Tag: ایفل ٹاور

  • پیرس یاترا – مہر عبدالرحمن طارق

    پیرس یاترا – مہر عبدالرحمن طارق

    مہر عبد الرحمن پیرس کا نام سنتے ہی دل میں جو پہلا خیال آتا ہے وہ ہے خوشبوؤں کا شہر، پیرس فرانس کا دارالحکومت، خوبصورتی اور تاریخی حوالے سے اپنی مثال آپ ہے۔ نیلی آنکھوں اور سنہری زلفوں والی حسینائیں جہاں آپ کی توجہ کا باعث بنتی ہیں، وہیں اس شہر کی خوبصورت پُررونق شامیں، دلفریب تاریخی اور ماضی کی جھلک دکھلاتی عمارتیں بھی آپ کو سحرزدہ کرنے کے ساتھ ساتھ تعریف پر مجبور کر دیتی ہیں۔ مصری اور افریقی حسن نے بھی اس میں چار چاند ٹانک دیے ہیں۔ اگر آپ پیرس گھومنا چاہتے ہیں تو پاسپورٹ پر ویزہ اور جیب میں ایک خطیر رقم ہونی چاہیے. اگر مصنف سے رابطہ اچھا ہو تو دوسری آپشن قابل معافی ہے.

    ایک دن تنہا اور اداس دل کے ساتھ ہم نے بھی سوچا کہ آج اپنا کیمرہ اٹھائیں اور اپنے دوستوں کو پیرس یاترا کروائیں۔ سو ہم پیرس پیمائی کے لیے گھر سے براستہ میٹرو نکل پڑے۔

    اگر آپ کو زمین دوز میٹرو کی آمدورفت کا علم نہیں تو اکیلے رسک ہرگز نہ لیں۔ البتہ نقشہ پاس ہو اور فرانسیسی زبان آتی ہو تو آسانی ہو گی، ورنہ انگریزی زبان والے کو بھی یہاں گونگا تصور کیا جاتا ہے اور گونگے صرف اشاروں کی زبان میں گفتگو کر سکتے ہیں۔ میٹرو سے نکلنے کہ بعد ہماری پہلی منزل ”ایفل ٹاور“ تھی۔

    اس کو بنانے والے کے من میں کیا سمائی جو اتنا لوہا ضائع کر دیا، یہی لوہا جنوبی ایشیا کے دو حکمران بھائیوں کی مِل میں کام آ سکتا تھا۔ بہرحال یہ اونچائی اور بناوٹ آپ کو جناب ”ایفل“ اور ”اسٹیفن“ کی مہارت کی تعریف پر مجبور کر دے گی۔ ایفل ٹاور کا صبح اور شام کا نظارہ دو الگ طرح کی خوبصورتی بیان کرتا ہے۔ رات کے وقت اکثر گولڈن رنگ کی لائٹ سے بہت خوبصورت سماں بندھا ہوتا ہے، کسی تہوار پر ٹاور فرانس کے جھنڈے کا نقشہ پیش کر رہا ہوتا ہے. ٹاور کے اوپر جانا چاہتے ہیں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں، سترہ یورو کے ذریعے لفٹ آپ کو اوپر تک لے جائے گی البتہ اگر آپ زیادہ اوپر جانا چاہتے ہیں تو لفٹ کے بغیر یہ سہولت ہمہ وقت حاصل ہے۔ ویسے ایمبولینس کا انتظام بھی چوبیس گھنٹے ہوتا ہے۔

    ایفل ٹاور دن کے وقت
    ایفل ٹاور دن کے وقت
    ایفل ٹاور رات کے وقت
    ایفل ٹاور رات کے وقت

    ایفل ٹاور کہ بعد ہم نے پیدل ہی شانزے لیزے (Champs-Elysées) کا رخ کیا. فرانسیسی پڑھنے اور رومن اردو پڑھنے کا تقابل ہرگز نہ کریں ورنہ آپ اسی مخمصے میں رہیں گے اور سیر بھی نہیں کر پائیں گے۔ شانزے لیزے کے چوک میں واقع طاق فتح (Arc de Triomphe ) یہاں کی پہچان اور نقش و نگار کے لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اسی شاہراہ پر یوم آزادی 14 جولائی کی پریڈ منعقد ہوتی ہے۔ دنیا کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر اورگاڑیوں کے شو روم کے علاوہ پانچ ستاروں والے ہوٹل اور مشہورِ پرس اور جوتے بنانے والا برانڈ ”لوئی ویتاں“ ( Louis vuitton) بھی اسی شاہراہ پر واقع ہے۔ مخصوص سفارت خانوں کے ساتھ پاکستان کا واحد ایشیائی سفارت خانہ بھی اسی مہنگی ترین جگہ پر واقع ہے۔
    لورین

    شانزے لیزے شاہراہ
    شانزے لیزے شاہراہ

    

    شانزے لیزے سے ملحقہ ہی اسمبلی حال کنکورڈ پر واقع ہے یہاں کی تمام عمارات قدیم طرز تعمیر کی ہیں۔

    اسمبلی ہال
    اسمبلی ہال

    
    ٹاور کہ ساتھ ساتھ دریائے سین بہتا ہے جو بھاری سامان کی نقل مکانی کے لیے استعمال ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پیرس کی شاہراہیں زیادہ دیر تک پائیدار رہتی ہیں۔ یہی دریائے سین ھے جس میں کئی سو الجزائر کے باشندوں اور جنگی قیدیوں کو ڈبو کر موت کی سزا دی گئی.

    دریائے سین سے قلعہ نما عمارت کا ایک منظر
    دریائے سین سے قلعہ نما عمارت کا ایک منظر


    راستے میں دریا کے اطراف ایک پل واقع ہے، اس پل پر ہزاروں کی تعداد میں تالے لگے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ پل محبت کرنے والوں کی داستان لکھتا ہے. محبت کرنے والا جو جوڑا یہاں آتا ہے، وہ اپنی محبت آخری دم تک نبھانے کی قسم لگا کر پل پر تالا لگاتا اور چابی دریا میں پھینک دیتا ہے۔ یہاں قریب واقع دکانداروں کی اس رانگ نمبر کے ذریعے خوب چاندی ہے۔ ویسے پل پر لگے تالے دلوں پر لگے تالوں سے بہتر ہیں۔ پیرس میں محبت کرنے والوں نے بہت سی داستانیں اور نشانیاں رقم کر رکھی ہیں۔ پاس ہی لوئس بادشاہوں کا محل واقع ہے۔

    تالے والا پل
    تالے والا پل

    
    تھوڑا چلنے کہ بعد ہم مشہور میوزیم (Musée du Louvre) پہنچے، یہاں کی عمارت بھی کسی دور میں بادشاہوں کی ملکیت تھی. شاید انقلاب فرانس سے پہلے کی بات ہے یہ عمارت سولہویں صدی میں تعمیر ہوئی۔ یہاں دنیا کے مشہور فن پارے موجود ہیں۔ اطالوی فنکار لیونارڈو ڈی ونچی کا مشہور شاہکار مسکراتی پینٹنگ ”مونا لیزا“ بھی یہاں ہی موجود ہے۔

     مونا لیزا ، اطالوی شاہکار ہمیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے
    مونا لیزا ، اطالوی شاہکار ہمیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے


    پھر یہاں سے نظر آنے والی اونچی سفید عمارت پر پہنچے، یہ پیرس کی سب اونچائی پر واقع ایک رومن کیتھولک گرجا ہے۔ (Scre-Coeur ) سکریکیور ممات اپنے خوبصورت طرز تعمیر کی وجہ سے یہ جگہ سیاحوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے، اس لیے یہاں ہر وقت سیاحوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ مگر احتیاط لازم ہے، یہاں بھی شیدا لوگوں کی جیب کاٹتا پایا جاتا ہے۔ جبکہ ساتھ میں کچھ لوگ ہاتھ سے آپ کی تصاویر بنا کر روزی کما رہے ہیں.

    چرچ سکریکیور
    چرچ سکریکیور

    یہاں دھوپ کم ہی نصیب ہوتی ہے لیکن جب کبھی دھوپ اپنا سنہری رنگ بکھیرے تو یہاں کے پارک اور باغات لوگوں سے بھر جاتے ہیں۔اور پھر ماحول Pg18 والا ہوجاتا ہے۔

    پیرس کا فضائی نظارہ کرنا ہو تو (Montparnasse) عمارت ہی کافی ہے۔ پیرس کی سب سے اونچی عمارتوں میں سے ایک ہے۔ اگر کسی کی خوبصورتی زیادہ قریب سے دیکھنی ہو تو دوربین کا انتظام بھی موجود ہے.

    ایک مشہور عمارت (Notre Dame) ایک ملکہ کے نام سے مشہور ہے اس کو دیکھنا مت بھولیں۔ لیکن ذرا رکیے اندر جانے کے لیے قطار میں کھڑے ہو جائیں اور ٹکٹ کٹوا کر پیسے بھریں.

    نوترے ڈیم
    نوترے ڈیم

    پیرس کے اطراف میں جنگل واقع ہے، ایک رات مشہور جاسوسی اور جنات کا کھوج لگانے والے پروگرام سے متاثر ہو کر ہم نے انٹرنیٹ سے مخصوص آلہ منگوایا اور جنات کی کھوج میں چلے تو گئے مگر پھر ایک ہفتہ بخار اور خوف میں گزارنا پڑا۔

    وہ جنگل جہاں ہم جنات کا مشاہدہ کرنے گئے تھے۔
    وہ جنگل جہاں ہم جنات کا مشاہدہ کرنے گئے تھے۔

    اگلے دن پروگرام تھا ڈزنی لینڈ (Disneyland ) کا۔ اس کے لیے آپ کو ایک دن مکمل درکار ہوگا، کم سے کم اگر آف سیزن ہو تو صرف ٹکٹ ہی 40 یورو کا ہے۔ لیکن داخل ہونے کے بعد آپ واقعی لگائے گئے پیسوں کو بھول جائیں گے۔ اگر آپ زندہ دل ہیں تو یہ بھول جائیں کہ ڈزنی لینڈ صرف بچوں کے لیے ہے، بہت خوبصورت اور ڈرامائی انداز کا بنا ہوا یہ پارک اپنی مثال آپ ہے۔ اب شام ہو گئی ہے اور ہمارا اور آپ کا سفر یہی ختم ہوتا ہے۔

    ڈزنی لینڈ
    ڈزنی لینڈ

    کچھ تصاویر مختلف عمارتوں اور عجائب گھر کی
    %d9%85%db%81%d8%b1
    %d9%81%d8%b1%d8%a7%d9%86%d8%b3-2%d9%81%d8%b1%d8%a7%d9%86%d8%b3%d8%a7
    %d9%81%d8%b1%d8%a7%d9%86%d8%b3

  • یورپ میں آباد پاکستانیوں کی خواہش-اوریا مقبول جان

    یورپ میں آباد پاکستانیوں کی خواہش-اوریا مقبول جان

    orya

    یورپ کی گلیوں میں گھومتے ہوئے آج پانچواں دن ہے۔ انقلاب فرانس کے مرکز پیرس میں اترا تو ٹھیک پانچ سال بعد یہاں آنے کے بعد ایک احساس ایک دم دل و نگاہ سے چھوگیا۔ سب کچھ وہی ہے، ایفل ٹاور، شانزے لیزے، گمنام سپاہی کی  قبر والا وہ دروازہ جو کئی سڑکوں کے بیچوں بیچ ہے، پہاڑی پر قدیم گرجا بھی ویسا ہی ہے اور نوٹرے ڈیم کے چرچ کے مجسمے بھی ویسے ہی قائم ہیں لیکن جو پیرس پانچ سال پہلے نظر آتا تھا اب وہ کہیں کھوگیا ہے۔ خود پیرس کے لوگ حیرت میں گم ہیں۔ جنگ عظیم دوم کی تباہ کاریوں سے جب یورپ نکلا تو یوں لگتا تھا کہ ساری کی ساری آبادی ایک کھنڈر پر کھڑی ہے۔

    لوگوں نے مل کر اس اجڑے گھر کو تعمیر کیا۔ ہر ملک برباد تھا اور ہر شہر ویران، یوں تو امریکی اسے اپنا احسان عظیم کہتے ہیں کہ انھوں نے یورپ کی تعمیر نو کے لیے سرمایہ فراہم کیا لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہاں کے رہنے والوں نے اسے خود تعمیر کیا۔ اس تعمیر نو میں عمارات تو کھنڈر سے بدل کر اصلی مقام پر آگئیں لیکن سرمائے کی دوڑ نے معاشرے کو ایک دوسرے کھنڈر میں بدل دیا۔ وہ کھنڈر جس میں اقدار، اخلاق، روایات، مذہب اور سب سے بڑھ کر خاندان کی اینٹیں گری پڑی ہیں اور کوئی ان اینٹوں کو اکٹھا کرکے دوبارہ تعمیر میں مصروف نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف ماتم کرتا چلا جارہا ہے۔ گزشتہ سو سال سے صرف ایک ہی ماتم ہے، ہمارا خاندان کہاں چلاگیا۔

    یہ سب تو پیرس شہر میں گزشتہ سو سال سے چلا آرہا ہے، تو پھر وہ کونسا پیرس ہے جو پانچ سال پہلے تھا اور آج نہیں ہے۔ پانچ سال پہلے کا پیرس نسبتاً مرنجا مرنج یعنی ”Cave Free” پیرس تھا اور آج کا پیرس خوفزدہ ہے، ڈرا ہوا۔ اس شہر کی گلیوں میں جنگ عظیم دوم کے بعد پہلی دفعہ فوج کے دستے گشت کرتے ہوئے نظر آئے۔ شروع شروع میں جب کارٹون بنانے والے اخبار چارلی ہبیڈو پر حملہ ہوا، لوگ مارے گئے تو پیرس میں غم و غصہ تھا۔ پوری قوم یک جہتی کے اظہار کے لیے سڑکوں پر نکل آئی۔ ایسے میں کسی نے اس غصے میں دبی ہوئی حملہ آور کی آواز کو یاد تک نہ کیا کہ ’’میں الجزائر سے ہوں اور یہ میرا بدلہ ہے‘‘ اسلام اور مسلمان دونوں ہدف تھے۔ میڈیا نے اس یک جہتی کو کھول کھول کر بیان کیا اور بار بار دکھایا۔

    لوگ چین کی نیند سوگئے۔ لیکن اس کے بعد انھیں پھر کسی زور دار دھماکے میں مرنے والوں کی چیخوں نے جگایا تو کہیں ٹرک ڈرائیور کے انسانوں کے خوفناک طریقے سے کچلنے نے بیدار کیا۔ لیکن اب یہ جاگنا یک جہتی کا جاگنا نہیں ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے خوف میں نیند اڑجاتی ہے۔ ٹیلی ویژن پروگراموں میں صرف ایک بحث ہے کہ ایسا ہمارے ساتھ کیوں ہورہا ہے۔ ہم تو پر امن تھے، اپنی دھن میں مگن تھے۔ ہمارے بازاروں میں رونق تھی، لاکھوں سیاح روز ہمارے شہروں کو آباد کرتے تھے۔ دونوں طرف بولنے والے موجود ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اسلام، القاعدہ، داعش اور دہشت گردی کی رٹ لگاتے ہیں۔ لیکن دوسرے وہ ہیں جو اس خطرے سے پورے مغرب کو ڈرا رہے ہیں۔

    وہ کہتے ہیں تم نے اسلحہ بیچنے کی ہوس میں جتنے لاکھ لوگوں کو مسلم دنیا میں قتل کیا ہے۔ اگر ان کے دس فیصد لوگوں کی اولادیں اپنا بدلہ لینے تمہاری سمت چل پڑیں تو تم کئی صدیاں امن کوترس جاؤ گے۔ فرانس کا ’’مشعل اکشود‘‘ نامی مصنف جو ٹیلی ویژن چینلوں پر مقبول ہورہا ہے۔ وہ یہی کہتا ہے، تم نے الجزائر میں ایک اسلامی حکومت کے قیام کو روکنے کے لیے لاکھوں انسانوں کا خون بہایا، اب یہ خون تمہارے گھروں میں انتقام کے پتھر لے کر آگیا ہے۔ حیرت میں گم پیرس کے سامنے ایک اور سوال ہے۔ ہم تو سیکولرازم اور لبرل ازم کے بانی تھے۔ ہماری نسلوں نے انقلاب فرانس کے بعد مذہب کو اجتماعی زندگی سے نکال دیا تھا۔ لیکن یہ کیا ہوگیا۔ شام میں جاکر لڑنے والوں میں سب سے زیادہ لوگ فرانس سے جارہے ہیں اور وہاں لڑائی میں مرنے والوں میں دس ایسے فرانسیسی ہیں جو نسل در نسل فرانسیسی ہیں۔ جن کی رگوں میں صدیوں سے فرانسیسی خون دوڑ رہا ہے۔

    خوف اور تذبذب کی یہی فضا اگلے دن مجھے برسلز میں نظر آئی۔ جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے ایک مسجد کی تلاش مجھے مولن بیک ”MOLEN BEEK” کے علاقے میں لے آئی۔ یہ بیلجیئم کی اس آبادی کا مرکز ہے جو نسلی طور پر مراکش سے تعلق رکھتی ہے۔ چاروں جانب حجاب اور عبایا میں ملبوس خواتین مسجدوں کی طرف جارہی تھیں اور مرد عربی لباس پہنے نظر آرہے تھے۔ ایک اور حیرت، وہاں آکر آپ کو بیلجیئم میں بولی جانے والی فرانسیسی زبان نہیں آتی تو انگریزی نہیں چلے گی۔ البتہ آپ عربی میں ٹوٹی پھوٹی بات چیت بھی کریں تو آپ کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ دونوں ملک اپنے ٹیلی ویژن چینلوں پر ایک دفعہ پھر سے اس سین کو دہرا رہے ہیں کہ 1905ء میں جو سیکولرازم اور لبرل ازم کا دور شروع ہوا تھا، اس میں زوال آگیا ہے۔ ہمیں اپنی اس روح کو اپنے آپ جدا نہیں کرنا۔

    اگلے تین دن اٹلی کے شہر میلان اور اسپین کے شہر بارسلونا میں گزرے، ان چاروں شہروں، پیرس، برسلز، میلان اور بار سلونا میں پاکستانی آبادی سے ملاقات اس لیے ہوئی کہ تقریبات میں جمع تھے۔ لیکن ان کا خوف دہرا ہے۔ ان کا المیہ اور دکھ بھی دہرا ہے۔ جس وطن کو چھوڑ کر وہ یہاں آئے ہیں انھیں وہاں تبدیلی کی کوئی امید نظر انھیں آتی۔ میں گزشتہ پندرہ سال سے مسلسل مغرب میں آباد پاکستانیوں سے مل رہا ہوں لیکن یہ پہلی دفعہ ہے کہ ان میں اپنے وطن واپس لوٹنے اور اسے دوبارہ تعمیر کرنے کی خواہش شدید ہے۔

    ان کا المیہ دہرا ہے جس یورپ کو وہ خون پسینہ دے کر تعمیر کرہے ہیں وہ ان کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے اور جس پاکستان میں وہ خون پسینے کی کمائی بھیجتے ہیں وہاں ان کی کمائی سے عیاشیاں کی جاتی ہیں۔ وہ پاکستان میں ایسا سب کچھ دیکھنا چاہتے ہیں جو انھیں یورپ میں نظر آتا ہے لیکن ایسا خواب وہ یہیں بیٹھ کر دیکھتے ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جس طرح یورپ تباہ ہوا اور یورپ والوں نے اسے تعمیر کیا۔ یہاں کے پاکستانی ویسا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ البتہ انتظار کرتے ہیں، دعا کرتے ہیں، خواہش کرتے ہیں کہ پاکستان بدل جائے اور وہ واپس اپنے جہلم، گجرات، مردان وغیرہ چلے جائیں۔

    جہاں وہ معاشی طور پر مطمئن بھی ہوں اور کوئی انھیں بار بار گفتگو میں اللہ کا لفظ استعمال کرتے سنے اور پیرس میں پولیس کو رپورٹ کرنے کی طرح گرفتار نہ کرادے۔ اسپین کے ساحلوں پر حجاب والی خاتون کے گرد جیسے پولیس والے جمع ہوگئے اور کہا یا تو سوئمنگ سوٹ پہنو یا یہاں سے بھاگو۔ ایسا کچھ اس نئے پاکستان میں نہ ہو۔ ایسا پاکستان ان کی کمائی سے نہیں صرف اور صرف ان کے خون پسینے سے بن سکتا ہے۔ لبنان میں چالیس لاکھ لوگ آباد ہیں جب کہ ایک کروڑ بیس لاکھ لبنانی ملک سے باہر ہیں۔ کما کر ہر سال بیس ارب ڈالر بھیجتے ہیں لیکن لبنان کی حالت نہیں بدلتی۔ قومیں سرمائے سے نہیں انسانوں سے بدلتی ہیں۔