذکر موجود ہے۔ کانگرس نے 1931ءمیں غفار خان کو صدارت کی پیش کش بھی کی لیکن غفار خان نے یہ کہہ کر معذرت کی کہ سرحد میں میرا کام ”خدائی خدمتگار“ تنظیم کو منظم کرنا ہے جو پختونوں کی آزاد ریاست کے لئے کام کر رہی ہے تاہم اُنہیں کانگرس کی ورکنگ کمیٹی کا ممبر ضرور بنایا گیا۔

    غفار خان اگرچہ دینی مدرسے کے بانی تھے لیکن خیالات کے اعتبار سے انتہائی آزاد خیال تھے اور مذہب پر اُن کا یقین بھی کچھ زیادہ مضبوط نہ تھا جس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ جب اُن کی بھتیجی کی سکھ نوجوان جسونت سنگھ سے شادی کا مسئلہ کھڑا ہوا جو ڈاکٹر خان صاحب کی انگریز بیوی سے پیدا ہوئی تھی تو غفار خان نے کھل کر اس کی حمایت کی۔ یہ 1942ءکا ذکر ہے ڈاکٹر خان صاحب کی بیٹی کا نام مریم تھا، مفتی مدر اراللہ مدرار جو جمعیت علمائے اسلام صوبہ سرحد کے سابق سیکرٹری تھے جنہوں نے بعد ازاں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ اپنی کتاب ”خان عبدالغفار خان، سیاست اور عقائد“ میں اس واقعے کے بارے میں تفصیل سے لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر خان صاحب نے مریم کی جسونت سنگھ سے شادی کے بارے میں کہا تھا ”میرا آشیرباد مریم کے ساتھ ہے جس نے اپنی پسند سے شادی کی ہے۔“ اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر ہَے کہ ڈاکٹر خان صاحب کے بیٹے نے ایک غیر مسلم پارسی لڑکی صوفیہ سے بیاہ رچایا۔
    (جاری ہے)
    بشکریہ روزنامہ خبریں

  • جونیئرصحافیوں کے لیے(حصہ دوم)-جاوید چوہدری

    جونیئرصحافیوں کے لیے(حصہ دوم)-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    ملک میں آج کل بچوں کے اغواء کا سلسلہ بھی چل رہا ہے‘ ہمارے چینلزروزانہ درجنوں خبریں دیتے ہیں‘ میں یہ ایشو بھی پڑھ رہا ہوں‘میں پولیس کے ان افسروں سے بھی رابطہ کر رہا ہوں جو مجرموں سے تفتیش کر رہے ہیں یا پھر اغواء کا ڈیٹا جمع کر رہے ہیں اور میں کوئی ریٹائر اغواء کار بھی تلاش کر رہا ہوں‘ یہ کوشش بھی میرے کام میں میچورٹی پیدا کر ے گی ‘ میں اسی طرح پانامہ لیکس‘ ٹی او آرز اور دنیا نے اس ایشو پر کیا قانون سازی کی اس پر بھی معلومات جمع کر رہا ہوں‘ یہ اضافی معلومات بھی آنے والے دنوں میں میرے کام آئیں گی۔

    میرے پاس کیرئیر کے شروع میں تین موٹے موٹے رجسٹر ہوتے تھے‘ میں اخبارات سے اہم خبریں کاٹ کر ان رجسٹروں میں چپکا دیتا تھا‘ میں کتابوں کے اہم واقعات‘ اہم معلومات اور خوبصورت فقرے بھی ان رجسٹروں میں درج کر دیتا تھا‘ یہ معلومات‘ یہ واقعات اور یہ خبریں میرے خزانے تھے اور یہ آج تک میرے کام آ رہے ہیں‘ 2010ء کے بعد آئی فون اور آئی پیڈ نے رجسٹروں کی جگہ لے لی‘ میں اب خبروں کی تصویریں کھینچ کر فون میں محفوظ کر لیتا ہوں اور اہم معلومات فون کی نوٹ بک میں ٹائپ کر لیتا ہوں‘ آپ بھی یہ کر سکتے ہیں‘میں پچھلے 22 برسوں سے ایک اور پریکٹس بھی کر رہا ہوں‘ میں شروع میں روز تین اخبار پڑھتا تھا‘ یہ تعداد اب بڑھتے بڑھتے 19 اخبارات تک پہنچ چکی ہے۔

    میں ان کے علاوہ اخبار جہاں‘ میگ‘ فیملی‘ ٹائم‘ نیوزویک اور ہیرالڈ بھی پڑھتا ہوں‘ میں یہ ٹاسک دو گھنٹے میں پورا کرتا ہوں‘ آپ دو اردو اور ایک انگریزی اخبار کو اپنی اولین ترجیح بنا لیں‘ آپ یہ تینوں اخبارات پورے پڑھیں اور اس کے بعد باقی اخبارات صرف سکین کریں‘ اخبارات کی 90 فیصد خبریں مشترک ہوتی ہیں‘ آپ ان نوے فیصد خبروں پر سرسری نظر دوڑائیں اور باقی دس فیصد ایکس کلوسیو خبروں کو تفصیل کے ساتھ پڑھ لیں‘ پیچھے رہ گئے میگزین‘ آپ افورڈ کر سکتے ہیں تو آپ یہ میگزین خرید لیں‘ دوسری صورت میں آپ دفتر یا بک اسٹالز پر ان میگزین کی ورق گردانی کریں اور آپ کو جو مضمون اچھا لگے آپ موبائل سے اس کی تصویر کھینچ لیں اور جب فرصت ملے موبائل کھولیں‘ مضمون کی تصویریں نکالیں اور پڑھنا شروع کر دیں یوں آپ کی فرصت بھی کارآمد ہو جائے گی اور آپ کے علم میں بھی اضافہ ہو گا یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے ہم اگر جونیئر صحافی ہیں تو ہم اتنے اخبارات اور رسائل کیسے خریدیں گے‘ مجھے بھی کیریئر کے شروع میں یہ مسئلہ پیش آیا تھا‘ میں نے اس کا دلچسپ حل نکالا‘ میں ایک گھنٹہ پہلے دفتر چلا جاتا تھا۔

    اخبارات کی فائل نکالتا تھا اور ساتھیوں کے آنے سے پہلے تمام اخبارات دیکھ لیتا تھا‘ آج کل انٹرنیٹ نے سہولت پیدا کر دی ہے‘آ پ دنیا جہاں کے اخبارات آن لائین پڑھ سکتے ہیں‘ آپ اسی طرح پانچ کالم نگاروں کی فہرست بنائیں‘ آپ انھیں روز ’’فالو‘‘ کریں‘ یہ عادت بھی آپ میں گہرائی پیدا کر دے گی‘ میں تیس برسوں سے کتابوں کی سمریاں بھی بنا رہا ہوں‘ میں جو کتاب پڑھتا ہوں‘ اس کی اہم معلومات‘ واقعات اور فقرے ڈائری میں لکھ لیتا ہوں‘ یہ ڈائری ہر وقت میرے بیگ میں رہتی ہے‘ مجھے جب بھی وقت ملتا ہے میں ڈائری کھول کر اپنی سمریاں پڑھتا ہوں‘ یہ عادت میری یادداشت کو تازہ کر دیتی ہے‘ میں نے پچھلے 16 برس سے بیگ کی عادت بھی اپنا رکھی ہے‘ میں درمیانے سائز کا ایک بیگ ہمیشہ ساتھ رکھتا ہوں‘ بیگ میں میرا رائیٹنگ پیڈ‘ آئی پیڈ‘ کوئی ایک کتاب اور ڈائری ہوتی ہے‘ مجھے جہاں فرصت ملتی ہے میں کتاب‘ ڈائری یا آئی پیڈ کھول کر بیٹھ جاتا ہوں‘ آپ بھی یہ عادت اپنا لیں‘ یہ آپ کے لیے بہت فائدہ مند ہو گی‘ مجھے سفر کے دوران‘ ریستورانوں‘ کافی شاپس اور واک میں اکثر اوقات لوگ ملتے ہیں۔

    یہ لوگ مجھ سے سوال بھی کرتے ہیں لیکن میں جواب دینے کے بجائے ان سے پوچھتا ہوں ’’آپ کیا کرتے ہیں‘‘ وہ جواب میں اپنا پروفیشن بتاتے ہیں اور میں پھر ان سے ان کے پروفیشن کے بارے میں پوچھنے لگتا ہوں یوں میری معلومات میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ آپ بھی اپنے ملاقاتیوں کو بتانے کے بجائے ان سے پوچھنا شروع کر دیں‘ آپ کے پاس بھی معلومات کا انبار لگ جائے گا اور آخری بات آپ یہ نقطہ پلے باندھ لیں جرأت اور غیر جانبداری صحافت کی روح ہے‘ آپ کسی قیمت پر غیرجانبداری کو قربان نہ ہونے دیں‘ آپ یہ پیشہ چھوڑ دیں لیکن آپ کی غیرجانبداری پر آنچ نہیں آنی چاہیے‘ آپ اپنے اندر سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے کا حوصلہ بھی پیدا کریں‘ آپ کو خواہ پوری دنیا گالی دے لیکن آپ سچ کو سچ کہتے چلے جائیں آخر میں آپ ہی کامیاب ہوں گے‘ آپ کبھی تالی بجوانے یا واہ واہ کرانے کے لیے جھوٹ کا رسک نہ لیں‘ کیوں؟ کیونکہ آپ جھوٹ لکھ یا بول کر تھوڑی دیر کے لیے تو واہ واہ کرا لیں گے لیکن بعد ازاںآپ کا پورا کیریئر تباہ ہو جائے گا۔

    میں آپ کو یہاں 2014ء کے دھرنوں کی مثال دیتا ہوں آپ کو یاد ہو گا 2014ء میں میڈیا دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا‘ پہلا حصہ دھرنے کا حامی تھا‘ اس حصے کو دھرنے میں انقلاب بھی نظر آتا تھا اور حکومت کی گرتی ہوئی دیوار بھی جب کہ دوسرے حصے کا خیال تھا یہ دھرنا کامیاب نہیں ہو سکے گا‘ یہ لوگ اور ان لوگوں کو پارلیمنٹ ہاؤس تک لانے والے دونوں ناکام ہو جائیں گے‘ عوام نے میڈیا کے پہلے حصے کے لیے جی بھر کر تالیاں بجائیں‘ یہ لوگ قائدین انقلاب بھی کہلائے جب کہ دوسرے حصے کو دل کھول کر برا بھلا کہا گیا‘ انھیں گالیاں بھی دی گئیں اور ان پر حملے بھی ہوئے لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ وہ لوگ جنھیں غدار‘ لفافہ اور بکاؤ کہا گیا یہ آج بھی پیشہ صحافت میں موجود ہیں۔

    یہ آج بھی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں جب کہ کنٹینر پر چڑھ کر تبدیلی کا چاند دیکھنے والے تمام صحافیوں کا کیریئر ختم ہو گیا‘ میڈیا مالکان آج ان کے ایس ایم ایس کا جواب تک دینا پسند نہیں کرتے چنانچہ نقصان کس کا ہوا؟ ان لوگوں کا جو وقتی واہ واہ کے ریلے میں بہہ گئے تھے اور فائدہ کن کو پہنچا جنہوں نے سیلاب میں بھی زمین سے قدم نہ اٹھائے‘ آپ دوسری مثال ایم کیو ایم کی لیجیے‘ الطاف حسین نے 22اگست کو ٹیلی فون پر خطاب کیا‘ یہ تقریر اینٹی پاکستان اور ناقابل برداشت تھی‘ ملک کے بچے بچے نے الطاف حسین کی مذمت کی‘ یہاں بھی میڈیا دوگروپوں میں تقسیم ہو گیا‘ پہلے گروپ کا مطالبہ تھا حکومت ایم کیو ایم پر پابندی لگا دے جب کہ دوسرے گروپ کا کہنا تھا جرم الطاف حسین نے کیا ہے۔

    ایم کیو ایم نے نہیں چنانچہ سزا صرف اور صرف الطاف حسین کو ملنی چاہیے‘ میں میڈیا کے دوسرے گروپ میں شامل ہوں‘ عوام مجھے اس جسارت پر بھی بڑی آسانی سے گالی دے سکتے ہیں لیکن حقائق اس کے باوجود حقائق رہیں گے اور حقیقت یہ ہے آپ دنیا میں جس طرح کسی شخص سے اس کی شہریت نہیں چھین سکتے بالکل آپ اسی طرح کسی سیاسی جماعت پر اس کے نظریات کی بنیاد پر پابندی نہیں لگا سکتے‘ مولانا مودوی کو 1948ء میں جہاد کشمیر کی مخالفت میں گرفتار کیا گیا‘یہ 1953ء میں تحریک ختم نبوت میں بھی گرفتار ہوئے اور ریاست نے انھیں موت کی سزا تک سنا دی لیکن جماعت اسلامی پر پابندی نہیں لگی‘ جئے سندھ کے جی ایم سید نے پوری زندگی پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا لیکن جئے سندھ پر پابندی نہیں لگی‘عوامی نیشنل پارٹی کے قائدخان عبدالغفار خان نے پاکستان میں دفن ہونا پسند نہیں کیا تھا۔

    ان کی قبر آج بھی جلال آباد میں موجود ہے لیکن اے این پی نے بعد ازاں حکومتیں بھی بنائیں اور یہ آج بھی ایوانوں میں موجود ہے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے عسکری ونگ الذوالفقار نے بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی لیکن ریاست پیپلز پارٹی پر پابندی نہ لگا سکی‘ پارٹی نے اس کے بعد تین بار وفاقی حکومتیں بنائیں‘ آپ اسی طرح بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کا ڈیٹا دیکھ لیجیے‘بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)‘ بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)‘ نیشنل پارٹی ‘ جمہوری وطن پارٹی اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی ان تمام بلوچ سیاسی جماعتوں پر مختلف اوقات میں مختلف الزام لگتے رہے لیکن ریاست نے ان پرکبھی پابندی نہیں لگائی‘میرے کہنے کا مطلب ہے سیاسی جماعتوں پر پابندیاں نہیں لگا کرتیں اور اگر ریاستیں یہ غلطی کر بیٹھیں تو پھر سیاسی جماعتیں ملیشیا بن جاتی ہیں‘ یہ ملک میں چھاپہ مار کارروائیاں شروع کر دیتی ہیں اور کوئی ملک یہ افورڈ نہیں کر سکتا‘ آپ اگر صحافی ہیں تو آپ پھر جرم اور مجرم کو ’’فوکس‘‘ کریں‘ آپ کبھی مجرم کے گھر اور لواحقین کو جرم کی سزا نہ دیں‘ ایم کیو ایم بطور سیاسی جماعت ایک حقیقت ہے‘ آپ اس حقیقت کو ہمیشہ حقیقت مانیں‘ پیچھے رہ گئے الطاف حسین اور ان کے سہولت کار تو تمام پاکستانی ان کی حرکتوں‘ ان کی فلاسفی اور ان کے خیالات کے خلاف ہیں‘ ریاست کو بہرحال ان کا منہ بند کرنا ہوگا۔

    آپ جونیئر صحافی ہیں‘ آپ یاد رکھیں حقائق داغ دار سیب کی طرح ہوتے ہیں‘ عقل مند لوگ سیب کا صرف گندہ حصہ کاٹتے ہیں‘ پورا سیب نہیں پھینکتے‘ آپ بھی صرف گندہ حصہ کاٹیں پورے سیب کو ٹھوکر نہ ماریں۔

    حصہ اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کرئے