Tag: این جی اوز

  • خیبرپختونخوا، نصاب تعلیم سے اسلامیات کا خاتمہ – میر محسن الدین

    خیبرپختونخوا، نصاب تعلیم سے اسلامیات کا خاتمہ – میر محسن الدین

    fgfgghgfgfgf کسی قوم کو کھوکھلا کرنا مقصود ہو تو اس کی نئی نسل کے ذہنوں میں اس کی نظریاتی بنیادوں کے بارے میں شکوک و شبہات ڈالو۔ جن نظریات اور اقدار و روایات پر قوم کا ڈھانچہ کھڑا ہو انہی کو ان کے ذہنوں میں فرسودہ ٹھہراؤ، اپنے کلچر اور نظریات و عقائد کے لیے ان کے ہاں غیر محسوس انداز میں گوشہ بناؤ اور اس قوم کے محافظوں اور قومی ہیرو سے نئی نسل کو بدظن و بدگمان کردو۔ یہ فورتھ جنریشن وار کا ایک مہلک داؤ ہے جو دشمن کی طرف سے آزمایا جاتا ہے۔

    غیر ملکی اور ان کی پروردہ ملکی این جی اوز بظاہر اصلاحات کا ڈھنڈورا پیٹ کر اور تعمیر کے نام پر تخریب کر کے یہ داؤ کھیلنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ این جی اوز دوسرے ذرائع استعمال کرنے کے ساتھ نصاب تعلیم جو کہ ذہن سازی میں بڑا کردار ادا کرتا ہے، پر اثرانداز ہو کر اپنے ٹارگٹ کردہ ملک کے باشندوں خاص طور پر نئی نسل سے ان کی تاریخ، نظریات، شناخت، اقدار و روایات نکالنے اور ملک کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دینے والوں سے ان کو بد ظن کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتی ہیں جبکہ بڑے لیول پر اپنے ہم خیال اور خریدے گئے لوگوں کے ذریعے مختلف سیمینارز اور ورکشاپس وغیرہ کے ذریعے ماحول بنانے اور یہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کی جاتی ہے۔ یہ تو تھا فورتھ جنریشن وار کے ایک داؤ کا مختصر قصہ۔

    اب خیبر پختونخوا کے سکول کے بچوں کے لیے سرکاری نصاب تعلیم میں ہونے والی تبدیلیوں میں سے کچھ کا ذکر کروں گا جو سمجھی یا ’ناسمجھی‘ میں کی گئی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے نصاب سے پہلے تو اسلامیات کا مضمون نکالا گیا اور پھر جنرل نالج مضامین میں اسلامیات کو ضم کرنے کے نام پر ایسے اسباق شامل کیے گئے کہ بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جائے۔ مثال کے طور پر گریڈ ون اور ٹو کے کتابوں میں ’پریئرز‘ ’ریلیجیس فیسٹیولز‘ اور ’ریسپکٹ آدرز‘ کے اسباق ہیں۔

    ’پریئرز‘ کے سبق میں مسجد کی تصویر ہے اور پھر لکھا ہے ’’مسجد سے آذان سنی گئی، مسلمان دن میں پانچ بار نماز ادا کرتے ہیں‘‘۔
    پھر اسی سبق میں ساتھ نیچے مندر کی تصویر دی گئی ہے اور لکھا ہے ’’پریم ایک ہندو ہے اور وہ اپنی نماز ادا کرنے مندر جاتا ہے‘‘۔
    پھر گوردوارہ کی تصویر ہے اور لکھا ہے ’’کھڑک سنگھ ایک سکھ ہے، وہ اپنی نماز ادا کرنے گوردوارہ جاتا ہے‘‘۔
    چرچ کی تصویر کے ساتھ لکھا ہے کہ ’’جوزف ایک عیسائی ہے اور وہ اپنی نماز کے لیے چرچ جاتا ہے‘‘۔
    نیچے ان جگہوں کی تکریم کی بات ہے، بندہ پہلے فرصت میں سمجھ جاتا ہے کہ ایسا ایک ’کور‘ دینے کے لیے کیا گیا ہے۔

    اسی طرح ریلیجیس فیسٹیولز کے سبق میں جشن میلاد کو مسلمانوں کے مذہبی تہواروں میں ڈالا گیا ہے اور اس سے اگلے سبق میں کرسمس، ہولی، دیوالی اور بیساکھی کا اچھا خاصا بیان بھی ہے۔ ریسپیکٹ آدرز والے سبق میں مختلف لوگوں کے الگ الگ مذاہب ماننے والی بات ہے، لائن میں چرچ، مندر اور مسجد کی تصاویر ہیں۔ پاس ایک لڑکے کی تصویر دی گئی ہے اور ساتھ لکھا ہے’’جانی چرچ جاتا ہے‘‘۔

    ایک عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ بچوں کو یہ کون سی پٹی پڑھائی جا رہی ہے؟ یہ اسلامیات کا کیسا متبادل ہے اور کس چیز سے بچوں کو آشنا کیا جا رہا ہے؟ یاد رہے کہ اس سے پہلے نصاب تعلیم میں نظریہ پاکستان، اسلامی تاریخ، معتبر اسلامی ہستیوں، داستان شجاعت رقم کرنے والے پاک فوج کے شہیدوں اور قومی ہیروز کے اسباق کے ساتھ بھی چھیڑ خانی ہوتی رہی ہے۔ اب سننے میں آیا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے نصاب سے یہ تبدیلیاں ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی حکومت اگر یہ اقدام کرتی ہے اور نصاب میں اسلامیات، نظریہ پاکستان، اسلامی اقدار و روایات اور قومی مفاد سے ہم آہنگ اسباق دوبارہ شامل کرتی ہے تو اس پر خیبر پختونخوا کی حکومت خراج تحسین کی مستحق ہے۔خاص طور پر جماعت اسلامی کا اس حوالے سے کردار زیادہ قابل ستائش ہوگا جو کہ نصاب سے یہ تبدیلیاں نہ نکلنے کی صورت میں صوبائی حکومت سے بھی الگ ہونے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ وہ قومیں زندہ نہیں رہتیں جو اپنی نظریاتی بنیادیں کھودنے والوں کے ہاتھ نہیں روکتیں۔

  • ٹرمپ کی فتح اور این جی اوز مارکہ لبرل ازم کی موت –  ڈاکٹر غیث المعرفہ

    ٹرمپ کی فتح اور این جی اوز مارکہ لبرل ازم کی موت – ڈاکٹر غیث المعرفہ

    امریکی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج تقریباً مکمل ہو چکے ہیں اور رات بھر ٹرمپ کے ڈمپ ہونے کے خواب دیکھنے والے صبح اٹھے ہیں تو ٹرمپ کی فتح ان کا استقبال کر رہی ہے- یہ الگ بات ہے کہ جس وقت امریکہ میں ووٹ گنے جا رہے تھے اس وقت امریکہ میں مقیم مسلمان اپنے نوٹ گننے میں مصروف تھے اور کینیڈا امیگریشن کی ویب سائٹ، عالمی اقتصادی مارکیٹ کے ساتھ کریش کر رہی تھی

    جدید امریکی تاریخ میں یہ انتخابات بہت منفرد تھے، ڈونلڈ ٹرمپ جیسی شخصیت کا امریکی صدارتی ریس میں آ جانا ایک غیر معمولی پیش رفت تھی، اور اب اس سے بڑھ کر ان کا جیت جانا، جدید معاشروں میں ابھرنے والے نئے احساسات کا پتا دیتا ہے ان نئے احساسات کا نظارہ کچھ ہی ماہ پہلے برطانوی سماج بھی ہمیں دکھا چکا ہے جس نے یورپی یونین سے نکلنے کا اعلان کر دیا جمہور کے یہ نئے رنگ جہاں جمہوری نظام پر اپنے اثرات چھوڑیں گے وہیں کچھ نئے مشاہدات کا اظہار بھی کر رہے ہیں مثلاً ہم نے دیکھا کہ عوامی رائے کے باوجود ‘بریکسٹ’ پر برطانوی عدالت نے پارلیمان سے ووٹ کا حکم جاری کر دیا ہے امریکی عوام کی رائے کو جھٹلانا تو ناممکن ہے لیکن ہم مستقبل میں شاید اسی قسم کے فیصلے امریکی کانگریس میں دیکھ سکیں جب وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کچھ تجاویز ماننے سے انکار کر دے

    پہلا مشاہدہ جس میں جان آئی ہے وہ یہ ہےکہ سیاسی شدت پسندانہ نظریات رکھنے والوں میں نئے انسانی احساسات دلچسپی رکھتے ہیں، میں اسے شدت پسندانہ نظریات کی کشش کے بجائے اس دلچسپی کو نئے احساسات کے ایڈونچرازم سے منسوب کرتا ہوں یا پھر ہم اس کی جڑیں روایتی لبرل اور سیکولر ایلیٹ کی عوامی امنگوں سے دوری میں ڈھونڈھ سکتے ہیں بھارت میں مودی جیسی شخصیت کے حق میں بھرپور عوامی حمایت، پھر بریکسٹ جیسے عجیب و غریب فیصلے اور اب ٹرمپ کو امریکہ کا صدر بنا دینا

    14695363_10154659353909060_8382932397127863830_n

    دوسرا مشاہدہ یہ ہے کہ سماج تیزی سے روایتی میڈیا اور اداروں (اسٹیبلشمنٹ ) کی دسترس سے نکلتا جا رہا ہے، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی خبریں، تجزیے اور تبصرے، نئے انسانی احساسات پر اپنے مثبت اور فیصلہ کن اثرات چھوڑنے میں ناکامی محسوس کر رہے ہیں، شاید اس کی وجہ اس کا بناوٹی پن اور منفیت تھی جس نے عوامی اعتماد کو مجروع کرنا شروع کر دیا ہے، اور پھر اس سے بڑی وجہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا وجود ہے جس نے خبر اور تجزیے پر ایک کلاس کی اجارہ داری ختم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے روایتی میڈیا اور اداروں کی منہ توڑ مخالفت کے باجود ٹرمپ کی جیت میں بھی یہی پیغام پوشیدہ ہے

    ان بدلتے ہوئے احساسات اور مشاہدات میں جہاں ٹرمپ کی فتح امریکی اور بین الاقوامی سطح پر کئی اثرات چھوڑے گی وہیں دنیا بھر میں پھیلی این جی اوز کے نام سے موسوم امریکی اسٹیبلشمنٹ پروڈکس کی ورکنگ متاثر ہوگی ٹرمپ کی فتح میں ان این جی اوز کی موت مضمر ہے اسی وجہ سے عالمی سطح پر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مہم سازی میں این جی اوز اور اس سے منسلک افراد ایک عرصے سے مصروف تھے اس کے باجود امریکی مفادات کی ‘ملبوس جنگ’ کو ٹرمپ کی صورت ‘ننگی جنگ’ میں بدلنے کا فیصلہ امریکی عوام نے کر دیا ہے دیکھنا اب یہی ہوگا کہ امریکی کانگریس، ٹرمپ کی تجاویز کو کیا اہمیت دیتی ہے اور امریکی اسٹیبلشمنٹ، ٹرمپ کے ساتھ اپنے تعلقات کو کیسے آگے بڑھاتی ہے- اگر وہ ایک دوسرے کو سمجھنے اور سمجھانے میں ناکام ہوتی ہیں تو وہ امریکہ کا ایک خطرناک بحران ہو گا اور اگر اس میں کامیاب ہو تے ہیں تو عالمی این جی اوز مارکہ لبرل وین گارڈ بحرانی کیفیت میں جا سکتی ہے

  • بے چاری عورت – عاطف الیاس

    بے چاری عورت – عاطف الیاس

    عاطف الیاس اقبال نے کیا خوب کہا تھا:
    وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
    اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں۔
    بلاشبہ عورت اس تصویر کائنات کی رنگینی ہے۔ اسی کے دم سے کاروانِ زیست میں دل فریبی اور سکون ہے۔ عورت ماں، بیوی، بیٹی، بہن ہر رُوپ میں مرد کے لیے دوست، غم خوار، مددگاراور راحت کا سامان ہے۔ پھر خالقِ کائنات نے مرد کے دل میں عورت کی محبت کو شامل کرکے خاندان کے وجود اور نسل انسانی کی بقا کو بھی یقینی بنا دیا ہے۔ گویا محبت کا یہ رُوپ انسانی معاشرے کی بُنت میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    لیکن اس چیز میں بھی کوئی شک نہیں کہ عورت کی حیثیت، مقام، حقوق اور فرائض کا معاملہ انسانی معاشرت کے ان معدودے چند سوالوں میں سے ایک ہے جسے انسان اپنی عقل سے حل کرنے میں بالکل ناکام رہا ہے۔ قبل از مسیح سے لے کر اسلام کے ظہور تک، دنیا کی ہر تہذیب اور مذہب میں، عورت کی حیثیت پاؤں کی جوتی سے زیادہ نہیں رہی۔ کہیں اسے موت کا دوسرا نام دیا گیا تو کہیں اسے غلاموں سے بدتر سمجھا گیا، کہیں اسے شیطان کا رُوپ قرار دیا گیا تو کہیں اسے انسانی مسائل کی جڑ یا وجہ قرار دیا گیا، کہیں اس کی پیدائیش پر منہ چھپانے کی رسم عام ہوئی تو اسے زندہ درگور کرنے کی ظالمانہ طریقے اپنائے گئے تو کہیں اسے خاوند کے مرتے ہی ”ستی“ کرنے کا حکم ہوا، کہیں اسے بیوگی کی زندگی گھٹ گھٹ کر گزارنے پر مجبور کیا گیا تو کہیں ہر جائز حق سے بھی محروم رکھا گیا۔ الغرض عورت جو سامانِ راحتِ جاں تھی اسے جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا گیا۔

    ایسے میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر رحم فرمایا اوراسلام کی صورت ایک ایسا دین نازل فرمایا جو صرف قولا ہی مکمل ضابطہ حیات نہیں تھا بلکہ عملا بھی زندگی کے تمام مسائل کا حل پیش کرنے والا تھا۔ اسلام نے عورت کی حیثیت، دائرہ کار، مقام، حقوق اور فرائض کا ایسا مکمل اور جامع نقشہ کھینچا کہ انسانی تہذیب آج بھی اس کا کماحقہ ادراک کرنے سے قاصر ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ اپنے گھر کی سربراہی کے ساتھ ساتھ مسلم خواتین نے زندگی کے ہرہر شعبے میں ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیے کہ انسان انگشتِ بدنداں رہ جاتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر انسانی معاشرت میں اپنے کردار کو اللہ کے احکامات کی روشنی میں اس طرح نبھایا کہ جہاں مسلمان ایک ہزار سال تک دنیا کی سپرپاور رہے، وہیں انسانی تاریخ میں معاشرتی زندگی کا ایک ایسا روشن باب وجود میں آیا کہ جس کی نظیر دنیا کا کوئی بھی معاشرہ دینے سے قاصر ہے۔ جس میں مضبوط خاندانی نظام کی بنیاد پر ایک صالح اور انسان دوست معاشرے نے جنم لیا۔

    اٹھارویں صدی میں جب اسلامی ریاست کو زوال شروع ہوا تو اگلی تین صدیوں میں اسلامی معاشرے کو بھی زوال آگیا۔ وہ معاشرہ جو اسلام کے احکامات، تصورات اور جذبات کی بنیاد پر تشکیل پایا تھا، اسلامی ریاست کو زوال آتے ہی، مغربی احکامات، تصورات اور جذبات سے آلودہ ہونے لگا۔ خصوصا بیسویں صدی کے دوسری نصف صدی میں جہاں مغرب کو دنیا میں سیاسی اور تہذیبی برتری حاصل ہوگئی اور میڈیا کی صورت میں تیز ترین اور موثر ذرائع ابلاغ بھی میسر آگئے، وہیں مغربی تہذیبی تصورات کو اسلامی معاشرے میں دخیل ہونے کے بھرپور مواقع مل گئے۔

    اسلامی ریاست کا وجود پہلے ہی مٹایا جاچکا تھا۔ اب جدیدت پسندی کے نام پر مسلم تہذیب کو نشانہ بنایا گیا۔ تہذیبوں کے تصادم جیسے تصورات کے تحت مسلم تہذیب کو اس کی اصل شناخت سے ہٹا کر مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگنے کی بہت سی کوششوں کا آغاز ہوا۔ جہاں سول ڈیموکریٹک اسلام کے تصورات کے تحت سیاسی اسلام کے غلبے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں وہیں کلچرل اسلام کے تحت اسے ایک نئی شناخت دینے کے لیے جدیدت پسند علما اور دانشوروں کو آگے بڑھایا گیا۔ جنھوں نے اسلامی احکامات کو آوٹ آف فیشن قرار دیتے ہوئے، مغربی تصورات کو اسلامی رنگ دینے کی کوششوں کا آغاز کیا۔ غامدی سکول آف تھاٹ انھیں کوششوں کی ایک مثال ہے۔ پھر ایک طرف مسلم ممالک میں اپنے ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے لبرل اور سیکولر آزادیوں کو یقینی بنایا گیا تو دوسری طرف نصاب، تعلیم اور میڈیا کے ذریعے ان آزادیوں کا پرچار بھی زوروشور سے کیا گیا۔ جس کا لامحالہ نتیجہ یہ نکلا کہ عورتوں کی آزادی، حقوقِ نسواں اور مادر پدر آزادی کے تصورات نے مسلم خواتین کو بھی اپنی طرف مائل اور متاثر کرنا شروع کردیا۔

    اس کی بنیادی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ ان تصورات کے مقابلے میں اسلامی احکامات صرف کتابوں تک محدود تھے۔ یعنی عملی طور پر مغربی تصورات ہی ان کے سامنے تھے۔ لیکن الحمداللہ ! اتنا کچھ ہوجانے کے بعد بھی وہ مسلم معاشروں کی بہت قلیل تعداد کو متاثر کرسکے۔ جس کا ایک ثبوت وہ سروے ہیں جو پچھلے دس سالوں سے ان کے موثر ترین تھنک ٹینک مسلسل مسلم ممالک کے اندر کررہے ہیں۔ اس حوالے سے پیو تھنک ٹینک، رینڈ اے کارپوریشن، بی بی سی اور ہیرلڈ کے سروے بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔ جن کے مطابق مسلم ممالک کی اکثریت اسلامی احکامات، شعار اور تصورات کے تحت زندگی گزارنا پسند کرتی ہے یا انھیں عملا ایک اسلامی ریاست کی صورت میں نافذ ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے۔

    لیکن چونکہ ان کی کوششیں جاری ہیں۔ خصوصا عورتوں کے حقوق اور آزادی کے حوالے سے بہت کچھ کیا جارہا ہے اور مغربی عورت کو بطور ایک مثال کے پیش کیا جارہا ہے۔ تو ضروری ہوجاتا ہے کہ اگر ہم مغربی عورت کی حالت زار پر بھی ایک نظر دیکھ لیں تاکہ ہمیں سچ اور جھوٹ کا وہ فرق نظر آسکے جو ٹی وی سکرین پر نظر نہیں آتا۔
    میرا مغرب کی بے چاری عورت کی حالت دکھانے کا مقصد ہرگز یہ ثابت کرنا نہیں ہے کہ ہمارے ہاں مسلم ممالک میں خصوصا پاک وہند میں عورتوں کی حالت مثالی ہے۔ ہرگز نہیں! یہاں بھی بے حد مسائل ہیں، وراثت میں حصہ دینے، تعلیم دلوانے اور جنسی استحصال کے حوالے سے ہمارے ہاں بھی بےشمار مسائل موجود ہیں۔ لیکن ان مسائل کی اصل وجہ بھی دین سے دوری اور مغربی طرزِ حیات، ہندوانہ اور قبائلی رسم و رواج کی اندھی تقلید ہے۔

    تو مغربی عورت جسے ہماری این جی اوز اور لبرل آنٹیاں دن رات مثالی بنا کر پیش کرتی ہیں۔ ایک نظر اس کی حالتِ زار پر بھی ڈال لیجیے۔
    جہاں تک جنسی زیادتی کا معاملہ ہے تو دنیا میں سب سے زیادہ عورتوں کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعات امریکہ میں پیش آتے ہیں۔ بدقسمتی سے ریپ کے ان واقعات میں سے زیادہ تر واقعات گھروں کے اندر پیش آتے ہیں۔ جن میں اپنے ہی محرم رشتوں کی کثیر تعداد اس گھناؤنے فعل کو سرانجام دیتی ہے۔ امریکہ میں ہر چار میں سے دو عورتیں بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے پہلے جنسی زیادتی یا اس کی کوشش کا نشانہ بنتی ہیں۔ جنسی زیادتی کے حوالے سے دوسرے نمبرپر ساوتھ افریقہ، تیسرے پر سویڈن، چوتھے پر برطانیہ، پانچویں پر انڈیا، چھٹے پر نیوزی لینڈ، ساتویں پر کینڈا، آٹھویں پر زمبابوے، نویں پر آسٹریلیا، دسویں نمبر پر ڈنمارک اور فن لینڈ شامل ہیں۔ مختلف تحقیقی اداروں کی رپورٹوں میں فرق ہوسکتا ہے لیکن زیادہ تر رپورٹوں میں یہی ممالک سرفہرست نظر آئیں گے۔

    پھر عورت کے استحصال کی سب سے بدترین صورت جسم فروشی ہے۔ ایک طرف مغربی تہذیب اپنے مادر پدر آزادی کے تصورات کے ذریعے ہر انسان کو من پسند زندگی گزرانے کی آزادی دیتی ہے دوسری طرف منفعت کے تصور کے تحت جسم فروشی کو جائز بھی قرار دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں جن ممالک میں جسم فروشی جائز ہے ان میں سے ترکی، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا جیسے مسلم ممالک کو چھوڑ کر باقی سب مغربی ممالک ہیں۔ ان میں نیوزی لینڈ، بیلجیم، آسٹریلیا، آسٹریا، کینڈا، ڈینمارک، فرانس، جرمنی، یونان اور ہالینڈ سرفہرست ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 42 ملین جسم فروش عورتیں موجود ہیں۔ جن میں سے پانچ ملین چین میں، تین ملین انڈیا میں اور ایک سے دو ملین امریکہ میں موجود ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو آن ریکارڈ موجود ہیں ورنہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ میرے خیال میں عورت کے لیے اس سے زیادہ بدتر اور گھٹیا زندگی کا تصور ممکن نہیں کہ وہ ایک سیکس ورکر ہو لیکن مغرب میں یہ جائز بھی ہے اور عام بھی۔

    پھر عورتوں پر تشدد کے حوالے سے بھی امریکہ سرفہرست ہے۔ جہاں عورتیں اپنے بوائے فرینڈز اور شوہروں کے ہاتھوں بدترین تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ وہاں رپورٹ کرنے کی شرح زیادہ ہونے کے باوجود، ایسے کیسز کی کثیر تعداد موجود ہے جہاں عورت تشدد کا نشانہ بننے کے بعد بھی اسے رپورٹ نہیں کرتی ہیں۔

    پھرایک طرف شخصی آزادی کے تصور کے تحت آزاد زندگی کا تصور دیا جاتا ہے تو دوسری طرف عورت کو ایک سستی سی شے بنا دیا گیا ہے۔ جسے نیم برہنہ یا برہنہ کرکے اپنی پروڈکٹ کو زیادہ سے زیادہ بیچا جاسکتا ہے۔ گویا مغرب کی سرمایہ دارانہ معشیت کے لیے عورت ایک ایسا ذریعہ (Tool) ہے جسے وہ مارکیٹنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ میں نے ایک سٹور میں ایک سیلز گرل کو نامناسب لباس پہنے دیکھا تو سخت افسردہ ہوا۔ ایک بڑی عمر کی خاتون کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ کمپنی ہمیں یہی کپڑے پہننے پر مجبور کرتی ہے۔ افسوس! سرمایہ دارانہ کمپنیاں مال کے ساتھ ساتھ عورت کی عزت بھی بیچتے ہیں۔

    گویا عورت جو گھر کا چراغ اور زینت تھی۔ اسے مغربی تہذیب نے منفعت کے تصور کے تحت جسم فروش اور پروڈکٹ بیچنے کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو اپنے گھر میں موجود ٹی وی، سڑکوں پر موجود بل بورڈز اور اخبار رسالوں میں چھپنے والے اشتہارات کو ایک نظر دیکھ لیجیے۔ کیا یہ عورت کی تذلیل نہیں؟ کیا یہ عورت کی سستی شے بنانا نہیں؟ مگر افسوس ہمارے سیکولر اور لبرل دانشور اسے عورت کی آزادی کے دلفریب منظر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن بنظر غور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عورت کا بدترین استحصال ہے جو مغربی تہذیب کی پیروی میں ہمارے ہاں بھی جاری ہے۔

    پھر عورت جسے اسلام نے گھر کی زینت قرار دیتے ہوئے، اس کے دائرہ کار کا تعین کیا تھا۔ گھربار اور بچوں کی ذمہ داری کو اس کی اولین ترجیح قرار دیا تھا (اگرچہ اسلام کو رُو سے عورت جائز حدود میں رہتے ہوئے کاروبار اور ملازمت بھی کرسکتی ہے لیکن اس کی اولین ترجیح گھر ہے)۔ اور معاش کی ذمہ داری مرد کے مضبوط کندھوں پر ڈالی تھی کہ اس کی فطرت اور ساخت اس کے لیے نہایت موزوں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیٹی کے رُوپ میں عورت باپ کی، بیوی کے رُوپ میں شوہر کی اور ماں کے رُوپ میں بیٹوں کی ذمہ داری ہے۔ اسے معاشی فکر کے لحاظ سے آزاد رکھا گیا ہے۔ لیکن مغرب میں آزادی، حقوقِ نسواں اور برابری کے تصور کی بنیاد پر عورت پر معاشی ذمہ داریاں بھی اس کے نازک اور ناتواں کاندھوں پر ڈال دی گئی ہیں۔ اس لیے اسے مرد کے ساتھ ساتھ برابر معاش کمانا پڑتا ہے۔

    اور بعض معاملات میں تو مغرب کی یہ بے چاری عورت دہری ذمہ داریاں نبھانے پر مجبور ہے۔ ایک طرف اسے ان بچوں کی پرورش کرنی ہے جنھیں ان کے مرد پیچھے چھوڑ گئے ہیں اور دوسری طرف وہ ان کی معاشی ضروریات کی بھی واحد کفیل ہیں۔ یہ عورت کے ساتھ ہونے والی وہ ناانصافی ہے جو اس کی فطرت، جسمانی ساخت اور جذبات سے میل نہیں کھاتی۔

    گویا سرمایہ دارانہ مغربی تہذیب نے عورت کو اس کی فطرت کے خلاف، اپنی انڈسٹری کو چلانے والا ایک کل پرزہ بنا دیا ہے۔ وہ ماں، بیوی، بیٹی یا بہن جیسے مقدس رشتوں سے نہیں پہچانی جاتی بلکہ اس کی حیثیت کا تعین اپنی پیداواری صلاحیت (Productivity) کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

    اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ آج ہمارے ہاں بھی اگرچہ ہندوانہ، قبائلی اور مردانہ رسم و رواج کے تحت عورتوں کا استحصال کیا جارہا ہے۔ اسے وراثت، تعلیم، جائز تفریح میں اس کا حق نہیں دیا جارہا لیکن پھر بھی ہماری عورت مغرب کی عورت سے لاکھ ہا درجے بہتر حالت میں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے، بجائے اسلام کی طرف رجوع کرنے کے، اسے مغربی تہذیب کی اندھی کھائی میں گرایا جارہا ہے۔ جہاں عورت محض ایک سستی سی شے بن کررہ جائے گی اور اس کی اپنی اصل شخصیت کہیں معدوم ہوجائے گی۔

    ہمیں اصل میں اپنے تمام مسائل خصوصا عورتوں سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے اسلام کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے حقوق، مقام اور حیثیت کا تعین اسلام کے نقطہ نظر کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے۔ جو بلاشبہ عورت کے لیے اس کے خالق کی طرف سے بہترین لائحہ عمل ہے۔ لیکن یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب ریاست سرمایہ دارانہ جمہوریت کے تصورات کی بجائے اسلام کے ذریں اصولوں پر قائم ہوگی۔ ورنہ ہم سب آدھے تیتر آدھے بٹیر کی مانند زندگی گزارتے رہیں گے۔ ہر روز ایک نئی قندیل بلوچ پیدا ہوتی رہے گی اور ہر روز اسے قتل کیا جاتا رہے گا۔

  • این جی اوز کی سرگرمیاں اور پاکستانی وحدت کو لاحق خطرات – ڈاکٹر عمر فاروق

    این جی اوز کی سرگرمیاں اور پاکستانی وحدت کو لاحق خطرات – ڈاکٹر عمر فاروق

    عمر فاروق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے اپنے ایک اجلاس میں چیئرمین انسانی حقوق کمیشن کی کارکردگی پر شدید تنقید کرتے ہوئے جہاں اُن کے غیر ملکی دوروں اور مراعات کی تفصیلات آئندہ اجلاس میں طلب کرلی ہیں، وہیں کمیٹی کے اجلاس میں ملک میں کام کر نے والی نیشنل اور انٹرنیشنل این جی اوز کی کارکردگی پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے. کمیٹی ممبران نے این جی اوز کی سخت مانیٹرنگ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کی ہر گلی میں این جی اوز کے دفاتر ہیں، این جی اوز کا 80 فیصد بجٹ انتظامی امور پر خرچ ہوتا ہے، پاکستان میں این جی اوز منہ زور گھوڑے کا روپ دھار چکی ہیں، مختلف علاقوں میں بلیک لسٹڈ این جی اوز بھی کام کر رہی ہیں. کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز کا ریکارڈ طلب کر لیا جبکہ چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق بابر نواز خان نے کہا کہ چیئرمین انسانی حقوق کمیشن کمیٹی کو اہمیت نہیں دیتے، کیوں نہ ان کے خلاف تحریک استحقاق لائی جائے۔

    موجودہ دورمیں این جی اوزکی افادیت مسلّمہ ہے۔ ہر ملک میں غیرسرکاری تنظیمیں کام کرتی ہیں۔ جہاں حکومت براہ راست اپنی خدمات مہیا نہیں کرسکتی، وہاں یہ این جی اوز اَحسن انداز میں اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہوتی ہیں۔ اس کی بدولت حکومت اور عوام دونوں ان کی خدمات سے مستفید ہوتے ہیں۔ ضرورت بس اس امر کی ہے کہ ان غیرسرکاری تنظیموں پر حکومت کا چیک اینڈ بیلنس کا نظام مضبوطی کے ساتھ قائم رکھا جائے. قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا مذکورہ بالااحتجاج اس بات کی واضح نشاندہی کر رہاہے کہ پاکستان میں این جی اوز کی حکومتی سطح پر نگرانی نہ ہونے کے برابر ہے اور این جی اوز ملک بھر میں اپنی من مانیوں میں مصروف ہیں۔ یہ این جی اوز نہ صرف اسلام آباد کے گلی کوچوں میں بکثرت موجود ہیں، بلکہ پاکستان بھر میں خودرو جھاڑیوں کی طرح پھیلی ہوئی ہیں اور مؤثرنگرانی نہ ہونے کی وجہ سے اب آکاس بیل بن کر قو م و ملک کے وجود کو کھوکھلا کرتی جا رہی ہیں۔

    ہم ایک اسلامی ملک کے باشندے ہیں اور اسلام خدمت خلق کی تلقین کرتا ہے، مگرنمائش اور دکھاوے سے بھی پرہیز کی ترغیب دیتا ہے تاکہ اگر کوئی کسی ضرورت مند کی مدد کرتا ہے تو وہ اتنی خاموشی کے ساتھ کرے کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو۔ دراصل اس طرح کے خاموش عمل سے محض اللہ کی رضا مقصود ہوتی ہے جس سے اجر و ثواب تو ملتا ہی ہے، مستحق کی عزت نفس بھی مجروح ہونے سے بچ جاتی ہے۔ اس کے برعکس این جی اوز تشہیری مہم چلاتی ہیں۔ اگر کہیں غریبوں کی تھوڑی سی مدد کردی تو باقاعدہ فوٹوسیشن کرکے ان کی غربت کا پردہ تار تار کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح معاشرے میں ان کی مفلوک الحالی کی رسوائی کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے۔ شاید یہ این جی اوز کے فرائض میں بھی شامل ہے کہ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے فلاحی کاموں کا ڈھنڈورا پیٹیں تاکہ ان کے سرپرستوں پر اُن کی کارکردگی ظاہر ہو سکے۔ پھر یہ تنظیمیں کسی نہ کسی ایسے کردار کی تلاش میں رہتی ہیں جس کے کاندھے پر وہ بندوق رکھ کر چلائیں اوردھڑا دھڑ بیرونی فنڈز اکٹھے کرسکیں۔ مختاراں مائی زیادتی کیس ماضی قریب کی نمایاں مثال ہے جس کو عالمی سطح پر اچھال کر ایک طرف مال و زر کے انبار سمیٹے گئے تو دوسری طرف پاکستان کا امیج پوری دنیا میں خراب کرنے کی شعوری کوشش کی گئی۔

    این جی اوز پروپیگنڈے میں ماہر ہوتی ہیں اور ان کے پروپیگنڈے میں حقیقت دب کر رہ جاتی ہے اور یہی ان کا اصل مقصدبھی ہوتا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک این جی او EOPM یعنی یورپین آرگنائزیشن آف پاکستان مائناریٹیز نے پاکستان کو اقلیتوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک قرار دیا تھا، جہاں عیسائی، ہندو، قادیانی اور دوسری عورتوں کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔ اس گمراہ کن پروپیگنڈے کا مقصدایک تیر سے دو شکار کرنا تھے۔ یعنی پاکستان کی رسوائی اور اسلام کی بدنامی، چونکہ این جی اوز کے بیرونی عطیات دہندگان انہیں جس طرح کے ٹاسک دیتے ہیں۔ اسی کے تحت این جی اوز اپنے دائرہ عمل میں اُن اہداف کے تحت سرگرم ہوجاتی ہیں۔ کبھی پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی کی جھوٹی رپورٹیں جاری کی جاتی ہیں تو کبھی اقلیتوں پر ناروا پابندیوں کے جھوٹے قصے میڈیا کے ذریعے پھیلائے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غیرملکی عطیات دہندگان اپنی آلہ کار این جی اوز کے ذریعے ہماری دینی اقدار اور معاشرتی روایات پر بیرونی ثقافتی حملوں اور تہذیبی جارحیت کے درپے ہیں تاکہ پاکستان کی اسلامی شناخت اور اس کی نظریاتی بنیادوں کو منہدم کیا جا سکے۔

    دیہات میں تعلیم کے نام پر مخلوط تعلیم کے ذریعے پردہ سسٹم کے خاتمے اور ہمارے محبت کی اکائی یعنی خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے بعض این جی اوز کا کردار خطرناک حد تک تشویش کا باعث بن رہا ہے۔ کئی این جی اوز پاکستان کے نصاب تعلیم میں تبدیلی کے مشن پر کام کر رہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے اجلاسوں، سیمینارز اور ذرائع ابلاغ سے کام لیا جا رہا ہے۔ ہماری معیشت پر این جی اوز کی صورت میں استعماری فوج مسلط ہوچکی ہے۔ این جی اوز کا تصور چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کا پیداکردہ ہے اس لیے این جی اوز معاشرے میں باہم محبت وانس کے جذبات کے بجائے مفاد پرستانہ سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔ انفرادی و شخصی آزادی اور ذاتی سوچ جیسے خوش نما نعرے دراصل پاکستانی معاشرے کے افراد کو تنہائی کا شکار کر دینے کے ہتھیار ہیں جن سے مغرب بری طرح متاثر ہو کر معاشرتی اقدار و روایات اور اخلاقی پابندیوں سے آزاد ہو چکا ہے جن کے نتائج عیاں ہیں۔ مادر پدر آزادی نے مغربی معاشرہ کو حیوانی زندگی سے دوچار کر دیا ہے اور اب بیرونی قوتیں این جی اوز کے ذریعے یہی تباہ کن حالات ہمارے ملک میں پیدا کرنے کی خواہاں ہیں۔

    چونکہ پاکستان کی بنیاد اسلام پر اُستوار ہے۔ اس لیے یہاں بہ آسانی لبرل ازم اور سیکولرازم پروان نہیں چڑھ سکتا، مگر این جی اوز کے ذریعے پاکستان کی نظریاتی پہچان کو آزادی رائے کے عنوان سے ختم کرنے کی کوششیں کافی عرصہ سے جاری ہیں۔ کبھی مذہب کو اِنسان کا ذاتی مسئلہ قرار دینے کی بات کی جاتی ہے تو کبھی ریاست کو مذہب سے سروکار نہیں ہونا چاہیے، جیسے لاجک پیش کیے جاتے ہیں۔ کبھی انسانی حقوق کا شعور پیدا کرنے کے نام پر اسلامی احکام و قوانین کے خلاف پروپیگنڈا کر کے شہریوں کو مذہب سے برگشتہ کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ کبھی قانون توہین رسالت کے خاتمہ کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور کبھی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی آئینی ترمیم کو ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ دراصل یہی غیرملکی لابیوں کے وہ حقیقی اہداف ہیں جنہیں وہ اپنی این جی اوز کے ملازم لادین افراد سے بیانات دلا کر، میڈیا اور مخصوص لابیوں کو استعمال میں لا کر حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے این جی اوز کو بھاری فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ عناصر اپنی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، لیکن انہیں تاحال اس لیے کامیابی حاصل نہیں ہو رہی کہ تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت جیسے انتہائی حساس اور نازک ایشوز پر ابھی تک پاکستان کے مسلمان کسی بھی کمپرومائز کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسیحی مشنریز بھی کئی این جی اوز کے نام پر دین سے کم واقفیت رکھنے والوں مسلمانوں کو عیسائیت کے نرغے میں لانے کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جو پاکستان کے بنیادی نظریے اور آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ USAID نامی این جی او عیسائیت کے فروغ، سیکولرزم کے پھیلاؤ اور اساتذہ کے ریفریشر کورسز کی آڑ میں پاکستان مخالفانہ سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ متعدد این جی اوز قومی وحدت اور پاکستان کی سلامتی کے خلاف مصروف عمل ہیں اور بین الاقوامی لابیوں کی ایجنٹ بن کر علاقائی و لسانی تعصب پھیلانے کے ساتھ ساتھ جاسوسی جیسے مذموم فعل میں بھی مصروف ہیں۔ سندھ کے سرحدی علاقوں میں امریکہ، ناروے، جرمنی اور برطانیہ کی این جی اوز کام کر رہی ہیں جن کی سرگرمیوں کے حوالے سے دو برس پیشتر رینجرز کے حکام بھی گہری تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان این جی اوز کا کام ملک کی تعمیروترقی اور معاشرے کی اصلاح ہے تو اَربوں ڈالرز کی مالیت کی خطیر امدادی رقوم ہضم کرنے کے باوجود صحت، تعلیم، ماحول اور دیگر تمام فلاحی کاموں میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی کیوں نظر نہیں آرہی؟ اس سے واضح ہوتا ہے کہ غیرملکی امدادوں پر پلنے والی ایسی این جی اوز کا مقصد تعمیری یا فلاحی کام ہرگز نہیں ہیں بلکہ ان کی منفی سرگرمیاں معاشرہ میں خطرناک نتائج مرتب کر رہی ہیں۔ اب تو پاکستان ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی این جی اوز کے منفی کردار کے بارے میں آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں اور یہ بات یقین کی حدوں کو چھونے لگی ہے کہ ان غیرسرکاری تنظیموں کا مقصد تیسری دنیا کے پسماندہ ملکوں کی معیشت کو کنٹرول کرنا اور اسلامی ملکوں میں اسلام کے متعلق لوگوں کے اذہان و قلوب میں تشکیک اور تذبذب کے بیج بونا ہے۔

    پاکستان میں نظریاتی اور مذہبی شخصیات کی نگرانی میں کئی این جی اوز قابل تحسین خدمات انجام دے رہی ہیں، ان کی کارکردگی کشمیرمیں آنے والے زلزلے کے بعد رفاہی کاموں کی صورت میں دنیا نے دیکھی ہے، مگر ہم نے ایسی محب وطن غیرسرکاری تنظیموں کو ناروا پابندیوں سے جکڑ رکھا ہے اور ملک کی اساس کے خلاف سرگرم عمل این جی اوز کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق حالیہ دنوں میں 50 غیرملکی این جی اوز کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے، مگر اُن کے نام نہیں بتائے گئے اور نہ یہ بتایاگیا ہے کہ یہ تنظمیں کن علاقوں میں کام کریں گی۔ حالات کی نزاکت کا تقاضا ہے کہ بین الاقوامی یا غیرملکی فنڈنگ سے کام کرنے والی این جی اوز کو قانون کے دائرے میں لایاجائے اور ان کی اقتصادی ڈویژن میں باقاعدہ رجسٹریشن کی جائے، جبکہ ملکی قانون کے مطابق اپنی آمدن کے ذرائع اور خرچ کے گوشوارے جمع نہ کرانے والی این جی اوز کو کالعدم قرار دیا جائے۔ حساس علاقوں میں متحرک این جی اوز کی کڑی نگرانی کی جائے تاکہ کسی غیرسرکاری تنظیم کو پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے خلاف کام کرنے کی جرأت نہ ہوسکے، کیونکہ پاکستان کا نظریاتی اور جغرافیائی وجود ہر لحاظ سے مقدم ہے اور پاکستان کی زمینی و نظریاتی وحدت کو دشمن کے ہتھکنڈوں سے بچانا ہمارا اَولین فرض ہے جس میں کسی قسم کی کوتاہی و غفلت کا ارتکاب نہ صرف وطن عزیزسے غداری اور بےوفائی بلکہ اسلام دشمنی بھی ہے۔

  • بلوچستان، عالمی طاقتوں کا ایجنڈا کیا ہے (آخری قسط)-اوریا مقبول جان

    بلوچستان، عالمی طاقتوں کا ایجنڈا کیا ہے (آخری قسط)-اوریا مقبول جان

    orya

    بلوچستان کے انتظام و انصرام کو انگزیز دور سے ہی برصغیر کے باقی خطوں سے بالکل علیحدہ طرز پر استوار کیا گیا تھا۔ ڈیرہ غازی خان کے ڈپٹی کمشنر اور پولیٹیکل ایجنٹ رابرٹ سنڈیمن نے اس وقت اپنی مشہور ’’فاروڈ پالیسی‘‘ پر حکومت برطانیہ سے منظوری کے بعد عمل درآمد کا آغاز کیا جب انگریز اس خطے کے بلوچ قبائل سے جنگ میں بری طرح شکست کھا رہا تھا۔ سندھ اور پنجاب فتح ہو چکے تھے لیکن زار روس کے مقابلے میں خود کو مستحکم کرنے کے لیے انگریز کو بلوچستان کا خطہ بھی درکار تھا۔ یہاں کے سنگلاخ پہاڑ ایک فصیل کا کام دے سکتے تھے۔

    اسی لیے اس نے سبی کے اردگرد شروع ہونے والے پہاڑی سلسلوں میں آباد بلوچ قبائل سے جنگ شروع کر دی۔ آغاز میں شکستوں کا سامنا کرنا پڑا تو سنڈیمن نے ایک تجویز پیش کی کہ اس علاقے کے بلوچ اور پشتوئی قبائل کو ان کے قدیم رواج کے مطابق زندگی گزارنے دی جائے‘ ان کی قبائلی خود مختاری کا احترام کیا جائے‘ یہاں کے قبائلی دستور کو انگزیزی قانون کا حصہ بنا دیا جا ئے اور علاقے میں امن عام اور انصاف کی ذمے داری سرداروں کو دے دی جائے۔ اس کے بدلے میں سرداروں کو تاج برطانیہ کا وفادار ہونے پر قائل کر لیا جائے۔

    اسی کی کوکھ سے لیویز سسٹم نے جنم لیا۔ انگریز قبیلے کے سردار کو لیویز کے سپاہی رکھنے کے لیے ڈپٹی کمشنر یا پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے رقم فراہم کرتا اور وہ بدلے میں انگریز کو ایک پرامن خطہ عطا کرتے۔ یہاں حالات پرامن چاہیے تھے کہ سرحدی علاقہ تھا اور سردار وفادار چاہیے تھے کیونکہ یہاں ذرا سا بھی اختلاف یا احتجاج برداشت نہیں ہو سکتا تھا۔ قبیلے کی قوت نافذہ نے انگریز کو یہاں سو سال تک بے خوف و خطر حکمران رکھا۔ خان آف قلات ہو یا کوئی اور نواب یا سردار سب انگریز سے ’’خانہ نشینی‘‘ الاؤنس وصول کرتے تھے جس کا مطلب ہے کہ تم گھر میں بیٹھے رہو اور وظیفہ کھاؤ۔

    البتہ انگریز ان سرداروں کے علاوہ بھی لوگوں میں اپنے اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے کے لیے دوستیاں پالتا اور ایجنٹ بناتا۔ لیکن اس نے قبیلے کی روایات کے مقابلے میں کسی غیر سردار کو سردار بنانے کی کوشش نہیں کی۔ ایک دو ناکام کوششوں کے بعد اس نے یہ سب بھی ترک کر دیا۔ البتہ اس نے ان سرداروں کے ذریعے افغانستان میں خفیہ طور پر اپنے ایجنٹ پھلائے ہوئے تھے جو بارڈر کے اس پار واقع روس کے افغانوں کی خبر دیتے رہتے تھے۔

    پاکستان نے اس انتظام کو ورثے میں لیا تھا۔ جہاں قبائل سرداری نظام اور انتظامیہ کا گٹھ جوڑ انگریز کا تحفہ ہے وہیں افغانستان سے مسلسل دشمنی بھی انگریز ہی کا تحفہ ہے۔ تمام سرحدی تنازعات اسی دور کی پیداوار ہیں۔ بلوچستان اپنے علاقائی اور سرحدی اہمیت کی وجہ سے ہر دور میں عالمی طاقتوں کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل خطہ رہاہے۔ 1917ء میں جب روس میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو اسے دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے 1920ء میں آذربائیجان جو اس وقت سوویت یونین کا حصہ تھا‘ اس کے شہر باکو میں کمیونسٹ تنظیموں کا عالمی اجلاس منعقد ہوا۔

    اس میں بلوچستان کے قوم پرست رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس میں یہ طے ہوا تھا سوویت یونین ہندوستان میں قومیتوں کے حقوق کا نعرہ بلند کر کے کمیونسٹ انقلاب کی راہ ہموار کرے گا۔ یہ وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک سب سے زیادہ انقلابی جدوجہد کی داستانیں اس خطے میں رقم ہوئیں۔ افغانستان روس کا ہمیشہ سے حلیف رہا ہے‘ اور پاکستان امریکا کا حواری۔ 1979ء میں جب روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو بلوچستان کی سرزمین بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکی۔ اس خطے میں وہ سب کھیل کھیلا گیا جس نے روس کو شکست سے دوچار کیا اور گوادر جس کے خواب کبھی روسی رہنما دیکھا کرتے تھے کریملین کی گلیوں میں ناکام و نامراد لوٹ گئے۔

    افغانستان پہلے مجاہدین اور پھر طالبان کے زیر اثر رہا۔ پہلے 8 سال قتل و غارت اور اگلے پانچ سال مثالی امن و امان۔ اسی ادھیڑ بن میں امریکا  دہشتگردی ختم کرتے وہاں آ گھسا۔ پاکستان اس جنگ میں اس کا حلیف تھا لیکن امریکا نے ایک بے وفا معشوق کی طرح دوستیاں اور آشنائیاں ہمارے دشمنوں سے رکھیں۔ بھارت امریکی سائے میں افغانستان میں مستحکم ہوا اور اس کے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے دلآرام اور زرنج تک ایک سڑک بنا ڈالی۔ اس سب کا مقصد صرف اور صرف ایک تھا کہ بلوچستان کے اہم ترین خطے کا متبادل پیش کر کے اس خطے کو پسماندگی‘ جہالت اور خونریزی کے سمندر میں دھکیل دینا۔ جس دن سے گوادر کے ساحل پر بندگاہ تعمیر کرنے کی مشینری پہنچی کم از کم سات ایسے ممالک تھے جنہوں نے بلوچستان کی بدامنی میںنمایاں کردار ادا کیا۔ ان کا بنیادی مقصد چین کو اس بندرگاہ کی دسترس رکھنے سے روکنا تھا بلکہ ایسا کرنے سے وہ چین کی معیشت کو الٹا گھومنے پر مجبور کر سکتے تھے۔ اور ان سب کا سرپرست ا مریکہ جس کے اشاروں پر یہ سب ناچتے ہیں۔

    اس لیے گوادر کے راستے چین کی تجارت ان تمام بڑے بڑے تجارتی مراکز کی موت ہے جو اس خطے میں تیزی سے بلند و بالا عمارتوں کا جنگل بنے ہیں۔ بھارت‘ امریکا اور ایران گٹھ جوڑ اس خطے میں بالادستی بھی چاہتا ہے اور چین کی معاشی ناکہ بندی بھی۔ دوسری جانب چین کے لیے یہ زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ اگر یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوتا تو چین کی معیشت کا بلبلہ ایسے پھٹے گا کہ رہے نام اللہ کا۔ عالمی طاقتوں نے اس معاشی راہداری کو روکنے کے لیے اس کے دونوں جانب فتنوں اور شرارتوں کا جال پھیلایا ہے۔ کشمیریوں کی پاکستان سے الحاق کی جدوجہد کو ایک آزاد اور خودمختار کشمیر کی طرف اس کار خ موڑا جا رہا ہے۔

    حیران کن بات ہے کہ بھارت اور پاکستان کی تمام این جی اوز اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو بھی اچانک کشمیر کی یاد آ گئی ہے۔ وہ اسی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں کہ اگر کشمیر کو اقوام متحدہ کے کنٹرول کے لیے دس سال کا وقت دے دیا جائے تو ظاہر ہے یہ امریکا کے کنٹرول میں ہو گا۔ یوں گلگت بلتستان سے جموں تک ہر جگہ خود بخود امریکیوں کو رسائی مل جائے گی اور چین کا گھیرا تنگ۔ ایسا ہوا تو بلوچستان چاہے جو کچھ کرے معاشی راہداری نہیں بن سکے گی۔ اور اگر کشمیری پاکستان سے ملنے پر ڈٹے رہے تو آزاد بلوچستان اور پھر گوادر کو اگلے کئی سالوں تک کھنڈر بنانا۔ اس کے لیے آزاد بلوچستان ضروری ہے لیکن یہ آزاد بلوچستان بلوچوں کے لیے نہیں ہو گا‘ امریکا اور اس کے حواریوں کے لیے ہو گا۔

    حالات کی خرابی دخل اندازی کا موقع دے گی اور پھر رہے نام اللہ کا۔ مگر اس سے پہلے کہ بلوچ اور پشتون پاکستان سے علیحدہ ہوئے تو ان کا حشر یقینا اسے پرندے جیسا ہو گا جس کی تاک میں بلے‘ بھیڑیئے اور کتے ہوتے ہیں کہ پرندہ گھونسلے سے گرے اور وہ اسے دبوچ لیں۔ ایجنڈا صرف ایک ہے بلوچستا کو انگولا کی طرح پسماندہ اور خون خرابے میں گم رکھا جائے تا کہ یہاں پسماندگی بڑھے‘ تحریکیں چلیں اور ایک دن یہ پرندہ ان کے ہاتھ لگ جائے۔ یہ ایجنڈا خوب ہے لیکن اس کی کوکھ سے یہ خطہ ایسی جنگ کی طرف نکل جائے گا جس کے نتیجے میں بہت سے نقشے بدلیں اور بہت سی لکیریں مٹ جائیں گی۔

    حصہ اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کرئے

    حصہ دوم پڑھنے کے لئے یہاں کلک کرئے

  • ضیاء الحق اعصاب پر سوار کیوں؟ – ارشد اللہ

    ضیاء الحق اعصاب پر سوار کیوں؟ – ارشد اللہ

    آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ آخر جنرل ضیاءالحق کا وہ جرم کیا ہے جس کی وجہ سے سیکولر لابی انھیں کسی صورت معاف کرنے کو تیار نہیں؟ روزانہ نت نئے الزامات کی گردان سیکولر لابی کا مرغوب مشغلہ ہی نہیں بلکہ ماضی کی ناآسودگی کا آئینہ دار بھی ہے. جنرل ضیاء الحق کا ذکر آتے ہی یار دوست ناک بھوں چڑھانے کے بعد دنیا کو درپیش تمام مسائل اور خطرات ان کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ ان چیزوں کی ذمہ داری بھی ان پر ڈال دی جاتی ہے جو ان کی پیدائش سے پہلے رونما ہوئیں۔ اس روش سے گمان ہوتا ہے کہ شاید بابا آدم سے آج تک تمام معاملات میں خرابی کا ذمہ دار ضیاء الحق ہے. سیکولر لابی کی تاریخ اسی سے شروع ہو کر انھی پر ختم ہو جاتی ہے۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ وہ کون سے کردہ و ناکردہ گناہ تھے جو ضیاءالحق سے پہلے اور بعد کے لوگوں نے بھی انجام دیے لیکن ’’تعریف‘‘ صرف ضیاء کے حصے میں آئی۔

    اگر آئین توڑنا جرم ہے تو یہ کارنامہ ایوب خان و یحییٰ خان پہلے انجام دے چکے تھے جبکہ بعد میں جنرل مشرف بھی اسی آئین و قانون شکنی کے مرتکب ہوئے۔ ان پر تبرا بازی کیوں نہیں؟ بلکہ ان کی تعریف کی جاتی ہے، ضیاء الحق پر اعتراض کرنے والے تو مشرف کے دست و بازو رہے اور ان کے زور پر قوانین میں تبدیلی کے ذریعے اپنی خواہشات پوری کرنی چاہیں. ان آمروں کی اعانت کرنے والے مثلا بھٹو جو 8 سال تک ایوب خان کی گود میں بیھٹے اور انھیں ڈیڈی کہہ کر پکارتے رہے یا نوازشریف، جنھیں خود ضیاء الحق اپنی عمر لگنے کی دعائیں دیتے رہے اور نوازشریف ان کی برسیوں پر ان کا مشن پورا کرنے کا اعلان کرتے رہے۔

    اگر ملک کی حفاظت کے لیے جنگ کا محاذ گرم کرنا جرم ہے تو یہ جرم تو خود بابائے قوم کے ہوتے ہوئے اس وقت سرزد ہوا جب کشمیر میں قبائل داخل ہوئے اور آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کا علاقہ آزاد کروا لیا، ایوب خان سے بھی یہ جرم سرزد ہوا، اور جو 65ء کی جنگ کی بنیادی وجہ بنا. 71ء میں ملک دو ٹکڑے ہو گیا، بنگالیوں کی آواز دبانے کےلیے فوجی آپریشن کا راستہ اختیار کرنے والے یحی خان اور بھٹو پر کوئی بات کرتا ہے نہ ان کی اس ہوس اقتدار کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے جس کی وجہ سے ملک ہی دولخت ہو گیا. حمود الرحمن کمیشن نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا ہے مگر اسے منظر عام پر آنے سے روک دیا گیا۔

    اگر جنرل ضیاءالحق کا جرم یہ ہے کہ اس نے سیاست کرنے والوں کو پھانسی پر چڑھایا، حالانکہ اس نے صرف بھٹو کو پھانسی دی تھی وہ بھی عدالت کے ذریعے ماروائے عدالت نہیں (عدالتی طریق کار پر بحث ہو سکتی ہے مگر حقیقت سے انکار ممکن نہیں)۔ تو یہ جرم تو ان سے پہلے اور بعد بھی ہوا جب مخالفین کو بیچ چوراہوں میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ا ذوالفقار بھٹو کے دور میں یہ سلسلہ بام عروج پر پہنچا، بغیر کسی وجہ کے مخالف سیاستدانوں کو بے دریغ قتل کیا گیا۔ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد، وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق کے والد خواجہ رفیق اور نواب احمد علی قصوری اسی دور میں قتل ہوئے. نواب قصوری کے قتل میں ہی عدالت نے انھیں سزائے موت سنائی۔ سیاسی مخالفین کے ساتھ جیلوں میں بدترین سلوک، پریس پر پابندی، صحافیوں کی گرفتاریاں، بلوچستان حکومت کا خاتمہ اور وہاں فوجی آپریشن بھی انھی کے دور کی یادگار ہی. بعد کے ادوار میں محترمہ بےنظیر بھٹو اور میاں نوازشریف نے بھی سیاسی مخالفین سے کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔

    اگر ضیاءالحق کا جرم یہ ہے کہ اس نے سرخ ریچھ کی پیش قدمی کو روکا (اور اصل جرم یہی ہے) تو اس میں محب وطن حلقوں کے لیے اچھنبے کی بات ہی نہیں۔ روبل کی کمائی کرنے والوں کو بےروزگار کرنا بہت بڑا جرم تھا۔کمیونزم کا پرچار کرنے اور سرخ ٹینکوں پر بیٹھ کر پشاور فتح کرنے کا خواب دیکھنے والوں کو سرمایہ دارانہ نظام کے در پر ڈالر کی بھیک مانگنے کے لیے یوں پھینک دیا کہ آج تک سمجھ ہی نہیں آئی کہ کہاں کمیونزم اور کہاں سرمایہ دارانہ نظام!

    مخالفین کا بس چلے تو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر آج تک تمام آفات و حادثات کا ذمہ دار جنرل ضیاءالحق کو قرار دے دیں لیکن خدا لگتی کہیے کہ کہ کیا یہ انصاف ہے؟

  • شاید ہم بھی ایسے ہی ہو جائیں گے…اوریا مقبول جان

    شاید ہم بھی ایسے ہی ہو جائیں گے…اوریا مقبول جان

    omj-harfaraz-1466700536-530-640x480

    میڈیا کسی کی زندگی اس قدر مشکل اور خوفزدہ بھی بنا سکتا ہے، اس کا اندازہ دنیا میں بسنے والے شاید ہر سمجھ دار انسان کو ہو لیکن اس میڈیا کے گھوڑے پر سوار ہو کر مقبول ہونے والی قندیل بلوچ کو شاید نہیں تھا، اسے اندازہ نہیں تھا کہ میڈیا کا یہ منہ زور گھوڑا پہلے تو اسے اپنے اوپر بٹھا کر سرپٹ دوڑتا رہا اور جہاں اس پر سوار قندیل بلوچ کو دن دوگنی رات چوگنی شہرت ملی‘ وہیں گھوڑے کو بھی اس کی تیز رفتاری کی داد ’’ریٹنگ‘‘ کی صورت میں مسلسل ملتی رہی۔ لیکن سوار کو اس کا اندازہ ہی نہ تھا کہ یہ منہ زور گھوڑا ایک ایسی چال چلتا ہے کہ اس پر بیٹھی قندیل توازن کھو بیٹھی، گھوڑے نے نہ چال ہلکی کی اور نہ ہی اسے سنبھلنے کا موقع دیا۔

    زمین پر پٹخا، اسے سموں تلے روندا، طاقت کے نشے میں ہنہنایا، ریٹنگ کی صورت داد وصول کی اور پھر کسی اور سوار کو اٹھائے ویسے ہی سرپٹ بھاگنے لگا۔ زخمی قندیل کو ابھی بھی امید تھی کہ میڈیا اسے دوبارہ سہارا دے کر بٹھا لے گا۔ لیکن میڈیا کو تو اس کی موت کا انتظار تھا۔ اس لیے کہ زندہ قندیل اب ایک چلا ہوا کارتوس تھی، اس سے جتنی ریٹنگ کمائی جا سکتی تھی وہ کما لی گئی۔

    اب اس کے مزید سیکنڈلز میں جان ڈالنا آسان نہ تھا۔ لوگ ایسے سیکنڈلز میں پہلے سے بڑھ کر کچھ اور دیکھنا چاہتے ہیں اور جس حد تک میڈیا اسے لے جا چکا تھا اب اس سے زیادہ بڑھنا اس کے بس میں نہ تھا۔ کسی کو یقین تک نہ تھا کہ انھیں اچانک اتنی بڑی خبر مل جائے گی، ’’واؤ‘‘، قندیل کی موت۔ تیز رفتار ڈی ایس این جیز، برق رفتار کیمرہ مین اور عالی دماغ رپورٹر جمع تھے۔ دن بھر تماشا لگا رہا۔ رات کو میک اپ روم سے چہروں پر غمازہ تھوپے، آرائش گیسو اور لباس کی بانکپن سے آراستہ مرد اور خواتین اینکر پرسن اپنے اپنے مخصوص انداز اداکاری میں جلوہ گر ہوئے۔

    کسی کی آنکھ میں تیرتے آنسو تھے تو کوئی اس بے حس معاشرے کے ظلم پر سر پکڑ کر بیٹھا ہوا تھا۔ کوئی اس کے بھائی کو مورد الزام ٹھہرا رہا تھا تو کسی کو حکومت پر غصہ آ رہا تھا۔ ریٹنگ، ریٹنگ، ریٹنگ۔۔۔۔ ہر کوئی ریس کورس کے گھوڑے کی طرح سرپٹ بھاگے جا رہا تھا۔ میڈیا کے اس سرپٹ بھاگتے گھوڑے کو اپنی توانائی کے لیے ایک پارٹنر ہمیشہ مل جاتا ہے۔ یہ ہوتی ہیں انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی علمبردار این جی اوز۔ انھیں بھی کسی بڑی خبر کا انتظار ہوتا ہے۔ اس دفعہ تو کمال ہی ہو گیا۔ قندیل کی موت پر جب میڈیا کا بازار سجا تو جس کسی نے اس کے قتل پر میڈیا کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی تو یہ ایک دم بیک آواز ہو کر کود پڑیں۔ ان کے فقرے کمال کے تھے۔ آپ میڈیا پر الزام لگا کر معاملے کی سنگینی کو کم کر رہے ہیں۔ آپ اصل ایشو سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس سفاک قتل کے بارے میں بات کرنا چاہیے۔

    انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی علمبردار ان این جی اوز کی نمایندہ مرد و خواتین اس سارے عرصہ میں چپ رہیں جب میڈیا کے شوز میں اس خاتون کو سستی شہرت دلانے کے لیے گھٹیا قسم کی فقرے بازی کی جاتی رہی۔ اس کے مخصوص انداز کو کیمروں کے ذریعے جاذب نظر بنایا جاتا رہا۔ تحقیق و تفتیش کے عالمی ریکارڈ اس وقت ٹوٹے جب سوشل میڈیا پر کروڑوں لوگوں تک پہلے سے پہنچی ہوئی مفتی قوی کے ساتھ اس کی ویڈیو ان کے ہاتھ لگی۔ اسے ایک اہم ترین بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا گیا۔ پھر رات کو ایک اور تماشہ لگا، اینکر پرسنز اسے انتہائی نامناسب لباس میں اپنے پروگرام میں لائے، جسے وہ مسلسل اپنے ہاتھ سے مزید نامناسب کرتی چلی جا رہی تھی۔ مفتی قوی کو ساتھ بلایا گیا اور پھر ایک گھنٹے سے بھی زیادہ کا تماشہ لگا۔ اینکرزحضرات استہزائی ہنسی ہنستے رہے۔ جملے پھینکتے اور جملوں پر مضحکہ خیز تبصرے کرتے رہے۔

    اس کی موت کے بعد اسے قوم کی بیٹی یا بہن کہنے والے یہ لوگ کیا بہن یا بیٹی کو اس طرح ’’ایکسپوز‘‘ کرنے اور اسے خاصے کی چیز بنا کر پیش کرنے کا جواز دے سکتے ہیں۔ یہاں تک کہانی مرنجا مرنج اور خوش کن چل رہی تھی۔ قندیل کو سستی شہرت چاہیے تھی اور میڈیا کو ریٹنگ لیکن شاید این جی اوز کو کسی بڑے سانحے کا انتظار تھا۔ ڈرامے میں ٹریجڈی بھی تو ڈالنا تھی۔ صحافیانہ تفتیش و تحقیق شروع ہوئی۔ وہ بیچاری اپنے اس لائف اسٹائل میں گزشتہ کئی سالوں سے زندگی گزار رہی تھی۔ اپنی کمائی سے اپنے والدین اور دیگر گھر والوں کا خرچہ بھی اٹھاتی رہی۔ اس مکروہ اور کریہہ معاشرے سے بچنے کے لیے اس نے اپنا نام فوزیہ سے بدل کر قندیل بلوچ رکھ لیا تھا۔ رپورٹر پہنچے، اس کے گھر کا کھوج لگایا، شناختی کارڈ ھونڈ نکالا۔ اس کی دو ناکام شادیوں کی داستانیں پتہ چلیں، ایک بچہ بھی آ گیا۔ اب کہانی اپنے دردناک انجام کی جانب بڑھنے لگی۔

    یہ میڈیا کے لوگ پیرس یا لندن میں نہیں رہتے کہ انھیں علم نہ ہو کہ بات چھپی رہے تو لوگوں کی زندگیاں پرسکون رہتی ہیں۔ اکا دکا لوگ طعنے دیتے ہیں لیکن جب میڈیا اور وہ بھی الیکٹرونک میڈیا پر تماشہ لگتا ہے تو پھر لوگ اٹھتے بیٹھتے طعنے دیتے ہیں۔ زندگی اجیران کر دیتے ہیں۔ میں وہ الفاظ درج نہیں کر سکتا جو لوگ طعنوں کے طور پر منہ سے نکالتے ہیں۔ قتل کی نفسیاتی تحقیق یہ کہتی ہے کہ اس کی اکثر وجوہات ایک ہیجانی کیفیت سے جنم لیتی ہے جو لوگوں کے طعنے، معاشرے میں عدم قبولیت، کسی سانحے کی ڈپریشن یا کسی رویے سے جنم لینے والے غصہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی شخص کو اندھا کر دیتی ہے اور میڈیا کی روشنیاں یہ اندھا پن بہترین طریقے سے پیدا کرتی ہیں۔ کس قدر مزے کی بات ہے، زندہ قندیل بلوچ بھی ایک خبر ہے بیچنے کے لیے اور مردہ تو بہت ہی اہم ہے۔ بیچو بھی اور اپنا اخلاقی قد اور حقوق نسواں کے علمبردار ہونے، حساس اینکر پرسن ہونے کا پرچم بھی بلند کرو۔ اس ساری دھماچوکڑی میں سب سے مظلوم پاکستانی معاشرہ اور اس کے اٹھارہ کروڑ عوام ہیں۔

    ہر کوئی اس معاشرے کو گالی دیتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ منہ چڑانے کے لیے مغرب کی تعریف کر رہا ہوتا ہے۔ جن دنوں ہم اپنے معاشرے کو قندیل بلوچ کے قتل کا ذمے دار ٹھہرا رہے تھے انھی دنوں کینیڈا کی سینٹ میری Saint Mary یونیورسٹی کی پروفیسر جوڈتھ ہیون (Judith Havien) جو عرف عام میں جوڈی ہیون کے طور پر مشہور ہے اس نے نیویارک کے مہذب ترین شہر میں عورت کے تنہا سڑکوں پر چلنے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر لگائی اور اس کا عنوان رکھا Video Proof that Some Men are Pigs (اس بات کا ویڈیو ثبوت کہ کچھ مرد سور ہوتے ہیں) ویڈیو کا نام ہے۔

    ”10 Hours of Walking in NY  as Woman” (ایک عورت کی حیثیت سے نیویارک شہر میں دس گھنٹے کی چہل قدمی)۔ ویڈیو اس شہر نیویارک کا اصل چہرہ ہے۔ کوئی اس عورت کو گندے القاب سے پکار رہا ہے تو کوئی اس کا پیچھا کرتے ہوئے اس کے جسمانی خطوط کی تعریف کر رہا ہے، تو کوئی اسے اپنا فون نمبر دکھا رہا ہے۔ کوئی رات کی دعوت دیتا ہے تو کوئی دوستی کی۔ یہ دعوت خاموشی سے سنی جاتی ہے۔ یہ مغرب کے میڈیا کے لیے خبر نہیں۔ عورت کی یہ تذلیل، ذلت و رسوائی حقوق نسواں کے علمبرداروں کے لیے المیہ نہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک یہ لائف اسٹائل ہے۔ ایسا تو ہوتا ہے۔ یہ تو نارمل ہے، اسے کیا بیان کرنا، لیکن جوڈی ہیون کے نزدیک امریکا اور مغرب میں اگر کوئی عورت غیرت کے نام پر قتل بھی کر دی جائے تو اب یہ میڈیا کے لیے ایک خبر نہیں بنتی۔ البتہ پاکستان میں کوئی عورت ایسے قتل ہو تو ایک دم ہیڈلائن ہے۔

    اکتوبر 2014ء کو جوڈی ہیون کا لکھا ہوا خط جو اس نے اس اخبار کو لکھا تھا جس نے ہیڈلائن لگائی تھی کہ پاکستان میں عدالت کے باہر عورت کو گھر والوں نے پتھر مار کر مار دیا۔ بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنا۔ کینیڈا کی دوسری قدیم اور بڑی یونیورسٹی کی اس پروفیسر نے خط میں تحریر کیا کہ مغرب کا یہ میڈیا پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی ایک لڑکی کی خبر تو لگاتا ہے اور لکھتا ہے کہ 2013ء سے لے کر اکتوبر 2014ء تک وہاں 869 عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔ لیکن صرف امریکا میں اسی عرصے میں 1095 عورتوں کو ان کے شوہروں اور بوائے فرینڈز نے قتل کر دیا۔ ہر روز امریکا میں تین عورتیں اپنے عاشقوں یا شوہروں کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔ لیکن معاشرہ بھی انھیں جذباتی جرم Crime of Passion کہہ کر چپ ہے اور میڈیا تو اسے امریکی لائف اسٹائل کا حصہ سمجھتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے نزدیک بھائی قتل کرے تو حیرت کی بات ہے، شوہر یا بوائے فرینڈ قتل کر دے تو یہ معمول۔ نہ کوئی ہیڈلائن لگتی ہے، نہ مضمون لکھے جاتے ہیں، نہ موم بتیاں جلائی جاتی ہیں۔ خس کم جہاں پاک۔ کس قدر بدقسمت ہیں وہ عورتیں جن کی موت نہ انھیں شہرت دے سکی اور نہ ہی میڈیا کو ریٹنگ۔ شاید ایک دن ہم بھی ایسے ہی ہو جائیں گے۔