Tag: اہل مذہب

  • کیا مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟ مفتی منیب الرحمن

    کیا مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟ مفتی منیب الرحمن

    پروفیسر مفتی منیب الرحمن گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارے لبرل دانشوروں کو کوئی اور پرکشش موضوع ہاتھ نہ آئے تو مذہب اور اہلِ مذہب کی خبر گیری اور اصلاح کے درپے ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ باور کراتے ہیں کہ ہماری تمام تر ناکامیوں اور زوال کے ذمے دار مذہبی طبقات ہیں اور مذہب ہی ہماری ترقی میں رکاوٹ ہے۔ پھر اچانک انہیں خیال آتا ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے اورجمود طاری ہے، حالانکہ علامہ اقبال نے کہا تھا: اجتہاد جاری رہنا چاہیے۔

    اصلاح کے اس مشن کے عَلَمبردار دانشوروں کے لیے یہ جاننا بھی ضروری نہیں ہے کہ اجتہاد کا معنی و مفہوم کیا ہے، اس کی ضرورت کب پیش آتی ہے اور اس کے لیے کس طرح کی علمی قابلیت اور اہلیت درکار ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ ترقی سے کیا مراد ہے، اگر اس سے مادّی، سائنسی، علمی، معاشی اور سماجی ترقی مراد ہے، تو اس میں مذہب کہاں رکاوٹ بنتا ہے۔ کیا مذہب یا اہل مذہب نے کبھی آپ سے مطالبہ کیا ہے کہ آپ یونیورسٹیاں، کالج اور جدید علوم پر مشتمل اعلیٰ تعلیمی، تحقیقی اور تربیتی ادارے قائم نہ کریں۔ کیا آپ کی نظر میں سائنس اور مذہب کا کہیں ٹکراؤ ہے؟ کیا ہماری یونیوسٹیوں میں عالمی سطح کا تحقیقی کام اس لیے نہیں ہو رہا کہ ہم مسلمان ہیں یا اہلِ مذہب ہیں؟ کیا صنعتی ترقی کی راہ میں مذہب حائل ہوگیا ہے یا اہلِ مذہب نے اس کا راستہ بند کردیا ہے؟

    سو جب تک ہم اپنے مسائل کا حقیقت پسندانہ انداز میں تجزیہ نہیں کریں گے، اُن کا تشفّی بخش حل بھی ہمیں سجھائی نہیں دے گا۔ ہماری نظر میں جدید سائنسی، فنی، طبی، معاشی، سماجی، ادبی، بحریات، فلکیات، ارضیات، حیاتیات، حیوانیات اور خلائی تحقیقات سمیت کسی شعبہ علم کا مذہب سے کوئی تعارض نہیں ہے، البتہ اتنی سی بات ہے کہ اسلام مالیاتی شعبے میں رِبا کی حرمت کا قائل ہے اور ادبی و سماجی علوم میں اخلاقی اَقدار کا عَلَم بردار ہے۔ پھر ریاستی وسائل جن تعلیمی شعبوں اور اداروں پر خرچ ہوتے ہیں، وہ سب کے سب جدیدیا عصری علوم سے متعلق ہیں اور اُن میں سے کسی کی باگ ڈور علماء کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ کسی شعبے میں کامیابی مل جائے تو اُس کا افتخار آپ کے حصے میں آئے اور ناکامی ہو تو اُسے مذہب کے سر تھوپ دیا جائے۔

    ہمارے ہاں تو حال یہ ہے کہ کئی جدید علوم کے حامل پروفیسر، دانشور اور مذہبِ انسانیت کے دعوے دار پاکستان کے ایٹمی دھماکے اور ایٹم بم بنانے کے شدید مخالف تھے اور اس میں وہ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کے ہم نوا تھے، جبکہ کسی مذہبی شخصیت نے نہ صرف یہ کہ اس کی مخالفت نہیں کی بلکہ سب یک زباں ہوکر اس کی پرزور تائید کرتے رہے ہیں۔ آج پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت اور ایٹم بم کا وجود ہی ظاہری اسباب کے تحت سدِّ جارحیت کا سب سے مؤثر ذریعہ یعنی Deterrent ہے۔ یہ امر مسلّم ہے کہ جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت کا کوئی بدل نہیں ہے، مگر ہم عالَمِ اسباب میں جی رہے ہیں اور اگر ظاہری اسباب کی کوئی حیثیت نہ ہوتی تو آج امریکہ بلاشرکتِ غیرے دنیا پر اپنی شرائط کیسے مسلّط کرتا۔
    درپیش مسائل میں اجتہاد کی اجازت خود رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمائی ہے:
    ’’رسول اللہ ﷺ نے جب معاذ بن جبل کو یمن کی طرف حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو فرمایا: جب تمہارے سامنے کوئی مقدمہ پیش ہوگا تو کس طرح فیصلہ کروگے؟ انہوں نے عرض کی: کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تمہیں درپیش مسئلے کا جواب کتاب اللہ میں نہ ملے تو (کیا کرو گے؟)، انہوں نے عرض کی: رسول اللہ ﷺ کی سنت کی روشنی میں فیصلہ کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تمہیں اس کا جواب کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ (دونوں) میں نہ ملے، (تو کیا کرو گے؟)، انہوں نے عرض کی: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور (کسی اورجانب) مڑ کر نہیں دیکھوں گا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اُن کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے اپنے رسول کے نمائندے کو ایسی توفیق عطا فرمائی جو رسول کی رضا کا باعث ہے. (ابودائود: 3592)‘‘۔
    قرآنِ مجید میں سورۃ الانبیاء،آیت:78میں ایک مقدمے کے حوالے سے حضرتِ داؤد وسلیمان علیہما السلام کے اجتہادی فیصلے مذکور ہیں، اُن میں سے ایک کو ہم ’’حَسَن‘‘اور دوسرے کو ’’اَحسن‘‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اسی طرح حالتِ احرام میں شکار کے حوالے سے المائدہ:95 میں اللہ تعالیٰ نے مُحرِم پر فدیے کے حوالے سے فرمایا: دو مُنصِف اس کا فیصلہ کریں، ظاہر ہے اُن کا یہ فیصلہ اجتہاد پر مبنی ہوگا۔ دین کا اصول یہ ہے کہ جن امور کے بارے میں قرآن و سنت میں صریح نصوص اور احکام موجود ہیں، اُن کے بارے میں اجتہاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ غیر منصوص مسائل میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے، ائمہ کرام کے اجتہادات اسی اصول کے تحت آتے ہیں۔ مزید یہ کہ اجتہاد مقاصدِ شرعیہ کو حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے، باطل کرنے کے لیے نہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو رد کرنے کے لیے تو ابلیس نے اجتہاد ہی کیا تھا، قرآنِ مجید میں ہے:
    (1)’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (اے ابلیس!) جب میں نے تجھے (آدم کو) سجدہ کرنے کا حکم دیا، تو تم کو سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا تھا؟، اُس نے کہا: میں اُس سے بہتر ہوں، (اے اللہ!) تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اُس کو مٹی سے پیدا کیا ہے، (اعراف:12)‘‘۔
    (2)اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’(اے ابلیس!) تجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہیں دیا؟، اُس نے کہا: میں ایسے بشر کو سجدہ کرنے والا نہیں ہوں، جس کو تو نے بجتی ہوئی خشک مٹی کے سیاہ سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے، (الحجر: 32-33)‘‘۔
    سو ابلیس کا یہ اجتہاد اللہ تعالیٰ کے حکم کو رد کرنے کے لیے تھا اور جو اجتہاد اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولِ مکرم ﷺ کے صریح حکم کو رد کرنے کے لیے کیا جائے، وہ باطل ہوگا۔

    ہمارے بعض تجَدُّد پسند دوست کہتے ہیں کہ اجتہاد پارلیمنٹ کرے گی، سادہ سا سوال ہے کہ ہماری پارلیمنٹ جن عناصرِ ترکیبی کا مجموعہ ہے، کیا اُن میں کتاب وسنت سے احکام مستنبط کرنے اور اجتہاد کرنے کی صلاحیت موجود ہے؟ ہمارے دستور میں قوانین کے کتاب و سنت کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک آئینی ادارہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان ‘‘ قائم کیا گیا ہے، لیکن پارلیمنٹ کے پاس فرصت ہی نہیں ہے کہ اِس ادارے کی سفارشات پر غور کرے، ان پر بحث کرے اور ان کی منظوری دے۔ اگر پارلیمنٹ کو کسی قانون کے بارے میں شرحِ صدر نہ ہو تو نظرِثانی کےلیے دوبارہ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کو بھیج سکتی ہے۔ ہمارے میڈیا میں بیٹھے ہوئے خود ساختہ (Pseudo) ماہرین زبان اور قلم کے زور پریہ اختیار خود ہی حاصل کرلیتے ہیں، وہ جس شعبے میں چاہیں، اپنے شوقِ اجتہاد کو پورا کر سکتے ہیں، ہر ایک کی نفی کرسکتے ہیں۔ ہر ایک کی تجہیل و تحقیر اُن کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ہاں! جب وہ اسکرین سے آف ہوجائیں تو پھر ہم جیسے انسان ہوتے ہیں، لیکن جب تک اسکرین پر براجمان ہوں، تو پھر ماورائی مخلوق ہوتے ہیں۔

    یقینا ہمارے مذہبی طبقات میں بھی کمزوریاں ہیں، کیونکہ وہ بھی اِسی سرزمین کی پیداوار ہیں اور ہمارے مجموعی قومی مزاج سے بالاتر نہیں ہیں، ماسوا اِس کے کہ کسی فرد یا افراد پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہوجائے، کیونکہ مستثنیات ہر طبقے میں ہوتی ہیں۔ فقہی اعتبار سے سحر و افطار کے اوقات میں معمولی تقدیم و تاخیر یا بعض نمازوں کے اوقات میں معمولی فرق ہماری علمی و سائنسی اور صنعتی و معاشی ترقی میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتا۔ بعض دوستوں کو ہمیشہ دینی مدارس اور اہلِ مدارس سے گِلہ رہتا ہے، یقینا مدارس کے نظام میں بھی خامیاں اور کمزوریاں موجود ہیں اور اُن کی اصلاح اور معیار کی بہتری کے لیے کوشش جاری رہنی چاہیے اور اصلاح کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔

    لیکن حال ہی میں فیڈرل سروس کمیشن آف پاکستان نے سی ایس ایس یعنی سینٹرل سپیریر سروسز آف پاکستان کے امتحانات کے تحریری نتائج کا اعلان کیا ہے۔ پورے پاکستان سے 9643 طلبہ تحریری امتحان میں شریک ہوئے اور صرف 202 پاس ہوئے اور نتیجے کی شرح 2.09 فیصد رہی، اللہ ہی جانے کہ زبانی انٹرویو کے بعد اِن میں سے کتنے سرخرو ہوتے ہیں۔ یہ امر بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ ملک بھر سے ذہین طلبہ بھرپور تیاری کر کے مقابلے کے اِن امتحانات میں شریک ہوتے ہیں اور پھر یہی ہماری بیوروکریسی کی ریڑھ کی ہڈی بنتے ہیں۔ اِس سے ہمارے تعلیمی زوال کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، لیکن اس کا ملبہ مدارس پر نہیں ڈالا جاسکتا، اس کے ذمہ دار ہمارے عصری تعلیم کے اسکول سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک کے ادارے ہیں، جن میں طرح طرح کے پرائیویٹ انگلش میڈیم ادارے بھی شامل ہیں۔ اِسی طرح حال ہی میں انٹرمیڈیٹ اور سیکنڈری تعلیمی بورڈز کے نتائج کے اعلانات ہوئے، کراچی کے نتائج بھی مُشتَبہ قرار پائے اور یہی صورتِ حال پنجاب کے مختلف بورڈز کے نتائج کی ہے۔

    ہمارا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ناکامیوں کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈال کر بریُ الذِّمہ ہوجائیں، نہ ہی ہم دوسرے کی ناکامی کو جواز بنا کر سرخرو ہوسکتے ہیں، ہر ایک کو اپنا حساب دینا ہے، کیونکہ ہم ایک ملّت اور ایک قوم ہیں۔ کسی بھی شعبے میں کامیابی سب کی کامیابی ہے اور ناکامی کا وبال بھی سب کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ آج کل ہم قومی سطح پر بھی انتشار کا شکار ہیں اور سیاسی قیادت اپنی اجتماعی دانش سے مسائل کا حل نکالنے میں ناکام ہے، اور ایسے عالَم میں کہ ہر جانب سے ہماری سرحدوں پر حالات حسّاس ہیں، ہمیں آپس کی جوتم پیزار سے ہی فرصت نہیں ہے۔

  • کیا اہل مذہب بداخلاق ہیں؟ ابوبکر قدوسی

    کیا اہل مذہب بداخلاق ہیں؟ ابوبکر قدوسی

    ابوبکر قدوسی کالج سے چھوٹے تو کاروبار نے جکڑ لیا. خود کاروبار کیا ہے، محض ایک چٹیل میدان جہاں افکار کے سوتے خشک ہوتے دیکھے، ان کو جلا کیا ملتی؟ لیکن قسمت اچھی تھی کہ کاروبار کتاب کا تھا. کتاب بیچتے کتاب چھاپتے مدت گزر گئی. جی ہاں میرا مذہبی کتب کا کاروبار ہے، مولوی نہیں لیکن ایک خالص مولوی کا بیٹا ہوں. باپ کے منہ سے گالی تو بڑی بات، کبھی بد تہذیبی کی ہلکی سی بات بھی یاد میں نہیں. اگرچہ ہمارے لڑکپن میں ہی وہ دنیا سے چلےگئے، لیکن ہماری زندگی کی عمارت کی بنیاد رکھ گئے. میں ان کے اخلاق کو شاید چھو بھی نہ سکوں لیکن کسی سے بدزبانی کرنا، توہین کرنا، میرے لیے بھی ویسے ہی مشکل ہے. ہماری دکان پر بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث کے چوٹی کے علماء کا مستقل آنا جانا رہتا تھا، میں نے مذہبی طبقے کو جتنا بااخلاق پایا اس کی کم ہی مثال ملے گی.

    مجھے شاید چار برس ہوے سوشل میڈیا پر لکھتے ہوئے، بہت سا لکھا، کبھی اچھا کبھی گوارا، بہت سے افراد پر تنقید کرتا ہوں، اور بہت کا رد، لیکن ایک بات عجیب ہے کہ مجھ سے ایک دو بار ہی کسی نے بدزبانی کی ہے. بلاشبہ یہ ایسا ہی مے خانہ ہے کہ جہاں قدم قدم پر پگڑی اچھلتی ہے، لیکن ہم تو اس گلی میں سے اپنی دستار و جبہ بنا کسی داغ کے بچا کے لے آئے ہیں. ہم کوئی ایسے پارسا نہ تھے اور نہ ہی کوئی بھگت کبیر کہ جو ”باجار“ میں کھڑے سب کی”کھیر“ ہی مانگتے رہتے ہیں. بیسیوں بار بہت سوں کے بارے میں تند و تیز بھی لکھا اور شدید تلخ بھی لیکن سب کچھ ایک خاص سلیقے کے ساتھ تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے.

    یہ سب قصہ طویل اس لیے ہے کہ ایک صاحب کا لکھا دیکھا کہ مذہبی لوگوں کا اخلاقی دیوالیہ پن حد سے گزر گیا. میں صرف اس بات سے حیران ہوں کہ اخلاق کی گراوٹ کی دہائی دیتے ہوئے صاحب ایسے بے اختیار ہوئے کہ مدارس کے خاتمے کی پیشین گوئی تک کر ڈالی. سوشل میڈیا پر موجود ایک خاص طبقے کی جہالت کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کو ہی مذہبی طبقے کا چہرہ قرار دے دیا.

    ایسی بھی کیا بےخبری اور سادگی کہ بندہ معقول سا تجزیہ بھی نہ کر سکے. حضور والا مجھ کو آج تک چار برس میں کسی نے گالی دی نہ دشنام کیا، میں مسلسل لکھتا ہوں اور طویل لکھتا ہوں، کہہ چکا کہ اختلاف کرتا ہوں اور ڈٹ کے کرتا ہوں، تنقید کرتا ہوں اور کھل کے کرتا ہوں، آپ خود سوچیے کہ کیا وجہ ہے کہ ایک صاحب کو اس معمولی سی ”فیس بکی اقلیت“ میں اہل مذہب کا چہرہ دکھائی دے رہا ہے، اور ان کی نظر میں یہی مذہب کا مستقبل ٹھہرے، یہی مذہب کے دیس نکالے کا سبب..

    مثال حضرت ڈھونڈ کے لائے ہیں جناب غامدی صاحب کی کہ ان کو ملک سے باہر نکلنا پڑا. کاش ہم تجزیے میں دیانت کو اپنا شعار کر سکیں، اگر میں کہوں کہ خود اس مظلوم ”طبقے“ نے فکری بداخلاقی کی انتہا کر دی تو کیا غلط ہوگا ؟. اور شریف اہل مذہب اس کو مدت تک بےبسی سے سہتے چلے آ رہے ہیں، اور اس کے بعد جانے یکایک کیا ہوا کہ صاحب پاکستان سے نکل گئے اور الزام مذہبی طبقے پر دھر دیا. اس پاکستان میں عاصمہ جہانگیر، ماروی سرمد، فرزانہ باری جیسی خواتین اور مہدی حسن صاحب، پرویز ہود بھائے جیسے افراد جو چاہتے ہیں ہر دم کہتے ہیں اور پھر بھی امن چین سے رہ رہے ہیں.

    لگے ہاتھوں میں اس ”مظلوم“ فکر کے ایک نمائندے جناب شبیر احمد کی کتاب ”صحیح بخاری کا مطالعہ“ پڑھنے کا مشورہ دوں گا. آپ کو ”اخلاقیات“ کی صحیح خبر ہو گی کہ کس کا گرا ہے اور کون ابھی بھی بچا ہے؟

    حیرت ہے کہ اس ملک میں ایک طبقہ دشنام میں مقدسات تک کو معاف نہیں کرتا، اور سنجیدہ اہل مذہب اس تک کو جلتے کڑھتے برداشت کرتے ہیں، ہر دم ان کی داڑھی اور ٹوپی کا مذاق بنایا جاتا ہے، ان کے لطیفے گھڑے جاتے ہیں، ان کی معمولی سی غلطی کو بریکنگ نیوز بنادیا جاتا ہے، اور خود ہاتھی بھی ہضم کر لیا جاتا ہے، پھر بھی بد اخلاق یہی مولوی ٹھہرتے ہیں.

    ”قاصد“ گھبرا نہ جائے اس لیے مختصر کرتا ہوں. ایک سوال ہے کہ آپ کی قوم کی، لیڈر شپ کی، اشرافیہ کی، حکمرانوں کی، بیوروکریسی کی. اور حضور عام عوام کی اخلاقی حالت کیا ہے؟ ان کی تربیت کس نے کی؟ گالی، زنا، شراب، مجرے، دوسروں کی بہن بیٹیوں کو نچوانا، فراڈ، قوم کا پیسہ ہضم کرنا، پورے پورے الیکشن چرا لینا، ہمہ وقت جھوٹ، یہ سب کیا اچھے اخلاق ہیں؟ یہ سب کون کرتا ہے؟ محض فیشن کے طور پر مولوی کو گالی دینا اور اپنے احساس کمتری کو اس مہین پردے میں چھپانا ایک کار لا حاصل ہے، جس میں سب کچھ عیاں ہے.

    بات اگر نصیحت کے واسطے کی جاتی تو عمدہ ہوتی. کہا جا سکتا تھا کہ اہل مذہب کو، اور ان کو جو مذہب کی شناخت رکھتے ہیں، مباحثے میں کبھی اخلاق کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے، لیکن یہ کیا کہ تمام اہل مذہب کو بد اخلاق قرار دے کرگردن زدنی قرار دے دینا، اور معیار بھی فیس بک کہ جہاں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ صاحب مرد بھی ہیں یا نہیں، اور خاتون کہیں زلف دراز کے ساتھ مونچھیں بھی تو نہیں رکھتیں.
    اور ہاں ایک مشورہ ہے کبھی ملحدین کے صفحات پر جائیے اور آپ کو اخلاق کے نئے مفاہیم کی خبر ہو گی اور پھر آپ کو یہ ”ملا ملانے“ بہت با اخلاق دکھائی دیں گے.

  • چائےوالا، بازارِ مصر اور اہل مذہب – حامد کمال الدین

    چائےوالا، بازارِ مصر اور اہل مذہب – حامد کمال الدین

    حامد کمال معاملے کی وہ جہت تو ”دلیل“ پر شائع ہونے والا ایک مضمون باحسن انداز دکھا چکا: ”گوشت کے بیوپاری“۔ ایک دوسری جہت پر کچھ ہمیں بات کرنی ہے۔ وہ بیوپار تو اپنے معمول پر ہی ہے: مال جانچا، پیسے دیے، کسی پر احسان کیسا، انوسٹمنٹ ہے! مہنگا مال سستے داموں اٹھانا، کاروبار اِسی کا نام ہے، سو جتنا ہاتھ پڑے! لیکن کیا ایسا واقعہ آپ کے خیال میں ہوا ہو گا کہ کچھ ’’روح‘‘ کے طرفدار بھی موقع پر اُس آفت رسیدہ (victim) کے پاس پہنچے ہوں؟

    ارشد خان چائے والا بطور ایک فرد، میں اُس کے شہر میں ہوتا تو کم از کم اُس کے پاس سے ضرور ہو کر آتا۔ اُس کا ایک مول اُس کو ’’گوشت‘‘ والوں اور والیوں نے بتایا ہوگا۔ اُس کا ایک مول اُس کو میں بتا کر آتا۔ فیصلہ ظاہر ہے اُسی کو کرنا تھا۔ لیکن وہ اِسی معاشرے کا ایک بچہ ہے جہاں ’’انسان‘‘ کا حقیقی مول کم ہی پڑھایا بتایا جاتا ہے۔ ارشد کسی اسکول میں پڑھا ہوتا تو اپنا یہ مول شاید وہ پھر بھی نہ جانتا۔ اِس کےلیے تعلیم کی ضرورت ہے جو فی زمانہ اسکولوں میں ناپید ہے، ارشد کو یہ کہاں سے میسر آتی؟ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے، امکان تھا کہ ہمارا یہ بچہ، بلکہ ہمارا کوئی بھی بچہ، گوشت اور چمڑی کی منڈی میں اپنے ہوش کھو بیٹھتا۔ اور تعلیم تو ظاہر ہے ایک مسلسل عمل ہے۔ فوری طور پر تو تبلیغ ہی ہو سکتی ہے۔ جبکہ تعلیم معاشرے میں ایک اساس سے اٹھایا جانے والا عمل، جو مسلم معاشرے میں آنکھ کھولنے والے ہر بچے کا حق ہے۔ تعلیم کی راہ سے ایمان اور قدریں سینوں میں بٹھائی ہوتیں تو امکان تھا ہمارے اس بچے سے کسی مائک والی کو ایک بےساختہ جواب یوں بھی ملتا کہ: میں ایک پٹھان عزت دار بچہ ہوں، محنت مزدوری کرنا تو ہمارے یہاں فخر کی بات ہے مگر بھانڈ ہونا یا چمڑی کی نمائش پر پیسے لینا معیوب، خواہ وہ کتنے ہی ہوں۔ عزت کے آگے پیسہ کیا ہے؟ یہ بات سننا ظاہر ہے سرمایہ داری عقیدہ اپنے منہ پر ایک تھپڑ سمجھتا اور اس کی بازگشت دور دور تک سنی جاتی۔ جبکہ ہمارے بچے کےلیے یہ ایک لااُبالی جواب۔ بلاشبہ ہمارا ہر ہر بچہ آج اُس پیسہ دے کر نچانے والے کو دُور سے یہ آئینہ دکھا سکتا اور قدروں کی رکھوالی میں اِس گھر کا محافظ بن سکتا تھا۔ ’ساقی‘ ستر سال گزر جانے کے باوجود یہاں ’نم‘ کا ’ذرا‘ بھی بندوبست نہ کر سکا، ورنہ اپنی مٹی کی یہ زرخیزی ارشد کی نیلی آنکھوں سے بڑھ کر آج دنیا کوحیران کرتی۔ [pullquote] يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِھمُ الْكُفَّارَ[/pullquote]

    لیکن ابھی تو یہی خاک اڑتی ہے۔ عزت پانے کا اعلیٰ ترین تصور یہ کہ آدمی بالی وڈ تماش بینوں کے آگے اچھل مٹک کر دکھائے اور اس پر مہنگا ٹکٹ لگے!

    پس تعلیم کا رونا تو ایک حقیقی رونا ہے۔ کم از کم فہمائش کےلیے ہی میں اور میرے جیسے اُس شہر کے درجنوں اور سینکڑوں نمازی اُس بازار میں اپنےاپنے سوت کی اَٹی لیے پہنچتے۔ ’زنانِ مصر‘ سے چاہے پھر بھی کوئی مفر نہ ہوتا، مگر ’یوسف‘ کی ایک کہانی تو کم از کم کسی ’سوت والی‘ کے بغیر نامکمل رہتی! میں کہتا ہوں اپنے کسی بھی شہر میں ایسی کوئی ایک بھی کہانی اپنے اِس ’سوت‘ کے بغیر کیوں مکمل ہو؟ کیا لگتا ہے اس پر؟ کیا اس کردار کے بحال رکھنے پر آج کوئی پابندی ہے؟ یا ہم ہی زمانے کے اسٹیج سے واپسی کی راہ لے چکے اور زندگی کی وہ چنگاری سرد کر چکے؟

    حضرات! اس پر ہمیں سوچنا تو ہے کہ مسجدیں آج زندگی کی دوڑ سے کیوں باہر ہیں؟ تہذیبی کشمکش کی گلیاں نمازیوں سے بالکل سونی اور ویران! عبادت گزاروں کے یہاں ایک سماجی صلاحیت کا ہونا، کاروبارِ حیات میں ان کا زورآور اور چابک دست ہونا، ایک تہذیبی فاعلیت سے لیس ہونا، یہ بھی ہم سنتے تو آئے تھے! انیشی ایٹو initiative لینا دینداروں کےلیے آج کیسی ایک اجنبی اور انہونی بات ہو چکی! جام کو بڑھ کر تھام لینے کی وہ چلبلی ادا رُوپوش! زندگی کے سٹیج پر کوئی ہو، ہمیں تو خبریں پڑھنی ہیں، اخبار لیٹ ہو جائے تو البتہ تشویش ہوتی ہے! ایسا بےامنگ اور بےترنگ passive بھی ہمارا دینی سیکٹر اِس سے پہلے کبھی ہوا ہوگا؟ نرا ’آرڈی ننسوں‘ کا منتظر! بیٹھا ’خلافت‘ کی راہ تکنے والا! ’مہدی کی آمد قریب آ لگنے‘ سے متعلق پورا ایک لائبریری شیلف بنا رکھنے والا! یاجوج ماجوج کا کھوج لگاتا پھرتا، دجال کے پیچھے برمودا ٹرائی اینگل جا پہنچتا، زمین سے نکل چاند پر اپنی مراد کی تصویریں ڈھونڈ لینے اور اپنی عقیدت کی عبارتیں پڑھ لینے والا، اپنے محلے کی بیوہ، یتیم، مسکین اور مظلوم سے بےخبر، اپنی بستی کے دجالوں کے آگے بےبس، تاثیر اور فاعلیت سے تہی، اپنی دنیا سے بیگانہ مسلمان! ہارجیت ہونا تو صاحبو اِس جہان میں کوئی بڑی بات نہیں، [pullquote]وَتِلْكَ الْايَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ،[/pullquote]

    لیکن اس کی نوبت تو تب ہو جب میدان میں کوئی پایا گیا ہو! یہ جو کچھ آج ہو رہا ہے اس کو ’ہار‘ بھی کس منہ سے کہیں، یہ تو نرا یکطرفہ معاملہ ہے!

    غرض نمازیوں کی دلچسپی کے یہ بھی کچھ کام ضرور تھے! حاجیوں اور عمرہ گزاروں کے تھوڑی توجہ کر لینے کی یہ بھی ایک چیز تھی! سنت کی بابت دقیق پیمائشیں رکھنے اور ہر کسی سے جھگڑ آنے والوں کے ’پریشان‘ ہونے کی یہ بھی ایک بات تھی! نیکوکاروں اور ’نظر نیچی رکھنے والوں‘ کے جُتنے کا یہ بھی ایک محاذ تھا! کوئی حرج تو نہیں تھا کہ یہ بھی یہاں کے ارشدوں کے پاس پہنچ لیے ہوتے! ناں ہو جاتی، واپس گھر تو آنے دیا جاتا!

    حضرات و خواتین! یہاں محض ایک واقعہ سے اپنا ربط ڈھونڈنے کی کوشش ہو رہی ہے، ورنہ ایسے وقائع روز ہوتے ہیں، جتنے مرضی پڑھ لیجیے۔ ’’منہج التربیۃ الاسلامیۃ‘‘ میں استاذ محمد قطب سے ہم نے یہ پڑھا کہ صحابہ کو اسباق دلانے کے معاملہ میں ہمارے نبیﷺ کوئی عملی موقع نہ چھوڑتے اور کسی روزمرہ واقعہ کو اپنی پوری قیمت دیےبغیر جانے نہ دیتے۔ راستے میں بکری کا ایک بچہ مرا پڑا دیکھا تو صحابہ کو اس کی طرف متوجہ کر کے کمال اسباق ذہن نشین کرائے۔ بِاَبِی ھُوَ وَاُمِّی، علیہ السلام۔ قوموں میں جوت جگانا ایک خاص سوچ اور توجہ چاہتا ہے۔ یہ ہو تو قدم قدم پر بولتی ہے۔ ماہرینِ تربیت بھی آج یہی کہتے ہیں کہ نظری اسباق کبھی اتنے فائدہ مند نہیں ہوتے جتنی کہ روزمرہ حیات کی واقعاتی آموزش۔ سو اِس باب سے،یہاں چند باتیں ہو رہی ہیں۔ لکھنے والا پڑھنے والوں سے بڑھ کر ہی قصوروار رہا ہو گا، اللہ ہم سب کو معاف فرمائے۔ ایک تہذیبی فاعلیت کی جانب کو رخ کرنا نمازیوں پر لازم ضرور ہے۔ آئیے اس پر توجہ کریں۔ خدا کا شکر ہے خیر کی کچھ کمی ہمارے یہاں نہیں۔ بس ایک بات اگر ہو جائے: سیلف انیشی ایٹو self-initiative لینا اگر ہمارے اِس بھلےمانس دیندار کے اندر آ جائے، جوکہ فاعلیت کا اصل ظہور ہے ، تو شاید یہ سارا پانسہ پلٹ جائے۔
    [pullquote]قَالُوا مَعْذِرَۃ إلَى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّھمْ يَتَّقُونَ[/pullquote]

    البتہ زیادہ باہمت یا زیادہ باوسائل اصحاب کےانیشی ایٹوز initiatives بھی بڑے ہوں گے، خصوصاً اگر وہ کوئی گروپ یا جماعتیں ہوں۔ یا وہ کچھ ’پراجیکٹس‘ میں ڈھل سکنے والے دماغ اور صلاحیتیں ہوں۔ اپنی تہذیبی کشمکش میں یہ مسائل جو اَب کسی نہ کسی صورت ہمیں آئے روز پیش آنے لگے، کچھ زیادہ گہرے اور پائیدار حل مانگتے ہیں۔ ایک فرد میں اگر فاعلیت جگا بھی لی جائے، وہ تو واقعہ پیش آنے پر ہی مقدور بھر کچھ کرے گا۔ وہ بھی اپنی جگہ ضروری ہے، منبرومحراب کو اپنا یہ گمشدہ ’فرد‘ بھی اِس تہذیبی معرکہ کے اندر بازیاب کرانا ہوگا۔ البتہ ایک ’گروپ‘ یا ایک ’پراجیکٹ‘ اِس کھیل میں پہلے سے وکٹ پر جم کر کھڑے تیار چوکس بلے باز کی طرح وقائع کی ’گیند‘ پر نظر رکھتا ہے جو ابھی ہوا میں ہوتی ہے، اور اس کے پہنچنے سے پہلے وہ اس کےلیے اپنی ’سٹروک‘ کا تعین کر چکا ہوتا ہے۔ ایسے مستعد ادارے جو اپنے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سیلز کے ساتھ دُور سے آتی ’گیند‘ کے لیے مناسب ترین اور بروقت ترین سٹروک کا تعین کریں، ہمارے دینی سیکٹر کی اشد ضرورت ہیں اور ہمارے کچھ باصلاحیت لوگوں کو اس کےلیے آگے آنا ہوگا۔ اور پھر صرف ’بیٹنگ‘ نہیں، کھیل میں ’باؤلنگ‘ بھی ہوتی ہے۔ یہ سطح لامحالہ ’فرد‘ سے اوپر کی ہے۔ ’افراد‘ اور ’وسائل‘ کو ایک بڑے پیمانے پر جوت کر کچھ زور آور مقاصدِ حق کو بر لانا اور کچھ خوفناک اجتماعی خطرات سے نبردآزما ہونا باقاعدہ ’ادارے‘ اور ’پراجیکٹس‘ مانگتا ہے۔ اس کے بغیر یہ کھیل ہمارے کھیلنے کا نہیں ہوگا۔ اس کے نہ ہونے کی صورت میں ہمارا ’فرد‘ ایک سطح پر میدان سے باہر ’پیویلین‘ pavilion میں ہی اپنی حاضری لگوا سکے گا اور اپنا تمام جوش و خروش اور اپنے سب ’ایمانی جذبات‘ وہیں پر ہلکے کرتا رہے گا۔ بلاشبہ بہت سے تماشائی کھلاڑیوں سے زیادہ تھک ہار کر سوتے ہیں! البتہ اگر آپ کے پاس پراجیکٹ اور ادارے ہوں تو آپ اِس ’فرد‘ کو لے کر میدان کے اُس حصے میں اتر سکتے ہیں جہاں سے آپ کھیل کے ’نتائج‘ پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

    میرے علم کی حد تک، امت کی تہذیبی جنگ کےلیے پیش بندی اور منصوبہ بندی کرنے والے کوئی ادارے آج یہاں ہمارے پاس نہیں ہیں۔ ملک میں لبرل یلغار کے مقابلے پر اسلامی ایجنڈا کےلیے راتیں جاگنے اور ذہانت سے مہرے ہلانے والے کوئی مختص گروپ یہاں برسر عمل نہیں ہیں۔ کیا خیال ہے ایسے کوئی ادارے اگر یہاں مستعد بیٹھے ہوتے تو چائےوالے کے معاملہ میں چھوٹاموٹا انیشی ایٹو initiative ہمارے لیے کوئی بڑی بات تھی؟ اصل چیز تو اپنے اس بچے کے اندر قدروں پر یقین کو جگانا ہی ہوتا، اور ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے، جس پر نہ ہمارا دعویٰ، نہ مایوسی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ لڑکے پر شوبز والوں کے مقابلے کی بولی لگا دی جاتی۔ لیکن ایمانی فہمائش کے ساتھ ساتھ، اس کو ایسا بھی تو کچھ سجھایا جا سکتا تھا کہ جتنی سی شہرت اس کی نیلی آنکھوں کو مل چکی وہ اس کے کسی موقع کے ریستوران کو مقبول کروانے میں بھی مددگار ہو سکتی ہے اور وہاں ان ’ناریوں‘ کو چائے یا پکوان بیچنا ان کے آگے کولہے مٹکانے سے کہیں بہتر ہے؟ دینی سیکٹر اس بات سے عاجز تو نہیں تھا کہ شوبز والوں کے مقابلے پر ارشد کو کسی اچھے باعزت حلال بزنس میں مدد کی پیشکش کروا دی جاتی۔ اور کچھ نہیں، کسی حاجی صاحب کا ریسٹورنٹ ہی میدان میں آ جاتا۔ یہ تو وہ ملک ہے جہاں غلام احمد بلور نامی ایک فرد امریکہ میں بیٹھے ایک شخص کے سر کی قیمت لگا دیتا ہے۔ بڑھ چڑھ جانے پر آئے، لوگ کروڑ کروڑ کی گائے قربان کر کے گوشت محلے میں بانٹ دیتے ہیں۔ غرض ارشد کو ہماری جانب سے کسی چھوٹی موٹی آفر کی خبر آنا کیا بڑی بات تھی۔ سوت کی اَٹی ہی سہی، دینی سیکٹر کی ایک انٹری تو لگتی۔ معاملے کا ایک فریق نظر آنے میں آخر کیا مسئلہ ہے؟

    ’چائے والا‘ تو محض ایک مثال تھی جو ایک بحران کی جانب توجہ دلانے کا بہانہ بنی۔ اصل میں یہاں ایک خلا ہے جسے پُر کرنا اور اس جانب توجہ لینا ضروری ہو گیا ہے۔ پچھلے دنوں ایک نیک خاتون کا ویڈیو کلپ نظر سے گزرا جو کسی ٹی وی چینل پر مارننگ شو کرتی رہی تھی۔ لیکن دل کی آواز پر اس نے سر ڈھانپنے کا ایمانی فیصلہ کیا اور، حسبِ توقع، جاب کھو بیٹھی۔ متبادل ذریعۂ معاش سے متعلق اپنی سرگزشت سناتے ہوئے خاتون ایک مقام پر آبدیدہ بھی ہوئی۔ ٹھیک ہے وہ کامیاب ہوئی اور خدا نے اس کو سرخرو کیا۔ لیکن اسلامی سیکٹر اس خاتون کے معاملے میں کہاں تھا، جو چینلوں پر بےدینی کی دُہائی دینا کسی وقت نہیں بھولتا؟ کیا یہودی یا عیسائی یا ملحد بھی اپنے عقیدے کی خاطر جاب کھو بیٹھنے والے کسی شخص کو یوں بےیارومددگار چھوڑتے؟ میرا خیال ہے وہ اسے سر پر بٹھاتے، یہ ہیرے صرف ہمارے ہاں رُلتے ہیں۔
    [pullquote]وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُھمْ أوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ إلَّا تَفْعَلُوہ تَكُن فِتْنَۃ فِي الْارْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ (الانفال: 73)[/pullquote]

    ’’کفر کرنے والے بھی ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ مومنو! تم اگر یہ کام نہ کرو گے تو زمین میں ایک فتنہ ہو گا اور ایک بڑا فساد‘‘۔

    ایک اور واقعہ ہمارے ایک قریبی دوست نے سنایا۔ چند برس پیشتر ایک خداشناس عالم جو کسی مدرسہ کے دارالافتاء میں تعینات تھے، آلو چپس کی ایک مشہور کمپنی نے ان سے کوئی فتویٰ مانگا، مگر وہ اس کی طلب کا فتویٰ دینے پر مطمئن نہ تھے، یہاں تک کہ مدرسہ والوں نے ان پر جب فتویٰ دینے کے لیے زور ڈالا اور وہ مسلسل انکاری رہے تو انہیں اپنی جاب سے ہاتھ دھونا پڑے۔ مفتی صاحب بڑے مہینوں تک بےروزگار، آخر چولہا سرد پڑنے کو آیا۔ بھئی عالم کیوں اپنی مالی تنگی کا اظہار گوارا کرے؟ ’امت‘ بھی تو کسی دکھ کا مداوا ہو! کیا واجب نہ تھا کہ اپنی علمی صوابدید پر اصرار کرنے والے ایک عالم کو یہاں سرآنکھوں پر بٹھایا جاتا؟ ہم وہ قوم جو حق گو علماء کے ’واقعات‘ میں تو رغبت خوب رکھتی ہے مگر آزمائش میں ان کے ساتھ کھڑے ہونا ذہن میں نہیں آتا!

    گلہ مگر قوم سے نہیں، چارہ گروں سے ہے۔ امت نہ بخیل ہے اور نہ ایسے کسی محاذ سے رُوگرداں۔ امت سے جو مانگا گیا، آج تک اس نے وہ دیا ہے۔ بس ہم ہی بعض امور کو انجام دینے کے مناسب چینل اسے فراہم نہیں کر سکے۔ لوگ دراصل کچھ خاص روایتی مدّات میں ہی چندے دینے سے مانوس ہیں، اور وہاں بےشک کمی نہیں کرتے۔ ان نئی ضرورتوں کی جانب ان کو لے کر چلنا اور انہیں راستے بنا کر دینا البتہ خواص کا کام ہے جو ذرا ایک قوتِ اقدام مانگتا ہے اور کسی حد تک تخلیقی صلاحیتیں اور اَن چلی راہیں روند ڈالنے کا حوصلہ۔ یہ میدان توجہ دلانے والوں سے ہی آج بہت حد تک خالی ہے۔ ’کارپوریٹ دنیا‘ میں اپنے جینے survival کےلیے اب ہمیں کچھ پہلے سے مختلف چارہ جوئی کرنا ہوگی۔ معلوم ہونا چاہیے، ’فرد‘ اور چھوٹےچھوٹے غیرمنظم ادارے اور ٹھیلے اِس درندے کی من پسند غذا ہیں۔ اِس میدان میں آج ہمیں ایک بالکل نئی تیاری کے ساتھ اترنا ہوگا۔

    میرے خیال میں ایسے وقف سامنے آنا ضروری ہیں جو سماجی میدان میں لادین ایجنڈا کے مقابلے پر ہمیں ایک پیش بند pro-active اندازمیں عمل کی پوزیشن میں لے کر آئیں۔ جبکہ ہم وہ قوم جو دنیا میں ’’اوقاف‘‘ متعارف کروا آئی ہے۔ ہماری تاریخ اس معاملہ میں ناقابل یقین مثالیں پیش کرتی ہے۔ ایک عشرہ پیشتر مجھے چند عرب ملکوں کی سیر پر جانے کا اتفاق ہوا۔ دمشق میں میرے میزبان نے شہر کے ٹی وی سٹیشن کے آس پاس کہیں ایک جگہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: جانتے ہو یہاں کبھی ایک وقف ہوتا تھا اور تم تعجب کرو گے کہ وہ کس مد کےلیے تھا؟ اتنا میں جانتا تھا کہ دمشق اسلامی تہذیب کا پرانا گڑھ ہے، ضرور کوئی خاص بات ہو گی۔ کہنے لگا: دمشق اور اس کے گرد و نواح میں لوگوں کے وہ پالتو جانور جو ذبح نہیں ہو سکتے مانند گھوڑا، گدھا، خچر وغیرہ، عمررسیدہ ہو جانے پر جب گھر والوں کےلیے بےکار اور اُن پر ایک بوجھ ہو جاتے ہیں، تو بعض مالکان ان کی نگہداشت میں کوتاہی کرتے ہیں۔ جانوروں کے ساتھ یہ زیادتی مسلم معاشرہ گوارا نہ کر پایا؛ کچھ لوگوں کے ذاتی انیشی ایٹو initiative پر ایک وقف تشکیل دیا گیا کہ جو آدمی اپنے ناکارہ جانور کا حق ادا کرنے سے قاصر ہے وہ اسے یہاں چھوڑ جائے جہاں وقف کے اموال سے اس کی نگہداشت کی جائے گی۔ (واضح رہے ہماری اکثر تعلیمی، تہذیبی اور عمرانی سرگرمی قصرِسلطانی کے ’فنڈ‘ اور ’آرڈی ننس‘ کی محتاجی سے نابلد رہی ہے۔ ہماری فقہ اور ہماری تہذیب سیلف انیشی ایٹو self-initiative کا ایک جیتاجاگتا نمونہ اور منبع چلی آئی ہے؛ آج اسی ’’خودکار فاعلیت‘‘ کی نیم سرد چنگاری کو شعلۂ جوالہ بنا ڈالنا ہمارے منبر و محراب، مسندِعلم، خانقاہ، قلم اور کلاس روم کو درپیش اصل چیلنج ہے)۔

    غرض اسلامی تہذیب جب جوان تھی تو ایک بوڑھا جانور تک نمازیوں کےدیس میں رُل نہ سکتا تھا۔ (ہمارے سلاطین اُن دنوں بھی اللےتللے فرما ہی لیتے تھے۔ ’سٹیٹ‘ نامی جکڑ البتہ نہ تھی، یہ ایک نئی بلا ہے)۔ مگر آج ہمارا کیساکیسا نوخیز انسانی سرمایہ رُلنے لگا اور خام مال کنٹینروں میں لدا، بےدینی کے کباڑ میں نمک کے بھاؤ تُلنے لگا، ہمارے کیسےکیسے خوبرو ارشد آج شوبز کا لنڈا پہن کر اپنی امت کی مفلسی کا پوز اترواتے ہیں، لمحۂ فکریہ ہے۔ قوموں کی حیاتِ اجتماعی کا ایک بڑا بحران سب کچھ پاس ہوتے ہوئے انیشی ایٹو initiative نہ لے سکنا ہے۔ ایسی قوموں کی ادبیات حالات کا رونا رُلانے میں البتہ کمال پیدا کر لیتی اور اسی کو ایک کام سمجھتی ہیں!
    [pullquote]اللَّھمَّ إنِّي أعُوذُ بِكَ مِنْ الْھمِّ وَالْحَزَنِ، وَأعُوذُ بِكَ مِنْ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَأعُوذُ بِكَ مِنْ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، وَأعُوذُ بِكَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّيْنِ، وَقَھرِ الرِّجَالِ[/pullquote]

  • مذہبی لوگوں کا اخلاقی دیوالیہ پن – حمزہ صیاد

    مذہبی لوگوں کا اخلاقی دیوالیہ پن – حمزہ صیاد

    حمزہ صٰاد مغرب میں پاپائیت کی وجہ سے ایک ردعمل آیا اور وہاں کی اقوام نے یہ فیصلہ کیا کہ اب اس دنیا کے نظام میں خدا کا کوئی رول نہیں ہوگا چناچہ کارگاہ حیات سے مذہب کی مکمل چھٹی کروا دی گئی. یہ سب اہل مذہب کی وجہ سے ہوا.

    اسلام میں پاپائیت کی گنجائش نہیں لیکن عملا ہمارے مذہبی لوگ اسی پاپائیت ہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں. آپ نے اس پاپائیت کے مظاہر دیکھنے ہوں تو فیس بک پر اس کی بہت سی مثالیں ملیں گی. فیس بک کے باہر کی دنیا میں پاپائیت دیکھنی ہو تو جاوید غامدی مکتب فکر کے ساتھ یہاں کے مذہبی لوگوں کا رویہ دیکھیں. ایک صاحب شہید کر دیے گئے، جاوید غامدی صاحب ملک بدر ہوئے. عمار خان ناصر صاحب اور ان کے والد پر پوری دیوبندیت چڑھ دوڑی اور قریب تھا کہ ان کو بھی فری میسن کا ایجنٹ قرار دے کر مار دیا جاتا کہ کچھ لوگ درمیان میں آگئے اور معاملہ رفع دفع ہوا.

    یہ انتہائی خوفناک رویہ ہے جسے ہمارے لوگ بہت سادگی سے لیتے اور بیان کرتے ہیں. دینی مدارس کے اکابرین بہت بڑے لوگ تھے لیکن اب ان کے نام لیواؤں سے زیادہ اخلاقی پستی کا شکار کوئی نہیں ہے. مدارس میں اچھے لوگ بھی ہیں لیکن اس وقت فیس بک پر مدارس کے نمائندے وہ لوگ بنے ہوئے ہیں جو پہلے علاقائی سطح پر فرقہ واریت کرتے تھے اور اب فیس بک پر آ کر یہی کام کر رہے ہیں. یہ لوگ صرف گالیاں دیتے ہیں اور کوئی ان کا کام نہیں ہے. اخلاقی گراوٹ کی انتہا دیکھیے کہ ان میں جو سب سے زیادہ گندی گالی دیتا ہے، وہ سب سے زیادہ متصلب اور اکابر کا حقیقی وارث قرار دیا جاتا ہے. میں نے چن چن کر ایسے لوگوں کو اپنی فرینڈ لسٹ سے نکالا ہے اس لیے کہ یہ جس فکر کے لوگ ہیں ہم جیسا آدمی ان کے ساتھ نہیں چل سکتا. میں اس لیے ان فرینڈ نہیں کر رہا کہ یہ مجھ سے اختلاف رائے رکھتے ہیں بلکہ صرف اس لیے کہ تین چار سال کے تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان سے بات کرنا اور انہیں سمجھانا بلکل بےکار ہے. مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ یہ طعنہ دیتے ہیں کہ ہم زمانے سے مرعوب ہیں اور حال ان کا یہ ہے کہ زمانے سے یہ خود کوئی واقفیت نہیں رکھتے. یہ بات تو وہ شخص کہہ سکتا ہے جو زمانہ شناس ہو اور پھر اپنی زمانہ شناسی کی وجہ سے کسی پر زمانے کے اثرات کا پتہ لگائے. ان لوگوں نے تو کبھی اپنے آپ کو باہر کی ہوا نہیں لگنے دی تو انہیں کیا پتہ زمانہ کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہیں. ابن خلدون نے کہا تھا کہ جب کسی چیز پر زوال پوری طرح چھا جائے تو پھر زوال مکمل ہو کر ہی رہتا ہے، اس چیز کو کوئی بچا نہیں سکتا. جب زوال آتا ہے تو وہ ہمہ گیر ہوتا ہے، علمی بھی ہوتا ہے ، فکری بھی اور اخلاقی بھی.

    دینی مدارس کا عروج کا دور گزر چکا، اب زوال ہے اور بدترین زوال ہے، اور یہ زوال علمی، فکری اور اخلاقی ہر میدان میں ہے. بس انتظار اس کا ہے کہ صرف دینی مدارس کی یہاں سے چھٹی ہوگی یا پھر یہ لوگ مذہب کی چھٹی کروانے میں بھی کامیاب ہوں گے.

  • احمد جاوید صاحب کے انٹرویو کا ایک جائزہ – شہیر شجاع

    احمد جاوید صاحب کے انٹرویو کا ایک جائزہ – شہیر شجاع

    احمد جاوید صاحب وہ علمی شخصیت ہیں جن کو سننا اور پڑھنا ایک طالبعلم کے لیے خواب سی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کا ہر جملہ اس قدر لطیف، جمیل، جامع و معنویت سے بھرپور ہوتا ہے کہ قاری کے لیے آگے بڑھنا دشوار ہوجاتا ہے۔ الفاظ کا چناؤ، جملے کا اختصار اور پھر اس میں جامعیت پیدا کرنا اس کے ساتھ معنویت کا سمندر بہا دینا، ہر چند ان کے علمی قد کاٹھ کی نشانی ہے۔ زبان و بیان، دین و ادب سے محبت کرنے والا ذہن اس کی چاشنی میں بھیگ جاتا ہے، مگن ہوجاتا ہے، معنوی سمندر کی لہروں میں اپنے وجود کو بےخطر چھوڑ دیتا ہے، اور ادراک کے مختلف خزانوں تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ جس کے اثر میں مختلف پر بہار کیفیات اس کی روح کو سرشار کرتی جاتی ہیں۔ لفظ و جملے میں بسا جمال سرسراتے ہوئے، وجود کو تازگی کی اک خاص لہر سے متعارف کراتا ہے۔ اور ادب کی تعریف بےاختیار عیاں ہوجاتی ہے۔

    آج ہم اپنے اطراف میں نگاہ دوڑائیں تو بےشمار نامور علماء ہمیں نظر آئیں گے۔ ان میں چند ایک ہی ایسے ہوں گے جن میں علم اپنے اسباب و علل، تحلیل و تاثر کے ساتھ موجود ہے۔ جو ان کی شخصیت میں تواضع، انکسار و ایثار پیدا کرتا ہے۔ یہی اخلاقی تربیت وہ عام کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی مسائل پر ان کی نگاہیں مرکوز رہتی ہیں اور اس کے حل کے لیے ہمہ وقت برسر پیکار رہتے ہیں۔ ان چنیدہ افراد میں ایک چمکتا ستارہ بلا شک و شبہ احمد جاوید صاحب ہیں جن کا حال ہی میں دنیا نیوز کے سنڈے میگزین میں انٹرویو شایع ہوا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے شعور کو بنا کسی بنیاد فراہم کیے بھٹکنے پر مجبور کردیا ہے اور اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دیتے رہتے ہیں کہ معاشرہ روبہ زوال ہے اس میں ہمارا کیا قصور؟ اسی نکتے پر احمد جاوید صاحب تصور علم اور تصور اخلاق کو بنیاد بناتے ہوئےگفتگو فرما رہے ہیں اور مسلم و مغربی معاشرے کے تصور اخلاق کی تفریق کو واضح کر رہے ہیں۔ آخر میں ادب پر بھی سیر حاصل گفتگو فرمائی گئی ہے جو کہ ادب کے طلبہ کے لیے نادر و مفید خیالات پر مبنی بنیاد ہونے کے قابل ہے۔

    احمد جاوید صاحب انسان کو کائنات سے تشبیہ دیتے ہوئے علم اور اخلاق کو قطبین کا درجہ دیتے ہیں جو کہ انسان کے لیے اعتدال کے ساتھ اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں ناگزیر ہیں۔ فرماتے ہیں ”علم نام ہے کسی بات کی سیاق و سباق میں درست معنویت کا“۔ ایک مختصر جملے میں ”تصور علم“ کو کس قدر خوش اسلوبی کے ساتھ سمو رہے ہیں۔ اس کی تشریح بھی حضرت کی ہی زبان میں بیان کی جائے جیسے ”شعور کا شے پر غالب آجانا، ذہن کا شے پر متصرف ہوجانا“، یعنی ذہن کا شے پر مکمل دسترس حاصل کرلینا جیسے کہ آقا کا غلام پر مکمل اختیار وغیرہ۔ اور تصور اخلاق کی تعریف فرماتے ہیں ”اخلاق، تعلق کے شعور اور احساس کا نام ہے، اور مسلم اخلاقیات تعلق باللہ کے مرکز سے پھوٹتی ہیں“۔ یعنی اللہ سے تعلق سے آگاہی اور ذوق جب احساسات میں شامل ہوجائے اور وجود اس عمل پیرا ہوجائے تو یہ اخلاق ہے۔ چونکہ مسلم عقیدہ بندگی رب ذوالجلال ہے لہذا یہ مرکزیت اللہ جل شانہ کی جانب ہی ہوگی۔

    مزید حضرت کے اقوال سے ہم کیا معانی اخذ کرتے ہیں اس کی تفصیل کچھ یوں ہوگی۔ معاشرے میں ظاہری بود و باش سے اثر لینے کا رواج ہو چلا ہے اور اس حد تک اپنی جڑیں مضبوط کرچکا ہے کہ باطن کی جانب توجہ نہیں رہی۔ محض ظاہری طور پر دیندار لباس، خدو خال اور عام حالات میں مذہبی زندگی گزارتے ہوئے افراد کو دیکھ کر ہمارا ذہن راسخ ہوجاتا ہے کہ فلاں افراد مذہبی ہیں، جبکہ مغربی ثقافتی بود و باش کے حاملین کو اس تصور سے باہر کردیتے ہیں۔ چونکہ ہمارا معاشرہ علمی سطح پر دو مختلف طبقات میں تقسیم ہوچکا ہے اور علمی انحطاط کے ساتھ ساتھ اخلاقی زوال کا بھی شکار ہے، معاشرے نے مذہبی و عصری علوم کو دو مختلف علوم تک محدود کردیا ہے، چہ جائیکہ ہر شعبہ علم اختصاصی ہوتا ہے۔ ہر شعبے کا عالم اپنے آپ میں جید ہونا ضروری ہے مگر اس افتراق نے عصری علوم کو مجموعی طور پر علیحدہ مقام پر لا کھڑا کیا اور دینی علوم کو علیحدہ۔ اس سے یہ ہوا کہ دونوں طبقات نے اپنے اپنے مقام پر اجارہ داری قائم کرلی۔ مذہبی علوم کے ماہرین کو اہل مذہب قرار دے دیا گیا اور جدید تعلیم یافتہ طبقے کو اہل عصر، جو کہ کسی بھی طور پر معاشرے کی بقا کے بہتر نتائج کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ اہل مذہب نے معاشرے پر اپنی دھاک بٹھانے کی جانب توجہ دی اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ اپنے آپ کو ناگزیر گردانتا ہے۔ اس نکتے پر حضرت ایک نہایت ہی بہترین فلسفہ بیان کرتے ہیں ۔
    فرماتے ہیں:
    ”عقیدے کو شعور کا وہ مرکز نہیں بنایا جا سکا، جس سے وابستہ رہ کر شعور اپنے تخیلات، نظریات، افکار وغیرہ کا نظام چلاتا ہے، یعنی عقیدہ ایک مجموعی تناظر کی طرح ہوتا ہے جس کی روشنی میں شعور عارضی یا مستقل فیصلے کرتا ہے اور ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہوا کہ عقیدہ اور شعور کے درمیان اس ناگزیر تعلق کی نوعیت اور اہمیت کو نہیں سمجھا گیا۔“

    یہاں شعور کی بنیاد کو تعلق باللہ سے جوڑتے ہوئے وحی کی حقیقت و اہمیت پر زور ہے۔ عقیدہ کیا ہے؟ یوں کہہ لیں حاکمیت اعلی کا تصور یا دنیا میں وجود پذیر ہونے والا ہر عنصر ہر عمل بنا مشیت ایزدی کے انجام پذیر نہیں ہوتا۔ جب اس عقیدے کو شعور کے لیے مرکزیت دی جائے گی تو ہر مسئلہ بصری، نظری، عللی وغیرہ کو پرکھنے اور اس کا صحیح ادار ک حاصل کرنے کے لیے جب شعور اپنا میکینزم شروع کرے گا تو وہ اس بنیادی پراسس سے گزرتے ہوئے تصویر تخلیق کرے گا۔ اب ہوا کیا؟ ہمارے تمام علمی ذرائع، اسباب و علل، ماخذ و محلات میں کہیں اس بنیادی ضرورت پر زور نہیں دیا گیا۔ جس بنا پر معاشرہ شعوری انحطاط کا شکار ہو کر علمیت کی ادنی سطح سے بھی باہر ہوگیا۔ جہل نے اپنا مقام مستقل کرلیا اور اس پر معاشرہ مصر بھی ہوگیا۔ اسی بات کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ”آج کے آدمی کی علمی نشونما اور اخلاقی ترقی کے بےشمار مراحل میں کوئی ایک مرحلہ بھی دکھایا نہیں جا سکتا جو مذہبی رہنمائی میں طے کیا گیا ہو یا جہاں سرے سے مذہب کی کوئی ضرورت ہو۔ یہ ایک ایسی ہولناک صورتحال ہے کہ انسان کو عالمگیر سطح پر اپنی ذہنی، اخلاقی، نفسیاتی اور جمالیاتی تکمیل کے لیے مذہب کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔“

    اور سیکولرازم و لبرل ازم وغیرہ کی ضرورت معاشرہ محسوس کرنے لگا، اس پر مستزاد یہ کہ نعرے بھی جدید تعلیم یافتہ طبقے کی جانب سے اٹھے۔ ساتھ ساتھ اہل مذہب کے نمائندگان کی صفوں سے بھی اس قسم کا شور معاشرے نے سنا۔ پھر اس کا نوحہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
    ”ہمارا مذہبی ذہن علم کیا ہے؟ کا جواب فراہم کرنے کے معاملے میں بے بس اور پس ماندہ ہوکر رہ گیا۔“
    مذہبی ذہن سے کیا مراد ہے؟ ہرمسلمان کا ذہن اپنی بنیاد میں مذہبی ہے۔ اور معاشرت، طرز زندگی، غرض تمام تر نظریات کی تخلیق کا پراسس اسی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ خواہ اس حقیقت کا ادراک ہو یا نہ ہو۔
    فرماتے ہیں:
    ”انسان اپنی انفرادی بناوٹ میں کیا ہے اور اجتماعی ساخت میں کیا ہے؟ ان دونوں سوالوں کا جو جواب دیتا ہے، اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ایک سچے مسلم معاشرے میں اسلام انفرادیت کو ذوق عبادت اور اجتماعیت کو بے لوثی، انکسار اور ایثار پر استوار کرتا ہے۔“
    ذوق عبادت کیا ہے؟ حقوق اللہ و حقوق العباد۔ کیا وہ اللہ جل شانہ کی جانب سے پابند کیےگئے افعال و اعمال پر متوجہ ہے؟ اور اپنے متعلقین و غیر متعلقین کے ساتھ اس کے معاملات کیسے ہیں؟ الغرض زندگی کے ہر پیش آنے والے امور میں اس کا رویہ کیا ہے؟ وغیرہ۔ اور پھر یہی مفردات جب اجتماعی شکل اختیار کرلیتے ہیں، تعلق باللہ کو بنیاد بناتے ہوئے تو پھر منظم و مثالی معاشرہ تخلیق پاتا ہے، جو بےلوثی و انکساری، ایثار و محبت، بھائی چارگی اور خلوص وغیرہ کا مرقع ہوتا ہے۔
    اسی بات پر ایک جملہ حضرت فرماتے ہیں:
    ”دین اگر باطن کا انقلاب نہ بنے تو باہر کی دنیا میں شور شرابے سے زیادہ کچھ پیدا نہیں کرسکتا.“

    مسئلہ یہ ہے کہ ہم جب کبھی دین کا ذکر کرتے ہیں تو ہمارا تصور اہل مذہب کی جانب رخ اختیار کرلیتا ہے۔ اور اہل عصر کو اس سے معاف سمجھتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اہل عصر کا دین کیا کوئی جدا دین ہے؟ آج کے معاشرتی اخلاقی زوال پر آپ اسی نکتے پر زور دیتے ہوئے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو سب سے زیادہ قصور وار گردانتے ہیں، اور اخلاقی و علمی پسماندگی کا سب سے اہم موجب جدید تعلیم یافتہ طبقے کو قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو مغربی تصورات کے ماتحت کرلیا اور دین سے محض اس حد تک ناطہ رکھا کہ وہ مسلمان کہلائیں، اور کلمہ شہادت یاد رکھیں۔ بس اتنے میں ہی ان کی اخلاقی و دینی ذمہ داری مکمل ہوجاتی ہو۔
    فرماتے ہیں:
    ”تہذیبوں میں تبدیلی کا یہ اصول ہے کہ تبدیلی نظری نہیں اخلاقی ہوتی ہے۔“
    کیا شاندار تشخیص فرمارہے ہیں۔ معاشرہ مسلسل نظریاتی بنیادوں پر بحث و مباحثے کے ذریعے تبدیلی کا خواہاں ہے۔ اور اخلاقی پہلو یکسر نظر انداز ہے۔ اخلاقی پہلو کیا ہے؟
    اس پر دونوں عملی طبقات پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ”احیائے دین کا کوئی امکان اخلاق اور معاشرتی تناظر سے باہر نہیں۔ ہم سے غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے اس انتہائی بڑے مقصد کو ضرورت سے زیادہ سیاسی بنا دیا اور اس کی نفسیاتی، ذہنی اور تہذیبی ساخت پر کوئی توجہ نہیں دی۔“

    اور اہل مذہب پر انفرادی نقد یوں کرتے ہیں:
    ”علماء سے اصل کوتاہی اخلاقی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنے عمل سے اپنی شخصیت سے دین کو پر کشش اور بدلتے ہوئے حالات میں مؤثر نہ بنا سکے۔“
    یعنی انسان ہمیشہ اپنی فطری کشش کی جانب کھنچا چلا جاتا ہے۔ اور جہاں اس کے فطری تقاضے باہم ٹکرائیں، وہ متنفر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان نہایت ہی باریک لکیر ہے جس کا اندازہ اصحاب علوم و اصلاح کو یقینا ہونا چاہیے۔ اسی نکتے کو بیان کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ اگر علماء دین کو معاشرے کے عام فرد کے لیے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں پر کشش بناتے تو آج کے حالات یکسر مختلف ہوتے۔ انہوں نے اس جانب توجہ نہیں دی اور اپنے اذہان کو مشقت میں ڈالنا پسند نہیں کیا۔
    فرماتے ہیں:
    ”اس صورتحال کا دوسرا سبب یہ ہے کہ ہم دین اور اخلاق کے باہمی ربط اور اس کے نتائج کو سمجھنے اور پیدا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوئے ہیں۔ اِس وقت مذہبی اخلاق، معروف اخلاق سے بہت کم تر، ان گھڑ محسوس ہوتی ہے۔“
    یہاں مذہبی اخلاق سے مراد اہل مذہب نہیں بلکہ معروف اخلاق سے مذہبی اخلاق کی تفریق کی گئی ہے۔ معروف اخلاق وہ ہیں جو انسان میں فطرتا پائے جاتے ہیں جیسے سچ بولنا، کسی کو ایذا نہ پہنچانا وغیرہ۔ اور مذہبی اخلاق میں وہ تمام امور جن میں جوابدہی کی بنیاد انسانی ضمیر یا معاشرہ نہیں بلکہ اللہ جل شانہ ہے۔ اس ضمن میں کوتاہی ہر طبقے میں موجود ہے اور اس قدر ہے کہ حضرت اسے ان گھڑ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ خواہ وہ اہل مذہب ہوں یا اہل عصر۔ دونوں جانب ظاہری و ذاتی و جذباتی رجحانات نے زور پکڑ رکھا ہے جن کے درمیان معاشرہ پستا جا رہا ہے، اذہان تباہ ہورہے ہیں اور شعور کی سطح پست ہوتی جارہی ہے۔

    مزیدفرماتے ہیں:
    ”قرآن کا فہم مخاطب قرآن کو جانے بغیر ممکن نہیں۔“
    یہاں بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ انسان کی اہمیت اور اس کے فطری تقاضوں کی جانب توجہ دی جانی چاہیے تھی کہ ان عوامل پر اگر توجہ دی جاتی تو اسلام کا تصور نہایت پرکشش ہو سکتا تھا۔ اختصاصی طور پر تو افراد مذہب کی پناہ میں آجاتے ہیں مگر اس کے اسباب عام نہیں ہوتے۔ علماء کو عام اسباب و علل کی جانب توجہ دینے کی ضرورت تھی۔
    اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے اجتہاد کے دروازے کھولنے کے سوال پر فرماتے ہیں:
    ”اہل مذہب کا مجموعی ذہنی، اخلاقی اور جمالیاتی رویہ انسان کی وجودی پیش رفت میں رکاوٹ بنتا محسوس ہو رہا ہے۔ آج کل کے حامیان اجتہاد، دین سے کوئی سنجیدہ تعلق نہیں رکھتے اور خود نفس دین میں تبدیلی کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہماری ذہنی اور تہذیبی سطح کو دیکھتے ہوئے اگر مجتہدوں کی کھیپ بھی پیدا ہوجائے تو اس کا نتیجہ انتشار کی صورت میں نکلے گا۔“
    وجہ اس کی واضح ہے۔ معاشرہ طبقات و تفرقات کا مجموعہ ہو چکا ہے۔ مزید یہ کہ ماہرین علوم کی اکثر تعداد کا دین کے ساتھ کوئی خاص تعلق خاطر رہا نہیں۔ ذات و مفاد خواہ طبقاتی ہوں یا ذاتی، اس نے پہلی ترجیح کا درجہ حاصل کرلیا ہے جبکہ دوسری جانب صورتحال ایسی ہے کہ نفس دین ہی تبدیل کردیا جائے۔ اس مجموعی تناظر میں اگر اس باب کو کھولا بھی گیا تو ایک نئے انتشار نے جنم لینا ہے۔ مختلف آوازوں کے شور میں کہیں نفس دین کے رہے سہے شعلے بھی مدھم نہ ہوجائیں۔

    مغربی اخلاقی اقدار کی تعریف پر بہت مدلل گفتگو فرماتے ہیں جس کے جملہ اجزا و نکات پر غور کیا جائے تو سیکولر و لبرل نظریات کی مکمل نفی ہوجاتی ہے۔ دل تو کرتا ہے کہ اسے مکمل یہاں نقل کردوں جبکہ کوشش یہی رہی ہے کہ اکثر احباب جو جناب احمد جاوید صاحب سے نامانوس ہیں یا کم از کم ان کا انٹرویو ان کی نظر سے نہ گزرا ہو یا اگر گزرا بھی ہو تو ان کی نگاہ سرسری ہی رہی ہو ایسے دوستوں کے لیے حضرت کی شخصیت اور ان کے اقوال و فکر کو پر کشش بنا کر پیش کروں اسی لیے کوشش یہی رہی کہ ان کے ذاتی جملوں کو نقل کیا جائے۔ چونکہ انٹرویو خاصا طویل ہے۔ اس کے دوحصے کیے جا سکتے ہیں پہلے حصے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں جبکہ دوسراحصہ ادب سے متعلق ہے، اس پر ہم آئندہ گفتگو کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ اس سوال کے جواب پر ہم اختتام کریں گے جو کہ اس مکمل انٹرویو کی روح کہا جا سکتا ہے، اور جس میں ابتداء میں کی گئی گفتگو کی مکمل تشریح ہمیں مل جائے گی۔

    مختصرا عرض کروں گا۔ فرماتے ہیں:
    فطرت میں موجود خیر کے فعال اجزاء کو اخلاق کہتے ہیں۔ یہ باہم مختلف تہذیبوں کے افراد میں یقینا مشترک بھی ہوسکتے ہیں۔ مگر انفرادی طور پر ان کی بنیاد اور قوانین جو انہیں اصولوں پر کاربند رہنے پر پابند کرتے ہیں وہ مختلف ہوتے ہیں، اور انہی اصولِ اخلاق میں ہمارا اور مغرب کا فرق تضاد کی حد تک پہنچا ہوا ہے۔ ہمارا تصور اخلاق نیت اور خیال آخرت پر قائم ہے جبکہ ادھر نیت اور آخرت غیر متعلق تصورات ہیں۔ مغرب نے اس بات کا ادراک کیا کہ اجتماعی اخلاق کو پابند کیے بنا کامیاب معاشرے کی تخلیق ناگزیر ہے اور اس کا فائدہ بھی انہی کو حاصل ہونا ہے، لہذا انہوں نے اس جانب خصوصی توجہ دی اور ایک کامیاب معاشرہ تخلیق کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ جبکہ اگر غور کیا جائے تو وہاں فرد کا اخلاقی وجود ان کا مسئلہ نہیں رہا۔
    مزید فرماتے ہیں:
    اخلاق جوابدہی کے خوشگوار یقین سے پیدا ہوتا ہے یعنی جبر نہیں ہوتا۔ فرد کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ ریاست یا معاشرے کو جوابدہ ہے۔ یا کم از کم اپنے ضمیر کو جوابدہ ہے۔ یہاں خوشگوار جوابدہی بلاجبر کہنا ہی دراصل انسان کے ذاتی و فطری خدوخال کی جانب اشارہ ہے۔ مغرب نے اس جانب توجہ دیتے ہوئے قوانین وضع کیے ہیں، اس پر عملدرآمد یقینی بنانے پر توجہ دی ہے جبکہ ہمارا اخلاقی تصور تعلق باللہ کے گرد گھومتا ہے۔ ہماری جوابدہی اللہ جل شانہ کو ہے اور اس کا موقع آخرت ہے۔ اس بنیادی تصور کے ماتحت رہتے ہوئے انفرادی اخلاق کی تشکیل ہوتی ہے۔ یہاں ہم جوابدہی کو خوشنودی کے معنی میں لیں تو بات مزید واضح ہوجاتی ہے۔ انسانی جبلت میں ایک بہت ہی اہم عنصر ریا ہے۔ وہ اپنے ہر کام کی توصیف چاہتا ہے۔ سو اگر تعلق باللہ کو بنیاد بنا کر وہ کسی بھی امر کو انجام دے گا تو توصیف اللہ جل شانہ سے چاہے گا۔ جبکہ سیکولر ذہن معاشرے سے توصیف کا متقاضی ہوگا۔

    فرماتے ہیں:
    ”ہم دینی اخلاق اور سیکولر اخلاق میں اصولی فرق محسوس نہیں کرتے۔ سیکولر اخلاق میں خود پسندی کی گنجائش ہے لیکن دینی اخلاق کی بنیاد ہی اس بےنفسی پر ہے جو خود پسندی سے پاک کرتی ہے اور ایثار پر آمادہ کرتی ہے.“
    اس بات سے جوابدہی کے معنی خوشنودی ہونا بالکل واضح ہورہے ہیں۔
    ہم چونکہ دین کو دنیا پر مثبت تخلیقی و تحقیقی مفہوم پر غالب نہ رکھ سکے۔ جس کے سبب سے ہم زندگی کو بنانے، بگاڑنے اور دنیا کو بدلنے اور چلانے کی قوت سے محروم رہ گئے۔ اس محرومی نے ہمارا اخلاقی وجود نہایت پست کردیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہماری اخلاقی پسماندگی اس امر پر دال ہو کہ ہمارا اخلاقی ماخذ یا اخلاقی تصور ہی غلط ہیں۔ ہمیں اس جانب لوٹنے کی ضرورت ہے۔ جسے ہم ترک کرچکے اور اخلاقی زوال نے اس قدر مرعوبیت کی نچلی سطح پر پہنچا دیا کہ جیسے ہم کسی کنویں میں موجود ہوں اور کنویں کے ہول سے جتنی دنیا نظر آتی ہو اسی خوبصورتی کی کشش ہم پر غالب آگئی ہو۔
    فرماتے ہیں:
    ”ہم مغربی بننے کی تگ و دو میں مکمل ناکامی کے بعد اس خواہش تک پہنچیں گے کہ ہمیں اپنے اصل کی طرف لوٹ جانا چاہیے۔“