Tag: امید

  • عمران خان آج بھی امید بن سکتا ہے – زبیر منصوری

    عمران خان آج بھی امید بن سکتا ہے – زبیر منصوری

    زبیر منصوری عمران خان آج بھی ویسا ہی جی دار ہے،
    آج بھی امید بن سکتا ہے!
    اگر
    وہ سخت گیری، جلد بازی اور ذاتی انا کی بنیاد پر فیصلے کرنا چھوڑ دے،
    وہ جان لے کہ سیاست ساتھ لے کر چلنے کے فن کا نام ہے،
    بند گلی کے سفر کا نام نہیں،
    وہ اپنے اردگرد نظر ڈالے اور ایسے لوگ جمع کرے جو اس کی طرح ایماندار ہوں،
    وہ اپنے قیمتی اثاثے اپنی ٹیم کو سیلابی پانی کی طرح ”برباد“ نہیں دریائی پانی کی طرح ”آباد“ کرنے والا بنانے کے لیے تربیت اور ٹریننگ کا سسٹم بنائے،
    وہ پلاننگ اور دور رس منصوبہ بنائے،
    وہ محض حکمران بننے کے بجائے قائد بننے کے راستے پر چلے،
    وہ خیبرپختونخوا کو خوابوں کا نگر بنا کر دکھا دے،
    وہ عوامی قوت کو اسٹیبلشمنٹ سے نجات کے لیے استعمال کرے نہ کہ انگلی کے اشاروں کا منتظر رہے۔

    میرے عزیز عمران!
    دیکھو! لاکھوں لوگ اب مایوسی کے سیلاب میں ڈوبے تو تمہاری دنیا اور آخرت کو بھی لے ڈوبیں گے۔
    خدا کے لیے ان کی معصوم امیدوں کو اپنی غیر ضروری جرات اور بڑھک بازی سے ضائع نہ کرو،
    خوب سمجھ لو کہ بہادری اور بےوقوفی میں باریک سی لائن ہوتی ہے۔
    دیکھو! برسوں بعد پٹواریوں اور زرداریوں کے علمبرداروں سے مایوس قوم کا عام آدمی تمہاری طرف متوجہ ہوا ہے اور تم؟
    کریز چھوڑ کر ایمپائر کلب کی طرف دیکھنے لگ گئے؟
    کاش تمہیں کوئی قاضی بابا جیسا شفیق اور مخلص سرپرست میسر رہتا،
    کاش تم کسی کی سنتے اور مانتے،
    یا پھر کاش کچھ بھلے لوگوں کے پاس تمہیں پارٹی وسائل فراہم کرنے اور ہیلی کاپٹر پر سفر کرانے کے اسباب ہوتے۔
    عمران لوٹ آؤ!
    یہ آخری اوور ہے!
    کہتے ہیں کہ عقلمند وہ ہے جو دوسروں کے تجربے سے سیکھ لے،
    تم اپنے تجربوں سے ہی سیکھ لو تو عقلمند تو کہلاؤ گے، کامیابی بھی تمھارے قدم چومے گی۔

  • چیزیں قبول کرنے سے آسان ہو جاتی ہیں: ندا اشرف

    چیزیں قبول کرنے سے آسان ہو جاتی ہیں: ندا اشرف

    زندگی آپ کو ہمیشہ خوش رکھنے کا وعدہ کبھی نہیں دے سکتی۔بلکہ انسان ہر قدم پر آزمائش میں مبتلا ہوتا رہتا ہے۔مگر زندگی ان پر آسان ہو جاتی ہے جو ان چیزوں کو قبول کر لیتے ہیں جنہیں وہ بدل نہیں سکتے۔ایک اندازے کے مطابق 90فیصد ہمارے معاملات درست راہ پر گامزن ہوتے ہیں ، جبکہ 10فیصد میں کسی قسم کی کوتاہی یا کمی بیشی کا سامنا ہوتا ہے اور ہم ان 10فیصد کی وجہ سے ذہنی دبائو اور پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔درحقیقت ہم ان 10فیصد کو قبول نہیں کر رہے ہوتے!!

    ماضی کیا کوئی تلخ واقعہ ، یا شخص یا کوئی کمزوری یا شرمندگی جیسے گرد وغبار والے خیالات سے بسا اوقات لوگوں کا ذہن بھر جاتا ہے ۔با نسبت ان چیزوں کو بدلنے کے لیے لڑنے کے بجائے ان چیزوں کو قبول کرنے والا انسان خوش اور پرامن ہو جاتا ہے۔دیکھا گیا ہے کہ جو چیزیں آپ کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے ان میں اولین لوگوں کے روئیے اور گزرا ہوا وقت ہے۔اس کے بعد جسمانی خدوخال اور ساخت ہیں ، جنہیں بہتر تو کیا جا سکتا ہے مگر تبدیل نہیں۔ تاہم چیزوں کو قبول کرنا بھی اختیاری عمل ہے اور ہر مشکل سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں،ایک تو یہ کہ جو ہو رہا ہے اسے مان لیا جائے اور مثبت راہ اختیار کر کے ذہنی سکون اور آمادگی حاصل کی جائے ، اور دوسرا اس کے خلاف سراپا مہم بن کر پریشانی کو بڑھایا جائے ، کیونکہ یہ صورتحال فطرت کے مخالف ہے۔ہم ایسی دنیا میں رہتے ہیں جو آئے دن بدل رہی ہے ، ایسے میں انسان کسی ایک پریشان کن خیال یا چیز کے ساتھ جامد نہ ہو ۔بلکہ ’’تسلیم‘‘ کرنا ہی ایسی صفت ہے ، جو اپنی چھائوں تلے انسان کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ متحرک بھی رکھتی ہے۔محض خود پر معمولی سا غور و فکر کر کے آپ اپنی زندگی کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔
    چنانچہ اس چیز کو سمجھ لیں کہ قوانین فطرت کے تحت جو کچھ بھی انسان کے ساتھ ہوتا ہے وہ پہلے سے متعین اور لکھا جا چکا ہے۔نبی اکرمﷺ کا فرمان مبارک ہے، ــ’’اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیریں آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے ہی لکھ دی تھیںاور اللہ کا عرش پانی پر تھا‘‘۔(صحیح مسلم،کتاب القدر،حدیث2653)
    اچھا یہ ہے کہ اپنی زندگی میں ہونے والے ہر معاملے کے پیچھے مقصد اور سبق کو تلاش کریں اور بہتر چیزوں کے لیے سرگرداں ہو جائیں۔
    انسانی مزاج کا خاصا ہے کہ وہ ہمیشہ چاہتا ہے کہ اس کے معاملات درست ہی رہیں، حالانکہ وقت کی اونچ نیچ انسان کو سیکھنے اور بہتر جینے کا قابل بناتی ہے۔ایک راستہ بند ہونے سے ہی باقی راستے سامنے آتے ہیں۔جب انسان کو کوئی تکلیف یا کسی فرد سے کوئی دکھ پہنچتا ہے تو ہمارا عمومی طرز عمل ہے کہ کوسنا شروع کر دیتے ہیں یا اللہ سبحان وتعالیٰ سے گلے شکوے پر آجاتے ہیں،اس طرح انسان اس عادت میں مبتلا ہوتا ہی چلا جاتا ہے۔زندگی میں آنے والے ہر ایسے وقت کواپنے لیے چیلنج بنائیں کہ مبتلائے آزمائش میں ’’آزمائش ‘‘ کا سامنا کرنا ہے۔یاد رکھیں یہی وہ مومن کی صفت ہے کہ جس کا ذکر اس حدیث مبارکہ میں ملتا ہے،
    ’’سیدنا صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مومن کا بھی عجب حال ہے ، اس کے ہر معاملے میں بھلائی ہی بھلائی ہے اور یہ بات سوائے مومن کے کسی کوحاصل نہیں ،اگر اس کو خوشی حاصل ہوئی اور اس نے شکر ادا کیا تو اس میں بھی ثواب ہے ،اور جو اس کو نقصان پہنچا اس پر صبر کیا ، تو اس میں بھی ثواب ہے‘‘۔(مختصر صحیح مسلم ،حدیث2092)
    دراصل غم اور خوشی ہی وہ کیفیات ہیں ، جسے مومن ’’قبول‘‘ کر رہا ہوتا ہے۔خود کو ہر مشکل کے لیے تیار رکھیں کیونکہ نقصان بھی برداشت کیا جا سکتا ہے، جب آپ انا پر جمے رہتے ہیں تو مزاحمتی طاقت بھی کم ہو جاتی ہے ۔چاہے کیسا بھی نقصان ، ناکامی اور غیر متوقع حالات سے دوچار ہو نا پڑے ، جو چیز آپ کے بس میں نہیں ہے اسے قبول کرنے سے حقیقی خوش اور سکون ملتا ہے۔
    ہمارا ایک المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کے سمندر میں غوطہ لگانے کی سعی بھی نہیں کرتے اور لوگوں کو یا ماضی کو یا کسی تلخ واقعہ کو الزام دیتے رہتے ہیں بغیر یہ سوچے سمجھے کہ ہماری توقعات بھی کتنی زیادہ تھیں۔مایوسی سے بچنے کا سب سے عمدہ نسخہ یہ ہے کہ لوگوں سے توقعات نہ رکھیں ، اپنی توقعات اللہ تعالیٰ سے وابسطہ کرلیں۔آپ ﷺ کا فرمان مبارک ہے، ’’ تم میں سے کسی کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے نیک گمان (حسن ظن)رکھتا ہو‘‘۔(سنن ابن ماجہ ، حدیث 4167، تخریج:صحیح)
    آپ کی غلطیاں آپ کے مقصد کی تعمیر کرتی ہیں ، اس غلطی کو بھلا دیں جو آپ کو ’’Hurt‘‘ کرتی ہے اور ’’Guilt‘‘ دیتی ہے۔لیکن اس غلطی سے حاصل کیئے سبق کو کبھی نہ بھولیں کیونکہ یہ اس غلطی یا واقعہ کو موجود ہونے کا سبب اور مقصد تھا۔رب کائنات کی اس مشیت کے تحت کہ جس پر آپ ﷺ ہمیں آگاہ فرما چکے ہیں کہ ’’ کوئی بندہ مومن نہیں ہو سکتا ، یہاں تک کہ اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لے آئے ، اور یہ یقین کر لے کہ جو کچھ اسے لاحق ہوا ہے چوکنے والا نہ تھا ، اور جو کچھ چوک گیا ہے اسے لاحق ہونے والا نہ تھا‘‘۔
    (جامع الترمذی ، حدیث 2144,تخریج :صحیح)
    ہماری موجودہ حالت اس وقت ایسے جمود کا شکار ہو چکی ہے کہ ہر طرف نفرت ، غم و غصہ ، قتل وغار ت اور نفاق ،حسد جیسے منفی طرز کے رجحان زیادہ ہیں۔اس صورت میں منفیت کو چھوڑ کر ’’ممکنات‘‘ کے پہلو کو مدنظر رکھیں۔کامیابی اور ترقی کی امید اگر آپ کی ممکنات میں سے ہے تو اس کے لیے ’’Efforts‘‘ لگانا شروع کر دیں اور یہ امید کی طرف پہلا قدم ہے۔یہ سمجھنا کہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں؟ یا اگر ایسا نہ ہوتا ‘اِس بند دروازے کی طرح ہے جو انسان کو آگے بڑھنے سے روک دیتا ہے۔ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’طاقت ور مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمزور و ناتواں مومن سے بہتر اور پسندیدہ ہے ، اور ہر ایک میں بھلائی ہے ، تم اس چیز کی حرص کرو جو تمہیں فائدہ پہنچائے اور عاجز نہ بنو ، اگر مغلوب ہو جائو تو کہو اللہ تعالی کی تقدیر ہے۔جو اْس نے چاہا کیا ، اور لفظ ’’اگر مگر‘‘ سے گریز کرو ، کیونکہ ’’اگر مگر‘‘ شیطان کے کام کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
    (سنن ابن ماجہ ، حدیث 4168، تخریج:صحیح)
    چناچہ نفع بخش چیزوں کی حرص کرنا ’’ممکنات‘‘کو ترجیح دینا ہے۔
    حاصل کلام یہ کہ جو کچھ آپ کے پاس ہے وہی آپ کا اثاثہ ہے، ممکن ہے کہ جن چیزوں پر آپ کو افسوس ہے یا آپ ان پر اپنی توانائی ضائع کر رہے ہیں ، وہ ان سے بہتر ہر گز نہ ہوں جو آپ کے پاس موجود ہے۔یہی سے شکر پیدا ہوتا ہے۔اور کاملیت کسی کو نہیں ملتی یہ صفت خداوندی ہے!

  • امید بمقابلہ مایوسی-احسن اقبال

    امید بمقابلہ مایوسی-احسن اقبال

    na-117

    حالیہ دنوں میں ملک کے اِن قابل نوجوانوں سے تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا جوپاکستان کی ترقی و خوشحالی میں نت نئے بزنس آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانے میں مصروفِ عمل ہیں،بلاشبہ دورِ جدید میں جِدت ہی کسی بھی معاشرے کی ترقی میں کلیدی کردار اداکررہی ہے اور خداداد صلاحیتوں کے حامل نوجوان بزنس مین نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی برادری میں ملک کا مثبت امیج اجاگرکرنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔ کسی بھی نئے کاروبار کی کامیابی کا دارومدار خود اعتمادی اور مثبت سوچ پر ہوتا ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب گلاس کو آدھا بھرا یا آدھا خالی دیکھنے کے حوالے سے سوچ واضح ہو، ازل سے قانونِ فطرت ہے کہ آدھا گلاس خالی دیکھنے والے چاہے جتنے بھی وسائل سے مالامال ہوں ، مایوسی اور ناامیدی کے گہرے کنویں میں گِرکر ناکامی اپنا مقدر بنالیتے ہیں، ناکامی کا خوف انہیں کوئی بھی نیا رِسک لینے سے باز رکھتا ہے جس کی بناء پر مقاصد کا حصول سراسر اپنی ہی منفی اپروچ کی وجہ سے ناممکن ہوجاتا ہے جبکہ آدھا گلاس بھرا دیکھنے والے مثبت سوچ کے حامل افراد درپیش چیلنجز کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں، وسائل کی کمی کا رونا رونے کی بجائے مسائل کا پائیدار حل تلاش کرتے ہیں اور ہمتِ مرداں مددِ خدا کے مصداق کامیابی سے ہمکنار ہوجایا کرتے ہیں۔

    یہی صورت حال عالمی منظرنامے میں بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے جہاں تمام ممالک اپنے مثبت امیج کو اجاگرکرنے کیلئے سردھڑ کی بازی لگاتے ہیں، بدقسمتی سے پاکستان کو ان عناصر کا سامنا ہے جو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے صرف اور صرف “ستیاناس” اور “بیڑاغرق” ہی کا راگ الاپ کر ملک و قوم کی بدنامی میں بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ عالمی سیاست میں کسی بھی قوم کی پُرامیدی اور مثبت سوچ پر مبنی لائحہ عمل ہی کامیابی کا ضامن ہواکرتا ہے،اِس امر پر اختلاف نہیں کہ پاکستان کو مختلف چیلنجزکا سامنا ہے لیکن گزشتہ تین برسوں میں وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں مختلف شعبوں میں بیش بہا کامیابیوں کی داستانیں بھی رقم کی گئی ہیں۔پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی پر تمام پاکستانیوں کو فخر ہونا چاہیے، ماضی قریب میں عالمی طاقتوں کے ایماء پرایک آمرنے آئین کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی، غیرملکی اشاروں پر ڈالرزکے عوض ملکی مفاد کا سودا کیا گیا،ملک میں دہشت گردی کا بازار گرم کیاگیا، جمہوری معاشرے کی جان عوام کی نمائندہ سیاسی جماعتوں کی مقبول قیادت کو قومی دھارے سے باہر کرنے کی غیرآئینی کوششوں کے باوجود عوام نے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے جمہوریت، انصاف، مساوات، اور قانون کی حکمرانی کیلئے اپنی پُرامن جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کیا، آج پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور دیگر طبقات کا فیڈریشن کو مضبوط بنانے کیلئے اتفاق ہے۔

    اگر آج کے پاکستان کا موازنہ 2013ء کے پاکستان سے کیا جائے تو واضح طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آج کا پاکستان 2013ء سے کہیں مختلف ہے جب ملک دہشت گردی کے عفریت کا شکار تھا، ریاست کی رِٹ روزبروز کمزور ہوتی جارہی تھی، روزانہ کی بنیادوں پر معصوم عوام کا خون بہایا جا رہا تھا لیکن بہادر قوم نے امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جس کی بدولت آج کے پاکستان میں دہشت گردی کا عفریت آخری سانسیں لے رہا ہے، کامیابی سے دہشت گردوں کا صفایا کیا جا رہا ہے جس کی تازہ مثال اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور حکومتی اداروں کی چوکسی کی بناء پرحالیہ محرم کا خیروعافیت سے گزرنا ہے۔مجھے یہ بتانے میں فخر محسوس ہورہا ہے کہ موجودہ حکومت کی کامیاب پالیسیوں کا اعتراف عالمی میڈیا بھی کررہا ہے جو 2013ء میں اپنے تبصروں ، نیوز رپورٹس میں پاکستان کو روئے زمین پر خطرناک ترین ملک کہتا تھا اور آج پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی بناء پر پاکستان کوتیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت اورعالمی سرمایہ کاری کیلئے پرکشش ترین ملک قرار دیتا ہے،

    ملکی معیشت جو چند برس پیشتر تباہی کا شکار تھی آج خطے کی ابھرتی ہوئی معیشت سمجھی جارہی ہے،2013ء کے پاکستان کے گروتھ ریٹ کا گزشتہ آٹھ برسوں سے موازنہ کیا جائے توآج 4اعشاریہ 8فیصد کی بلند ترین سطع پر پہنچ چکا ہے،پاکستان فارن ایکسچینج ریزرو 23بلین ڈالرز کی تاریخی بلندی کی بدولت آئی ایم ایف کے قرضہ پروگرام سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوچکا ہے،حکومت اس کامیابی کے مثبت اثرات سے معاشرے کے تمام شعبہ ہائے زندگی کو مستفید کروانے کیلئے مصروفِ عمل ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ عناصر کی جانب سے ایسا بے بنیاد دعویٰ کرکے مایوسی پھیلائی جارہی ہے کہ حکومت نے عوام کو قرضوں میں جکڑ دیا ہے، جبکہ درحقیقت حکومت کی طرف سے گزشتہ تین برسوں میں ڈیبٹ/جی ڈی پی ریشو کو برقرار رکھا گیا ہے، ملک میں شرحِ بے روزگاری 6فیصد سے کم ہوچکی ہے، 2013ء میں فِسکل ڈیفیسٹ 9فیصدتھا جو آج 5فیصد ہے، موجودہ انفلیشن ریٹ لگ بھگ 5فیصد ہے جوکہ گزشتہ 13سالوں میں کم ترین سطع پرہے ، جی ڈی پی گروتھ ریٹ میں گزشتہ تین برسوں میں اضافہ ہوا ہے،

    پاکستان سٹاک ایکسچینج تاریخ میں پہلی مرتبہ چالیس ہزار پوائنٹس عبور کرچکے ہیں،مورگن سٹانلے کیپیٹل انٹرنیشنل (ایم ایس سی آئی)سمیت عالمی ادارے پاکستان کو ایمرجنگ مارکیٹ قراردے رہے ہیں ۔ یہ وہ چشم کشا حقائق ہیں جن کی توقع 2013ء تک دور دور تک کہیں نہ تھی۔آج انرجی، انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ اور ہائیر ایجوکیشن کے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی جارہی ہے، ملکی تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف نے اپنا پروگرام کامیابی سے مکمل کیا ہے، موڈیز، اسٹینڈرڈ اینڈپورز جیسے عالمی اداروں نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو پازیٹو قرار دیا ہے،ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل اور دیگر اداروں کی غیرجانبدارانہ رپورٹس اس بات کی گواہ ہیں کہ ملک میں کرپشن میں کمی آئی ہے، گلوبل کمپیٹیٹونیس انڈکس میں پاکستان کی رینکنگ برائے 2015۔16ء بہتر ہوئی ہے، شرح خواندگی 60فیصد تک ہوچکی ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور پرائم منسٹرز نیشنل ہیلتھ پروگرام کی بدولت معاشرے کے پِسے ہوئے غریب عوام کی حالت بہتر کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں،آئی ٹی انڈسٹری میں پاکستانی نوجوان اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں، پاکستان کو آئی سی ٹی کے شعبے میں نئے بزنس پراجیکٹس کے حوالے سے موزوں ترین سمجھا جا رہاہے،تھری جی اور فور جی متعارف کروانے کے بعد سی پیک منصوبے کے تحت آپٹیکل فائبر سے ملک میں مزید تیز رفتار انٹرنیٹ کی فراہمی یقینی بنائی جارہی ہے ،

    پاکستان نے اپنے ہم پلہ ممالک کے گروپ میں بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جو ماضی میں سیاسی عدمِ استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ممکن نہ ہوسکا۔ یہ وہ حقائق ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ آج کا رائزنگ پاکستان درست سمت کی جانب گامزن ہے۔ اس کی بنیادی وجہ میرا گلاس کا آدھا بھرا ہوا دیکھنا ہے۔ ایسے حالات میں جب حکومت وقت کو ناحق تنقید کا نشانہ بناجارہا ہو میری پاکستانی معاشرے میں مثبت پہلو تلاش کرنے کی عادت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اختلافِ رائے کسی بھی جمہوری معاشرے کا حسن ہے، ہمارے سیاسی مخالفین سمیت دیگر ناقدین کو تنقید کرتے وقت پاکستان کی ترقی و خوشحالی پر مبنی منصوبوں کو نشانہ بنانے کی بجائے حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔ معاشرے میں پرامیدی اور مثبت سوچ اجاگر کرنے کا پیغام عام کرتے ہوئے میں توقع کرتا ہوں کہ ناقدین کو تنقید کرتے ہوئے توازن رکھنا چاہیے، آدھا گلاس خالی دیکھنے کی عادتِ بد سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے اور پاکستان سے منسلک مثبت کامیابیوں کو اجاگر کرنے کیلئے تعاون کا ہاتھ تھامنا چاہیے ورنہ اندیشہ ہے کہ مایوسی کے سوداگر قوم کا مورال ڈاؤن کرنے کا باعث بنیں گے جوکہ کسی صورت ملکی مفاد میں نہیں ہے۔

  • رجا، امید کا استعارہ – حنا نرجس

    رجا، امید کا استعارہ – حنا نرجس

    ”اور ہاں رجا، صافی نے بہت تاکید کی تھی کہ تمہیں اس کی کامیابی کی اطلاع ضرور دوں. ماشاءاللہ اچھے نمبروں سے میٹرک پاس کر لیا ہے اس نے. پرسوں آیا تھا مٹھائی کا ڈبہ لے کر.“
    ”الحمد للہ! آپی، یہ تو بہت اچھی خبر سنائی آپ نے. اس کی یہ خواہش پوری ہو گئی. سچ ہے کہ شوق اور لگن ہو تو کوئی رکاوٹ، رکاوٹ نہیں رہتی.“
    ”خير وہ تو کئی بار مایوس ہوا اور انتہائی قدم اٹھانے تک کی سوچتا رہا. یہ تمہاری طرف سے دیا جانے والا مسلسل حوصلہ ہی تھا جس نے اسے زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے کی ہمت دیے رکھی.“
    ”آپی میری طرف سے بہت مبارکباد دیجیے گا اسے. اور رانی کو بھی. وہ بھی بہت خوش ہو گی نا؟“
    ”ہاں تو اور کیا. ساتھ آئی تھی اس کے. اب تو بڑے بازار میں دکان کھول لی ہے صافی نے، چار لڑکے بھی رکھے ہوئے ہیں. رانی اب بیمار رہنے لگی ہے بیچاری. جوڑوں کے درد سے پریشان ہے. کام سے تو خیر بہت پہلے منع کر دیا تھا صافی نے کہ بیٹا کمانے لگا ہے تو ماں تجھے کیا ضرورت ہے اب کام کرنے کی. لیکن نقصان تو ہمارا ہوا نا. پھر کوئی ویسی ذمہ دار اور نفیس الطبع کام والی ملی ہی نہیں.“
    ”ہم بھی تو ہیں نا، آپی. اپنا سارا کام خود کرتے ہیں. دور کے ڈھول واقعی سہانے ہوتے ہیں یہ یہاں آ کر پتہ چلا.“
    ”ابھی تو تمہیں دو ماہ ہوئے ہیں امریکہ گئے، ابھی سے گھبرا گئی؟ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا.“
    …………………………………………………………..
    فون بند کر کے بھی رجا سرشاری کے حصار میں رہی. یوں لگتا تھا جیسے کل کی بات ہو جب وہ پہلی بار صافی سے متعارف ہوئی تھی. وہ اپنی شادی کی تقریبات کے بعد دعوتوں کے سلسلے تک سے فارغ ہو چکی تھی. واثق چھٹی ختم ہونے پر لاہور اپنی ملازمت پر واپس جا چکے تھے جبکہ اسے ابھی کم از کم ایک ماہ یہیں رہنا تھا. دن بوریت کا شکار ہونے لگے تو اس کی جیٹھانی، فارحہ آپی، نے اسے اپنی بوتیک پر آنے کی دعوت دی. ڈریس ڈیزائننگ ان کا جنون تھا اور اپنے اسی شوق کو وہ اپنا کاروبار بنائے ہوئے تھیں. اس مقصد کے لیے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر ایک عمارت کرائے پر لے رکھی تھی جہاں وہ کاریگروں اور شاگردوں سے کام کرواتی تھیں. رجا کو تو وقت ہی گزارنا تھا. سو وہ شام کو وہاں جا پہنچی.
    سلائی مشینوں پر زیادہ تر لڑکیاں جبکہ اڈّوں (لکڑی کے چوکور ڈھانچے جن پر کپڑا تان کر کڑھائی کی جاتی ہے) پر چھوٹے بڑے مختلف عمر کے لڑکے کڑھائی کرنے میں مصروف تھے.
    وہ بچوں کے ساتھ ہلکی پھلکی بات چیت کرتے ہوئے مختلف سرگرمیوں کا جائزہ لے رہی تھی. دائیں طرف کونے والے اڈے پر اکیلے ہی مصروف ایک دبلے پتلے بارہ تیرہ سالہ لڑکے کی نظریں اس نے کئی بار خود پر مرکوز محسوس کیں. جب وہ متوجہ ہوتی تو وہ یوں ظاہر کرتا جیسے اس کے کام سے اہم دنیا میں کچھ ہے ہی نہیں. جب کئی بار ایسا ہوا تو وہ سیدھی اسی کے پاس جا پہنچی.
    ”واہ! کام تو بہت خوبصورت کر رہے ہو. کیا نام ہے تمہارا؟“
    ”صافی“
    وہ غیر ارادی طور پر ہنس پڑی. مگر اس کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی وہ بول اٹھا.
    ”آصف ہے جی. لوگوں نے بگاڑ کے صافی بنا دیا.“
    ”ہممم… نام تو پیارا ہے. کب سے کر رہے ہو یہ کام؟“
    ”ایک سال ہوا ہے جی.“
    ”اس سے پہلے یقیناً سکول جاتے ہو گے پھر پڑھائی چھوڑ کر یہاں کام سیکھنے لگے.“
    ”نہیں جی. ٹیپوں (ٹیپ ریکارڈر اور ریڈیو وغیرہ مرمت کرنا) کا کام سیکھتا تھا پہلے. چھ ماہ ہی سیکھا پھر ابا نے اس کام پر لگا دیا.” ایک سایہ سا لہرایا تھا اس کے چہرے پر.
    ”اچھا اچھا ٹھیک ہے، میں تو اس لیے سکول کا پوچھ رہی تھی کہ یہاں ہر دوسرے لڑکے لڑکی نے مجھے یہی بتایا ہے کہ پہلے ہم سکول جاتے تھے، پڑھائی مشکل تھی اس لیے چھوڑ کر کام سیکھنے لگے.“
    وہ ایک دم جیسے کسی خول میں سمٹ گیا. سر جھکا کر اپنے کام میں پوری طرح منہمک ہو گیا. خاموشی کے کئی لمحے بیچ میں آئے، وہ اٹھنے کو ہی تھی جب اچانک اس نے سر اٹھایا اور بولا،
    ”باجی، میں ان لڑکوں کی طرح نہیں. پانچویں پاس کی ہے میں نے. میں بہت دل لگا کر پڑھتا تھا. پھر بس…..“
    اگلے الفاظ اس کے رندھے ہوئے گلے میں ہی اٹک گئے تھے اور آنکھوں میں نمی سی چمکی تھی. رجا سمجھ چکی تھی.
    ”اچھا، یہ بتاؤ اب شوق ہے تمہیں پڑھنے کا؟“ اس نے چند موتی ہاتھ سے بکھراتے ہوئے پوچھا.
    ”جی بہت زیادہ.“
    ”پڑھا تو کام کے ساتھ بھی جا سکتا ہے، یہ کون سی مشکل بات ہے؟“
    ”ہیں جی؟“
    ”ہاں جی!“ اس نے اسی کے انداز میں بات لوٹائی. ”ابھی میں ادھر ہی ہوں، کہو تو روزانہ تمہیں پڑھا دیا کروں. ایک گھنٹہ نکال لو فی الحال.“
    ”سچی باجی؟ چھٹی کی کتابیں تو ہیں میرے پاس. کل کون سی کتاب لے آؤں جی؟“
    ”جو تمہیں سب سے زیادہ مشکل لگتی ہے.“
    ”انگریزی اور ریاضی مشکل لگتی ہے، باجی. میں کل لے آؤں گا. فارحہ باجی سات بجے چھٹی دیتی ہیں نا تو کام کے بعد میں آٹھ بجے تک آپ سے پڑھ لوں گا.“
    ”ہاں، ٹھیک ہے.“
    …………………………………………………………..
    سدا کی ہمدرد دل رکھنے والی رجا کو تو من پسند مصروفیت مل گئی تھی. صافی کی لکھائی بہت خوبصورت تھی. شرمیلی سی طبیعت رکھنے والا تھا. بات چیت کرتے وقت کبھی رجا سے نگاہیں نہ ملاتا. تعلیم کا سلسلہ پھر سے جڑنے پر بے حد مسرور تھا. یہ مسرت کام کرتے وقت بھی اس کے انگ انگ میں سمائی ہوتی.
    ایک دن کہنے لگا،
    ”باجی، اگر آپ کا کوئی ٹیپ ریکارڈر یا ریڈیو خراب ہو تو دکان پر ہر گز نہ لے کر جائیں. اس کام میں بہت “اولا” ہوتا ہے.“
    ”کیا مطلب؟ میں سمجھی نہیں.“
    ”مطلب یہ کہ گاہک کو تو پتہ نہیں ہوتا، دوکاندار معمولی سے نقص کے بھی بہت سارے پیسے لے لیتے ہیں.“
    ”یعنی تم مجھے اپنے تجربے کی بنیاد پر ایک ٹپ دے رہے ہو.“
    وہ ہنس پڑا. ”ویسے آپ کو ضرورت بھی کیا ہے کہیں جانے کی. مجھ سے ٹھیک کروا لیجیے گا.“
    ”ہاں یہ ٹھیک ہے. چلو اب کتاب نکالو، آج فعل ماضی کے جملوں کا ترجمہ کرنا سیکھتے ہیں.“
    اس معمول کا شاید آٹھواں دن تھا. آج صافی والا کونا ویران پڑا تھا کیونکہ وہ غیر حاضر تھا. فارحہ آپی سے دریافت کیا تو کہنے لگیں،
    ”رجا، میں بھی اسی سلسلے میں تم سے بات کرنے والی تھی. کچھ دیر پہلے رانی آئی تھی بتانے، بلکہ یوں کہو التجا کرنے. صافی کو کل بہت مارا ہے اس کے باپ نے.“
    ”مگر کیوں؟“ وہ تڑپ ہی تو اٹھی.
    ”اگر میں کہوں تمہاری وجہ سے؟“
    ”میری وجہ سے؟“
    ”ہاں رجا، اس کے باپ کو صرف اس پیسے سے غرض ہے جو وہ روزانہ کما کر لے جاتا ہے. وہ اس کے ہاتھوں میں کتابیں برداشت نہیں کر سکتا. اسے اولاد پر خرچ کرنے سے زیادہ، فائدہ اٹھانے کا لالچ ہے. کمانے والے ان پڑھ بیٹے کو وہ زیادہ استعمال کر سکتا ہے نا اس لیے اس کی تعلیم کے از حد خلاف ہے. جو پانچ جماعتیں صافی نے پڑھی ہیں وہ بھی روزانہ جھگڑے کی فضا میں ہی. رانی رو رہی تھی کہ سارا جسم نیلوں نیل ہے صافی کا. خدا کے لیے رجا بی بی کو منع کر دیں.“
    ”مگر میں تو اسے اس کے خوابوں کی تعبیر دینا چاہتی ہوں، آپی.“
    ”تم نہیں جانتی ان لوگوں کے مسائل اور نفسیات کو. بجائے تعبیر دینے کے تم کوشش کرو وہ ان خوابوں سے ہی دستبردار ہو جائے. یوں اس حساس لڑکے کی زندگی آسان ہو جائے گی.“
    رجا کے لیے اس صورتحال کو جوں کا توں تسلیم کر لینا آسان نہیں تھا. بار بار نگاہوں کے سامنے دو ذہین، شرمیلی، جھکی ہوئی، پرعزم مگر نمی سے چمکتی آنکھیں آ جاتیں. ذہن میں ایک ہی بات گونجتی،
    ”باجی میں ان لڑکوں کی طرح نہیں. پانچویں پاس کی ہے میں نے. میں بہت دل لگا کر پڑھتا تھا. پھر بس….“
    اگلے دن وہ ادھر نہیں گئی. حوصلہ ہی نہ تھا جانے کا. تیسرے دن وہ خود کو کسی حد تک سنبھال چکی تھی. صافی کا دکھ بھی تو بانٹنا تھا.
    وہ معمول سے زیادہ خاموش اور حد درجہ سنجیدہ اپنے کام میں مصروف تھا. اس کی آمد سے باخبر ہونے کے باوجود نظر انداز کر رہا تھا. وہ پڑھنے کے لیے مقررہ کردہ وقت سے ایک گھنٹہ پہلے ہی اس کے پاس جا پہنچی.
    ”واہ! کتنا خوبصورت پھول بنا ہے یہ. سیاہ قمیض پر سرخ گلاب انتہائی دیدہ زیب لگ رہا ہے. یہ بھی آر (کڑھائی کرنے کا آلہ) سے ہی بنایا ہے کیا؟ پتہ نہیں کونسا جادو ہے تمہارے ہاتھوں میں. صافی، تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ یہ ہنر مجھے بھی سکھا دو. چلو آج سے تم استاد، میں شاگرد. لے کر آؤں آر؟“
    وہ ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہا تھا. پتہ نہیں کیسے ایک دم ہی خود پر سے قابو کھو بیٹھا.
    ”باجی…..“ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا. اتنا غبار جو دل میں جمع تھا، نکل گیا، سب کہہ ڈالا. وہ خاموشی سے سنتی رہی. انجانے میں ہی سہی، اس کے مندمل ہوئے زخموں کو وہ پھر سے کھرچ بیٹھی تھی. اب مسیحائی بھی اسے ہی کرنا تھی. وہ تسلی دینے کے انداز میں اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر سمجھانے لگی.
    ”دیکھو صافی، تم ابھی صرف اپنے کام پر توجہ دو. یہ ہنر ہر ایک کے پاس نہیں ہوتا. تمہیں اللہ نے خصوصی طور پر نوازا ہے. پھر تم بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہو تو تمہارے ابو کی تم سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں. پڑھائی کے شوق کا کیا ہے، کچھ دیر انتظار بھی کیا جا سکتا ہے. جب چند سال بعد تم ایک معقول رقم کما کر گھر لے جانے لگو گے تو مجھے یقین ہے کہ تمہارے ابو تمہاری کتابیں چولھے میں نہیں ڈالیں گے.“
    بات اس کی سمجھ میں آ گئی اور وہ کافی حد تک سنبھل بھی گیا.
    ”ٹھیک ہے پھر کل سے اسی اڈے پر ایک طرف ایک فالتو کپڑا میرے لیے بھی لگا دینا.“ رجا اس کا شانہ تھپتھپاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی.
    وہ روزانہ اس سے چھوٹی چھوٹی کتنی ہی باتیں کرتی. بد ترین حالات کا بہادری سے مقابلہ کرنے والوں، کامیاب لوگوں کی محنت اور جد و جہد کے بے شمار قصبے سناتی. ساتھ ساتھ موتی ستارے الٹے سیدھے بڑے بڑے ٹانکے لگا کر ٹانکتی رہتی. وہ دیکھ کر مسکرا دیتا. ایک دن کہنے لگا،
    ”باجی، آپ کیا کرو گی سیکھ کر؟“
    ”اپنے کپڑوں پر کڑھائی کیا کروں گی“
    ”اگر آپ پڑھے لکھے لوگ خود ہی کڑھائی کرنے لگو گے تو ہم محنت کشوں سے کون کروائے گا؟“
    ”اوہ اچھا! تم یوں سوچتے ہو. چلو میں نہیں سیکھتی.“ اس نے آر ایک جانب رکھتا ہوئے کہا.
    ”مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میں یہ کام اوروں کو سکھا کر ان کے روزگار کا بندوبست کر سکوں. بس تم سکھاتے رہو مجھے.“ اس نے قطیعت سے کہتے ہوئے آر پھر سے اٹھا لیا.
    دن گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا. وہ اپنے میاں کے ساتھ لاہور سیٹل ہو گئی. فارحہ آپی کے ذریعے پیغام رسانی کا سلسلہ جاری رہا. صافی کی راہ میں بہت سی مشکلات آتی رہیں مگر رجا کے حوصلے و ہمت کے پیغامات آگے بڑھنے کے لیے مہمیز کا کام کرتے رہے. اس دوران دو ایک بار سرسری سی ملاقات ہوئی. وہ چند دن کے لیے سسرال آتی تو وقت کو گویا پر لگ جاتے.
    پہلی ملاقات کے محض تین سال بعد، سولہ سال کی عمر میں ہی صافی نے اپنے محلے میں چھوٹی سی دکان کھول لی تھی. اکیلے ہی کام کرتا. کام میں مہارت تھی، آمدنی معقول ہونے لگی. فارحہ آپی بھی کام اکثر اس کے پاس بھجوا دیتیں. اور خوش کن بات یہ تھی کہ وہ کتابوں سے ناطہ پھر سے جوڑ چکا تھا.
    اور اب جب رجا کو فارحہ آپی سے اس کے میٹرک کر لینے کی اطلاع ملی تھی تو رجا اندازہ کر سکتی تھی کہ زندگی کے سفر میں یہ دن اس کے لیے کتنا اہم تھا. یہ خواب اگرچہ بیس سال کی عمر میں پورا ہوا مگر ساتھ ہی بڑے بازار میں دکان سیٹ ہو جانا ایک اہم سنگ میل تھا.
    پھر یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا رہا. اگلے چار سالوں میں صافی نے گریجویشن کر لی. اب کے اس نے خود فون کر کے اطلاع دی. ایک بے حد پر اعتماد مرد کی مضبوط آواز تھی. لہجہ سلجھا ہوا اور بےحد شائستہ تھا. یقیناً یہ وہ تحفے تھے جو تعلیم نے اسے دیے تھے. پھر وہ ای میل اور سوشل میڈیا کے ذریعے مسلسل رابطے میں رہنے لگا.
    …………………………………………………………..
    رجا تقریباً چھ سال امریکہ میں گزار کر وطن واپس لوٹی تھی. صافی نے بہت اصرار سے کہا تھا کہ باجی اب کے آپ ہمارے شہر آئیں گی تو ہم سے ضرور ملیں گی. وہ اب شادی شدہ اور ایک پیاری سی ایک سالہ بیٹی کا باپ تھا. اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ تحائف سے لدا ہوا ملنے آیا. رجا پردہ کرتی تھی اس لیے کچھ ہچکچاہٹ کا شکار تھی. اب وہ کم عمر لڑکا نہیں، بھر پور مرد تھا. بالآخر اس نے پردہ کر کے ملنے کا فیصلہ کیا. صافی نے بڑی محبت سے رجا کا تعارف اپنی بیوی سے کرایا. پھر اپنی خوبصورت روشن آنکھوں والی بیٹی اسے تھماتے ہوئے بولا،
    ”باجی! یہ ہے میری امید، میرا حوصلہ، میرا اجالا، میری زندگی، میری رجا…“

    آخری الفاظ پر رجا نے ایک دم چونک کر نظریں اٹھائیں. وہ مسکراتے ہوئے بولا،
    ”میں جانتا ہوں باجی، امید کے یہ چراغ آپ نے ایک میری ہی نہیں بلکہ بیسیوں زندگیوں میں جلائے ہوں گے. میں نے بھی یہ سلسلہ صرف خود تک محدود نہیں رکھا. بےشمار ننھے ننھے جلتے بجھتے ٹمٹماتے چراغوں کی لو بچانے کی سعی کی ہے، کر رہا ہوں اور کرتا رہوں گا. جب اللہ نے مجھے بیٹی کی نوید دی، تو اسے دیکھتے ہی پہلا لفظ جو میرے منہ سے نکلا وہ تھا، رجا. اس کو یہ نام دینا میری جانب سے آپ کے لیے ایک ادنی سا خراج تحسین ہے. میرے لیے یہ خیال ہی کتنا حوصلہ افزا رہا ہے کہ کہیں کوئی ہے جو مجھے سمجھتا ہے اور میری کامیابیوں پر دل سے خوش ہوتا ہے.“
    رجا کی بانہوں میں چہکتی رجا ایک دم کھل کر مسکرا دی گویا کہتی ہو،
    ”ہاں، میں سب سمجھتی ہوں… ہاں، میں ہی تو امید کا استعارہ ہوں…!“