Tag: اپوزیشن

  • جمعیت علمائے اسلام کی ہر حکومت میں شمولیت، کتنی حقیقت کتنا افسانہ – عادل لطیف

    جمعیت علمائے اسلام کی ہر حکومت میں شمولیت، کتنی حقیقت کتنا افسانہ – عادل لطیف

    عادل لطیف مغربی تہذیب اپنی پوری چمک دمک، آب و تاب کے ساتھ، اسلامی تمدن، اسلامی روایات، اسلامی اخلاق و اقدار پر حملہ آور ہے، اسلامی تہذیب کے نشیمن کے ایک ایک تنکے پر بجلیاں گرائی جا رہی ہیں، یہ تہذیب عالم اسلام کے ایک بڑے طبقے پر فتح حاصل کر چکی ہے، اس کی تابانیوں کے سامنے، اس کی آنکھیں خیرہ، اس کا دل گردیدہ، اس کا دماغ مسحور اور اس کا شعور مفلوج اور مکمل مفلوج ہو چکا ہے. تہذیبوں کے اس تصادم میں ایک جماعت ہے جو ایک ایسے اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے کوشاں ہے جس میں صنعتی، سائنسی، ٹیکنالوجی اور مادی ترقی پورے عروج پر ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب وتمدن، اسلامی اخلاق و ثقافت کسی تحریف و تاویل کے بغیر رائج ہو، ایک ایسا اسلامی معاشرہ جس میں مغرب کے بظاہر خوشنما لیکن درحقیقت جذام زدہ نظام اخلاق و تہذیب سے مرعوبیت کا ذرہ بھر شائبہ نہ ہو، مادی وسائل سے لیس ہونے کے ساتھ اس میں اسلام کی ایک ایک تعلیم اور سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت کو زندگی کے ہر ہر شعبے میں پورے فخر مکمل یقین اور بھرپور اعتماد کے ساتھ اختیار کیا ہو، اس بارے میں کسی قسم کی مداہنت، مصلحت، معذرت اور رواداری کی گنجائش کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا ہو. ایک ایسا مسلمان معاشرہ جو دوسری قوموں کی تہذیب کو پورے احساس برتری کے ساتھ یہ کہہ کر رد کر دیتا ہو کہ کیا ہم اپنے نبی سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ان احمق قوموں کی تہذیب کی خاطر ترک کر دیں.

    اسلام کے اسی بلند اخلاق و کردار کے حاملین کی جماعت کا نام جمعیت علمائے اسلام ہے. اس روح و بدن کی کشمکش میں مغرب نے پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے کیل کانٹوں سے لیس ہو کر جمعیت علماء اسلام کے خلاف بےبنیاد پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے. یار لوگوں کو جمعیت علمائے اسلام کے خلاف کوئی اور ثبوت نہیں ملتا تو بڑے طمطراق سے یہ راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں کہ جمعیت تو اقتدار کی غلام گردش، وزارت کا نشہ، پروٹوکول کی مستی اور دولت کی ہوس کی خوگر ہے، تبھی تو یہ ہر حکومت کی اتحادی ہوتی ہے. یہ بات تو آئندہ سطور میں واضح ہو جائے گی کہ جمعیت نے کتنا وقت حکومت کے ساتھ گذارا ہے اور کتنا اپوزیشن میں، لیکن اس سے پہلے میں وقت کے ان بقراطوں سے یہ سوال پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ کیا کوئی جمہوری پارٹی الیکشن میں حصہ اس لیے لیتی ہے کہ وہ اپوزیشن کی کرسیوں پر بیٹھے یا استعفی دے کر اسمبلیوں سے باہر چلی جائے. ظاہر بات ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہوگا، ہر پارٹی الیکشن لڑتی ہی اس لیے ہے کہ وہ ایوان کا حصہ بنے اور حکومت بنائے، جب ہر پارٹی ہی اقتدار چاہتی ہے تو جمعیت ہی مورد الزام کیوں؟ اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ مفکر اسلام مفتی محمود رحمۃ اللۃ علیہ کی وفات کے بعد سے اور قائد جمعیت کی امارت کے شروع سے لے کر اب تک جمعیت کتنی مرتبہ حکومت کا حصہ رہی اور کتنی مرتبہ مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کیا.

    maulanafazlurrehman قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں جمعیت نے پہلا انتخابی معرکہ 1988ء میں لڑا۔ بہت سارے لوگوں کا خیال تھا کہ جمعیت مفتی محمود کے ساتھ ہی دفن ہوگئی ہے مگر الیکشن 1988ء کے نتائج نے بتادیا کہ جمعیت ابھی زندہ ہے۔ 360526 ووٹ لے کر جمعیت قومی اسمبلی کی 7 سیٹوں پر منتخب ہوئی اور مخالف قوتوں کو تاریخ ساز جواب دیا۔ 1988ء سے لے کر 1990ء تک اس اسمبلی میں جمعیت نے بھرپور انداز میں اپوزیشن کا کردار ادا کیا.
    1990 کے الیکشن میں جمعیت علمائے اسلام نے مجموعی طور پر 622214 ووٹ حاصل کرکے 6 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ 1990ء سے 1993ء کی اس اسمبلی میں بھی جمعیت علمائے اسلام اپوزیشن میں رہی۔
    1993ء کے الیکشن میں جمعیت نے 2 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی، 1993ء سے 1997ء تک کا یہ عرصہ بھی جمعیت اپوزیشن میں رہی۔
    1997ء کے الیکشن میں جمعیت علمائے اسلام نے 324910 ووٹ کے ساتھ 2 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ 1997ء سے 2002ء تک جمعیت نے یہ عرصہ بھی کامیابی کے ساتھ اپوزیشن میں گزارا۔
    2002ء کے الیکشن میں جمعیت نے متحدہ مجلس عمل کے محاذ سے انتخاب لڑتے ہوئے مجموعی طور پر 63 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ 2002ء سے 2008ء تک کا یہ وہ وقت تھا جس میں ایم ایم اے کی قیادت میں جمعیت نے خیبرپختونخوا میں حکومت بنائی مگر مرکز میں حقیقی اپوزیشن کو فروغ دیا اور آج کی یہ اپوزیشن اسی رویہ کا تسلسل ہے جو ایم ایم اے نے متعارف کروایا تھا۔
    2008ء کے الیکشن میں جمعیت علمائے اسلام نے 766260 ووٹوں کے ساتھ 8 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ اور آصف زرداری کی دعوت پر حکومت میں شریک ہوئی.
    2013ء کے الیکشن میں جمعیت نے 1461371 ووٹ کے ساتھ مجموعی طور پر 15 سیٹیں حاصل کیں، اور نوازشریف کی دعوت پر وفاقی حکومت میں شامل ہوئی۔

    اب اگر حقیقت پسندانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو جمعیت علمائے اسلام نے قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں 1988ء سے لے کر 2013ء تک تقریبا 20 سال اپوزیشن میں، جبکہ صرف چھ سال کے لگ بھگ کسی حکومت سے اتحاد میں گزارے. اس جائزہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ جمعیت کے مخالف پروپیگنڈے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ پروپیگنڈہ محض افسانہ ہے. جمعیت مخالفین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جمعیت کوئی پانی کا بلبلہ نہیں ہے جو اٹھتا ہے، کچھ چلتا ہے، فنا ہو جاتا ہے، جمعیت کوئی ٹمٹماتا چراغ نہیں ہے جو چند بھڑکیں مار کر تاریکی کا حصہ بن جاتا ہے، جمعیت بہتی ندی کے کنارے ابھرنے والی جھاگ نہیں ہے جو خشکی تک پہنچنے سے پہلے ختم ہو جاتی ہے. جمعیت ایک حقیقت ہے جس نے ملکی سیاست میں اپنے وجود کو تسلیم کروایا ہے، اس کا مقابلہ کرنا ہے تو سیاست میں کیجیے، دروغ گوئی سے کام مت لیجیے، آخر جھوٹ کی کوئی حد ہوتی ہے.

  • بڑی خبر کا بڑا تنازع۔ حقیقت کیا ہے؟-سلیم صافی

    بڑی خبر کا بڑا تنازع۔ حقیقت کیا ہے؟-سلیم صافی

    saleem safi

    اس حقیقت سے کوئی بڑے سے بڑا شریف بھی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان میں سول ملٹری تنائو کی شکلیں تو بدلتی رہتی ہیں، لیکن ہر دور میں وہ موجود ضروررہتا ہے ۔تاہم شریفوں کے دور میں یہ معمول بعض اوقات حد سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ اپنے ہاتھوں کا تراشا ہوا پتھر اگر بھگوان بننے کی کوشش کرے تو عام بتوں کی بنسبت اس پر زیادہ غصہ آتا ہے۔ اہل صحافت کی صفوں میں بھی اسٹیبلشمنٹ کا زیادہ غصہ ان لوگوں سے متعلق دیکھنے کو ملتا ہے ،جن کو میدان صحافت میں عروج اس کے طفیل حاصل ہوا۔ بدقسمتی سے رائے ونڈ کے شریفوں کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ جب اپنی بلی کے منہ سے اپنے خلاف میائوں میائوں کی آوازیں سنتی ہے تو اسے غصہ بھی کچھ زیادہ آجاتا ہے۔

    دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ شریف نہ تو کھل کر مخالف کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور نہ گجرات کے چوہدریوں یا عمران خان کی طرح شریفانہ طریقے سے اندھی تابعداری کرتے ہیں۔ شریف عدلیہ اورمیڈیا کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی سیاست سے کام لیتے ہیں۔ ضرورت پڑنے یا پھر دبائو آجانے کی صورت میں وہ ہاتھ قدموں میں لے جانے میں دیر نہیں لگاتے لیکن چونکہ تاثر ہے کہ بڑے شریف حد درجہ کینہ پر وربھی ہیں، اس لئے موقع ملتے ہی قدموں میں پڑے ہاتھ گریبان میں لے جانے میں دیر نہیں لگاتے۔یہ بھی تاثر ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے وہ دوبارہ گریبان میں ہاتھ ڈالنے والی پوزیشن میں آگئے تھے اور اداروں کے ساتھ بھی لڑائو اور حکومت کرو والی پالیسی اپنانے لگے تھے۔ اس کا اظہار کبھی وزرا کے بیانات کی صورت میں کیا جاتا ہے، کبھی مختلف عہدوں پر مخصوص قسم کے لوگوں کی تعیناتی کی شکل میں ہوتا ہے تو کبھی کلبھوشن یادیو جیسے ایشوز پر پراسرار خاموشی کی صورت میں۔ دوسری طرف فریق ثانی اپنے طریقے سے اپنا دفاع کرتارہتا ہے۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں کہ جو کم و بیش ہر صحافی اور ہر سیاستدان کے علم میں ہوتے ہیں لیکن بوجوہ کھل کر اس کا ظہار نہیں ہوتا۔ جو صحافی بہت زیادہ بہادر یا پھر ضمیر کے غلام ہوتے ہیں وہ بھی مشکل سے اشاروں کی زبان میں بات کرلیتے ہیں۔ سرکاری طور پر وزیر مشیر دن رات بیانات تو یہ جاری کرتے ہیں کہ فریقین مکمل طور پر ایک صفحے پر ہیں لیکن وہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بول رہے ہیں اور کم وبیش ہر صحافی کو بھی علم ہوتا ہے کہ جو دعویٰ کیا جارہا ہے، وہ حقیقت سے کتنا دورہے۔

    اب کی بار تو بدقسمتی سے میڈیا کی اکثریت بھی دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ایک، ایک کی پراکسی کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور دوسرا، دوسرے کی پراکسی کا۔ اس تناظر میں جب کوئی سورس ،ایسی خبر لے آتا ہے کہ جوسول ملٹری تنائو یا تفریق سے متعلق ہو، تو صحافی بجا طور پر جلدی یقین کرلیتا ہے بلکہ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ہم آہنگی کی علامت کسی خبر پر یقین نہیں کیا جاتا۔ ان حالات میں انگریزی اخبار کے ایک بڑے اور مستند رپورٹر کے پاس خبر لائی گئی اور شاید اسی تناظر میں انہوں نے یقین کرلیاحالانکہ میں نے خبر کی اشاعت یا پھر اس کے بعد اپنے ذرائع سے جو معلومات حاصل کیں، اس کی رو سے میٹنگ میں اگرچہ انہی موضوع پر بات ہوئی تھی لیکن وہ قطعاً اس انداز میں یا پھر تلخ ماحول میں نہیں ہوئی تھی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ یہ موضوعات سول قیادت کی طرف سے اٹھائے گئے تھے بلکہ خود عسکری حکام ایک منصوبہ عمل کے ساتھ اس میٹنگ میں گئے تھے اور جب انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اگلے مرحلے کا منصوبہ عمل سامنے رکھا تو اس پر انتہائی خوشگوار ماحول میں بعض سوالات بھی اٹھائے گئے اور بعض مشکلات کا بھی تذکرہ ہوا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس گفتگو کے دوران بھی سول ملٹری کی تقسیم نہیں تھی کیونکہ بعض سوالات خود عسکری سائیڈ سے اٹھائے گئے اور اسی طرح عسکری سوچ کی نمائندگی بعض وزراء بھی کرتے رہے جبکہ اسی طرح کی بحث کم وبیش کابینہ کی کمیٹی برائے سلامتی جیسے فورمز کی ہر میٹنگ میںمعمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔

    میری اطلاعات کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی یہ تجویز پہلے سے لے کر آئے تھے کہ وفاقی حکومت کے نمائندے کے ساتھ وہ ہر صوبائی ہیڈکوارٹر کا دورہ کریں گے اور وہاں اپنے ادارے کے حکام کو صوبائی حکومتوں کے ساتھ بٹھا کر آگے کا لائحہ عمل طے کریں گے۔ گویا میٹنگ میں انگریزی اخبار کی خبر میں شائع ہونے والے بعض اختلافی موضوعات پر گفتگو ضرورہوئی تھی لیکن نہ توماحول تلخ تھا اور نہ وہاں سول ملٹری کی تقسیم موجود تھی۔ کسی بھی فریق کا انداز طعنے یا ناراضی والا نہیں تھا۔ پھر مکمل ہم آہنگی کے ساتھ آئندہ کا لائحہ عمل بنایا گیا جس کی رو سے صوبائی سطح پر بھی سول ملٹری اداروں کے کوآرڈنیشن کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات ہونے تھے لیکن خبر سے تاثر یہ ملا کہ جیسے انتہائی تلخ ماحول میں ایسی میٹنگ ہوئی کہ جس میں سول ملٹری قیادت دو انتہائوں پر تھی اور جس میں سول قیادت نے ملٹری سائیڈ کو کھری کھری سنائیں۔ ظاہر ہے اس خبر سے کئی حوالے سے نقصان ہوا اور یوں عسکری حلقوں کی ناراضی اور برہمی بلاجواز نہیں تھی۔ پہلا نقصان یہ ہوا کہ ہندوستان کے ساتھ جنگی فضا میں باہر یہ پیغام گیا کہ پاکستان میں سول ملٹری قیادت میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ جو منصوبہ عمل بنایا گیا تھا ،وہ سارے کا سارا سبوتاژ ہوگیا۔ جن لوگوں سے متعلق منصوبہ تھا، ان کو پہلے سے علم ہوگیا اور اس کے لئے جو سول ملٹری ہم آہنگی چاہئے تھی، اس کی طرف قدم تو کیا اٹھتا، الٹا تنائو بڑھ گیا۔

    تیسرا نقصان یہ ہوا کہ اگلے مرحلے میں داخلے کے لئے بعض اہم دوست ملکوں کا بھی دبائو تھا اور ان کے ساتھ کچھ وعدے بھی کئے گئے تھے۔ ان دوست ممالک کو یہ غلط پیغام گیا کہ ان کو جو تاثر دیا گیا تھا، اس کے مطابق عمل کرنے کا ارادہ نہیں ۔اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت پوری قوت کے ساتھ خبر کی تردید کرتی اور ایک دو روز میں تحقیقات مکمل کرکے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرتی لیکن ایسا کرنے کی بجائے معاملے کو تین مختلف تردیدی اور وضاحتی بیانات کے ذریعے مزید خراب کردیا گیا۔ عسکری حلقوں کو یقین ہے اور اس کا اظہار کور کمانڈر ز میٹنگ کے بعد آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں کیا گیا کہ خبرفیڈ (Feed) کی گئی۔ فیڈکرنے والوں کے بارے میں ان کے ہاں یہ قوی خیال ہے کہ وہ حکومتی صف کے بعض اہم ذمہ دار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سارے معاملے کی تحقیق ایک دن میں کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ سانحہ مشرقی پاکستان نہیں کہ جس کے ذمہ داروں کے تعین میں سالوں کی تحقیق درکار ہو لیکن ایسا کرنے کی بجائے حکومت ضدپر اڑ گئی ہے۔

    دوسری طرف حکومتی عہدیدارنجی حلقوںمیں اپنے خلاف سیاسی ہلچل کو ایک بار پھراشارے سے تعبیر کررہے ہیں۔ نتیجتاً پیدا ہونے والی سیاسی بے یقینی اور بداعتمادی کی وجہ سے ملک داخلی اور بالخصوص سفارتی محاذوں پر غیرمعمولی نقصان اٹھارہا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آمنے سامنے بیٹھ کر معاملات کو صاف کرنے اور ضروری اقدامات اٹھانے کی بجائے اب کی بار وزیراعظم صاحب روایتی پراسراریت کی پالیسی پر گامزن ہیں اور ساتھ ہی ساتھ دو نومبر کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینےکے موڈ میں بھی نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جیسے لوگوں کو اس ملک کے نظام کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم جانتے ہیں کہ یہاں آمریت سیاسی ہوتی ہے اور جمہوریت خاندانی آمریت کا دوسرا نام۔ لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ اس وقت چین جتنا پاکستان میں سیاسی استحکام کا متمنی ہے، اتنا امریکہ اورہندوستان، پاکستان میں مارشل لا کا نفاذ چاہتے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ امریکہ نے پھر 1999 والا کام شروع کردیا ہے کہ چور سے کہے چوری کرو اور گھر والے سے کہے بیدار رہو۔

  • اکتوبر کی اچھی خبر کا انتظار-حامد میر

    اکتوبر کی اچھی خبر کا انتظار-حامد میر

    hamid_mir1

    پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اکتوبر کا مہینہ بری خبریں لانے کیلئے بدنام ہے ۔ اچھا ہوا کہ عمران خان نے 30اکتوبر کو اسلام آباد بند کرنے کے اعلان میں تبدیلی کر دی۔ اب وہ 2نومبر کو اسلام آباد بند کریں گے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کو کام نہیں کرنے دیں گے ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی عمران خان کو 2نومبر کو طلب کر لیا ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ پیش نہ ہوئے تو مسلم لیگ (ن) کے اراکین قومی اسمبلی کی طرف سے دائر کردہ درخواست پر یکطرفہ فیصلہ سنا دیا جائے گا ۔ عمران خان کو ان کے مہم جو ساتھیوں نے مشورہ دیا ہے کہ 2نومبر کو ا لیکشن کمیشن میں پیش ہونے کی کوئی ضرورت نہیں اور اگر الیکشن کمیشن عمران خان کے خلاف فیصلہ دیتا ہے تو تحریک انصاف کو ناقابل یقین سیاسی فائدہ ہوگا ۔ تحریک انصاف کے سیاسی فائدے میں پاکستان کی جمہوریت کیلئے نقصانات کے خطرات بھی موجود ہیں اور ان نقصانات کی ذمہ داری صرف عمران خان پر نہیں بلکہ وزیر اعظم نواز شریف پر بھی عائد ہوگی۔ سپریم کورٹ میں ان کے خلاف نااہلی کی درخواستوں پر سماعت 20اکتوبر کو شروع ہو رہی ہے نواز شریف چاہیں تو اکتوبر کو اچھی خبروں کا مہینہ بھی بنا سکتے ہیں لیکن کیسے ؟ اچھی خبروں کے خواب دکھانے سے پہلے یہ خاکسار آپ کو ماضی کے دریچوں میں جھانکنے کی دعوت دیتا ہے تاکہ اکتوبر کی بری خبروں پر نظر ڈال لیں۔

    قیام پاکستان کے صرف چار سال بعد 16اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں پاکستان کےپہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو قتل کر دیا گیا تھا ۔ لیاقت علی خان کے قتل سے مسلم لیگ بکھر کر رہ گئی اور سیاست دانوں کے اختلافات سے سول و ملٹری بیوروکریسی نے خوب فائدہ اٹھایا ۔ اکتوبر 1954ء میں دو اہم شخصیات نے شادیاں کیں ۔ دونوں شادیاں بڑی پر اسرار تھیں اور بعد کے حالات نے ثابت کیا ان شادیوں نے پاکستان کی سیاست پر کچھ اچھے اثرات مرتب نہ کئے ۔ پہلی شادی پاکستان کے سیکرٹری دفاع میجر جنرل اسکندر مرزا نے کی، یہ انکی پہلی نہیں دوسری شادی تھی ۔ انکی پہلی بیوی کا نام رفعت مرزا تھا جن کے ساتھ انکی شادی 1922ء میں ہوئی تھی ۔ناہید مرزا کے ساتھ انہوں نے اکتوبر 1954ء میں شادی کی ۔ یہ موصوفہ پاکستان میں ایران کے ملٹری اتاشی کرنل افغامے کی زوجہ تھیں لیکن انہوں نے اپنے خاوند کو چھوڑ کر اسکندر مرزا سے شادی کرلی ۔ جبکہ اسکندر مرزا نے اپنے بیٹے ہمایوں مرزا کو دوسری شادی کے متعلق بتایا تو بیٹے نے بھی باپ کو ایک بریکنگ نیوز دی ۔

    ہمایوں مرزا نے باپ کو بتایا کہ وہ پاکستان میں امریکی سفیر مسٹر ہلڈرچ کی بیٹی سے شادی کر رہا ہے ۔ اس طرح اکتوبر 1954ء میں پاکستان کے سیکرٹری دفاع نے ایک غیر ملکی سفارتکار کی بیوی اور ان کے بیٹے نے غیر ملکی سفارتکار کی بیٹی سے شادی کر لی ۔ 1955ء میں اسکندر مرزا پاکستان کے گورنر جنرل بن گئے \1956ء کا آئین نافذ ہونے کے بعد وہ گورنر جنرل سے صدر پاکستان بن گئے لیکن اختیارات وزر اعظم کے پاس جانے پر خوش نہ تھے ۔ 7اکتوبر 1958ء کو انہوں نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا ۔ کچھ ہی دنوں کے بعد 27اکتوبر 1958ء کو جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا سے زبردستی استعفیٰ لے لیا اور انہیں ملک بدر کر دیا ۔ ہمایوں مرزا نے اپنے خاندان کے بارے میں ایک کتاب لکھی جو ’’فرام پلاسی ٹو پاکستان‘‘ کے نام سے امریکہ میں شائع ہوئی ۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنے والد کے علاوہ اپنے بزرگ سید جعفر علی خان نجفی کے بارے میں بھی کئی انکشافات کئے جو میر جعفر کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ سید جعفر علی خان نجفی کے والد سید محمد فتح علی مرزا عراق کے شہر نجف کے گورنر سید حسین نجفی کے برخوردار تھے ۔وہ شہنشاہ اورنگزیب کے زمانے میں ہندوستان آئے ۔ سید جعفر علی خان نجفی بنگال کی فوج میں بھرتی ہو گئے ۔ جب وہ بنگال کے میر سپاہ ( آرمی چیف ) مقرر ہوئے تو میر جعفر کہلانے لگے ۔ ہمایوں مرزا نے لکھا ہے کہ سید جعفر علی خان نجفی نے ایک ناچنے و الی منی بیگم سے دوسری شادی کی اور اس کے ذریعہ انگریزوں سے روابط قائم کئے اور سراج الدولہ کو دھوکہ دیا ۔ انگریزوں نے منی بیگم کو ’’مادر ایسٹ انڈیا کمپنی ‘‘ کا خطاب دیا ۔

    ہمایوں مرزا نے اپنے والد اسکندر مرزا کے خلاف جنرل ایوب خان کی فوجی بغاوت کی وجہ اپنی سوتیلی ماں ناہید کو قرار دیا ہے کیونکہ اس خاتون کے ساتھ شادی کے باعث ان کے والد اپنی فوج کی نظروں میں مشکوک ہو چکے تھے ۔ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو جلاوطن کر دیا ۔13نومبر 1969ء کو اسکندر مرزا لندن میں فوت ہوئے تو جنرل یحییٰ خان اقتدار میں تھے ۔ انہوں نے اسکندر مرزا کو پاکستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ دی اسکندر مرزا کا جسد خاکی لندن سے تہران لایا گیا جہاں انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔ ہمایوں مرزا نے وہ وجہ نہیں لکھی جس کے باعث ان کے والد کو پاکستان میں دفن نہ کرنے دیا گیا۔ انکی کتاب میں جنرل ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ انکی خط وکتابت کی تفصیلات خاصی حیران کن ہیں۔ سب سے اہم خط امریکہ کے سیکرٹری خارجہ جان فاسٹر ڈلس کا ہے جو انہوں نے 17اکتوبر 1958ء کو اسکندر مرزا کے نام لکھا اور جس میں جمہوریت ختم کرنے پر اسکندر مرزا اور ایوب خان دونوں کو شاباش دی گئی ۔اس خط میں جان فاسٹر ڈلس نے اسکندر مرزا کو بنیادی جمہوریت کے نظام سے روشناس کرایا اور بتایا کہ کس طرح ایک زمانے میں امریکی صدر کا انتخاب براہ راست نہیں بلکہ کچھ منتخب نمائندوں کے ذریعہ ہوتا تھا ۔ بعد میں ایوب خان نے اس نظام کو پاکستان میں نافذ کر دیا اور اس نظام کے ذریعہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی الیکشن میں شکست دی ۔

    اکتوبر کی بری خبروں کا ذکر آیا ہے تو ہمیں 15اکتوبر 1977ء کو نہیں بھولنا چاہئے جولائی 1977ء کی فوجی بغاوت سے قبل ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت اور اس وقت کی اپوزیشن میں طے پایا تھا کہ 15اکتوبر 1977ء کو انتخابات ہونگے لیکن جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا ۔ یہ انتخابات کبھی نہ ہو سکے۔ پھر 12اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کو برطرف کر دیا ۔ کچھ دن تک اسمبلیاں ختم نہ کی گئیں اور پارلیمینٹ کے اندر سے تبدیلی لانے کی کوشش ہوئی لیکن شہباز شریف نے اپنے بھائی کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا ۔ چودھری نثار علی خان بھی نہ مانے اور آخر کار اسمبلیاں توڑ دی گئیں ۔ 18اکتوبر 2007ء کو کراچی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے استقبالی جلوس میں 180سیاسی کارکنوں کی شہادت بھی ناقابل فراموش ہے اکتوبر کی کچھ اور بری خبروں کا ذکر اس کالم کو بہت طویل کر دےگا ۔ 6اکتوبر 2016ء کو ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی خبر نے بھی پورے نظام کو ہلا دیا ہے اور اس خبر کے سورس کو بے نقاب کئے بغیر موجودہ حکومت دبائو سے نہیں نکلے گی۔

    اکتوبر 2016ء میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں جلدی جلدی اپنے جماعتی انتخابات مکمل کرنے میں مصروف ہیں کیونکہ انہوں نے بلدیاتی اداروں کی مخصوص نشستوں پر اپنے امیدواروں کیلئے انتخابی نشان حاصل کرنے ہیں ۔ ان انتخابات پر اعتراض کی کافی گنجائش موجود ہے لیکن ہم ان انتخابات کو درست سمت میں ایک چھوٹا سا قدم قرار دیکر وزیر اعظم نواز شریف سے گزارش کرتے ہیں کہ ہمیں اکتوبر میں کوئی بہت اچھی خبر دیدیں پانامہ پیپرز کا معاملہ اپریل میں آیا تھا اب اکتوبر ختم ہونے والا ہے ۔ اس معاملے کو لٹکا کر پاکستان کی سیاست میں غیر ضروری کشیدگی اور بے چینی پیدا کر دی گئ ہے ۔ اگر وزیر اعظم کا دامن صاف ہے تو انہیں اس معاملے میں اپوزیشن کی شرائط کے مطابق خود کو احتساب کیلئے پیش کرنے میں لیت ولعل سے کام نہیں لینا چاہئے ۔ اگر ان پر الزام ثابت نہ ہوا تو انہیں چور کہنے والے جھوٹے ثابت ہو جائیں گے۔ پانامہ پیپرز کی تحقیقات کیلئے اپوزیشن کی شرائط کو ماننے کا اعلان نواز شریف کی طرف سے قوم کیلئے ایک تحفہ ہوگا جو اکتوبر کی ایک اچھی خبر کے طورپر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

  • متاعِ دین و دانش-ہارون الرشید

    متاعِ دین و دانش-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed
    سنا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی تائید سے‘ عمران خان کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کا ایک اتحاد تشکیل پانے والا ہے۔ سنا ہے کہ جماعت اسلامی بھی اس میں شامل ہو سکتی ہے۔ سنا ہے! ؎

    متاع دین و دانش لٹ گئی‘ اللہ والوں کی
    یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خوں ریز ہے ساقی

    کیا مولانا فضل الرحمن کے گھر پہ بلاول بھٹو کی حاضری تعجبّ انگیز ہے؟ کیا یہ حیرت کی بات ہے کہ مولوی صاحب نے پہلے سے اس کے لئے تحائف خرید رکھے تھے؟ کیا یہ دعویٰ غیر متوقع ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کو کبھی غدّاری کا طعنہ نہیں دیا تھا؟ اگر ایک ذرا سا بھی حسن ظن ہو‘ اور ایک ذرا سے حسن ظن کے بغیر زندگی نہیں گزرتی‘ تو ایسی خوشگوار ملاقات کی امید کم تھی۔ کس قدر یہ چونکا دینے والی بات ہے۔ پاکستانی سیاست میں مگر کسی بھی وقت‘ کسی بھی چیز کی امید کی جا سکتی ہے۔ اخبار نویس خود کو کیسا ہی تیس مار خان سمجھیں ایسے کرتب ہمارے لیڈر دکھا سکتے ہیں کہ وہ دانتوں میں انگلیاں داب کر رہ جائیں‘ شرمندہ ہوں اور خود سے سوال کریں۔ ؎

    درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
    چراغِ رہگزر کو کیا خبر ہے

    جنرل پرویز مشرف کے دور میں چار سالہ اسیری کے بعد‘ جاوید ہاشمی رہا ہوئے تو حضرت مولانا سے ان کی ملاقات ہوئی۔ جاوید ہاشمی سے وہ گلے ملے تو رہا ہونے والے قیدی کو انہوں نے چوما۔ عرب اسے بوسہء تکریم کہتے ہیں۔ جواباً جاوید نے بھی کوشش کی‘ پھر ہنستے ہوئے کہا: اب میں آپ کو کہاں چوموں… کہ چاروں طرف بالوں کا ڈھیر ہے۔ چالیس برس ہوتے ہیں‘ شاعر منیر نیازی روزنامہ مساوات مرحوم کے دفتر میں اپنے دوست عباس اطہر سے ملنے گئے۔ اس نادر روزگار نیوز ایڈیٹر کو‘ اخبار کے صفحے پر جو شاعری کیا کرتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مشہور زمانہ تقریر پر‘ جس میں بھٹو مرحوم نے‘ ڈھاکہ جانے والے ارکان اسمبلی کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی تھی‘ جس نے سرخی جمائی تھی ”اُدھر تم‘ اِدھر ہم‘‘۔ عباس اطہر سے تو شاعر کی ملاقات نہ ہو سکی‘ شوکت صدیقی وہاں موجود تھے۔ وہی ”خدا کی بستی کے مصنف‘‘۔ ایک عظیم افسانہ نگار‘ جس کی یاد باقی رہے گی۔ شوکت صاحب کلین شیو تھے‘ لیکن سر بالوں سے بھرا ہوا‘ مونچھیں تو تھیں ہی‘کانوں پر بھی بال۔ داتا دربار کے قریب شب دفتر سے مال روڈ پر‘ لاہور پریس کلب کو لوٹتے ہوئے‘ پاک ٹی ہائوس کے سامنے‘ منیر نیازی سے‘ عباس اطہر کا آمنا سامنا ہو گیا۔ گرما کی شدت میں‘ درجن بھر مداح دونوں کے ساتھ تھے۔ چاندنی کا کرتا شلوار پہنے‘ قدآور اور وجیہ منیر ترنگ میں تھے۔ بولے عباس! میں تمہارے دفتر گیا تھا‘ وہاں تمہارا ایڈیٹر ملا‘ وہ شوکت صدیقی‘ وہ ALL WOLL۔ قہقہے ابھی تھمے نہ تھے کہ دوسرا وار کیا: عباس! تمہیں کیا ہو گیا ہے‘ تمہارے شجر تلے جراثیم پرورش پاتے ہیں؟ عباس اطہر‘ جنہیں شاہ جی کہا جاتا ہے‘ ایک مقبول آدمی تھے۔ دو چار مدّاح ہمیشہ ان کے اردگرد رہا کرتے۔ گفتگو کے نہیں‘ شاہ جی غور و فکر کے آدمی تھے‘ جملہ بازی سے گریز کرتے۔ اگرچہ جملہ چست کرتے تو بڑے بڑے منہ دیکھتے رہ جاتے۔ بڑے بھائی کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے‘ جو ان کے والد کا دوست بھی تھا‘ انہوں نے فقط یہ کہا: بس کرو منیر‘ ایسا لگتا ہے کہ شوکت صاحب نے تمہارا خیال نہ رکھا۔ خیال کیا رکھتے‘ منیر نیازی کی طرح‘ شوکت صاحب خود بھی بڑے آدمی تھے؛ اگرچہ سنجیدگی کی طرف مائل۔ عباس اطہر اور نذیر ناجی ایسے اخبار نویسوں کے اُستاد! وہ سب مگر ایک دوسرے کے دوست تھے‘ خوش وقتی میں زندگی بسر کرنے والے‘ پنجابی روزمرّہ کے مطابق کھلے ڈُلّے‘ یار باش۔

    سیاستدانوں کی بات دوسری ہے۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون کس کا دوست اور کون کس کا دشمن ہے۔ ایک نوابزادہ نصراللہ خان قدرے مختلف تھے۔ 2002ء کا الیکشن ہو چکا تو نصراللہ مرحوم نے مولانا فضل الرحمن کو وزیر اعظم بنانے کی کوشش کی۔ پیپلز پارٹی کو وہ قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ مخدوم امین فہیم کی قیادت میں ان کے ایک وفد سے ملاقات کے ہنگام، اتفاق سے یہ ناچیز بھی جا پہنچا‘ رانا نذرالرحمن کے ہمراہ۔ دربان نے روکنے کی کوشش کی: ”اخبار نویسوں کو اندر جانے سے منع کیا ہے‘‘۔ عرض کیا: ”انہیں بتائیے تو سہی اور یہ بھی کہیے کہ میں اخبار نویس نہیں ہوں‘‘۔ کھوٹے سکّے کی طرح لوٹ آیا اور لپک کر دروازہ کھول دیا: نواب صاحب کہہ رہے تھے‘ ”کم بن ویسی‘‘ یعنی کام ہو جائے گا۔ پیپلز پارٹی والوں کے چہرے پتھرائے ہوئے تھے۔ وہ خود عذاب میں گرفتار تھے۔ ان کے ایک دھڑے نے پیٹریاٹ گروپ بنا لیا تھا اور جنرل مشرف سے جا ملے تھے‘ جس طرح بعد میں‘ حضرت مولانا خود بھی۔ ہماری موجودگی میں سیاست پہ اب کیا بات ہوتی۔ نواب صاحب کو اکسانے کے لئے‘ ایک آدھ مصرع پڑھا۔ وہ چھڑ گئے ؎

    نغمے بیتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے
    اک ذرا چھیڑ تو دے تشنہِ مضراب ہے ساز

    ایک شعر‘ پھر دوسرا اور تیسرا۔ ابھی کچھ دیر پہلے سنبھل سنبھل کر گفتگو تھی کہ سیاست کے خارزار میں‘ دامن بچا کے چلتے ہیں‘ اب ایک رومان پسند بروئے کار تھا۔ ایک دریا ٹھاٹھیں مارتا تھا۔ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ شاعری کی گویا برسات تھی۔ ظہیر کاشمیری کا شعر ہے ؎
    امید کا آنگن فرسودہ‘ وعدوں کی چھتیں کمزور بہت
    اس پر ہجر کے موسم میں‘ برسی ہے گھٹا گھنگھور بہت

    فکر و خیال کی پناہ گاہ نہ ہو تو سیاست محض ایک کاروبار ہے اور کاروبار ہر طرح کی کامیابیوں کے باوجود‘ محض ایک چٹیل میدان۔ اس میدان پہ ابر نہیں برستا‘ پھول کھلتے ہیں نہ چاند طلوع ہوتا ہے۔ کوئی خواب اگر نہ ہو تو سیاست محض شعبدہ بازی ہے یا شطرنج کا میدان۔ ملک ہوتا ہے اور نہ ملت، کوئی قوم نہ آدمی۔ فقط اظہارِ ذات کی ایک وبا، فریب نفس کی کائنات۔ خواہشات کے سراب میں جہاں آدمی جیتا ہے۔ دولت اور رسوخ کی دوڑ یا انا کو گنے کا رس پلانے کی مشق۔

    نواب زادہ اس ناچیز کی طرف متوجہ ہوئے۔ برسوں سے میں درخواست کر رہا تھا کہ اپنی نصف صدی کی کہانی وہ مجھے سنائیں۔ اچانک انہوں نے کہا: رمضان المبارک میں خان گڑھ آ جائیے۔ اپنی پچاس برس کی ڈائریاں میں آپ کے حوالے کر دوں گا۔ افسوس کہ میں جا نہ سکا۔ دیر بہت ہو گئی تھی۔ فرصت کے دن رات خواب ہو چکے تھے۔ اب جھمیلے بہت تھے۔ بعد میں وہ ڈائریاں‘ ان کا سیکرٹری لے اڑا۔ تلاش کرنے کی کوشش کی مگر نہ ملا۔ پچاس ہزار روپے میں اسے دینے پر آمادہ تھا۔ پیغام بھی بھیجا مگر جواب ندارد۔ اس کا وہی سرمایہ تھا۔ سنا ہے کہ دام لگوانے کی کوشش کرتا رہا۔ آدمی ہی نہیں‘ بہت سے دوسرے لعل و گہر بھی مٹی میں مل جاتے ہیں۔ ؎

    سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
    خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

    پچھلے برس شاعر منصور آفاق نے مجھے بتایا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ کی کچھ کتابیں ورثا کے پاس محفوظ ہیں۔ اس میں سے ایک غزل اس نے مجھے عنایت کی‘ جس کی زمین تھی‘ لاالہ الا اللہ‘ وہی جس پر اقبالؔ نے طبع آزمائی کی اور عارف کے ورثے کو پھر سے زندہ کر دکھایا ؎

    یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
    بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ

    بستیوں پر ایک عذاب یہ بھی نازل ہوتا ہے کہ علم کو چھپا دیا جاتا ہے، برباد کر دیا جاتا ہے۔ مسلمان کوڑے کا ڈھیر ہو گئے تو تاتاری ان پر چڑھ دوڑے۔ بغداد کی لائبریریاں جلا دی گئیں یا دجلہ کی نذر ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ دریا کا پانی سیاہ ہو گیا۔ حضرت سلطان باہو کا ذکر آیا ہے تو دور دور تک دل میں گداز کی فصل اُگ آئی ہے۔ دانشوروں کی فیاضی نے کتنے ہی شاعروں کو ”صوفی شاعر‘‘ بنا ڈالا۔ درحقیقت سلطان ہی ایک تھے، جو واقعی شاعر تھے اور واقعی عارف۔ جعل ساز اور مدعی دارا شکوہ کے مقابل اورنگز یب عالمگیر کو تنہا پا کر اس کی تائید میں اٹھے اور ”عالمگیر نامہ‘‘ لکھا۔ کاش کوئی اسے شائع کر دے اور ان کا باقی ماندہ کلام بھی۔ اوراق پر ستارے سے جگمگاتے ہیں‘ ہر طرف سے آواز دوست سنائی دیتی ہے۔ ع

    ”دل دریا سمندروں ڈونگھے کون دلاں دیا جانے ہُو‘‘
    دل کا دریا بحر سے گہرا کون دلوں کی جانے ہُو

    سلطان باہو کے کلام کا کیا رونا۔ غلام اسحق خان سے ان کی خود نوشت یہ اصرار کیا تو بولے: جو کچھ مطبوعہ ہے اس سے آدمی نے کیا فیض پایا۔ کون سی بات ہے لکھنے والوں نے جو لکھ نہیں دی۔ انتقال سے کچھ عرصہ قبل‘ ان کی خدمت میں حاضر ہوا، اس خبر کے بارے میں پوچھا کہ وہ قرآن کریم کی تفسیر لکھ رہے ہیں کیا۔ کہا: بالکل نہیں‘ میں اس قابل کہاں۔ پڑھتا البتہ ہوں۔ ہمراہ‘ سینیٹر طارق چوہدری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: بس اتنی سی بات کہی تھی کہ کوئی نیا لفظ ملتا ہے تو اس کی جڑیں تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یا للعجب غلام اسحق خان سا امین اور عالم قوم کو گوارا نہ ہوا، کتاب سے مفرور‘ اہل علم سے مفرور‘ میاں محمد نواز شریف اس کے سردار ہو گئے۔ قوم بھگت رہی ہے اور ابھی کچھ اور بھگتے گی۔ خوئے غلامی کے مارے‘ جہل کے مارے معاشروں کو ایسے ہی حکمران عطا ہوتے ہیں۔ فرمایا: تمہارے اعمال ہی تمہارے عمّال ہیں۔

    خیر‘ میاں محمد نواز شریف ان دنوں جدہ میں جلا وطن تھے۔ وزارت عظمیٰ کی امید پیدا ہوئی تو حضرت مولانا فضل الرحمن کے تیور ہی بدل گئے۔ ان کے ایک رفیق نے بتایا: اب تو وہ سوتے بھی وزیر اعظم کی طرح ہیں۔ انہیں دنوں، اسلام آباد میں امریکی سفیر سے انہوں نے التجا کی تھی کہ حکمران بننے میں ان کی مدد کریں۔ کیا وہ ہنسی تھی یا روئی تھی؟

    اقتدار کا ہُما بہرحال میر ظفراللہ خاں جمالی کے سر پر آن بیٹھا۔ چوہدریوں کے طفیل‘ وگرنہ میاں اظہر ہوتے۔ نتیجے کا اعلان ہونے کے بعد حضرت مولانا مبارک مباد دینے میر صاحب کی طرف بڑھے تو دونوں کے شکم ہائے دراز‘ راستے میں حائل ہو گئے۔
    سنا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی تائید سے‘ عمران خاں کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کا ایک اتحاد تشکیل پانے والا ہے۔ سنا ہے کہ جماعت اسلامی بھی اس میں شامل ہو سکتی ہے۔ سنا ہے! ؎
    متاع دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی
    یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خون ریز ہے ساقی

  • شریف خاندان کا آخری باب-ہارون الرشید

    شریف خاندان کا آخری باب-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    سید الطائفہ جنیدِبغدادؒ نے کہا تھا: ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا… حکمرانی مر جاتی ہے‘ زندہ فقط درویشی رہتی ہے۔

    کس ٹھاٹ سے لیگی لیڈر نے تحریک انصاف کی ریلی والوں کے لیے گاڑیوں کا بندوبست کرنے اور مسافروں کو کرایہ عنایت کرنے کی پیشکش کی تھی ۔ محترمہ مریم نواز صاحبہ نے فرمایا : عمران ایک بے روزگار آدمی ہے۔ اس کے بعد سے افتاد کا آغاز ہے۔

    آزمائش کو دعوت دینے سے روکا گیا ۔ یہ تکبّر ہے‘ اپنی تقدیر پر گرفت کا دعویٰ۔ محترمہ نے جب بے روزگاری کی بات کی تو ایک اعتبار سے یہ حریف لیڈر کی ‘غربت کا مذاق اڑانے کے مترادف تھا۔ اپنی دولت مندی پر اظہارِ فخر۔

    سرائیکی پٹی میں بسنے والے خاکوانی پٹھان خوب لوگ ہیں مہذب اور مرتّب۔ ایک تو وہی اپنے عامر خاکوانی‘ پھر تحریکِ انصاف کے اسحاق خاکوانی ۔ ناچیز کے زیادہ بے تکلف دوست۔ کبھی کبھی میں ان سے پوچھتا ہوں‘ پشتونوں کے اس قبیلے میں‘ ایسی عاجزی کہاں سے آ گئی؟ جواب میں‘ وہ میرے قبیلے سے منسوب جُز رسی کا ذکر کرتے ہیں۔ کل ان سے میں نے پوچھا : خاکوانی صاحب ‘ اگر ارشاد ہو تو آپ کی مہم کے لیے تھوڑا سا چندہ پیش کروں۔ بولے : تم لوگوں سے تو ایک روپیہ بھی غنیمت ہے۔ اس پر میں نے سوال کیا کہ خاکوانیوں نے کس قدر عطیات دیئے ہیں؟

    بیس برس ہوتے ہیں کہ عیدالفطر کے لیے رحیم یار خان جاتے ہوئے خالد مسعود خان سے ملاقات کے لیے ملتان میں رکا۔ اب تو ماشااللہ بہت فراخ اور جمیل ہے‘ ان کا مکان تب مختصر سا تھا۔ شب بسری کے لیے وہ مجھے اپنے دوست اطہر خاکوانی کے ہاں لے گئے۔کشادہ مزاج لوگ‘ کشادہ صحن میں تراویح کا اہتمام۔ سحری کا کھانا ٹھیک ویسا ہی‘ جیسا کہ بی بی جی‘ میری والدہ مرحومہ بنایا کرتیں۔ چپڑی ہوئی روٹی اور انڈے کا سالن۔

    خالد مسعود خاں نے ایک واقعہ سنایا : چھوٹے بھائی اویس خاکوانی نے اطہر صاحب سے ایک ملازم کی شکایت کی۔ درجن بھر ملازموں سمیت سبھی کے لیے گھر میں کھانا اکٹھا پکایا جاتا‘ دیگ میں۔ ملازم نے وضاحت کی‘ اویس سائیں نے کہا : تمہارے ہاں مہمان بہت آتے ہیں۔ میں نے جواب دیا : لالہ! اللہ نے تہاکوں جہڑے پیسے ڈتے ہن‘ اناں دے وچ ساڈا وی حصہ اے‘ تیڈی شکل ساڈے کولوں اچھی تے نئیں۔ ”اللہ نے جو روپیہ تمہیں دیا ہے‘ اس میں ہمارا بھی حصہ ہے۔ تمہاری شکل‘ ہم سے اچھی تو نہیں‘‘۔ مقدمے کا فیصلہ ملازم کے حق میں ہوا۔
    روپے پیسے اور اقتدار پہ فخر؟ دولت آزمائش ہے اور اقتدار بھی۔ ظہیر الدین بابر نے کہا تھا : حکمرانوں سے شاعر اچھے کہ یادوں میں مستقل جگمگاتے رہتے ہیں۔ عالی مرتبتؐ کے چچا سیدنا عباس بن عبدالمطلب باردگر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ باردگر آسودگی کے لیے دعا کی درخواست کی۔ فرمایا : اے میرے چچا‘ جب سے انسان اس دنیا میں آیا ہے اس نے عافیت سے بہتر کوئی دعا نہیں مانگی۔ بیچارے امرا‘ جن کے پاس دولت ہے‘ اقتدار ہے‘ دور دور تک مگر عافیت کا سایہ تک نہیں۔

    اخبار نویسوں کو موقع ملتا ہے کہ ان کی زندگیوں میں جھانک سکیں۔ سولہ برس ہوتے ہیں‘ ملک کے امیر ترین آدمی کا حال پوچھا ‘ جس کے بیرون ملک اثاثے آٹھ ارب ڈالر کے ہیں اور اسی قدر وطن میں ۔ بولا : جب بھوک بہت لگتی تھی‘ روپیہ نہ ہوتا۔ آج دولت کی فراوانی ہے مگر بھوک نہیں لگتی۔ دولت کے باوجود آدمی اگر سکھ کی نیند سوئے‘ اور عزت نصیب ہو تو خوش بخت ہے۔ نسخہ اس کا بتا دیا گیا ہے : دن اور رات‘کھلے اور چھپے‘ اللہ کی راہ میں وہ خرچ کرتے ہیں۔ غم اور خوف سے وہ آزاد کر دیئے جاتے ہیں۔ صوفی نے کہا : زندگی بھر‘ اہل دنیا میں سے کسی پر میں نے رشک نہ کیا۔ ایک دن اس فرمان پر غور کرتے ہوئے خیال آیا۔ فراوانی سے‘ مالک اگر دولت عطا کرے اور خرچ کی توفیق بھی تو کتنی آسانی سے مراد برآئے ۔ خوف اور غم سے آزادی کی نوید کا مطلب ہے ‘مقام ولایت‘ اللہ کی دوستی۔فرمایا : اللہ مومنوں کا دوست ہے۔ تاریکی سے وہ انہیں روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔ شیطان کفار کا دوست ہے‘ روشنی سے وہ انہیں تاریکی کی طرف لے جاتا ہے۔

    اسلامک پارٹی آف نارتھ امریکہ کے بانی اور معمار وجیہ وشکیل سیاہ فام محمد مصطفی نے ایک دن مجھ سے کہا : اہل ایقانConfusion سے Clearity کی طرف جاتے ہیں۔
    سکندر اعظم یونان کے درویش دیوجانس کلبی کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ کہا : میں آپ کی کیا خدمت کروں؟ ”تُم؟‘‘ دیوجانس نے کہا ”تم‘میرے غلاموں کے غلام؟‘‘ سکندر حیرت زدہ رہ گیا۔ کہا : اپنی خواہشات کے تُم غلام ہو‘ جب کہ میں نے اپنی خواہشات پر غلبہ پا کر انہیں اپنا غلام بنا ڈالا۔

    دانشور تو اسے امریکی سازش کہتے ہیں‘ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک عوامی تحریک برپا تھی۔ ایک دن‘ ایک عجب عالم جلال میں انہوں نے کہا : میں کمزور ہوں لیکن میری کرسی بہت مضبوط ہے۔ تب اس زوال کا آغاز ہوا‘ جس نے انہیں عبرت کا نشان بنا دیا۔ یہ الگ بات کہ لوگ غور ہی نہیں کرتے۔ سوچتے ہی نہیں کہ بھٹو خاندان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔ وہ کنبہ‘ محترمہ نصرت بھٹو نے جس کے بارے میں کہا تھا: Bhuttos are born to rule ”بھٹو خاندان کے بچے حکمرانی کے لیے پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ بھٹو اب کہاں ہیں؟ زرداری ہیں‘ شریف ہیں اور وہی افتادگان خاک۔

    گیارہ برس گزر جانے کے بعد‘ فوجی حکمران نے ٹھیک وہی الفاظ کہے: ”میں کمزور ہوں مگر میری کرسی بہت مضبوط ہے‘‘ فاروق گیلانی مرحوم نے کہا :جنرل محمد ضیاء الحق کا اقتدار ختم ہوا۔

    کبریائی اللہ کی چادر ہے۔ شریف خاندان کس گمان میں ہے؟ اگر کوئی سوال کرے کہ عمران خان کی حکمتِ عملی کیا درست ہے؟ کیا وہ جیت جائے گا اور کیا نواز شریف سے نجات کلفت کا خاتمہ کر دے گی تو میرا جواب نفی میں ہے۔ شواہد یہ ہیں کہ نوازشریف ابھی اقتدار میں رہیں گے۔ چلے بھی گئے تو ملک کا مسئلہ حل نہ ہوگا۔ عمران خان کی ٹیم ان سے بھی کمتر ہے۔ امریکی اور عرب نواز شریف کے ساتھ ہیں‘ چین کو وہی گوارا ہیں۔ ملک کے کاروباری اور زمیندار طبقات بھی انہی کے ہم نفس ہیں۔ عمران کاذہن غیرسیاسی ہے اور مشیر ناقص۔ اس کی پارٹی بدنظمی کا شکار ہے اور اس کے پاس کوئی جامع منصوبہ نہیں۔

    اس کے باوجود کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ نسبتاً بہت کم سیاسی اہلیت کا آدمی شریف خاندان کے لیے ایک عظیم چیلنج بن چکا۔ حکمران طبقات کی لوٹ مار کا تاثر اس نے ایسا اجاگر کردیا کہ کبھی نہ تھا ۔ عمران خان اگر سیاست ترک کردے یا خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو جائے تب بھی وہ لاکھوں کارکن سو نہیں جائیں گے‘ جو اس کے طفیل سیاست میں آ چکے ۔ شریف خاندان کو اب کبھی قرار حاصل نہ ہوگا۔ عسکری قیادت یہیں ہے‘ آزاد اخبار نویس یہیں ہیں اور اس خاندان کے کارنامے سامنے افق پر جگمگا تے ہیں۔ مزید برآں اب عدالتِ عظمیٰ میں سماعت کا آغاز ہے۔

    پاناما لیکس میںسپریم کورٹ انصاف کے سوا کیا کرے گی؟ کسی بھی ایسے معاملے میں عدل کے سوا وہ کیا کر سکتی ہے؟ شریف خاندان اگر بے گناہ ہے تو سبحان اللہ۔ قصوروار ہے تو بچ کر کہاں جائے گا؟ کبھی کوئی اور بچا ہے کہ وہ بچ نکلیں گے؟
    اپوزیشن کا مذاق اڑایا جائے تو تحرّک اس میں بڑھ جاتا ہے۔ عمران خان کے کارکن اب زیادہ مستعد ہیں۔ عطیات بڑھ گئے اور خود اس نے چیلنج قبول کرلیا۔

    ماہ جون میں دوپہر کا سورج سر پہ چمکتا ہے تو لگتا ہے کہ دن کبھی نہ ڈھلے گا‘ تمازت سے نجات کبھی نہ ہوگی۔ سورج مگر ڈوب جاتا ہے‘ جھٹ پٹے کے بعد سیاہ رات نمودار ہوتی ہے۔ شریف خاندان کے لیے یہ شب نمودار ہونے والی ہے ۔دولت کے ڈھیر اُسے بچا نہیں سکتے۔ ایک بیروزگار کے ہاتھوں نہ مارے گئے تو کوئی اور سیاسی طور پر انہیں ہلاک کر دے گا۔
    سید الطائفہ جنیدِبغدادؒ نے کہا تھا: ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا…حکمرانی مر جاتی ہے‘ زندہ فقط درویشی رہتی ہے۔

  • جمہوریت کی لانڈری-اوریا مقبول جان

    جمہوریت کی لانڈری-اوریا مقبول جان

    orya

    ایک معمولی پولیس اہلکار جس کے ہم کاتب تقدیر ہیں، جس کا دانہ پانی ہم جب چاہیں روک دیں اور جب چاہیں فراخ کر دیں، جس کی عزت و ذلت بھی ہمارے ہاتھ میں ہے، جب چاہیں اسے کامیاب پولیس آفیسر قرار دے کر میڈل سے نواز دیں اور جب چاہیں بددیانتی، ماورائے قتل یا کسی اور جرم کا الزام لگا کر اسے زمانے بھر میں بدنام کر دیں۔

    پولیس آفیسر بھی اس شہر کا‘ جہاں بھتہ خوروں، بوری بند لاشوں کے ٹھیکیداروں، اغواء برائے تاوان کے مجرموں، مسخ شدہ لاشوں کے تحفے دینے والوں اور انسانوں کے جسموں میں ڈرل مشینوں سے سوراخ کر کے چنگیز خان اور ہلاکو کی وحشت و بربریت کی داستانیں رقم کرنے والوں کے خلاف جب آپریشن ہوا تو ایسے سب ’’معمولی‘‘ پولیس اہلکار جو اس آپریشن کو ایک فرض منصبی سمجھ کر شریک ہوئے تھے، انھیں ایک ایک کر کے چن چن کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔

    حالت یہ ہے کہ برطانیہ میں کراچی کا ایک پولیس آفیسر پناہ کی درخواست دیتا ہے تو برطانوی جج اپنے فیصلے میں لکھتا ہے کہ اسے پناہ اس لیے دی جا رہی ہے کہ کراچی میں اس کے ساتھی دو سو پولیس آفیسروں کو قتل کر دیا ہے اور اگر یہ پاکستان واپس چلا گیا تو اسے بھی قتل کر دیا جائے گا۔ ایسے شہر میں اس پولیس آفیسر کی یہ جرأت کہ جمہوری طور پر منتخب ایک ممبر صوبائی اسمبلی اور لیڈر آف اپوزیشن کو قتل اور گھیراؤ جلاؤ جیسے فوجداری جرائم کے تحت درج مقدموں میں گرفتار کرنے جائے، اس کو اس بات کا احساس تک نہیں یہ ایک ایسی شخصیت کا گھر ہے جسے ووٹ کی طاقت نے پاکبازی و معصومیت کا سرٹیفکیٹ عطا کر دیا ہے۔

    اسے اندازہ نہیں اس نے خواجہ اظہار کو گرفتار نہیں کیا‘ جمہوریت کی عزت و حرمت پر ہاتھ ڈالا ہے۔ اس کی یہ جرأت، یہ ہمت جب کہ اس ملک میں ایک ایسی حکومت ہے جس نے پاکستان کی ساری بیوروکریسی اور ساری پولیس کو پرونواز اور اینٹی نواز میں تقسیم کرنے کا ’’شرف‘‘ حاصل کیا ہے۔ اس معمولی پولیس اہلکار کو جاننا چاہیے تھا کہ ساری بیوروکریسی اور ساری پولیس جمہوری نظام کی بقاء کے لیے کیا کچھ کر گزرتی ہے اور تب جا کر ان جمہوری حکمرانوں کی آنکھوں کا تارا بن جاتی ہے۔ اسے نہیں معلوم کیسے الیکشن کے دنوں میں یہ تمام افسران رائے ونڈ اور بلاول ہاؤس میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔

    اپنے اپنے عظیم ’’جمہوری‘‘ رہنماؤںکو بہترین مشوروں سے نوازتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ ہم نے پولنگ اسکیم کیسے بنائی ہے کہ آپ ہی جیتیں گے‘ بتاتے ہیں کہ ہم نے ان کے مخالفین کے اہم ترین لوگوں کو کیسے مقدموں میں الجھا دیا ہے۔ ہم نے کیسے دباؤ ڈال کر جعلی کیس بنا کر کتنے لوگوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ آپ کی حمایت کا اعلان کریں۔ ہم نے پولنگ اسٹیشنوں کے عملے کو انتہائی احتیاط سے تعینات کیا اور اب آپ بے فکر ہو جائیں، ہم موجود ہیں فیلڈ میں، کوئی ہم پر شک تھوڑا کرے گا کہ ہم میاں نواز شریف کے وفادار ہیں یا آصف علی زرداری کے۔ ہم پولیس اور انتظامیہ کے آفیسر ہیں، غیر جانبدار۔ جیتنے پر انعامات کی سب سے پہلی بارش انھی افسران پر ہوتی ہے۔

    ایک منظور نظر کو جب پنجاب کا چیف سیکریٹری لگایا تو وہ بہت جونیئراور دیگر سیکریٹری سینئر تھے۔ جو نالاں رہتے تھے ایک دن اس نے سیکریٹری کمیٹی میں بے لاگ اور کھرا سچ بول دیا۔ اس نے کہا دیکھو میں نے پہلے دن اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ نوکری اب سیاسی وفاداریوں کی نوکری بن چکی ہے۔ ضیاالحق کا دور تھاجب میں سروس میں آیا اور سب سے منظور نظر گھرانہ ماڈل ٹاؤن کا شریف گھرانہ تھا۔ میں نے ان کی چوکھٹ پر خود کو ’’سرنڈر‘‘ کیا اور آج تک ان کا وفادار ہوں۔ جب تک یہ ہیں میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑسکتا۔ یہ نوکری عوام کی نہیں گھرانوں کی نوکری ہے۔

    اس ’’معمولی‘‘ پولیس آفیسر کو اس بات کا احساس تک نہیں کہ جمہوریت کی بقا اور سسٹم کے تحفظ کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اخلاق، ضمیر، قانون اور ذاتی غیرت کو بھی میٹھی نیند سلانا پڑتا ہے۔ جمہوری حکمران تمہیں میٹنگ میں بے نقط سنائے، عوام کے سامنے بے عزت و رسوا کرے، بے شک تم پولیس کے انسپکٹر جنرل ہو جاؤ، تمہارے چہرے پر شرعی داڑھی ہو، وہ تمہیں تحقیر کے ساتھ ’’دڑھیل‘‘ کہہ کر پکارے، تمہیں سب سننا پڑتا ہے۔ تمہیں سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹے کیس بنانا ہوتے ہیں۔ ان کے گھروں پر چھاپے مار کر ان کی بیٹیوں، بہنوں، بہوؤں اور ماؤں تک کو تھانے میں لا کر بٹھانا ہوتا ہے۔ تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی ممبر اسمبلی قتل بھی کر سکتا ہے، یا کروا سکتا ہے۔ چوری کر بھی سکتا ہے یا چوروں کی سرپرستی بھی کر سکتا ہے۔ توبہ توبہ، ہزار بار توبہ۔ جس شخص کو یہ قوم منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجتی ہے اس کے بارے میں ایسا سوچنا بھی تمہاری نوکری میں جرم ہے۔

    یہ تو معصوم لوگ ہیں۔ اللہ کے بنائے معصوم تو پیغمبر ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی جمہوریت کے بنائے معصوم پارلیمانی نظام کے منتخب لوگ ہوتے ہیں۔ جمہوری نظام کے ستون، جن کے دست قدرت میں سارا نظام یرغمال ہے۔ اگر آپ کا وفادار نیب کا سربراہ ہے، ایف آئی اے کا ڈائریکٹر ہے، پولیس کا انسپکٹر جنرل ہے اور ایف بی آر کا چیئرمین ہے تو آپ پر لاکھ الزام لگے، پوری قوم کا بچہ بچہ جانتا ہو کہ آپ نے بددیانتی کی ہے، قتل کروائے ہیں، لوگوں کی جائیدادیں ہڑپ کی ہیں، آپ پاکستان کی کسی بھی عدالت میں سزا کے مستحق نہیں ہو سکتے۔

    اس لیے کہ آپ کے خلاف مقدمے کے شواہد جج نے نہیں، نیب نے، پولیس نے، ایف آئی اے یا ایف بی آر نے جمع کروانے ہیں اور آپ نے کس خوبصورتی سے ان کو رائے ونڈ اور بلاول ہاؤس کی چوکھٹوں کا غلام بنا لیا ہے۔ جب ان عہدوں پر ایسے وفادار بیٹھے ہوں گے تو کون ان سیاستدانوں کو مجرم ثابت کرنے کے لیے ثبوت اکٹھا کرے گا۔ 1999ء تک یہ جمہوری لیڈران تھوڑے بے وقوف تھے۔ ایک دوسرے کے خلاف ثبوت اکٹھا کرتے تھے۔ اب یہ سب متحد ہو گئے ہیں۔یہ کس کے خلاف متحد ہوئے ہیں اٹھارہ کروڑ عوام کے خلاف۔ کس ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے تمہاری جرأت تم ایک رکن اسمبلی پر ہاتھ ڈالو جس پر قتل کا الزام ہے۔ ہاتھ ڈالنے کے لیے اٹھارہ کروڑ عوام جو موجود ہیں۔ جاؤ ان کے گھروں پر چھاپے مارو، جاؤ ان کی عورتوں کو اٹھا کر تھانے لاؤ، جاؤ ان کو ننگی گالیاں نکالو، جاؤ ان کو تھانے لے جا کر اتنا مارو کے ان کی چمڑی ادھڑ جائے، ان پر بے گناہ کیس بناؤ، تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔

    لیکن خبردار جمہوری طور پر منتخب شخص کی طرف آنکھ اٹھا کر مت دیکھنا اور دیکھو ہمیں قاتل، بددیانت، چور، بھتہ خور مت بولو، جب تک عدالت میں جرم ثابت نہ ہو جائے اور جرم تمہارا باپ بھی ثابت نہیں کر سکتا۔ تفتیش کرنے والے سب کے سب تو اپنی مٹھی میں ہیں، آدھے رائے ونڈ کی غلامی میں اور آدھے بلاول ہاؤس کی۔ کراچی والوں کا کیا ہے ان کو تو دو سو پولیس افسروں کی لاشیں ہی ڈرانے کے لیے کافی ہے اور جو ایسا پولیس آفیسر جرأت کرے اسے نشان عبرت بنا دو۔

    اگر عدالت میں ثابت ہونے سے ہی کوئی شخص واقعی مجرم کہلاتا ہے تو کیا مسند اقتدار پر بیٹھے یا اپوزیشن کے عظیم جمہوری لیڈران اپنی بیٹیوں کا رشتہ جان بوجھ کر کسی ایسے لڑکے سے کریں گے جس کے بارے میں مشہور ہوکہ وہ قاتل ہے، بھتہ خور ہے، چوروں کا سرغنہ ہے، جوئے کا اڈہ چلاتا ہے، کئی بار خواتین کے ساتھ جنسی تشدد میں ملوث ہوا مگر ثبوت نہ ہونے پر صاف بچ نکلا۔ کیا یہ سیاست دان ایسے شخص کو اپنی شوگر مل، اسٹیل مل یا کسی دفتر میں ملازم رکھیں گے، حالانکہ اس کے خلاف کوئی جرم تو ثابت نہیں ہوا ہوتا۔ وہ بھی یہی کہتے پھرتے ہیں کہ ہم پر پولیس نے ناجائز کیس بنائے ہیں۔ لیکن تمہارا فیصلہ چونکہ جمہوری بنیاد پر نہیں بلکہ بہترین مفاد کے لیے ہوتا ہے اس لیے آپ بیٹی یا بیٹے کا رشتہ اور اپنا ملازم تک اس کی شہرت دیکھ کر رکھتے ہیں۔ عدالت کے فیصلے نہیں مانگتے۔

    ان جمہوری لیڈران کو اگر اس بات کا اندازہ ہو جائے کہ ان کی شہرت کیا ہے اور اللہ اس پر انھیں شرمندہ ہونے کی توفیق عطا فرما دے تو شرم کے مارے سب کچھ چھوڑ کر جنگلوں کو بھاگ جائیں لیکن کیا کیا جائے جس ملک میں جرم دھونے کی سب سے بڑی لانڈری الیکشن ہو وہاں کبھی انصاف اپنی جڑیں نہیں پکڑ سکتا۔

  • بلیک ستمبر-جاوید چوہدری

    بلیک ستمبر-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    وہ مڑے‘ مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا ’’ہاں کیا پوچھنا چاہتے ہو‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ لوگ ستمبر میں کیا کرنا چاہتے ہیں‘‘  قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’یہ مہینہ میاں برادران کے لیے بلیک ستمبر ثابت ہوگا‘‘ وہ واپس مڑے اور روانہ ہو گئے‘ میرے یہ دوست سینیٹ آف پاکستان کا حصہ ہیں۔

    یہ مختلف طاقتوں کے درمیان رابطہ کار بھی ہیں‘یہ سرگوشیاں کرتے رہتے ہیں اور ان کی اکثرسرگوشیاں سچ ثابت ہو جاتی ہیں‘ ان کی ’’بلیک ستمبر‘‘ کی سرگوشی بھی سیریس تھی‘ یہ مہینہ میاں برادران اور عمران خان دونوں کے سیاسی مقدر کا فیصلہ کرے گا لیکن ستمبر میں ہو گا کیا؟ ہمیں جواب تلاش کرنے سے پہلے یہ ماننا ہو گا پانامہ لیکس طوطا ہے اور اس طوطے میں میاں نواز شریف کی سیاسی روح ہے‘ ہم فرض کر لیتے ہیں میاں نواز شریف پانامہ لیکس پر تحقیقات کے لیے کمیشن بنا دیتے ہیں‘ اس کے بعد کیا ہوگا؟

    یہ یقینا پھنس جائیں گے‘ یہ کسی بھی طرح لندن کی پراپرٹی کو جسٹی فائی نہیں کر سکیں گے‘ میاں صاحبان نے یہ فلیٹس 1990ء کی دہائی کے شروع میں خریدے تھے‘ یہ حقیقت ہے اور یہ حقیقت کمیشن کی ابتدائی سماعتوں ہی میں کھل جائے گی‘ میاں برادران نے فلیٹس کے لیے رقم قانونی ذرائع سے لندن نہیں بھجوائی تھی‘ یہ حقیقت بھی چند سماعتوں میں سامنے آ جائے گی اور میاں نواز شریف نے مریم نواز کو ’’ڈی پینڈنٹ‘‘ قرار دے کر بھی غلط بیانی کی اور یہ حقیقت بھی شروع ہی میں آشکار ہو جائے گی چنانچہ میاں نواز شریف پھنس جائیں گے۔

    آپ اب دوسرا آپشن دیکھئے‘یہ جوڈیشل کمیشن نہیں بناتے‘ یہ معاملے کویونہی لٹکاتے چلے جاتے ہیں یا پھر اپنی مرضی کا ڈھیلا ڈھالا کمیشن بنا دیتے ہیں اور یہ کمیشن وزیراعظم کو طلب نہیں کرتا‘ یہ صرف وزیراعظم کے بچوں سے تحقیقات کرتا ہے تو کیا ہوگا؟ میاں نواز شریف پھر بھی پھنس جائیں گے‘ اپوزیشن سڑکوں پر دباؤ بڑھاتی چلی جائے گی‘ شور شرابے میں اضافہ ہو گا یہاں تک کہ فوج اور سپریم کورٹ مداخلت پر مجبور ہو جائیں گی۔

    یہ کمیشن بنوا دیں گی اور وہ کمیشن زیادہ خوفناک ثابت ہوگا‘ ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں‘ کمیشن وزیراعظم کا ہو یا فوج اور سپریم کورٹ کایہ کرے گا کیا؟ اور میاں نواز شریف کو اس سے کیا خطرہ ہے؟ یہ کمیشن وزیراعظم پر منی لانڈرنگ کی فردجرم عائد کر سکتا ہے جس کے بعد میاں صاحب کی اہلیت چیلنج ہو جائے گی یوں یہ ’’ڈس کوالی فائی‘‘ ہو جائیں گے‘ یہ ’’ڈس کوالی فکیشن‘‘ کے بعد 2018ء کا الیکشن نہیں لڑ سکیں گے اور یہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا حتمی مقصد ہے‘ کیوں؟

    ہم اب کیوں کا جواب تلاش کرتے ہیں‘ ہمیں یہاں چند مزید حقیقتیں بھی ماننا ہوں گی‘ ہمیں یہ ماننا ہو گا میاں نواز شریف کو الیکشنوں کے ذریعے فارغ نہیں کیا جا سکتا‘ یہ 1980ء سے انتخابی سیاست کا حصہ ہیں‘ یہ گزشتہ 35 برسوں میں انتخابی سیاست کے ایکسپرٹ ہو چکے ہیں‘ یہ حلقوں بالخصوص پنجاب کے انتخابی حلقوں کی ’’دائی‘‘ ہیں‘ یہ جانتے ہیں پنجاب کے کس حلقے میں کون سی برادری مضبوط ہے۔

    حلقے کا کتنا حصہ دیہی ہے اور کتنا شہری اور ہم نے جیتنے کے لیے کس کو ٹکٹ‘ کس کو تھپکی‘ کس کو لارا اور کس کو دھمکی دینی ہے‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ دیکھ لیجیے میاں نواز شریف 7سال جلا وطن رہے‘ یہ25 نومبر 2007ء کو واپس آئے‘ ان کے پاس نام فائنل کرنے کے لیے صرف چند دن تھے‘ یہ ان چند دنوں میں امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرتے ہیں اور نہ صرف پنجاب میں172(114 جنرل نشستیں‘ 24 آزاد امیدوار‘30خواتین کی مخصوص نشستیں اور چار اقلیتی نشستیں) اور وفاق میں69 سیٹیں لے لیتے ہیں بلکہ یہ پنجاب میں حکومت بنا لیتے ہیں اور وفاق میں اپوزیشن بن جاتے ہیں‘ کیسے؟

    آپ یہ نقطہ بھی ملاحظہ کیجیے‘ عمران خان نے 2014ء کے دھرنے کے دوران حکومت کی انا‘ اعتماد اور ہیوی مینڈیٹ تینوں روند کر رکھ دیے‘ عوام کے دل میں 2013ء کے الیکشنوں کے بارے میں واقعی شکوک شبہات پیدا ہوگئے لیکن میاں نواز شریف اس کے باوجود ہر ضمنی الیکشن جیت گئے‘ آزاد کشمیر میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حیران کن فتح نے پارٹی تک کو حیران کر دیا‘ میاں نواز شریف نے یہ الیکشن حمزہ شہباز کی جادوگری کے بغیر جیت کر خاندان کوبھی یہ پیغام دے دیا ’’لیڈر بہرحال میں ہی ہوں‘‘۔

    دوسرا ہمیں یہ حقیقت بھی ماننا ہو گا حکومت کام کر رہی ہے‘ مالیاتی ذخائر میں ریکارڈ  اضافہ ہوا ‘ لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی میں کمی آئی اور ترقیاتی کام بھی ہو رہے ہیں‘ یہ سارے منصوبے الیکشن سے پہلے مکمل ہو جائیں گے چنانچہ میاں نواز شریف 2018ء میں زیادہ اکثریت سے جیت جائیں گے اور یہ سندھ میں فنکشنل لیگ اور ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ مل کر حکومت بنا لیں گے۔

    بلوچستان میں بھی ان کی حکومت ہو گی اور یہ خیبر پختونخواہ میں بھی جے یو آئی اور اے این پی کے ساتھ مشترکہ حکومت بنائیں گے یوں میاں نواز شریف سیاسی ایٹمی طاقت بن جائیں گے اور اگر یہ ہوگیا تو کس کو نقصان ہو گا؟ یقینا پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان تحریک انصاف اور جنرل پرویز مشرف کے ساتھی یہ تینوں نقصان اٹھائیں گے اور یہ وہ بقائے باہمی ہے جس کی وجہ سے یہ تینوں اکٹھے ہیں‘ اب سوال یہ ہے ان تینوں کے پاس کیا آپشن بچتے ہیں؟ آپشن صرف ایک ہے‘ میاں نواز شریف کی ’’ڈس کوالی فکیشن‘‘۔

    یہ 2018ء کا الیکشن نہ لڑ سکیں‘ پارٹی تقسیم ہو جائے‘ بڑا حصہ ٹوٹ کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو جائے‘ بلوچستان کی پارٹیاں بلوچ پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں‘ یہ اپنی حکومت بنا لیں‘ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں نئی پیپلز پارٹی سامنے آ جائے‘ یہ فنکشنل لیگ اور ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ مل کر سندھ میں حکومت بنا لے۔

    کے پی کے میں جے یو آئی ف‘ جماعت اسلامی اور اے این پی کا اتحاد ہو جائے اور پنجاب کے مسلم لیگی ایک بار پھر چوہدری صاحبان کی قیادت میں آ جائیں اور یوں جنرل پرویز مشرف کا دور واپس آ جائے‘ لوڈ شیڈنگ ختم ہو لیکن کریڈٹ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کو چلا جائے‘ اقتصادی راہ داری بنے لیکن نعرہ ملکی سا  لمیت کی قسم کھانے والوں کے حق میں لگے اور دہشت گردی کا خاتمہ‘ بھارت کے ساتھ تعلقات اور معیشت کی بحالی کے کارنامے ہوں لیکن یہ کارنامے بھی سیاسی حکومتوں کے نامہ اعمال میں درج نہ ہوسکیں۔

    ہم اب آتے ہیں اس اسکیم کی کامیابی کے امکانات کی طرف! مجھے خطرہ ہے یہ اسکیم کامیاب ہو جائے گی‘ میاں نواز شریف اگر یہ سوچ رہے ہیں‘ یہ اکتوبر میں نئے آرمی چیف کا اعلان کر دیں گے اور یوں الجھے دھاگے سلجھ جائیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے‘ یہ نومبر میں اگر میاں شہباز شریف کو بھی آرمی چیف بنا دیں تو بھی فیصلے جوں کے توں رہیں گے۔

    چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے بعد کوئی بھی چیف جسٹس آ جائے عدلیہ کے فیصلے میرٹ پر ہی ہوں گے اور میرٹ کا نقصان بہرحال میاں نواز شریف کو ہوگا‘ میاں نواز شریف کے پاس بحرانوں کے اس طوفان میں صرف ایک لائف بوٹ بچی ہے اور یہ لائف بوٹ ہے ان کی قسمت‘ لوگ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں لیکن میاں نواز شریف سونے کی دیگ لے کر دنیا میں آئے ہیں۔

    قدرت بحرانوں میں ہمیشہ انھیں ’’آؤٹ آف دی وے‘‘ سپورٹ دیتی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اپنا استثنیٰ کا ووٹ ہمیشہ ان کے حق میں کاسٹ کیا‘ آپ میاں نواز شریف کی خوش قسمتی ملاحظہ کیجیے‘ فوجی بغاوت ترکی میں ناکام ہوئی لیکن فائدہ میاں نواز شریف کو پاکستان میں ہوگیا‘ عمران خان 7 اگست کو مارچ کرتے ہوئے اٹک کے پل تک آتے ہیں اور اگلے دن کوئٹہ میں 73 وکلاء شہید ہو جاتے ہیں۔

    پارٹی کے اندر فارورڈ بلاک بننے لگتا ہے لیکن بلاک کے سامنے آنے سے پہلے ہی پاکستان مسلم لیگ ن آزاد کشمیر میں تاریخی فتح حاصل کر لیتی ہے اور ایم کیو ایم اسمبلیوں میں کھڑے ہو کر مستعفی ہونے کا فیصلہ کرتی ہے جس کے بعد عمران خان کے لیے استعفے دے کر حکومت کو جنرل الیکشن پر مجبور کرنا آسان ہو جاتا لیکن عین وقت پر الطاف حسین کے منہ سے پاکستان کے خلاف نعرہ نکل جاتا ہے اور ایم کیو ایم الطاف حسین سے اظہار لاتعلقی پر مجبور ہو جاتی ہے‘ کیا یہ میاں نواز شریف کی خوش نصیبی نہیں؟

    یہ واقعی خوش نصیب انسان ہیں‘میرا خیال ہے یہ اگر اسی طرح خاموش بیٹھے رہے‘ انھوں نے 12 اکتوبر 1999ء کی تاریخ نہ دہرائی‘ سپریم کورٹ کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ نہ کی‘ پنجاب پولیس پر بھی کنٹرول رکھا اور لاہور میں کسی کو گلوبٹ نہ بننے دیا تو یہ ایک بار پھر بچ جائیں گے لیکن اگر ان سے کوئی ایک غلطی ہو گئی حتیٰ کہ انھوں نے چوہدری نثار کی وزارت ہی تبدیل کر دی تو یہ ستمبر ان کے لیے حقیقتاً بلیک ستمبر بن جائے گا اور پھر صرف یہ نہیں بلکہ ان کا پورا خاندان ڈس کوالی فائی ہو جائے گا

  • بروٹس! خرابی ہمارے ستاروں میں نہیں-ہارون الرشید

    بروٹس! خرابی ہمارے ستاروں میں نہیں-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے ”کلکم راع وکلکم مسئول‘‘۔ ہر شخص تم میں سے حاکم ہے اور ہر شخص تم میں سے جواب دہ! سب ذمہ دار ہیں‘ ہم سب!

    اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ابراہیم لوٹ آیا ہے۔ شدید گھبراہٹ کا وہ شکار ہے اور پولیس افسروں کا کہنا ہے کہ ذہنی دبائو سے بچانے کے لیے اس سے کوئی سوال نہ کیا جائے۔ کم از کم اگلے دو دن تک۔ فیصل آباد کی پولیس نے غیرمعمولی ذمہ داری ہی نہیں‘ دردمندی کا بھی مظاہرہ کیا۔ خاص طور پر ریجنل پولیس افسر بلال کمیانہ اور ڈی پی او افضال کوثر نے۔ ہمیشہ یہ خاندان ان کا شکرگزار رہے گا۔ مسلسل اور متواتر کئی ٹیمیں تلاش میں مصروف رہیں۔ آخرکار اسے ڈھونڈ نکالا۔

    ابھی کچھ دیر پہلے وزیراعلیٰ پنجاب کے دفتر سے ایک دوست نے فون کیا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ بے شک اغوا کے واقعات ہو رہے ہیں اور اس بات میں پولیس کے مؤقف کو من و عن تسلیم نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم دو پہلو اس کے سوا بھی ہیں۔ ماں باپ کی سخت گیری کا شکار زیادہ تر کمسن خود گھروں سے بھاگتے ہیں۔ ان میں سے بعض جونشے کی لت کا شکار ہوتے ہیں‘ جرائم پیشہ لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ پھر حکومت سے نفرت کرنے والے ہیں‘ منصوبہ بندی کے ساتھ جو مبالغہ آرائی کرتے اور مہم چلاتے ہیں۔ کچھ تصاویر انہوں نے بھیجیں کہ ملائشیا کے بچوں کو پنجابی بنا کر سوشل میڈیا پر الزامات کی بارش کی گئی۔ ایک سیاسی لیڈر کا نام بھی لیا کہ ایسے لوگوں کی وہ حوصلہ افزائی اور پشت پناہی کرتے ہیں۔

    عرض کیا: بنیادی مسئلہ اور ہے۔ پاکستان کی پولیس‘ سرے سے پولیس ہی نہیں۔ نیویارک اور لندن حتیٰ کہ جدہ‘ دبئی اور خرطوم میں ریاست کی پوری قوت کانسٹیبل کی پشت پر ہوتی ہے۔ قانون کیایک چھوٹی سی خلاف ورزی پر بھی‘ اگر وہ دھرلے تو آسانی سے قصوروار بچ نہیں سکتا۔ پاکستان میں پولیس افسر سرے سے افسر ہی نہیں‘ ”ملازم‘‘ ہے۔ طاقتوروں کے رحم و کرم پر۔ اخبار نویس‘ جج اور ایم پی اے سے ڈرائیونگ لائسنس تک طلب نہیں کیا جا سکتا۔ اس ملک میں جو دہشت گردی کا شکار ہے‘ اس بے نیازی کے متحمل ہم کیسے ہو سکتے ہیں؟ ترک پولیس‘ بغاوت کرنے والے فوجی اگر گرفتار کر سکتی ہے تو پاکستان میں یہ کیوں ممکن نہیں کہ بارسوخ لوگ بھی کسی نہ کسی درجے میں‘ اس کے خوف کا شکار ہوں۔ خوف ایک ہتھیار ہے‘ جو سلیقہ مندی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے‘ انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں‘ کارِ سرکار میں بھی۔

    سرما کے گزشتہ موسم میں وزیراعلیٰ شہبازشریف سے ملاقات ہوئی تو ان سے عرض کیا تھا کہ 1999ء کے بعد اب تک پولیس میں بہتری کے لیے کوئی ایک قدم بھی وہ کیوں نہ اٹھا سکے۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ خاموشی سے وہ سنتے رہے۔ سندھی لیڈروں کی طرح تاویل کی کوشش نہ کی کہ قائداعظم کے زمانے میں بھی کرپشن ہوا کرتی تھی‘ بدامنی کے واقعات ہوا کرتے۔ پانچ برس ہوتے ہیں‘ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی خواہش پر ایوان وزیراعظم جانا ہوا تو بڑھتی پھیلتی کرپشن اور سرکاری وسائل کے ضیاع پر متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ ان کے جواب کا خلاصہ یہ تھا۔ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے اور ہمیشہ یہی ہوتا رہے گا۔ پتھر کے دل‘اس معاشرے کا کیا ہوگا جس کے رہنمایہ انداز فکر اختیار کرلیں۔ ٹی وی پرابھی کچھ دیر قبل لطیف کھوسہ فرما رہے تھے کہ شریف خاندان امانت و دیانت سے محروم ہے۔ اقتدار میں رہنے کا ہرگز اسے کوئی حق نہیں۔ سبحان اللہ‘ آصف علی زرداری تو صلاح الدین ایوبی ہیں۔الیکٹرانک میڈیا کے دوست اگر ناراض نہ ہوں تو سوال یہ ہے کہ اس میں خبر کیا ہے؟ پیپلزپارٹی کا ایک لیڈر اور وہ بھی جناب لطیف کھوسہ ایسی ذات گرامی‘ اگر کرپشن کی بات کرے تو ناظرین کا وقت ضائع کرنے کا جواز کیا ہے ؎

    یہ امت روایات میں کھو گئی
    حقیقت خرافات میں کھو گئی

    کوئی احساس نہیں‘ ادراک نہیں‘ نتیجہ یہ کہ کوئی تجزیہ ہی نہیں‘ کوئی منزلِ مراد ہی نہیں ؎

    اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
    دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی

    سب جانتے ہیں کہ آدم کی اولاد نے تین بنیادی مقاصد کے لیے حکومت کا ادارہ تشکیل دیا تھا۔ امن و امان کا قیام‘ انصاف کی فراہمی اور ملک کا دفاع۔ انفرادی صلاحیتوں کا فروغ‘ معاشی و علمی ترقی‘ صحت اور آزاد خارجہ پالیسی کا انحصار بھی اسی پر ہے۔ مملکت خداداد میں قومی دفاع کے سوا‘ کس خبر پر کبھی توجہ دی گئی۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان ایک گیریژن سٹیٹ ہے تو ایک اعتبار سے بالکل درست ہے۔ سول ادارے دولے شاہ کے چوہے بن کر رہے گئے۔ خالد لونگو‘ رانا مشہود اور شرجیل میمن ایسے وزیر ملک پر مسلط ہوگئے۔ بگاڑ اورپیہم بگاڑ کے سوا پھر کیا حاصل ہوگا؟ زرداری صاحب کو شرجیل میمن اب بھی عزیز ہیں اور شہباز شریف رانا مشہود کے محافظ ہیں تو ان کی جمہوریت کو کیا شہد لگا کر چاٹا جائے۔ میاں محمد نواز شریف کا ایک عالم فاضل وزیر اشتہاری مجرم پالتا اور ان کے بل پر انتخابی مہم چلاتا ہے ؎

    خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
    آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاں گئی

    حکمران ہی نہیں‘ اپوزیشن پارٹیوں کا عالم بھی یہی ہے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ایک ایم پی اے نے ایک مجبور خاندان کی جائیداد پر قبضہ جما رکھا ہے۔کوئی شنوائی نہیں‘ کوئی شنوائی نہیں۔

    کوئی معاشرہ‘ تہذیب‘ ترقی اور بالیدگی کی راہ پہ سفر کا آغاز ہی نہیں کر سکتا‘ اگر اس کی پولیس اور عدالتوں سے انصاف کی امید نہ ہو۔ مشکل یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ہو یا نون لیگ‘ ترجیحات کا تمام تر انحصار‘ چند افراد‘فی الجملہ شاہی خاندان پہ ہوتا ہے۔ جمہوریت کا رونا بہت ہے اور اس کے ”حسن‘‘ کا تذکرہ بے حد مگر اسمبلیوں کی کوئی سنتا ہے اور نہ کابینہ کی۔ اقبال نے چیخ کر کہا تھا ؎

    دیو استبداد اور جمہوری بقا میں پائے کوب
    تو سمجھتاہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

    قائد اعظم اور ان کے چند ساتھیوں‘ مہاتما گاندھی اور ان کے چند رفقا کی مستثنیات کے سوا‘ برصغیر کا سیاستدان اکثر پست رہا۔ آزادی کی تحریک نے لاکھوں نہیں تو ہزاروں اجلے سیاسی کارکن پیدا کیے‘مگر یہ غلیظ اشرافیہ۔ ان کی مگر کم ہی تربیت کی گئی۔ کارکنوں کی صلاحیت سے کم ہی فائدہ اٹھایا گیا۔ برصغیر میں قانون کی تقدیس کا تصور کبھی گہرا نہ ہو سکا۔ آج نہیں‘ لگ بھگ پون صدی پہلے اقبال نے کہا تھا ع

    ابلیس کے فرزند ہیں ارباب سیاست

    بیٹھے بٹھائے ایک دن میاں محمد شہباز شریف نے پولیس والوں اور پھر ججوں کی تنخواہیں دو گنا کر دیں۔ کس لیے‘ کس بنیاد پر؟۔ غورو فکر کے بغیر‘ مشاورت کے بغیر‘ منصوبہ بندی کے بغیر فرد واحد جب فیصلے فرمائے گا تو نتیجہ یہی ہو گا۔

    لاہور اسلام آباد موٹر وے‘ اسی معاشرے کا حصہ ہے۔ اسی پنجاب پولیس کے انسپکٹر وہاںاپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ پھر قانون وہاں کیوں نافذ ہے؟اس لیے کہ موٹر وے پر قانون کے دائرے میں‘ آزادی عمل انہیں حاصل ہے۔ عقل کے اندھے ہیں کہ غور نہیں کرتے۔ شیکسپیئر کا وہ جملہ: بروٹس خرابی ہمارے ستاروں میں نہیں‘ ہم میں ہے۔

    یہ ہمارے لیڈر ہیں‘آئین اور قانون کی عمل داری جو قائم نہیں ہونے دیتے… اور یہ ہم ہیں جو ان کا احتساب نہیں کرتے۔ ہم سب ذمہ دار ہیں ‘ ہم سب۔

    اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے” کلکم راع و کلکم مسئول‘‘۔ ہر شخص تم میں سے حاکم ہے اور ہر شخص جواب دہ!
    پس تحریر: ٹی او آر کمیٹی سے ایم کیو ایم بھاگ گئی۔ بابر غوری اور فاروق ستار سے اسحق ڈار کا رابطہ ہے۔ دبئی میں آصف علی زرداری سے بھی وہ مل چکے ۔ سیاسی حکمت عملی تشکیل دینے والے بزرجمہر بدلتی ہوئی صورتحال کو سمجھ رہے ہیں ؟

  • ممکنہ دھرنا اور وزیراعظم کے پیغامات – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    ممکنہ دھرنا اور وزیراعظم کے پیغامات – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    عاصم اللہ بخش قرائن اشارہ کر رہے ہیں کہ حکومت نے دھرنے کی جوابی کاروائی کی تیاری شروع کر دی ہے اور اس ضمن میں پچھلے 24 گھنٹے باقاعدہ سٹارٹ اپ کہے جاسکتے ہیں۔

    کل کے دن میں وزیر اعظم نے تین اہم پیغامات دیے :
    1۔ چیف آف آرمی سٹاف سے ون آن ون اور پھر شہبازشریف صاحب اور چوہدری نثار کی موجودگی میں ملاقات سے یہ تاثر دیا گیا کہ وزیراعظم کا براہ راست اور اپنے ایلچیوں کے ذریعہ فوج (جنرل راحیل شریف) سے رابطہ متواتر اور مستحکم ہے۔ جنرل صاحب کی ’’خفگی‘‘ کی خبریں دینے والےسوچ سمجھ لیں۔
    2۔ دو سال بعد اچانک پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلایا جانا بھی اسی سلسلہ کی کڑی معلوم ہوتا ہے۔ اس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ وزیراعظم صاحب کی اندرون پارٹی حمایت پوری طرح برقرار ہے اور مستحکم ہے۔ وزیر اعظم کے جارحانہ خطاب کے ساتھ ساتھ خوشامد اور سرفروشی کے روایتی مظاہروں نے اس بات کو مزید واضح کرنے میں مدد دی۔
    3۔ پارلیمانی پارٹی سے اپنے خطاب میں میاں صاحب نے فرمایا کہ چین سی پیک کے معاملہ میں ان کے برسر اقتدار آنے کا منتظر تھا۔

    یہ ہے وہ چھکا جو میاں صاحب نے اپنی دانست میں اپوزیشن کے اس دعوی پر لگایا ہے کہ وزیر اعظم کرپٹ ہیں اور پانامہ لیکس اس کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ وزیر اعظم کے مطابق چین جیسا ملک ان کو پاکستان کی پوری سیاسی قیادت میں سب سے زیادہ قابل اعتبار اور Honest سمجھتا ہے اور محض ان پر تکیہ کرتے ہوئے 46 ارب ڈالر کا ایک اسٹریٹیجک منصوبہ ترتیب دیتا ہے اور یہاں کی اپوزیشن ہے کہ ان کو خائن قرار دینے کے چکر میں ہے۔ یہاں انہوں نے سب کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ ’’ہلے‘‘ تو کافی کچھ ہل جائے گا۔ پھر نہ کہنا۔ شہباز شریف صاحب نے بھی ایک بیان میں فرمایا کہ سی پیک کا ڈی ریل ہو جانا (نواز حکومت کا غیر فطری اختتام) سن 71 جیسا سانحہ ہوگا۔ وزیراعظم نواز شریف نے مزید یہ بھی فرمایا کہ وہ تو قوم کی خدمت کے لیے اس منصب پر ہیں، اقتدار کے لیے نہیں، اور انہیں اقتدار کی کوئی پرواہ نہیں۔
    یعنی وہ بھی اس کھیل کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور کسی بھی طرح پریشر میں نہیں اور نہ ہی آئندہ چل کر اس کی کوئی امید رکھی جائے۔ البتہ عوام یہ جان لیں کہ وہ یہ سب صرف عوام کی محبت میں کر رہے ہوں گے جبکہ حزب مخالف محض اقتدار کے لیے دھماچوکڑی مچانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
    وزیر اعظم نے فوج کے ساتھ بظاہر غیرمعاندانہ تعلقات، پارلیمنٹ میں بھاری سیاسی حمایت، سی پیک اور اس سے منسلک معاشی امکانات کو اپنے مخالفین کے خلاف دفاعی لائن بنایا ہے۔
    اپوزیشن کے پاس کیا ممکنہ کارڈز ہیں ۔۔۔۔ یہ کل اور پرسوں ، 6 اور 7 اگست کو کافی حد تک سامنے آجائے گا ۔