Tag: انصاف

  • قانون کی حکمرانی نہیں انصاف کی حکمرانی، فیصلے کی گھڑی-اوریا مقبول جان

    قانون کی حکمرانی نہیں انصاف کی حکمرانی، فیصلے کی گھڑی-اوریا مقبول جان

    orya

    دنیا میں جہاں کہیں سودی سرمایہ دارانہ نظام کا پروردہ جمہوری نظام نافذ ہے وہاں ایک تصور بہت عام ہے، ’’قانون کی حکمرانی یا قانون کی بالادستی‘‘ ۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ انصاف کو قانون کے ماتحت ہونا چاہیے‘ اور قانون وہ ہے جسے عوام کے منتخب نمایندے اکثریت کی بنیاد پر بناتے ہیں۔ جمہوریت کو ’’اکثریت کی آمریت‘‘ کہا جاتا ہے یعنی اگر اکیاون فیصد ممبران اسمبلی انچاس فیصد اقلیت کے خلاف ایک قانون منظور کر لیتے ہیں تو وہ اس ملک کا قانون بن جاتا ہے۔

    چار سو کے لگ بھگ ارکان اسمبلی اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر ایک قانون منظور کرتے ہیں کہ صدر‘ وزیراعظم‘ وزرائے اعلیٰ اور وزراء کے مالی معاملات میں کوئی عدالت‘ ملک کا کوئی قانون نافذ کرنے والا ادارہ یا بددیانتی اور کرپشن کے خلاف کارروائی پر مامور محکمہ مداخلت نہیں کر سکتا۔ انھیں طلب نہیں کر سکتا‘ ان کے کاغذات کی جانچ پڑتال نہیں کر سکتا‘ اگر وہ ایسا کرے گا تو ان کا استحقاق مجروح ہو گا۔ایسے میں یہ ملک کا قانون بن جاتا ہے اور اس پر اگر مکمل طور پر عملدرآمد ہو جائے تو اسے قانون کی حکمرانی کہا جاتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی لازم و ملزوم ہے۔

    اس کے مقابلے میں ایک لفظ ہوتا ہے ’’انصاف کی حکمرانی‘‘۔ اس کا بنیادی مقصد اور ہدف یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان انصاف کیا جائے۔ اگر کوئی طاقتور ایک قانون اپنے حق میں منظور کر والیتا ہے تو اس کو پس پشت ڈال کر کمزور‘ محکوم اور مجبور کو اس کا حق دلایا جائے۔ انصاف کی حکمرانی کے اصول کسی پارلیمنٹ یا کانگریس کے مرہون منت نہیں ہیں۔

    یہ اصول ہر معاشرے کو صدیوں سے ازبر ہیں۔ اس لیے کہ یہ اصول دنیا کے ہر الہامی مذہب نے اصول ہدایت کے طور پر لوگوں کو سکھائے ہیں۔ انھیں اکیاون فیصد اکثریت کی ضرورت نہیں ہوتی‘ بلکہ یہ سو فیصد لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی قانون کو سچ اور جھوٹ کی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی‘ دھوکا‘ فریب‘ بددیانتی‘ کرپشن‘ حق تلفی‘ قتل اور تشدد جیسے جرم بھی تعارف اور تعریف کے محتاج نہیں ہوتے۔

    لوگوں کو یہ بھی خوب پتہ ہے کہ انصاف اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب طاقتور ترین اور کمزور ترین کے درمیان کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔ رنگ‘ نسل‘ زبان‘ علاقہ‘ گروہ‘ قبیلہ‘ برادری یہاں تک کہ سیاسی پارٹی کا تعصب بھی انصاف کی حکمرانی کا تصور باطل کر دیتا ہے۔ اسی لیے انصاف کی حکمرانی کے تمام اصول ازلی‘ ابدی اور الہامی ہیں جب کہ قانون کی حکمرانی کے اصول انسانی اکثریت کے محتاج ہیں۔

    انسانی معاشرے نے شروع دن ہی سے اپنے درمیان عدل اور انصاف کرنے کے لیے انسانوں کو ذمے داریاں سونپیں اور ادارے تخلیق کیے۔ جرگے سے پنچایت تک اور قاضی سے جج تک ایسے تمام ادارے اور فرد اس لیے منتخب کیے گئے کہ وہ لوگوں کے درمیان انصاف کریں گے۔ دنیا کے ہر ملک میں موجود کہانیوں کا آغاز ایک جیسے فقرے سے ہوتا ہے ’’ایک تھا بادشاہ جس کے دور میں اس قدر انصاف تھا کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے‘‘۔

    انصاف پہلے بھی جرگہ‘ پنچایت‘ قاضی اور جج کے پاس تھا اور آج بھی یہ انھی کی ذمے داری ہے۔ پہلے بادشاہ قاضی یا جج پر قدغن لگا کر اسے اپنے احکامات کا پابند کرتے تھے اور آجکل جمہوری معاشرے‘ قانون کی حکمرانی کے نام پر عدالتوں کے اختیار صلب کرتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انصاف کی بالادستی کی کہانی سناتی ہے جب کہ جمہوریت کی تاریخ پارلیمنٹ کی بالادستی کا درس دیتی ہے‘ یعنی اکثریت کی بالادستی۔

    جس طرح بادشاہوں کے مقابلے میں کھڑے ہونے والے انصاف کی حکمرانی کے علمبردار قاضیوں کے وجود سے تاریخ کی صفحات روشن ہیں‘ اسی طرح پارلیمنٹ کی آمریت کے مقابلے میں سینہ سپر ہونے والے جج بھی دنیا کی ہر جمہوریت میں پائے جاتے ہیں۔ جب کبھی بھی کسی ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے یہ معاملہ زیر بحث آیا کہ کیا وہ انصاف کی بالادستی کے لیے پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین کو مسترد کر سکتی ہے یا نہیں تو اس وقت عدالتوں کے سامنے امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان مارشل Jan Marshall کا وہ شہرہ آفاق فیصلہ ضرور پیش ہوا جو انھوں نے مشہور مقدمے مربری بمقابلہ میڈیسن (Marbury VS Madisan) میں دیا تھا۔

    1803ء میں سپریم کورٹ کے سامنے ایک ایسا مقدمہ پیش ہوا جس میں یہ بنیادی سوال سامنے آیا کہ اگر کانگریس کوئی ایسا قانون منظور کر لیتی ہے جو آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق جن میں انصاف کا حق بھی شامل ہے‘ اس سے متصادم ہے تو کیا عدالت اس قانون کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

    اس پر جسٹس مارشل کا تاریخی فیصلہ گونجتا ہے کہ انصاف کی حکمرانی ایک تصور ہے جس کا تحفظ عدلیہ کی بنیادی ذمے داری ہے اور اگر کانگریس کوئی ایسا قانون منظور کرتی ہے جس سے انصاف کے بنیادی حق پر ضرب لگتی ہے تو عدالت اسے منسوخ کر سکتی ہے اور عدالت کسی ایسی پابندی کو بھی نہیں مانتی جو کانگریس اس کے اس بنیادی اختیار کو محدود کرنے کے لیے لگاتی ہے جس کا مقصد انصاف کی حکمرانی‘ بالادستی اور فراہمی ہے۔

    دنیا کے ہر ملک میں اعلیٰ ترین عدلیہ کا یہ اختیار مسلم سمجھا گیا کہ اس کا بنیادی مقصد انصاف کی حکمرانی ہے کیونکہ اس کے بعد صرف اللہ تعالیٰ کی عدالت باقی رہ جاتی ہے۔ اس لیے ایسے قوانین جو انصاف کی فراہمی سے روکیں‘ سپریم کورٹ انھیں ختم کر سکتی ہے۔

    پاکستان کی سپریم کورٹ بھی ایسی ہی ایک تاریخ مرتب کرنے جا رہی ہے۔ اس کا آغاز اس دن ہو گیا تھا جب انھوں نے حکومت کی جانب سے 1956ء کے تحت کمیشن کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس طرح کی لامتناہی کوشش کا حصہ نہیں بننا چاہتے‘ ہمیں بتائیں کس کس کے خلاف تحقیقات کرنا ہیں۔ حکومتوں کا ہمیشہ سے یہ وتیرہ رہا ہے کہ ایک کمیشن بنایا جائے اور پھر اس کی سفارشات پر سانپ بن کر بیٹھا جائے جیسے ماڈل ٹاؤن واقعہ میں باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ ہے۔

    گزشتہ سات ماہ سے نواز شریف حکومت اس خط کا جواب نہیں دے رہی تھی اور تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر ٹی او آر کی بانسری بجائی جا رہی تھی۔ دوسری جانب وہ ادارے جن کی ذمے داری تھی کہ پاکستانی تاریخ کے اتنے بڑے اسکینڈل پر تحقیقات کا آغاز کرتے جیسے نیب‘ ایف آئی اے‘ اور ایف بی آر‘ وہ صرف اس لیے اپنی نااہلی کا اظہار کرتے رہے کیونکہ وزیراعظم کے خاندان کے لوگوں کے نام اس میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باقی دو سو کے قریب افراد جن کا نام پانامہ لیکس میں تھا ان پر بھی ہاتھ نہ ڈالا جا سکا۔

    حکومت کو اندازہ تھا کہ جیسے اس ملک میں باقی اسکینڈل دفن ہو جاتے ہیں‘ ویسے ہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دفن ہو جائے گا‘ لیکن عمران خان کی پاکستانی سیاست پر یہ مہربانی یاد رکھی جائے گی کہ اس نے پانامہ لیکس کے اس اسکینڈل کو دفن نہیں ہونے دیا۔ یہ اسکینڈل زندہ رہا اور اس نے 20 کروڑ عوام کو مضطرب‘ بے چین اور بے خواب رکھا۔ لوگ مسلسل سوچتے تھے اس کا فیصلہ کون کرے گا۔ کیا یہ اس وقت کھولا جائے گا جب حکومت ختم ہو گی اور پوری ن لیگ پکارے گی کہ یہ ایک سیاسی انتقام ہے لیکن نہیں‘ ایسا نہ ہو سکا۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ کر لیا کہ انصاف کی حکمرانی اور بالادستی صرف اور صرف انھی کا فریضہ ہے۔ عدالت نے کہا کہ ہم اس کیس کو سنیں گے اور قوم کو بے یقینی کے عذاب سے نکالیں گے۔ سپریم کورٹ کے پاس آئین کی دفعہ 184(3) کے مطابق جو اختیارات ہیں‘ ان کے تحت وہ عوامی اہمیت کے ہر معاملے میں کسی بھی قسم کا حکم جاری کر سکتی ہے اور آرٹیکل 190 کے تحت اس حکم کے نفاذ کی ذمے داری پاکستان میں موجود ہر انتظامی اور عدالتی فرد یا ادارے پر ہے۔

    سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ طے کرے گا کہ پاکستان میں اگر پوری پارلیمنٹ بھی انصاف‘ عدل اور اخلاق کے خلاف متحد ہو جائے‘ سپریم کورٹ اکیلی اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ اس لیے کہ سپریم کورٹ کی بنیادی ذمے داری انصاف کی حکمرانی ہے قانون کی حکمرانی اس کے تابع ہے۔

    نوٹ:میرے نام سے فیس بک پر بہت سے خیر خواہوں نے مختلف قسم کے پیج بنا رکھے ہیں جو میرے نام سے منسوب ہیں‘ لیکن ایک پیچ Orya Maqbool Jan Official ایسا پیج ہے جس سے لوگ اکثر یہ دھوکا کھاتے ہیں کہ یہ میرا اصل پیج ہے۔ میرا اس پیج سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس پر شایع شدہ مواد کا ذمے دار ہوں۔ میرے ذاتی فیس بک پیج کا ایڈریس یہ ہےhttps://m.facebook.com./oryamj/۔

  • پچاس لفظی کہانی – صداقت حسین ساجد

    پچاس لفظی کہانی – صداقت حسین ساجد

    میں انصاف ہوں.
    آج عدالت میں کھڑا تھا.
    مقدمے کی دوبارہ سماعت ہو رہی تھی.
    جج صاحب نے فیصلہ سنایا.
    ”شواہد نا کافی ہیں … پھانسی نہیں دی جا سکتی ..“
    یہ سن کر میں بے اختیار اپنے بال نوچنے لگا.
    دونوں بھائی تو کب کے پھانسی پر لٹک چکے تھے.
    دراصل مجھے پھانسی ہو چکی تھی.

  • انصاف ہو، ضرور ہو – کامران ریاض اختر

    انصاف ہو، ضرور ہو – کامران ریاض اختر

    کامران ریاض اختر ڈان اخبار میں اعلیٰ سطحی اجلاس کے بارے میں چھپنے والی خبر کو کئی دن گزر چکے ہیں، لیکن معاملے پر بحث جاری ہے- حالیہ کور کمانڈرز میٹنگ کے بعد جاری ہونے والے بیان میں خبر ”فیڈ“ کرنے پر شدید تنقید کی گئی اور نتیجتاً سول ملٹری تعلقات کے بارے میں سوالات اٹھنا شروع ہو گئے. بظاہر تو یہ معاملہ نہ آزادی صحافت کا ہے نہ مسئلہ خبر کے درست یا غلط ہونے کا، جس بات پر تشویش ظاہر کی جاتی رہی ہے وہ یہ ہے کہ ایسے اہم اجلاس کے شرکاء قومی اہمیت کے امور کے بارے میں ہونے والی گفتگو کے امین ہوتے ہیں. اگر واقعتاً اجلاس میں شریک کسی صاحب نے لا پرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دانستہ یا نادانستہ طور پر اس گفتگو کا ذکر کسی صحافی یا کسی دوسرے شخص کے ساتھ کر دیا ہے تو وہ امانت میں خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں اور یقینی طور پر ان کے خلاف انضباطی کاروائی ہونا چاہیے. بلکہ اگر یہ تعین ہوتا ہے کہ قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے تو تعزیرات پاکستان کے آفیشل سیکریٹس ایکٹ کو بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے.

    یہاں تک تو بات اصولی ہے اور کسی کو بھی اس سے اختلاف نہیں ہو گا- لیکن جس بات پر اختلاف پیدا ہوتا ہے وہ اس خبر پر ظاہر کیا جانے والا ردعمل ہے. اس خبر پر پیدا ہونے والی یہ تشویش تو بالکل جائز ہے کہ اس سے دنیا بھر میں یہ تاثر گیا کہ گویا حکومت اور فوج کی پالیسیاں الگ الگ ہیں. یقیناً بھارت کے ساتھ موجودہ کشیدگی کے ماحول میں ایسا تاثر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کرتا ہے. اسی لیے عسکری حلقوں کا اس پر شدید ردعمل قابل فہم ہے لیکن حکومت اور فوج کے اختلافات کا تاثر صرف اس ایک خبر سے تو نہیں پھیلا. میڈیا کی کئی شخصیات اور صحافی اپنے پروگراموں اور کالموں کے ذریعہ مسلسل اسی تاثر کو فروغ دے رہے ہیں. کسی بھی سرکاری میٹنگ میں فوجی شرکاء نے کیا کہا، کور کمانڈرز کی میٹنگ میں کن باتوں پر خفیہ بحث ہوتی رہی، ہر ایسی میٹنگ کے چند گھنٹے کے اندر مخصوص ٹی وی چینلوں پر یہ تمام تفصیلات کچھ صاحبان اس انداز میں بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں گویا وہ خود اس میٹنگ میں موجود رہے ہوں. حد تو یہ ہے کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان تنہائی میں ملاقات ہوتی ہے اور چند گھنٹوں بعد اس ملاقات کی بریکنگ نیوز چلنا شروع ہو جاتی ہیں. یہاں تک کہہ دیا جاتا ہے کہ آرمی چیف نے وزیر اعظم کو شٹ اپ کال دے دی. حیرانگی کی بات ہے کہ ایسی خبروں پر نہ تو عسکری حلقوں کی طرف سے انہیں من گھڑت کہہ کر تردید کی جاتی ہے، نہ ہی کسی کی طرف سے ایسی خبریں “فیڈ” کرنے پر کسی قسم کی کوئی تشویش ظاہر کی جاتی ہے. حتیٰ کہ افواج کا ادارہء تعلقات عامہ جو کہ دفاعی امور کے علاوہ، خارجی اور داخلی امور پر بھی ٹویٹ کے ذریعہ فوری رد عمل دیتا ہے، وہ بھی ایسی خبروں پر مہر بہ لب رہتا ہے. ایسے میں دنیا بھر میں فوج اور حکومت کے اختلافات کا تاثر جانا تو قدرتی ہے.

    تمام سرکاری ادارے نظام مملکت کا اہم حصہ ہیں. فوج کے خلاف ناروا گفتگو ہو یا حکومت کے بارے میں نازیبا باتیں، دونوں سے پورے ملک کا وقار مجروح ہوتا ہے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچتا ہے – فوج کو نیچا دکھانے کے لئیے ڈان کو جھوٹی خبر فیڈ کی جائے یا حکومت کو نیچا دکھانے کے لیے چند مخصوص صحافیوں کو غلط اطلاعات پہنچائی جائیں، دونوں یکساں طور پر قابل مذمت ہیں. ایسی حرکتیں پاکستان کے لیے شدید نقصان دہ ہیں جن سے کسی صورت میں بھی ایسا جھوٹا اور گمراہ کن تاثر پھیلتا ہو کہ جیسے خدانخواستہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت بچوں کی طرح ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہے.

    اس موجودہ خبر کے مسئلہ کو حل کرنے کی بہتر حکمت عملی یہ ہوتی کہ کسی بھی فوری رد عمل سے گریز کیا جاتا- خبر کی حکومت کی طرف سے واضح الفاظ میں تردید کی جا چکی تھی جس کے بعد معاملہ ٹھنڈا پڑ رہا تھا اور چند دن میں عالمی ذرائع ابلاغ بھی اس قصے کو بھول بھال جاتے. اس کے بعد ایسی باتیں صحافی تک پہنچانے والے کا پتہ لگا کر اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی تھی لیکن جس انداز میں اب صحافی کے خلاف کاروائی شروع ہوئی اسے خبر کی بالواسطہ تصدیق سمجھا گیا اور دنیا بھر میں پھر سے اس معاملے کو اچھالا جانے لگا. بہرحال اب جو ہونا تھا وہ ہو چکا، اب اہمیت اس بات کی ہے کہ معاملے کو حل کیسے کیا جائے. بہت ضروری ہے کہ عالمی سطح پر ایک واضح پیغام جائے کہ پاکستان کوئی بنانا ریپبلک نہیں بلکہ ایک مستحکم اور ذمہ دار ریاست ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہے اور کوئی شخص یا ادارہ قانون سے بالاتر نہیں. جو کوئی بھی قومی سلامتی سے متعلق کسی بھی اجلاس یا ملاقات کی تفاصیل میڈیا تک پہنچانے کا ذمہ دار ہو اس کے خلاف بلا امتیاز کاروائی کی جائے- انصاف ہو. سب کے ساتھ ایک جیسا یکساں اور غیر جانبدارانہ انصاف

  • جمہوری تماشا – احسان کوہاٹی

    جمہوری تماشا – احسان کوہاٹی

    مظہر حسین
    مظہر حسین

    مظہر حسین اسلام آباد کے نواحی علاقے ڈھوک حیدر علی کا خوشحال شخص تھا، ذاتی گھر کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی زمین بھی تھی، پھر ایک ٹرک بھی تھا، باحیا باوفا بیوی اور تین پھول سے بچوں کے ساتھ زندگی مالی پریشانیوں سے فاصلے پر بڑے سکون سے گزر رہی تھی لیکن یہ فاصلہ اس وقت اچانک ختم ہو گیا جب 1997ء میں مظہر حسین کا کسی سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا، یہ جھگڑا بڑھتے بڑھتے ڈھوک حیدر علی کے دو خاندانوں کو آمنے سامنے لے آیا، تعلقات ملنا جلنا ختم ہوگیا، دونوں خاندانوں کے لوگوں کا سر راہ سامنا بھی ہو جاتا تو نظریں پھیر لی جاتیں، یہ رنجش وقت کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھنے لگی اور پھر وہ ہوا جس کا کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔

    اس جھگڑے کو آٹھ ماہ ہوئے تھے کہ مظہر حسین کے مخالف کے چچا محمد اسماعیل کا قتل ہو گیا، مقتول کے بھائی منظور نے مقدمے میں مظہر حسین پر شک کا اظہار کرتے ہوئے ملزم نامزد کر دیا، پولیس نے پھرتی دکھائی، مظہر حسین کو محمداسماعیل کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا، تفتیش ہوئی اور پولیس نے مظہر حسین کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کر دیا، پھر رائج طریقہ کار کے مطابق مظہر حسین پر فرد جرم عائد کردی گئی جس کا اس نے انکار کیا اور مقدمے کی سماعت کے لیے ایک اچھا وکیل کر لیا، مقدمہ چلتا رہا، عدالت میں پیشیوں پر پیشیاں پڑتی رہیں، مظہر حسین کی مالی آسودگی تنگ دستی میں بدلنے لگی، مظہر حسین کا بوڑھا باپ عدالتوں کے چکر پر چکر کاٹنے لگا، وہ اپنے بوڑھے وجود کے ساتھ ہر پیشی کی صبح مظہر حسین کی بیوی کے سر پر ہاتھ رکھ کر امید دلاتا ہوا گھر سے عدالت کے لیے نکل جاتا اور شام ڈھلے ڈھلکے ہوئے کاندھوں کے ساتھ واپس آتا تو مظہر حسین کی اہلیہ سمجھ جاتی کہ آج پھر تاریخ پڑ گئی ہے۔

    دوسری طرف مقتول کے خاندان والوں نے مظہر حسین کو پھانسی دلوانے کا مصمم اراداہ کر رکھا تھا، انہوں نے عینی شاہدین پیش کر دیے، گواہوں نے قرآن اٹھا کر حلفیہ بیان دے دیا کہ جی قاتل مظہر حسین ہی ہے، اسی نے محمد اسماعیل کا خون کیا ہے، پولیس کے پیش کیے جانے والے شواہد اور گواہوں کے بیان پر عدالت نے ملزم مظہر حسین کو مجرم قرار دے دیا اوراکیس اپریل2004ء کو مظہر حسین کو تین لاکھ روپے جرمانہ اور سزائے موت سنا دی۔

    جس وقت مظہر حسین کو سزا سنائی گئی، اس کی اہلیہ کی عمرمحض چھبیس برس تھی، اس کا بیٹا شہباز صرف آٹھ سال کا تھا، منجھلی بیٹی ارم پانچ برس اور چھوٹا بیٹا زعفران تو صرف چھ ماہ کا شیر خوار تھا، مظہر حسین کا بوڑھا باپ فائلیں اٹھا اٹھا کر وکیلوں کے آسرے دلاسے پر عدالتوں کے چکر کاٹتا رہا اور پھر ہمت ہی نہیں زندگی بھی ہار گیا. مظہر حسین کے والد کے انتقال کے بعد اس کے تایا اور چچا نے مقدمے کی پیروی کی لیکن ہمارے ملک میں انصاف کے حصول کے لیے مینار پاکستان جیسے دس میناروں کی سیڑھیاں بھاری جیبوں کے ساتھ ساتھ غیر شروط طور پر چڑھنا پڑتی ہیں، ان بوڑھوں میں اتنی سکت بھلا کب تھی، وہ گھسٹ گھسٹ کر چلتے رہے اور زندگی ہار کر اپنے بھائی کے پاس اس جہاں میں پہنچ گئے۔

    مظہر حسین کا اب کوئی پرسان حال نہیں تھا، ساری جمع پونجی خرچ ہو چکی تھی، بچے رل گئے تھے، اہلیہ شوہر کے ہوتے سوتے بیوہ ہو چکی تھی، جب تک مظہر حسین کے والد تایا اور چچا زندہ تھے، وہ مظہر حسین کا مقدمہ لڑ رہے تھے، ان کی آنکھیں بند ہوئیں تو ان کی اولادوں نے بھی آنکھیں پھیر لیں کہ کون کب تک ساتھ دیتا. مظہر حسین کی ’’بیوہ‘‘ اور بیٹی ہاتھوں کے کشکول اٹھائے اللہ تعالی سے دعائیں مانگتے رہتے کہ قدرت کوئی معجزہ دکھا دے، ہماری عدالتوں سے انصاف کا حصول معجزہ ہی تو ہے۔ مقدمہ سیشن کورٹ کی حدود پھلانگ کر ہائی کورٹ پہنچ گیا، ادھر مظہر حسین کے بچے بھی لڑکپن کی حدود پھلانگ چکے تھے، باپ کی جیل نے ان کی معاش ہی نہیں ان کی زندگی بھی تباہ کر کے رکھ دی تھی، وہ اسکول جا سکے نہ اپنا کیرئیر بنا سکے. ایک کے حصے میں کرین کے گیئر اور دوسرے بھائی کے ہاتھوں میں ٹرک کا اسٹیئرنگ آیا اور ’’مجرم باپ‘‘ کی شہزادی بیٹی بالوں میں چاندی کے تار آنے کا انتظارکرنے لگی۔

    مقدمہ اسی طرح چلتا رہا، مظہر حسین کے بھائی محمد افضل نے اپنے بھتیجوں بھتیجی کے سر پر ہاتھ رکھا اور اس برے وقت میں ان کا ساتھ دینے لگا، وہ بھائی کا مقدمہ کسی نہ کسی طرح لڑتا رہا، اس عرصے میں مقدمہ کی فائل سیشن کورٹ سے ہوتی ہوئی ہائی کورٹ اور پھر وہاں سے سپریم کورٹ آچکی تھی. محمد افضل نے سپریم کورٹ میں اپیل کر رکھی تھی، سیشن کورٹ سے سپریم کورٹ تک اس مقدمے کی عمر انیس برس ہو چکی تھی لیکن یہ انیس برس ایک بےوسیلہ شہری کی زندگی کا فیصلہ کرنے کے لیے کیا معنی رکھتے ہیں؟ معزز عدلیہ ابھی تک حتمی فیصلہ نہ کر سکی فیصلہ کیا کرتی، مقدمے کی پیشی ہوتی تو سماعت بھی ہوتی، یہاں تو سماعت ہی نہیں ہو رہی تھی، فیصلہ تو بعد میں ہوتا کہ مظہر حسین مجرم ہے یا اسے باعزت بری کر دیا جائے۔

    مظہر حسین کے بھائی نے 2010ء میں اپنے بھائی کی پھانسی کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کی تھی، یہ اپیل چھ برس تک فائلوں میں کہیں دبی رہی، جن فائلوں کو اٹھانے والے بااثر ہاتھ نہ ہوں، ان فائلوں کا نصیب ایسا ہی ہوتا ہے، اسے اتفاق کے سوا کیا نام دیا جائے کہ چھ اکتوبر 2016ء کو سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ کے سامنے یہ فائل آگئی، جسٹس آصف سعید کھوسہ بنچ کے سربراہ تھے، پولیس کی طرف سے ایڈووکیٹ جنرل میاں عبدالرؤف پیش ہوئے لیکن مدعی اور مجرم کی طرف سے حیرت انگیز طور پر کوئی پیش نہ ہوا، اس عرصے میں مجرم کے وکیل شاہد عباسی صاحب جج بن چکے تھے اور صرف جج ہی نہیں ہائی کورٹ کے جج ہو چکے تھے، ایک جج کس طرح عدالت میں وکیل بن کر پیش ہوتا سو وہ پیش نہ ہوئے، جسٹس کھوسہ کے دل میں جانے کیا آئی، وہ سماعت ملتوی کرنے کے بجائے مقدمے کی فائل کھول کر بیٹھ گئے، وہ جیسے جیسے فائل پڑھتے گئے ان کی آنکھیں کھلتی چلی گئیں، تھوڑی ہی دیر میں بنچ کو اندازہ ہوگیا کہ مجرم کو اس مقدمے میں پھنسایاگیا ہے اور وہ بےگناہ ہے. جسٹس کھوسہ نے مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیے کہ
    ’’ہم نے فلموں میں سنا تھا کہ جج صاحب مجھے میری زندگی کے بارہ برس لوٹا دیں لیکن آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ایک شخص انیس برس سے جیل میں بے گناہ پڑا ہے، اسے اس کے یہ انیس برس کون لوٹائے گا؟‘‘

    سپریم کورٹ نے مظہر حسین کو باعزت رہا کرنے کے احکامات جاری کر دیے لیکن مظہر حسین تو ان احکامات سے پہلے ہی رہا ہوچکا تھا، اس کے دل نے دو برس قبل ہی اس کا مزید ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا، اسے مارچ 2016ء کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ وہ بےجان لاش بن کر جہلم جیل کے پھاٹک سے باہر آگیا، مظہر حسین کی زندگی ہی میں بیوہ کی زندگی گزارنے والی اس کی اہلیہ حقیقی معنوں میں بیوہ اور اس کے بچے یتیم ہوگئے. مظہر حسین کو اس کے اہل خانہ نے چارکندھوں پر لیا اور اسے منوں مٹی تلے دفنا دیا، جیل انتظامیہ نے ڈیتھ سرٹیفکٹ بھی جاری کر دیا لیکن کسی وجہ سے یہ سرٹیفکٹ مظہر حسین کی فائل میں نہ لگ سکا اور وہ فائل سرکتی کھسکتی ہوئی جسٹس کھوسہ کے سامنے آگئی، شاید قدرت کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انصاف کے ساتھ ہونے والا کھلواڑ دکھانا مقصود تھا۔

    سعودی شہزادہ
    سعودی شہزادہ

    اب اسی اکتوبر2016ء کا ایک منظر یہ بھی دیکھ لیں، یہ ایک کھلا میدان ہے جس میں ایک شخص کوگھٹنے موڑ کر بٹھایا گیا ہے، اس کا سرجھکا ہوا اور ٹھوڑی سینے سے لگی ہوئی ہے، چہرے پر چڑھے نقاب کے سبب اس کے پیلے زرد چہرہ اور تھرتھراتے ہوئے لب نہیں دیکھے جا سکتے، اس کے پیچھے ایک تنومند جلاد ننگی تلوار لیے کھڑا ہے اور پھر وہ چمکتی ہوئی تلوار بلند ہوتی ہے، بجلی کی سرعت سے اپنے ہدف کی طرف لپکتی ہے اور شخص کا سر کندھوں سے کاٹ کر زمین پر گرا دیتی ہے. جانتے ہیں یہ قلم ہونے والا سر کس کا تھا؟ یہ سعودی شاہی خاندان کے نوجوان ترکی بن سعود الکبیر کا تھا، سعودی شاہ کے عزیز پر الزام تھا کہ اس نے تین برس قبل اپنے دوست کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا، مقدمہ اس ملک کی عدالت میں پیش ہوا جہاں جمہوریت کی ’’ج‘‘ بھی نہیں، کھلی بادشاہت ہے. مقدمہ قاضی کے پاس پہنچا، ملزم کے گھر والوں نے قصاص دینا چاہا، ملزم اور وہ بھی شاہی خاندان کا اور شاہی خاندان بھی سعودیہ کا، صرف سوچا ہی جا سکتا ہے کہ ملزم کے ورثا نے کیا کیا پیشکش نہ کی ہوگی، اگر کوئی یہ کہے کہ ڈالروں سے بھرے ٹرک کی چابیاں سامنے رکھی ہوں گی تو غلط نہیں ہوسکتا، ان کی حیثیت اس سے بھی زیادہ تھی اور پھر سعودی شہزادے کی عمر بھی بمشکل بیس بائیس برس رہی ہوگی، ماں باپ عزیز و اقارب نے کیا کیا نہ کوششیں کی ہوں گی لیکن مقتول کے گھر والوں نے قصاص میں سعودی شہزادے کے سر کے سوا کچھ قبول کرنے سے انکار کر دیا، سو تین برس بعد ہی فیصلہ ہوگیا، سعودی شہزادے کا کٹا ہوا سر زمین پر تھا اور یہ زمین وہی ہے جہاں 73ء کے آئین کے تناظر میں کوئی حیلہ بہانہ تراشتا ہے نہ کوئی این آر او کے تحت جیل کے پھاٹک کھول کر قاتلوں کو رہا کردیتا ہے۔

    سیلانی کو مظہر حسین اور ترکی بن سعود ایک بہن کی ٹیلی فون کال پر یاد آگئے، بلدیہ ٹاؤن سے فون کرنے والی بہن کا کہنا تھا کہ اس کے کزن نے مردان میں ان کے والد کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے، ڈیڑھ سال ہونے کو ہے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو رہا، ان کے شوہر کا ایک پاؤں کراچی میں ہوتا ہے اور دوسرا مردان میں، اس مقدمے بازی سےگھریلو حالات متاثر ہو رہے ہیں، وہ بیچاری سیدھی سادی گھریلو خاتون معلوم ہو رہی تھیں. سیلانی سے عمران خان کا نمبر مانگنے لگیں کہ ان سے عدالتوں کی شکایت لگائیں گی اور جلد انصاف مانگیں گی جو ان کا حق ہے۔ سیلانی کو سادہ مزاج بہن کی اس سادگی پر بےاختیار مظہر حسین یاد آگیا، اس نے چاہا کہ وہ بہن کو مظہر حسین کی کہانی سنائے اور بتائے سمجھائے کہ وہ سعودی عرب کی بادشاہت میں نہیں جمہوریت کی فضا میں سانس لے رہی ہے، وہ جمہوریت جو بدترین ہو کر بھی بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سے صرف ملک ریاض اور پرویز مشرف ہی استفادہ کر سکتے ہیں، آپ نے مقدمہ جیتنا ہے تو اپنے بیٹے کو ملک ریاض یا پرویز مشرف بنائیں ورنہ جس حال میں ہیں، رب کا شکر ادا کریں۔ یہ سوچتے ہوئے سیلانی چشم تصور سے بنا جرم کیے انیس برس کی قید کاٹنے والے مظہر حسین کا جنازہ جہلم جیل کے پھاٹک سے نکلتا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • مظہر حسین، ترکی بن سعود اور ہمارا عدالتی نظام – مفتی توصیف احمد

    مظہر حسین، ترکی بن سعود اور ہمارا عدالتی نظام – مفتی توصیف احمد

    مفتی توصیف احمد 20 سال قبل ایک واقعہ رونما ہوتا ہے ،ایک شخص قتل ہوتا ہے ملزم کو نامزد کیا جاتا ہے، اس کے خاندان پر افتاد ٹوٹ پڑتی ہے وہ دوہائیاں دیتے ہیں ہم مظلوم ہیں ہم نے قتل نہیں کیا بہر حال قاتل با اثر ہے غریب کو دبوچ لیتا ہے رپورٹ درج ہوتی ہے ،کیس چلتا ہے اور طویل ترین کیس ہوتا ہے ،زندگی کے کئی نشیب و فراز اس کی ذندگی میں آتے ہیں اس کا والد مقدمے کی پیروی کرتا ہے ،عدالت کے چکر کاٹتا ہے اور چکر کاٹتے کاٹتے اس کی زندگی کا سفر کٹ جاتا ہے چچا میدان میں آتا ہے دشمن ظالم نظریں جمائے بیٹھا ہے ،زمین جائیداد نیلام ہوتی ہے کیس چل رہا ہے چچا بھی عدالتی نظام کے شکنجے میں روز بروز پھنستا جاتا ہے ایک روز زندگی وفا نہیں کرتی اور داغ مفارقت دے جاتی ہے ملزم جیل کی سلاخوں کے پیچھے اکیلا ہے کوئی کیس کی پیروی کرنے والا نہیں ۔باپ اور چچا اللہ کو پیارے ہو گئے وہ انصاف کا منتظر ہے شائد اللہ کی عدالت میں اس نے اپلائی کر دیا تھا اب عدالتی نظا م کی بے رحم موجیں دبیزتہوں میں پھنسے انصاف کو اوپر لاتی ہیں ،سوموٹو ایکشن ہوتاہے یا کسی جج میں خدا خوفی کی رگ پھڑکتی ہے ،کیس اوپر آتا ہے اور ملزم کو عدالت کی طرف سے باعزت بری کر دیا جاتا ہے ،خوشی کے شادیانے بجتے ہیں ،بیس سال بعد انصاف میڈیا کے ہاتھ لگتا ہے ،میڈیا ٹیمیں ملزم کے گھر کا سراغ لگاتی ہیں اس بات سے قطعی بے خبر کے ملزم کے گھر میں خوشی کے شادیانے نہیں بلکہ غموں کے بادل منڈلا رہے ہیں شائد اس کی قبر کی مٹی بھی خشک ہو چکی تھی۔

    یہ کہانی مظہر حسین کی ہے جو پنجاب کا رہائشی تھا اور قتل کے جھوٹے مقدمے میں 20 سال سے قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرتا اس دنیا سے نالاں ہوکر اللہ کے حضور پہنچ چکا تھا ،اس واقعے کی شہرت میڈیا تک پہنچتی ہے اور اعلیٰ عدلیہ پر سوال اٹھتے ہیں ہر کوئی عدالتی نظام کی پیچیدگیوں پر چہ مگوئیاں کرتا ہے اتنی سست روی کے مقدمے کے تین فریق دنیا سے چل بسے اور انصاف کا سورج طلوع ہوا ۔

    ابھی مظہر حسین کے کیس کی صدائے باز گشت جاری تھی کہ اس کیس سے ملتا جلتا ایک اور مقدمہ سامنے آتا ہے دو بھائیوں کو عدالت عظمیٰ سے بری ہونے کا پروانہ ملتا ہے عدالت گواہوں کے بیان میں تضاد سے مطمئن نہیں دکھتی اور فرمان جاری کرتی ہے کہ ان گواہوں کی شہادت سے سزائے موت نہیں دی جا سکتی لھٰذا ملزمان کو بری کیا جاتا ہے ،اسی اثناء میں معلوم ہوتا ہے کہ ایک اور عدالت ان بھائیوں کی سزا میں توثیق کر چکی ہے اور وہ بہاول پور کی جیل میںپھانسی پر چڑھا دئیے گئے ہیں۔مظہر حسین بیس سال بعد انصاف کے حق دار بنتے ہیں اور عدالت عالیہ کی طرف سے بری ہونے کا نوٹیفیکیشن شائد ان کی قبر کے کتبے پر چسپاں کیا جائے گا ،ان کی نسلیں اس براء ت سے شاہد مستفید ہوسکیں اور دو بھائی کس جرم کی پاداش میں تخت دار پر لٹکائے جاتے ہیں ۔۔۔

    ان واقعات کے تناظر میں اگر اسلام کے عدالتی نظام کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے یہاں امیر و غریب یکساںہیں انصاف حکومت اور دولت کی ریل پیل اور دمک سے دبتا نہیں ۔حاکم بھی عدالت کے کٹہرے میں برابر کھڑا ہوتا ہے ،قاضی شریح کی عدالت میں امیر المومنین حضرت علی ؓ کی طلبی ہوتی ہے زرہ کی گمشدگی اور یہودی کی ملکیت کا کیس ہے باوجود یکہ امیر المومنین جانتے ہیں کہ زرہ ان کی ہے قاضی صاحب امیر المومنین کی آمد پر کھڑے ہوتے ہیں تو علیؓ فرماتے ہیں’’ میںیہاں امیرالمومنین نہیں بلکہ فریق مقدمہ کے طور پر حاضر ہوا ہوں، عدالت گواہ طلب کرتی ہے تو علیؓ اپنے بیٹے حسن ؓ کو پیش کرتے ہیں عدالت بیٹے کو بطور گواہ قبول نہیں کرتی تو مقدمہ خارج ہوتا ہے اور زرہ یہودی کی ملکیت قرار پاتی ہے اور یہودی حلقہ بگوش اسلام ہوجاتا ہے صرف اس لیے کہ ایک تو فوری انصاف اور دوسرا حاکم وقت کے خلاف ۔۔۔۔۔جس کی آج کل توقع بھی نہیں کی جاسکتی ۔

    گزشتہ پنج سالے میںسابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے انصاف کے تقاضے کسی حد تک پورے کئے ،کسی حد تک یہ معلوم ہونے لگا تھا کہ اب انصاف غریب کی دہلیز پر میسر ہوگا جو قانون حکمرانوں کو عدالت کے کٹہرے میں گو کہ ’’تیس سیکنڈ‘‘کے لاسکتا ہے وہ اس ملک کے غریبوں کو کو بھی انصاف فراہم کرے گا پھر ایسی خاموشی ہوئی کہ انصاف کی اعلیٰ مثالیں آنا بند ہوگئیں

    حال ہی میں سعودی شاہی خاندان کے شہزادے ترکی بن سعود کو دوست کے قتل کرنے پر سزائے موت دی گئی اور کسی با اثر حکومتی شخصیت نے عدالتی فیصلے پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی اس بات سے قطع نظر کہ دیت کے معاملے میں کافی منت سماجت اور سفارش کی گئی لیکن کوئی سخصیت اور ریالوں کی کثرت انصاف کے تقاضوں میں حائل نہ ہوئی اور اس شہزادے کو تختہ دار پر چڑہا کر انصاف کا ایک روشن باب قائم کیا گیا ۔ہم بحیثیت پاکستانی اس طرح کے انصاف کی توقع کر سکتے ہیں ؟کسی شاہی خاندان کے سپوت کے خلاف ایسی کاروائی ممکن ہے ؟ قصاص میں قتل دور کی بات ہے کیا ہم پنامہ لیکس کے حوالے سے عدالت پر اثر انداز تو نہ ہوں گے؟منی لانڈرنگ اور ایان علی کیس میں تفتیشی افسر کے قتل سے کچھ سیکھیں گے یا مظہر حسین کی طرح بیس سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد عدالت سے بری ہونے کے پروانے لیتے رہیں گے ۔۔۔؟بہاول پور کے دو بھائیوں کے قتل کا ذمہ دار کون ہے ؟عدالت پولیس یا گواہان ؟اگر ہر کیس کو فوری حل کیا جائے تو اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں جنہیں سن کر شرمندگی کا احساس ہو۔

  • آج کے دور میں انصاف کی سنہری داستان – غلام نبی مدنی

    آج کے دور میں انصاف کی سنہری داستان – غلام نبی مدنی

    غلام نبی مدنی کہانی 13 دسمبر 2012ء سے شروع ہوتی ہے۔ عیش و عشرت اور ناز و نعم میں پلا سعودی شاہی خاندان کا نوجوان شہزادہ اپنے دوستوں کے ساتھ سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض کے شمال میں واقع سیاحتی مقام ”ثمامہ“ کی طرف جاتا ہے۔ شہزادے کی گاڑی کے ساتھ اس کے دوستوں کی دوگاڑیاں بھی تھیں۔ ایک گاڑی میں شہزادے کا دوست عادل المحمید تھا۔ ثمامہ کے سیاحتی مقام پر اسلحہ سے لیس چند نوجوانوں میں جھگڑا چل رہا تھا، جن میں اسلحہ کا بلیک ڈیلر حداد نامی شخص بھی تھا۔ شہزادے کے دوست صورتحال کا اندازہ کرنے گاڑی سے نیچے اترتے ہیں۔ اچانک زبردست فائرنگ شروع ہو جاتی ہے۔ نوجوان شہزادے نے بھی اپنی پسٹل سے اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ایک گولی شہزادے کے دوست عادل المحمید کو جا لگی، جو بعد میں عادل کے پیچھے کھڑے شہزادے کے دوسرے دوست عبدالرحمن التمیمی کو بھی لگی۔ نتیجتا شہزادہ کا دوست عادل موقع پر جاں بحق ہوگیا اور دوسرا دوست بری طرح زخمی ہوگیا۔ پولیس موقع پر پہنچتی ہے، شہزادے سمیت وہاں موجود لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ اس دوران شہزادے کو پتہ چلتا ہے کہ اس کا دوست عادل اس کی گولی سے مارا گیا تو وہ سخت صدمے سے دوچار ہوتا ہے۔ پولیس کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ شہزادہ اس وقت نشے کی حالت میں تھا۔ معاملہ عدالت میں جاتا ہے جہاں کیس کا بھرپور جائزہ لیا جاتا ہے اور جرم ثابت ہونے پر شہزادے کو عادل المحمید نامی شخص کے قتل کے جرم میں قصاصا قتل کی سزا سنادی جاتی ہے۔

    مقتول نوجوان عادل المحمید
    مقتول نوجوان عادل المحمید

    شہزادے کے اقرباء کی طرف سے مقتول کے لواحقین کو منہ مانگی دیت دینے کی آفر کی جاتی ہے۔ شہزادے کی جان خلاصی کے لیے ہر طرح کی کوششیں اور منتیں کی جاتی ہیں، یہاں تک کہ ریاض کے گورنر امیر فیصل بن بندر بن عبدالعزیز بھی مقتول کے لواحقین سے سفارش کرتے ہیں، لیکن مقتول کے والد قصاص پر قائم رہتے ہیں۔ بالآخر 18 اکتوبر 2016ء کو کہانی ختم ہونے لگتی ہے۔ 18 اکتوبر شہزادے کی زندگی کا آخری دن ہوتا ہے۔ آج کے دن شہزادے کو قصاص میں قتل ہونا ہے۔ آخری دن کے عینی شاہد ڈاکٹر محمد المصلوخی کے مطابق تہجد کے وقت شہزادے کو جیل سے نکالا جاتا ہے۔ شہزادہ تہجد کی نماز ادا کرتا ہے، پھر فجر کی نماز تک قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔ صبح سات بجے جیلر دوبارہ شہزادے کو لے جایا جاتا ہے۔ شہزادہ اپنے ہاتھ سے کوئی وصیت نہیں لکھتا، بلکہ کسی کو اپنی وصیت لکھواتا ہے۔ دن 11 بجے شہزادے کو غسل کرا کر قصاص والے میدان کی طرف لےجایا جاتا ہے۔ جہاں شاہی خاندان کےسینکڑوں معزز لوگ اور دیگر حکومتی شخصیات شہزادے کی سفارش کے لیے اربوں ریال دیت دینے کے لیے تیار کھڑے تھے۔

    شہزادہ ترکی بن سعود
    شہزادہ ترکی بن سعود

    دوسری طرف مقتول عادل کے والد اور لواحقین بھی آج انصاف کے نافذ ہونے کے منتظر تھے۔ یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہو جاتا ہے، شہزادے سمیت سارے لوگ ظہر کی نماز ادا کرتے ہیں، نماز کے بعد ریاض کےگورنر امیر فیصل بذات خود شہزادے کی سفارش کے لیے مقتول عادل کے والد کے پاس جاتے ہیں، مگر مقتول کے والد گورنر کی درخواست کو ٹھکرا دیتے ہیں اور شریعت کا مطالبہ قصاص برقرار رکھتے ہیں۔ شام 4 بج کر 13 منٹ پر جلاد میدان میں آتا ہے اور مقتول عادل کے والد کے سامنے اللہ کے حکم (قصاص) کو نافذ کر دیا جاتا ہے۔ اس دوران مجمعے میں شہزادے کے والد کی زوردار چیخ سنائی دیتی ہے اور پھرمجمع پر خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔

    قصاص میں قتل ہونے والے سعودی شہزادے ترکی بن سعود کی اس کہانی کے بعد چودہ سو سال پیچھے لوٹیے، جہاں انصاف کی ایسی ہی داستان رقم کی گئی تھی۔ قریش ایسے معزز خاندان کی معززخاتون پر چوری کا الزام ہے۔ مقدمہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے دربار میں پیش کیا جاتا ہے۔ چوری ثابت ہونے پر خدا کی مقررکردہ ”ہاتھ کاٹنے کی سزا“ سنائی جاتی ہے۔ اس دوران خاتون کے خاندان نے سفارش کے لیے تگ و دو شروع کی کہ رسول خدا کے سامنے کون سفارش کرسکتاہے، لوگوں نے صحابی رسول اسامہ بن زید کا نام پیش کیا، چنانچہ اسامہ کو سفارش پر مجبور کیا گیا، اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سفارش کرتے ہیں، آپ یہ سن کر غضبناک ہوتے اور فرماتے ہیں ”کیا تم اللہ کی بیان کردہ حدود میں مجھ سے سفارش کرتے ہو؟“ پھر منبر پر کھڑے ہوکر وہ سنہری الفاظ ارشادہ فرمائےجو قیامت تک ظلم کو مٹانے کے لیے بہترین اسوہ لیے ہوئے ہیں۔ فرمایا ”تم سے پہلی قومیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ ان میں اگر کوئی معزز چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی کمزور چوری میں پکڑا جاتا اس کو سزادی جاتی۔ خدا کی قسم اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا.“ (بخاری ومسلم)۔چنانچہ اس خاتون پر حدنافذ کی گئی۔

    عدل وانصاف کی ان بےنظیر مثالوں کے بعد ہمارے عدالتی سسٹم پر غور کیجیے، جہاں 19 سال تک بےگناہ مظہر حسین کو قید میں رکھ کر مار دیا جاتا ہے، اس کی بےگناہی کا فیصلہ اس کے مرنے کے بعد سنایا جاتا ہے۔ ریمنڈڈیوس ایسے قاتل کو راتوں رات بچا کر رہا کروا دیا جاتا ہے۔ شاہ زیب قتل کیس میں جج کو فون کرکے کہا جاتا ہے کہ شاہ رخ جتوئی کا خیال کرنا اپنا بچہ ہے۔ پھر لواحقین کو مجبور کر کے قاتل شاہ رخ کو معاف کروا لیا جاتا ہے۔ ماڈل ڈالر گرل ایان علی کو رنگے ہاتھوں منی لانڈرنگ کرتے گرفتار کیا جاتا ہے، گرفتار کرنے والے افسر کو قتل کر دیا جاتا ہے، پھر مجرم ایان علی کو بچانے کے لیے سابق صدر سمیت بڑی بڑی حکومتی شخصیات اور سیاستدان سامنے آ جاتے ہیں، ملزمہ ایان علی رہا ہو جاتی ہے لیکن مقتول افسر کو انصاف نہیں مل پاتا۔ لال مسجد میں مظلوموں کا خون بہانے والے، امریکا کو اڈے دے کر قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں میں ہزاروں لوگوں کو مروانے والے اور قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو بیچنے والے آمر پرویز مشرف ایسے ظالم کے خلاف آج تک ہمار ا نظام عدل سوائے بیان اور پیشیاں دینے کے کچھ نہ کرسکا۔ لاپتہ کیے جانے والے افراد، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں مارے جانے والے مظلوموں کے لواحقین آج تک انصاف کی بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں انصاف کی اسی حالت کو دیکھ کر مظلوم لوگ پولیس اور عدالت کا نام سن کر خوف کھاتے ہیں۔ جب انصاف کا یہ عالم ہو تو معاشرہ کیسے پرامن ہو سکتا ہے؟ دہشت گردی، کرپشن، چوری، ڈکیتی اور ٹارگٹ کلنگ ایسے جرائم کیسے رک سکتے ہیں؟ شاہی خاندان کا شہزادہ ترکی بن سعود وقت کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کا بھتیجا تھا، جس کے عزیز واقارب نہ صرف حکومتی عہدے دار ہیں بلکہ دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود انصاف کی راہ میں نہ کوئی بادشاہ رکاوٹ بنتا ہے، نہ ان کی دولت انصاف کا راستہ روکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب دنیا کے پرامن ملکوں میں سے ایک ہے، جہاں قتل و غارت گری، چوری ڈکیتی، کرپشن اور رشوت ایسے جرائم کا تصور تک نہیں ہے۔ ایک عام آدمی وقت کے بادشاہ کو عدالت میں کھڑا کر سکتا ہے۔ خود سعودی بادشاہ نے عوام کو اس کا یقین دلایا۔ جب انصاف کا یہ عالم ہو تو یقینا قومیں ترقی کرتی ہیں اور معاشرے پرامن رہتے ہیں۔ اگر ہم ترقی کرنا چاہتے اور ملک کو پرامن بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے نظام ِانصاف کو آزاد کروانا ہوگا اور خدا کی مقررکردہ حدود کو بغیر کسی دباؤ کے نافذ کرناہوگا!

  • اے کاش!-خالد مسعود خان

    اے کاش!-خالد مسعود خان

    khalid masood

    لہو میں بھیگے تمام موسم…گواہی دیں گے کہ تم کھڑے تھے…وفا کے رستے کا ہر مسافر…گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے…سحر کا سورج گواہی دے گا…کہ جب اندھیرے کی کوکھ میں سے…نکلنے والے یہ سوچتے تھے…کہ کوئی جگنو نہیں بچا ہے تو تم کھڑے تھے…تمہاری آنکھوں کے طاقچوں میں…جلے چراغوں کی روشنی نے…نئی منازل ہمیں دکھائیں…تمہارے چہرے کی بڑھتی جھریوں نے…ولولوں کو نمود بخشی…تمہارے بھائی‘ تمہارے بیٹے‘ تمہاری بہنیں…تمہاری مائیں‘ تمہاری مٹی کا ذرہ ذرہ…گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے…ہماری دھرتی کے جسم سے جب…ہوس کے مارے…سیاہ جونکوں کی طرح چمٹے…تو تم کھڑے تھے…تمہاری ہمت‘ تمہاری عظمت اور استقامت…تو وہ ہمالہ ہے…جس کی چوٹی تلک پہنچنا…نہ پہلے بس میں رہا کسی کے…نہ آنے والے دنوں میں ہو گا…سو آنے والی تمام نسلیں…گواہی دیں گی کہ تم کھڑے تھے…لہو میں بھیگے تمام موسم…گواہی دیں گے کہ تم کھڑے تھے…وفا کے رستے کا ہر مسافر…گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے.

    طارق حبیب کی یہ نظم گزشتہ ایک ہفتے سے میری نظروں کے سامنے ہے اور اس کے پس منظر میں پاکستان کی محبت میں پھانسی کا پھندہ چومنے والے سرپھروں کی ایک مختصر سی ”بٹالین‘‘ جنت کی کھڑکیوں سے جھانکتی نظر آتی ہے۔ اس ملک میں شہادت کے اتنے فتوے جاری ہو چکے ہیں کہ ان سرفروشوں کو اب شہید کہنا بھی عجیب لگتا ہے کہ ہم نے قاتلوں‘ تکفیریوں اور باغیوں کو بھی اس سند سے نوازنے میں تامل نہیں کیا تو بھلا اب اس فانی دنیا سے کسی رخصت ہو جانے والے کے لیے ہمارے جاری کردہ القاب کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ شہادت اور ہلاکت کے فیصلے وہ کرے گا جو ہر چیز پر قادر ہے اور اس دن سب معاملات سامنے آ جائیں گے جس روز وہ میزان عدل لگائے گا۔

    بیانوے سالہ پروفیسر غلام اعظم 23 اکتوبر 2014ء کو اپنے خالق حقیقی کے ہاں حاضر ہوئے۔ ضعیف العمر پروفیسر غلام اعظم کو پاکستان آرمی کے لیے رضاکار‘ البدر کے لیے جنگجو بھرتی کرنے اور پاک فوج کا ساتھ دینے کے جرم میں نوے سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ پاکستان کی حمایت کرنے کے جرم میں غلام اعظم صاحب کی بنگلہ دیشی شہریت ختم کر دی گئی تھی۔ وہ 1978ء سے لے کر 1994ء تک سولہ سال تک بنگلہ دیش میں ”غیر قانونی‘‘ طور پر رہائش پذیر رہے تاوقتیکہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے ان کی شہریت بحال کر دی۔ 11 جنوری 2012 ء کو انہیں گرفتار کیا گیا۔ بنگلہ دیش کی ”جنگ آزادی‘‘ میں کئے جانے والے جنگی جرائم کے الزام میں انہیں حسینہ واجد کے خود ساختہ ”انٹرنیشنل کرائم ٹربیونل‘‘ میں پیش کیا گیا، جہاں انہیں نوے سال قید کی سزا سنائی گئی۔ وہ جیل میں دو سال نو ماہ اور بارہ دن گزارنے کے بعد جیل اور زندگی کی قید سے اکٹھے ہی آزاد ہو گئے۔

    عبدالقادر ملا 12 دسمبر 2013ء کو، محمد قمر الزماں 11 اپریل 2015ء ، علی احسن مجاہد اور صلاح الدین قادر چوہدری 22 نومبر 2015ء ، مطیع الرحمان نظامی11 مئی 2015 ء کو اور اب میر قاسم علی 3 ستمبر 2016 ء کو اس دارفانی سے اپنے خالق حقیقی کے دربار میں حاضر ہو گئے۔ ان سب کو پاکستان سے محبت اور وفاداری نبھانے کے جرم میں پھانسی پر لٹکایا گیا۔ سب نے پھانسی پر مسکرا کر داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ کسی نے رحم کی اپیل نہ کی۔ سب مستانہ وار پھندے کو چومنے ایسے چلے کہ فیض یاد آ گیا ؎

    دست افشاں چلو…مست و رقصاں چلو…خاک بر سر چلو…خوں بداماں چلو …راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو
    کسی کو سٹریچر پر ڈال کر تختہ دار تک پہنچانے کی تکلیف نہ اٹھانا پڑی۔

    پاکستان اس سارے معاملے میں اتنا غیر جانبدار ہے کہ لگتا ہے اس سارے معاملے میں نہ وہ فریق ہے اور نہ ان پھانسی پانے والوں سے ہماری کوئی جان پہچان ہے۔ یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے اور ”مجرم‘‘ محض بنگلہ دیش کے عام سے ”غدار‘‘ تھے جنہیں اس غداری کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی اور تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ موم بتی مافیا کو تو چھوڑیں کہ ان کی ترجیحات کا سب کو اندازہ ہے۔ کشمیر میں ”پیلٹ گن‘‘ یعنی چھروں والی بندوق سے کشمیریوں پر فائرنگ ہو، ان کو رتی برابر پروا نہیں، دو ماہ سے زائد عرصہ سے کرفیو لگا ہو اور شہری محصور ہوں، انہیں کوئی فکر نہیں۔ بچوں کو دودھ تک نہ مل رہا ہو، انہیں انسانی حقوق یاد نہیں آتے۔ تازہ ترین احتجاجی لہر میں پچانوے لوگ جاں بحق ہو جائیں، ان کو کوئی ملال نہیں کہ ان کے آقائے ولی نعمت کی جانب سے کوئی اشارا نہیں اور وہ ہو بھی کیسے؟ بھلا وہ یہ سارا خرچہ اپنے خلاف آواز اٹھانے والوں پر کر سکتے ہیں اور کیا یہ موم بتی مافیا اپنے رزق روٹی فراہم کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کر سکتا ہے؟ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے دیگر اداروں نے ان تمام پھانسی پانے والوں کے ٹرائل پر شدید ترین تحفظات کا اظہار کیا اور سارے بنگلہ دیشی نظام انصاف کو اس معاملے میں عموماً اور انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل آف بنگلہ دیش کی ساری عدالتی کارروائی کو خصوصاً انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیا؛

    تاہم ان تنظیموں نے اس سلسلے میں وہ کہرام نہ مچایا جو یہ عموماً مچاتی ہیں۔ سارا مغرب خاموش ہے اور ان این جی اور عالمی انسانی حقوق کے تنظیموں اور مغرب کے بارے میں کیا کہا جائے؟ خود حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں مکمل مجرمانہ خاموشی کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ ہر پھانسی پر ہماری وزارت خارجہ ایک ڈھیلا ڈھالا سا بیان جاری کر دیتی ہے کہ ان کا کام ایک پنجابی محاورے کے مطابق ”شلجموں سے مٹی اتارنے کے برابر ہے‘‘ صرف ایک ترک صدر اردوان تھا جس نے مطیع الرحمان نظامی کی سزائے موت کے خلاف کھل کر بات کی۔ بنگلہ دیشی حکومت کی مذمت کی اور اپنا سفیر بنگلہ دیش سے واپس بلا لیا۔ اردوان نے یہ تقریر دراصل بنگلہ دیش کی حکومت کے اقدامات کے خلاف نہیں کی تھی، ہمارے منہ پر جوتا مارا تھا۔ ترک غیرت کا ثبوت نہیں دیا تھا، ہمارے بے غیرتی کا مذاق اڑایا تھا۔ مطیع الرحمان کی پھانسی پر احتجاج نہیں کیا تھا، ہماری خاموشی پر ہمیں شرم دلانے کی کوشش کی تھی۔ ترکی کی میٹرو سے لے کر نظام صفائی تک کی نقل مارنے والے ہمارے حکمرانوں کو صدر اردوان کی اس سلسلے میں نقل مارنے کی ہمت نہ ہوئی کہ یہ کام غیرت مند قوموں کا ہوتا ہے۔

    میں نے ترک صدر کی وہ تقریر دیکھی، سنی کا معاملہ یوں نہیں کہہ سکتا کہ یہ تقریر ترک زبان میں تھی اور ”زبان یار من ترکی‘ ومن ترکی نمی دانم‘‘ والا معاملہ تھا؛ تاہم نیچے چلنے والے انگریزی ترجمے کو محض دیکھا جا سکتا تھا اور ترک صدر کے خطاب کے دوران اس کے جوش اور جذبے کو محسوس کیا جا سکتا تھا۔ ترجمہ اصل کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتا مگر اردوان کی ”باڈی لینگوئج‘‘ اتنی زوردار اور جاندار تھی کہ ترجمے کی کمی بیشی پوری کر دی۔ ترک صدر نے کہا : ”میں مطیع الرحمان نظامی کی پھانسی کا غم آپ لوگوں سے بانٹنا چاہتا ہوں۔ ہر بات سے پہلے میرا یقین ہے کہ مطیع الرحمان نظامی نہ کسی ایسے جرم کے مرتکب تھے اور نہ ہی اس سزا کے حقدار تھے۔ ہم بنگلہ دیش کی قیادت سے ملک کے امن‘ استحکام اور اچھے مستقبل کے لیے زیادہ محتاط اور صحیح فیصلوں کے منتظر ہیں۔ دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم اور ایسے واقعات کی ہم خبر رکھتے ہیں۔

    جیسا کہ مطیع الرحمن نے اپنے خط میں کہا ‘میں جا رہا ہوں اور اپنے پیچھے ایک فکر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ایسے مشکل حالات میں بھی موت کے خوف کے بجائے استقامت دیکھ کر حیران ہونے والوں اور ہمارے لیے موت کے معنی ایک نہیں ہیں۔ بھائیو! یہ احمق سمجھتے ہیں کہ ہمارے متعلق انہوں نے فیصلہ کیا ہے، یہ فیصلے تو آسمانوں پر ہوتے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں تم کون ہوتے ہو یہ فیصلہ کرنے والے؟ اپنے بندے کو راضی کرنے کے لیے اللہ سے کوئی گلہ نہیں۔ میرا یہ پیغام ہے کہ میں جا رہا ہوں، میں خود سے پہلے جانے والے دوستوں‘ بھائیوں اور رسول اللہ ﷺ کے پاس جا رہا ہوں۔ تم لوگ یہیں رہ جائو گے، جہاں میں جا رہا ہوں وہاں فیصلہ ہو جائے گا کہ کون حق پر تھا۔ میں جا رہا ہوں، تم اپنے آپ کو منظم کرو اور یہ نہ بھولنا کہ تمہاری باری بھی آئے گی۔ شہادت کی موت اور کسی انسان کی غلامی قبول نہ کرنے کو ہمیشہ یاد رکھنا‘۔ مطیع الرحمان نظامی پر اللہ کی رحمتیں ہوں۔

    میں بنگلہ دیش اور دنیا کے مسلمانوں کے لیے صبر کی دعا کرتا ہوں۔ ڈھاکہ میں موجود سفیر کو ہم نے واپش بلا لیا ہے اور وہ اس وقت استنبول پہنچنے والا ہے۔ اور مت بھولنا، ظالموں کے لیے جہنم ہے‘‘۔ سارا ہال نعرے مار رہا تھا۔ مجھے کچھ پتا نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے تھے۔ کاش میں وہاں ہوتا اور کم از کم کھل کر نعرہ تو لگا سکتا۔ کاش یہ تقریر صدر اردوان کے بجائے ہمارے کسی حکمران کی ہوتی۔ کاش یہ غیرت ہم نے دکھائی ہوتی۔ کاش اس شہادت کا درد ہم نے اسی طرح محسوس کیا ہوتا۔ اے کاش…اے کاش!