Tag: انڈیا

  • آج کا تاریخی دن، جب پاکستان کو پہلی ٹیسٹ فتح ملی – محسن حدید

    آج کا تاریخی دن، جب پاکستان کو پہلی ٹیسٹ فتح ملی – محسن حدید

    محسن حدیدا آج کے دن 1952ء میں پاکستان نے اپنی پہلی ٹیسٹ فتح حاصل کی تھی۔ یہ پاکستان کا صرف دوسرا ٹیسٹ میچ تھا۔ اس لحاظ سے یہ ایک بہت بڑی خبر تھی جس نے دنیائے کرکٹ کو حیران کر دیا۔ کوئی بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ انڈیا جیسی مضبوط ٹیم جسے ٹیسٹ کھیلتے ہوئے 20 سال ہوچکے تھے، اسے ایک نو آموز ٹیم شکست دے دے گی۔ پاکستان نے مگر اپنی موجودگی کا شاندار احساس دلایا اور آنے والے تابناک دنوں کی نوید سنا دی۔

    اپنی پہلی ہی سیریز میں ٹیسٹ میچ جیت جانا اور وہ بھی ایک اننگز سے، ایسا کارنامہ کسی اور ملک نے کیا ہو، تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں۔

    انگلینڈ اور آسٹریلیا کو اس میں استثنی حاصل ہے کیونکہ دونوں کرکٹ کے ایک طرح سے بانی گنے جاتے ہیں اور انگلینڈ آسٹریلیا کے کھلاڑی ٹیسٹ کرکٹ شروع ہونے سے پہلے بھی ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل کھیلتے چلے آرہے تھے، اس لیے طرفین میں تجربے اور مہارت کا کوئی فقدان نہیں تھا۔ ویسے انگلینڈ اور آسٹریلیا دونوں نے اپنی پہلی ہی سیریز میں ایک دوسرے کو ٹیسٹ میچ ہرا دیا تھا، تاریخ کا پہلا ٹیسٹ بھی انہی دو ملکوں کے درمیان کھیلا گیا تھا جس میں آسٹریلیا کو فتح حاصل ہوئی۔ اس کے بعد اگلے ہی میچ میں انگلینڈ نے اپنا بدلہ اتار لیا تھا۔ انگلینڈ کے بعد پاکستان واحد ٹیم ہے جس نے اپنا دوسرا ہی میچ جیتا ہو۔

    قارئین کی دلچسپی کے لیے بتاتا چلوں کہ بنگلہ دیش نے اپنا پہلا ٹیسٹ جیتنے کے لیے تقریبا 5 سال انتظار کیا اور اس سے پہلے مسلسل 17 سیریز میں شکست کھائی۔ اپنا پہلا ٹیسٹ جیتنے سے پہلے اتنی مسلسل سیریز کسی اور ٹیم نے نہیں ہاری ہیں۔ انڈیا کو اپنا پہلا ٹیسٹ جیتنے کے لیے 20 سال انتظار کرنا پڑا تھا، جب 1952ء میں انہوں نے انگلینڈ کے خلاف ایک ٹیسٹ میچ جیتا۔ اسی سال دوسری کامیابی اسے پاکستان کے خلاف حاصل ہوئی تھی۔ نیوزی لینڈ کو اپنی پہلی ٹیسٹ فتح کے لیے 26 سال انتظار کرنا پڑا تھا، اس نے پہلی دفعہ ویسٹ انڈیز کے خلاف مارچ 1956ء میں فتح حاصل کی۔ ساؤتھ افریقہ نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ 17 سال کی شدید محنت کے بعد جیتا تھا جب انہوں نے جنوری 1906ء میں انگلینڈ کو ہوم گراؤنڈ میں شکست دی تھی۔ ساؤتھ افریقہ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے بعد ٹیسٹ سٹیٹس حاصل کرنے والی تیسری ٹیم ہے۔ سری لنکا خوش نصیب ٹیم تھی جس نے صرف تین سال بعد اپنے 14 ویں ٹیسٹ میچ میں ہی فتح حاصل کر لی تھی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کے بہت عرصے بعد تک بھی سری لنکا کو بے بی آف کرکٹ کے نام سے پکارا جاتا رہا۔ ویسٹ انڈیز والے قدرتی ٹیلنٹڈ اور کرکٹ کے لیے شائد فٹ ترین لوگ تھے۔ 1928ء میں ویسٹ انڈین جزائر پر مشتمل کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ سٹیٹس ملا، اور 1930ء میں اپنی دوسری ہی سیریز میں ویسٹ انڈیز نے انگلینڈ کو ٹیسٹ میچ ہرا دیا، حالانکہ انگلینڈ سے ہی پہلی سیریز میں ویسٹ انڈیز کو کلین سویپ شکست بھی ہوچکی تھی۔ زمبابوے کو بھی پہلی ٹیسٹ فتح صرف تین سال بعد مل گئی تھی جب پاکستان کی مضبوط ترین ٹیم زمبابوے کے خلاف ڈھے گئی تھی۔ سلیم ملک کی کپتانی میں فروری مارچ 1995ء میں زمبابوے کا دورہ کرنے والی ٹیم نے پہلا ٹیسٹ جس طرح ہارا، اس پر آج بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ میچ فکسنگ کے حوالے سے یہ میچ بہت بدنام گنا جاتا ہے مگر اب یہ تاریخ ہے۔

    پاکستانی ٹیم کلکتہ ائیرپورٹ پر
    پاکستانی ٹیم کلکتہ ائیرپورٹ پر

    خیر موضوع کی طرف آتے ہیں۔ پاکستان کی اس عظیم ترین فتح کے معمار عظیم فضل محمود تھے، جنھوں نے اس میچ میں 12 وکٹیں حاصل کیں۔ انڈین ٹیم بہت مضبوط تھی، اس میں لالا امرناتھ اور پولی امریگر جیسے بڑے کھلاڑی موجود تھے۔ وجے منجریکر (مشہور کمنٹریٹر اور بلے باز سنجے منجریکر کے والد) بھی اس میچ میں انڈین ٹیم کا حصہ تھے، مگر کسی کے پاس فضل محمود کی شاندار باؤلنگ کا جواب نہیں تھا۔ پاکستان نے انڈیا کو پہلی اننگز میں صرف 106 رنز پر آؤٹ کردیا۔ اس اننگز میں فضل محمود نے 5 وکٹیں حاصل کیں، وہ پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ اننگز میں 5 وکٹیں لینے والے پہلے باؤلر بن گئے۔

    لکھنو میں پاکستانی ٹیم کے لیے گورنر کی طرف سے استقبالیہ
    لکھنو میں پاکستانی ٹیم کے لیے گورنر کی طرف سے استقبالیہ

    جواب میں نذر محمد کی شاندار اور تقریبا 9 گھنٹے لمبی محنت بھری 124 رنز کی اننگز کی بدولت پاکستان نے 194 اوورز میں 331 رنز بنائے۔ اس میچ میں انڈیا کو اپنے کامیاب ترین باؤلر ونو منکڈ (بہترین آل راونڈر تھے) کی خدمات حاصل نہیں تھیں، جنہوں نے گزشتہ میچ میں 13 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ ان کی غیر موجودگی انڈیا کے لیے بہت بڑا نقصان ثابت ہوئی اور پاکستان ایک اچھا ٹوٹل تشکیل دینے میں کامیاب ہوگیا۔ دوسری اننگز شروع ہوئی تو فضل محمود جیسے قہر بن کر انڈین بلے بازوں پر ٹوٹ پڑے اور اپنی پہلی اننگز سے بھی بہترین باؤلنگ کر ڈالی۔ دوسری اننگز میں انڈین ٹیم صرف 182 رنز بنا سکی۔ فضل محمود نے 27 اوورز میں صرف 42 رنز دے کر 7 انڈین بلے بازوں کو پویلین کا راستہ دکھا دیا۔ پاکستان کو اس میچ میں ایک اننگز اور 43 رنز کی شاندار فتح نصیب ہوئی۔

    فضل محمود
    فضل محمود

    یاد رہے کہ پہلے ٹیسٹ میچ میں انڈیا نے بھی پاکستان کو ایک اننگز سے شکست دی تھی۔ پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ میچ میں پہلی دفعہ 10 وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز بھی فضل محمود کے حصے میں آگیا۔ نذر محمد نے ٹیسٹ میں پاکستان کی طرف سے پہلی ٹیسٹ سنچری بنانے کا اعزاز اپنے نام کیا اور تاریخ میں امر ہوگئے۔ انڈیا کے ہری لال گائیکواڈ کا یہ واحد ٹیسٹ میچ ثابت ہوا، وہ دوبارہ کبھی انڈیا کے لیے نہیں کھیل سکے۔ پاکستان کی طرف سے کھیلنے والے امیر الہی اور حفیظ کاردار دونوں متحدہ ہندوستان کی طرف سے بھی کھیل چکے تھے۔ مزے کی بات ہے کہ امیر الہی نے انڈیا کی طرف سے اپنا واحد ٹیسٹ میچ دسمبر 1947ء میں کھیلا تھا جب پاکستان معرض وجود میں آچکا تھا۔ یہ انڈیا کی طرف سے ان کا پہلا اور آخری ٹیسٹ بھی ثابت ہوا۔

  • جب عاقب جاوید نے بھارت کے خلاف ہیٹ ٹرک کی – محسن حدید

    جب عاقب جاوید نے بھارت کے خلاف ہیٹ ٹرک کی – محسن حدید

    محسن حدیدا 25 اکتوبر 1991ء کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان ولز ٹرافی کا فائنل کھیلا گیا تھا۔ انڈیا، پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان کھیلے گئے اس تین ملکی ٹورنامنٹ کا فائنل پاکستان نے با آسانی جیت لیا تھا۔ یہ مسلسل تیسرا موقع تھا جب کسی تین یا اس سے زیادہ ملکوں کی سیریز میں میں پاکستانی ٹیم نے فائنل میں انڈیا کو ہرایا ہو۔ اس سے پہلے دو بارمسلسل 1983-84ء کے رتھمینزایشیا کپ اور بینسن اینڈ ہیجز کپ 1985ء میں انڈیا پاکستان کو ہرا چکا تھا۔ پاکستان کو کسی بھی کثیرالملکی سیریز میں پہلی فتح 1986ء کے آسٹریلشیا کپ میں حاصل ہوئی جب پاکستان نے انڈیا کو ہی فائنل میچ میں شکست دی تھی۔ یہ جاوید میاں داد کے مشہور زمانہ آخری گیند پر چھکے والا میچ تھا۔

    25 اکتوبر 1991ء کے ولز ٹرافی فائنل کی خاص بات نوجوان عاقب جاوید کا ناقابل یقین باؤلنگ سپیل تھا۔ عاقب جاوید نے اس میچ میں 37 رنز دے کر 7 انڈین بلے بازوں کو پویلین واپس بھیجا تھا۔ یہ اس وقت ایک ورلڈ ریکارڈ تھا۔ ان سے پہلے صرف ایک باؤلر ویسٹ انڈیز کے ونسٹن ڈیوس یہ کارنامہ انجام دے سکے تھے۔ ڈیوس نے جون 1983ء میں آسٹریلیا کے خلاف 51 رنز دے کر 7 وکٹیں حاصل کی تھیں لیکن ونسٹن ڈیوس نے ساتویں وکٹ اپنے گیارھویں اوور کی تیسری گیند پر حاصل کی تھی، اس وقت ون ڈے میچز60 اوورز پر مشتمل ہوتا تھا، سو موجودہ قوانین کے تحت عاقب جاوید 7 وکٹیں حاصل کرنے والے پہلے باؤلر ہیں۔ عاقب جاوید کا یہ ریکارڈ تقریبا دس سال تک قائم رہا اور اکتوبر 2000ء میں مرلی دھرن نے انڈیا کے خلاف صرف 30 رنز دے کر 7 وکٹیں حاصل کر کے یہ ریکارڈ عاقب جاوید سے چھین لیا۔ اب یہ ریکارڈ چمندا واس کے پاس ہے جنہوں نے زمبابوے کے خلاف 19 رنز دے کر 8 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔ ان کے سوا کوئی باولر ون ڈے میچ میں 8 وکٹیں حاصل نہیں کر پایا۔

    aaqib-javed عاقب جاوید نے اس میچ میں اپنے اس باؤلنگ سپیل میں ایک ہیٹ ٹرک بھی سکور کی تھی جب انہوں نے مسلسل تین گیندوں پر روی شاستری، محمد اظہرالدین اور عظیم ترین سچن ٹنڈولکر کو آؤٹ کر دیا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تینوں انڈین بلے باز ایل بی ڈبلیو آوٹ ہوئے تھے۔ یہ مجموعی طور پرساتویں اور پاکستان کی طرف سے چوتھی ہیٹ ٹرک تھی۔ 19 سالہ عاقب جاوید کے کیرئیر میں یہ پہلا موقع تھا جب انہون نے 5 یا اس سے زیادہ وکٹیں حاصل کی ہوں۔ عاقب جاوید اس کے بعد بھی مسلسل اچھی باؤلنگ کرتے رہے مگر 1998ء میں ان کا کیرئیر صرف 26 سال کی عمر میں بہت ہی افسوسناک انداز میں اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ بہت سے لوگ اسے میچ فکسنگ کے خلاف بولنے کا شاخسانہ بھی قرار دیتے ہیں مگر یہ چیز آج تک کسی فورم پر ثابت نہیں ہو سکی۔ پاکستان کی طرف سے ایک اور خاص کارکردگی جو اس میچ میں دیکھنے کو ملی، وہ 18 سالہ زاہد فضل کے 98 ناٹ آوٹ رنز تھے۔ زاہد فضل کریمپس کی وجہ سے اپنی سنچری مکمل نہیں کر سکے تھے اور انہیں ریٹائرڈ ہرٹ ہونا پڑا تھا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ زاہد فضل کا یہ سب سے بہترین ون ڈے سکور بھی ہے۔ اس کے بعد زاہد فضل کئی بار ٹیم سے ان آؤٹ ہونے کے بعد صرف 22 سال کی عمر میں انٹرنیشنل کرکٹ سے باہر ہوگئے تھے۔

    اس میچ میں عاقب جاوید کی وکٹیں دیکھیں

  • مسئلہ کشمیر: حل کی راہ میں رکاوٹ کون؟  – شہزاد احمد شانی

    مسئلہ کشمیر: حل کی راہ میں رکاوٹ کون؟ – شہزاد احمد شانی

    مسئلہ کشمیر کے حل کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کون ہے؟ جب اس سوال کے جواب کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہوں، تو گلوبلائزیشن کی فرضی ڈیفی نیشن پہ ہنس پڑتا ہوں اور اقوام عالم کے نام نہاد دعوؤں اور نعروں کو تعصب کے خمیر میںگوندا ہوا پاتا ہوں۔ اپنی سادہ دلی اور سادہ لوحی پہ رونا آتا ہے! اور اس پہ طرہ یہ کہ ہم نے اپنا مقدمہ موثر انداز میں شاید ان فورمز پہ اٹھایا ہی نہیں۔۔۔!

    مسئلہ کشمیر تین کرداروں کے گرد گھوم رہا ہے:

    انڈیا :
    جو کشمیر پہ ناجائز قبضہ کو برقرار رکھنے پہ بضد ہے اور اس ہٹ دھرمی پر انسانیت کے رشتہ کو بھی بھول چلا ہے۔ اگرچہ یہ جنگ اسے مالی اعتبار سے وہاں پہنچاگئی ہے کہ جہاں اسے اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق دینے کے وسائل کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔۔۔ کشمیری تو بارود کی بو میں سانس لینے پہ مجبور ہیں ہی، لیکن ہندوستانی شہری بھی بھوک اور ننگ کی نذر ہوئے ہیں!

    کشمیری عوام :
    ایک حصہ تو آگ اور خون سے گزر رہا ہے اور دوسرا تقریباً خواب غفلت کا شکار۔۔۔ مظفرآباد گزشتہ دہائیوں سے بیس کیمپ کے حقیقی رول سے محروم رہا ہے۔ برہان وانی کی شہادت، مقبوضہ وادی میں نوجوانوں کی حالیہ موومنٹ اور بھارت سرکار کی بوکھلاہٹ ہی کشمیر کی تحریک کو فیصلہ کن موڑ پہ لے گئی!

    پاکستانی سرکار:
    جو تقریباً ہر دور میں کشمیر کے نام کو اپنے مخصوص ایجنڈے کے لیے استعمال کرتی رہی اور من گھڑت آپشنز کی نذر ستر سال کرگئی۔ جو بدقسمتی سے آج تک کوئی مستقل، پائیدار اور کشمیریوں کی امنگوں کی ترجمان پالیسی بنانے میں ہی کامیاب نہیں ہوسکی۔۔۔

    پاکستانی سرکار کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگالیں کہ 29 اگست کی شب دنیا نیوز کے پروگرام ”آج کامران خان کے ساتھ“ میں جب اینکر نے حالیہ تشکیل پائے جانے والا 22 رکنی وفد (جو مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پہ اجاگر کرنے کے لیے بیرونی دنیا کے وزٹ پہ جانے کو ہے) کے ایک ممبر پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نواب علی وسان سے پوچھا کہ مسئلہ کشمیر ہے کیا؟ محبوبہ مفتی کون ہیں؟ شملہ معاہدہ کیا ہے ? اور لاہور ڈیکلریشن کیا تو ان کے پاس مضحکہ خیزی کے سوا کچھ نہ تھا۔

    جس فرد کو کشمیر کی الف، ب سے واقفیت نہیں وہ دنیا کو کیا قائل کرے گا؟ جس کو یہ نہیں پتا کہ محبوبہ مفتی کون ہے؟ کشمیری چاہتے کیا ہیں؟ وہ سیر سپاٹے کے علاوہ کیا کرپائے گا۔۔۔ حکومت وقت اگر واقعی سنجیدہ ہے تو آخر کیوں صدر ریاست آزادکشمیر مسعود خان کو اس کمیٹی کی سربراہی نہیں دی؟ جو سالوں انٹرنیشنل فورمز کا تجربہ رکھتا ہے؟ کشمیری سیاسی قیادت کو کیوں اس اہل نہیں سمجھا گیا کہ وہ بھی اس کمیٹی کے ساتھ جاتے اور دنیا کے سامنے اپنا درد اور دکھڑا رکھتے؟ حریت رہنماؤں پہ کیوں اعتماد نہیں کیا گیا؟ کیا ان سے زیادہ درد اور کرب کسی اور کو ہے۔۔۔؟؟؟

    آخر اس کمیٹی کا ممبر بننے کی اہلیت کیا تھی؟ کیا محض یہی کہ ممبر، کشمیر کے حوالے سے کچھ بھی نہ جانتا ہو!! حکومت پاکستان کا ایک ہی احسان کیا کم تھا جو مولانا کو تحفے میں کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ سالوں سے دے رکھی ہے۔۔۔ اب مزید 22 رکنی وفد بناکر ایک اور احسان کردیا گیا۔۔۔

    پاکستانی دفتر خارجہ کو جب تک کشمیریوں پہ اعتماد نہیں آئے گا۔۔۔ جب تک اسلام آباد سرکار مظفرآباد اور سرینگر کو اس ضمن میں ایک طرح کا وزن نہیں دے گی ۔۔۔ جب تک میڈیا غیر ضروری بحثوں سے باہر نہیں نکلے گا۔۔۔ جب تک کشمیری عوام رنگ برنگے نعروں کی نذر رہیں گے اور رائے شماری جیسے بنیادی سوال کے بجائے آگے کی تاویلیں پہلے پیش کرنے کی سعی لاحاصل میں جتے رہیں گے۔۔۔ تب تک خونیں لکیر کے پار کشمیری اپنی ایک اور نسل آگ و خون کے اس کھیل کی نذر کردیں گے۔۔۔

  • بھارت کے لیے حافظ سعید کو بُرا کہنے والے-انصار عباسی

    بھارت کے لیے حافظ سعید کو بُرا کہنے والے-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1 آپ نے کتنی مرتبہ ٹی وی چینلز میں بیٹھے ’’سیانوں‘‘ کو اپنے تبصروں اور تجزیوں میںبھارت میں سمجھوتہ ایکسپریس دہشتگردی کے واقعہ میں سگندلی سے جلاکر مارے جانے والے لاتعداد پاکستانیوں کے مجرم بھارت کو کوستے سنا۔ اس دہشتگردی کے واقعہ سے انڈین فوج کے ڈانڈے ملے اور ایک با وردی کرنل اس جرم میں ملوث پایا گیا لیکن ہمارے کتنے پروگرامز میں انڈین فوج کو دہشتگردی سے جوڑا گیا۔ ہندو شدت پسند تنظیم Abhinav Bharat جسے ریٹائرڈ بھارتی فوجیوں نے قائم کیا اور جس کا سمجھوتہ ایکسپریس دہشتگردی کے واقعہ سے تعلق جوڑا گیا کیا اُس کے بارے میں کبھی ہم نے اپنے ٹی وی چینلز میں سنا کہ یہ تنظیم اور اس کے اراکین انڈین نان اسٹیٹ ایکٹرز کے طور پر بھارتی فوج کی ایما پر مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف کس طرح دہشتگردی کر رہے ہیں۔ براہمداغ بگٹی کو کئی سالوں سے بھارت پاکستان کے خلاف بلوچستان میں دہشتگردی پھیلانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

    براہمداغ کھلے عام پاکستان توڑنے کی بات کرتا ہے اور بھارتی پیسے سے بلوچستان میں دہشتگردی کے ذریعے سیکڑوں معصوم پاکستانیوں کو مروا چکا ہے۔ براہمداغ بگٹی کابھارت کی شہریت حاصل کرنے کی درخواست اور پاکستان کے خلاف کام کرنے کے عزم نے اس غدار کابھارت سے گٹھ جوڑ دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا لیکن ایسے بلوچ غداروں کے خلاف بھی میڈیا کے ہمارے ’’سیانے‘‘ کم کم ہی زبان کھولتے ہیں۔ وہ اگر کھل کر کسی کے خلاف بات کرتے ہیں، گلا پھاڑ پھاڑ کر چیختے ہیں، روز روز ایک ہی بات کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں تو اُس وقت جب نشانہ پر حافظ سعید اور جماعۃ دعوۃہوں۔ بھارت کہتا ہے کہ حافظ سعید اور جماعۃ دعوۃ دہشتگرد ہیں۔ ہمارے ’سیانے‘ بھی یہی زبان بولتے ہیں۔ بھارت کہتا ہے کہ ممبئی حملہ کے پیچھے حافظ سعید ہیں، ہمارے سیانے بھی اسی بات پر یقین کرتے ہیں حالانکہ امریکا تک نے کہہ دیا کہ ممبئی حملوں کے متعلق پاکستان کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں۔بھارت کہتا ہے کہ حافظ سعید کیوں پاکستان میں آزاد گھومتے ہیں اور اُن کی تنظیم کو فلاحی کام کرنے کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے۔ ہمارے ’’سیانے‘‘ بھی یہی کہتے ہیں کہ حافظ سعید کو پکڑا کیوں نہیں جا رہا اور اُن کی فلاحی تنظیم پر کریک ڈائون کرنے میں کیوں ہچکچاہٹ ہے۔

    بھارت کی طرح ہمارے سیانے بھی حافظ سعید اور اُن کی تنظیم کو دہشتگردی سے جوڑتے ہیں۔ بغیر کسی ثبوت کے بھارت الزام لگاتا ہے کہ ہماری فوج اور آئی ایس آئی نان اسٹیٹ ایکٹرز کوبھارت کے خلاف استعمال کرتی ہے۔ ہمارے سیانے بھی مودی کے انڈیا کی نقل میں پاکستان کی فوج اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کا ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں۔ فوج اور حکومت کو طعنے دیئے جاتے ہیں کہ گڈ طالبان (یعنی جماعۃ دعوۃ اور وہ افغان طالبان جو پاکستان مخالف نہیں) کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا۔ حافظ سعید اگر کوئی جلسہ جلوس نکالیں تو کہا جاتا کہ ہے کالعدم تنظیموں کو حکومت اور فوج پال رہی ہے اور یہ نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی ہے۔بھارت کا کیس لڑنے والے ہمارے ’’سیانے‘‘ دن رات جھوٹ بولتے ہیں کہ حافظ سعید اور اُن کی تنظیم کا شمار پاکستان کی کالعدم تنظیموں میں شامل ہے۔ اس بارے میں نیکٹا (National Counter Terrorism Authority) کے ویب سائٹ کو دیکھ لیں حقیقت سامنے آ جائے گی۔ گزشتہ سال سیکریٹری خارجہ نے سینیٹ کی ایک کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ جماعۃ دعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کالعدم تنظیموں میں شامل نہیں ہیں اور نہ ہی ان پر کوئی پابندی عائد ہے۔ پاکستان کی عدالتوں نے حافظ سعید کو بھارت کی طرف سے لگائے گئے الزامات سے بری کیا لیکن ہمارے ’’سیانوں‘‘ اور مودی سرکار کے حافظ سعید اور اُن کی تنظیم سے متعلق لب و لہجہ میں کوئی فرق نہیں۔ اگر کوئی پاکستانی یا کوئی تنظیم کسی دوسرے ملک میں دہشتگردی کرتی ہے تو اُسے ضرور پکڑیں، اُسے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور سزا دلوائیں لیکنبھارت کے پروپیگنڈےکی بنیاد پر پاکستان سے محبت کرنے والوں کو صرف اس لیے نشانہ بنایا جائے کیوں کہبھارت ان پر ہر الزام تھوپتا ہے تو یہ کہاں کا انصاف ہے۔ پاکستان کے اندر حافظ سعید اور ان کی تنظیم کے لوگ فلاحی کاموں کی وجہ سے جانتے ہیں۔ حافظ سعید کھل کر کشمیر کی آزادی کی بات کرتے ہیں اور یہ وہ بات ہے جو بھارت کو ہضم نہیں ہوتی۔

    آخر میں ایک افسوس کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ ڈان اخبار کی خبر کے بعد کچھ ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ سول اور ملٹری ایک دوسرے کے سامنے آ جائیں۔ اس سلسلے میں میڈیا میں کچھ لوگ سول اور فوج کو لڑانے کے چکر میں ہیں۔ کچھ سیاستدان بھی جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں اور اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اُن کو اس سے کچھ مل جائے گا۔

  • مسئلہ صرف ایک ہے-اوریا مقبول جان

    مسئلہ صرف ایک ہے-اوریا مقبول جان

    اوریا مقبول جان پاکستان کا قیام دراصل کرۂ ارض پر مسلط دو نظریات کی بدترین شکست تھی۔ ایک سیکولر جمہوری سرمایہ دارانہ معیشت پر مبنی طرز معاشرت اور دوسرا مزدور کی آمریت کے ذریعے کمیونسٹ معاشی نظام۔ پاکستان بننے سے پہلے ان دونوں نظریات کے پیروکار ایک دوسرے سے برسرپیکار تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریز کی نو آبادیاتی حکومت قائم تھی جو سرمایہ دارانہ سیکولر جمہوری معیشت و معاشرت کی محافظ تھی۔ اس کے مقابلے میں 17، اکتوبر 1920ء کو سوویت روس کے شہر تاشقند میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی بنیاد رکھی گئی۔

    یہ دراصل ہندوستان میں کام کرنے والے بے شمار کمیونسٹ گروہوں کا کنونشن تھا۔ یہ تمام گروہ دنیا کے مختلف ممالک کی مدد سے ہندوستان میں کام کررہے تھے اور ان پر برطانوی حکومت کی سختیاں بھی جاری تھیں۔ سوویت یونین نے ان کو اکٹھا کیا اور کمیونسٹ پارٹی بنا ڈالی، جس کا ہندوستان میں پہلا کنونشن 25 دسمبر 1925ء میں کانپور میں منعقد ہوا۔ برصغیر کے کمیونسٹ گروہ مسلح بغاوت اور انقلاب پر یقین رکھتے تھے۔

    ان کے خلاف 1920ء سے لے کر 1935ء تک لگ بھگ پچاس کے قریب بغاوت کے مقدمات مختلف عدالتوں میں چلائے گئے جن میں پانچ مقدمات پشاور سازش کیس اور اتنے ہی مقدمات میرٹھ سازش کیس سے متعلق تھے۔ بھگت سنگھ بھی ایک کمیونسٹ تھا جس نے ایسے بہت سارے گروہوں میں حصہ لیا اور بالآخر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن کا اہم کارکن بن گیا۔ اسے برطانوی پولیس آفیسر جون سونڈرس کے قتل کے جرم میں سزائے موت دی گئی۔ کمیونسٹ پارٹی کے لوگ مہاتما گاندھی پر یہ الزام لگاتے رہے کہ اس نے نہ صرف بھگت سنگھ کو بچانے کی کوشش نہ کی بلکہ الٹا برطانوی سرکار سے مل کر اس کی پھانسی کی راہ ہموار کی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ گاندھی برصغیر میں ایک سیکولر، جمہوری سرمایہ دارانہ معیشت کا ایجنٹ ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے متاثر ادیبوں، شاعروں اور مصنفوں نے 1936ء میں لکھنو میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی۔

    سجاد ظہیر اس کے بانی سربراہ چنے گئے۔ برصغیر کا شاید ہی کوئی بڑا ادیب ہو جو اس انجمن کاخوشہ چین نہ رہا ہو۔ متاثرین کا تو ایک وسیع حلقہ مدتوں قائم رہا۔ فیض احمد فیض سے احمد ندیم قاسمی کرشن چندر سے عصمت چغتائی اور امرتا پریتم سے لے کر ساحر لدھیانوی تک سب کمیونسٹ انقلاب کے داعی اور سیکولر جمہوری سرمایہ دارانہ طرز حکومت و معاشرت کے مخالف تھے۔ کمیونسٹ معاشرت کا علمبردار برطانوی اور امریکی حکومتوں کو سامراج تصور کرتا تھا اس لیے وہ اس سامراج کے خلاف نعرہ زن رہے۔ دوسری جانب سیکولر جمہوری سرمایہ دارانہ قوتیں رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر دنیا میں قومی ریاستوں کی تشکیل میں لگی ہوئی تھیں۔

    جنگ عظیم اول کے بعد یہ تقسیم ایک حقیقت بن گئی اور دنیا چھوٹی چھوٹی قومی ریاستوں میں تقسیم ہوگئی، اور ان کی ایک تنظیم بھی بنادی گئی جس کا نام لیگ آف نیشنز رکھا گیا۔ سوویت یونین کی کمیونسٹ حکومت کو بنے ہوئے ابھی صرف تین سال ہی ہوئے تھے کہ انھوں نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا اور آزربائیجان کے شہر باکو میں قومیتوں کی ایک کانفرنس بلائی جس میں دنیا بھر کی ان قومیتوںکو بلایا گیا جو نئی بننے والی سیکولر جمہوری قومی ریاستوں میں اپنی جگہ نہیں بناسکی تھیں۔ سوویت یونین کا خواب تھا کہ ان قومیتوں کی آزادی کے نعروں کو بلند کرکے انھیں نئی بننے والی ریاستوں سے علیحدہ کردیا جائے تاکہ اپنی مرضی کی نئی کمیونسٹ ریاستیں وجود میں آجائیں۔

    1920ء میں ہونے والی اس کانفرنس میں بلوچ قوم پرستوں کا ایک گروہ کامریڈ مصری خان مری کی سربراہی میں  شریک ہوا۔ یہ تھی وہ کشمکش جودنیا کو کمیونسٹ یا سرمایہ دارانہ معیشت کے زیراثر لانے کے جاری تھی۔ دونوں قوتیں دنیا کو انھی نظریات کی بنیاد پر تقسیم کرتی تھیں۔ ان کے تصور اور گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن اس خطۂ ارضی پر ایک ایسا ملک بھی وجود میں آجائے گا جو ان دونوں نظریات کی نفی کرتے ہوئے اسلام کے آفاقی نظریے کی بنیاد پر تشکیل ہوگا، جس میں ایک دادا کے پوتے آپس میں ایک قوم نہیں ہوں گے اس لیے کہ ایک نے کلمہ طیبہ پڑھ لیا تھا۔

    یہ ان دونوں نظریات کی حامل قوتوں کی اتنی بڑی شکست تھی کہ اس کی ٹیسیں آج بھی ان کی تحریروں سے اٹھتی ہیں اور ان کے بیانات اور سرگرمیوں سے نفرت کے پرچم بلند کرتے ہیں۔پاکستان بن گیا۔ اس کا وجود ہی ان لوگوں کے لیے سوالیہ نشان تھا جو گزشتہ کئی سو سال سے دنیا کو دو سبق پڑھارہے تھے، ایک یہ کہ قومیں رنگ، نسل، زبان اور علاقے سے بنتی ہیں اور دوسرے یہ کہتے تھے کہ اصل لڑائی تو معاشی ہے اور بقول کارل مارکس یہ مذہب تو ایک افیون ہے جو غریب آدمی کو جدوجہد سے روکتا ہے۔ اس کے بعد قرارداد مقاصد منظور ہوگئی۔

    ان کے نزدیک یہ بہت بڑی گڑبڑ ہوگئی تھی۔ قیام پاکستان سے انھوں نے اپنی تحریروں میں یہ لکھنا شروع کردیا تھا کہ پاکستان معاشی وجوہات کی بنیاد پر بنا تھا۔ قرارداد مقاصد کے منظور ہونے کے بعد یہ گروہ اور سرگرم ہوگیا۔ 1950ء میں ڈاؤ میڈیکل کالج میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی جس میں کمیونسٹ نظریات کے تمام طلبہ شامل تھے۔ اس تنظیم کا 1953ء کا احتجاج اور پولیس مقابلہ بہت مشہور ہوا۔ لیکن جب جنرل اکبر نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی تو کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ اس تنظیم پر بھی پابندی لگادی گئی۔نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک اہم ستون حسن ظفر عارف تھے جو کراچی یونیورسٹی میں فلسفہ کے استاد بھی رہے۔ نظریاتی طور پر کٹر کمیونسٹ ہیں۔

    حکومت سندھ کی خاص نوازش سے انھیں ایم کیو ایم لندن کا مؤقف بیان کرنے کے لیے پریس کلب میں جگہ ملی۔ ان کے ساتھ ایک سیکولر نظریہ کے حامی، برسوں سے پیپلزپارٹی کے جیالے وکیل ساتھی اسحاق بھی شامل تھے۔ اگر پاکستان مردہ باد کہنے کے باوجود الطاف حسین کے ساتھیوں کو پریس کلب میں اپنا مؤقف بیان کرنے کی آزادی ہے تو پھر طالبان کو بھی کوئی پریس کلب دے دیا جائے۔دانشوری اور تحریر میں آپ کو جب کبھی پاکستان ٹوٹنے کے خواب دیکھنے والا کوئی ملے گا تو وہ انھی صفوں میں سے ملے گا جنہوں نے پاکستان کے نظریاتی وجود سے ہمیشہ نفرت کی۔ نواز شریف اس دن سے ان کا محبوب رہنما ہے جس دن سے اس نے اپنی گزشتہ روش چھوڑ کر سیکولر نظریات کو اوڑھنا بچھونا بنایا۔ الطاف حسین، محمود خان اچکزئی، اسفندیارولی، اختر مینگل، یہ سب انھیں محبوب ہیں۔ شاید خواجہ آصف بھی ان کی صف میں اپنی تقریر کے بعد شامل ہوگیا ہو۔

    وجہ صرف اور صرف ایک ہے اور وہ ہے پاکستان کی فوج۔ یہ فوج ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ فوج پوری کی پوری سیکولر بھی ہوجائے تو نعرہ تکبیر بلند کرنے کے بغیر اس کا چارہ نہیں۔ آپ قیام پاکستان سے لے کر آج تک فوج کے خلاف لکھے گئے مضامین جمع کرلیں۔ خبریں اکٹھا کرلیں، تقریریں اور بیان نکال لیں۔ آپ کو مقرر، دانشور اور قلمکار وہی لوگ ملیں گے جنہوں نے 1947ء کی چودہ اگست کو شکست کھائی تھی۔ اگر پاکستان کی فوج بدنام ہو گی، کمزور ہوگی تو ریاست پاکستان کمزور ہوگی۔ ریاست پاکستان کمزور ہوگی تو ایک نعرہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گا۔ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ۔

  • سول ملٹری تعلقات اور سقراط-عبدالودود قریشی

    سول ملٹری تعلقات اور سقراط-عبدالودود قریشی

    abdul-wadood-qurashi-312x360

    اقتدار کے ایوانوں میں حادثاتی طور پر داخل ہونے والوں کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ وہ موقع ملتے ہی چغلی کھائیں سقراط کو جب اس کے شاگرد نے یہ بتانا چاہا کہ وہ بازار سے یہ باتیں سن کر آیا ہے کہ اس کا نوکر اس کے خلاف گفتگو کرتا ہے تو شاگرد نے سقراط کو کہا کہ میں آپ کے نوکر کے بارے میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں تو سقراط نے اسے روک دیا اور کہا کہ جو بات آپ کرنا چاہتے ہیں وہ تین شرائط پر پوری اترتی ہے تو مجھے بتاﺅ ورنہ نہ بتانا، ”اول “یہ کہ جو بات تم بتانا چاہتے ہو وہ سو فیصد درست اور سچ ہے جس کے تم براہ راست عینی شاہد اور سامع ہو ”دوم “یہ کہ جو بات تم بتانا چاہتے ہو وہ اچھی ہے اور ”تیسری بات “کہ وہ نہ تو چغلی ہے اور نہ ہی میرے فائدے اور کسی کے نقصان میں ہے۔ شاگرد نے کہا یہ بات میں نے خود نہیں سنی اور سچی ہونے کا نہ میں گواہ نہ عینی شاہد ہوں دوم یہ بات اچھی بھی نہیں ہے اور تیسری بات یہ کہ یہ آپ کے فائدے کی بات نہیں اس سے کسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس پر سقراط نے کہا مجھے وہ بات مت بتاﺅ جو ان شرائط پر پوری نہیں اترتی اور خود بھی اسی پر عمل کرنا۔

    اگر ہمارے حکمران سقراط کے اس فارمولے پر عمل کریں یا اگر مجبور ہوں تو آنے والی بات کو ان شرائط پر پرکھ لیں تو ان کی ذات کے علاوہ قوم کا بھی بھلا ہو گا۔ ہمارا ایک دوست اس طرح کی بات ایک چینل پر کر کے وزارت کا قلمدان کھو بیٹھا یہ الگ بات کہ وزیراعظم نے اس سے وزیر والی مراعات واپس نہیں لیں، حال ہی میں ایک اخبار نے اس طرح کی خبر شائع کرائی جیسے گلی محلے کے بچے بنٹے کھیلتے لڑ پڑے اور قریب تھلے پر بیٹھے شخص نے جو عمر رسیدہ اور معتبر ہے نے یہ بات اسے بتا دی اور اس نے تمام جملے شائع کر دیئے، حکمران جماعت میں حادثاتی طور پر آنے والے لوگ حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے بڑی سے بڑی چغلی کھانے کے لیے دور کی کوڑی لاتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اس سے نہ تو سٹیبلشمنٹ کو کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ ہی حکمرانوں کو مگر اس کے برے اثرات قوم پر مرتب ہوتے ہیں اور نچلی سطح پر دونوں اطراف مورال کم ہوتا ہے اور دشمن خوش ہوتا ہے اس کا مورال بڑھتا ہے کہ فوج اور حکومت میں تناﺅ بڑھ رہا ہے، سیاسی ورکر سوچتا ہے کہ نہ جانے کب حکمرانوں کی شامت آ جائے اور سیاست دانوں کے بیانات قوم کے تقسیم ہونے کا تاثر دیتے ہیں، دانشمند حکمران اپنے ہاں ایسی صورت حال پیدا ہی نہیں ہونے دیتے اور اس طرح کے تاثر کو دو قدم آگے بڑھ کر مسترد کر کے قیادت اپنے ہاتھ لے لیتے ہیں۔ بیورو کریسی بھی اپنا کام کرنے کی بجائے اپنا ملبہ دوسروں پر ڈال کر سرخرو ہونا چاہتی ہے۔ دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ ناکام نہیں ہوئے جس ملک میں جاتے ہیں ہم سے یہ یہ سوال پوچھے جاتے ہیں ہمارا وفد فرانس گیا تو یہ سوال پوچھے گئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض عیاشی کی خاطر باہر گئے انہوں نے اپنا کام مکمل نہیںکیا ،اپنی بیورو کریسی سے ایک سوال تو کیا جا سکتا ہے کہ ملک سے حافظ سعید ”ایٹمی پروگرام“، ”حقانی نیٹ ورک “اور دو قومی نظریہ کو ختم کر دیا جائے تو بھارت کشمیر کو آزاد کر دے گا اور فرانس ، امریکہ، برطانیہ، پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

    مندرجہ بالا عوامل فلسطین میں بھی ہیں؟، لیبیا میں بھی تھے؟ ، عراق میں بھی تھے؟، کوریا میں بھی ہیں ؟، دفتر خارجہ کے لوگ یہ کیوں فرض کر لیتے ہیں کہ وہ امریکی، یورپی اور برطانوی سفارت کار ہیں، گو یہ مراعات ان سے زیادہ وصول کرتے ہیں۔ دفتر خارجہ کی جانب سے گزشتہ دنوں دی جانے والی تمام تر بریفنگ نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ فلاں ملک یہ کہتا، فلاں ملک یہ کہتا ہے وہ اس لیے کہتے ہیں کہ بھارت کے دفتر خارجہ نے وہاں کام کیا ہے آپ نے اپنے بچوں کو گلوکاری سکھا کر عدنان سمیع بنایا جس نے بھارت کی شہریت لے لی، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی امور خزانہ میں ہمار ے رپورٹر علی شیر موجود تھے نے مجھے بتایا کہ اویس لغاری کی صدارت میں پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا افضل نے سیکرٹری خارجہ سے سوال کیا کہ میں 25 سال سے سیاست کر رہا ہوں حافظ سعید کو نہیں جانتا مگر دنیا جانتی ہے وہ کونسے انڈے دیتا ہے اور پھر بھارت میں نہیں پاکستان کی پارلیمانی کمیٹی میں یہ بات کی گئی کہ حکومت ان تمام وجوہات کا خاتمہ کرے جن کی وجہ سے بھارت مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے ہمارا کیس خراب کرتا ہے گویا ملک سے فوج ختم کر دی جائے، ایٹمی پروگرام ختم کر دیا جائے ، میزائل پروگرام ختم کر دیا جائے، دو قومی نظریہ ختم کر دیا جائے، کشمیر کی بات کرنے والے افراد کو مار دیا جائے ، گائے کی قربانی بند کر دی جائے

    کیا اس کے بعد یہ پارلیمانی سیکرٹری گارنٹی دے سکتے ہیں کہ بھارتی ان کے خاندان پر گائے کا پیشاب پینے کی شرط نہیں لگائیں گے، اجتماعی طور پر جرنیلوں کے خلاف ایک وزیر کا بیان سوشل میڈیا پر کس نے چڑھایا اور وزیراعظم ہاﺅس سے پی ٹی وی کی کرنٹ افیئرکی ریکارڈنگ کس نے لیک کی۔ انگریزی اخبار میں صفحہ اول پر شائع ہونے والی خبر کس نے لیک کی یا یہ مکمل جھوٹ تھی تو اس رپورٹر کا ایکری ڈیشن کیوں منسوخ نہیں کیا گیا، روزانہ دس سے پندرہ عدد نوٹس مجھے روزانہ وصول ہوتے ہیں جن میں کسی بیوہ کی سچی اپیل چھاپنے ، کسی غریب سے زیادتی کا ذکر ہوتا ہے مگر نوٹس سورج کی پہلی کرن کے ساتھ میری میز پر ہوتا ہے اس حوالے سے کیا کیا گیا یہی کہ اس اخبار کے اشتہارات کو بہتر کر دیا گیا اور اس کے ٹی وی کو بھی نوازا گیا یہ ساری واردات حکمرانوں کے خلاف نچلے طبقے کے لوگ ڈال رہے ہیں جو لوگ عمران خان کا سیاسی سطح پر مقابلہ نہیں کرنا چاہتے اور کر بھی نہیں سکے وہ قبل از وقت یہ ملبہ بنا کر کسی اور پر ڈالنا چاہتے ہیں اگر کوئی ملک میں حکومت کو ختم کرنا چاہے تو ان کے راستے میں کون سی بڑی دیوار حائل ہے یا کونسا گیٹ ان کی دسترس سے باہر ہے ، اصل بات اس سازش تک پہنچنے کی ہے جو کسی اور کو فائدہ پہنچانے اور ملک کے دشمنوں کو ناداستہ تقویت پہچانے اور اپنی ذمہ داریوں سے فرار کے لیے بہانے تراشنے کے لیے تیار کی جا رہی ہے جو ملک دشمنوں کا ایجنڈا ہے، کبھی حکومت اور فوج میں اختلاف اور کبھی سی پیک کے خلاف نعرے کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔

  • زرد صحافت اسے کہتے ہیں!  –  احسان کوہاٹی

    زرد صحافت اسے کہتے ہیں! – احسان کوہاٹی

    یہ غالباً سولہ سترہ برس پرانی بات ہے جب روزنامہ امت کا دفتر کراچی کے گنجان ترین علاقے نامکو سینٹر میں ہوا کرتا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب شہر ایم کیو ایم کے قبضے میں اور صحافت یرغمال ہوا کرتی تھی۔ تب نیوز چینلز نے جنم نہیں لیا تھا۔ الیکٹرانک میڈیا میں صرف پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان ہی تھے، جو بلاشرکت غیرے سرکار کے قبضے میں تھے۔ لے دے کر اخبارات اور جرائد ہی بچے تھے، جو ایم کیو ایم سے بچے ہوئے نہیں تھے، سرشام ہی اخبارات کے فیکس نائن زیرو کے بیانات دینا شروع کردیتے جن کی نوک پلک سنوار کر اخبارات نمایاں طور پر شائع کرنے کے پابند ہوتے تھے۔

    ایسے میں روزنامہ امت اکلوتا اخبار تھا جس نے اس پابندی کو قبول کرنے سے علانیہ انکار ہی نہیں کیا، بلکہ ایم کیو ایم کے حوالے سے کھل کر لکھنا بھی شروع کردیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب الطاف حسین کو لندن میں چھینک بھی آتی تو کراچی میں آٹھ دس معصوم شہریوں کا صدقہ دے دیا جاتا۔ اس ماحول میں امت کی بے باکی اکثر کی نظروں میں حماقت ٹہری تھی۔ ان دنوں ایڈیٹر صاحب کا معمول ہوتا تھا کہ وہ آٹھ نو بجے رپورٹنگ ڈیسک پر آتے اور ہر رپورٹر سے پوچھتے کہ آج کیا لائے ہو؟ خبر اچھی اور بڑی ہوتی تو وہ رپورٹر کو اپنے چھوٹے سے دفتر میں بلالیتے، خبر کے بارے میں سوال جواب کرتے، شواہد طلب کرتے کہ اس ایکسکلوزیو نیوز کے ثبوت کیا ہیں اور اس ادارے، شخص کا موقف کہاں ہے؟ موقف کے بنا خبر شائع نہیں ہوتی تھی۔ ایڈیٹر کا کہنا تھا کہ جس کے خلاف خبر ہے، اس سے لازمی رابطہ کریں۔ اس کا موقف لیں، بے شک وہ گالیاں دے۔

    ایسے ہی اک رات ایڈیٹر صاحب اپنے کمرے سے نکلے، رپورٹنگ ڈیسک پر پہنچے اور رپورٹروں سے کارگزاری پوچھنے لگے۔ ایک سینئر رپورٹر نے خبر سامنے رکھ دی جو ایم کیو ایم کی خاتون بااثر راہنما نسرین جلیل صاحبہ کے خلاف تھی۔ ایڈیٹر صاحب نے خبر ہاتھ میں لی اور پڑھنے کے بعد رپورٹر سے پوچھا کہ موقف کہاں ہے؟ رپورٹر نے پس و پیش کی کہ ایم کیو ایم والوں سے کیسے بات کی جائے؟ کیسے موقف لیا جائے؟ ایڈیٹر صاحب نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ موقف لو، اس کے بعد ہی خبر فائل کرنا۔ رپورٹر نے سعادت مندی سے سر ہلایا اور تار کھینچ کر ٹیلی فون کو قریب کھسکاکر نمبر ڈائل کرکے نسرین جلیل صاحبہ سے لگا۔ ایڈیٹر صاحب اپنے کمرے کی طرف پلٹے تو آغا خالد صاحب نے رپورٹر سے پوچھا: ’’بات ہوگئی؟‘‘

    رپورٹر نے اثبات میں سر ہلایا جس پر آغا خالد صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ فون تو ڈید پڑا ہوا ہے، موقف کیسے لے لیا؟ اب رپورٹنگ ڈیسک میں لگنے والا قہقہہ خاصا زور دار تھا۔

    آج سیلانی کو وہ واقعہ اور قہقہہ بڑی شدت سے یاد آرہا ہے کہ اک دور وہ بھی تھا اور یک دور آج کا بھی ہے کہ صحافت کی لغت سے ہی ذمہ داری، اصول پسندی کے الفاظ نکال دیئے گئے ہیں۔ مقام افسوس یہ کہ ایسی بے اصول صحافت اب وہ اخبار بھی کررہے ہیں جو پاکستان کے بڑے اخبار قرار پاتے ہیں۔ جو فرنٹ پیج پر پاکستان کے سب سے بااصول لیڈر بابائے قوم کی تصویر فخریہ چھاپتے ہیں کہ قائد اعظم ان کا اخبار پڑھا کرتے تھے۔ انگریزی کے اسی بڑے اخبار کے صفحہ اول پر لگنے والی خبر نے اپنی ہی ساکھ پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔

    سیلانی اسلام آباد سے دور کراچی میں رہتا ہے، لیکن اب فاصلوں کی اہمیت ہی کیا رہی ہے۔ سیکنڈوں منٹوں میں یہاں کی آگ کی تپش وہاں اور وہاں کی پھوہار کی بوندیں یہاں پہنچ جاتی ہیں۔ پھر کراچی کے اس بڑے انگریزی اخبار کی خبر ڈسکس کیسے نہ ہو، یہ خبر تو ملکی سرحدوں سے نکل کر نئی دہلی میں بھی مزے لے لے کر سنائی جارہی ہے کہ معاملہ پاکستان کا ہے۔ سچی بات ہے یہ خبر سیلانی کی نظر سے نہیں گزری تھی، البتہ اس نے سنا تھا کہ ایک بڑے انگریزی اخبار نے کچھ ’’بڑی بریکنگ نیوز‘‘ دی ہے۔

    سیلانی کو وہ خبر ای میل کی صورت اسلام آباد میں ایک دوست نے بھیجی، وہ دفاعی تجزیہ نگار ہیں، رابطہ ہوا تو پھبتی کستے ہوئے کہنے لگے ’’آج کل آپ کراچی والے کیا چلارہے ہیں۔۔۔۔‘‘

    ’’میں سمجھا نہیں‘‘ سیلانی کو معاملے کا علم ہی نہیں تھا۔

    ’’ارے بھئی کراچی والوں نے ڈی جی آئی ایس آئی اور شہباز شریف کو بھڑا دیا اور آپ کو خبر ہی نہیں۔‘‘

    استفسار پر پتا چلا کہ ایک بڑے اور پرانے انگریزی اخبار نے کسی اجلاس کی خبر چھاپی ہے، جس میں بتایا گیا ہے شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر کے درمیان گرما گرمی ہوئی ہے اور ظاہر یہ کیا جارہا ہے کہ سول اور عسکری قیادت فاصلے پر کھڑی ہے۔۔۔ سول حکومت کا گلہ ہے عسکری قیادت انتہا پسند جہادیوں کو سپورٹ کرتی ہے اور اسی وجہ سے پاکستان عالمی تنہائی کی طرف جارہا ہے۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تو سیدھا سیدھا سول اور ملکی سلامتی کے اداروں کو ایک دوسرے سے بھڑانے کی کوشش ہے۔ بھارت سمیت دنیا کو بتانا ہے کہ فوج اور حکومت کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے اور حکومت نے عسکری اداروں پر واضح کیا ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہائی سے بچنے کے لیے اہم معاملات پر اتفاق رائے سے کارروائیاں ہونی چاہئیں۔

    ’’اوہ ان حالات میں یہ خبر تو واقعی خطرناک ہے۔ اگر کسی اردو اخبار میں شائع ہوتی تو شاید اتنا زیادہ مسئلہ نہ ہوتا لیکن یہ انگریزی اخبار تو بااثر سفارتی حلقوں میں پڑھا جاتا ہے۔‘‘

    ’’اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ سوچ سمجھ کر ہی خبر شائع کی گئی ہے۔‘‘

    انہوں نے سیلانی کو خبر ای میل کردی، جو اب سیلانی کے سامنے تھی۔ خبر کیا تھی نئی دہلی اور واشنگٹن کی باچھیں کھلارہی تھی۔

    ’’حکومت نے واضح اور غیر معمولی طریقے سے قیادت کو یہ پیغام پہنچادیا کہ عالمی سطح پر تیزی سے پاکستان تنہا ہورہا ہے جبکہ ریاستوں کی جانب سے کئی اہم معاملات پر کارروائیوں کے لیے اتفاق رائے کا بھی تقاضا کردیا۔‘‘

    پیر 3 اکتوبر کو آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر ہونے والی ایک خفیہ ملاقات میں کم سے کم دو اقدامات پر اتفاق کیا گیا۔ پہلا یہ کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کے ہمراہ چاروں صوبوں کا دورہ کریں گے اور صوبائی اپیکس کمیٹیوں اور آئی ایس آئی کے سیکٹرز کمانڈرز کو ایک پیغام دیں گے۔ وہ پیغام یہ ہوگا کہ: فوج کے زیر انتظام کام کرنے والی خفیہ ایجنسیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کالعدم شدت پسند گروہوں اور ان گروپس کے خلاف کارروائیوں میں مداخلت نہیں کریں گی، جنہیں اب تک سویلین ایکشن کی پہنچ سے دور سمجھا جاتا تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر کے دورہ لاہور سے اس عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔ دوسرا یہ کہ وزیر اعظم نواز شریف نے ہدایات دیں کہ پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات کو کسی نتیجے پر پہنچانے کے لیے نئے اقدامات کیے جائیں جبکہ ممبئی حملہ کیس سے متعلق مقدمات راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں دوبارہ سے شروع کی جائیں۔ یہ فیصلے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے درمیان ہونے والی زبردست بحث کے بعد کیے گئے۔ زیر نظر مضمون ان شخصیات سے ہونے والی گفتگو پر مبنی ہے جو رواں ہفتے ہونے والے اس اہم اجلاس میں شریک تھے، تاہم ان تمام افراد نے آن ریکارڈ بات کرنے سے انکار کیا اور انہوں نے جو باتیں کیں، ان کی تصدیق متعلقہ افراد کی جانب سے بھی نہیں کی گئی۔‘‘

    حیرت کی بات یہ تھی کہ خبر ہی میں کہا جارہا تھا کہ اس حوالے سے فریقین میں سے کسی نے تصدیق کی نہ آن دی ریکارڈ بات کی۔ پھر بھی خبر صفحہ اول پر چھاپ دی گئی۔ خبر میں مزید دعویٰ کیا گیا تھا:

    ’’سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی اور دیگر سول عہدے داروں کے درمیان حیرت انگیز اور غیر معمولی تبادلہ خیال شروع ہوگیا۔ سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ کے رد عمل میں ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر نے استفسار کیا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا ہونے سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟ اس پر اعزاز چوہدری نے جواب دیا کہ عالمی برادری کا سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ جیش محمد، مسعود اظہر، حافظ سعید، لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے جواب دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ جسے ضروری سمجھتی ہے گرفتار کرے، تاہم یہ واضح نہیں کہ انہوں نے یہ بات مذکورہ افراد اور تنظیموں کے حوالے سے کہی یا پھر عمومی طور پر کالعدم تنظیموں کے ارکان کے حوالے سے کہی۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے غیر متوقع طور پر مداخلت کی گئی اور انہوں نے رضوان اختر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی سول حکام ان گروپس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ انہیں رہا کرانے کے لیے پس پردہ کوششیں شروع کردیتی ہے۔

    شہباز شریف کا یہ موقف سن کر شرکاء ششدر رہ گئے، تاہم کشیدگی کو کم کرنے کے لیے خود وزیر اعظم نواز شریف نے رضوان اختر کو مخاطب کیا اور کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا، وہ ریاستی پالیسیاں تھیں اور ڈی جی آئی ایس آئی کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جارہا۔ قبل ازیں اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی نے بتایا کہ فوج کی پالیسی ہے کہ وہ شدت پسند گروہوں کے درمیان فرق نہیں کرتی اور فوج اس پالیسی کو رائج رکھنے کے لیے پر عزم ہے۔ تاہم آئی ایس آئی چیف نے مختلف شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کے وقت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا اور کہا ان کارروائیوں سے ایسا تاثر نہیں جانا چاہیے کہ یہ بھارت کے دباؤ پر کی جارہی ہیں یا ہم نے کشمیریوں سے اظہار لاتعلقی کردیا ہے۔‘‘

    ملک کے ٓبڑے انگریزی روزنامے میں سیاسی اور عسکری قیادت میں تلخ ملاقات کا الزام، اس کا ’’احوال‘‘ اور ’’فیصلے‘‘ رپورٹ کرنے والے نے اتنی بڑی خبر بنا موقف کے ہی نیوز ڈیسک کو دے دی اور پھرشاباش کہ اسے چھاپ بھی دیا گیا۔ سیلانی کے دوست نے بتایا کہ اصولی صحافت کے علمبرداروں نے اگلے روز وزیر اعظم ہاؤس سے آنے والی تردید بھی اندرونی صفحوں میں شائع کر دی۔

    اس خبر کے حوالے سے سیلانی کے دوست کا کہنا تھا یہ خبر دینے والے صاحب انگریزی اخبار کے رپورٹر ہی نہیں ہیں، وہ تو کالم نگار ہیں۔

    اصولی صحافت کی شاہکار خبر سیلانی کے لیپ ٹاپ پر اپنی تما م تر شرانگیزیوں کے ساتھ موجود تھی۔ اس خبر کا مقصد قومی سلامتی کے اداروں اور حکومت کو آنے سامنے لانے اور پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے بجائے کیا ہوسکتا ہے۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی جوبن پر ہے۔ بھارت سے بپھرے کشمیری سنبھلے نہیں سنبھل رہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں پر مجاہدین کے حملے پھر سے بڑھ گئے ہیں۔ نوجوانوں نے پھر سے بندوقیں اٹھالی ہیں اور ایسی صورتحال میں جب بھارت پاکستان کو عالمی سطح پرتنہا کرنے کے لیے سازشیں کررہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر توپیں لارہا ہے، راجھستان میں مورچے کھود رہا ہے، بارڈر کے دیہات خالی کرا رہا ہے، جنگی تیاریاں کررہا ہے، نریندرا مودی جنگ کے دنوں کے لیے اسلحے کی مخصوص پوجا کررہا ہے اور ہم یہاں اپنی ہی سول اور عسکری قیادت کو لڑوا رہے ہیں۔ دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ حکومت کچھ کہتی ہے اور فوج کچھ کرتی ہے۔۔۔

    بالفرض مان لیتے ہیں اجلاس میں ایسا ہی ہوا ہوگا تو بھی کیا اسے ان حالات میں خبر بننا چاہیے تھا؟ صحافی ہونے، اخبار نکالنے اور پیسہ کمانے سے پہلے ہم پاکستانی بھی ہیں۔ پاکستان ہے تو ہم یہاں موجیں کررہے ہیں۔ مزے سے رہ رہے ہیں۔ یہاں سے کمائے جانے والے پیسوں سے ہمارے بچے باہر کی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں اور ہم سالانہ تعطیلات میں دنیا کے مہنگے شہروں میں مع اہل و عیال پائے جاتے ہیں۔۔۔ ہمیں تھوڑی دیر کے لیے خودغرض ہوکر وطن کی نہیں، اپنی ان عیاشیوں کی ہی فکر کرلینی چاہیے کہ پاکستان ہے تو یہ عیاشیاں ہیں۔ ہم اس شاخ کو تو نہ کاٹیں جس پر آشیانہ ہے۔۔۔۔ سیلانی یہ سوچتا ہوا سامنے میز پر رکھے لیپ ٹاپ کی اسکرین کو لب بھینچے دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • کرکٹ سیزن پر ایک نظر – عمرفاروق

    کرکٹ سیزن پر ایک نظر – عمرفاروق

    عمر فاروق کرکٹ کا سیزن اپنے عروج پر ہے اور ٹیمیں مختلف فارمیٹس میں ای کدوسرے سے نبرد آزما ہیں. ایسے میں کئی اپ سیٹ اور حیران کن نتائج بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں.

    Sri Lanka Australia Cricket ٹیسٹ کرکٹ کی بات کریں تو سری لنکا نے آسٹریلیا جیسے حریف کو اپنے ملک میں آسانی سے وائٹ واش کر دیا. ویسٹ انڈیز بھی انڈیا کے خلاف ایک بالکل ہارا ہوا میچ ڈرا کرنے میں کامیاب ہوا. اسی طرح پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف انگلینڈ میں ہی کرکٹ پنڈتوں کو حیران کرتے ہوئے سیریز ڈرا کی. اسی طرح نیوزی لینڈ انڈیا اور ساؤتھ افریقہ کے خلاف بالکل بھی فائٹ نہ کرتے ہوئے سیریز گنوا بیٹھا.

    australia-vs-south-africa ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کرکٹ میں نتائج اس سے بالکل مختلف نظر آتے ہیں. آسٹریلیا نے بآسانی سری لنکا کو ون ڈے اور ٹی ٹونٹی سیریز میں شکست دی اور اس سے پہلے ویسٹ انڈیز میں کھیلی گئی ٹرائی اینگولر سیریز بھی اپنے نام کی. لیکن ساؤتھ افریقہ کے خلاف سیریز میں ناقص سلیکشن اور بری باؤلنگ پرفارمنسز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا. اسی طرح نیوزی لینڈ بھی پاکستان کی طرح مختلف فارمیٹس میں بالکل مختلف ریکارڈ رکھتی ہے. ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کرکٹ میں تو وہ ٹاپ پوزیشن پہ نظر آتی ہے لیکن ٹیسٹ میچز میں وہ ساتویں نمبر پر ہے.5922763201 نیوزی لینڈ کے کرکٹ سٹرکچر اور پروفیشنل ازم کو دیکھتے ہوئے یہ ایک حیران کن فرق ہے. ساؤتھ افریقہ کی حالیہ کچھ عرصے کی پرفارمنسز مختلف فارمیٹس میں ملی جلی رہیں، ویسٹ انڈیز کی ٹرائی اینگولر سیریز میں وہ فائنل کے لیے بھی کوالیفائی نہیں کر سکے تھے. اسی طرح اب وہ ٹیسٹ کرکٹ کی رینکنگ کے حساب سے پانچویں اور ون ڈے کرکٹ میں دوسرے نمبر پر ہیں. انڈیا کی پرفارمنس تینوں فارمیٹس میں اچھی ہے اس لیے وہ رینکنگ میں ٹاپ فور میں ہی ہے. سری لنکا بھی اب ایک اوسط درجے کی ٹیم بن چکی ہے اور تینوں فارمیٹس میں کسی میں بھی اس کی کارکردگی قابل ستائش نہیں رہی. بنگلہ دیش بھی اپنے ملک میں کھیلی گئی ون ڈے کرکٹ میں ہی اچھی پرفارمنس دکھاتا ہے. انگلینڈ کی ٹیم نے ایک روزہ اور ٹی ٹونٹی کرکٹ میں سب سے زیادہ امپروو کیا ہے اور پہلی بار انہوں نے وائٹ بال کرکٹ کو بھی اہمیت دی ہے اور پلیئرز کی سلیکشن پر خاص طور پہ دھیان دیا ہے جس کے حوصلہ افزا نتائج حاصل ہو رہے ہیں.

    مختلف فارمیٹس میں ٹیمز کی پرفارمنسز میں یہ فرق کیوں ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو اکثر شائقین کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے. آئیے اس کی کچھ ممکنہ وجوہات تلاش کرتے ہیں.

    pakistan-test-cricket-uae-2015_3742149 پچھلے کافی عرصے سے ٹیموں کی پرفارمنسز پر جس چیز نے سب سے زیادہ اثر کیا، وہ ان کا ہوم اور اوے کی بنیاد پر کھیلنا ہے. یو اے ای کو بھی اگر پاکستان کا ہوم وینیو سمجھا جائے تو تقریبا سب ٹیمز ہی صرف اپنے گرائونڈز میں اچھا پرفارم کر رہی ہیں. اس سلسلے میں بنگلہ دیش کی اپنے ملک میں ون ڈے پرفارمنسز اور آسٹریلیا کی ایشیا میں ٹیسٹ پرفارمنسز کو دیکھا جائے تو یہ فرق آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے.

    پلیئرز اور ٹیموں کا مختلف فارمیٹس میں فوکس ان کی پرفارمنس پر اثر انداز ہوتا ہے. کچھ عرصہ پہلے تک انگلینڈ اور آسٹریلیا کی ٹیسٹ پرفارمنسز میں ایشیز سیریز حرف آخر کا درجہ رکھتی تھی. لیکن انگلینڈ نے اپنا فوکس جب سے وائٹ بال کرکٹ پر کیا ہے ان کی پرفارمنسز میں آنے والی تبدیلی اس بات کو واضح کرتی ہے کہ فارمیٹ کی اہمیت کا ان کی پرفارمنسز پر اثر ہوتا ہے.

    psl-players-pkg-03-092-e1443437921838 ٹی ٹونٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور مختلف لیگز میں پلیئرز کی بڑھتی ہوئی مانگ اور اس سے حاصل ہونا والا کئی گنا زیادہ معاوضہ پلیئرز کو چھوٹے فارمیٹس پر زیادہ توجہ دینے پر مجبور کر رہا ہے جس سے ٹیسٹ کرکٹ میں پلیئرز کی کوالٹی خاص طور پر متاثر ہوتی ہے جس کا پھر نتائج پر بھی اثر پڑتا ہے. ویسٹ انڈیز کے پلیئرز کو اسی لیے ٹیسٹ کرکٹ میں کوئی خاص کشش محسوس نہیں ہوتی.

    پلیئرز کی سلیکشن میں تسلسل، ان کو کانفیڈینس دینا اور کپتان کو مکمل اختیار دے کہ ٹیم کا وننگ کامبینیشن بنانا اور بورڈ کی پا لیسیز کو ٹیم کے فائدے کے لیے تشکیل دینا ہی بہترین ٹیم بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے. آسٹریلیا، انگلینڈ اور ساؤتھ افریقہ نے اسی طرح ٹیسٹ کرکٹ پر کئی سال تک اپنی اجارہ داری قائم کیے رکھی. لیکن جو ٹیمیں بھی مسائل کا شکار نظر آتی ہیں، ان میں یہ سب پرابلمز خاص طور پہ محسوس کی جاسکتی ہیں.

    بیک اپ پلیئرز تیار کیے بغیر کبھی بھی ٹیم زیادہ عرصے تک کامیابیاں نہیں سمیٹ سکتیں. کیونکہ کرکٹ اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ اپنی فٹنس کو اتنا عرصہ برقرار رکھنا پلیئرز کے لیے بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے. اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیمز نے روٹیشن پالیسی بھی اپنائی لیکن پھر ٹیم کامبینیشن بنانے کے مسائل پیدا ہوتے ہیں. نیوزی لینڈ نے اپنے کوچ مائیک ہیسن کے دور میں خاص طور پر ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کرکٹ کےلیے اپنی ٹیم کےلیے ایک وننگ کامبینیشن سوچا اور سلیکشن کو اس سے مشروط کر دیا. اور like for like replacement کا تصور دیا جسے استعمال کرتے ہوئے انہوں نے انڈیا میں کھیلا جانے والا ورلڈ کپ ٹم سائوتھی اور ٹرینٹ بولٹ کے بغیر کھیلا کیونکہ ان کے کامبینیشن میں وہ فٹ نہیں بیٹھ رہے تھے، جس میں انہیں سیمی فائنل تک رسائی ملی. اور انہوں نے انڈیا تک کو ان کے ملک میں شکست دی.

    ڈومیسٹک کرکٹ اور انٹرنیشنل کرکٹ کا فرق ٹیموں کی پرفارمنس میں بہت حد تک فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے. جو ٹیمز اس فرق کو کم سے کم رکھ پاتی ہیں وہ کامیاب رہتی ہیں. اسی لیے آسٹریلیا، انگلینڈ اور ساؤتھ افریقہ کا ڈومیسٹک سسٹم سب سے اچھا مانا جاتا ہے کیونکہ ان کا معیار باقی ممالک سے بہت بہتر ہے.

    ڈومیسٹک ٹیمز سے انٹرنیشنل ٹیم کے لیے سلیکشن اور پھر پلیئرز کو ان کا صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے ڈیبیو کروانا اور مکمل اعتماد دیتے ہوئے ان کو اپنا ٹیلنٹ دکھانے کا پورا موقع فراہم کرنا پلیئرز کی پرفارمنس اور ڈویلپمنٹ کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن اگر ایسا نہ کیا جائے تو ان کی پرفارمنس ٹیم کی پرفارمنس پہ بھی اثر انداز ہوتی ہے.

    1164421-image-1471413353-885-640x480پاکستان کی ون ڈے کرکٹ کے مسائل کی بات کی جائے تو مسائل ہی مسائل نظر آتے ہیں . ناصر جمشید، عمر اکمل، احمد شہزاد اور جنید خان یہ وہ پلیئرز تھے جو ایک وقت تک ٹیم کا اثاثہ تھے. لیکن ٹیم مینجمنٹ کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے کیریئر کے انتہائی اہم موڑ پہ یہ پلیئرز نظر انداز کر دیے گئے. ان کے متبادل پلیئرز کو بھی ٹیم میں شامل کیا جاتا رہا اور کئی بار تو بغیر کھلائے ہی ٹیم سے باہر کیا جاتا رہا. یا پھر کسی ایک فارمیٹ کی پرفارمنس پہ ان کو دوسرے فارمیٹ میں کھلانے یا نہ کھلانے کے فیصلے کیے گئے. ایسے میں ٹیم کمبینیشن ہی نہیں بن پایا. تو وننگ کامبینیشن خواب ہی بن گیا. پھر اظہر علی کو کپتانی سونپی گئی تو اس کے ساتھ ہی ٹیم میں ان کی جگہ پہ سوالیہ نشان لگا دیے گئے. جس سے ان کا دھیان بہت بری طرح بٹ گیا. اس کے علاوہ ٹیم میں کھیلنے والے پلیئرز کو ان کے اصل نمبرز پہ بیٹنگ پہ نہ بھیجنا بھی اہم مسئلہ رہا. ایک اچھے فاسٹ بالنگ آل رائونڈر اور آخری اوورز میں ہارڈ ہٹنگ بیٹسمین کی کمی کو ہمیشہ محسوس کیا گیا. لیکن ان کی طرف ابھی بھی ہماری سلیکشن کمیٹیز کو دھیان ہی نہیں جارہا. ویسٹ انڈیز کے خلاف حالیہ پرفارمنسز سے شائقین کی کچھ امید تو بندھی ہے کہ مسائل کم ہوئے ہیں. اب بہتری کے اس سلسلے کو مزید جاری رکھنے کی ضرورت ہے.

  • ایک خطرناک تجربہ-اظہار الحق

    ایک خطرناک تجربہ-اظہار الحق

    izhar

    وہ گھر میں بند ہو گیا۔ ایک تجربہ تھا جو وہ کرنا چاہتا تھا۔ یہ کہ اگر وہ چھ ماہ تک گھر سے نہ نکلے اور صرف انٹرنیٹ کے ذریعے باہر کی دنیا سے رابطہ رکھے، تو کیا ایسا ممکن ہے؟

    اُس نے ایسا ہی کیا۔ گھر میں بند ہو گیا۔ وہ تھا اور دیواریں اور ایک انٹرنیٹ کنکشن جو اسے دنیا سے جوڑے ہوئے تھا۔ اپنی کمپنی سے اس نے طے کر لیا تھا کہ وہ گھر میں بیٹھ کر کام کرے گا۔ کمپنی کو آم کھانے سے غرض تھی۔ یوں بھی ترقی یافتہ ملکوں میں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ بہت لوگ گھر بیٹھ کر اچھا خاصا پیسہ کما رہے ہیں۔

    اگلا اہم مرحلہ خوراک تھا۔ بہت سی کمپنیاں تھیں جو گھر کا سودا سلف (گراسری) گھر کی دہلیز تک پہنچاتی تھیں اور اس خدمت کا معاوضہ لیتی تھیں۔ اس نے ایک معروف کمپنی کو ای میل کی اور اپنی ضروریات کی فہرست بھیجی۔ کچھ کمپنیاں جو بیس گھنٹے لیتی تھیں مگر یہ کمپنی اُسی دن سودا سلف پہنچاتی تھی۔ یہاں تک کہ اگر بلب فیوز ہو جائے اور اسے میل کر دی جائے تو رات سے پہلے گھر میں بلب پہنچ جاتا۔ مشروبات سے لے کر ٹائلٹ پیپر تک، ادویات سے لے کر تازہ سبزی اور پھل تک، ضرورت کی ہر شے گھر پہنچنے لگی۔ وہ ورزش بھی گھر ہی میں کر تا۔ ورزش والی سائیکل اور ٹریڈ مل، دونوں سیکنڈ ہینڈ، سستے داموں مل گئیں۔ اس عرصہ میں ایک بار اس کی طبیعت بھی خراب ہوئی۔ اس نے ڈاکٹر کو گھر پر بلا لیا اور جتنی فیس بنتی تھی، ادا کر دی۔

    پورے چھ ماہ اس نے گھر کے اندر گذارے۔ یہ ایک کامیاب تجربہ تھا۔ اس نے ثابت کر دیا کہ انٹرنیٹ کے اس زمانے میں ایسا کیا جا سکتا ہے! ورزش سے لے کر خوراک تک ہر شے گھر منگوائی جا سکتی ہے!
    چھ ماہ کے بعد وہ اپنی کمپنی کے دفتر گیا۔ دوستوں نے ہار پہنائے۔ ٹی پارٹی منعقد ہوئی۔ اس کے باس نے شہادت دی کہ کمپنی نے اُسے جو ذمہ داری دی، اس نے گھر بیٹھے بھی اسی خوبی سے نبھائی جیسی دفتر میں نبھاتا تھا۔ اُس نے اسی ٹی پارٹی میں اعلان کیا کہ کچھ عرصہ بعد وہ یہ تجربہ ایک سال کی مدت کے لیے کرے گا!

    یہ تجربہ آج کل ہم بھی کر رہے ہیں۔ ہمارا تعلق بھی بیرونی دنیا سے ختم ہو چکا ہے! ہم اس زعم میں ہیں کہ ہر شے گھر کی دہلیز پر پہنچ جائے گی، مگر افسوس! ایک فرد تو یہ تجربہ کر سکتا ہے ایک ملک نہیں کر سکتا! یہ اور بات کہ ہمیں اس کی فکر نہیں!
    غور کیجیے! مشرقی طرف بھارت ہے۔ وہ یوں ہی ہمارا دشمن نمبر ایک ہے! اس کے ساتھ تعلقات رکھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ افغانستان شکوہ کناں ہے کہ پاکستان، افغانی اشیا، بھارتی سرحد تک لے جانے دیتا ہے مگر بھارتی اشیائے تجارت پاکستان کے راستے افغانستان تک نہیں لے جائی جا سکتیں! یہ صرف ایک مثال ہے!

    رہا افغانستان تو اُس سے بھی تعلقات کشیدہ ہیں۔ کرزئی صدر تھے تب بھی مخالفت تھی۔ اشرف غنی آئے، کچھ عرصہ ہنی مون چلا، مگر اب وہ شدومد سے مخالفانہ بیانات کے گولے برساتے ہیں۔ جنوب مغرب میں ایران ہے۔ اس سے بھی تعلقات خراب ہیں۔ کلبھوشن سے لے کر چاہ بہار تک، سرد مہری کی چادر یوں تنی ہے کہ دوستی کا آسمان کہیں سے بھی نہیں دکھائی دیتا۔
    ایران سے آگے متحدہ عرب امارات ہے۔ بھارتی یوم جمہوریہ کی تقریب میں متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان اب کے مہمانِ خصوصی ہوں گے۔ بھارت نے ان کا انتخاب کیوں کیا؟ کاش پاکستان میں کسی کو فرصت ہوتی یا ہوش ہوتا۔ امارات کے ولی عہد کو دعوت دینا ایک سیاسی کھیل ہے جو بھارت اصل میں پاکستان کے ساتھ کھیل رہا ہے!

    مشرقِ وسطیٰ کے دوسرے بڑے ملک جس سے ہماری مذہبی، جذباتی اور روحانی وابستگیاں ہیں، ان میں سے کسی نے حالیہ بحران کے دوران کشمیریوں کے لیے کوئی بیان تک نہیں دیا۔ یوں بھی پچھلے مالی سال کے دوران سعودی عرب، یو اے ای، اومان، بحرین، کویت اور قطر کو بھارتی برآمدات کی مالیت بیالیس ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے! اٹھانوے ارب ڈالر کی دو طرفہ تجارت اس کے علاوہ ہے!

    امریکہ کھل کر بھارت کے ساتھ ہے۔ ابھی چند دن ہی تو ہوئے جب اس کے عوامی نمائندے پاکستان کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ اور بات کہ ظفر یاب نہ ہو سکے۔ یوں بھی آپ اُس ریت پر تو اعتماد کر سکتے ہیں جو آپ کے پیروں کے نیچے سرک رہی ہو اور برف کے اُس تودے پر تو بھروسہ کر سکتے ہیں جس پر آپ کھڑے ہیں اور وہ کڑکتی دھوپ میں لمحہ بہ لمحہ پگھل رہا ہے اور آپ سانپ کے اُس بچے پر تو اعتماد کر سکتے ہیں جسے آپ دُودھ پلاتے رہے اور آگ کے اُن شعلوں پر تو اعتبار کر سکتے ہیں جنہوں نے آپ کی چادر کے ایک کونے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے مگر آپ امریکہ کی دوستی پر اعتماد نہیں کر سکتے! امریکی تاریخ میں دوستی نبھانے کا باب ہی نہیں ہے۔ اس ضمن میں اگر کسی نے امریکی کیریکٹر کو پوری طرح جاننا ہے تو اُن وعدوں کا مطالعہ کرے جو ریڈ انڈین قائدین کے ساتھ امریکی کرتے رہے!

    حالیہ دنوں میں روس کے فوجی دستے پاکستان آئے اور ہماری فوج کے ساتھ مشترکہ مشقیں کیں۔ اس پر بہت سی مسکراہٹیں بکھریں کہ امریکہ بھارت کے ساتھ ہے تو کیا ہوا، اب روس ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔ اِن خوش گمان دانشوروں سے پوچھا جائے کہ ”اندرا‘‘ کسے کہتے ہیں تو کہیں گے اندرا گاندھی کو کون نہیں جانتا، مگر نہیں! یہ وہ اندرا نہیں ہے۔ یہ INDRA روس اور انڈیا کا مخفف ہے۔ اس سے مراد وہ سلسلہ ہے جس کے تحت روسی اور بھارتی افواج سالہا سال سے مشترکہ مشقیں کر رہی ہیں۔ جن دنوں روسی دستے پاکستان میں تھے، انہی ایام میں بھارتی فوج کے دستے روسی شہر ولادی ووسٹوک میں ”دہشت گردی‘‘ کا مقابلہ کرنے کی مشترکہ مشقیں کر رہے تھے! یہ مشقیں 2003ء سے سال میں دوبار ہو رہی ہیں!

    شمال میں وسط ایشیائی ریاستیں ہم سے زیادہ بھارت کے قریب ہیں۔ جسے شک ہو ہم عصر تاریخ میں جھانک لے۔ حکیم سعید جیسے دانشور چیختے رہ گئے کہ ان سے تعلقات میں گہرائی پیدا کرو مگر پاکستان نے ان سے خصوصی روابط قائم کرنے میں کبھی کوئی غیر معمولی دلچسپی نہ لی۔ لے دے کر ترکی اور چین ہیں جو ہمارے ساتھ ہیں۔ ترکی کے تعلقات اگرچہ پاکستان کے ساتھ تاریخی حوالے سے ہیں مگر پاکستان کی موجودہ حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے، صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو شاہی خاندانوں کے باہمی تعلقات ہیں۔ ترکی کے حکمران بارہا لاہور آئے مگر کبھی انہوں نے کوئٹہ، پشاور اورکراچی کو اپنی موجودگی کا شرف نہ بخشا۔
    چین ہمارا دوست ہے مگر وہ زمینی حقائق کو کبھی نظر انداز نہیں کرتا۔ اسی لیے تو چین چین ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان تجارتی تعلقات خاصی گرم جوشی پر مبنی ہیں!

    دنیا میں ہم اس وقت شدید سفارتی تنہائی کا شکار ہیں۔ وزیر خارجہ ہوتا تو شٹل ڈپلومیسی وقت کی اہم ضرورت تھی! آج ایک وفاقی وزیر نے دانش جھاڑی ہے کہ بھٹو صاحب کے زمانے میں بھی وزیر خارجہ نہیں تھا! یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ قائداعظم کا سپیچ رائٹر نہیں تھا! کوئی وزیر صاحب سے پوچھے کہ کیا موجودہ وزیراعظم عالمی رہنماؤں سے اسی طرح بات چیت کرتے ہیں جیسے بھٹو کرتا تھا؟ ہاں! اگر اِن دنوں ہماری کابینہ میں ”وزیرِ کاروبار‘‘ کوئی نہیں تو اس میں تعجب قطعاً نہیں ہونا چاہیے! ویسے سچ یہ ہے کہ بھٹو دور میں عزیز احمد وزیر مملکت برائے امور خارجہ تھے۔ ایک منجھے ہوئے سفارت کار اور خارجہ امور کے ماہر۔

    مگر اس اندھیرے میں بھی اُمید کا ایک دیا ٹمٹما رہا ہے اور روشنی پھیلانے کی اپنی سی کوشش کر رہا ہے! صدرِ مملکت اس سفارتی تنہائی کو دور کرنے کی پوری پوری کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ بیرونی دوروں میں انہوں نے ڈرائیوروں، ویٹروں اور سٹاف کے دیگر ارکان کو ساڑھے اکسٹھ لاکھ روپے ٹپ کے طور پر نذر کر دیے۔ یہ اعداد و شمار صرف پانچ چھ دوروں کے ہیں۔ صدر صاحب کو معلوم ہے کہ یہ ڈرائیور اور ویٹر، جب اپنے اپنے ”صاحب‘‘ کے ساتھ ہوں گے تو ضرور پاکستان کی سفارش کریں گے۔ یوں وزیر خارجہ کی کمی پوری ہو جائے گی۔
    صدر صاحب ملک کے اندر بھی ہم آہنگی کے لیے کوشاں ہیں۔ انہیں شدت سے احساس ہے کہ وزیراعظم تحریکِ انصاف کو ناپسند کرتے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے پی میں برسرِ اقتدار ہے۔ صدر صاحب توازن قائم کرنے کے لیے اپنا سودا سلف نمک منڈی پشاور سے منگواتے ہیں۔ پچھلے مالی سال کے دوران ایوانِ صدر نے نمک منڈی سے تقریباً پونے چار کروڑ روپے کا سودا منگوایا۔ اس میں گوشت، فروٹ اور دیگر اشیائے خوردنی اور بقول آڈٹ ”تفریحی‘‘ اشیا شامل ہیں۔

    ظاہر ہے یہ ایسی اشیا نہیں جو راولپنڈی اسلام آباد میں نہ مل سکیں۔ ایوانِ صدر تو یہ سب کچھ قومی یکجہتی کے لیے کر رہا ہے۔ ورنہ صدر گرامی قدر عمر کے اس حصے میں پونے چار کروڑ روپے کی اشیا ایک سال میں نوش ہی کہاں کر سکتے ہیں! آڈٹ رو پیٹ رہا ہے کہ اس خریداری پر تیرہ لاکھ کا ٹیکس کٹنا تھا جو سرکار کے خزانے میں جمع نہیں ہوا! کوئی آڈٹ کو سمجھائے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں نہ پڑے۔ ایوانِ صدر کے بلند مقاصد پر غور کرے!

  • پانی پانی کے محتاج-جاوید چوہدری

    پانی پانی کے محتاج-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    آپ ذرا دیر کے لیے پاکستان کے ابتدائی دنوں کی طرف آئیے۔

    پانی مہاجرین کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا مسئلہ تھا‘ پاکستان کے اکاؤنٹ میں اس وقت صرف 22 لاکھ روپے تھے‘ فوج‘ پولیس‘ عدلیہ اور سول ایڈمنسٹریشن کا نام و نشان نہیں تھا‘ وزراء کو اپنے محکموں اور محکموں کو اپنے وزیروں کی خبر نہیں تھی‘ آئین‘ قانون اور ضابطے تشکیل کے عمل سے گزر رہے تھے اور اوپر سے لاکھوں لٹے پٹے مہاجرین بھی پاکستان پہنچ گئے‘ یہ لوگ ننگے پاؤں اور خالی پیٹ تھے اوریہ چھتوں سے بھی محروم تھے‘ پاکستان ابھی ان مسائل سے لڑ رہا تھا کہ بھارت نے ستلج‘ بیاس اور راوی کا پانی روک لیا‘ یہ تینوں دریا بھارت سے پاکستان میں داخل ہوتے تھے‘ بھارت کی آبی جارحیت نوزائیدہ پاکستان کی کمر پر ناقابل برداشت بوجھ ثابت ہوئی‘ وزیراعظم خان لیاقت علی خان مضمرات سے آگاہ تھے‘ وہ جانتے تھے مغربی پاکستان کی 80 فیصد آبادی دیہی علاقوں پر مشتمل ہے۔

    یہ علاقے پانی کے بغیر ’’سروائیو‘‘ نہیں کر سکیں گے اور یوں پاکستان قحط کا شکار ہو جائے گا‘ خان لیاقت علی خان وزیراعظم ہاؤس سے باہر آئے‘ بھارت کو مخاطب کیا اور اعلان کیا ’’ہم پانی کے ایک ایک قطرے کی خاطر اپنے خون کا ایک ایک قطرہ دے دیں گے‘‘ یہ اعلان کارگر ثابت ہوا‘ عالمی برادری آگے بڑھی اور پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی پر مذاکرات شروع ہوگئے‘ پاکستانی حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں لیکن مذاکرات جاری رہے یہاں تک کہ ورلڈ بینک درمیان میں آیا اور اس نے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو صدر جنرل ایوب خان کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور کر دیا‘ پنڈت نہرو پاکستان آئے‘ کراچی میں مذاکرات ہوئے اور 9 ستمبر 1960ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہو گیا‘ یہ معاہدہ سندھ طاس کہلاتا ہے‘ صدر ایوب خان اور پنڈت نہرو نے معاہدے پر فریقین اور ورلڈ بینک کے نائب صدر اے پی ایلف نے ضامن کی حیثیت سے دستخط کیے۔

    معاہدے کے مطابق ستلج‘ راوی اور بیاس کا پانی بھارت اور چناب‘ جہلم اور سندھ کے دریا پاکستان کو مل گئے‘ فیصلہ ہوا پاکستان دس برس میں دریائے سندھ‘ جہلم‘ چناب‘ راوی اور ستلج پر ڈیم‘ بیراج اور رابطہ نہریں بنائے گا‘ یہ نہریں‘ بیراج اور ڈیم پاکستان کی آبی ضروریات پوری کریں گے‘ ورلڈ بینک ان منصوبوں کے لیے 1070 ملین ڈالر قرض دے گا‘ 870 ملین ڈالر پاکستان اور 200 ملین ڈالر بھارت میں خرچ ہوں گے۔

    معاہدہ ہو گیا‘ بھارت کا خیال تھا پاکستان دس برسوں میں تین ڈیم‘ پانچ بیراج اور سات رابطہ نہریں نہیں بنا سکے گا چنانچہ پاکستان کے حصے کا پانی بھی بھارت استعمال کرے گا لیکن ہمارے واپڈا نے دس برس میں دریائے جہلم پر منگلا‘ ڈیم‘ دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم‘ سندھ‘ جہلم‘ چناب‘راوی اور ستلج پر پانچ بیراج اور چشمہ جہلم لنک‘ تونسہ پنجند لنک‘ رسول قادر آباد لنک‘ قادر آباد بلوکی لنک‘ تریموں سدھنائی لنک‘ میلسی بہاول لنک اور بلوکی سلیمانکی لنک جیسی سات رابطہ نہریں بنا کر پوری دنیا کو حیران کر دیا‘  یہ منصوبہ پاکستان کی تاریخ کے ان چند منصوبوں میں شامل تھا جو پاکستانی قوم کے عزم اور قوت فیصلہ کا گواہ ثابت ہوا۔

    یہ منصوبہ وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جس نے بھارت کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا‘ بھارت نے فیصلہ کیا ’’ہم اب پاکستان کو کوئی نیا ڈیم نہیں بنانے دیں گے‘‘ آپ 1970ء سے لے کر 2016ء تک 46 سال کی پاک بھارت تاریخ دیکھ لیں‘ آپ حیران رہ جائیں گے وہ قوم جس نے 10 سال میں دنیا کا دوسرا بڑا آبی نظام بنایا تھا وہ 46 سال میں کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا سکی‘ کیوں؟ کیونکہ بھارت نے پاکستان میں کوئی ڈیم نہیں بننے دیا‘ پاکستان جوں ہی کوئی پراجیکٹ شروع کرتا تھا‘ بھارتی لابی پریشر گروپس کو ایکٹو کر دیتی تھی اور یہ گروپس ڈیم کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کر دیتے تھے‘ ہمیں ماننا ہوگا بھارت 46 برسوں سے ان پریشر گروپس پر سرمایہ کاری کر رہا ہے‘ یہ دوسری طرف سندھ طاس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی کر رہا ہے۔

    پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کے مطابق دریائے سندھ‘ جہلم اور چناب کا پانی بلاتعطل ملنا چاہیے لیکن بھارت نے 1992ء میں مقبوضہ کشمیر کے ضلع ڈوڈا میں دریائے چناب کے ماخذ پر بگلیہار ڈیم بنانے کا اعلان کر دیا‘ یہ منصوبہ 1992ء میں شروع ہوا‘ 1996ء میں منظوری ہوئی اور یہ ڈیم 1999ء میں بننے لگا‘ پاکستان نے شدید احتجاج کیا لیکن احتجاج کے باوجود ڈیم کا پہلا فیز 2004ء اور دوسرا فیز 2008ء میں مکمل ہو گیا‘ یہ ڈیم بھارت کو 450 میگاواٹ بجلی اور 50 ہزار میگاواٹ تسکین دے گا‘ کیوں؟ کیونکہ بگلیہار ڈیم کی وجہ سے پاکستان کا تین لاکھ 21 ہزار ایکڑفٹ پانی کم ہو گیا جس کے نتیجہ میں ہماری 13 لاکھ ایکڑ زرعی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں۔

    بھارت نے اس کے بعد 2007ء میں دریائے جہلم کے ماخذ پر کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ شروع کر دیا‘ یہ پراجیکٹ مقبوضہ کشمیر میں بندی پور کے قریب شروع ہوا‘ بھارت کشن گنگا کے ذریعے دریائے جہلم کا پانی 24 کلو میٹر لمبی سرنگ میں پھینکے گا اور یہ وہاں سے پانی کو بھارتی علاقوں کی طرف موڑ لے گا‘ کشن گنگا کی وجہ سے پاکستان میں نیلم جہلم پراجیکٹ کا پانی 16 فیصد کم ہو گیا‘ ہم ہر سال 8 ارب روپے نقصان برداشت کر رہے ہیں جب کہ مستقبل میں نیلم جہلم کی بجلی کی پیداوار دس فیصد کم ہو گی‘ جہلم ویلی کے جنگلات‘ زرعی زمینیں اور ماحولیات پر بھی خوفناک اثرات مرتب ہوں گے‘ پاکستان ابھی کشن گنگا پر احتجاج کر رہا تھا کہ بھارت نے جون 2013ء میں مقبوضہ کشمیر کے ضلع کشتواڑ میں ریتلے ہائیڈرو الیکٹرک پاور پراجیکٹ بھی شروع کر دیا‘ یہ کشن گنگا اور بگلیہار سے تین گنا بڑا منصوبہ ہے۔

    یہ 2018ء تک مکمل ہو گا اور اس کے بعد دریائے چناب کے ہیڈ مرالہ پر پانی کا بہاؤ 40 فیصد کم ہو جائے گا یوں پنجاب اور سندھ کی لاکھوں ایکڑ زمینیں بنجر ہو جائیں گی‘بھارت 2022ء تک پاکستان کے پانیوں سے 32 ہزار میگاواٹ بجلی بنانا چاہتا ہے ‘ یہ پانیوں کا رخ بھی پاکستان سے بھارت کی طرف موڑنا چاہتا ہے‘ یہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند کے لیے ترسانا چاہتا ہے لیکن ہم سوئے ہوئے ہیں‘ ہم بھارتی لابی کے دباؤ میں دریائے سندھ پر ڈیم بھی نہیں بنا رہے اور دوسری طرف ہم چناب اور جہلم پر تین بڑے بھارتی ڈیموں پر عالمی رائے عامہ بھی ہموار نہیں کر سکے‘آپ پاکستانی غفلت اور مجرمانہ خاموشی کا اندازہ لگائیے‘ جماعت علی شاہ پاکستان کے انڈس واٹر کمیشن کے سربراہ تھے۔

    پاکستان نے 2005ء میں بگلیہار ڈیم کے خلاف ورلڈ بینک میں اپیل کی‘ جماعت علی شاہ نے امریکی وکیل جیمز کرافٹ کو ہائر کیا‘ یہ وکیل بھارت سے مل گیا‘ ہم کیس ہار گئے‘ پاکستان نے 2010ء میں کشن گنگا کے خلاف عالمی عدالت کے دروازے پر دستک دی جماعت علی شاہ نے مخالفت کے باوجود یہ کیس بھی جیمز کرافٹ کو دے دیا‘ ہمارا وکیل یہ کیس بھی ہار گیا‘ وفاقی حکومت کو دسمبر 2010ء میں سازش کی بو آئی تو اس نے جماعت علی شاہ کو عہدے سے ہٹا دیا‘ یہ صاحب آج کل ٹیلی ویژن چینلز پر سندھ طاس معاہدے پر تبصرے کر رہے ہیں۔

    ہمیں آج کے دن چند باتیں پلے باندھنا ہوں گی‘ بھارت سندھ طاس معاہدہ منسوخ نہیں کر سکتا‘یہ عالمی معاہدہ ہے اور کوئی ملک عالمی معاہدے سے نکلنے کی غلطی نہیں کر سکتا چنانچہ ہمیں سندھ طاس معاہدے کی منسوخی کا کوئی خطرہ نہیں لیکن ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا رہے گا‘ یہ پاکستانی دریاؤں پر ڈیم بناتا چلا جائے گا یہاں تک کہ پاکستان پانی کے خوفناک بحران کا شکار ہو جائے گا اور یہ پانی کے لیے بھارتی شرائط ماننے پر مجبور ہو جائے گا‘ امریکا‘ ورلڈ بینک اور عالمی عدالت اس معاملے میں بھارت کو سپورٹ کرے گی‘ چین بھارت کے دوسرے بڑے دریا برہم پترا کا پانی روک کر ہماری مدد کررہا ہے‘ برہم پترا بھارت کی پانچ ریاستوں کے درمیان سے گزرتا ہے‘ اس کا بڑا ماخذ دریا ایک بڑا ماخذ دریا ژینگبو(Yarlung Zangbo) ہے‘ یہ دریا تبت میں ہے۔

    چین اس پر بہت بڑا ڈیم بنا رہا ہے‘ یہ ڈیم برہم پترا کا 34 فیصد پانی روک لے گا‘ بھارت اس منصوبے سے پریشان ہے‘ یہ ہمارے لیے چین کی طرف سے بڑی سفارتی مدد ہے‘ ہمیں اس مدد کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے‘ ہمیں چین بھارت تنازعہ حل ہونے سے پہلے فوری طور پر بڑے ڈیم‘ بیراج اور نہریں بنالینی چاہئیں اور پاکستان میں پانی کی ایمرجنسی بھی نافذ ہونی چاہیے ‘ حکومت آل پارٹیز کانفرنس بلائے‘ دس سال کا آبی ایجنڈا بنائے اور پانی پر کام شروع کر دے‘ میں دل سے سمجھتا ہوں ہم نے اگر آج یہ فیصلہ نہ کیا توہماری بقا کا بٹن بھارت کے ہاتھ میں چلا جائے گا اور ہم گھروں میں بیٹھے بیٹھے بھارت سے شکست کھا جائیں گے ‘ یہ جاگنے کا وقت ہے‘ ہمیں جاگنا ہو گا‘ یہ وقت دوبارہ نہیں آئے گا اور ہم پانی کے محتاج ہو جائیں گے چنانچہ جاگ جائیے‘ پانی کو محفوظ کیجیے ورنہ ہم پانی پانی کو محتاج ہو جائیں گے۔

    نوٹ: میرے دوست فاروق عادل نے کالم ’’جنرل ضیاء الحق بن جائیں‘‘ میں دو غلطیوں کی نشاندہی کی‘ کوسی جین روس کے صدر نہیں تھے‘ وزیراعظم تھے‘ دوسرا شاہ فیصل 1975 ء میں قتل ہو گئے تھے‘ بھٹو کی حوالگی کی پیش کش شاہ خالد اور یاسر عرفات نے کی تھی‘ میں تصحیح پر فاروق عادل کا مشکور اور قارئین سے معذرت خواہ ہوں۔