Tag: انگلینڈ

  • مغربی کرکٹ ٹیمیں ایشیا میں کیوں ناکام ہو رہی ہیں؟ عمر فاروق

    مغربی کرکٹ ٹیمیں ایشیا میں کیوں ناکام ہو رہی ہیں؟ عمر فاروق

    عمر فاروقٹیسٹ کرکٹ میں آسٹریلیا کی سری لنکا کے ہاتھوں ہوئی یادگار شکست کے بعد نیوزی لینڈ بھی انڈیا سے وائٹ واش کروانے کے لیے تیار ہے. آسٹریلیا کو ایشین کنڈیشنز میں کوئی ٹیسٹ میچ جیتے ہوئے بھی 5 سال بیت چکے اور اس نے 2008ء سے لے کر 2016ء تک کھیلے گئے 18 ٹیسٹ میچز میں سے صرف 1 جیتا، 13 ہارے اور 4 ڈرا کیے ہیں جبکہ پچھلے مسلسل 9 ٹیسٹ میچز میں شکست کا ذائقہ چکھا ہے. کم و بیش یہی حال انگلینڈ اور ساؤتھ افریقہ وغیرہ کا بھی ہے.

    کیا ایشین کنڈیشنز اتنی ہی خطرناک ہوچکی ہیں کہ یہ ٹیمیں سروائیو ہی نہیں کرپاتیں؟ جب اس بات کا موازنہ ایشین پلیئرز کی اپنی کارکردگی سے کیا جاتا ہے تو اس کے بالکل مختلف صورتحال نظر آتی ہے. فاسٹ باؤلرز ریورس سوئنگ سے جبکہ سپنرز اپنے سپن کے جال میں دوسرے بلے بازوں کو ایسا پھانستے ہیں کہ پھر ان سے سوائے پچز کے بارے میں کمپلین کرنے کے کوئی بات نہیں بن پاتی. جبکہ انھی پچز پر ایشین بیٹسمین رنز کے انبار لگا رہے ہیں، اور ایک ایک سیریز میں ریکارڈ سنچریاں بھی بنا رہے ہیں.

    مہمان یعنی مغربی ٹیموں کی بیٹنگ کی اگر بات کی جائے تو ان کے بلے باز اپنی اننگز کی شروعات فاسٹ باؤلنگ کے خلاف کرنے کے عادی ہوتے ہیں، اور لیکن جب ایشین کنڈیشنز میں سپنرز کے خلاف شروعات کرنی پڑے تو ان کے لیے اپنی وکٹ بچانا ہی مشکل تر ہوجاتا، کیونکہ سپنر کے خلاف کھیلنے کے لیے قدموں کا استعمال اور گیند کی لینتھ کا سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے. کیونکہ انہیں اس چیز کی اتنی پریکٹس نہیں ہوتی تو اس صورتحال سے نکلنے کے لیے وہ سلاگنگ کرتے یا کراس کھیلتے ہوئے سویپ شاٹ کا سہارا لیتے ہیں، اور آسان شکار ثابت ہوتے ہیں. انڈین آف بریکر ایشون تیز ترین 200 وکٹیں اور پاکستانی سپنر یاسر شاہ ابتدائی چند ٹیسٹ میچز میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے کا ریکارڈ ایسے ہی بلے بازوں کے خلاف کھیل کر بنا چکے ہیں جبکہ سری لنکن رنگنا ہیراتھ کی کارکردگی بھی مثالی ہے.

    آسٹریلیا نے اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے برسبین میں سپیشل ٹرننگ وکٹ کا انتظام کیا اور اپنے پلیئرز کو اس پر کھلانے اور پریکٹس کروانے کا سلسلہ شروع کیا لیکن ان کے پلیئرز ابھی بھی ایڈجسٹ نہیں کر پا رہے کیونکہ میچ سچویشن کے پریشر میں کھیلنا اور پریکٹس وکٹس پہ کھیلنا، جہاں آئوٹ ہونے کا ڈر نہ ہو، ایک بالکل مختلف چیز ہے. اسی طرح کوالٹی سپنرز کے نہ ہونے کی وجہ سے باؤلنگ مشینز کا بےتحاشا استعمال بھی شروع کیا گیا جو کہ ابھی تک مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام ہے.

    مغربی ٹیمیں اپنے ٹوورز میں کوچنگ کنسلٹنٹ کے نام سے اسی ٹیم کے متعلق علم رکھنے والے مقامی افراد کو بھی مختصر عرصے کے لیے ہائیر کرنے لگی ہیں. ان میں مہیلا جےوردھنے، ثقلین مشتاق اور مرلی دھرن وغیرہ کے نام قابل زکر ہیں. یہ پلیئرز چونکہ پروفیشنلز ہوتے ہیں اس لیے اپنی ڈیوٹی تو سرانجام دیتے ہیں لیکن جدید کوچنگ ٹیکنیکس یا سائیکلوجیکل حوالے سے یہ طریقے بھی کسی نہ کسی حد تک اپنا کردار ادا کر رہے ہیں.

    ٹورنگ ٹیمز کی باؤلنگ کا جہاں تک تعلق ہے تو سب سے بڑی کمزوری جو ان ٹیمز میں نظر آتی ہے، وہ ٹیسٹ کوالٹی سپنرز کی ہے جو اپنی ٹیمز کے لیے بالکل وہی کارکردگی سرانجام دے سکیں جو ایشین سپنرز اپنی ٹیمز کے لیے سرانجام دیتے ہیں. معین علی یا عادل رشید اکیلے میچ جتوانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے. اسی طرح ناتھن لائن آسٹریلیا کو کبھی بھی ایشیا میں فتح نہیں دلوا سکے. فاسٹ باؤلنگ کے معاملے میں بھی سوائے مچل سٹارک، جیمز اینڈرسن اور ڈیل سٹین کے کوئی ایک بھی بالر میچ وننگ کارکردگی دکھانے کے قابل نظر نہیں آتا. اکیلے فاسٹ بالر کے لیے ٹیم کو ایشین کنڈیشنز میں جتوانا اگر ممکن ہوتا تو سٹارک کی موجودگی میں آسٹریلیا اور اینڈرسن کی موجودگی میں انگلینڈ شکست سے دوچار نہ ہوتے.

    ایشین ٹیمز کی جہاں تک بات کریں تو پچھلے کچھ عرصے میں خاص کر پاکستان اور انڈیا کی کارکردگی آسٹریلیا اور انگلینڈ وغیرہ میں اتنی بری نہیں رہی جتنی بری کارکردگی وہ ٹیمیں ایشین کنڈیشنز میں دکھاتی ہیں. حال ہی میں پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف سیریز انگلینڈ میں ڈرا کی بلکہ ساؤتھ افریقہ میں پہلی بار ون ڈے سیریز بھی اپنے نام کی. مغربی ٹیموں کی ایسی پرفارمنسز ایشین شائقین کے لیے تو بہت خوش آئند ہیں لیکن اپنی ہوم کنڈیشنز کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی حد مقرر کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہوتا جا رہا ہے.

  • کرکٹ سیزن پر ایک نظر – عمرفاروق

    کرکٹ سیزن پر ایک نظر – عمرفاروق

    عمر فاروق کرکٹ کا سیزن اپنے عروج پر ہے اور ٹیمیں مختلف فارمیٹس میں ای کدوسرے سے نبرد آزما ہیں. ایسے میں کئی اپ سیٹ اور حیران کن نتائج بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں.

    Sri Lanka Australia Cricket ٹیسٹ کرکٹ کی بات کریں تو سری لنکا نے آسٹریلیا جیسے حریف کو اپنے ملک میں آسانی سے وائٹ واش کر دیا. ویسٹ انڈیز بھی انڈیا کے خلاف ایک بالکل ہارا ہوا میچ ڈرا کرنے میں کامیاب ہوا. اسی طرح پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف انگلینڈ میں ہی کرکٹ پنڈتوں کو حیران کرتے ہوئے سیریز ڈرا کی. اسی طرح نیوزی لینڈ انڈیا اور ساؤتھ افریقہ کے خلاف بالکل بھی فائٹ نہ کرتے ہوئے سیریز گنوا بیٹھا.

    australia-vs-south-africa ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کرکٹ میں نتائج اس سے بالکل مختلف نظر آتے ہیں. آسٹریلیا نے بآسانی سری لنکا کو ون ڈے اور ٹی ٹونٹی سیریز میں شکست دی اور اس سے پہلے ویسٹ انڈیز میں کھیلی گئی ٹرائی اینگولر سیریز بھی اپنے نام کی. لیکن ساؤتھ افریقہ کے خلاف سیریز میں ناقص سلیکشن اور بری باؤلنگ پرفارمنسز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا. اسی طرح نیوزی لینڈ بھی پاکستان کی طرح مختلف فارمیٹس میں بالکل مختلف ریکارڈ رکھتی ہے. ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کرکٹ میں تو وہ ٹاپ پوزیشن پہ نظر آتی ہے لیکن ٹیسٹ میچز میں وہ ساتویں نمبر پر ہے.5922763201 نیوزی لینڈ کے کرکٹ سٹرکچر اور پروفیشنل ازم کو دیکھتے ہوئے یہ ایک حیران کن فرق ہے. ساؤتھ افریقہ کی حالیہ کچھ عرصے کی پرفارمنسز مختلف فارمیٹس میں ملی جلی رہیں، ویسٹ انڈیز کی ٹرائی اینگولر سیریز میں وہ فائنل کے لیے بھی کوالیفائی نہیں کر سکے تھے. اسی طرح اب وہ ٹیسٹ کرکٹ کی رینکنگ کے حساب سے پانچویں اور ون ڈے کرکٹ میں دوسرے نمبر پر ہیں. انڈیا کی پرفارمنس تینوں فارمیٹس میں اچھی ہے اس لیے وہ رینکنگ میں ٹاپ فور میں ہی ہے. سری لنکا بھی اب ایک اوسط درجے کی ٹیم بن چکی ہے اور تینوں فارمیٹس میں کسی میں بھی اس کی کارکردگی قابل ستائش نہیں رہی. بنگلہ دیش بھی اپنے ملک میں کھیلی گئی ون ڈے کرکٹ میں ہی اچھی پرفارمنس دکھاتا ہے. انگلینڈ کی ٹیم نے ایک روزہ اور ٹی ٹونٹی کرکٹ میں سب سے زیادہ امپروو کیا ہے اور پہلی بار انہوں نے وائٹ بال کرکٹ کو بھی اہمیت دی ہے اور پلیئرز کی سلیکشن پر خاص طور پہ دھیان دیا ہے جس کے حوصلہ افزا نتائج حاصل ہو رہے ہیں.

    مختلف فارمیٹس میں ٹیمز کی پرفارمنسز میں یہ فرق کیوں ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو اکثر شائقین کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے. آئیے اس کی کچھ ممکنہ وجوہات تلاش کرتے ہیں.

    pakistan-test-cricket-uae-2015_3742149 پچھلے کافی عرصے سے ٹیموں کی پرفارمنسز پر جس چیز نے سب سے زیادہ اثر کیا، وہ ان کا ہوم اور اوے کی بنیاد پر کھیلنا ہے. یو اے ای کو بھی اگر پاکستان کا ہوم وینیو سمجھا جائے تو تقریبا سب ٹیمز ہی صرف اپنے گرائونڈز میں اچھا پرفارم کر رہی ہیں. اس سلسلے میں بنگلہ دیش کی اپنے ملک میں ون ڈے پرفارمنسز اور آسٹریلیا کی ایشیا میں ٹیسٹ پرفارمنسز کو دیکھا جائے تو یہ فرق آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے.

    پلیئرز اور ٹیموں کا مختلف فارمیٹس میں فوکس ان کی پرفارمنس پر اثر انداز ہوتا ہے. کچھ عرصہ پہلے تک انگلینڈ اور آسٹریلیا کی ٹیسٹ پرفارمنسز میں ایشیز سیریز حرف آخر کا درجہ رکھتی تھی. لیکن انگلینڈ نے اپنا فوکس جب سے وائٹ بال کرکٹ پر کیا ہے ان کی پرفارمنسز میں آنے والی تبدیلی اس بات کو واضح کرتی ہے کہ فارمیٹ کی اہمیت کا ان کی پرفارمنسز پر اثر ہوتا ہے.

    psl-players-pkg-03-092-e1443437921838 ٹی ٹونٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور مختلف لیگز میں پلیئرز کی بڑھتی ہوئی مانگ اور اس سے حاصل ہونا والا کئی گنا زیادہ معاوضہ پلیئرز کو چھوٹے فارمیٹس پر زیادہ توجہ دینے پر مجبور کر رہا ہے جس سے ٹیسٹ کرکٹ میں پلیئرز کی کوالٹی خاص طور پر متاثر ہوتی ہے جس کا پھر نتائج پر بھی اثر پڑتا ہے. ویسٹ انڈیز کے پلیئرز کو اسی لیے ٹیسٹ کرکٹ میں کوئی خاص کشش محسوس نہیں ہوتی.

    پلیئرز کی سلیکشن میں تسلسل، ان کو کانفیڈینس دینا اور کپتان کو مکمل اختیار دے کہ ٹیم کا وننگ کامبینیشن بنانا اور بورڈ کی پا لیسیز کو ٹیم کے فائدے کے لیے تشکیل دینا ہی بہترین ٹیم بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے. آسٹریلیا، انگلینڈ اور ساؤتھ افریقہ نے اسی طرح ٹیسٹ کرکٹ پر کئی سال تک اپنی اجارہ داری قائم کیے رکھی. لیکن جو ٹیمیں بھی مسائل کا شکار نظر آتی ہیں، ان میں یہ سب پرابلمز خاص طور پہ محسوس کی جاسکتی ہیں.

    بیک اپ پلیئرز تیار کیے بغیر کبھی بھی ٹیم زیادہ عرصے تک کامیابیاں نہیں سمیٹ سکتیں. کیونکہ کرکٹ اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ اپنی فٹنس کو اتنا عرصہ برقرار رکھنا پلیئرز کے لیے بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے. اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیمز نے روٹیشن پالیسی بھی اپنائی لیکن پھر ٹیم کامبینیشن بنانے کے مسائل پیدا ہوتے ہیں. نیوزی لینڈ نے اپنے کوچ مائیک ہیسن کے دور میں خاص طور پر ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کرکٹ کےلیے اپنی ٹیم کےلیے ایک وننگ کامبینیشن سوچا اور سلیکشن کو اس سے مشروط کر دیا. اور like for like replacement کا تصور دیا جسے استعمال کرتے ہوئے انہوں نے انڈیا میں کھیلا جانے والا ورلڈ کپ ٹم سائوتھی اور ٹرینٹ بولٹ کے بغیر کھیلا کیونکہ ان کے کامبینیشن میں وہ فٹ نہیں بیٹھ رہے تھے، جس میں انہیں سیمی فائنل تک رسائی ملی. اور انہوں نے انڈیا تک کو ان کے ملک میں شکست دی.

    ڈومیسٹک کرکٹ اور انٹرنیشنل کرکٹ کا فرق ٹیموں کی پرفارمنس میں بہت حد تک فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے. جو ٹیمز اس فرق کو کم سے کم رکھ پاتی ہیں وہ کامیاب رہتی ہیں. اسی لیے آسٹریلیا، انگلینڈ اور ساؤتھ افریقہ کا ڈومیسٹک سسٹم سب سے اچھا مانا جاتا ہے کیونکہ ان کا معیار باقی ممالک سے بہت بہتر ہے.

    ڈومیسٹک ٹیمز سے انٹرنیشنل ٹیم کے لیے سلیکشن اور پھر پلیئرز کو ان کا صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے ڈیبیو کروانا اور مکمل اعتماد دیتے ہوئے ان کو اپنا ٹیلنٹ دکھانے کا پورا موقع فراہم کرنا پلیئرز کی پرفارمنس اور ڈویلپمنٹ کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن اگر ایسا نہ کیا جائے تو ان کی پرفارمنس ٹیم کی پرفارمنس پہ بھی اثر انداز ہوتی ہے.

    1164421-image-1471413353-885-640x480پاکستان کی ون ڈے کرکٹ کے مسائل کی بات کی جائے تو مسائل ہی مسائل نظر آتے ہیں . ناصر جمشید، عمر اکمل، احمد شہزاد اور جنید خان یہ وہ پلیئرز تھے جو ایک وقت تک ٹیم کا اثاثہ تھے. لیکن ٹیم مینجمنٹ کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے کیریئر کے انتہائی اہم موڑ پہ یہ پلیئرز نظر انداز کر دیے گئے. ان کے متبادل پلیئرز کو بھی ٹیم میں شامل کیا جاتا رہا اور کئی بار تو بغیر کھلائے ہی ٹیم سے باہر کیا جاتا رہا. یا پھر کسی ایک فارمیٹ کی پرفارمنس پہ ان کو دوسرے فارمیٹ میں کھلانے یا نہ کھلانے کے فیصلے کیے گئے. ایسے میں ٹیم کمبینیشن ہی نہیں بن پایا. تو وننگ کامبینیشن خواب ہی بن گیا. پھر اظہر علی کو کپتانی سونپی گئی تو اس کے ساتھ ہی ٹیم میں ان کی جگہ پہ سوالیہ نشان لگا دیے گئے. جس سے ان کا دھیان بہت بری طرح بٹ گیا. اس کے علاوہ ٹیم میں کھیلنے والے پلیئرز کو ان کے اصل نمبرز پہ بیٹنگ پہ نہ بھیجنا بھی اہم مسئلہ رہا. ایک اچھے فاسٹ بالنگ آل رائونڈر اور آخری اوورز میں ہارڈ ہٹنگ بیٹسمین کی کمی کو ہمیشہ محسوس کیا گیا. لیکن ان کی طرف ابھی بھی ہماری سلیکشن کمیٹیز کو دھیان ہی نہیں جارہا. ویسٹ انڈیز کے خلاف حالیہ پرفارمنسز سے شائقین کی کچھ امید تو بندھی ہے کہ مسائل کم ہوئے ہیں. اب بہتری کے اس سلسلے کو مزید جاری رکھنے کی ضرورت ہے.

  • پاکستان کرکٹ کا مذاق – بدر تنویر

    پاکستان کرکٹ کا مذاق – بدر تنویر

    بدر تنویر ہوش آیا تو چڑیاں چگ گئیں کھیت ! ہر ادارے کی طرح پاکستان کرکٹ بورڈ کا بھی برا حال ہے. ون ڈے کرکٹ میں پاکستان ٹیم سب سے نچلے درجے یعنی نویں پوزیشن پر جا پہنچی ہے. غالب امکان ہے کہ اگلے ورلڈکپ میں شرکت کےلیے وہ ٹیم کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلے گی جو ایک دفعہ ورلڈ چیمپئن بن چکی ہے، اور دو مرتبہ ولڈ کپ کا فائنل اور چار مرتبہ سیمی فائنل کھیل چکی ہے۔

    حد یہ ہے کہ بورڈ کے کرتا دھرتائوں سے کپتان تک کسی کو احساس زیاں بھی نہیں ہے. انگلینڈ کے خلاف تیسرے میچ میں انگلینڈ نے ریکارڈ پر ریکارڈ بنائے اور برے طریقے سے شکست ہوئی مگر ناکام ترین ون ڈے کپتان اظہر علی صاحب کا فرمانا تھا کہ ہم اتنا برا بھی نہیں کھیلے، سبحان اللہ! تو جناب کے خیال میں برا کھیل کچھ اور ہوگا اور وہ کسی وقت پیش کیا جا سکے گا. مگر قوم بیک زبان سوال کر رہی ہے کہ کیا اس سے بھی برا کوئی کھیلتا ہے؟ سابق مایہ ناز کرکٹرز اور کپتان کہہ رہے ہیں کہ انگلینڈ کے کھلاڑیوں نے مارا کم اور گھسیٹا زیادہ۔

    وقار یونس کو کوچنگ اور ہارون الرشید کو چیف سلیکٹر کے عہدے سے ہٹایا گیا تو باور کروایا گیا کہ اب شاید ناکامیوں کا سلسلہ تھم جائے اور ٹیم کی ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی رینکنگ کچھ بہتر ہوجائے لیکن موجودہ صورتحال کو دیکھ کر تمام امیدوں پر پانی پڑتا نظر آ رہا ہے۔ غیر ملکی کوچ ٹیسٹ کا تو کریڈٹ لے رہے تھے مگر ون ڈے میں شکست پر آرام سے پیچھے ہوگئے اور کہنے لگے کہ مجھے تو نئی ٹیم وراثت میں ملی ہے، میں کیا کروں، ابھی کچھ وقت لگے گا؟ اب بندہ ان کو کیا کہے، پچاس لاکھ مہینے کا وصول کر رہے ہیں تو ذمہ داری بھی اٹھائیں! انضمام الحق کو چیف سلیکٹر بنایا گیا حالانکہ وہ کوچ کے طور پر زیادہ مثبت کردار ادا کر سکتے تھے. افغانستان جیسی ٹیم انھی کی کوچنگ میں ابھر کر سامنے آئی۔

    یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ایک غیر ملکی کوچ کا ہونا کیوں ضروری ہے. ایک طرف تو رونا رو رہے ہوتے ہیں کہ ٹیم کے لڑکے پڑھے لکھے نہیں اور انہیں انگلش بولنی نہیں آتی، تو پھر ایک غیر ملکی کوچ ایسے کھلاڑیوں کے ساتھ کیسے بات کرے گا اور انھیں گائیڈ کر سکے گا. اب حال یہ ہے کہ اس صورتحال کی وجہ سے انڈین میڈیا اور کھلاڑی پاکستان ٹیم کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اسی سے ابتری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روایتی حریف مذاق اڑانے لگا ہے جو کبھی شکستوں کے بوجھ تلے دبا رہتا تھا.

    ضرورت اس امر کی ہے کہ کرکٹ بورڈ میں فوری تبدیلی لائی جائے، نجم سیٹھی اینڈ کو سے نجات دلائی جائے، ٹیلنٹ کو تلاش کیا جا ئے اور اچھی پرفامنس دینے والے کھلاڑیوں کو موقع دیا جائے

  • ایجبسٹن ٹیسٹ جیت سکتے ہیں، اگر؟ محسن حدید

    ایجبسٹن ٹیسٹ جیت سکتے ہیں، اگر؟ محسن حدید

    تیسرا ٹیسٹ آن پہنچا. پاکستان کی ٹیم نے پہلے ٹیسٹ کے بعد جتنا بھی اعتماد حاصل کیا تھا وہ اولڈ ٹریفورڈ میں کھو چکی، اب انگلینڈ پورے رعب سے میدان میں اترے گی. یاد رہے کہ یہ وہی گراونڈ ہے جہاں گزشتہ دورہ انگلینڈ میں پاکستان کی ٹیم صرف 72 رنز بنا کر آئوٹ ہو گئی تھی. اس گراونڈ پر پاکستان کبھی بھی ٹیسٹ میچ جیت نہیں سکا. یہاں ٹوٹل 7 میچز کھیلے ہیں جن میں سے 4 میں شکست ہوئی اور 3 ڈرا ہوئے. مشہور زمانہ وکٹ کیپر ذوالقرنین حیدر کا ڈیبیو (واحد ٹیسٹ بھی) یہیں ہوا تھا، جس میں انھوں نے ایک انوکھا ریکارڈ بنایا تھا (پہلی اننگز میں صفر اور دوسری اننگز میں ٹیم کا ٹاپ سکور88).

    England v Pakistan کیا پاکستان کے پاس کچھ بھی پازیٹو نہیں ہے تو اس کا جواب ہے کہ پاکستان کے پاس بھی چند مثبت چیزیں ہیں جن پر بات کی جاسکتی ہے مثلا گزشتہ ٹیسٹ میں انگلش ٹیم کی اچھی کارکردگی کا زیادہ حصہ روٹ اور کک کے کھیل پر مشتمل تھا، ہیلز ابھی تک ٹیسٹ معیار کے بلے باز ثابت نہیں ہو سکے جبکہ گیری بیلنس ایک سال کے بعد آئے ہیں اور ٹیم میں اپنی جگہ پکی کرنے کے چکر میں ہیں، جیمز ونس بھی کیرئیر کی شروعات میں ہیں اور ابھی تک کچھ خاص نہیں کرپائے. (انگلینڈ کا سسٹم اچھا ہے جو کسی نئے لڑکے کو مسلسل موقع دیتا ہے ورنہ کسی اور ملک میں ہوتے تو ونس اب تک ٹیم سے نکالے جا چکے ہوتے) پاکستان کے کوچ نے بھی انگلش ٹیم کے ٹاپ آرڈر کی انھی کمزوریوں پر بات کی ہے. سب سے بڑی بات کہ انگلینڈ کے اہم کھلاڑی بین سٹوکس انجری کی وجہ سے ٹیم سے باہر ہوچکے ہیں. پچھلے کئی دن سے بات چل رہی تھی کہ انگلینڈ ان کی جگہ ٹیم میں عادل رشید، جیک بال یا سٹیون فن میں سے کسی کو شامل کرے گا. زیادہ تر چانس یہی تھا کہ انگلینڈ اپنی سٹرینتھ پر کھیلےگا اور ایک سیمنگ پچ بنائے گا جس کی وجہ سے سٹیون فن کے ٹیم میں شمولیت کا چانس بن جائے گا. وہی ہوا اور انگلینڈ نے فن کو عادل رشید پر ترجیح دی. کرس ووکس اب تک انگلینڈ کے سب سے کامیاب بائولر ہیں اور یہ ان کا ہوم گرائونڈ بھی ہے، یہاں وہ اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے جارہے ہیں.

    یاسرشاہ ایجبسٹن کی پچ عام طور پر خشک ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ سپنر کے لیے سازگار ہو جاتی ہے، اس لیے سیمنگ پچ کے باوجود بھی یاسرشاہ اس میں اپنے لیے کچھ مدد کے منتظر ضرور ہوں گے. یاسر شاہ کا اپنی سپیڈ اور لائن لینگتھ میں تبدیلی کرنا بہت ضروری ہے ورنہ یہ ٹیسٹ بھی ان کے لیے امتحان سے کم نہں ہوگا کیونکہ انگلینڈ اس میچ میں بھی شاید سپورٹنگ پچ بنائے اور ایسی پچ پر ٹاس بہت اہم ہوجاتا ہے. یاسرشاہ کو وکٹ ٹیکنگ آپشن کے طور پر دیکھا جاتا ہے مگر اس چکر میں انھیں جلد بازی بالکل نہیں کرنی چاہیے اور سمجھنا چاہیے کہ پچ کا مزاج کیا ہے. ایک اور بات کہ یاسر کے بارے میں کبھی شک گزرتا ہے کہ وہ بہت سکرپٹڈ بائولر ہیں اور میچ کی صورتحال کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتے نہیں. یہ خیال بھی انہیں غلط ثابت کرنا ہوگا.

    محمد عامر کو اب کچھ کر دکھانا ہوگا، دو میچز ہوگئے، اب یقینی طور پر مشکل وقت گزر چکا، ہوٹنگ اور نعروں کا پریشر بھی وہ جھیل چکے. اب انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ٹیسٹ کے بہترین بائولر ہیں اور ان کا جو انتظار شائقین نے 6 سال کیا، وہ واقعی اسی لیول پر ہیں. Pakistan v England وہاب ریاض کو کاش کوئی بتا دے کہ اگر قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہو ہی گئی ہے تو وہ کچھ محنت ہی کرلیں، سپیڈ سے کیا ہوتا ہے، گرائونڈ میں کوئی تیز ترین گیند پھینکنے کا مقابلہ نہیں چل رہا ہوتا بلکہ بات تو وکٹ لینے پر ختم ہوتی ہے جس میں وہ بری طرح ناکام ہو رہے ہیں. اور یہ کوئی زمبابوے یا بنگلہ دیش کے سب سٹینڈرڈ بلے باز نہیں جو آپ کی طوفانی بائولنگ سے ڈر کر بیک فٹ پر چلے جائیں گے اور آپ کو وکٹ دے دیں گے. یہ آپ کی 150 کی رفتار سے آنے والی گیند کو 350 کی رفتار سے باہر پھینکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں. بظاہر تو وہاب کے کھیلنے کی کوئی وجہ نہیں بلکہ ان کی جگہ عمران خان کو کھلانا چاہیے، ایک تو ٹیم کو رائٹ ہینڈ فاسٹ بولنگ آپشن ملے گا اور فاسٹ بائولنگ میں کچھ ورائٹی آجائے گی، دوسرا یاسر شاہ کو رف پیچز مل جائیں گے جس سے وہ بائیں بازو کے انگلش بلے بازوں کے لیے مصیبت کھڑی کرسکتے ہیں. اس کے علاوہ اگر پچ سپورٹنگ بھی ہوئی تو ٹاس ہارنے کی صورت میں شروع کے دو گھنٹے ملنے والی سوئنگ سے عمران اچھا فائدہ اٹھا سکتے ہیں. راحت ٹھیک ہیں مگر انھیں خراب گیندوں کا تناسب بہت کم کرنا ہوگا اس کی وجہ سے وہ بیٹسمین کا سارا پریشر ختم کر دیتے ہیں اور بہترین سوئنگ کے باوجود بھی وکٹ نہیں لے سکتے.

    محمد حفیظ سے صرف اتنا کہنا ہے کہ جناب آپ سپیشلسٹ اوپنر بیٹسمین ہیں، یہ نائٹ واچ مین والی باریاں نہ کھیلیں اور ذمہ داری لیں، آپ پر ایک بڑی اننگز ادھار ہے، اگر وہ اس میچ میں کھیل دیں تو کمال ہوجائے گا. بہت زیادہ چانس ہے کہ سمیع اسلم کھیلیں گے تو سمیع اسلم کے لیے دعا ہے کہ اپنا بہترین کھیل پیش کردے تاکہ ایک مدت سے جو اوپنر کا قحط ہے ختم ہوسکے، ان کے ٹیلنٹ میں کوئی شک نہیں بس پریشر کا ڈر ہے کہ جھیل پائیں گے یا نہیں. ( پریکٹس میچ میں شان مسعود کی اچھی اننگز کہیں کپتان اور کوچ کا ذہن خراب نا کردے). یونس خان آپ بہت بڑے پلئیر ہیں، اپنی پرانی تکنیک سے ہی کھیلیں، اتنے ہزار رنز اسی سے بنائے ہیں، مزید بھی بنیں گے. 575429160اظہر علی بھول جائیں کہ ون ڈے اور ٹی 20 میں آپ کی کیا پوزیشن ہے، آپ مستقبل کے ٹیسٹ کپتان ہیں، اس لیے اپنی ذمہ داری پوری کریں. ٹاپ آرڈر کی بہتری آپ کی اچھی کارکردگی سے مشروط ہے اور اگر سٹرائیک روٹیشن بہتر ہوجائے تو پریشر خودبخود ختم ہوجائےگا. سرفراز اور اسد شفیق پلیز اپنی وکٹ کی قدر جانیں 30-40 یا 60-70 کی اننگز سے آگے کا سوچیں اور خراب شاٹ کھیلنے کی عادت سے جان چھڑائیں. ٹیسٹ کرکٹ میں سیٹ ہو کر آووٹ ہوجانا بہت بڑا جرم ہے. مصباح جی آپ کمال ہیں، بس تھوڑی سی ایگریشن اور ہلہ بول کرکٹ دکھائیں، اب آپ کے پاس مکمل اختیار ہے، ان کھلاڑیوں کی بھی کھنچائی کریں. آپ نے پاکستان کرکٹ کا مثبت امیج بحال کیا بلکہ اس میں مزید شاندار روایات شامل کیں مگر اب اپنے آخری سال میں بطورکپتان جارحانہ کھیل دکھائیں تاکہ یہ کمی بھی پوری ہوجائے. دوسرا جب آپ بیٹنگ کررہے ہوں تو نان سٹرائیکر اینڈ پر کھڑے ہوکر صرف دیکھا نہ کریں بلکہ غلط شاٹ کھیلنے پر اسی وقت دوسرے بلے باز کو ٹوکا بھی کریں. بدقسمتی سے اولڈ ٹریفورڈ کی پہلی اننگز میں اسد شفیق اور سرفراز کو آپ نے نہیں سمجھایا جبکہ وہ مسلسل غلط شاٹس کھیل رہے تھے. فیلڈنگ میں بھی چیزوں کے وقوع پذیر ہونے کا انتظار نہ کیا کریں بلکہ ٹرائی کیا کریں اور فیلڈ سیٹنگ یا بائولنگ چینجز سے صورت حال بدلنے کی کوشش کیا کریں. ہم ایجبسٹن میں پہلی دفعہ جیت سکتے ہیں، بس توجہ اور جارحانہ کھیل کی ضرورت ہے صورت حال کچھ بھی ہو ہمیں مثبت کھیلنا ہوگا ورنہ غیرضروری پریشر لینے کی عادت ہمیں ہزیمت سے دوچار کردے گی.

  • پاکستانی بلےباز کیا غلطیاں‌ کر رہے ہیں ؟ عمرفاروق

    پاکستانی بلےباز کیا غلطیاں‌ کر رہے ہیں ؟ عمرفاروق

    انگلینڈ کے مشہور بیٹسمین این بیل ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ 2006 کی سیریز میں پاکستان کے کوچ باب وولمر نے ایک نیٹ سیشن میں بیٹنگ کرتا ہوا دیکھ کر کہا کہ “بیٹ کی گرپ کو تھوڑا سا لوز کریں” اس سیریز سے پہلے مجھ سے رنز نہیں بن رہے تھے لیکن اس مشورے پہ عمل کرنے سے مجھے بہت فائدہ ہوا اور پاکستان کے خلاف اسی سیریز میں تین سینچریز بنانے میں کامیاب رہا. موجودہ نئ سلیکشن کمیٹی، نئے کوچ، ان کی نئ ٹیکنیکس اور ہمارے وہی پرانے پلیئرز اور ان سب پہ کروڑوں میں اخراجات، یہ ایسا کمبینیشن ہے جو کوئی بہتری ہی نہیں لا پا رہا کیونکہ کوئی سیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں اور کہاں وہ پلیئرز جو صرف ایک مشورہ سن کر اس پہ ایسے عمل کرتے ہیں کہ رنز کے انبار لگا دیتے ہیں. پہلے دو ٹیسٹ میچز میں ٹیم کی بیٹنگ پرفارمنس سب کے سامنے ہے، جس پہ بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے اس لیے کچھ ٹیکنیکل چیزوں کو دیکھتے ہیں جو ان کے مسلسل ڈائون فال کا سبب بن رہی ہیں. سب سے پہلے تو ایک بات سب کو مان لینی چاہیے کہ ہمارے بیٹسمین میں ڈیٹرمینیشن اور ایپلیکیشن کی شدید کمی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے اور مسائل بھی ہیں جن پہ نظر ڈالنا ضروری ہے.

    شان مسعود ……..شان مسعود…….
    ان کو کھلانے اور ان کے مسلسل فیل ہونے میں سلیکٹرز اور کوچز برابر کے شریک ہیں. سب سے پہلے ان کا آف سٹمپ پہ گارڈ لینا( جہاں بیٹسمین سٹمپس کے سامنا کھڑا ہوتا ہے) ان کو مصیبت میں ڈال رہا ہے کیونکہ اگر آپ پہلے ہی آف سٹمپ پہ ہوں تو آپ کے پاس کسی بھی قسم کی موومنٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی. ایک سٹیپ بھی اور اٹھانے پہ ان کی لیگ سٹمپ اوپن ہوجاتی ہے اور ان کا سر ان کے لیفٹ سائڈ پہ فال کر جاتا ہے جس سے وہ گیند کی لائن کو مس کر جاتے ہیں تو وہ لیگ سٹمپ پہ گری ہوئی گیند پیڈز پہ لگواتے ہیں اور ایل بی ڈبلیو کے امیدوار بنتے ہیں اور آف سٹمپ سے باہر جاتی ہوئی گیند کو سوائے پش کرنے یا سلپس میں کیچنگ پریکٹس کروانے کہ اور کچھ نہیں کرپاتے کیونکہ وہ بیک فٹ یا فرنٹ فٹ پہ جانے سے خود کو پہلے ہی محروم کر چکے ہوتے ہیں. سوئنگ کو کور کرنے اور کھیلنے کا اگر یہ طریقہ انھیں کسی کوچ نے بتایا ہے تو یہ کوچنگ کے معیار پہ بھی سوالیہ نشان ہے. اگر انھیں مزید پاکستان کے لیے کھیلنا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنا گارڈ اور سٹانس دونوں کو بدلنا ہوگا.

    ……محمد حفیظ……..
    MUHAMMAD HAFEEZ ٹیم میں پروفیسر کے نام سے جانے جاتے اس اوپنر کا حال بھی اتنا ہی برا ہے. 2010 سے یہ مسلسل ٹیم میں ہیں اور تب سے ان کی ٹیسٹ میچز میں ایک ہی پرابلم ہے آف سٹمپ سے باہر جاتی یا اندر آتی ہوئی گیند کو کھیلنا. ون ڈے کرکٹ میں چونکہ گیند زیادہ سوئنگ نہیں ہوتی اور پچز بھی فلیٹ ہوتی ہیں اس لیے وہاں تیکنیکی خامیوں کے ساتھ بھی رنز مل جاتے ہیں اس لیے زیادہ مسائل نہیں ہوتے. اگر تو انھیں اگلے میچز میں کھلایا جاتا ہے تو انھیں اپنے آف سٹمپ کا آئیڈیا ہونا بہت ضروری ہے، دوسرا انھیں اپنا گیم پلان بدلنا ہوگا اور ون ڈے موڈ اپنانا ہوگا شاید اس طرح کچھ سکور کرنے میں کامیاب ہوجائیں کیونکہ صرف بلاک کرنے کی نہ ان میں اہلیت نظر آتی ہے نہ ان کی تیکنیک اس قابل ہے.

    ………..اظہر علی………
    اظہر علی پاکستان کی ون ڈے ٹیم کے کپتان نے پریکٹس میچز میں دو سنچریاں بنائیں اور اپنے فارم میں ہونے کا ثبوت دیا لیکن لارڈز ٹیسٹ کی پہلی اننگز سے ہی مشکل میں نظر آئے. اظہر نے بھی شان مسعود والی ٹیکنک اپنائی اور سوئنگ کو کنٹرول کرنے کے چکر میں آف سٹمپ کا گارڈ لیا. جس سے وہ آف سٹمپ سے باہر یا لیگ سٹپ پہ گری ہوئی ڈلیوریز کھیلتے ہوئے ہر بار اپنا بیلنس کھو دیتے ہیں اور ایک سے زیادہ بار ایل بی ڈبلیو ہو چکے ہیں. اس سٹانس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بیک فٹ یا فرنٹ فٹ پہ دونوں طرح کھیلتے ہوئے گیند کی لائن آسانی سے مس ہو جاتی ہے جس سے بالر کے لیے انھیں آئوٹ کرنا بہت آسان ثابت ہو رہا ہے. سٹرائیک روٹیٹ کرنے میں بھی اظہر علی بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں، ہر گیند کو صرف بلاک کرنے کی نیت سے کھیلنا بھی ان کے سکورنگ چانسز کو بہت محدود کر رہا ہے جس سے بھی بالرز انھیں ٹریپ کر پا رہے ہیں. اپنی فارم حاصل کرنے کے لیے انھیں اپنی پرانی ویڈیوز دیکھنی چاہییں اور اپنی پرانی ٹیکنیک کو اپنانا چاہیے جس سے وہ پہلے رنز کر چکے ہیں.

    ………یونس خان…….
    YUNIS KHAN اپنے آخری دورہ انگلینڈ کو یادگار بنانے میں یونس خان ابھی تک ناکام ہی نظر آرہے ہیں. 4 اننگز میں ابھی تک وہ کسی ایک اننگز میں بھی مکمل کنٹرول میں نظر نہیں آئے. کریز کے باہر گارڈ لینا، اپنا سٹانس بہت نیچا رکھنا اور ہر بار جمپ کر کے گیند تک پہنچنا ان کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے. اس دورے میں ابھی تک بیٹنگ کا ردھم اور فلو وہ حاصل نہیں کر پائے جس کی ان سے بہت توقع تھی. نمبر 4 پوزیشن پر کھیلتے ہوئے رنز نہ کرپانا ٹیم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا ہے کہ کیونکہ ٹاپ آرڈر کو ساتھ لے کر چلنے میں وہ کافی تجربہ رکھتے ہیں لیکن اس بار ان کی ناکامی سے ٹاپ آرڈر مکمل طور پر ناکام نظر آرہا ہے. انھیں چاہییے کہ کریز کے اندر لیگ سٹمپ پہ گارڈ لیں. اور اپنی ٹرگر موومنٹس کو جتنا کم اور اپنا سر جتنا ساکت رکھ سکتے ہیں رکھ کہ کھیلیں اور سوئنگ اور سیم کو کھیلتے ہوئے اپنا بیلنس برقرار رکھیں اور غیر ضروری جمپ لگانے سے پرہیز کریں. اس سیریز میں وہ جن مختلف طریقوں سے آئوٹ ہوئے ہیں وہ بھی ان جیسے مایہ ناز بلے باز کے لیے لمحہ فکریہ ہے.

    ……..مصباح الحق……….
    مصباح الحق اپنے ناقدین کو بلے سے جواب دینا مصباح کو بہت اچھی طرح آتا ہے. اپنی ڈیٹرمینیشن اور گیم پلان سے مصباح ابھی تک ٹیم کے سب سے کامیاب بیٹسمین رہے ہیں. کریز پہ ڈٹے رہنا اور سکور کرنے کا کوئی بھی آسان موقع جانے نہ دینا ہی ان کی کامیابی کا راز رہا ہے. اپنی رینج سے دور بالنگ کو انھوں نے ابھی تک اچھی طرح کنٹرول کیا ہے. ابھی تک انھیں ٹیم کے باقی پلیئرز کی جانب سے خاص سپورٹ بھی نہیں مل سکی. انھیں چاہیے کہ اپنے اس سٹائل کو اپنائے رکھیں اور ٹیم کے لیے سکور بناتے رہیں. انھیں بھی سٹرائک روٹیشن پہ دھیان دینے کی ضرورت ہے. کریز پہ نئے آنے والے بیٹسمین کو سیٹ ہونے کا موقع دینے کے لیے بھی انھیں اپنی گیم کو ایڈجسٹ کرتے رہنا چاہیے. بعض دفعہ کسی خاص بالر کے سامنے کسی بیٹسمین کو اننگز کی شروعات میں نہ آنے دینا بالنگ سائیڈ کے لیے فرسٹریشن کا باعث بنتا ہے.

    ……..اسد شفیق………
    اسد شفیق برطانوی میڈیا نے مصباح الحق کے بعد اس ٹور پہ سب سے زیادہ جس پلیئر کو اپریشیٹ کیا ہے وہ اسد شفیق ہیں. ان کی تکنیک اور اسٹائل کو کافی سراہا گیا ہے. اس سیریز میں جو سب سے خاص بات نوٹ کی گئی ہے وہ ان کا اسٹانس ہے اور انھوں نے اپنی بیٹنگ تکنیک میں جو تبدیلی کی ہے وہ ان کا بیٹ گرپ کو تھوڑا سا اوپن کرنا ہے. جس سے ان کا بیلنس اور سٹروکس کی رینج میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے ایل بی ڈبلیو یا انسائیڈ ایج سے بولڈ ہونے کی روایت ختم ہوئی ہے. اس لیے بھی وہ اب آف سائیڈ پہ رنز بنا پا رہے ہیں. انھیں رنز بنانے کا یہ سلسلہ برقرار رکھنا ہوگا. بیٹنگ آرڈر میں انھیں ٹاپ آرڈر میں بھی آزمایا جا سکتا ہے.

    ………..سرفراز احمد………
    سرفراز احمد یو اے ای اور سری لنکا میں ٹیسٹ کرکٹ میں کافی رنز کرنے والے سرفراز احمد انگلینڈ میں ابھی تک اپنا ٹاپ گیم پیش نہیی کرسکے. کچھ ان کی شاٹ سلیکشن بھی بہت اچھی نہیں رہی. وہ بزی پلیئر ہیں اور ہر بال پہ سٹرائیک روٹیٹ کرنے کا سوچتے ہیں. وکٹ کی جانب آتی ہوئی گیند کھیلنے میں انھوں نے کافی مہارت کا ثبوت دیا ہے اسی لیے اب بالرز انھیں آف سٹمپ کے باہر زیادہ بالنگ کرتے ہیں جس کے مطابق انھیں اچھا گیم پلان بنانا ہوگا اور لوز بال کا انتظار کرنا ہوگا کیونکہ ابھی تک اس تکنیک سے وہ کامیاب نظر نہیں آرہے اور ایک آسان شکار ثابت ہو رہے ہیں.

    …….لیٹ آرڈر بیٹنگ….
    ٹیسٹ کرکٹ کی ٹاپ ٹیمز میں پاکستان شاید وہ واحد ٹیم ہے جس کا لیٹ آرڈر بیٹنگ کا کنٹری بیوشن نہ ہونے کے برابر ہے. اس لیے بھی ہماری ٹیم اچھی بیٹنگ پرفارمنسز پیش کرنے مین ناکام رہی ہے. مکی آرتھر کو چاہیے کہ وہ اس شعبے میں تھوڑی سی بہتری لانے کی کوشش کریں اور بالنگ پریکٹس کے بعد ان پلیئرز کو بیٹنگ بھی انجوائے کرنا سکھائیں. آسٹریلیا، سائوتھ افریقہ، انگلینڈ، انڈیا اور نیوزی لینڈ نے اپنے ٹیل اینڈرز کی بیٹنگ کی وجہ سے کئ ٹیسٹ میچز بچائے بھی ہیں اور جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں. اس لیے ہماری ٹیم کو بھی اس سلسلے میں کافی محنت کی ضرورت ہے.

  • دوسرے ٹیسٹ میچ کا پہلا دن – محسن حدید

    دوسرے ٹیسٹ میچ کا پہلا دن – محسن حدید

    محسن حدیدا پہلے دن کا کھیل مکمل طور پر انگلینڈ کے نام رہا. اولڈ ٹریفورڈ کی ڈرائی پچ پر بیٹنگ کے لیے سازگار ماحول میں انگلینڈ کا ٹاس جیت جانا بہت بڑا بونس تھا. کک اینڈ کمپنی نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پاکستانی بائولرز کو حاوی ہونے کا کوئی موقع نہیں دیا. محمد عامر کا پہلا سپیل شاندار تھا گو کہ پچ میں بائونس کافی بہتر ہے مگر اس کے علاوہ بائولرز کے لیے کچھ زیادہ مدد نہیں تھی مگر عامر نے ہیلز کو بڑی حکمت عملی سے قابو کی،ا انہیں ایک دو گیند باہر کھلا کر جب وہ اس بات پر مطمئن تھے کہ عامر کی ان سوئنگ ابھی شاید نا آئے بلکہ جیفری بائیکاٹ بھی کہہ رہے تھے کہ آج عامر گیند اندر نہیں لا پا رہا، اسی وقت ایک شاندار ان سوئنگر پر ہیلز کی وکٹیں بکھر گئیں حالانکہ اس سے دو گیند پہلے ہی آوٹ سوئنگر پر اسد شفیق سلپ میں کیچ ڈراپ کر چکے تھے.dc-Cover-oou9ltbnnperrbnmvl0dkdk0k0-20160722171059.Medi سیریز میں عامر کی بائولنگ پر ابھی تک 4 کیچز ڈراپ ہو چکے ہیں اورعامر نے اب تک سیریز میں جو 5 وکٹیں حاصل کی ہیں سب کی سب بولڈ کر کے حاصل کی ہیں. فیلڈرز کو عامر کا ساتھ دینا ہوگا

    اس پہلے نقصان کے بعد ٹیکسٹ بک بیٹنگ کا شاندار مظاہرہ دیکھنے کو ملا. روٹ اور کک کی سنچری اننگز بہت لاجواب ہیں. دونوں نے کسی بھی موقع پر غلط شاٹ نہیں کھیلا اور نہ ہی کسی باہر جاتی ہوئی گیند کو چھیڑنے کی کوشش کی. پاکستانی بائولرز کسی حد تک اوور ایکسائٹڈ بھی نظر آئے اور اس کوشش میں کئی ایک بری گیندیں تحفہ کیں جن کا روٹ اور کک نے بخوبی فائدہ اٹھایا. فاسٹ بائولرز کے خلاف آسانی دیکھتے ہوئے کپتان مصباح الحق یاسرشاہ کو 13 ویں اوور میں ہی بائولنگ کے لیے لے آئے. ڈرائی پچ اور چمکتے ہوئے سورج کو دیکھتے ہوئے یاسر سے اچھے شو کی امید تھی مگر یاسر تھوڑی جلد بازی کرتے نظر آئے گو کہ بال کو ٹرن مل رہا تھا مگر مطلوبہ لینتھ اور لائن نہیں سیٹ ہو پائی. خاص کر کک نے انہیں اپنے پیڈ پر گیند نہیں مارنے دیا. یاسر انہیں ٹریپ کرنے کے چکر میں نظر آئے جس کا انہوں نے بخوبی جواب دیا اور یاسر کو زچ کر کے رکھ دیا. مجبورا یاسر تھوڑی سی جگہ دیتے اور کک اس گیند پر ٹوٹ پڑتے. سچی بات تو یہ ہے کہ وہاب ریاض کی جگہ ایک رائٹ آرم فاسٹ باولر کھلانا چاہیے تھا. اگر رائٹ آرم فاسٹ بائولر کھیلتا تو یاسر کو لیفٹ آرم بیٹ کے لیے رف مل جاتا مگر یہاں مینجمنٹ چوکتی نظر آئی.promo293458483 روٹ نے سکوائر کے پیچھے شاٹ نہیں مارے اور واضح طور سے محسوس ہورہا تھا کہ روٹ اپنے جسم سے دور گیند کو نہیں کھیلنا چاہتے تاکہ یاسر کو کوئی ایج نا مل سکے. جب جب یاسر ان کی حکمت عملی کا توڑ کرنے کے لیے مڈل کی طرف آئے، روٹ نے انہیں لیگ پر چوکا مارنے میں کوئی غلطی نہیں کی. یاسر کی 50٪ گیندیں ہاف وولی تھیں جس کی وجہ سے انہیں اتنی مار بھی پڑی. یاسر کو لارڈز ٹیسٹ میں ٹوٹل 17 چوکے پڑے تھے اور کل صرف ایک دن کی باولنگ میں 16 چوکے پڑ گئے. پاکستان نے کل پانچواں بائولر بہت مس کیا. اگر حفیظ کا ٹیسٹ کلیئر ہوجائے تو کمال ہوجائے ورنہ یاسر سے زیادہ کام لینا ان کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے. حفیظ ویسے بھی لیفٹ ہینڈڈ بلے بازوں کے لیے بہت موثر ہیں. انگلینڈ کے پاس 4 -5 بائیں بازو کے بلے باز ہیں اس لیے ایک آف سپنر بہت ضروری ہے جو کم از کم 15-20 اوورز کروا سکے.

    مجموعی طور پر کل سب بائولرز نے انتہائی خراب باولنگ کی. وہ تو انگلینڈ کے دوسرے بلے باز اپنی ناتجربہ کاری سے مار کھاگئے اور 300 پر چار وکٹیں مل گئیں، اب بھی انگلینڈ کے پاس بہت موقع ہے کیونکہ ان کی بیٹنگ میں ڈیپتھ بہت ہے مگر صبح کا سیشن بہت اہم ہے. اب بھی میچ میں واپسی ہوسکتی ہے. اگر پہلے گھنٹے میں دو تین وکٹیں مل جائیں. بہرحال اگر لنچ تک انگلینڈ نے اچھا کھیل لیا تو پاکستان بیک فٹ پر چلا جائےگا. کپتانی بھی کل تھوڑی آف کلر رہی. غیر ضروری سنگل ہم نے بہت لیک کیے، شاید اس کی وجہ خراب بائولنگ اور لیگ سائیڈش لائن بھی رہی ہو مگر بعض دفعہ لگا جیسے مصباح بیٹسمین کی غلطی پر تکیہ کر بیٹھے ہیں. اتنی آسان پچ پر کک اور روٹ جیسے بلے باز کیوں غلطی کریں گے؟ یہاں آپ کو کچھ خاص کرنا پڑے گا اور کل پاکستان کچھ خاص نہیں کر پایا. امید ہے رات میٹنگ میں سب نے چیزوں کو نئے سرے سے دیکھا ہوگا اور آج ہم 400 سے کم پر انگلینڈ کو آوٹ کر سکیں گے. کک نے کل اپنی 29 ویں سنچری مکمل کی اور سر ڈان بریڈ مین کا ریکارڈ برابر کردیا. بطور کپتان یہ ان کی 11 ویں سنچری تھی جو کہ انگلینڈ کی طرف سے سب سے زیادہ سنچریاں ہیں