Tag: امام مہدی

  • غزوہ سِندھ و ہِند، نبوی پیشین گوئیوں کی روشنی میں – ڈاکٹر عصمت اللہ

    غزوہ سِندھ و ہِند، نبوی پیشین گوئیوں کی روشنی میں – ڈاکٹر عصمت اللہ

    غزوہ ہند و سندھ اسلامی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے، اس کا آغاز خلفائے راشدین کے عہد سے ہوا جو مختلف مراحل سےگذرتا ہوا آج 2016ء میں بھی جاری ہے اور مستقبل میں اللہ بہتر جانتا ہے کہ کب تک جاری رہےگا۔ اس کی دینی بنیادوں پر غور کریں تو حقیقت یہ ہے کہ ایک لحاظ سے غزوہ ہند، نبوی غزوات و سرایا میں شامل ہے، ہماری نظر میں نبوی غزوات کی بلحاظِ زمانہ وقوع دو بڑی قسمیں ہیں:
    ۱) غزواتِ ثابتہ یا واقعہ: یعنی وہ جنگیں جو رسول اکرم ﷺ کی زندگی میں، وقوع پذیر ہو چکیں، سیرت نگاروں اور محدثین کی اصطلاح میں ان غزوات کی دو قسمیں ہیں:
    غزوہ: وہ معرکہ جس میں آپ ﷺ نے بذاتِ خود شرکت فرمائی اور جنگ میں صحابہ کی کمان اور قیادت کی۔ تعداد کے اعتبار سے تقریبا 27 ایسی جنگیں ہیں جن میں نبیﷺ نے بذاتِ خود شرکت فرمائی۔ (۱)
    سریہ: محدثین اور سیرت نگاروں کی اصطلاح میں وہ جہادی مہمات جن میں آپ نے بذاتِ خود شرکت نہیں فرمائی بلکہ کسی صحابی کو قیادت کے لیے متعین فرمایا، سریہ کہلاتی ہیں، اور کتبِ حدیث و سیرت میں تفصیلی تذکرہ موجود ہے.
    زمانی تقسیم کے لحاظ سے یہ دونوں قسمیں غزواتِ واقعہ کے ذیل میں آتی ہیں۔

    ۲) غزواتِ موعودہ: اس قسم میں وہ سب جنگیں اور غزوات شامل ہیں جو نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی بشارت اور پیشین گوئی کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہوئیں، یا مستقبل میں کسی وقت وقوع پذیر ہوں‌گی۔
    غزواتِ موعودہ کی مثال نبی اکرم ﷺ کی وہ پیشین گوئی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت سے قبل تم چھوٹی آنکھوں، سرخ چہروں، اور چپٹی ناک والے ترکوں سے جنگ کروگے‘ ان کے چہرے گویا تیر زدہ ڈھالیں ہیں (۲)
    غزواتِ موعودہ کی ایک اور مثال فتحِ قسطنطینیہ کی نبوی پیشن گوئی ہے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت سے قبل یہ واقعہ ضرور پیش آئے گا کہ اہلِ روم اعماق یا دابق (۳) کے قریب اتریں گے تو ان سے جہاد کے لیے روئے زمین پر اُس وقت کے بہترین لوگوں پر مشتمل ایک لشکر مدینہ منورہ سے نکلے گا، جنگ کےلیے صف بندی کے بعد رومی کہیں گے: ہمارے مقابلہ کے لیے ان لوگوں کو ذرا آگے آنے دیجیے جو ہماری صفوں سے آپ کے ہاتھوں قیدی بنے، اب وہ آپ کی جانب سے ہمیں قید کرنے کی نیت سے آگئے ہیں، ہم ان سے خوب نمٹ لیں گے، مسلمان جواباً ان سے کہیں گے: بخدا ہم اپنے بھائیوں کو تمھارے ساتھ اس لڑائی میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتے، اس کے بعد جنگ ہوگی جس میں ایک تہائی مسلمان شکست خوردہ ہو کر پیچھے ہٹ جائیں گے، اللہ تعالی ایسے لوگوں کی توبہ ہرگز قبول نہیں فرمائےگا۔ ایک تہائی لڑ کر شہادت کا درجہ حاصل کریں گے، یہ لوگ اللہ تعالی کے ہاں افضل ترین شہداء کا مقام پائیں گے۔ باقی ایک تہائی مسلمانوں کو اللہ تعالی فتح سے ہمکنار فرمائیں گے، ان کو آئندہ کسی آزمائش سے دوچار نہیں کیا جائے گا، یہی لوگ قسطنطینیہ کو آخری مرتبہ فتح کریں گے۔ (۴)

    نبوی غزوات میں سرکارِ دو عالم کی قیادت میں کفار کے خلاف جہاد میں شرکت کے لیے صحابہ کرام بے پناہ شوق اور جذبہ رکھتے تھے، ایسا شوق، سچے ایمان کا تقاضا اور حقیقی حب رسول ﷺ کی علامت تھی۔ لیکن نبی اکرم ﷺ کے مبارک عہد کے بعد جب آپ کی قیادت میں جہاد کی سعادت حاصل کرنے کا موقع باقی نہ رہا تو سلفِ صالحین ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ کم از کم آپ کی پیشین گوئی والے معرکہ میں شرکت کی سعادت ضرور حاصل کرسکیں۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ کے عم زاد اور سالے، مشہور تابعی کمانڈر حضرت مسلمۃ بن عبد الملک بن مروان کے بارے میں کتبِ حدیث و تاریخ میں نقل ہوا ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن بِشر بن سحیم الخثعمی، الغنوی رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت بِشر ؓ سے ایک حدیث بیان کرتے تھے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے سنا کہ: قسطنطینیہ کا شہر ضرور فتح ہوگا‘ اس فاتحانہ مہم کا امیرِ لشکر بہترین امیر اور لشکرِ مجاہدین بہترین لشکر ہوگا‘‘۔ (ملاحظہ ہو: مسند احمد ۴/۲۳۵ مسند بِشر بن سحیم الخثعمی:۱۸۱۸۹‘ المستدرک علي الصحیحین للحاکم۴/۴۶۸ ‘ حدیث:۸۳۰۰‘ الاِصابۃ ۱/۳۰۸‘ ترجمہ نمبر:۶۵۸) یہ حدیث حضرت مسلمۃ بن عبدالملک کے علم میں آئی تو انہوں نے اس کے راوی حضرت عبد اللہ بن بِشر کو بلوا بھیجا، حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں کہ جب میں ان سے ملا تو انہوں نے مجھ سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو میں نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے ان کو یہ حدیث سنائی، چنانچہ انہوں نے مجھ سے یہ حدیث سننے کے بعد قسطنطینیہ پر چڑھائی کا فیصلہ کیا۔

    احادیثِ غزوہ ہند میں امام بیہقی نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی جو روایت نقل کی ہے، اس میں حضرت اِمام ابواِسحاق فزاری کا قول نقل کیا ہے کہ جب انہوں نے یہ حدیث سنی تو ابنِ داؤد سے اپنی اس خواہِش کا اظہار کیا: کاش کہ مجھے رومیوں کے ساتھ جنگ و جہاد میں گذری ساری عمر کے بدلے میں ہندوستان کے خلاف نبوی پیشین گوئی کے مطابق کسی ایک جِہادی مہم میں حصہ لینے کا موقع مل جاتا‘‘۔ اِمام ابواِسحاق فزاری رحمہ اللہ کی اس تمنا کی عظمت کا اندازہ ان کے مناقب کے ضمن میں، حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ تعالی کے اس خواب سے لگایا جا سکتا ہے جو امام ذہبی نے سیر أعلام النبلاء میں نقل کیا ہے۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ نبیﷺ کی مجلس لگی ہوئی ہے، اور آپ کے پہلو میں ایک نشست خالی ہے تو میں نے ایسے موقع کو نادر اور غنیمت سجھتے ہوئے اس پر بیٹھنے کی کو شش کی تو نبیﷺ نے یہ کہتے ہوئے منع فرما دیا کہ یہ نشست خالی نہیں بلکہ ابواِسحاق فزاری کے لیے مخصوص ہے. (۵)

    غزوہ سندھ و ہِند کے متعلق نبوی پیشین گوئی
    غزوہ ہند و سندھ بھی نبیﷺ کے غزواتِ موعودہ کی ذیل میں آتا ہے اور اس کی بشارت، پیشین گوئی اور فضیلت کے متعلق نبی کریم ﷺ سے متعدد احادیث مروی ہیں۔ اہلِ علم و فضل ان احادیث کا تذکرہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں ضرور کرتے رہتے ہیں لیکن عام طور پر کسی حوالہ کے بغیر، ہم نے مقدور بھر محنت کرکے بےشمار کتب و مصادرِ حدیث کو کھنگالا، ان احادیث کو تلاش کیا، ترتیب دے کر ان کا درجہ بلِحاظ صحت و ضعف معلوم کیا، ان ارشاداتِ نبویہ کے معانی و مفاہیم پر غور و فکر کیا اور ان سے ملنے والے اشارات و حقائق اور پیشین گوئیوں کو قرطاس پر منتقل کیا، اب ہم اپنی اس محنت کے نتائج سب مسلمان بھائیوں کی خدمت میں بالعموم اور برصغیر نیز کشمیر کے مسلمانوں کی خدمت میں بالخصوص پیش کرتے ہوئے یک گونہ خوشی اور مسرت محسوس کرتے ہیں۔

    ہماری معلومات کے مطابق ایسی احادیث نبویہ کی تعداد پانچ ہے جن کے راوی تین جلیل القدر صحابہ کرام حضرت ابو ہریرہ، جن سے دو حدیثیں مروی ہیں، حضرت ثوبان اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہم اجمعین اور تبع تابعین میں سے حضرت صفوان بن عمرو رحمہ اللہ تعالی ہیں۔
    ذیل میں ہم ان شاء اللہ تعالیٰ ان سب احایث کو ذکر کریں گے، پھر ان کی علمی تخریج (ان کتبِ حدیث اور محدثین کا حوالہ جنہوں نے ان کا تذکرہ کیا ہے) کے بعد ان سے استنباط شدہ شرعی احکام اور فوائداور دروس کو بیان کریںگے۔

    (ا) حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
    سب سے پہلی حدیث حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
    [pullquote] حدثنی خلیلی الصادق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال: یکون فی ھذہ الأمۃ بعث إلی السند والہند فان انا اادرکتہ فاستشھدت فذلک وان انا رجعت وانا ابوھریرۃ المحرر قد أعتقنی من النار[/pullquote]

    ان الفاظ کے ساتھ اس حدیث کو صرف امام احمد بن حنبل نے مسند میں روایت کیا ہے اور ابن کثیر نے انھی کے حوالے سے البدایۃ و النہایۃ میں نقل کی ہے۔ (۶) قاضی احمد شاکر نے مسند احمد کی شرح و تحقیق میں اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ (۷)
    (ترجمہ) میرے جگری دوست رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے بیان کیا اور فرمایا: اس امت میں سِندھ و ہند کی طرف (لشکروں کی) روانگی ہوگی، اگر مجھے ایسی کسی مہم میں شرکت کا موقع ملا اور میں (اس میں شریک ہو کر) شہید ہو گیا تو ٹھیک، اگر (غازی بن کر) واپس لوٹ آیا تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جسے اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ سے آزاد کر دیا ہوگا۔
    امام نسائی رحمہ اللہ نے اسی حدیث کو اپنی کتاب السنن المجتبی اور السنن الکبری دونوں میں مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
    [pullquote]وعدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۃ الھند فان ادرکتھا انفق فیھا نفسی و مالی فان اقتل کنت من اافضل الشھداء وان ارجع فانا ابوہریرۃ المحرر (۸)[/pullquote]

    (ترجمہ) نبی کریم ﷺ نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ فرمایا۔ اگر مجھے اس میں شرکت کا موقع مل گیا تو میں اپنی جان و مال خرچ کر دوں گا، اگر قتل ہوگیا تو میں افضل ترین شہداء میں شمار ہوں گا، اور اگر واپس لوٹ آیا تو ایک آزاد ابو ہریرہ ہوں گا۔
    امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی السنن الکبری میں یہی الفاظ نقل کیے ہیں۔ انہی کی ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ بھی ہے۔ مسدد نے ابن دائود کے حوالہ سے ابواسحاق االفزاری (ابراھیم بن محمد، محدثِ شام اور مجاہد عالم، وفات ۱۸۶ہجری) کے متعلق بتایا کہ وہ کہا کرتے تھے: [pullquote]وددت أنی شھدت ماربد بکل غزوہ غزوتھا فی بلاد الروم[/pullquote]

    (میری خواہش ہے کہ کاش ہر اس غزوہ کے بدلے میں، جو میں نے بلا دروم میں کیا ہے، ماربد(عرب سے ہندوستان کی سمت مشرق میں کوئی علاقہ) میں ہونے والے غزوات میں شریک ہوتا۔ (۹) امام بیہقی نے یہی روایت دلائل النبوۃ میں بھی ذکر کی ہے۔ (۱۰) اور انہیں کے حوالہ سے اس روایت کو امام سیوطی نے الخصائص الکبری میں نقل کیا ہے۔ (۱۱)

    مزید برآں اس حدیث کو مندرجہ ذیل محدثین نے تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام احمد نے، مسند میں بایں الفاظ [pullquote](فان استشھد ت کنت من خیر الشھداء)[/pullquote]

    شیخ احمد شاکر نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے (۱۲) امام احمد کی سند سے ابن کثیر نے اسے البدایۃ والنہایۃ میں نقل کیا ہے۔ (۱۳)
    ابونعیم اصفھانی نے حلیۃ الأولیاء میں (۱۴)، امام حاکم نے المستدرک علی الصحیحین میں روایت کرکے درجہ حدیث کے متعلق سکوت اختیار کیا اور امام ذھبی نے اس کو اپنی تلخیصِ مستدرک سے حذف کردیا۔ (۱۵)

    سعید بن منصور نے اپنی کتاب السنن میں، (۱۶) خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں، (۱۷) امام بخاری کے استاذ نعیم بن حماد نے الفتن میں، (۱۸) ابن ابی عاصم نے اپنی کتاب الجہاد میں، اور اس کی سند حسن ہے(۱۹)، ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب العلل میں (۲۰)، ان کے علاوہ آئمہ جرح و تعدیل میں سے امام بخاری نے التاریخ الکبیر(۲۱) میں، امام مزی نے تہذیب الکمال میں(۲۲) اور ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں اس حدیث کو روایت کیا ہے (۲۳)، درجہ کے لحاظ سے یہ حدیث مقبول، یعنی صحیح یا حسن ہے جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں۔

    ۲۔ حضور ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث
    حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    میری امت میں دو گروہ ایسے ہوں گے جنھیں اللہ تعالی نے آگ سے محفوظ کردیا ہے، ایک گروہ ہندوستان پر چڑھائی کرے گا، اور دوسرا گروہ جو عیسی ابن مریم کے ساتھ ہوگا۔
    انہی الفاظ پر اتفاق کے ساتھ یہ حدیث درج ذیل محدثین نے روایت کی ہے:
    امام احمد نے مسند میں، (۲۴) امام نسائی نے السنن المجتبی میں، شیخ ناصر الدین البانی نے اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے(۲۵) اسی طرح السنن الکبری میں بھی (۲۶) ابن ابی عاصم نے کتاب الجہاد میں سندِ حسن کے ساتھ (۲۷)، ابن عدی نے الکامل فی ضعفاء الرجال میں (۲۸)، طبرانی نے المعجم الاوسط میں (۲۹)، بیہیقی نے السنن الکبری میں (۳۰)، ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں (۳۱) ، امام دیلمی نے مسند الفردوس میں (۳۲)، امام سیوطی نے الجامع الکبیر میں اور امام مناوی نے الجامع الکبیر کی شرح فیض القدیر میں (۳۳)، امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں (۳۴)، امام مزِّی نے تہذیب الکمال میں (۳۵) اور ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں (۳۶)۔

    ۳۔ حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث
    حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہندوستان کا تذکرہ کیا اور ارشاد فرمایا:
    ضرور تمھارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائےگا حتی کہ وہ (مجاہدین ) ان (ہندوؤں ) کے بادشاہوں کو بیٹریوں میں جکڑ کر لائیں گے اور اللہ (اس جہاد عظیم کی برکت سے) ان (مجاہدین) کی مغفرت فرما دے گا، پھر جب وہ واپس پلٹیں گے تو عیسیٰ ابن مریم کو شام میں پائیں گے۔
    حضرت ابوہریرۃ نے فرمایا: اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال پیچ دوں گا اور اس میں شرکت کروں گا، پھرجب اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا کر دی اور ہم واپس پلٹ آئے تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو ملک شام میں (اس شان سے) آئے گا کہ وہاں عیسی ابن مریم کو پائےگا۔ یارسول اللہ! اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے پاس پہنچ کر انہیں بتائوں کہ میں آپ ﷺ کا صحابی ہوں، (راوی کا بیان ہے کہ) حضور ﷺ مسکرا پڑے اور ہنس کر فرمایا: بہت مشکل، بہت مشکل۔
    اس حدیث کو نعیم بن حماد نے اپنی کتاب ’’الفتن‘‘ میں روایت کیا ہے(۳۷)
    اسحاق بن راہویہ نے بھی اس حدیث کو اپنی مسند میں ذکر کیا ہے، اس میں کچھ اہم اضافے ہیں، اس لیے ہم اس روایت کو پیش کررہے ہیں۔
    حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندوستان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: بالیقین تمھارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا اور اللہ ان مجاہدین کو فتح دے گا حتی کہ وہ سند ھ کے حکمرانوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے، اللہ ان کی مغفرت فرما دے گا۔ پھر جب وہ واپس پلٹیں گے تو عیسیٰ ابن مریم کو شام میں پائیں گے۔ ابوہریرہؓ بولے: اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ کر اس میں شرکت کروں گا، جب ہمیں اللہ تعالیٰ فتح دے دے گا تو ہم واپس آئیں گے اور میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو شام میں آئےگا تو وہاں عیسیٰ ابن مریم سے ملاقات کرے گا۔ یا رسول اللہ اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے قریب پہنچ کر انہیں بتائوں کہ مجھے آپ کی صحبت کا شرف حاصل ہے (راوی کہتا ہے کہ) رسول اللہ ﷺ یہ سن کر خوب مسکرائے۔ (۳۸)

    ۴۔ حدیث حضرت کعب رضی اللہ عنہ
    یہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں کہ:
    بیت المقدس کا ایک بادشاہ ہندوستان کی جانب ایک لشکر روانہ کرے گا جو اسے فتح کرے گا، مجاہدین سرزمین ہند کو پامال کر ڈالیں گے، اس کے خزانوں پر قبضہ کر لیں گے، پھر وہ بادشاہ ان خزانوں کو بیت المقدس کی تزئین و آرائش کے لیے استعمال کرے گا۔ وہ لشکر ہندوستان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر اس بادشاہ کے روبرو پیش کرے گا، اس کے مجاہدین، بادشاہ کے حکم سے مشرق و مغرب کے درمیان کا سارا علاقہ فتح کرلیں گے اور دجال کے خروج تک ہندوستان میں قیام کریں گے۔
    اس روایت کو نعیم بن حماد استاذِ امام بخاری نے اپنی کتاب ’’الفتن‘‘ میں نقل کیا ہے۔ اس میں حضرت کعب سے روایت کرنے والے راوی کا نام نہیں ہے بلکہ ’’المحکم بن نافع عمن حدثہ عن کعب‘‘ کے الفاظ آئے ہیں، اس لیے یہ حدیث منقطع شمار ہوگی(۳۹)

    ۵۔حضرت صفوان بن عمرو رحمہ اللہ کی حدیث
    پانچویں حدیث حضرت صفوان بن عمرو رحمہ اللہ سے مروی ہے۔ اور حکم کے لحاظ سے مرفوع کے درجہ میں ہے۔ کہتے ہیں کہ انہیں کچھ لوگوں نے بتایا کہ نبیﷺ نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ ہندوستان سے جنگ کریں گے، اللہ تعالیٰ ان کو فتح عطا فرمائےگا حتی کہ وہ ہندوستان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑے ہوئے پائیں گے، اللہ ان مجاہدین کی مغفرت فرمائے گا، جب وہ شام کی طرف پلٹیں گے تو عیسیٰ ابن مریم کو وہاں موجود پائیں گے۔
    اس حدیث کو امام نعیم بن حماد نے ’’الفتن‘‘ میں روایت کیا ہے۔(۴۰)

    الحمد للہ ہم نے اللہ کریم کی توفیق و عنایت سےغزوہ سِندھ و ہند سے متعلق جملہ احادیث کو آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے، اب ہم ان احادیث مبارکہ کے معنی و مفہوم، اشارات و دروس پر ایک نظر ڈالیں گے۔

    غزوہ سِندھ و ہند کے متعلق نبوی ہدایات و اشارات پر ایک نظر
    یہ پانچوں احادیث، جن کے مآخذ، صحت وضعف کے اعتبار سے علم حدیث میں ان کا مقام پہلے بیان کرچکے ہیں، ان میں سچی پیش گوئیاں، بلند علمی نکات اور بہت سے اہم، ماضی و مستقبل کے حوالے سے واضح اشارات موجود ہیں، جن میں عام مسلمانوں کے لیے بالعموم اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بالخصوص خوشخبریاں اور بشارتیں پائی جاتی ہیں۔ لیکن ان بشارتوں اور خوشخبریوں کی حلاوت و لذت کو وہی لوگ پوری طرح محسوس کرسکتے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے کسی نہ کسی انداز سے اس مبارک نبوی غزوہ میں شریک ہونے کی سعادت بخشی ہے۔ ذیل میں ہم ان تمام اسباق و نکات کا بالترتیب ذکر کریں گے جو ان احادیث سے مستنبط کیے گئے ہیں۔

    ۱۔ نبی کریم ﷺ کی محبت ایمان کی شرط اوّل ہے
    ان احادیث میں نبی کریم ﷺ کی محبت کا بیان ہے جو حضرت ابوہریرۃ کے الفاظ ’’حدثنی خلیلی‘‘ سے مترشح ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی محبت ایمان کا اوّلین تقاضا، اس کی دلیل، اس کی علامت اور اس کا ثمرہ ہے، محض محبت بھی کافی نہیں بلکہ ایسی والہانہ محبت چاہیے کہ ایک مؤمن کی نظر میں نبی اکرم کی ذات گرامی کائنات کی ہر چیز سے بلکہ اس کی اپنی جان سے بھی زیادہ اسے محبوب ہوجائے۔ یہی مضمون حضرت انس کی حدیث میں وارد ہوا ہے جس میں آپؐ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے، اس کے ماں باپ اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب اور پیارا نہ ہوجاؤں۔
    عبداللہ بن ہشام سے روایت ہے کہ ہم ایک موقع پر حضور صلی اللہ کے ساتھ تھے، آپ ؐ نے حضرت عمر کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا کہ حضرت عمر بولے یارسول اللہ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں سوائے اپنی جان کے، حضورؐ نے فرمایا: نہیں عمر! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں (تمہارا ایمان مکمل نہ ہوگا)، اس پر حضرت عمر نے کہاکہ اب آپ خدا کی قسم مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ یہ سن کر حضورؐ نے فرمایا: اب بات بنی ہے عمر!!

    ۲۔ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کی والہانہ محبت
    ان احادیث میں آنحضرتؐ کے ساتھ صحابہ کرام کی الفت و محبت کا احوال بھی بیان ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کو آپؐ کے ساتھ والہانہ عقیدت اور بے پناہ محبت تھی اور وہ اس محبت اور تعلق پر فخر کیا کرتے تھے اور اپنی گفتگو میں اور خصوصاً احادیث روایت کرتے وقت اس قلبی تعلق کا مختلف انداز سے اظہار کرکے خوشی محسوس کرتے تھے۔ اور یہ محض ایک زبانی دعویٰ ہی نہیں تھا بلکہ ان کی تمام عملی زندگی میں اس محبت اور چاہت کے واضح اور نمایاں اثرات نظر آتے تھے۔ حتی کہ عروہ بن مسعود ثقفی نے صلح حدیبیہ کے موقع پر جب اس والہانہ عشق کا مظاہر دیکھا تو وہ بھی اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکا کہ محمد کے ساتھی ان سے جس طرح کی محبت کرتے ہیں وہ ہمیں دنیا کے کسی شاہی دربار میں نظر نہیں آئی۔

    ۳۔ صحابہ کرام کو نبی کریم ﷺ کی سچائی پر پختہ یقین تھا
    ان احادیث مبارکہ میں یہ چیز بھی نظر آتی ہے کہ صحابہ کرام کو آنحضرت کی ہر بات اور ہر خبر کے سچا ہونے کا اٹل یقین تھا خواہ وہ ماضی کے متعلق ہو یا مستقبل کے حوالے سے، خواہ اس کا ذریعہ وحی الہی ہو یا کچھ اور، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نے اس قسم کی خبریں اور پیشین گوئیاں صرف روایت و نقل کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہیں ایک ہونی شدنی حقیقت جان کر اپنے دلوں میں آرزوئیں پالتے رہے، اللہ تعالی سے دعائیں کرتے رہے، انہیں غزوہ ہند اور غزوہ سندھ میں شریک ہونے کی سعادت عطا فرمائے۔

    ۴۔ سندھ کا وجود
    حدیث ابوہریرۃ ؓ اس بات کی دلیل ہے کہ حضورؐ کے زمانے میں ایک ایسا خطہ ارض دنیا میں موجود تھا جسے سندھ (تقریبا موجودہ پاکستان) کے نام سے جانا جاتا تھا۔

    ۵۔ ہندوستان کا وجود
    اسی طرح اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عہد رسالت میں روئے زمین پر ایک ایسا ملک بھی موجود تھا جسے ہند کہا جاتا تھا۔

    ۶۔ سندھ سرزمین عرب کے پڑوس میں اور اس پر چڑھائی غزوہ ہند سے پہلے ہوگی. یہ حدیث جس میں غزوہ سندھ و ہند کا ذکر آیا ہے، اس میں یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ سندھ کا علاقہ عرب کے پڑوس میں واقع ہے نیز یہ کہ عزوہ سندھ غزوہ ہند سے پہلے ہوگا۔

    ۷۔ سندھ اور ھند پر کفار کا قبصہ
    مزید یہ کہ عہد رسالت مآبؐ میں سندھ اور ہند دو ایسے خطوں کے طور پر معروف تھے جن پر کفار کا قبضہ اور تسلط تھا اور زمانہ نبوت کے بعد بھی ایک عرصہ تک باقی رہا، جبکہ ہندوستان پر مزید، غیرمعلوم مدت تک ان کا قبضہ برقرار رہنے کا امکان ہے.

    ۸۔ نبی کریم ﷺ ان حقائق سے آگاہ تھے
    ان احادیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضورؐ ان تمام حقائق سے آگاہ اور واقف تھے خواہ اس کا ذریعہ وحی الہی ہو یا تجارتی تعلقات یا دونوں ہوں، یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے جاسوسوں اور خفیہ انٹیلی جنس کے ذریعے آپ نے یہ معلومات حاصل کی ہوں کیوں کہ عزوات میں آپ یہ طریقہ کار اختیار کیا کرتے تھے۔ اگرچہ پہلے دو احتمال زیادہ قرین قیاس ہیں لیکن تیسرا احتمال بھی ناممکن نہیں ہے لیکن اس کے لیے ہمارے پاس کوئی منقولی دلیل نہیں ہے۔

    ۹۔ دونوں ملکوں کی تاریخ
    ان احادیث میں ان دونوں ممالک (سندھ اور ہندوستان) میں مستقبل میں پیش آنے والے بعض تاریخی واقعات کا حوالہ ہے اس کے ساتھ یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ آئندہ زمانے میں مسلمان ان ممالک سے جنگ کریں گے۔

    ۱۰۔غیب کی خبریں، پیشین گوئیاں
    سندھ اور ہندوستان کی طرف ایک اسلامی لشکر کی روانگی اور جہاد اور پھر کامل فتح کی بشارت کی شکل میں ان احادیث میں مستقبل بعید کی خبر اور پیش گوئی بھی موجود ہے۔
    ۱۱۔ رسالت محمدیؐ کی حقانیت کا ثبوت
    مخبر صادقؐ کی پیش گوئی آج ایک حقیقت بن چکی ہے۔ خلافت راشدہ اور پھر خلافت امویہ اور عباسیہ کے ادوار میں غزوہ ہند کی شروعات ہوئیں اور پھر ہندوستان پر انگریزی راج کے دوران بھی یہ جہاد جاری رہا، اور آج تقسیم ہند کے بعد بھی جاری ہے اور ان شاء اللہ اس وقت تک جاری رہےگا جب تک کہ مجاہدین سرزمین ہند سے کفار کا قبضہ و تسلط ختم کرکے، ان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکر کر خلیفۃ المسلمین کے سامنے نہ لے آئیں۔ ان میں سے بعض واقعات کا حدیث نبوی کے مطابق پیش آجانا حضرت محمد ﷺ کی نبوت کی صداقت کی دلیل ہے۔

    ۱۲۔ بیت المقدس کی بازیابی اور مسجد اقصی کی آزادی کی بشارت
    ان احادیث میں غزوہ ہند اور فتح بیت المقدس دونوں واقعات کو مربوط انداز میں ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ بیت المقدس کا مسلمان حاکم ایک لشکر روانہ کرے گا جسے اللہ تعالی ہندستان پر فتح عطا فرمائے گا۔ اس میں پوری امت مسلمہ کے لیے بیت المقدس کی آزادی اور مسجد اقصی کی بازیابی کی بشارت عظمی ہے، اور یہ پیش گوئی بھی موجود ہے کہ اس غزوہ کے دوران مجاہدین ہند اور مجاہدین فلسطین کے مابین زبردست رابطہ اور باہمی تعاون موجود ہوگا۔ اس سے یہ حقیقت ازخود واضح ہوجاتی ہے کہ ہندوستان کے بت پرست اور سرزمین معراج پر قابض یہودی عالم اسلام کے مشترک اور بدترین دشمن ہیں، آپسی رابطے میں ہیں، انہیں ہندوستان اور فلسطین کے مسلم علاقوں سے بےدخل کرنا واجب ہے۔

    ۱۳ جہاد تا قیامت جاری رہے گا
    ان احادیث میں غزوہ اور جہاد کو کسی خاص زمانے اور خاص وقت کے ساتھ مقید نہیں کیا گیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ جہاد آخر زمانے تک جاری رہے گا حتی کہ سیدنا عیسی ابن مریم آسمانوں سے اتر کر دجال کو قتل کردیں گے، اور یہ بات صحیح اجادیث سے ثابت ہے کہ دجال اعظم کے اکثر پیروکار یہودی ہوں گے۔
    ۱۴۔ جہاد دفاعی بھی ہے اور اقدامی بھی
    یہ پانچوں احادیث اس پر واضح طور پر دلالت کر رہی ہیں کہ غزوہ ہندوستان میں جہاد صرف دفاع تک محدود نہیں ہوگا بلکہ اس میں حملہ آوری اور پیش قدمی ہوگی اور دارالکفر کے اندر گھس کر کفار سے جنگ کی جائے گی۔ غزوہ اور بعث کے دنوں الفاظ اس باب میں صریح ہیں۔ غزوہ کا لغوی مفہوم اقدامی جنگ ہے۔ جنگ دو طرح کی ہوتی ہے اوّل دعوتی و تہذیبی جنگ، دوم عسکری و فوجی جنگ، اور اسلام کی نظر میں دونوں طرح کی جنگ مطلوب ہے، یہ دونوں قسم کا جہاد پہلے بھی ہوا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا، البتہ مذکورہ احادیث میں جس غزوہ اور جنگ کی پیش گوئی کی گئی ہے اس سے مراد عسکری اور فوجی جہاد ہے۔ واللہ اعلم

    ۱۵۔ دشمنوں کی پہچان
    ان احادیث میں اسلام اور مسلمانوں کے دو بدترین دشمنوں کی پہچان کرائی گئی ہے، ایک بت پرست ہندو اور دوسرے کینہ پرور یہودی۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ حضورؐ نے غزوہ ہند اور سندھ کا ذکر فرمایا اور ظاہر ہے کہ غزوہ اور جہاد صرف کفار کے خلاف ہی ہوسکتا ہے اور آج ہندوستان میں حکمران کفار، بت پرست ہندو ہیں اور حدیث ثوبان ؓ میں یہ بیان ہوا ہے کہ سیدنا عیسی ابن مریم اور ان کے ساتھی دجال اور اس کے یہودی رفقاء کے خلاف لڑیں گے۔ اس طرح گویا ایک طرف حدیث میں کفر اور اسلام دشمنی کی قدر مشترک کی بنا پر یہود و ہنود کو ایک قرار دے دیا گیا اور دوسری طرف مسلم اور مجاہد فی سبیل اللہ کی قدر مشترک کی وجہ سے مجاہدین ہند اور سیدنا عیسی اور ان کے اصحاب کو ایک ثابت کردیا گیا۔

    ۱۶۔نبوی اور صحابہ کرام کی مجالس میں ہندوستان کا تذکرہ
    ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمؐ اور صحابہ کرام ؓ اپنی مجلسوں میں ہندوستان کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے اور یہ تذکرہ اکثر ہوا کرتا تھا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ تذکرہ صرف جہاد اور غزوہ کے ضمن میں ہی ہوتا ہوگا نہ کہ سفر تجارت یا سیروسیاحت کی غرض سے۔

    ۱۷۔غزوہ ہندوستان کے بارے میں حضورؐ کی نیت و آرزو
    نبی کریمؐ اور ان کے صحابہ کرام چونکہ اکثر اوقات غزوہ ہند کا تذکرہ کیا کرتے تھے لہذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت ؐ اور آپ کے صحابہ اس غزوہ میں شرکت کے آرزو مند تھے اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں غور و فکر کرکے اس کے لیے کوئی ابتدائی منصوبہ بندی بھی کی ہو اور اپنے صحابہ کو اس کی رغبت بھی دلائی ہو۔

    ۱۸۔ غزوہ ہندوستان نبی ﷺ کا وعدہ ہے
    حدیث میں دو الفاظ آئے ہیں (۱) وعدنی مجھ سے وعدہ کیا (۲) وعدنا ہم سے وعدہ کیا۔ اور وعدہ سے مراد کسی عمل خیر کا وعدہ ہے اور وعدے میں نیت اور ارادہ لازماً پائے جاتے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں غزوہ ھند کی نیت اور قصد موجود تھا اور آپ ھندوستان پر چڑھائی کا ارادہ رکھتے تھے۔ آپؐ نے اپنا یہ ارادہ کبھی فرد واحد کے سامنے اور کبھی پوری مجلس کے سامنے ظاھر فرمایا تاکہ تمام صحابہ کرام بلکہ قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں کے علم میں آجائے۔
    ۱۹۔ یہ اللہ تعالی کا وعدہ بھی ہے
    ابو عاصم کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں وعدنا اللہ و رسولہ الخ، یہ الفاظ دلیل ہیں کہ یہ صرف حضورؐ کا وعدہ ہی نہیں بلکہ یہ اللہ تعالی کا وعدہ بھی ہے اور اللہ اپنے وعدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کرتا [pullquote](وعد اللہ لایخلف اللہ وعدہ ولکن اکثر الناس لایعلمون)[/pullquote]

    ۲۰۔ جنگ و جہاد کی ترغیب
    ان احادیث مبارکہ میں نبی ﷺ نے مسلمانوں کو جنگ اور جہاد کی رغبت دلائی ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: (ترجمہ) اے نبی! ایمان والوں کو جہاد کی ترغیب دو، اگر تم میں سے بیس آدمی ثابت قدم ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے سو آدمی ہوں گے تو وہ ایک ہزار کافروں پر غالب آئیں گے کیونکہ وہ کفار سمجھ نہیں رکھتے۔ جنگ و جہاد کی یہ ترغیب صحابہ کرام ، تابعین اور قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے۔

    ۲۱۔ سامراجی قوتوں کا علاج
    اس میں امت کے لیے یہ رہنمائی بھی ہے کہ دنیا میں کفارومشرکین کے غلبہ و سامراجی، استعماری طاقتوں اور استبدادی کارروائیوں کا علاج بھی جنگ و جہاد ہی میں مضمر ہے۔ اس کے سوا اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے، مذاکرات، عالمی اداروں میں مقدمہ بازی اور کسی دوست یا غیرجانبدار ثالث کی کوئی کوشش یا مداخلت ضیاعِ وقت کے سوا کچھ نہیں

    ۲۲۔ غزوہ ہند میں مال خرچ کرنے کی فضیلت
    ان احادیث میں غزوہ ہند میں مال خرچ کرنے کی بڑی فضلیت بیان ہوئی ہے۔ اگرچہ راہ جہاد میں مال خرچ کرنا اعلی درجے کا انفاق ہے لیکن غزوہ ہند میں خرچ کرنے کی فضیلت عمومی انفاق فی سبیل اللہ سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی فضیلت کی بنا پر سیدنا ابوہریرہ بار بار یہ خواہش کرتے تھے کہ اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنی جان اور اپنا نیا پرانا سب مال اس میں خرچ کردوں گا۔

    ۲۳۔ غزوہ ھند کے شہداء کی فضیلت
    مذکورہ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس غزوہ میں شریک ہونے والے شہداء کی بھی بہت بڑی فضیلت ہے کیونکہ ان کے آنحضرتؐ نے ’’افضل الشہداء‘‘ اور ’’خیر الشہداء‘‘ کے الفاظ بیان فرمائے ہیں۔

    ۲۴۔ مجاہدین ہند کے لیے جہنم سے نجات کی بشارت
    ان احادث میں ان مجاہدین کی جہنم سے آزادی کی بشارت آتی ہے جو اس غزوہ میں شریک ہوں گے اور غازی بن کر لوٹیں گے۔ آپؐ نے دو جماعتوں کا ذکر فرمایا کہ اللہ تعالی نے انہیں آگ سے محفوظ کردیا ہے اور پہلی جماعت کے متعلق یہ صراحت فرمائی کہ’’وہ ہندوستان سے جنگ کرے گی‘‘ اور حضرت ابوہریرۃ کے الفاظ بھی اس پر دلالت کرتے ہیں کہ اگر میں اس غزوہ میں غازی بن کر لوٹا تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جسے اللہ نے جہنم سے آزاد کر دیا ہوگا۔

    ۲۵۔ آخری جنگ میں فتح کی بشارت
    ان میں یہ بشارت بھی موجود ہے کہ آخر زمانے میں جب حضرت مہدی اور سیدنا عیسی ابن مریم بھی دنیا میں موجود ہوں گے، اللہ تعالی مجاہدین ہند کو عظیم الشان فتح عطا فرمائے گا اور وہ کفار کے سرداروں اور بادشاہوں کو گرفتار کرکے قیدی بنائیں گے۔

    ۲۶۔ مال غنیمت کی خوشخبری
    اللہ تعالی ان مجاہدین کو بیش بہا مال عنیمت سے بھی نوازے گا۔

    ۲۷۔ سیدنا عیسی علیہ السلام سے ملاقات کی بشارت
    ایک بشارت ان احادیث میں یہ ملتی ہے کہ جو مجاہدین اس مبارک غزوے کے آخری مرحلے میں برسر پیکار ہوں گے وہ سیدنا عیسی ابن مریم علیہ السلام کی زیادرت باسعادت اور ملاقات بابرکات سے مشرف ہوں گے۔

    ۲۸۔ ہندوستان کے ٹکڑے ہوں گے
    آخری اور سب سے بڑی بشارت ان احادیث میں یہ ہے کہ اس غزوہ کے نتیجے میں ہندوستان ٹکڑے ٹکرے ہوکر متعدد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم ہوجائے گا، جن پر ایک متفقہ بادشاہ کے بجائے کئی بادشاہ بیک وقت حکمرانی کر رہے ہوں گے۔

    اس کے علاوہ اہل علم نے اور بھی کئی بشارتیں ان احادیث سے مستنبط کی ہیں، البتہ ہم نے ان احادیث کی تخریج اور ان کے دروس و اشارات، اور نبوی ہدایات اِجمالا اہلِ علم کی خدمت میں پیش کردی ہیں۔ و فیہ الکفایۃ۔ واللہ اعلم

    حواشی و حوالہ جات
    (۱) غزواتِ نبوی کی تعداد مختلف کتبِ حدیث و سیر میں بیان ہوئی ہے، ہم نے مشہور مالکی فقیہ امام ابن الجزي الغرناطي سے لی ہے، ملاحظہ ہو ان کی کتاب: القوانین الفقہیۃ ۲/۲۷۲۔۲۷۳
    (۲ )ملاحظہ ہو: صحیح بخاري‘ کتاب الجہاد والسیر‘ باب قتال الترک: ۲۷۱۱‘ اور صحیح مسلم‘ کتاب الفتن‘ باب لاتقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل فیتمنی:۵۱۸۷
    (۳) یہ حدیث محدثین کے ہاں (حدیث الأعماق) کے نام سے معروف ہے‘ کیونکہ اس میں اعماق اور دابق، موجودہ ملک شام کے شہر حلب کے قریب واقع۔ دو ایسی جگہوں کا تذکرہ آیا ہے جہاں (ملحمۃ الأعماق) قرب قیامت سے پہلے وقوع پذیر ہوگا جس میں صلیبی عیسائیوں اور مجاہدینِ اسلام کے درمیان خونریز معرکہ ہوگا، حضرت حذیفہ ؓ کی ایک حدیث کے مطابق اس معرکہ میں کام آنے والے (افضل ترین شہداء امتِ محمدیہ) ہوں گے۔ ملاحظہ ہو:السنن الواردۃ فی الفتن وغوائلھا و الساعۃ وأشراطھا۵/۱۰۹۶ ‘ لأبی عمرو عثمان بن سعید المقرئ الدانی(۳۷۱۔۴۴۴ہ)تحقیق:رضاء اللہ مبارکپوری‘ معجم البلدان للحموي ۲/۲۲۲‘ و سیر أعلام النبلاء ۶/۳۵۷
    (۴) ملاحظہ ہو: صحیح مسلم‘ کتاب الفتن ‘ باب فتح القسطنطینیۃ: ۵۶۵۷
    (۵) ملاحظہ ہو: مسند احمد / مسند بشر بن سحیم الخثعمیؓ:۱۸۱۸۹‘ المستدرک علی الصحیحین ۴/۴۶۸حدیث:۱۴۸۲حاکم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے‘ فضیل بن عیاض کا خواب ذھبی نے سیر أعلام النبلاء ۸/۵۴۲۔۵۴۳ میں نقل کیا ہے
    (۶) ملاحظہ ہو: مسند احمد ۲/۳۶۹ مسند ابو ھریرۃ ؓ:۸۴۶۷‘ البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر‘ الابار عن غزوۃ الہند۶/۲۲۳ بقول ابن کثیر، یہ الفاظ صرف امام احمد نے نقل کیے ہیں
    (۷) ملاحظہ ہو: مسند احمد ‘ تحقیق وشرح: احمد شاکر ۱۷/۱۷حدیث:۸۸۰۹
    (۸) ملاحظہ ہو: السنن المجتبی ۶/۴۲‘ کتاب الجھاد باب غزوۃ الھند:۳۱۷۳‘ ۳۱۷۴‘ السنن الکبری للنسائی ۳/۲۸باب غزوۃ الھند:۴۳۸۲۔۴۳۸۳
    (۹) ملاحظہ ہو: السنن الکبری للبیہقي ۹/۱۷۶ ‘ کتاب السیر‘ باب ما جاء فی قتال الھند:۱۸۵۹۹
    (۱۰) ملاحظہ ہو: دلائل النبوۃ و معرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ ‘ باب قول اللہ : وعد اللہ الذین آمنوا و عملوا الصالحات منکم لیستخلفنہم۶/۳۳۶
    (۱۱) ملاحظہ ہو: الخصائص الکبری للسیوطی۲/۱۹۰
    (۱۲) ملاحظہ ہو: مسند احمد تحقیق و شرح احمد شاکر۱۲/۹۷حدیث نمبر:۷۱۲۸
    (۱۳) ملاحظہ ہو: مسند احمد ۲/۲۲۹ مسند ابو ہریرۃؓ حدیث:۶۸۳۱‘ البدایۃ والنھایۃ ‘ الأخبار عن غزوۃ الھند۶/۲۲۳
    (۱۴) ملاحظہ ہو: حلیۃ الأولیاء ۸/۳۱۶۔۳۱۷
    (۱۵) ملاحظہ ہو: المستدرک علی الصحیحین‘ کتاب معرفۃ الصحابۃ ‘ ذکر ابی ھریرۃ الدوسی۳/۵۱۴ حدیث:۶۱۷۷
    (۱۶) ملاحظہ ہو: السنن لسعید بن منصور ۲/۱۷۸‘ حدیث نمبر:۲۳۷۴
    (۱۷) ملاحظہ ہو: تاریخِ بغداد ۱۰/۱۴۵ تذکرہ ابوبکر بن رزقویہ نمبر:۵۲۹۱
    (۱۸) ملاحظہ ہو: الفتن غزوۃ الھند۱/۴۰۹ حدیث:۱۲۳۷
    (۱۹) ملاحظہ ہو: الجھاد‘ فضل غزوۃ البحر ۲/۶۶۸ حدبث:۲۹۱
    (۲۰) ملاحظہ ہو: العلل ۱/۳۳۴ ترجمہ:۹۹۳
    (۲۱) ملاحظہ ہو: التاریخ الکبیر ۲/۲۴۳ تذکرہ جبر بن عبیدۃنمبر:۲۳۳۳
    (۲۲) ملاحظہ ہو: تھذیب الکمال ۴/۴۹۴ تذکرہ جبر بن عبیدۃ:۸۹۳
    (۲۳) ملاحظہ ہو: تھذیب التھذیب ۲/۵۲ تذکرہ جبر بن عبیدۃ الشاعر:۹۰ ابن حجر کہتے ہیں: میں نے امام ذھبی کے ہاتھ کی تحریر دیکھی، لکھا تھا: پتہ نہیں یہ کون ہے؟ اس کی روایت کردہ خبر منکر ہے‘‘۔ ابن حبان نے ان کا ذکر ثقات میں کیا ہے.
    (۲۴) ملاحظہ ہو: مسند احمد ۵/۲۷۸ حدیث ثوبان ؓ:۲۱۳۶۲
    (۲۵) دیکھیے: السنن المجتبی للنسائی ۶/۴۳ کتاب الجھاد ‘ باب غزوۃ الھند:۳۱۷۵ نیز ملاحظہ ہو: صحیح سنن النسائی ۲/۶۶۸ حدیث:۲۵۷۵
    (۲۶) ملاحظہ ہو: السنن الکبری للنسائی ۳/۲۸ باب غزوۃ الھند :۴۳۸۴
    (۲۷) ملاحظہ ہو: الجھاد ۲/۶۶۵ فضل غزوۃ البحر حدیث:۲۲۸ محققِ کتاب نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے
    (۲۸) ملاحظہ ہو: الکامل فی ضعفاء الرجال ۲/۱۶۱ تذکرہ جراح بن ملیح البھرانی :۳۵۱
    (۲۹) ملاحظہ ہو: المعجم الأوسط ۷/۲۳۔۲۴ حدیث:۶۷۴۱‘ امام طبرانی کہتے ہیں : اس حدیث کو حضرت ثوبان ؓ سے اسی سند کے ساتھ روایت کیا گیا ہے ‘ اس کے ایک راوی الزبیدی اس کی روایت میں اکیلے ہیں۔
    (۳۰) ملاحظہ ہو: السنن الکبری للبیہقي ۹/۷۶‘ کتاب السیر ‘ باب ما جاء فی قتال الھند:۱۸۶۰۰
    (۳۱) ملاحظہ ہو: البدایۃ والنھایۃ ‘ الأخبار عن غزوۃ الھند:۶/۲۲۳
    (۳۲) ملاحظہ ہو: الفردوس بماثور الخطاب ۳/۴۸ حدیث:۴۱۲۴
    (۳۳) ملاحظہ ہو: الجامع الکبیر مع شرحہ فیض القدیر۴/۳۱۷ امام مناوي نے ذھبی کی الضعفاء کے حوالہ سے امام دارقطنی کا یہ قول نقل کیا ہے: الجراح راوي حدیث کچھ بھی نہیں ہے
    (۳۴) ملاحظہ ہو: التاریخ الکبیر ۶/۷۲ تذکرہ عبد الأعلی بن عدي البھرانی الحمصی :۱۷۴۷
    (۳۵) ملاحظہ ہو: تھذیب الکمال ۳۳/۱۵۱ تذکرہ ابوبکر بن الولید بن عامر الزبیدي الشامي:۷۲۶۱
    (۳۶) ملاحظہ ہو: تاریخ دمشق ۵۲/۲۴۸
    (۳۷) ملاحظہ ہو: الفتن ‘ غزوۃ الھند ۱/۴۰۹۔۴۱۰ حدیث:۱۲۳۶۔۱۲۳۸
    (۳۸) ملاحظہ ہو: مسند اسحاق بن راھویہ ‘ قسم اول۔سوم ج۱/۴۶۲ حدبث:۵۳۷
    (۳۹) ملاحظہ ہو: الفتن ‘ غزوۃ الہند ۱/۴۰۹ حدیث:۱۲۳۵
    (۴۰) ملاحظہ ہو: الفتن ۱/۳۹۹‘ ۴۱۰ حدیث:۱۲۰۱‘ ۱۲۳۹

  • غزوہ ہند کی روایات اور پاکستان (2) – خورشید ندیم

    غزوہ ہند کی روایات اور پاکستان (2) – خورشید ندیم

    خورشید ندیم دورِ جدید میں باب الفتن اور ملاحم کی روایات کا زیادہ تر اطلاق افغانستان پر ہوا ہے۔ سوویت یونین کے خلاف مزاحمت سے لے کر طالبان کے ظہور تک، مسلمانوں کو بتایا گیا کہ ان روایات میں قرب ِقیامت کے باب میں جو پیش گوئیاں کی گئی ہیں، آج کا افغانستان ان کا مصداق ہے۔ اس سلسہ ءمضامین کے پہلے حصے میں، میں نے ”جہادِ افغانستان سے ظہورِ مہدی تک“ کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک کتابچے کا ذکر کیا تھا۔ یہ ابو عبداللہ آصف مجید نقشبندی صاحب کا مرتب کردہ ہے۔2002ء سے 2005ء تک اس کے پانچ ایڈیشن شائع ہوچکے۔ اس کتابچے پر لاہور اور حاصل پور کے پانچ مقامات کے پتے درج ہیں جہاں سے یہ کتابچہ مل سکتا ہے۔

    اس میں درج ایک روایت کے مطابق، جو مستدرک حاکم سے لی گئی ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: تمہارے خزانے کے لیے تین اشخاص جنگ کریں گے۔ یہ تینوں خلیفہ کے لڑکے ہوں گے۔ یہ خزانہ ان میں سے کسی کی طرف منتقل نہیں ہوگا۔ پھر مشرق کی جانب سے سیاہ جھنڈے نمودار ہوں گے اور وہ ان سے اس شدت کے ساتھ جنگ کریں گے جو پہلے کسی نے نہیں کی ہوگی۔“ اس کتابچے میں اس روایت کو اپنے عہد پر منطبق کرتے ہوئے لکھا گیا: ” شاہ فہد کے تین بھائی ہیں۔ یہ تینوں بادشاہت کے امیدوار ہیں۔ شہزادہ عبداﷲ چونکہ امریکہ کی پالیسیوں کے سخت خلاف ہیں اور سب سے پہلے طالبان کی حکومت کو انہوں نے ہی تسلیم کیا تھا، اس لیے امریکہ شہزادہ عبداﷲ کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔ وہ یقیناً دوسرے دو بھائیوں میں سے کسی کو آگے لانا چاہے گا۔ جس کے بعد یہ تینوں خلفا کے لڑکے آپس میں جنگ کریں گے لیکن حکومت کسی کے ہاتھ نہ آئے گی۔ ایسے حالات میں حرمین شریفین کو خطرہ لاحق ہوگا۔ حرمین شریفین کی حفاظت کے لیے افغانستان کے مجاہدین سیاہ پرچم کے ساتھ نمودار ہوں گے۔“(صفحہ 71) شاہ عبداﷲ کا انتقال ہو چکا۔ امریکہ نے ان کو ہٹانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ’شہزادوں‘ میں کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ وہاں کی روایت کے عین مطابق، اقتدار دوسرے بھائی کو منتقل ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ جنہوں نے روایت کے اس مصداق کو درست مانتے ہوئے، افغانستان میں اپنی جان دی، اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟

    ایک اور روایت دیکھیے:یہ مشکوۃ سے لی گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فر مایا: ” قیامت نہیں ہوگی جب تک دریائے فرات سونے کے پہاڑ سے نہ سرک جائے۔ لوگ اس کے حصول کے لیے لڑیں گے۔ (لڑائی اتنی سخت ہوگی کہ) سو میں سے ننانوے مارے جائیں گے۔“ کتابچے کے مصنف نے اس کا اطلاق کرتے ہوئے لکھا: ”دریائے فرات عراق میں ہے۔ صدام حسین نے دریائے فرات کے رخ کو موڑ دیا ہے جس کی وجہ سے ایک طرف سے دریا کا پانی خشک ہونا شروع ہو گیا ہے۔ وہ دن دور نہیں، جب دریائے فرات سونے کے پہاڑ کو ظاہر کر دے گا جس کے حصول کے لیے جنگ ہوگی۔“ دلچسپ بات یہ ہے کہ مصنف روایت کا ان واقعات پراطلاق کرتے ہیں اور ساتھ ’واللہ اعلم‘ بھی کہتے ہیں۔ جب ہر بات کا اصل علم اللہ کے پاس ہے تو ہم لوگوں کو کس دلیل کی بنیاد پر مقتل بھیج رہے ہیں؟ اس کا اذن ہمیں کس نے دیا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی سند پر بغیر تحقیق لوگوں کو جنگ کا ایندھن بنا دیں؟

    یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ لوگوں نے تاریخی واقعات کو دینی سند فراہم کر نے کے لیے ان روایات کو استعمال کیا ہو۔ ہماری تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ میں نے گزشتہ مضمون میں جب ’خلافت علیٰ منہاج النبوت‘ کے باب میں ماضی کی بعض آرا کا ذکر کیا تھا تو مقصد ان کی تائید نہیں، یہی نکتہ واضح کر نا تھا۔ میں نے لکھا: ”مجھے اس پر اصرار نہیں کہ ماضی میں لوگوں نے ان روایات کاجو مصداق طے کیا، وہ درست تھا۔ کل بھی یہ قیاس تھا، آج بھی قیاس ہے“۔ اس کے بعد یہ سوال بےمعنی ہے کہ سیوطی کی ’تاریخ الخلفا‘ مصدقہ ہے یا نہیں۔ میں نے جس کتابچے کا ذکر کیا ہے، اس میں بھی افغانستان میں ملا عمر کی حکومت کو اسی روایت کا مصداق مانا گیا ہے جس میں’ خلافت علیٰ منہاج النبوت‘ کاذکر ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ دین قیاس یا ظن پر نہیں کھڑا کہ اس کے مصداق کا تعین ہی نہ ہوسکے۔ جن باتوں کا تعلق ایمان سے ہے، اللہ تعالیٰ اور رسالت مآبﷺ نے اس طرح واضح کردی ہیں کہ قیامت کی صبح تک، ان کی سند اور ان کے مصدقہ ہونے کے بارے میں ابہام نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے اس امت کی تاریخ میں اخبارِ آحاد سے دین کو ثابت نہیں کیا گیا۔

    مولانا مودودی نے یہ بات اس بلاغت کے ساتھ بیان کرد ی ہے کہ شاید میں اس پر کچھ اضافہ نہ کرسکوں۔ انہوں نے لکھا: ”یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جن چیزوں پر کفر و اسلام کا مدار ہے، اور جن امور پر انسان کی نجات مو قوف ہے، انہیں بیان کرنے کا اللہ تعالیٰ نے خود ذمہ لیا ہے۔ وہ سب قرآن میں بیان کی گئی ہیں اور قرآن میں بھی ان کو اشارتا یا کنایۃ بیان نہیں کیا گیا بلکہ پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ ان کو کھول دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: ان علینا للھدیٰ(اللیل۲۹:۲۱) ”(اور ہمارا کام سمجھا دینا ہے)۔ لہذا جو مسئلہ بھی دین میں یہ نوعیت رکھتا ہو، اس کا ثبوت لازماً قرآن ہی سے ملنا چاہیے۔ مجرد حدیث پر ایسی کسی چیز کی بنا نہیں رکھی جا سکتی جسے مدارِ کفر و ایمان قرار دیا جائے۔ احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی ہیں جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تو وہ گمانِ صحت ہے نہ کہ علمِ یقین۔ اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس خطرے میں ڈالنا پسند نہیں کرتا کہ جو امور اس کے دین میں اتنے اہم ہوں کہ ان سے کفر اور ایمان کو فرق واقع ہوتا ہو، انہیں صرف چند آدمیوں کی روایت پر منحصر کر دیا جائے۔“ (رسائل و مسائل، صفحہ 124 )۔

    میں نے اپنی بات کو ان روایات کے اطلاق تک محدود رکھا تھا۔ ان کی صحت کے بارے میں ابھی کچھ نہیں لکھا۔ مولانا مودودی ایک اصولی بات کہہ رہے ہیں کہ یہ روایات جس طرح چند افراد کی روایت سے ہم تک پہنچی ہیں، ان کی بنیاد پر انہیں اسلام و کفر کے لیے قولِ فیصل نہیں مانا جا سکتا۔ مولا نا تو اس سے بھی آگے کی بات کہہ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک خبر واحد (جس کے روایت کرنے والوں صرف چند افراد ہوں) دین کے باب میں یقین کا فائدہ نہیں دیتی۔ ممکن ہے بعض ناقدین اسے انکارِ حدیث قرار دینے کے لیے بےتاب ہوں۔ ان سے صبر کی درخواست کے ساتھ یہ کہنا ہے کہ یہ رائے صرف مولانا مودودی کی نہیں ہے، جمہور احناف کی ہے۔ خود مولانا نے شمس الآئمہ امام سرخسی کی رائے کو اپنی تائید میں نقل کیا ہے۔

    مولانا مودودی امام مہدی سے متعلق روایات کے بارے میں کیا کہتے ہیں، وہ بھی پڑھ لیجیے: ”اب ’مہدی‘ کے متعلق خواہ کتنی ہی کھینچ تان کی جائے، بہر حال ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ اسلام میں اس کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اس کے جاننے اور ماننے پر کسی کے مسلمان ہونے اور نجات پانے کا انحصار ہے۔ یہ حیثیت اگر اس کی ہوتی تو قرآن میں پوری صراحت کے ساتھ اس کا ذکر کیا جاتا اور نبیﷺ بھی دو چار آدمیوں سے اس کو بیان کر دینے پر اکتفا نہ فرماتے بلکہ پوری امت تک اسے پہنچانے کی سعی بلیغ فرماتے اور اس کی تبلیغ میں آ پ کی سعی کا عالم وہی ہوتا جو ہمیں توحید اور آخرت کی تبلیغ کے معاملے میں نظر آتا ہے۔ درحقیقت جوشخص علومِ دینی میں کچھ بھی نظر اور بصیرت رکھتا ہو، وہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ باور نہیں کر سکتا کہ جس مسئلے کی دین میں اتنی اہمیت ہو، اسے محض اخبارِآحاد پر چھوڑ دیا جائے اوراخبارِآحاد بھی اس درجے کی کہ امام مالک اورامام بخاری جیسے محدثین نے اپنے حدیث کے مجموعوں میں سرے سے ان کا لینا ہی پسند نہ کیا ہو۔“ (رسائل و مسائل،صفحہ124)

    یہ کسی منکرِ حدیث کی رائے نہیں، اس شخص کا موقف ہے جس نے پاکستان میں منکرینِ حدیث و سنت کے خلاف سب سے بڑا علمی معرکہ لڑا۔ ہمارے ہاں جب کوئی صاحبِ علم کسی روایت کی صحت پر گفتگو کرتا ہے تو عام لوگوں کی کم علمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا جاتا ہے اور ایسے عالم پر منکرِحدیث کا فتویٰ لگا دیا جا جاتا ہے۔ میں نے یہ بات مو لا نا مودودی کے حوالے سے اسی لیے بیان کی ہے کہ ہما شما کو ہدف بنانا آسان ہو تا ہے۔ اب کوئی ہمت کرے اور کہے کہ مو انا مودودی منکرِ حدیث تھے۔

    جب کسی روایت پر جرح ہوتی اور اسے رد کیا جاتا ہے تویہ حدیثِ رسول پر جرح نہیں ہوتی۔ کوئی مسلمان یہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول کی بات پر جرح کرے۔ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔ یہ جرح دراصل اس بات پر ہوتی ہے کہ روایت کی رسول اللہ ﷺسے نسبت ثابت ہے یا نہیں۔

    اگر امام مہدی جیسی روایات کا معاملہ، مولانا مودودی جیسے عالم کے نزدیک یہ ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کالے جھنڈوں جیسی روایات کی روایتی اور درایتی حیثیت کیا ہوگی۔ اسی لیے میں لوگوں سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ کسی بات کو رسول اللہﷺ کی طرف نسبت دیتے وقت سو بار سوچنا چاہیے۔ جہاں لاکھوں لوگوں کے ایمان، جان اور مال کا معاملہ ہو تو وہاں زیادہ احتیاط اور خدا خوفی کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرا حسنِ ظن ہے کہ یہ باتیں اخلاصِ نیت سے کی جا تی ہوں گی لیکن کسی بات کی صداقت کے لیے محض اخلاص کافی نہیں، ضروری ہے کہ اس کی عقلی توجیہ ممکن ہو۔ دین کے نام پر کچھ کہنے کے لیے یہ لازم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے اس کی سند بھی ثابت ہو۔ محض ظنی علم کی بنیاد پر لوگوں کے ایمان اور جان و مال کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔

    ہمارے ہاں چونکہ ارتکازِ توجہ کے ساتھ علمی مباحث کا رواج نہیں، اس لیے بحثیں اکثر خلطِ مبحث کا شکار ہوجا تی ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک اعتراض اس وقت سامنے آتا ہے جب کسی صاحبِ علم کی کوئی بات تائید میں نقل کی جاتی ہے۔ اب اس رائے کی صحت پر کچھ کہنے کے بجائے، یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ اسی صاحبِ علم کی فلاں بات آپ کیوں نہیں مانتے۔ میں نے مو لانا مودودی کی ایک رائے نقل کی تو کہا جائے گا کہ ان کی فلاں رائے بھی ہے، آپ اسے تو نہیں مانتے۔ جیسے پچھلے کالم کے حوالے سے سیوطی کے بارے میں کہا گیا۔ یہ ایک غیر علمی بات ہے۔ اگر ہم فزکس میں نیوٹن کی بات کو درست کہتے ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم مسیحت کے بھی قائل ہو جائیں کیونکہ وہ مسیحی تھا۔
    ملاحم اور باب الفتن کی روایات کی صحت اور ان کے اطلاق پر عمومی گفتگو کے بعد، ان شااللہ اگلے مضمون میں اس سوال کو موضوع بنایا جائے گا کہ کیا پاکستان کا قیام کوئی الہی منصوبہ تھا اور اس کے قیام سے کیا غزوہ ہند کی روایات کا کوئی تعلق ہے؟

  • کیا غزوہ ہند ہو چکا ہے؟ افسانہ ہے یا حقیقت؟ ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی

    کیا غزوہ ہند ہو چکا ہے؟ افسانہ ہے یا حقیقت؟ ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی

    عمیر محمود صدیقی ہندوستان زمین کا وہ حصہ ہے جہاں ابوالبشر حضرت سیدنا آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے قدم رکھا۔ ہندوستان میں اسلام کا پیغام نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں پہنچ چکا تھا۔ اسلام کی آمد سے قبل بھی عرب کے اہل ہند سے تعلقات تھے۔ عرب تاجر سندھ اور مالابار کی بندرگاہوں پر تجارت کی غرض سے آیا کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں جب ایک قبیلے کے لوگ حاضر ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کو دیکھ کر فرمایا:
    [pullquote]مَنْ ھٰؤُلَاءِ الْقَوْمُ الّذِينَ كَاَنھُمْ رِجَالُ الْھِنْدِ (سیرت ابن ہشام، ج:2/ ص:593)[/pullquote]

    یہ کون لوگ ہیں جو ہند وستان کے مرد معلوم ہوتے ہیں۔

    ہندوستان کے ایک ساحلی علاقہ ’’مالابار‘‘ کے بادشاہ ’’چکر ورتی فرماس‘‘ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب انہوں نے شق القمر کا معجزہ دیکھا تواپنے بیٹے کو ذمہ داری سونپ کر خود نبی کریم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا۔ امام حاکم نے المستدرک میں ہندوستان کے ایک بادشاہ سے متعلق ایک روایت بھی نقل کی ہے کہ اس نے نبی کریم ﷺ کی خدمت عالیہ میں ایک ہدیہ پیش کیا۔ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
    [pullquote]أھدى ملك الھند إلى رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم جرۃ فيھا زنجبيل فاطعم أصحابہ قطعۃ قطعۃ وأطعمني منھا قطعۃ (المستدرك على الصحيحين للحاكم،رقم الحدیث :۷۲۷۹)[/pullquote]

    ’’ہندوستان کے بادشاہ نے رسول اللہ ﷺ کی طرف ایک برتن تحفہ میں بھیجا، اس میں ادرک تھی۔ نبی کریم ﷺ نے اس کو اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھلایا اور مجھے بھی اس میں سے ایک ٹکڑا عنایت فرمایا۔‘‘

    ’’ممکن ہے کہ یہ وہی صحابی بادشاہ ہوں جن کا ذکر امام حاکم نے اپنی کتاب حدیث میں کیا ہے۔ نامور عالمی محقق ڈاکٹر محمدحمید اللہ رحمہ اللہ اس واقعہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
    اس نے ہادی کون و مکاں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا اور پھر آپ ﷺ کے حکم پر واپس ہندوستان روانہ ہو گیا۔ راستے میں یمن کی بندرگاہ ظفار میں اس کا انتقال ہوا۔ یہاں آج بھی اس ’ہندوستانی بادشاہ‘ کے مزار پر لوگ فاتحہ کے لیے آتے ہیں۔ انڈیا آفس لندن میں ایک پرانے مسودے (نمبر عربی 2807 صفحہ 152 تا 173) میں اس کی تفصیل درج ہے۔ زین الدین المعبری کی تصنیف ’تحفۃ المجاہدین فی بعد اخبار الپرتگالین‘ میں بھی اس کا تذکرہ ہے۔‘‘(محمد رسول اللہ ﷺ ،ص:۱۹۹)

    ہند کے بارے میں حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
    [pullquote] أطيب ريح في الارض الھند (المستدرک للحاکم: رقم الحدیث:3954)[/pullquote]

    یعنی زمین میں سب سے پاکیزہ ہوا ہند کی ہے۔

    سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں: ”میر آزاد بلگرامی نے سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان میں کئی صفحے ہندوستان کے فضائل کے بیان کے نذر کیے ہیں اور اس میں یہاں تک کہا ہے کہ جب آدم سب سے پہلے ہندوستان اترے اور یہاں ان پر وحی آئی تو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہی وہ ملک ہے جہاں خدا کی پہلی وحی نازل ہوئی اور چونکہ نور محمدی (ﷺ)حضرت آدم کی پیشانی میں امانت تھا، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا ابتدائی ظہور اسی سرزمین پر ہوا۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ہندوستان کی طرف سے ربانی خوشبو آتی ہے۔“(عرب و ہند کے تعلقات :ص:28)

    ان تمام روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرب اہل ہند سے واقف تھے اور اہل ہند کے لیے یہ خوش نصیبی کی بات ہے کہ ان کا تذکرہ نبی کریم ﷺ کی زبان اقدس پر جاری ہوا۔اٹھارویں صدی کے مؤرخ آزاد غلام علی حسینی بلگرامی نے ہندوستان کے حوالہ سے دو کتب ”سبحۃ المرجان في آثار ہندستان“ اور ”شمامۃ العنبر فيما ورد من الھند من سيد البشرﷺ“ تحریر فرمائی ہیں جن کا ذکر معجم المؤلفین میں بھی کیا گیا ہے۔ مؤخر الذکر کتاب یقینا اس موضوع پر مزید تحقیق کے حوالہ سے فائدہ مند ثابت ہوگی۔

    احادیث شریفہ میں ہندوستان کی فتح کی بشارت کا ذکر بہت تاکید کے ساتھ ہوا ہے، اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے ہی غزوۂ ہند کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ بلاذری کی تحقیق کے مطابق ہندوستان پر مہم جوئی کا آغاز امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا۔ اس کے بعد امیرالمؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں بعض مسلمان جاسوسوں کو ہند پر حملہ سے قبل وہاں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیا البتہ جنگ کی نوبت نہیں آئی۔ امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے عہد میں حارث بن مرہ نے آپ کی اجازت سے ہندوستان پر حملہ کیا جس میں آپ کو کامیابی ہوئی۔ آپ قیقان کے مقام پر جو سندھ کا حصہ تھا، شہید ہو گئے۔ (فتوح البلدان ،ج:3/ص:531) امام ابن نحاس آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ اس جہاد میں مکران اور قندابیل کے علاقوں سے آگے بڑھ گئے تھے۔(مشارع الاشواق:ص:۹۱۸۔۹۱۹)

    حضرت حارث بن مرہ کے بعد حضرت مہلب بن ابی صفرہ ہند پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ تاریخ فرشتہ میں ہے:
    ”۴۴ھ میں حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابیہ کو بصرہ، خراسان اور سیستان کا حاکم مقرر کیا اور اسی سال زیاد کے حکم سے عبد الرحمن بن ربیعہ نے کابل کو فتح کیا اور اہل کابل کو حلقہ بگوش اسلام کیا۔ کابل کی فتح کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک نامور عرب امیر مہلب بن ابی صفرہ مرو کے راستے سے کابل و زابل آئے اور ہندوستان پہنچ کر انہوں نے جہاد کیا۔(تاریخ فرشتہ،محمد قاسم فرشتہ،ج:۱/ص:46) اسی طرح حجاج بن یوسف نے 86ھ میں محمد ہارون کو ایک زبردست لشکر دے کر مکران کی طرف روانہ کیا جس کے نتیجے میں مکران فتح ہوا اور اسی زمانے سے سندھ میں بھی اسلام کی باقاعدہ اشاعت شروع ہو گئی۔ خلیفہ ولید بن عبد الملک کے دور میں جب راجہ داہر نے مسلمانوں کا لوٹا ہوا مال اور مسلمان قیدی عورتوں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا تو حجاج نے خلیفہ سے اہل ہند سے جہاد کرنے کی اجازت لی اور پدمن نامی ایک شخص کو بھیجا۔ انہوں نے اہل دیبل سے جنگ کی اور اس میں جام شہادت نوش کیا۔پدمن کی شہادت کے بعد حجاج نے اپنے چچا زاد بھائی اور داماد عمادالدین محمد بن قاسم کو جس کی عمر صرف سترہ سال تھی، 93ھ میں سندھ کی طرف روانہ کیا، جس میں اللہ رب العزت نے اس کم سن مجاہد کو فتح عطا فرمائی اور راجہ داہر اس جنگ میں مارا گیا۔“ (تاریخ فرشتہ:ج:۴/ص:655 تا 659)

    حضرت سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمۃ (357ھ۔421ھ)کا عالم یہ تھا کہ اپنے اوپر غزوہ ہند کو فرض کیا ہوا تھا۔ امام ذہبی فرماتے ہیں:
    [pullquote]وفرض على نفسہ كل عام غزو الھند، فافتح منھا بلاداً واسعۃ، وكسر الصنم المعروف بسومنات، وكانوا يعتقدون أنّہ يحيي ويميت، ويقصدونہ من البلاد، وافتتن بہ أمم لا يحصيھم إلاّ اللہ. ولم يبق ملك ولا محتشم إلاّ وقد قرَّب لہ قرباناً من نفيس مالہ. (تاریخ الاسلام:ج:۶/ص:۳۶) [/pullquote]

    ”اور سلطان نے اپنے اوپر ہر سال غزوہ ہند کو فرض کیا ہوا تھا۔ پس انہوں نے ہند کا ایک وسیع حصہ فتح کر لیا اور معروف بت کو توڑا جس کا نام سومنات تھا۔ اور وہ (اہل ہند) یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ یہ زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے۔ وہ اس کی طرف مختلف شہروں سے زیارت کے لیے آتے تھے۔ اس کی وجہ سے بہت سی اقوام آزمائش کا شکار ہوئیں جن کی تعداد اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور کوئی بادشاہ اور محتشم شخص ایسا باقی نہ بچا تھا جو اپنے نفیس مال میں سے اس پر قربانی نہ دیتا ہو۔“

    سومنات کی فتح کے سال سلطان محمود غزنوی حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شیخ نے سلطان کو اپنا خرقہ عطا فرمایا۔ شیخ صاحب سے رخصت ہو کر سلطان محمود غزنوی واپس آئے اور عطا کردہ خرقہ کو بڑی حفاظت سے اپنے پاس رکھا۔ جس زمانے میں محمود غزنوی نے سومنات پر حملہ کیا تھا اور پرم اور دشیلم سے اس کی جنگ ہوئی تھی تو محمود کو یہ خطرہ لاحق ہوا تھا کہ کہیں مسلمانوں کے لشکر پر ہندوؤں کا لشکر غالب نہ آجائے۔ اس وقت پریشانی کے عالم میں سلطان محمود شیخ صاحب کے خرقہ کو ہاتھ میں لے کر سجدہ میں گر گیا اور خداوند تعالیٰ سے دعا کی ”اے اللہ! اس خرقے کے مالک کے طفیل میں مجھے ان ہندوؤں کے مقابلے میں فتح دے۔ میں نیت کرتا ہوں کہ جو مال غنیمت یہاں سے حاصل کروں گا اسے یتیموں اور محتاجوں میں تقسیم کر دوں گا۔“ مؤرخین کا بیان ہے کہ اس دعا کے مانگتے ہی آسمان کے ایک حصے سے سیاہ بادل اٹھے اور سارے آسمان پر محیط ہو گئے۔ بادل کی گرج اور بجلی کی چمک کڑک سے ہندوؤں کا لشکر ہراساں ہو گیا اور ہندو اس پریشانی کے عالم میں آپس میں ہی ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔ ہندوؤں کی اس باہمی جنگ کی وجہ سے پریم دیو کی فوج میدان جنگ سے بھاگ نکلی اور یوں مسلمانوں نے ہندوؤں پر فتح پائی۔ (تاریخ فرشتہ:ج:۴/ص:91)

    غزوہ ہند

    حضرت امام نسائی علیہ الرحمۃ نے غزوہ ہند سے متعلقہ احادیث پر ایک باب رقم کیا ہے۔ جس میں آپ نے تین احادیث روایت کی ہیں۔ ان میں دو احادیث کے راوی حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور ایک حدیث کے راوی حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ ہیں۔
    حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں:
    [pullquote]وَعَدَنَا رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ غَزْوَۃ الْھِنْدِ فَانْ أدْرَكْتُھَا أنْفِقْ فِيھَا نَفْسِي وَمَالِي فَانْ أقْتَلْ كُنْتُ مِنْ أفْضَلِ الشُّھَدَاءِ وَإنْ أرْجِعْ فَانَا أبُوھُرَيْرَۃ الْمُحَرَّرُ(سنن النسائی،باب غزوۃ الھند)[/pullquote]

    رسول اللہ ﷺ نے ہم سے غزوۂ ہند کا وعدہ فرمایا ہے۔ پس اگر میں نے اس غزوہ کو پایا تو میں اس میں اپنی جان اور اپنا مال خرچ کردوں گا۔ اگر مجھے قتل کردیاجائےگا تو میں سب سے زیادہ فضیلت والے شہداء میں سے ہوں گا اور اگر میں لوٹ آؤں گا تو میں (آگ سے) آزاد کیا ہوا ابوہریرہ ہوں گا۔

    ایک دوسری سند سے بھی بعینہ یہی الفاظ مروی ہیں
    [pullquote] وَعَدَنَا رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ غَزْوَۃ الْھِنْدِ فَانْ أدْرَكْتُھَا أنْفِقْ فِيھَا نَفْسِي وَمَالِي وَإنْ قُتِلْتُ كُنْتُ أفْضَلَ الشُّھَدَاءِ وَإنْ رَجَعْتُ فَانَا أبُوھُرَيْرَۃ الْمُحَرَّرُ (سنن النسائی،باب غزوۃ الھند)[/pullquote]

    رسول اللہ ﷺنے ہم سے غزوۂ ہند کا وعدہ فرمایا ہے۔ پس اگر میں نے اس کو پایا تو میں اس میں اپنی جان اور اپنا مال خرچ کر دوں گا اور اگر میں اس میں قتل کر دیا گیا تو سب سے زیادہ فضیلت والے شہداء میں سے ہوں گا اور اگر میں لوٹ آیا تو میں (جہنم کی آگ سے) آزاد کیا ہوا ابوہریرہ ہوں گا۔

    [pullquote]عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ عِصَابَتَانِ مِنْ أمَّتِي أحْرَزَھُمَا اللہ مِنْ النَّارِ عِصَابَۃ تَغْزُو الْھِنْدَ وَعِصَابَۃ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْھِمَا السَّلَام (سنن النسائی،باب غزوۃ الھند)[/pullquote]

    رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں سے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں اللہ نے (جہنم کی) آگ سے محفوظ رکھا ہے۔ ایک وہ گروہ جو ہند پر حملہ کرے گا اور دوسرا وہ گروہ ہےجو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہو گا۔
    ان احادیث کو امام نسائی نے اپنی کتاب السنن الکبریٰ میں بھی نقل کیا ہے۔ ( السنن الکبریٰ: رقم الحدیث: 4382،4383،4384)

    حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ نے غزوہ ہند کے بارے میں اپنی اسناد سے تین احادیث نقل کی ہیں، جن میں سے دو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ایک حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

    [pullquote]عَنْ أبِي ھُرَيْرَۃ قَالَ وَعَدَنَا رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَۃِ الْھِنْدِ فَانْ اسْتُشْھِدْتُ كُنْتُ مِنْ خَيْرِ الشُّھَدَاءِ وَإنْ رَجَعْتُ فَانَا أبُوھرَيْرَۃ الْمُحَرَّرُ (مسند امام احمد بن حنبل:رقم الحدیث:6831) [/pullquote]

    رسول اللہ ﷺ نے ہم سے غزوۂ ہند کے بارے میں وعدہ فرمایا ہے۔ اگر میں اس میں شہید ہو گیا تو سب سے بہترین شہیدوں میں سے ہوں گا اور اگر میں لوٹ آیا تو آگ سے آزاد کیا ہوا ابو ہریرہ ہوں گا۔

    [pullquote]عَنْ أبِي ھُرَيْرَۃ قَالَ حَدَّثَنِي خَلِيلِي الصَّادِقُ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيہ وَسَلَّمَ أنَّہُ قَالَ يَكُونُ فِي ھٰذِہِ الْامَّۃِ بَعْثٌ إلَى السِّنْدِ وَالْھِنْدِ فَانْ أنَا أدْرَكْتُہ فَاسْتُشْھِدْتُ فَذَلِكَ وَإنْ أنَا فَذَكَرَ كَلِمَۃ رَجَعْتُ وَأنَا أبُوھُرَيْرَةۃ الْمُحَرَّرُ قَدْ أعْتَقَنِي مِنْ النَّارِ (مسند امام احمد بن حنبل:رقم الحدیث:۸۴۶۷) [/pullquote]

    میری امت میں سے ایک لشکر کو سندھ اور ہند کی طرف بھیجا جائے گا۔ پس اگر میں نے اس کو پایا اور اس میں شہید ہوگیا تو ٹھیک ہے اور اگر، پھر آپ نے ایک کلمہ ذکر کیا،(پھر فرمایا) میں لوٹ آیا تو میں ابوہریرہ ہوں جس کو اللہ آگ سے آزاد فرمادے گا۔

    [pullquote]عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ قَالَ عِصَابَتَانِ مِنْ أمَّتِي أحْرَزَھُمْ اللہ مِنْ النَّارِ عِصَابَۃ تَغْزُو الْھِنْدَ وَعِصَابَۃ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْہِ السَّلَام (مسند امام احمد بن حنبل) [/pullquote]

    نبی کریم ﷺکے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے دو گروہ وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ سے محفوظ فرمایا ہے۔ ایک وہ گروہ جو ہند پر حملہ آور ہوگا اور ایک وہ گروہ جو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہوگا۔

    امام بخاری نے التاریخ الکبیر، امام بیہقی نے اپنی دو کتابوں سنن کبریٰ اور دلائل النبوۃ، امام حاکم نے المستدرک، امام طبرانی نے المعجم الاوسط، امام ہیثمی نے مجمع الزوائد، امام جلال الدین سیوطی نے جمع الجوامع، امام مناوی نے فیض القدیر، امام ذہبی نے تاریخ الاسلام، امام خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد، اور امام ابن کثیر نے البدایۃ و النہایۃ، النھایۃ فی الفتن و الملاحم میں غزوہ ہند سے متعلق ان احادیث کو روایت کیا ہے.

    رسول اللہ ﷺ کا وعدہ
    غزوہ ہند سے متعلق احادیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ ہند کا اس امت سے وعدہ کیا ہے۔ ان کلمات سے اس غزوہ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔اسی وجہ سے علمائے اسلام نے اپنی کتب میں غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کو بیان کیا ہے اور اس امانت و بشارت کو ہر دور میں آئندہ آنے والی نسلوں تک منتقل کیا ہے۔ اہل ایمان اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اپنے وعدے کو وفا کرتے ہیں، اس لیے غزوۂ ہند کے واقع ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔

    غزوۂ ہند میں شرکت اور اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ
    ان احادیث کےمطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس غزوہ میں شریک ہونے کی تمنا کیا کرتے تھے، جس کا اظہار حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایمانی کلمات سے بخوبی ہوتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس بات کا بھرپور طور پر اظہار کیا کہ اگر مجھے وہ دور نصیب ہوا جب غزوہ ہند ہوگا تو میں اپنی جان، مال، میراث اور اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دوں گا۔
    تقسیم ہند کے بعد مشرکین ہند نے کبھی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور تا حال اہل پاکستان ان کے ساتھ ہمہ جہتی جنگ میں مصروف ہیں۔ وہ مجاہدین جن کو اللہ نے مشرکین ہند کے ساتھ جہاد کی توفیق عطا فرمائی ہے، ان کو چاہیے کہ وہ اپنا سب کچھ اسلام اور پاکستان کی سر بلندی کے لیے قربان کرنے کا جذبہ اپنے اندربیدار رکھیں جس طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کا اظہار کیا۔

    افضل الشہداء
    غزوہ ہند سے متعلق احادیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے شہادت کی تمنا کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس غزوہ میں جو لوگ شہادت کی عظیم نعمت سے ہمکنار ہوں گے وہ اللہ کے نزدیک افضل الشہداء میں سے ہوں گے۔ امام ابن قیم علیہ الرحمۃ افضل الشہداء کے بارے میں حدیث روایت کرتے ہیں:
    [pullquote]أفْضَلُ الشّھدَاءِ الّذِينَ إنْ يَلْقَوْا فِي الصّفّ لَا يَلْفِتُونَ وُجُوھَھُمْ حَتّى يَقْتُلُوا أولَئِكَ يَتَلَبّطُونَ فِي الْغُرَفِ الْعُلَى مِنْ الْجَنّۃ وَيَضْحَكُ الَيْھِمْ رَبّك وَإذَا ضَحِكَ رَبّكَ إلَى عَبْدٍ فِي الدّنْيَا فَلَا حِسَابَ عَلَيْہِ (زاد المعاد:ج:۳/ص:۳۳) [/pullquote]

    سب سے زیادہ فضیلت والے شہداء وہ ہیں جب وہ صف میں (دشمن سے) آمنے سامنے ہوتے ہیں تو اپنے چہروں کو نہیں موڑتے یہاں تک کہ وہ قتال کرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو جنت کے بلند ترین کمروں میں اپنے پیر ماریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کو (اپنی شان کے مطابق) مسکرا کر دیکھے گااور اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کی طرف دنیا میں مسکرا کر دیکھتا ہے تو اس پر کوئی حساب نہیں ہوتا۔

    گناہوں سے مغفرت اور جہنم سے آزادی
    اس غزوہ میں شریک ہونے والوں کے لیے ایک بشارت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا اور اگر کوئی شخص اس غزوہ میں شہادت حاصل نہ کر سکا اور غازی بن کو لوٹا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم کی آگ سے محفوظ و مامون فرمادے گا۔

    سندھ اور ہند کے فتح ہونے کی بشارت اور علم غیب
    ان احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے سندھ اور ہند کے فتح ہونے کی بشارت عطا فرمائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے وعدے کو پورا فرمایا اور سندھ اور ہند کے دروازے اہل اسلام کے لیے وا فرما دیے۔ یہ احادیث رسول اللہ ﷺ کی نبوت اور اللہ کی جانب سے علم غیب کے عطا کیے جانے پر دلالت کرتی ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اگر چہ اس جنگ میں امام مہدی اور عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام کے ساتھ شریک ہونے کی تمنا کا اظہار کیا لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺنے آپ سے مسکراتے ہوئے اس بات کو بیان فرمادیا کہ ابوہریرہ اس میں شریک نہ ہو پائیں گے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو ان کی نیت کے موافق غزوہ ہند میں شرکت کا اجر عطا فرمائے گا۔

    حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا بیان
    حضرت سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام اللہ کے نبی اور رسول ہیں۔ اسلام کے عقیدے کے مطابق آپ کو یہودی نہ تو شہید کر سکے اور نہ ہی آپ کو مصلوب کیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا تھا اور قیامت سے قبل آپ علیہ السلام دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے اور خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے مطابق عدل فرمائیں گے۔ آپ علیہ السلام کی آمد ثانی سے متعلق احادیث متواتر ہیں۔ غزوہ ہند سے متعلق احادیث میں آپ علیہ السلام کی معیت میں جہاد کرنے والے گروہ کے لیے جنت کی بشارت ہے۔ یہ احادیث بھی آپ علیہ السلام کی آمد ثانی پر دلالت کرتی ہیں۔

    حضرت امام حماد بن نعیم علیہ الرحمۃ (متوفی:۲۲۹ھ) روایت فرماتے ہیں:
    [pullquote] عن كعب قال يبعث ملك في بيت المقدس جيشا إلى الھند فيفتحھا فيطئوا أرض الھند وياخذوا كنوزھا فيصيرہ ذلك الملك حليۃ لبيت المقدس ويقدم عليہ ذلك الجيش بملوك الھند مغللين ويفتح لہ ما بين المشرق والمغرب ويكون مقامھم في الھند إلى خروج الدجال. (الفتن:رقم الحدیث:۱۱۴۹) [/pullquote]

    حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بیت المقدس میں ایک بادشاہ ایک لشکر ہند کی طرف بھیجے گا، وہ اسے فتح کریں گے۔ پس وہ ہند کی زمین کو روندیں گے اور اس کا خزانہ حاصل کریں گے۔ وہ بادشاہ اس خزانے کو بیت المقدس کا زیور بنا دے گا اور لشکر اس بادشاہ کے پاس ہند کے بادشاہوں کو جکڑ کر لائیں گے اور اس کے لیے جو مشرق اور مغرب کے درمیان ہے، فتح کر دیا جائے گا۔ اور ان کا قیام دجال کے نکلنے تک ہند میں ہوگا۔

    عن أبي ھريرۃ رضى اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم و ذكر الھند فقال ليغزون الھند لكم جيش يفتح اللہ عليھم حتى ياتوا بملوكھم مغللين بالسلاسل يغفر اللہ ذنوبھم فينصرفون حين ينصرفون فيجدون ابن مريم بالشام.
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہند کا ذکر کیا، اور فرمایا: تمہارے لیے ایک لشکر ضرور ہند پر حملہ کرے گا۔ اللہ ان کو فتح عطا فرمائےگا، یہاں تک کہ وہ ان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمائے گا، پھر وہ لوٹیں گے جب ان کو لوٹنا ہوگا تو وہ ابن مریم علیہماالسلام کو شام میں پائیں گے۔

    نبی کریم ﷺنے فرمایا: ایک قوم میری امت میں سے ہند پر حملہ کرے گی، اللہ اس کو فتح عطا فرمائےگا یہاں تک کہ وہ ہند کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے، پس اللہ ان کے گناہوں کی مغفرت فرمائےگا، پھر وہ لوٹیں گے شام کی طرف تو وہ عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام کو شام میں پائیں گے۔ (الفتن:رقم الحدیث:۱۱۵3)

    ہند سے قبل بیت المقدس کی فتح اورغزوۂ ہند کی تکمیل
    بیت المقدس اس وقت یہود کے قبضے میں ہے۔ مذکورہ احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیت المقدس غزوہ ہند کی تکمیل سے پہلے آزاد ہو جائے گا اور وہاں سے ہی ہندوستان کی فتح کے لیے لشکر اسلام کو روانہ کیا جائے گا۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام ایک لشکر کو ہند فتح کرنے کے لیے ارسال فرمائیں گے اور وہ جب واپس لوٹیں گے تو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا نزول ہو چکا ہوگا۔ پس غزوہ ہند کی بشارت کو حاصل کرنے کے لیے اہل اسلام مشرکین ہند سے جہاد کرتے رہے ہیں لیکن اس کی تکمیل حضرت سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے دست مبارک سے ہوگی۔ اس حوالے سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مسلم دنیا کی افواج اور بالخصوص افواج پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان ہدایات کی بنیاد پر اپنی دفاعی اور اقدامی پالیسی کو ازسرنو مرتب کریں کیونکہ جب تک بیت المقدس فتح نہیں ہوگا، اس وقت تک مشرق وسطیٰ میں برپا جنگ جاری رہے گی اور مشرکین کی طرف سے ہونے والے مظالم بھی بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ فتح خیبر کی طرح یہودیوں کی شکست کے بعد ہی مشرکین کو مکمل شکست دینا ممکن ہوگا۔

    امام مہدی ؑکے ساتھ غزوہ ہند کرنے والوں کے لیے آٹھ بشارتیں
    جس لشکر کو امام مہدی علیہ السلام ہند فتح کرنے کے لیے بھیجیں گے، احادیث میں ان کے لیے آٹھ عظیم بشارتیں ہیں:
    ۱۔ ہند مکمل طور پر ہمیشہ کے لیے فتح ہو جائے گا اور وہ اس سرزمین کو اپنے قدموں تلے روندیں گے۔
    ۲۔ اللہ تعالیٰ ان کے تمام گناہوں کی مغفرت فرما دے گا۔
    ۳۔ ان کو مال غنیمت وافر مقدار میں ملے گا جس سے وہ بیت المقدس کو مزین کریں گے۔
    ۴۔ ہندوستان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر وہ لشکر امام مہدی علیہ السلام کے سامنے پیش کرے گا۔
    ۵۔ وہ لشکر جس قدر اللہ چاہےگا ہندوستان میں رہےگا اور پھر شام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ شامل ہونے کی فضیلت حاصل کرے گا۔
    ۶۔اس لشکر کو دجال اور اس کے گروہ سے لڑنے کی فضیلت حاصل ہوگی۔
    ۷۔مشرق و مغرب کے مابین جو کچھ ہے، وہ فتح ہوگا اور لیظھرہ علی الدین کلہ کا وعدہ پورا ہوگا۔
    ۸۔اس کے شہداء افضل ترین شہید ہوں گے اور اس کے غازیوں کو جہنم سے خلاصی کی بشارت ہے۔
    ۹۔غزوہ ہند سے قبل بیت المقدس فتح ہو جائے گا۔

    کیا غزوۂ ہند سے متعلق احادیث من گھڑت ہیں؟
    راقم نے یہ کوشش کی ہے کہ تاریخ اسلام میں جن ائمہ و محدثین اور اکابر مؤرخین نے غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے، ان کو اس مضمون میں اپنی معلومات کے مطابق جمع کر دیا جائے۔ تقریبا بیس کتب حدیث و تاریخ میں اکابر محدثین اور مؤرخین نے غزوۂ ہند سے متعلق احادیث و بشارتوں کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔ جو اس بات کی صریح دلیل ہے کہ نعوذ باللہ غزوۂ ہند سے متعلق احادیث من گھڑت اور موضوع نہیں ہیں بلکہ علمائے امت نے اپنی کتب میں بشارت اور قیامت سے قبل واقع ہونے والی علامت کے طور پر انھیں نقل کیا ہے۔ پس وہ افراد جو غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کو جھوٹا اور موضوع قرار دیتے ہیں، انہیں اس قبیح عمل سے سخت اجتناب کرنا چاہیے۔

    کیا غزوہ ہند ہو چکا ہے؟
    رسول اللہﷺ نے اپنی امت کو غزوہ ہندکی بشارت عطا فرمائی ہے۔ بعض افراد کی یہ رائے ہے کہ غزوہ ہند کی بشارت مکمل ہو چکی ہے اور اب غزوہ ہند پیش نہیں آئےگا۔ بعض حضرات یہ بات اپنے مبلغ علم کی بنیاد پر کہتے ہیں جبکہ بعض لوگ امن کی آشا کو بچانے کے لیے اس کا اظہار کرتے ہیں تاکہ ان کا پسندیدہ ترین ملک جس کی تہذیب و ثقافت میں وہ رنگتے جا رہے ہیں، ناراض نہ ہو جائے۔ اگر ہم غزوہ ہند سے متعلق وارد ہونے والی تمام احادیث اور اس سے متعلق محدثین و مؤرخین کے اقوال اور امت کا عمل دیکھیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت مہلب بن صفرہ سے لے کر آج تک اہل اسلام کی مشرکین ہند سے جتنی بار جنگ ہوئی ہے، وہ اسی بشارت میں شامل ہے اور احادیث کے مطابق غزوہ ہندکی تکمیل حضرت سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے دست مبارک پر ہوگی جس کے نتیجے میں ہند ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے ماتحت ہو جائے گا۔ غزوۂ ہند سے متعلق احادیث ذکر کرنے کے بعد امام ابن کثیر فرماتے ہیں:
    [pullquote]وقد غزا المسلمون الھند في سنۃ أربع وأربعين في إمارۃ معاويۃ بن أبي سفيان رضي اللہ عنہ فجرت ھناك أمور فذكرناھا مبسوطۃ، وقد غزاھا الملك الكبير السعيد المحمود بن سبکتکین صاحب بلاد غزنۃ وما والاھا في حدود أربع مائۃ ففعل ھنالك أفعالاً مشھورة وأموراً مشكورۃ وكسر الصنم الاعظم المسمى بسومنات وأخذ قلائدہ وسيوفہ ورجع إلى بلادہ سالماً غانماً (النہایۃ فی الفتن:ص:۱۲۔۱۳) [/pullquote]

    اور مسلمانوں نے ہند پر سن ۴۴ھ میں حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی امارت میں حملہ کیا، پس وہاں بہت سے امور وارد ہوئے جن کا ذکر ہم نے تفصیل کے ساتھ کر دیا ہے۔ اور ہند پر اور ان علاقوں پر جو اس کے ساتھ ملحق تھے، سن چار سو کی حدود میں بڑے سعید بادشاہ محمود بن سبکتکین غزنی والے نے حملہ کیا۔ وہاں آپ نے بہت مشہور اور مشکور کام کیے اور سب سے بڑے بت کو توڑ دیا جس کو سومنات کہا جاتا تھا اور اس کے قلائد اور تلواریں حاصل کیں اور اپنے زہروں کی طرف سلامتی اور مال غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے۔
    اسی بات کا ذکر غزوہ ہند کا تذکرہ کرنے کے بعد آپ نے اپنی تاریخ کی کتاب البدایۃ و النھایۃ میں بھی کیا ہے۔ (البدایۃ و النہایۃ:ج:۶/ص:۲۴۹)
    امام ابن کثیر علیہ الرحمۃ کا غزوہ ہند کی احادیث نقل کرنے کے فورا بعد اپنی تایخ کی کتاب اور فتن پر لکھی جانے والی علیحدہ کتاب میں اہل اسلام کے ہند پر مختلف ادوار میں کیے جانے والے حملوں کا ذکر کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کے نزدیک یہ تمام اس بشارت میں شامل ہیں۔ یاد رہے کہ علماء نے غزوہ ہند کو قرب قیامت کی علامات میں سے ایک علامت کے طور پر ذکر کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک اس بشارت کی تکمیل ابھی باقی ہے۔

    سند ھ کی خرابی ہند سے ہے اور ہند کی چین سے
    حضرت امام قرطبی حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
    [pullquote]و خراب السند من الھند و خراب الھند من الصين۔ (التذکرۃ:ص:۶۴۸)[/pullquote]

    اور سندھ کی خرابی ہند سے ہے اور ہند کی خرابی چین سے ہے۔
    اس روایت کو امام ابن کثیر (النہایۃ فی الفتن و الملاحم:ص:۵۷) اور امام ابوعمرو دانی (السنن الواردۃ فی الفتن:ج:۲/ص:۳۶) نے بھی روایت کیا ہے۔

    اس حدیث مبارکہ کے درست معنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں۔ تاہم اگر ہم حالات حاضرہ پر غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سندھ میں فتنہ و فساد، قتل و غارت گری اور تباہی و بربادی کا سبب ہندوستان ہے۔ بالخصوص سندھ کا وہ جغرافیہ جو نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں تھا، وہاں کے حالات اسی پر دلالت کرتے ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ چین حسب سابق پاکستان کی معاونت کرے اور اللہ تعالیٰ چین کو پاکستان کی نصرت اور ہندوستان کی تباہی کا سبب بنا دے۔ دفاعی اداروں کو اس حدیث کے پیش نظر سندھ پر خصوصی توجہ رکھنی چاہیے اور چین کے ساتھ دفاعی معاہدوں کو مضبوط کرنا چاہیے۔

    واللہ و رسولہ ﷺ اعلم بالصواب