Tag: ایف سی ار

  • اب یا کبھی نہیں-سلیم صافی

    اب یا کبھی نہیں-سلیم صافی

    saleem safi

    ماہ رواں کی پہلی تاریخ کو جبکہ ہم دھرنا دھرنا کھیل رہے تھے، جنوبی وزیرستان کے سب ڈویژن وانا میں بارودی سرنگ کے ایک دھماکے کے نتیجے میں پاک فوج کے میجر عمران شہید ہوئے۔ تاہم چونکہ ہماری ٹی وی اسکرینوں پر انقلابی ڈرامے کی کوریج زوروں پر تھی ، اس لئے مشرقی بارڈر پر بھارتی افواج کی مسلسل گولہ باری اور اس میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کی خبر کی طرح میجر عمران کی شہادت کی خبر بھی توجہ حاصل نہ کرسکی ۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان کے شہریار محسود گروپ نے قبول کی ۔ شہریار محسود اور ان کے ساتھی یا تو افغانستان میں بیٹھے ہیں یا پھر کسی اور نامعلوم مقام پر ، اس لئے ان کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں کی جاسکی لیکن پولیٹکل انتظامیہ نے سزا مقامی افراد کو یوں دے دی کہ اگلے روز ان کی سو سے زائد دکانوں کو بارود سے اڑا کر مکمل طور پر مسمار کردیا۔ ایک محسود کے جرم کے ردعمل میں وزیر قبائل کی دکانوں کی یہ مسماری غیراخلاقی اور غیرانسانی فعل تو ہے لیکن غیرقانونی نہیں ۔

    غیرقانونی اس لئے نہیں کہ قبائلی علاقوں میں ایف سی آر کے تحت اجتماعی ذمہ داری (Collective Responsibility) کا جو قانون نافذ ہے ، اس کی رو سے کسی علاقے میں ہونے والے جرم کی سزا پورے علاقے کو دی جاسکتی ہے اور کسی ایک فرد کے جرم کی سز ا پورے قبیلے کو دی جاسکتی ہے ۔اب واقعہ چونکہ وزیروں کے علاقے میں پیش آیا تھا ، اس لئے سو دکانوں پر مشتمل مارکیٹ وزیروں کی مسمار کردی گئی لیکن یہ ضروری نہیں کہ سب دکاندار وزیر ہوں ۔ تاہم چونکہ قانون میں یہ گنجائش موجود ہے ، اس لئے پولیٹکل انتظامیہ نے سب کی دکانیں مسمار کردیں۔ ظلم کی انتہا دیکھئے کہ اس ظلم کے خلاف متاثرہ لوگ نہ تو جلوس نکال سکتے ہیں ، نہ کسی عدالت میں جاسکتے ہیں اور نہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سو موٹو ایکشن لے سکتی ہے ۔ اور تو اور وہاں کا ایم این اے یا سینیٹر بھی زبان نہیں کھول سکتا کیونکہ ناراض ہونے کی صورت میں پولیٹکل ایجنٹ ان کے اور ان کے قبیلے کے گھروں کو بھی مسمار کرسکتا ہے ۔ ایم این اے صاحب کو بھی خاندان سمیت جیل میں ڈال سکتا ہے اور پھر ایم این اے صاحب بھی کسی عدالت سے رجوع نہیں کرسکتے ۔ اسی طرح کوئی مقامی رپورٹر بھی ایسے واقعات کے خلاف قلم یا زبان کو حرکت نہیں دے سکتا کیونکہ اجتماعی ذمہ داری کے قانون کے تحت پولیٹکل انتظامیہ اس رپورٹر ، اس کے خاندان اور اس کے قبیلے کے خلاف بھی مذکورہ تمام کارروائیاں کرسکتی ہے۔

    وہ سیاسی رہنما جو ذاتی اور سیاسی مفادات کی خاطر ،قبائلی روایات اور الگ شناخت کی آڑ لے کر ،فاٹا کے پختونخوا میں ادغام کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں ،وہ آج کہاں ہیں؟ کیا اس الگ شناخت اور نام نہاد روایات کو آگ نہیں لگانی چاہئے جو اس طرح کے مظالم کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتے ؟۔ لاہور اور اسلام آباد تو کیا ، پشاور، مردان یا مینگورہ میں بھی اس طرح کے کسی ظلم کا انتظامیہ تصور نہیں کرسکتی ہے ؟۔کیونکہ یہاں اپوزیشن کے سیاستدان ، میڈیا اور عدلیہ قیامت اٹھادیں گے لیکن قبائلی علاقوں میں اس طرح کے مظالم روز کا معمول ہیں ۔ جنوبی وزیرستان کے اسی وانا سب ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ایاز وزیر بطور سفیر ریٹائرڈ ہونے کے بعد اب ٹی وی چینلز اور مختلف قومی اور بین الاقوامی فورمز پر پورے پاکستان کے مسائل پر تجزیہ کررہے ہوتے ہیں ۔ اسی وانا سے تعلق رکھنے والے سعید وزیر ایک متحرک اور اہل ترین پولیس افسر کی حیثیت سے اس وقت ڈی آئی جی ہزارہ ڈویژن کے طور پر خدمات سرانجام دے کر وہاں پر خیبر پختونخوا میں رائج قانون کے نفاذ کو یقینی بنارہے ہیں ۔ اسی وانا سے تعلق رکھنے والے اجمل وزیر ،گجرات کے چوہدریوں کی مسلم لیگ (ق) کے مرکزی سینئر نائب صدر ہیں اور کبھی لاہور کے ماڈل ٹائون کے ہلاک شدگان کے قصاص کے مطالبے کے لئے طاہرالقادری کے ساتھ کنٹینر پر کھڑے نظر آتے ہیں تو کبھی عمران خان صاحب کو پٹی پڑھانے والوں کی صف میں شامل ہوتے ہیں ۔ اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے ہونہار نوجوان احمد نور وزیری نے گورنمنٹ کالج لاہور میں دوسری پوزیشن حاصل کرنے کے بعد سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور حالیہ دنوں میں سیکشن آفیسر کی حیثیت میں سول بیورو کریسی کا حصہ بن گئے ۔

    یہ نمونے کے چند نام ہیں ۔ ورنہ اسی طرح کے سینکڑوں وزیر قبائل کے افراد سیاست، عدلیہ ، سول اور ملٹری بیوروکریسی کا حصہ ہیں ۔لیکن ہمارے چند سیاسی مہربان قبائلی روایات اور الگ شناخت کا ڈھنڈورا پیٹ کر انہیں باقی ملک سے الگ تھلک رکھ کر ،اس ظالمانہ نظام کے شکنجے میں جھکڑے رکھنا چاہتے ہیں ۔ باقی پاکستان تو کیا قدیم قبائلی روایات کے حامل بلوچستان جیسے شورش زدہ اور پسماندہ صوبے میں بھی ان مظالم کا تصور نہیں کیا جاسکتا جن کا فاٹا کے عوام کو سامنا ہے ۔ وہاں جاوید مینگل ریاست سے لڑرہے ہیں لیکن الحمدللہ سردار اختر جان مینگل قومی دھارے اور قومی سیاست کا اہم کردار ہیں ۔ حربیار مری ریاست کے خلاف بغاوت اور غداری کے مرتکب ہورہے ہیں لیکن ان کے بھائی چنگیز مری مسلم لیگ(ن) کے لیڈر ہیں ۔ براہمداغ بگٹی نہ صرف ریاست پاکستان کے خلاف لڑرہے ہیں بلکہ ہندوستان سے مدد اور شہریت بھی طلب کررہے ہیں لیکن ان کے جرم میں بگٹی قبیلے کے کسی اور فرد کو سزا نہیں دی جاسکتی ۔ دوسری طرف ’’آزاد‘‘ قبائل ہیں کہ جن کے کسی ایک فرد کے جرم میں پورے قبیلے اور پورے علاقے کو سزاملتی ہے ۔ اب تو فوج بھی رکاوٹ نہیں ڈال رہی تو پھر سوال یہ ہے کہ میاں نوازشریف کی حکومت قبائلی علاقوں کو پختونخوا میں ضم کرنے سے کیوں گریزاں ہے؟۔ کیا وہ اس وقت کا انتظار کررہے ہیں کہ لاکھوں قبائلی نوجوان اسلام آباد میں دھرنا دینے پر مجبور ہوجائیں اور یاد رکھنا چاہئے کہ ان قبائلیوں کے دھرنے تحریک انصاف کے دھرنوں کی طرح برگر مارکہ نمائشی دھرنے نہیں ہوں گے ۔ یا پھر اس وقت کا انتظار ہے کہ قبائلی علاقوں سے نئے اور پڑھے لکھے نوجوان ایک نئی قسم کی طالبان تحریک شروع کر دیں؟ سرتاج عزیزصاحب کی کمیٹی کسی اور نے نہیں بلکہ خود وزیراعظم صاحب نے تشکیل دی تھی ۔ ہم جیسے لوگ اس کی ساخت پر معترض تھے لیکن حکومت کا دعویٰ تھا کہ وہ نمائندہ کمیٹی ہے ۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں فاٹا کے پختونخوا کے ساتھ ادغام کی سفارش کی ہے اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ قبائلی عوام کی اکثریت یہی چاہتی ہے ۔ یہ وضاحت اور دلائل بھی اس رپورٹ میں موجود ہیں کہ الگ صوبہ ممکن نہیں لیکن اب اس رپورٹ کو سردخانے میں ڈال دیا گیا ہے ۔ وفاق کی کمیٹی ادغام کی حامی ہے ۔ صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی ادغام کے ساتھ ہیں ۔ پیپلز پارٹی ، اے این پی اور جماعت اسلامی جیسی تنظیمیں اس کے حق میں ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ عمل درآمد نہیں کیا جارہا ۔

    مجھے تو اس کے سوا کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ یہ علاقے حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں اور اسحاق ڈار صاحب چند ارب روپے وہاں خرچ کرنے کو تیار نہیں ۔جہاں تک حضرت مولانا فضل الرحمان اور محترم محمود خان اچکزئی صاحب کے اعتراضات کا تعلق ہے تو ان کا کوئی اخلاقی جواز اس لئے نہیں کہ وہ دونوں وفاقی حکومت کا حصہ ہیں اور سرتاج عزیزکی فاٹا ریفارمز کمیٹی وفاقی حکومت نے ہی تشکیل دی تھی۔ فاٹا سے سب سے زیادہ نشستیں مسلم لیگ (ن) نے حاصل کی ہیں جبکہ اچکزئی صاحب کی پارٹی وہاں سے ایک بھی نشست حاصل نہیں کرسکی ہے ۔ خود فاٹا کے منتخب نمائندوں نے قومی اسمبلی میں جو قرارداد جمع کی ہے اس میں ادغام کا آپشن سرفہرست ہے ۔وزیراعظم کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر انہوں نے اگلے انتخابات سے قبل اپنی بنائی ہوئی کمیٹی کی رپورٹ پر عمل درآمد کو یقینی بنا کر فاٹا کو پختونخوا میں ضم کردیا تو آئندہ نسلیں انہیں اپنا محسن سمجھیں گی اور اگر وہ ناکام رہے تو انہی آئندہ نسلوں کے ہاتھ انکے اور ان کی آئندہ نسلوں کے گریبانوں میں ہونگے۔

  • نوازشریف۔ محسن یا ملزم-سلیم صافی

    نوازشریف۔ محسن یا ملزم-سلیم صافی

    saleem safi

    سوویت یونین کے خلاف جنگ کے لئے امریکہ اور حکومت پاکستان کی طرف سے پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ اور پھر فاٹا کو بیس کیمپ بنانے کا نقصان یوں تو پورے پاکستان کو ہوا لیکن سب سے زیادہ تباہی کا سامنا فاٹا کو کرنا پڑا ، جس کا پورا سماجی حلیہ بگڑ گیا۔ پھر نائن الیون کے بعد کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے فرنٹ لائن اسٹیٹ بن جانے اور پھر ڈبل گیم کا نقصان بھی پورے پاکستان کو ہوا اور ہورہا ہے لیکن فاٹا اور پختونخوا کے نقصانات اور تباہیوں کا کوئی شمار نہیں۔ فاٹا کے لوگ پہلے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ذلیل ہوئے، مارے گئے اور بے گھر کئے گئے اور پھر ملٹری آپریشنوں کے ذریعے ان کو ان سب کا سامنا کرنا پڑا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کے ذریعے پاکستان کے خزانے میں پچھلے دس سالوں میں پچاس ار ب ڈالر سے زیادہ رقم پاکستان آئی لیکن ایک ارب ڈالر بھی قبائلیوں پر خرچ نہیں ہوئے۔ جو تھوڑی بہت رقم وہاں گئی بھی ، وہ گورنروں ، پولیٹکل ایجنٹوں اور منتخب ایم این ایز اور سینیٹرز کی جیبوں میں چلی گئی۔ ظلم کی انتہا دیکھ لیجئے کہ پچھلے تین سالوں کے دوران قبائلی علاقوں کے انسانوں پرفی کس اتنی رقم بھی خرچ نہیں ہوئی جتنی کہ باقی پاکستان کے انسانوں پر فی کس خرچ ہوتی رہی ۔

    زبانی کلامی دعویٰ نہیں بلکہ سرتاج عزیز صاحب کی سربراہی میں قائم فاٹا ریفارمز کمیشن کی سفارشاتی رپورٹ میں واضح لکھا گیا ہے ۔ اس رپورٹ کے مطابق 15۔2014 کے بجٹ میں جہاں باقی پاکستان کے شہریوں کے لئے فی کس 18995روپے مختص کئے گئے ، وہاں فاٹا کے عوام کے لئے فی کس 7855 روپے فی کس مختص کئے گئے ۔ اسی طرح 14۔2013ء کےبجٹ میں باقی پاکستان کے شہریوں کے لئے فی کس 15606 روپے مختص کئے گئے تو فاٹا کے شہریوں کے لئے فی کس 7492روپے مختص کئے گئے ۔ یہی صورت حال ان سے پچھلے سالوں کی بھی رہی اور مکرر عرض ہے کہ باقی پاکستان میں اگر سو میں بیس روپے کرپشن کی نذر ہوتے ہیں تو فاٹا میں یہ شرح سو میں اسی کی ہے ۔ فاٹا کے ساتھ یہ ظلم ہورہے ہیں لیکن کوئی اس کے خلاف آواز اٹھارہا ہے اور نہ باقی پاکستان یا دنیا اس طرف متوجہ ہورہی ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ فاٹا کی مخصوص آئینی حیثیت اور قومی دھارے سے اس کا باہر ہونا ہے اور اس ظلم کے خاتمے کا نقطہ آغاز یہی ہوگا کہ اسے قومی دھارے میں لاکر وہاں پر بھی اسی طرح کا نظام لاگو کیا جائے جس طرح کہ باقی پاکستان میں ہے لیکن افسوس کہ موجودہ حکومت نے اس میں مجرمانہ تساہل سے کام لیا۔ ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ حکومت سنبھالتے ہی پہلی فرصت میں اس عمل کا آغاز کردیا جاتا لیکن چونکہ میاں محمد نوازشریف صاحب اصلاً وزیراعظم اسلامی جمہوریہ وسطی پنجاب ہیں ، اس لئے گورنر کی تقرری سے لے کر آئی ڈی پیز کی بحالی تک اور ترقیاتی عمل سے لے کر فاٹا کو قومی دھارے میں لانے تک، کسی معاملے میں بھی انہوں نے کوئی دلچسپی نہیں لی ۔

    سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد قومی قیادت نے فوجی قیادت کے دبائو پر جو نیشنل ایکشن پلان بنایا اس میں فاٹا اصلاحات کی شق بھی شامل تھی لیکن پھر بھی وزیراعظم کی عدم دلچسپی کا یہ عالم رہا کہ اپنے وزراء پر مشتمل کمیٹی کے نوٹیفکیشن میں دس ماہ لگائے اور پھر جب دہشت گردی کے ایک اور سانحہ کی وجہ سے فوج کی طرف سے پھردبائو آیا تو انہوں نے نومبر 2015ء میں سرتاج عزیز صاحب کی سربراہی میں سیاسی اور انتظامی اصلاحات کے لئے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ۔ واضح رہے کہ نیشنل ایکشن پلان کا اعلان 25دسمبر 2014کو ہوا تھا لیکن وزیراعظم نے کمیٹی کا نوٹیفکیشن دس ماہ بعد یعنی8نومبر2015ء کو جاری کیا۔ فاٹا اور پختونخوا کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے ہم جیسے طالبعلموں کو اس پر اعتراض رہا لیکن اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ مارچ 2016 میں تیار کرلی اور حقیقت یہ ہے کہ مجموعی طور پر اچھی اور قابل عمل رپورٹ ہے تاہم پھر اس رپورٹ کو سامنے نہیں لایا جارہا تھا اور اس کے لئے ہمیں ایک اور بڑے سانحے کا انتظار کرنا پڑا ۔ سانحہ کوئٹہ کے بعد یہ رپورٹ پارلیمنٹ میں بحث کے لئے پیش کی گئی جس پر ان دنوں بحث ہورہی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اب وہاں پر کوئی اور نہیں بلکہ وزیراعظم صاحب کے دو سیاسی پراکسیز یعنی محمود خان اچکزئی صاحب اور مولانا فضل الرحمان صاحب اس کے خلاف میدان میں آگئے ہیں اور وہ اس کمیٹی کی اہم ترین سفارش یعنی فاٹا کے خیبر پختونخوا میں ادغام کی مخالفت کررہے ہیں ۔ گویا اپنی حکومت کی ، اپنے ہی وزیراعظم کی بنائی گئی کمیٹی کی ، تیار کردہ سفارشات کی مخالفت کرکے وہ اس رپورٹ کو متنازع بنارہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلے گا اس تنازع کی آڑ لے کرحکومت کا عرصہ پورا ہوجائے گا اور فاٹا کے لوگ اسی طرح ذلیل ہوتے رہیں گے جب کہ یہ علاقے باقی پاکستان کے لئے وبال جان بنے رہیں گے ۔

    میں پہلے بھی ’’جرگہ‘‘ میں کئی مرتبہ تفصیل سے لکھ چکا ہوں اور ہر فورم پر اس کا دفاع کرنے کو تیار ہوں کہ فاٹا کے ادغام کو روکنے کے لئے روایات، خصوصی اسٹیٹس اور دیگر اسی طرح کی چیزوں کی آڑ لے کر جو دلائل پیش کئے جارہے ہیں ، وہ بہانہ سازی کے سوا کچھ نہیں۔ سرتاج عزیز کمیٹی نے فاٹا کے منتخب نمائندوں اور عوام سے میاں نوازشریف کے مقر ر کردہ گورنر کی موجودگی میں مشاورت کی ہے اور وہ کمیٹی اس نتیجے تک پہنچی ہے کہ اکثریت صوبے کے ساتھ ادغام چاہتی ہے ۔ خود فاٹا کے پارلیمنٹرین نے 2015ء میں جو بل ایوان میں داخل کرایا ہے ، اس میں ادغام کا آپشن سرفہرست ہے ۔ میں خود اس مہمند قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں جو پاکستان اور افغانستان میں منقسم ہے اور جس کو ایزمنٹ رائٹس(Easement rights) حاصل ہیں ۔ اب جب وہاں کے لوگوں کے منتخب نمائندے یا پھر ہم جیسے عوام کی اکثریت ادغام کے حق میں ہے تو پھر کسی اور کو کیا اعتراض ہے ۔ ملک کی تین بڑی جماعتیں یعنی مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف بھی حامی ہیں اور جہاں تک ریفرنڈم کا تعلق ہے تو کیا ریفرنڈم کروا کر فاٹا کے لوگوں کی رائے پوچھی گئی تھی جب وہاں پر طالبان اور مجاہدین کے ٹھکانے بنائے گئے اور کیاکسی ملٹری آپریشن سے پہلے قبائلی عوام کی رائے لی گئی تھی۔ جو سیاسی لیڈر آج مذموم مقاصد کے لئے فاٹا کے پختونخوا میں ادغام کی مخالفت کررہے ہیں وہ اس وقت کہاں تھے؟ ۔ انہوںنے قبائلی عوام کو ساتھ لے کر اور قبائلی روایات کو بروئے کار لا کر طالبانائزیشن یا ملٹری آپریشنوں کا راستہ کیوں نہیں روکا ؟۔ یا چلیں آج ہمت کرکے ، قبائلی عوام کو بجٹ میں سے تو ان کا جائز حصہ دلوادیں ۔

    طالبان ملاکنڈ ڈویژن میں بھی آئے اور ملٹری آپریشن وہاں پر بھی ہوا لیکن چونکہ ملاکنڈ ڈویژن قومی دھارے اور صوبے کا حصہ تھا، اس لئے دو سال کے اندر اندر وہاں معاملہ ختم ہوگیا ، طالبان نکالے گئے اور لوگ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ۔ وجہ یہ تھی کہ پارلیمنٹ میں ملاکنڈ کی بات ہورہی تھی، میڈیا شور مچارہا تھا اور کچھ نہ کچھ عدالت بھی حرکت کررہی تھی لیکن چونکہ فاٹا میں یہ تینوں چیزیں نہیں ہیں ، اس لئے پندرہ سال گزرنے کے بعد بھی وہاں زندگی معمول پر نہ آسکی ۔فاٹا کی نئی نسل چاہتی ہے کہ وہ باقی پاکستانیوں کی طرح پاکستانی بنیں ۔ انہیں عزت نفس چاہئے، تعلیم چاہئے ، روزگار چاہئے اور سیاسی و آئینی حقوق چاہئیں جو موجودہ اسٹرکچر میں کبھی ان کو نہیں مل سکتے اور اس کا واحد راستہ پختونخوا اور باقی ملک کے ساتھ ادغام ہے ۔ اس لئے فضول بحث میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ہر سیاسی و سماجی لیڈر کا فرض بنتا ہے کہ وہ حکومت پر دبائو ڈالے کہ وہ ان سفارشات پر جلداز جلد عمل درآمد کروائے ۔ اس میں جو کمی بیشی ہے ، وہ دور کی جائے ۔ عمل درآمد والی کمیٹی میں خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کو بھی شامل کیا جائے تاکہ ادغام کے عمل میں ضروری کوآرڈنیشن ہوسکے۔ موجودہ گورنرکے پی کے دور میں کرپشن بہت بڑھ گئی ہے اور بیماری و بڑھاپے کی وجہ سے ان کی نگرانی میں فاٹا کے ادغام کا مشکل کام کبھی نہیں ہوسکتا ۔

    اس کے لئے دبائو ڈالنا چاہئے کہ وزیراعظم میرٹ پر اہل گورنر کا تقرر کریں۔ عبوری دور کے لئے کمیٹی نے ڈویزیبل پول میں تین فی صد حصہ مقرر کرنے کی سفارش کی ہے جو میرے نزدیک کم ہے لیکن اطلاعات کے مطابق اسحاق ڈار صاحب صرف ایک فی صد دینے پر آمادہ ہیں ۔ مولانا صاحب اور اچکزئی صاحب روڑے اٹکانے کی بجائے اپنے وزیراعظم نوازشریف پر دبائو ڈالیں کہ وہ عبوری دور کے لئے ڈویزیبل پول میں فاٹا کا حصہ کم ازکم پانچ فی صد رکھیں۔ اسی طرح آئندہ انتخابات میں فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے بھی انتخابات کرائے جائیں تاکہ کے پی اسمبلی میں فاٹا کو نمائندگی مل جائے ۔ فاٹا کے نمائندے صوبائی اسمبلی میں موجود رہیں گے تو صوبے کے ساتھ اس کے ادغام کے عمل میں معاونت بھی کریں گے اور اپنے حقوق کو بھی یقینی بناسکتے ہیں ۔ میاں نوازشریف کی حکومت میں یہ کام ہوا تو فاٹا کی آئندہ نسلوں کے محسن تصور ہوں گے لیکن اگر یہ موقع بھی ضائع کردیا تو ان نسلوں کے سب سے بڑے مجرم تصور ہوں گے۔ مرضی ان کی ہے کہ وہ اپنے لئے محسن کے ٹائٹل کا انتخاب کرتے ہیں یا مجرم کے ٹائٹل کا ۔میاں صاحب یاد رکھیں کہ فاٹا کے لوگ اسوقت دربدر ضرور ہیں لیکن احسان بھولتے ہیں اور نہ اپنے مجرموں کو معاف کرتے ہیں ۔

  • کچھوے کا دوسرا نام فاٹا ہے-وسعت اللہ خان

    کچھوے کا دوسرا نام فاٹا ہے-وسعت اللہ خان

    wusat

    کوئی بھی کام کرنے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے کہ وہ کر دیا جائے۔ مثلاً سینتالیس سے ستر تک گلگت بلتستان کو فرنٹیر کرائمز ریگولیشنز کے تحت چلایا جاتا رہا۔ پھر بھٹو صاحب نے انیس سو چوہتر میں اس علاقے کی ایک کاغذی کونسل بنا دی جس کا مجازی خدا وفاقی وزیرِ امورِ کشمیر تھا۔ جب زرداری حکومت نے دو ہزار نو میں گلگت بلتستان سیلف گورننس آرڈر نافذ کیا تو نہ تو علاقے کے دو ملین لوگوں کی رائے جاننے کے لیے ریفرنڈم کروایا گیا نہ اس مسودے کو عوامی بحث کے لیے پیش کیا بس نافذ کر دیا گیا اور لوگوں نے چار و ناچار قبول بھی کر لیا۔

    لیکن کسی بھی کام کو کرنے کا اگر صرف ایک طریقہ ہے تو نہ کرنے کے ہزار طریقے ہیں۔ جیسے وفاق کے زیرِ انتظام قبائیلی علاقہ جات (فاٹا) میں سیاسی و اقتصادی اصلاحات۔

    پاکستان میں جو بھی جب بھی سیاحت کو پروموٹ کرنے کا بروشر چھاپتا ہے تو  کے ٹو سے نانگا پربت تک  ہر چوٹی، ہنزہ سے دیوسائی تک تمام وادیوں میدانوں، اور نذیر صابر و اشرف امان سے ثمینہ بیگ تک تمام کوہ پیماؤں اور بالتورو و بیافو سمیت تمام بلتی و گلگتی گلیشیرز کو ’’پاکستان کے جنت نظیر قابلِ دید‘‘ مقامات کے طور پر شو کیس کیا جاتا ہے۔ مگر جب ان جنت نظیر قابلِ دید مقامات کی اختیار و اقتدار میں مساوی شراکت کا سوال اٹھایا جاتا ہے تو فوری جواز و جواب یہ ہوتا ہے کہ آپ تو متنازعہ علاقہ ہیں آپ تو پاکستان کا باقاعدہ حصہ ہی نہیں وغیرہ وغیرہ۔

    اسی طرح  وفاق کے زیرِ انتظام سات قبائلی ایجنسیوں (باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرم، جنوبی و شمالی وزیرستان) اور پشاور، کوہاٹ، بنوں، لکی مروت، ٹانک و ڈیرہ اسماعیل خان سے متصل چھ فرنٹیر ریجنز کے پچاس لاکھ قبائلیوں کو  ویسے تو پاکستان کا بازوئے شمشیر زن کہا جاتا ہے۔ انیس سو سینتالیس کی جنگِ کشمیر سے اب تک ان کی عسکری و قومی قربانیاں کو سراہنے میں زمین و آسمان ایک کر دیے جاتے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف گزشتہ سولہ برس سے جاری جنگ اور اس سے بھی پہلے اڑتیس برس سے جاری ڈیورنڈ لائن کے آر پار کی بدامنی سے نمٹنے، ڈرون حملے سہنے اور بے گھری کا بوجھ اٹھانے جیسی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھنے کے وعدوں کی مسلسل تحسینی بارش بھی نہیں رکتی۔

    لیکن یہی قبائل جب مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر ہم اتنے ہی اچھے اور پیارے ہیں تو پھر انگریز دور کے ایک سو پندرہ سال سے نافذ فرنٹیر کرائمز ریگولیشنز سے ہمیں نجات کیوں نہیں دلاتے۔ آئینِ پاکستان کے تحت ہمیں بھی بنیادی انسانی حقوق اور انصاف کی اعلیٰ ترین عدالتوں تک رسائی کیوں نہیں۔ ایسے مطالبات کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ حضور آپ کی تو ایک مخصوص شناخت و تشخص ہے۔آپ تو آزاد منش ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی خود مختاری آپ کے رواجوں کے ساتھ برقرار رہے۔ مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ ایف سی آر جیسا قانون کس قبائلی رواج کا نام ہے؟ پولیٹیکل ایجنٹ محض شبہے کی بنیاد پر کسی بھی قبائلی کو تین برس کے لیے کیوں نظربند، قید یا علاقہ بدر کر سکتا ہے اور پھر اس سزا میں مزید توسیع کے صوابدیدی اختیارات کیوں رکھتا ہے۔ پولیٹیکل ایجنٹ استغاثہ بھی ہے  جج بھی اور کورٹ آف اپیل بھی۔

    فاٹا کو پہلی بار ون مین ون ووٹ کا حق انیس سو چھیانوے میں ملا۔ اس سے قبل محض پینتیس ہزار ملکوں اور عمائدین کو ہی قومی اسمبلی کے لیے بارہ نمایندے چننے کا حق تھا اور پھر منتخب نمایندے آٹھ سینیٹر چنتے تھے اور یہ سارا جمہوری کام بولی لگا کے ہوتا تھا۔

    فاٹا میں اصلاحات کی کہانی دو ہزار آٹھ سے سننے میں آ رہی ہے۔ جب سابق چیف جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور اس کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں دو ہزار گیارہ میں ایف سی آر میں یہ ترمیم کی گئی کہ فاٹا ٹریبونل کے اختیارات ہائی کورٹ کے مساوی کر دیے گئے۔ اجتماعی سزا کی شق جس کے تحت ایک شخص کے جرم کا ذمے دار پورے قبیلے کو ٹھہرایا جاتا تھا اس میں تبدیلی کر کے اجتماعی ذمے داری کے عمل سے بچوں، بوڑھوں اور قبیلے کو نکال دیا گیا اور ’’جو کرے وہ بھرے‘‘ کا یونیورسل اصول لاگو کیا گیا۔

    اس کے بعد راوی اصلاحات کے معاملے میں گھمبیر خاموشی لکھتا ہے۔ راستے میں قبائلی ایجنسیوں میں طالبان کے خلاف بھر پور فوجی ایکشن، آپریشنِ ضربِ عضب اور شمالی و جنوبی وزیرستان کی آبادی کی بے گھری و بے سرو سامانی تو پڑاؤ کرتی نظر آتی ہیں مگر اصلاحات کا خیمہ دور کسی چوٹی پر گڑا ٹپائی دیتا ہے۔

    موجودہ نواز شریف حکومت نے فاٹا اصلاحات کے کچھوے کو اب سے سال بھر پہلے فوج کے دباؤ پر چھ رکنی سرتاج عزیز کمیٹی کے سپرد کر دیا۔ اس کمیٹی نے اس ہفتے جو سفارشات وزیرِ اعظم کو پیش کی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ ایف سی آر کی جگہ ٹرائبل ایریا رواج ایکٹ نافذ کیا جائے جو مقامی رواج اور جرگہ سسٹم پر مشتمل ہو اور اس میں جج پولیٹیکل ایجنٹ نہ ہو بلکہ ایک الگ سے جوڈیشل افسر بطور جج کام کرے۔ ایک سفارش یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرۂ کار فاٹا تک بڑھایا جائے۔ لیکن انفرادی جھگڑے نمٹانے کے لیے جرگہ و رواج سسٹم بھی برقرار رکھا جائے…

    یہ تجاویز بالکل ایسی ہیں کہ کوئی کہے کہ تمہارے پاؤں میں جو زنجیر پڑی ہے اس زنجیر کے ساتھ تم جہاں چاہے جانے کے لیے آزاد ہو۔ باقی سفارشات فاٹا میں مالی اصلاحات و بجٹ سے متعلق ہیں اور ایک سفارش یہ بھی ہے کہ فاٹا میں اگلے برس تک بلدیاتی انتخابات کروا دیے جائیں۔

    مگر سب سے اہم فیصلہ ہونا باقی ہے۔ یعنی فاٹا کو اصلاحات کے بعد بھی جوں کا توں برقرار رکھا جائے، ایک علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے، خیبر پختون خوا میں ضم کر دیا جائے یا پھر گلگت بلتستان کی طرز پر ایک کونسل اور اسمبلی بنا دی جائے۔

    فاٹا کی بیورو کریسی اور روایتی معززین چاہتے ہیں کہ موجودہ نظام جوں کا توں رکھا جائے البتہ تھوڑی بہت مرمت و لیپا پوتی اور ڈیکوریشن کر دی جائے۔ پشتون قوم پرست جماعتیں کہتی ہیں کہ فاٹا کے قبائلی عملاً سیاسی، سماجی، املاکی و معاشی طور پر خیبر پختون خوا سے جڑے ہوئے ہیں۔ فاٹا سیکریٹیریت تک پشاور میں ہے۔ امن و امان کے حالات کے سبب زیادہ تر پولیٹیکل ایجنٹ بھی سیٹلڈ ایریاز میں دفتر لگاتے ہیں۔ لہذا اگر فاٹا کو صوبے کا حصہ بنا دیا جائے تو کیا مضائقہ ہے۔

    ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ٹھوس دو ٹوک شکل میں سامنے آتیں، پارلیمنٹ ان پر بحث کرتی اور پھر جو بھی ایکٹ تیار ہوتا اسے نافذ کر دیا جاتا۔ مگر نہیں۔ اب یہ سفارشات عام بحث کے لیے عوام کے سامنے رکھی جائیں گی۔ ان  پر بحث پارلیمنٹ میں ہو گی مگر قانون کی منظوری قبائلی جرگہ دے گا۔ یہ بالکل ایسا ہے کہ منگنی شمائلہ سے ہو گی مگر شادی شہناز سے…

    اگر واقعی فاٹا کو پاکستان کے دیگر حصوں کی طرح مساوی آئینی حیثیت و حقوق دینے کی نیت ہوتی تو فاٹا کے عوام کو ایک ریفرنڈم کے ذریعے اپنی آئینی حیثیت کے انتخاب کا حق دینا سب سے آسان راستہ ہوتا۔ اگر وہ عام انتخابات میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اپنے نمایندے منتخب کر سکتے ہیں تو اپنی قسمت کا فیصلہ کیوں نہیں کر سکتے؟ یا پھر پارلیمنٹ اتفاقِ رائے سے ایک مسودہ منظور کر لیتی جو اکیسویں صدی کے انسانی و آئینی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتا۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اصلاحات کے عمل کو نیلے ٹرک کے پیچھے سے ہٹا کر پیلے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔

    قانون سازوں کی بلا سے کہ اس وقت فاٹا کی آدھی آبادی دربدر ہے۔ یہاں کے آدمی کی فی کس آمدنی باقی پاکستان سے آدھی، صحت کی سہولتیں آدھی اور خواندگی کا تناسب باقی پاکستان کے مقابلے میں ایک چوتھائی ہے۔

    فاٹا میں حقیقی اصلاحات مستقبلِ قریب میں ہوتی نظر نہیں آتیں۔ کیونکہ فاٹا کی پسماندگی اور جغرافیہ اربوں روپے کی صنعت ہے۔ بھلا کون سا پولیٹیکل ایجنٹ، عسکری، قبائلی ملک، سیاستداں، ٹرانسپورٹر اور مافیائی چاہے گا کہ یہ صنعت اتنی آسانی سے ٹھپ ہو جائے اور اس کے پیٹ پر لات پڑ جائے۔