Tag: اٹلی

  • یورپ کی سب سے بڑی مسجد کا یادگار سفر – شازیہ طاہر

    یورپ کی سب سے بڑی مسجد کا یادگار سفر – شازیہ طاہر

    سفرنامہ کا مفہوم یہ ہے کہ دورانِ سفر مسافر جس طے شدہ منزل پر پہنچتا ہے اور وہاں اس کے جو بھی مشاہدات، تاثرات اور کیفیات ہوتی ہیں یا جو حالات اس کو پیش آتے ہیں، انھیں صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے کے لیے حالاتِ سفر کو جمع کرتا ہے اور پھر دوسروں کو اپنے مشاہدات سے باخبر کرنے کے لیے ان کو صفحہ قرطاس پر منتقل کر دیتا ہے۔ دنیا کا سب سے پہلا دریافت شدہ باقاعدہ سفرنامہ یونانی سیاح میگس تھینز کا تحریر کردہ ’’INDICA‘‘ (سفرنامہ ہند) ہے، جو ہندوستان کے سفر کے حالات پر مشتمل ہے۔ اس یونانی سیاح نے 300 قبل مسیح میں ہندوستان کا سفر کیا تھا۔ آئیے آج ہم بھی آپ کو اپنے ایک یادگار سفر سے آگاہی دیتے ہیں۔

    اطالوی آئین مذہبی آزادی کے حوالے سے بہت واضح ہے، اور یہاں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنی اپنی عبادات کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے لیکن ابھی تک اٹلی میں بھی کچھ دوسرے یورپی ممالک کی طرح مساجد کی تعمیر، میناروں اور گنبد بنانے پر پابندی ہے۔ یہاں پر تقریبا ہر اس شہر یا علاقہ جہاں مسلمان آباد ہیں، اسلامک کلچرل سنٹرز موجود ہیں لیکن باقاعدہ تعمیر شدہ واحد مسجد صرف دارالحکومت روم میں ہی ہے۔ روم کو اطالوی زبان میں روما Roma کہا جاتا ہے۔ یہ بہت پرانا اور تاریخی شہر ہے۔ روم اپنی تاریخی حیثیت کے باعث یونیسکو کے عالمی ورثے کا امین ہے۔ شاندار تاریخی محلات، صدیوں پرانے کلیساؤں، رومی معاشرت کی یادگاروں، عبرت انگیز کھنڈرات، جگہ جگہ نصب مجسموں اور تازگی بخشتے ہوئے فواروں کی بہتات لیے ہوئے روم دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔

    mosque-of-rome-italy-3 اگرچہ اٹلی میں رہتے ہوئے تقریبا دس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور دو مرتبہ روم جانے کا اتفاق بھی ہوا لیکن ابھی تک اٹلی کی مشہور اور واحد تعمیر شدہ مسجد دیکھنے کی خواہش پوری نہیں ہو سکی تھی۔ بالآخر 27 ستمبر 2016 کو یہ خواہش بھی پوری ہو ہی گئی۔ ستمبر کے آخر میں اٹلی کا موسم نہایت خوشگوار ہوتا ہے۔ سو اب کے دورہ روم میں یہ طے پایا کہ روم مسجد کی سیر ضرور کر کے آئیں گے۔ روم کا تاریخی شہر ہمارے شہر بریشیا سے تقریباً 600 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، گاڑی پر 6 سے 7 گھنٹے کا طویل اور تھکا دینےوالا سفر ہے، چنانچہ طے یہ پایا کہ کیوں نہ اس مرتبہ یہ سفر ٹرین پر کیا جائے۔ اٹلی میں ٹرین کاسفر انتہائی پرسکون اور آرام دہ ہوتا ہے، اور ان دنوں ویسے بھی ایک نئی ٹرین سروس ITALO TRAIN کا بڑا چرچا سن رکھا تھا، سو اسی ٹرین کی آن لائن بکنگ کروائی گئی۔ مقررہ تاریخ کو اپنے مجازی خدا کے ہمراہ اللہ کا نام لے کر سفر کا آغاز کیا۔ گاڑی بریشیا ریلوے سٹیشن پر پارک کی اور سٹیشن پہنچ کر اپنی مخصوص ٹرین کا نمبر تلاش کیا۔ ٹرین اپنے مقررہ وقت سے چند منٹ پہلے سٹیشن پر پہنچی۔ ٹرین میں بیٹھتے ہی ایک خوشگوار حیرت ہوئی کہ ٹرین کی سیٹس بالکل ہوائی جہاز کی طرز پر نہایت کھلی اور آرام دہ تھیں۔ ٹرین نے پورے وقت پر سفر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ تقریباً 25 منٹ کے بعد جب ٹرین اپنے پہلے سٹیشن VERONA شہر جا کر رکی تو حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا کہ دوسری ٹرینیں تو پورے ایک گھنٹے بعد اس سٹیشن پر آ کر رکتی تھیں۔اس کے بعد ٹرین صرف دو سٹیشنوں بلونیا اور فلورینس پر کچھ دیر رکی اور پھر اپنی منزل یعنی روم تیرمینی سٹیشن کی طرف رواں دواں ہو گئی۔ 1 تیرمینی سٹیشن سے روم مسجد کا فاصلہ تقریباً ایک گھنٹے کا ہے۔ وہاں سے میٹرو پر مسجد کے قریب ترین سٹیشن پر اترے۔ میٹرو سٹیشن پر ایک اوور برج پار کرتے ہی دور سے مسجد کا پرشکوہ، بلند اور خوبصورت گنبد اور مینار نمایاں نظر آرہا تھا۔ گنبد کا قطر 20میٹر ہے۔ مینار پر نظر پڑتے ہی سر بےاختیار فخر سے بلند ہوگیا کہ عیسائی دنیا کے اس مرکز، جو پوری دنیا میں عیسائیت کا قبلہ ہے، یہ مسجد پوری شان و شوکت، آن بان اور رعب و دبدبہ سے کھڑی تھی، یوں محسوس ہوا جیسے ہم آٹھ سو سال پہلے یورپ میں مسلمانوں کے سنہرے دور اور عظمتِ رفتہ میں آگئے ہیں۔

    5 اپنے خیالات کی رو میں بہتے بہتے مسجد کے مرکزی گیٹ سے ٖاندر داخل ہوئے تو مسجد کی خوبصورتی اور سحر میں کھو سے گئے۔ یہ مسجد اطالوی فنِ تعمیر کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ مسجدکے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی خوبصورت اور انتہائی نفاست سے تراشےلمبے لمبےسرو کے پودے اور بیرونی دیواروں کے ساتھ ساتھ دور تک صاف ستھرا باغ نما لان دیکھ کر بہت خوشگوار حیرت ہوئی۔ یوں گمان ہو رہا تھا جیسے ہم مغلیہ دور کے کسی پائیں باغ میں آنکلے ہوں۔

    3 روم کی جامع مسجد کو انگلش میں Great Mosque Rome یا Islamic Cultural Centre Rome اور اٹالین زبان میں Grande Moschea Roma کہتے ہیں۔ غیر اسلامی ممالک میں یہ بھارت اور روس کو چھوڑ کر اٹلی اور یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہے، جو کہ 30,000 مربع میٹر (320000 مربع فٹ) کے رقبے پر محیط ہے اور 12000 لوگ بیک وقت اس میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد روم کے علاقے Monti Parioli کے دامن میں شہر سے شمال کی طرف Acqua Acetosa کے علاقے میں واقع ہے۔ شہر کی واحد مسجد ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اسلامک کلچرل سنٹر بھی ہے۔ مذہبی سرگرمیوں کے لیے ایک مرکز ہونے کے علاوہ یہ دنیا کے مختلف ممالک کے دین کی وجہ سے منسلک مسلمانوں کو ثقافتی اور سماجی خدمات فراہم کرتی ہے۔ یہاں پر شادی کی تقریبات بھی منعقد ہوتی ہیں۔ تعلیم وتربیت کا بھی ایک شعبہ ہے، جس میں ایک کتاب خانہ، بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے تدریس کا ہال، کانفرنس ہال، نمائش گاہ کی جگہ اور امام مسجد اور مہمانوں کے لیے رہائشی فلیٹ بھی ہیں۔ مسجد کے چاروں طرف سرسبز علاقہ ہے۔ مسجد کی تعمیر میں جدید طرزِ تعمیر سے کام لیا گیا ہے۔ اس کا بیرونی حصہ بھی نہایت خوبصورت اور دلکش ہے۔

    مسجد کی عمارت دو حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کا پہلا حصہ، جو سطح زمین سے 8 میٹر بلند ہے اور 60 میٹر چوڑا مستطیل شکل کا ہے جو قبلہ کی طرف واقع ہے، اور اس کے مرکزی ہال کے اوپر ایک گنبد ہے جس کا قطر 20 میٹر ہے۔ جس کے اطراف میں 16 چھوٹے چھوٹے گنبد ہیں، جن سے اس مسجد کی رونق بڑھ گئی ہے۔ اس کا دوسرا حصہ H کی شکل میں ہے، جس نے مسجد کی تمام فضا کو اپنے اندر سمیٹا ہوا ہے۔2 مسجد کا مینار اس کے جنوب مغربی حصہ پر واقع ہے۔ مسجد کی تعمیر سعودی عرب کے شاہی خاندان کے سربراہ شاہ فیصل کی مرہونِ منت ہے جنہوں نے اس کارِ خیر کو سر انجام دینے کا بیڑا اٹھایا اور تمام اخراجات برداشت کیے۔ مسجد کا ڈیزائن اور ہدایات اطالوی ماہرتعمیرات Paolo Portoghesi Vittorio Gigliotti اور Sami موساوی نے دیں۔ مسجدکی منصوبہ بندی پر تقریبا دس سال لگے۔ روم سٹی کونسل نے 1974ء میں زمین کا عطیہ دیا لیکن سنگِ بنیاد دس سال بعد اطالوی جمہوریہ کے اس وقت کے صدر SANDRO Pertini کی موجودگی میں 1984ء میں رکھا گیا، اور 21 جون 1995ء کو مسجد کا با قاعدہ افتتاح افغانستان کے جلاوطن شہزادے محمد حسن اور ان کی بیوی شہزادی رضیہ بیگم اور اس وقت کے اطالوی صدر نے کیا۔ مسجد کے اندرونی ہال اور راہداریوں میں بنے بےشمار ہتھیلی نما ستون اللہ اور اس کے اطاعت گذار بندے کے درمیان مضبوط تعلق کی نمائندگی کرتے ہیں۔

    the-mosque-of-rome چلیے اب مسجد کی سیر کی طرف دوبارہ آتے ہیں۔ اسی دوران نمازِ عصر کا وقت شروع ہو چکا تھا۔ وضو خانہ کی طرف ایک صاحب نے رہنمائی کی۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ مسجد کے موذّن ہیں۔ وضو خانہ بیرونی گیٹ کی داہنی طرف سیڑھیاں چڑھ کر تقریبا بیس فٹ کی بلندی پر اور مسجد کے مرکزی گنبد والے ہال کے نیچے تھا اور کافی کشادہ تھا۔ وضو کر کے واپس نیچے اترے اور بائیں طرف نماز والے کمرے کی طرف جا ہی رہے تھے کہ زن سے ایک گاڑی ہمارے پاس آ کر پارک ہوئی اور اس میں سے مخصوص عربی لباس میں ایک صاحب نکلے اور بآوازِ بلند مسکراتے ہوئے السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ کہا۔ ہمارے شوہرِنامدار نے بھی انھی کے انداز میں سلام کا جواب دیا۔ ماشاءاللہ وہ مسجد کے امام صاحب محمد حسن عبدالغفار تھے جن کا تعلق مصر سے ہے۔ مسجد کے انچارج عبداللہ رضوان ہیں۔ امام صاحب کی معیت میں اندر داخل ہی ہوئے تھے کہ مذکورہ بالا مؤذن صاحب سپیکر پر اذان دینے کی تیاری میں تھے اور پھر انتہائی خوبصورت انداز میں اذان کی آواز مسجد کے چاروں اطراف گونجنے لگی۔ سبحان اللہ! دل سکون اور خوشی سے باغ باغ ہو گیا کہ آج پورے دس سال بعد اٹلی کی سرزمین پر یوں اذان کی آواز سپیکر پر سنائی دے رہی تھی۔ شاعرِمشرق علامہ اقبال کا شعر یاد آگیا
    ؏ دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
    کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

    اگرچہ الحمدللہ یہ ایک کلیسا نہیں مسجد تھی، لیکن یہ مسجد کلیساؤں کے گڑھ اور پوری دنیا میں عیسائیت کے مرکز روم میں واقع تھی، جہاں اس وقت اذان کی آواز مسجد کے اردگرد کلیساؤں میں بھی جا رہی ہوگی۔
    ؏ مری نگاہ کمالِ ہنر کو کیا دیکھے
    کہ حق سے یہ حرمِ مغربی ہے بیگانہ (علامہ اقبال)

    6 مسجد کا مرکزی ہال چونکہ صرف نمازِجمعہ، عیدین اور خاص تقریبات کے لیے ہی کھولا جاتا ہے۔ اس لیے پنج وقتہ نمازوں کے لیے ایک اورچھوٹا ہال اور ساتھ ملحقہ کمرے مخصوص کیے گئے ہیں۔ مسجد کی اندرونی دیواریں نیلے اور سفید سنگِ مرمر کی انتہائی خوبصورت ٹائلز اور فرش نہایت دبیز ایرانی قالینوں سے سجا ہوا ہے۔ مسجد کی اندرونی سجاوٹ، برقی قمقموں اور فانوسوں کا مرکزی خیال قرآن کریم کی آیت (اللہ نُورالسمواتِ و الارض ) God is lightسے لیا گیا ہے۔ نماز کے لیے اندرونی چھوٹے ہال میں داخل ہوئے تو دل بہت دکھی ہوا کہ اتنی بڑی مسجد میں امام صاحب اور مؤذن صاحب کے علاوہ صرف چار اور نمازی تھے۔ ہم نے خواتین کی نماز کے متعلق دریافت فرمایا تو امام صاحب نے کہا کہ یہاں عام نمازوں میں خواتین کم ہی آتی ہیں اور اگر ہوں تو وہ بھی اسی ہال میں ہی نماز ادا کرتی ہیں۔ خیر تھوڑی جھجک کے ساتھ اندرر داخل ہوئے تو شکر ادا کیا کہ دائیں طرف ہال کے ایک کونے میں سر سے لے کر پاؤں تک سفید گاؤن میں ملبوس تین اور خواتین بھی بیٹھی نظر آئیں۔ ابھی جماعت میں تھوڑا وقت تھا۔ خوشی سے آگے بڑھے، سلام کے تبادلے کے بعد جھٹ سے اٹالین زبان کا رعب جھاڑنا شروع کیا. یہ سوچ کر کہ مقامی عرب کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہوں گی، لیکن یہ کیا؟ انھوں نے اشارے سے بتایا کہ ان کے پلّے کچھ نہیں پڑا۔ انگلش میں بات شروع کی تو وہ بھی خوشی سے کھل پڑیں کہ اس انجانے دیس میں کوئی تو بات کرنے والا ملا۔ اب پتہ چلا کہ وہ ٹورسٹ تھیں اور جکارتہ انڈونیشیا سے تین دن کے سیاحتی دورے پر اٹلی دیکھنے آئی ہوئی تھیں۔ تینوں ماں بیٹیاں تھیں، بیٹیوں کے نام زینب اور ریما جبکہ والدہ کا نام مریم تھا۔ بڑی بہن ریما جس کی عمر 22 سال تھی، جکارتہ یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رہی تھی اور انگلش کی سمجھ بوجھ رکھتی تھی جبکہ چھوٹی 17 سال کی تھی اور کالج میں پڑھ رہی تھی۔ والدہ صرف اشاروں کی زبان سمجھ رہی تھیں اور سر ہلا ہلا کر ایسے خوش ہو رہی تھیں جیسے سب کچھ سمجھ میں آرہا ہو۔4 خیر ماؤں سے بات کرنے کے لیے کسی خاص زبان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اٹلی میں صرف تاریخی شہر روم اور یہاں کی واحد جامع مسجد اور دنیا بھر میں مشہور پانی پر تعمیر شدہ رومانوی شہر وینس دیکھنے کے لیے آئی تھیں. جب انھیں بتایا کہ ہم پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں تو ریما بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی کہ وہاں جکارتہ یونیورسٹی میں میرے ساتھ ایک پاکستانی لڑکی بھی پڑھ رہی ہے۔ اسی اثنا میں اقامت شروع ہوگئی اور ہم سب بھی نماز کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ نماز کے بعد امام صاحب نے ان سیاح خواتین کی سہولت کے لیے انگریزی زبان میں مختصر درس دیا۔ امام صاحب کا تعلق مصر سے ہے اور انگلش اور عربی زبانوں پر بھی عبور رکھتے ہیں. امام صاحب نے اللہ کی نعمتوں اور رحمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ صرف دنیاوی مال و متاع ، عہدے یا شہرت کی فراوانی نعمت نہیں بلکہ حقیقی نعمت دین اسلام اور ہدایت کے رستے پر چلنا ہے اور آپ لوگوں پر اللہ کی خاص رحمت ہے کہ اس نے اربوں لوگوں میں سے آپ کو اپنے پسندیدہ دین کے لیے منتخب کیا اور آپ کو حجاب اور پردے کی توفیق دی۔ ابھی درس جاری تھا کہ گھڑی پر نظر پڑی اور بادل نخواستہ ہمیں امام صاحب سے اجازت لینی پڑی۔

    چونکہ ہماری واپسی کی ٹرین کا وقت ہو چکا تھا لہذا افسردہ اور اداس دل کے ساتھ مسجد سے باہر نکلے اس دعا اور ارادے کے ساتھ کہ ان شاء اللہ دوبارہ اس مسجد میں ضرور آئیں گے اور خاص طور پر جمعہ یا عیدین کے موقع پر تاکہ مسجد کے مرکزی ہال کو بھی اندر سے دیکھنے کا موقع مل سکے۔

    جب کبھی بھی آپ کو روم آنے کا اتفاق ہو تو اس مسجد کی سیر ضرو ر کیجیے گا۔ مسجد نہایت پر امن اور سکون کی جگہ ہوتی ہےاور تمام اہل ایمان کو مساجد میں جا کر ہمیشہ سکون ہی ملتا ہے کہ بےشک دلوں کا سکون اللہ کی یاد میں ہی ہے، اور جب اس کا ذکر اس کے اپنے گھر میں ہو تو اس سکینت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

    آپ کو روم کی تاریخی اور شاندار مسجد کی سیر تو کروا دی۔ (ان شاء اللہ بہت جلد روم کی ایک اور تاریخی عمارت کلوزیم Colosseum، جو دنیا کے سات عجائب میں سے ہے، کی سیر بھی آپ کو کروائی جائے گی اور اس کلوزیم کے تاریخی پس منظر میں نام نہاد مہذب، لبرل اور روشن خیال گوروں کے انتہائی ظالمانہ اور تاریک پہلوؤں سے آگاہی بھی دی جائے گی۔ ان شاء اللہ

  • جنرل پیٹن، دوسری جنگ عظیم کا عظیم کردار – عمران زاہد

    جنرل پیٹن، دوسری جنگ عظیم کا عظیم کردار – عمران زاہد

    عمران زاہد دوسری جنگ عظیم کے موضوع پر ہالی وڈ نے بہت سی فلمیں بنائی ہیں جیسے کہ:
    Guns of Navaron, The Bridge o river Kawai, Casablanca, U-571, Das Boot, The longest day وغیرہ وغیرہ۔
    یہ سب فلمیں ہی شاندار ہیں۔ آج بھی جب سینما میں لگتی ہیں تو اچھا خاصا بزنس کرتی ہیں۔ حال میں ہی ایک مووی جو بہت پسند آئی Patton ہے۔ یہ فلم 1970ء میں ریلیز ہوئی تھی۔

    جنرل پیٹن امریکہ کی طرف سے دوسری جنگ عظیم میں شریک تھا اور اپنی جارحانہ پیش قدمی اور تیز رفتاری کے لیے جانا جاتا تھا۔ غیر محتاط زبان کے استعمال کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی آنکھ میں کھٹکھتا بھی تھا۔ اس کی بدتمیزی اور بدکلامی کے سبب ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب اسے کمانڈ سے فارغ کرنے پر غور کیا جا رہا تھا۔ جنرل پیٹن کی بدکلامی ایسی مشہور تھی کہ آج کے مشہور امریکی صدارت کے امیدوار ٹرمپ کو بھی اس سے تشبیہہ دی گئی ہے۔

    جنرل پیٹن نے شمالی افریقہ (تیونس وغیرہ) میں جرمنی اور اٹلی کی مشترکہ فوج، جو جرمنی کے جنرل رومیل کی کمانڈ میں تھی، کو ٹینکوں کی جنگ میں شکست دی۔۔ اس کے بعد سسلی سے یورپ کے میدانِ جنگ میں داخل ہوا۔ برٹش جنرلز امریکی جنرل کو کسی بڑے اعزاز سے محروم رکھنا چاہتے تھے، لہٰذا اس کو بڑا ثانوی قسم کا ٹاسک سونپا گیا تھا لیکن جنرل نے چالاکی سے کام لے کر ہائی کمانڈ کے احکام کی من مرضی کی تشریح کر کے سسلی کے قصبوں پالئیرمو (ُPalermo) اور مسینا (Messina) پر قبضہ کر کے برٹش جنرلوں کو پریشان کر دیا۔ ہائی کمانڈ نے جنرل کو مسینا سے دور رہنے کا کہا تھا لیکن جنرل نے بہانہ بنایا کہ وائرلیس پیغام ٹھیک طرح سے نہیں ملا، اس لیے پیغام دوبارہ بھیجا جائے۔ جب پیغام دوبارہ موصول ہوا اس وقت جنرل مسینا میں داخل ہو رہا تھا۔ جنرل کی ظریفانہ طبعیت کا اس کے اس پیغام سے پتہ چلتا ہے جو اس نے جواباً اپنی کمانڈ کو بھیجا:
    Have taken Messina, Do you want me to give it back.

    سن چوالیس میں جب اتحادی فوجوں نے نارمنڈی کے ساحلوں پر دھاوا بولا اس وقت جنرل پیٹن زیرِعتاب تھا اور اسے بےضرر سی پوزیشن پر تعینات کر دیا گیا تھا۔ وہ چاہنے کے باوجود اس جنگ میں کوئی اہم کردار ادا کرنے سے قاصر تھا۔ جنرل کو بہت سے مواقع پر جب وہ جرمنی میں داخل ہو سکتا تھا، ایندھن اور سپلائی سے محروم رکھا گیا اور دوسروں کو اس پر ترجیح دی گئی۔ تاہم پھر بھی جنگ کے خاتمے تک بہت سے معرکے اس کے اعزاز پر ہیں۔ اس کو قدرت کی طرف سے مواقع ملے جن میں اس نے دل کھول کر اپنی صلاحیتوں کا استعمال کیا۔ جنرل پیٹن کی بہت زیادہ دلچسپی عسکری تاریخ سے تھی۔ اس کی تقریباً تمام جنگی چالوں میں تاریخی عسکری واقعات کی جھلک ملتی ہے۔

    سن پنتالیس کے وسط میں ہٹلر کی خودکشی اور جرمن افواج کی پسپائی کے بعد یورپ میں جنگ کو خاتمہ ہو گیا اور جنرل جرمنی میں مقیم واپس امریکہ جانے اور کرسمس اپنے خاندان کے ساتھ منانے کا منصوبہ بنا رہا تھا کہ اس کے ساتھی جنرل نے اسے کھانے پر مدعو کیا تاکہ طبعیت کا تکدر دور کیا جا سکے۔ سڑک کے کنارے تباہ شدہ گاڑیوں کو دیکھ کر جنرل نے تبصرہ کیا کہ
    ”How awful war is. Think of the waste.“
    چند لمحے بعد ہی اس کی اپنی کار ایک امریکی ٹینک سے جا ٹکرائی۔ باقی لوگوں کو تو ہلکی پھلکی چوٹیں آئیں، لیکن اس کے سر پر شدید چوٹ آئی۔ اس حادثے کے نتیجے میں اس کے سر پر فریکچر آئے، اس کا حرام مغز شدید متاثر ہوا اور گردن سے نیچے سارے جسم اپاہج ہو کر رہ گیا۔ تیرہ چودہ دن بعد وہ سوتے ہوئے ہی اللہ کے پاس پہنچ گیا۔ بسترِ مرگ پہ اس نے تبصرہ کیا کہ
    ”This is a hell of a way to die.“

    جس جرنیل کو چار سالوں میں جنگ ہلاک نہ کر پائی وہ جنگ ختم ہونے کے صرف چار ماہ بعد ایک معمولی حادثے میں جاں بحق ہو گیا۔ اللہ کے رنگ نیارے۔
    اس فلم میں جنرل پیٹن کا کردار جارج سی سکاٹ نے ادا کیا۔ بہترین اداکاری پر اسے اکیڈمی ایوارڈ کے لیے چنا گیا لیکن اس نے اکیڈمی ایوارڈ کے گرد ہونے والی سیاست پر احتجاجاً یہ ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا۔

  • یورپ میں آباد پاکستانیوں کی خواہش-اوریا مقبول جان

    یورپ میں آباد پاکستانیوں کی خواہش-اوریا مقبول جان

    orya

    یورپ کی گلیوں میں گھومتے ہوئے آج پانچواں دن ہے۔ انقلاب فرانس کے مرکز پیرس میں اترا تو ٹھیک پانچ سال بعد یہاں آنے کے بعد ایک احساس ایک دم دل و نگاہ سے چھوگیا۔ سب کچھ وہی ہے، ایفل ٹاور، شانزے لیزے، گمنام سپاہی کی  قبر والا وہ دروازہ جو کئی سڑکوں کے بیچوں بیچ ہے، پہاڑی پر قدیم گرجا بھی ویسا ہی ہے اور نوٹرے ڈیم کے چرچ کے مجسمے بھی ویسے ہی قائم ہیں لیکن جو پیرس پانچ سال پہلے نظر آتا تھا اب وہ کہیں کھوگیا ہے۔ خود پیرس کے لوگ حیرت میں گم ہیں۔ جنگ عظیم دوم کی تباہ کاریوں سے جب یورپ نکلا تو یوں لگتا تھا کہ ساری کی ساری آبادی ایک کھنڈر پر کھڑی ہے۔

    لوگوں نے مل کر اس اجڑے گھر کو تعمیر کیا۔ ہر ملک برباد تھا اور ہر شہر ویران، یوں تو امریکی اسے اپنا احسان عظیم کہتے ہیں کہ انھوں نے یورپ کی تعمیر نو کے لیے سرمایہ فراہم کیا لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہاں کے رہنے والوں نے اسے خود تعمیر کیا۔ اس تعمیر نو میں عمارات تو کھنڈر سے بدل کر اصلی مقام پر آگئیں لیکن سرمائے کی دوڑ نے معاشرے کو ایک دوسرے کھنڈر میں بدل دیا۔ وہ کھنڈر جس میں اقدار، اخلاق، روایات، مذہب اور سب سے بڑھ کر خاندان کی اینٹیں گری پڑی ہیں اور کوئی ان اینٹوں کو اکٹھا کرکے دوبارہ تعمیر میں مصروف نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف ماتم کرتا چلا جارہا ہے۔ گزشتہ سو سال سے صرف ایک ہی ماتم ہے، ہمارا خاندان کہاں چلاگیا۔

    یہ سب تو پیرس شہر میں گزشتہ سو سال سے چلا آرہا ہے، تو پھر وہ کونسا پیرس ہے جو پانچ سال پہلے تھا اور آج نہیں ہے۔ پانچ سال پہلے کا پیرس نسبتاً مرنجا مرنج یعنی ”Cave Free” پیرس تھا اور آج کا پیرس خوفزدہ ہے، ڈرا ہوا۔ اس شہر کی گلیوں میں جنگ عظیم دوم کے بعد پہلی دفعہ فوج کے دستے گشت کرتے ہوئے نظر آئے۔ شروع شروع میں جب کارٹون بنانے والے اخبار چارلی ہبیڈو پر حملہ ہوا، لوگ مارے گئے تو پیرس میں غم و غصہ تھا۔ پوری قوم یک جہتی کے اظہار کے لیے سڑکوں پر نکل آئی۔ ایسے میں کسی نے اس غصے میں دبی ہوئی حملہ آور کی آواز کو یاد تک نہ کیا کہ ’’میں الجزائر سے ہوں اور یہ میرا بدلہ ہے‘‘ اسلام اور مسلمان دونوں ہدف تھے۔ میڈیا نے اس یک جہتی کو کھول کھول کر بیان کیا اور بار بار دکھایا۔

    لوگ چین کی نیند سوگئے۔ لیکن اس کے بعد انھیں پھر کسی زور دار دھماکے میں مرنے والوں کی چیخوں نے جگایا تو کہیں ٹرک ڈرائیور کے انسانوں کے خوفناک طریقے سے کچلنے نے بیدار کیا۔ لیکن اب یہ جاگنا یک جہتی کا جاگنا نہیں ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے خوف میں نیند اڑجاتی ہے۔ ٹیلی ویژن پروگراموں میں صرف ایک بحث ہے کہ ایسا ہمارے ساتھ کیوں ہورہا ہے۔ ہم تو پر امن تھے، اپنی دھن میں مگن تھے۔ ہمارے بازاروں میں رونق تھی، لاکھوں سیاح روز ہمارے شہروں کو آباد کرتے تھے۔ دونوں طرف بولنے والے موجود ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اسلام، القاعدہ، داعش اور دہشت گردی کی رٹ لگاتے ہیں۔ لیکن دوسرے وہ ہیں جو اس خطرے سے پورے مغرب کو ڈرا رہے ہیں۔

    وہ کہتے ہیں تم نے اسلحہ بیچنے کی ہوس میں جتنے لاکھ لوگوں کو مسلم دنیا میں قتل کیا ہے۔ اگر ان کے دس فیصد لوگوں کی اولادیں اپنا بدلہ لینے تمہاری سمت چل پڑیں تو تم کئی صدیاں امن کوترس جاؤ گے۔ فرانس کا ’’مشعل اکشود‘‘ نامی مصنف جو ٹیلی ویژن چینلوں پر مقبول ہورہا ہے۔ وہ یہی کہتا ہے، تم نے الجزائر میں ایک اسلامی حکومت کے قیام کو روکنے کے لیے لاکھوں انسانوں کا خون بہایا، اب یہ خون تمہارے گھروں میں انتقام کے پتھر لے کر آگیا ہے۔ حیرت میں گم پیرس کے سامنے ایک اور سوال ہے۔ ہم تو سیکولرازم اور لبرل ازم کے بانی تھے۔ ہماری نسلوں نے انقلاب فرانس کے بعد مذہب کو اجتماعی زندگی سے نکال دیا تھا۔ لیکن یہ کیا ہوگیا۔ شام میں جاکر لڑنے والوں میں سب سے زیادہ لوگ فرانس سے جارہے ہیں اور وہاں لڑائی میں مرنے والوں میں دس ایسے فرانسیسی ہیں جو نسل در نسل فرانسیسی ہیں۔ جن کی رگوں میں صدیوں سے فرانسیسی خون دوڑ رہا ہے۔

    خوف اور تذبذب کی یہی فضا اگلے دن مجھے برسلز میں نظر آئی۔ جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے ایک مسجد کی تلاش مجھے مولن بیک ”MOLEN BEEK” کے علاقے میں لے آئی۔ یہ بیلجیئم کی اس آبادی کا مرکز ہے جو نسلی طور پر مراکش سے تعلق رکھتی ہے۔ چاروں جانب حجاب اور عبایا میں ملبوس خواتین مسجدوں کی طرف جارہی تھیں اور مرد عربی لباس پہنے نظر آرہے تھے۔ ایک اور حیرت، وہاں آکر آپ کو بیلجیئم میں بولی جانے والی فرانسیسی زبان نہیں آتی تو انگریزی نہیں چلے گی۔ البتہ آپ عربی میں ٹوٹی پھوٹی بات چیت بھی کریں تو آپ کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ دونوں ملک اپنے ٹیلی ویژن چینلوں پر ایک دفعہ پھر سے اس سین کو دہرا رہے ہیں کہ 1905ء میں جو سیکولرازم اور لبرل ازم کا دور شروع ہوا تھا، اس میں زوال آگیا ہے۔ ہمیں اپنی اس روح کو اپنے آپ جدا نہیں کرنا۔

    اگلے تین دن اٹلی کے شہر میلان اور اسپین کے شہر بارسلونا میں گزرے، ان چاروں شہروں، پیرس، برسلز، میلان اور بار سلونا میں پاکستانی آبادی سے ملاقات اس لیے ہوئی کہ تقریبات میں جمع تھے۔ لیکن ان کا خوف دہرا ہے۔ ان کا المیہ اور دکھ بھی دہرا ہے۔ جس وطن کو چھوڑ کر وہ یہاں آئے ہیں انھیں وہاں تبدیلی کی کوئی امید نظر انھیں آتی۔ میں گزشتہ پندرہ سال سے مسلسل مغرب میں آباد پاکستانیوں سے مل رہا ہوں لیکن یہ پہلی دفعہ ہے کہ ان میں اپنے وطن واپس لوٹنے اور اسے دوبارہ تعمیر کرنے کی خواہش شدید ہے۔

    ان کا المیہ دہرا ہے جس یورپ کو وہ خون پسینہ دے کر تعمیر کرہے ہیں وہ ان کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے اور جس پاکستان میں وہ خون پسینے کی کمائی بھیجتے ہیں وہاں ان کی کمائی سے عیاشیاں کی جاتی ہیں۔ وہ پاکستان میں ایسا سب کچھ دیکھنا چاہتے ہیں جو انھیں یورپ میں نظر آتا ہے لیکن ایسا خواب وہ یہیں بیٹھ کر دیکھتے ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جس طرح یورپ تباہ ہوا اور یورپ والوں نے اسے تعمیر کیا۔ یہاں کے پاکستانی ویسا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ البتہ انتظار کرتے ہیں، دعا کرتے ہیں، خواہش کرتے ہیں کہ پاکستان بدل جائے اور وہ واپس اپنے جہلم، گجرات، مردان وغیرہ چلے جائیں۔

    جہاں وہ معاشی طور پر مطمئن بھی ہوں اور کوئی انھیں بار بار گفتگو میں اللہ کا لفظ استعمال کرتے سنے اور پیرس میں پولیس کو رپورٹ کرنے کی طرح گرفتار نہ کرادے۔ اسپین کے ساحلوں پر حجاب والی خاتون کے گرد جیسے پولیس والے جمع ہوگئے اور کہا یا تو سوئمنگ سوٹ پہنو یا یہاں سے بھاگو۔ ایسا کچھ اس نئے پاکستان میں نہ ہو۔ ایسا پاکستان ان کی کمائی سے نہیں صرف اور صرف ان کے خون پسینے سے بن سکتا ہے۔ لبنان میں چالیس لاکھ لوگ آباد ہیں جب کہ ایک کروڑ بیس لاکھ لبنانی ملک سے باہر ہیں۔ کما کر ہر سال بیس ارب ڈالر بھیجتے ہیں لیکن لبنان کی حالت نہیں بدلتی۔ قومیں سرمائے سے نہیں انسانوں سے بدلتی ہیں۔