پہلی اور دوسری جنگ عظیم پر ہلاک ہونے والے انسانوں کی تعداد کڑوڑوں تک پہنچتی ہے جبکہ معاشی و مالی اور دیگر نقصانات اس پر متزاد ہیں دوسری جنگ عظیم کے پیش نظریہ فیصلہ کیا گیا کہ عالمی سطح پرایک ایسا ادارہ ہو جو آنے والی نسلوں کوان جنگی تباہ کاریوں سے بچائے اور یہ فیصلہ کرنے والے افراد وہ ہی تھے جن کی وجہ سے دنیا دو عظیم جنگوں کے نتائج بھگت چکی تھی چناچہ با تفاق رائے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور ایک ادارے کے لیے ایک چارٹر پر دستخط کیے گئے یہ کانفرنس۲۵ اور۲۶،اکتوبر۱۹۴۵ء کو منعقد ہوئی جس کے نتیجہ میں اقوام متحدہ کے قیام کی راہ ہموار ہوئی اور سان فرانسکو میں لیگ آف نیشنز کے کھنڈر پر باقاعدہ اقوام متحدہ کا ادارہ قائم کیا گیا۔
اس بین الاقوامی تنظیم کے ابتدائی ۵۰ارکان تھے جن کی تعداد وقت کے ساتھ بڑھتی گئی۔اس کے بنیادی اصولوں میں بعض درج ذیل ہیں۔
۱۔بنی نوع انسان کی آئندہ نسلوں کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانا۔
۲۔قوموں کے باہمی تنازعات کے حل کے لیے بین الاقوامی سطح پر موثر قانون سازی کرنا تاکہ امن کو لاحق خطرات اور جارحیت کو روکا جا سکے۔
۳۔انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے عالمی سطح پر بلا امتیاز رنگ و نسل مثبت اقدامات کرنا۔
۴۔انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا۔
۵۔ایک دوسرے کی آزادی اور خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے قوموں کے درمیان دوستی کو فروغ دینا اور ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی سے روکنا۔
حالات نے ثابت کیا ہے کہ اقوام متحدہ اپنے قیام مقاصد میں بری طرح ناکام ہے اس کے اصول اور حقوق انسانی کے لیے مرتب کروہ اعلامیہ صرف کاغذوں تک محدود ہے عمل سے اس کا کچھ تعلق نہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بعض سامراجی طاقتوں نے اس پلیٹ فارم کو اپنے ذاتی مفادات و مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے جن میں امریکہ سر فہرست ہے اس اُبھرتی ہوئی سامراجی طاقت و سیکو لر اسٹیٹ کو ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت تھی جہاں سے وہ دنیا بھر میں اپنی حکمرانی قائم کر سکے تو اس کے لیے بظاہر حقوق انسانی کے لیے جبکہ در پردہ امریکی مفادات کے لیے اقوام متحدہ وجود میں لایا گیا اس کا اعتراف ایک یہودی صحافی اسرائیل شہاک نے اپنی کتاب’’اسرائیل میں بنیاد پرستی‘‘ (مترجم)میں ان الفاظ میں کیا ہے کہ’’عالمی عدالت اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی طرح اقوام متحدہ وہ ہی کرتا ہے جو امریکہ چاہتا ہے ورنہ اقوام متحدہ کو بھی فارغ کیا جا سکتا ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں امریکہ،برطانیہ،فرانس،روس اور چین یہ پانچ ممالک نہ صرف مستقل نشست رکھتے ہیں بلکہ ویٹو پاور کا بھی انہیں حق حاصل ہے ویٹو پاور کا حامل ہر ملک اقوام متحدہ کے منمبران کی غالب اکثریت کے کسی بھی فیصلہ کو مسترد کرنے کا حق رکھتا ہے اور یہ پانچوں ممالک اپنے اپنے مفادات کے لیے متعدد بار ویٹو پاور کا حق استعمال کرچکے ہیں ان میں سے ایک ملک بھی اسلامی نہیں ہے جو امت مسلمہ کے دفاع کے لیے ویٹو پاور سے فائدہ اٹھا سکے۔ذولفقار علی بھٹو مرحوم کے دور حکومت میں یہ آوازاُٹھائی گئی تھی کہ سلامتی کو نسل کی ایک مستقل نشست مسلمانوں کے پاس بھی ہونی چاہیے مگر ان کی وفات کے ساتھ ہی یہ معاملہ دب گیا اور یوں۵۷اسلامی ممالک اور کم و بیش۲۰۰کڑوڑمسلمانوں کو اب تک اس سے محروم رکھا گیا ہے اگر آج امت مسلمہ کے پاس ویٹو پاور کا حق ہوتا تو بہت سے نقصانات سے بچا جا سکتا تھا۔
کہنے کو تو اقوام متحدہ انسانی حقوق دنیا بھرمیںبحال کروانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے اس ادارے کے نزدیک انسانوں کا اطلاق مسلمانوں پر نہیں ہوتا اپنے قیام ابتداء سے لے کراب تک مسلم امہ کے لیے اس نے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا مسلمانوں کے لیے اس کی کارکردگی صفر ہے مسلمان جب بھی مصائب کا شکار ہوئے تو سوائے کاغذی خانہ پری اور لفظی مذمت کے اور کچھ نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ جب اسرائیل عرب جنگ میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی بھی چھین لی تو غزہ کے مسلمانوں پر اسرائیلی یہودیوں کی جانب سے ہونے والے مظالم پر اقوام متحدہ سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے محقق’’رینے فیلبر‘‘(Felber)نے ایک رپورٹ پیش کی یہ رپورٹ پیش کرنے کے کچھ ہی عرصہ بعد فیلبر نے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا کہ ایسی رپورٹیں پیش کرنے کا کیا فائدہ جن کی آخری آرام گاہ ردی کی ٹوکری ہو۔
امریکہ نے اپنے نام نہاد عالمی اصولوں اور خود ساختہ شائستگی کی مروجہ اقدار کی پاسداری میں اقوام متحدہ کے ذریعے لیبیا،عراق،ایران اور افغانستان متعدد اسلامی ممالک پر اقتصادی پابندیاں لگائی ہیں جو کسی ایٹم بم سے کم نہیںعراق پر اقتصادی پابندیوں کے دوران موت کی آغوش میں جانے والے صرف بچوں کی تعداد۵لاکھ سے تجاوز ہے۔مسلم ممالک پر نہ صرف اقتصادی پابندیاں لگائی بلکہ افغانستان ،عراق،لیبیا،چچنیا،بوسنیا اور سوڈان وغیرہ پر جوجنگیں مسلط کی گئیں وہ سب کی سب اقوام متحدہ کی رضا مندی اور زیر نگرانی مسلط کی گئیں۔
امت مسلمہ کے حوالہ سے اقوام متحدہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے مشرقی تیمور،جنوبی سوڈان اور انڈونیشیا کے ایک اکثریتی عیسائی آبادی والے جزیرے کو اسلامی ریاستوں سے محض اس لیے جدا کرکے الگ ممالک بنایا ہے کہ ان علاقوں میں اکثریت غیر مسلموں کی تھی اس کام کے لیے حق خود ارادیت کا راگ الاپہ جبکہ کشمیر،فلسطین اور برما کے مسلمانوں کو کئی دوائیوں سے ان کے جائز مطالبات اور حق خود ارادیت سے محروم رکھا ہوا ہے بلکہ حقیقت میں کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کو یہود و ہنود کے ظلم و ستم اور غلامی کی دلدل میں دھکیلنے والا اقوام متحدہ ہی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یہودیوں کو فلسطین میں یہ کہہ کر آباد کیا گیا کہ یہ ان کی عارضی سکونت ہوگئی بعد میں کہیں اور انتظام کر دیا جائے گا مگر دنیا نے دیکھا کہ اقوام متحدہ کے یہ جملے دھوکے پر مشتمل تھے اور آج عرب کے قلب فلسطین میں یہودی اسرائیل نامی نہ صرف اپنی الگ ریاست بنانے میں کامیاب ہیں بلکہ فلسطینی مسلمانوں کو انہی کی سر زمین سے مار کر نکالا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ اقوام متحدہ کی بناء پر ہو ا ہے اور ستم بالائے ستم کہ اقوام متحدہ نے آج تک فلسطین کو رکنیت نہیں دی یعنی اقوام متحدہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرتا ہی نہیں ہے تو ان کا حق خود ارادیت کیسے دے؟
اسی سے ملتا جلتا معاملہ کشمیر کا ہے آزادی پا کستان کے بعد کشمیر کے محاذ پر جب جنگ چھڑی تو مجاہدین اسلام نے تائید خدا وندی سے دشمن کے دانت تو ڑتے ہوئے نصف کشمیر بھارتی افواج کے قبضہ سے آزاد کر وا لیا۔اقوام متحدہ نے جب کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکلتا ہوا دیکھا تو پا کستانی حکومت سے جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر صلح وصفائی،افہام و تفہیم اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کا خواب دیکھایا جسے اقوام متحدہ نے اپنی ہی قرار دادوں اور قول و قرار کے مطابق کبھی سنجیدہ نہیں لیا اور کشمیری مسلمانوں کو ہندئوں کے رحم و کرم(ظلم و ستم) پر چھوڑا ہوا ہے۔
جب اقوام متحدہ کو وجود میں لانے کا مقصد لوگوں کو جنگی تباہ کاریوں سے بچانا اور بین الاقوامی بغض و عناد ختم کر کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور باہمی تنازعات کو ایک دوسرے کے افہام و تفہیم سے حل کرنا تھا تو پھر اقوام متحدہ نے اس کے لیے موثر اقدامات کیوں نہیں اٹھائے،عراق و شام میں یو میہ لاشیں گرنے والا سلسلہ کیوں جاری ہے برما میں مسلمانوں کی نسل کشی اور زندہ جلائے جانے والا معاملہ کیوں ہے،الجزائر،چچنیا اور بوسنیا کے مسلمانوں کا قتل عام کیوں ہوا،کشمیر و فلسطین کے مسلمانوں پر پچھلی کئی دہائیوں سے ہنود و یہود کے ظلم و ستم کا سلسلہ پچھلی کئی دہائیوں سے کیوں جا ری ہے،فقط امت مسلمہ ہی بحثیت مجمو عی قتل و غارت گری کا شکار کیوں ہے امت مسلمہ ہی اس وقت دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کرنے پر مجبور کیوں ہے،کہاں ہے اقوام متحدہ کا حقوق انسانی پر مشتمل چارٹر اور اس کی قانون سازی،کیا انسانوں کا اطلاق مسلمانوں پر نہیں ہوتا؟
مجھے کہنے دیجیے اور یہ بات صد فیصد درست ہے کہ امت مسلمہ کی تیزی سے بگڑتی ہوئی حالت اور مسلم ممالک میں خون مسلم سے بہتی ندیوں کا سلسلہ اگر یو نہی جاری رہا تو آئندہ تیس سالوں بعد اکثر ممالک اسلامیہ کشمیر،فلسطین،برما،عراق وشام کا نقشہ پیش کریں گئے جبکہ بعض میں تو ابھی یہ صورت حال نظر آنے لگی ہے مسلم امہ کو اس حالت تک پہنچانے میں اقوام متحدہ کے پُر کشش و پُر فریب وعدوں کابنیادی دخل ہے اپنے خود ساختہ اصولوں کے تحت اس نے پوری امت کو جکڑا ہوا ہے لہذا امت مسلمہ پر اس ادارہ کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف دنیا بھر میں ہر میسر محاذ پر جہد مسلسل کے ساتھ آواز بلند کی جائے یہاں تک کہ مستقبل قریب میں ملت اسلامیہ کو سیکورٹی کونسل کی مستقل رکنیت دی جائے یا پھر مسلم ممالک کے حکمران اس ادارے کا مکمل بائیکاٹ کر دیں۔
اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ اُمرا کے در و دیوار ہلا دو
Tag: اقوام متحدہ
-
ملت اسلامیہ اور اقوام متحدہ – محمد رضوان طاہر
-
دہشت گرد کون، مغرب یا مسلمان؟ محمد عتیق الرحمن
سٹینڈفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر فلپ زمباڈو کا خیال ہے کہ’’ دہشت گردی میں عام آبادی کو خوف زدہ کیا جاتا ہے، لوگوں کے خود پر موجود اعتماد کو مجروح کیا جاتا ہے اور ایک محفوظ و آرام دہ دنیا کو خار زار میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ دہشت گرد غیر متوقع طور پر تشدد کی کارروائی کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ دہشت گرد لوگوں کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے اس صورت میں یا تو مقابلہ کیا جاتا ہے یا گریز اختیار کیا جاتا ہے۔‘‘
دہشت گردی ایک ایسا لفظ ہے جس سے ہم سب کی واقفیت ہے اور پاکستانی اسے کئی بار سن چکے ہیں۔ ہم دہشت گردی کو قرآن مجید کی رو سے فساد فی الارض سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ اسلام بمعنیٰ سلامتی ہے۔ پیغمبر اسلام رحمۃ اللمسلمین نہیں بلکہ رحمۃ اللعالمین بن کر آئے۔ اسلام ساری دنیا میں امن وسلامتی کا داعی ہے۔ اسلام جہاں اپنے ماننے والوں کو امن دیتا ہے وہیں غیر مسلموں کے ایسے حقوق رکھے ہیں جن سے ان کی جان، مال، عزت اور آزادی محفوظ رہتی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ خبردار جس نے ذمی کافر پر ظلم کیا یا اسے نقصان پہنچایا، اس کی طاقت سے زیادہ اس سے کام لیا یا اس سے کوئی تھوڑی سی چیز بھی بغیر اس کی رضا کے لی تو کل قیامت کے دن میں ایسے شخص سے جھگڑوں گا۔جس نے کسی ذمی کافر کو اذیت پہنچائی تو میں اس کا مخالف ہوں اور جس کا میں مخالف ہوا قیامت کے دن اس کی مخالفت ہو گی۔‘‘ ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ﷺ ہے’’ جو کسی جان دار (انسان یا جانور) کو مْثلہ کرے (شکل و صورت یا حلیہ بگاڑے) اس پر اللہ تعالیٰ، ملائکہ اور بنی آدم سب کی لعنت ہے۔‘‘
مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور ایشیا کے علاقوں میں غالب اکثریت اسلام کے ماننے والے ہیں جبکہ چین، مشرقی یورپ اور روس میں بھی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی آباد ہے۔مسلم مہاجرین کی بھی ایک بڑی تعداد یورپ میں آباد ہے۔ جہاں عیسائیت کے بعد سب سے بڑا مذہب اسلام ہے اور مغربی تجزیہ نگاروں کے مطابق بہت جلد اسلام یورپ کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ مغربی ممالک میں دیگر مذاہب کے لوگ بڑی تیزی سے اسلام کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ غیر مسلم ممالک اگر ایک طرف اسلام کی اشاعت سے خوفزدہ ہیں تو دوسری طرف عالم اسلام میں معدنیات کے خزانے ان کی حریصانہ نظروں میں ہیں۔ سید عاصم محمود 1990-91 کے سالوں کے متعلق لکھتے ہیں’’ابھی مغرب اور القاعدہ کا باقاعدہ تصادم شروع نہیں ہوا تھا۔ پھر بھی مغربی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں سے ناپسندیدگی و نفرت کے ملے جلے جذبات پائے جاتے تھے۔‘‘ تاہم اس وقت ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ لیکن اس وقت یہ صورت حال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ اسلام مخالفت میں جہاں انفرادی طور پر لوگ مصروف عمل ہیں وہیں باقاعدہ طور پر یورپ میں اسلام مخالف تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں جو وقتا فوقتااسلام کے مختلف اصولوں پر طعن و تشنیع اور پابندیوں کا مطالبہ کرتے اور اسلام کو دہشت گرد مذہب گردانتے نظر آتے ہیں۔ ہالینڈ کا اسلام مخالف Greet Wilders جو کہ چوتھی بڑی سیاسی پارٹی کا بانی اور سربراہ ہے، اٹھتے بیٹھتے اسلام مخالف زہر اگلتا رہتا ہے اور قرآن مجید کو ہٹلرکی آپ بیتی سے تشبیہ دیتا ہے (نعوذباللہ )۔
اسلام اور اس کے ماننے والے امن کے داعی ہیں جبکہ بڑے بڑے حادثات میں غیر مسلم ممالک بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہوتے ہیں۔ اگر ہم پہلی جنگ عظیم کی بات کریں جو 28جون 1914ء کو آسٹریا ہنگری کے ولی عہد اور شہزادہ فرانسس فرڈی ننڈ کو سلاو دہشت گرد کی طرف سے گولی مارنے کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔ اس جنگ میں 1 کروڑ ہلاک ہوئے. ’’پچھلے ایک سو برس میں ہوئی لڑائیوں میں ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ‘‘ اور دو کروڑ دس لاکھ کے قریب افراد زخمی ہوئے۔ یکم جولائی 1916ء کو ایک دن کے اندر اند ر 57 ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔ جرمنی کے 17 لاکھ 73ہزار سے زائد، روس کے 17 لاکھ کے قریب اور فرانس کو اپنی 16 فیصد فوج سے محروم ہونا پڑا۔ کیا یہ جنگ اسلام اور اسلام کے نام لیواؤں نے انسانیت پر مسلط کی تھی؟ دوسری جنگ عظیم میں 13 سے 15 فروری 1945ء تک 3 ہزار 900 ٹن کے قریب بارود اور دیگر دھماکہ خیز مواد انسانیت پر برسایا گیا۔ یہ جنگ بھی اسلام نے انسانیت پر مسلط نہیں کی تھی۔ 60 لاکھ یہودیوں کو قتل کرنے والا ایڈولف ہٹلر بھی مسلمان نہیں تھا۔ یورپ اور جرمنی میں آج بھی ہٹلر کی حمایت اور ہولوکاسٹ کی مخالفت کرنا جرم ہے۔ شاہ لیوپولڈ ثانی کے ہاتھوں مرنے والے افراد کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ 1880ء سے 1920ء کے دوران اس کے زیر قبضہ علاقے کی 50 فیصد آبادی کم ہوئی۔ شاہ کے جبری مزدوری فلسفے کو بعد میں فرانس، جرمنی اور پرتگال نے اپنے نوآبادیاتی نظام میں اپنایا۔ میسولینی ایتھوپیا پر قبضہ کے دوران وہاں کی 7فیصد آباد ی کو قتل کیا اور 1936ء میں ہٹلر کے ساتھ اتحاد کے بعد جنگ عظیم میں کود پڑا اور جوزف سٹالن کے ہاتھوں 8 لاکھ افراد کو موت دی گئی، جبری کیمپوں میں 17لاکھ کے قریب افراد مارے گئے اور جبری ہجرت کے دوران مرنے والوں کی تعداد 3 لاکھ 90 ہزار سے زائد تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے چین، کوریا، گوئٹے مالا، انڈونیشیا، کیوبا، بلجن کانگو، پیرو، لاؤس، ویتنام، کمبوڈیا،گریناڈا، سوڈان، یوگوسلاویہ، افغانستان، عراق اور شام سمیت دیگر ممالک کے ساتھ جنگ کی یا پھر اتحادی ہونے کی صورت فضائی بم باری میں حصہ لیا۔ مصنف ایلیٹ لیٹن نے نکتہ اٹھایا کہ ‘تناسب کے اعتبار سے امریکہ، دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ قاتل پیدا کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان قاتلوں کے ذاتی، سیاسی اور مذہبی نظریات ہوں مگر یہ نہ تو کسی منظم سیاسی یا مذہبی جماعت کے رکن ہوتے ہیں اور نہ ان کی سرگرمیاں کسی پارٹی کے ایجنڈے کا حصہ، جیسا کہ آج کل دہشت گردوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
ایرن ملر کا کہنا ہے کہ’’2004ء سے 2013ء کے درمیان ہونے والے تمام دہشت گرد حملوں میں سے نصف حملے عراق، افغانستان اور پاکستان میں ہوئے اور 60 فی صد ہلاکتیں انھی ممالک میں ہوئیں اور یہ تینوں مسلم ممالک ہیں۔‘‘ دنیا میں دہشت گرد حملوں میں مرنے والے 95 فی صد مسلمان ہیں جیسے دعووں پر شک ہے، تاہم ان کے خیال میں یہ دعویٰ سچ سے بہت زیادہ دور بھی نہیں ہے۔ ایرن ملر نے اس حوالے سے کہا’’مسلم اکثریتی ممالک میں زیادہ تر حملے مرکوز ہونے کی صورت حال میں یہ دعویٰ ناممکنات میں سے نہیں ہے۔‘‘ 2004ء سے 2013ء کے درمیان برطانیہ میں 400 دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ ان میں سے زیادہ تر شمالی آئرلینڈ میں ہوئے لیکن زیادہ تر میں ہلاکتیں نہیں ہوئیں۔ اسی درمیان امریکہ میں 131 حملے ہوئے اور 20 سے بھی کم ہلاکتیں ہوئیں۔ فرانس میں اس مدت میں 47 حملے ہوئے جبکہ اس دوران عراق میں 12 ہزار حملے ہوئے اور ان میں 8ہزارسے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ذرا مزید ماضی بعید میں جائیں تو یورپی ممالک اور شمالی امریکہ باقی دنیا کو سینکڑوں برس سے تشدد، جنگ وجدل، قتل وغارت گری اور دیگر ہتھکنڈوں سے فتح کیے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے فلپائن پر چڑھائی کی اور فلپائنی عوام کو قتل کیا، انگلستان نے ہندوستان پر قبضہ کیا، فرانس نے الجزائر پر چڑھائی کی اور بیلجیئم نے افریقہ کے لاکھوں افراد کو قتل کیا. یورپ کی تاریخ تو خانہ جنگی سے بھرپور تاریخ ہے۔ برطانیہ نے واشگٹن کو جلا کر راکھ کر دیا تھا۔ سترہویں صدی کی ایک جنگ میں جرمنی کی ایک تہائی آبادی ہلاک کر دی گئی تھی اور بیسیویں صدی کے بارے میں توکچھ بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔ جس میں جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم اور ہٹلر، میسولینی اور جوزف سٹالن جیسی شخصیات پیدا ہوئیں۔ افغانستان کے اوپر مسلط ہوئی جنگ میں 1ل اکھ 73ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئیں اور حملہ کرنے والا کوئی اور نہیں امریکہ اور نیٹو اتحاد ہے۔ اس سے پہلے افغانستان پر روس گرم پانیوں کی تلاش میں یلغار کرچکا ہے۔ عراق پر امریکی حملے کی صورت میں ایسوسی ایٹڈ پریس کے محتاط اندازے کے مطابق 1لاکھ 10ہزار لوگ ہلاک ہوئے۔ شام میں جاری خانہ جنگی میں امریکہ و روس جیسی طاقتوں کی پراکسی وار سے 4 لاکھ 70کے قریب ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ زخمیوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے اور مہاجرین کی تعداد اس کے ماسوا ہے جو در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور بھوک،گرمی، سردی اور بیماری سے جوہلاکتیں ہوئیں وہ الگ ہیں۔
پاکستان، سعودی عرب، اور ترکی سمیت دیگر اسلامی ممالک میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیاں اس کے علاوہ ہیں۔ جس میں نام نہادمسلمان (انہیں مسلمان کہنا بھی لفظ مسلمان کی توہین ہے ) جنہیں پورے عالم اسلام میں سے کسی بھی اسلامی رہنما یا معروف اسلامی سکالر کی حمایت حاصل نہیں ہے ملوث پائے جاتے ہیں۔ جن کے متعلق خبریں اور انٹیلی جنس رپورٹس کچھ اور ہی کہانی بیان کرتی ہیں۔ داعش کے متعلق تو میڈیا میں خبریں آچکی ہیں کہ اس کو بنانے میں امریکہ و مغرب کا کردار ہے۔ فلسطین وکشمیر میں یہود و ہنود کس کی ملی بھگت سے مسلمانوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں؟ فلسطینی مجاہدین کو دہشت گرد کہا جاتا ہے اور کشمیریوں کی حمایت تک کرنے والوں کو بھارت دہشت گرد ڈکلیئر کروا دیتا ہے۔ پچھلے 75دن سے بھارت کشمیر میں مسلمانوں پر جدید ترین ٹیکنالوجی آزما رہا ہے۔ اسرائیلی ڈرونز، پیلٹ گنز اور دیگرجدید اسلحہ ان کشمیری حریت پسندوں پر چلایا جا رہا ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ برما میں مسلمانوں کو بدھ مت گاجر مولی کی طرح کاٹتے ہیں، جہاں بھر کا ظلم ان پر برما کی حکومت روا رکھے ہوئے ہے،گلیوں، بازاروں اور گھروں میں برمی مسلمانوں کو زندہ جلایا جاتا ہے۔ فلسطین میں اسرائیل بیت المقدس کے محافظ نہتے فلسطینیوں کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں اکٹھا کرکے شہید کر رہا ہے۔ کبھی غزہ کا پانی بند کردیا جاتا ہے تو کبھی عین سکول کی چھٹی کے وقت بمباری کرکے معصوم فلسطینی بچوں کو شہید کیا جاتا ہے۔ دنیا میں فساد کی جڑ اسلام کے نام لیوا بالکل نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے مسلم ممالک میں خانہ جنگی کروائی۔ کہیں خود جنگ مسلط کی اور کہیں اپنے ایجنٹس کے ذریعے خانہ جنگی کروادی۔ عالم اسلام اس وقت جس اضطراب کی کیفیت سےگزر رہا ہے، اس میں عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کو اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی روش چھوڑنی ہوگی۔ دہشت گرد کسی بھی روپ میں ہو، اسلام پسند بالکل نہیں ہوسکتا۔ دنیا پر جو جنگ مسلط ہوچکی ہے یا مستقبل قریب میں ہوگی اس میں عالم اسلام کی پالیسیوں کا کوئی کردار نہیں ہوگا بلکہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی ہٹ دھرمی اور عالم اسلام کی دولت پر قبضہ کرنے کی خواہش اس کی بنیادی وجہ ہوگی۔ جدید ترین جنگوں میں میڈیا کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ مسلم ممالک کو اپنے میڈیا کو اس حوالے سے تیار کرنا ہوگا تاکہ اسلام اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت میں ذرائع ابلاغ اپنا کردار ادا کرسکے۔ عالم اسلام کو اتحاد عالم اسلامی کی جانب جلد سے جلد بڑھنا ہوگا تاکہ جو جنگ اسلام کے نام پر حرمین شریفین کے دروازوں پر پہنچ چکی ہے اسے ختم کیا جا سکے۔
-
گوگل، فیس بک اور امریکہ کا مظلوموں کے خلاف اتحاد – غلام نبی مدنی
’’میرا گھر میری روح ہے۔ اسرائیل نے مجھ سے میرا گھر چھین لیا۔ میں اپنے بچوں کو لے کر کہاں جاؤں گا؟ کیسے سانس لوں گا؟ میں تنہا ان سے کیسے لڑوں؟ آج میں اس قدر کمزور ہوگیا کہ میں اپنی روح کو بچانے کے لیے بس فریاد کر رہا ہوں‘‘۔
یہ الفاظ50 سالہ ایک مظلوم فلسطینی مسلمان کے ہیں، جنہوں نے اپنے آبائی گھر کے اسرائیلی غاصبوں کے قبضے کے خلاف ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے اپنے مسلمان بھائیوں سے اپنے دکھوں کی دوا کے لیے فریاد کی۔المیہ ہے کہ امت مسلمہ پچھلے سترسالوں سے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے لیے کچھ نہ کرسکی۔ 1946ء میں بحر احمر سے لے کر شمال میں بحر متوسط تک کی ساری پٹی، مصر سے لے کر اردن اور شام کی حدود تک سارا علاقہ فلسطینی مسلمانوں کے پاس تھا۔ اسرائیلی یہودی شمال تک محدود تھے جبکہ اِس وقت صرف غزہ کی چھوٹی سی پٹی، اور مغربی کنارہ جس کا رقبہ 5655 سکوائر کلومیٹر ہے، اس میں بھی صرف 18 فیصد زمین فلسطینیوں کے پاس ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے توفلسطین پر اسرائیل کے قبضے کی عملا ابتدا 1855ء میں اس وقت شروع ہوئی جب عثمانی فرمانروا نے فلسطین بالخصوص ’’قدس‘‘ کی زمین فروخت کرنے کے لیے پابندی اٹھائی، اور مشہور برطانوی یہودی بینکار ’’موسی مونٹیفوری‘‘ نے امریکی یہودی سے مل کر، قدس میں غیر مسلم شخص سے ایک باغ اور پھر ایک بہت بڑا پلاٹ خریدا۔ یہ جگہ آج بھی یہودیوں کے ہاں ’’دیوار مقدس‘‘ کے قریب دوسری مقدس جگہ ہے۔ پھر رفتہ رفتہ یہودیوں کی آبادی فلسطین میں بڑھتی گئی اور 1948ء میں برطانیہ کے آشیرباد سے یہودیوں نے ’’ریاست در ریاست‘‘ کے تحت اسرائیل نام سے فلسطینی ریاست میں اپنی ’’غاصب ریاست‘‘ کا اعلان کردیا، جس کے ساتھ ہی فلسطین میں انسانیت کی تذلیل کا بھیانک کھیل شروع ہوگیا۔
افسوس کہ اُس وقت امت مسلمہ باہمی رسہ کشیوں میں مصروف رہی اور اسلامی ممالک کے حکمران محض اپنی کرسیاں بچانے کے لیے رسمی مذمتی بیانات سے زیادہ کچھ نہ کرسکے۔بجا کہ پاکستان سمیت اقوام متحدہ کے ممبر 31 ممالک نے اسرائیل کو اب تک تسلیم نہیں کیا۔ لیکن ایک طرف اسرائیل کو تسلیم نہ کرنا اور دوسری طرف اسرائیل کے اتحادی امریکہ اور برطانیہ سے قریبی دوستی، ( اسرائیل کو امریکہ کی طرف سے حالیہ دنوں دی جانے والی 38 بلین امریکی ڈالرز کی فوجی امداد جو لامحالہ اسرائیل فلسطینی مظلوموں پر گولہ بارود گرانے میں استعمال کرے گا) اس پر خاموشی سے، یقینا اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے والے ممالک کی اصل حقیقت بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ سفارتی تعلقات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، مگر اپنے نظریے، سوچ، عقیدے حتی کہ اپنے مسلمان بھائیوں کو قربان کرکے تعلقات بنانا پست اور کمزور قوموں کی علامت ہے۔ اسرائیل کو دی جانے والی حالیہ امریکی امداد پر او آئی سی ایسی اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیموں کی خاموشی بھی بے بسی کی علامت ہے، جس سے اسرائیلی جارحیت کو مزید پھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔
عالم اسلام کی مشترکہ بےحسی اور غفلت ہی کا نتیجہ ہے کہ دوماہ پہلے دنیا کے مشہور سرچ انجن گوگل، جو دنیامیں نقشہ جات کے حوالے سے گوگل میپس کے ذریعے منفرد اور آسان سہولت فراہم کرتا ہے، اور جسے پوری دنیا میں استعمال کیا جا رہا ہے، نے فلسطین کو دنیا کے نقشے سے غائب کرکے سارا علاقہ اسرائیل میں شامل دکھایا۔گوگل کا یہ دوہرا سلوک ہنوز برقرار ہے۔ اسی طرح چند دن پہلے سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ فیس بک سے اسرائیل نے ایک معاہدہ کیا، جس میں اسرائیلی وزیرداخلہ گلڈ اردن اور وزیر انصاف آئیلٹ شیکڈ نے فیس بک انتظامیہ سے میٹنگ کی، اور انہیں اس بات پر مجبور کیا کہ فیس بک پر اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم کا کوئی مواد اپلوڈ کیا جائے یا فلسطین کی حمایت میں کوئی بھی شخص کسی بھی قسم کا ڈیٹا اپلوڈ کرے تو اسے فورا ڈیلیٹ کردیا جائے۔ فیس بک انتظامیہ نے اسرائیل کو مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ آئیلٹ شیکڈ نے کہا کہ پچھلے چارہ ماہ میں اسرائیل مخالف مواد ہٹا نے کے لیے 158 درخواستیں فیس بک کو اور 13 درخواستیں یوٹیوب کو بھیجیں، جن کا 90 فیصد مثبت جواب ملا۔
مذکورہ تین واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام کس قدر بےحسی اور غفلت کا شکار ہے۔ امریکہ نے تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بھی ملک کو 38 بلین ڈالرز کی فوجی امداد دی ہے، اس پر کسی اسلامی ملک کی طرف سے کوئی مذمت سامنے نہیں آئی۔ جب ہمارا یہ حال ہے تو دیگر غیرمسلم ممالک کیوں کر فلسطینی ایشو پر مسلمانوں کے حمایت کریں گے؟ اسرائیلی جنگی جرائم پوری دنیا کے سامنے ہیں کہ کیسے فلسطینیوں کو آئے روز گولیاں مارکر شہید کیا جاتاہے، کیسے ان کے گھروں اور زمینوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کے منہ پر اسرائیل کو مزیددی جانے والی یہ امریکی امداد ایک طمانچہ ہے۔ پھر گوگل اور فیس بک انتظامیہ کا باوجود مساوات اور آزادی اظہار رائے کا نعرہ لگانے کے، اسرائیل کی حمایت میں فلسطینوں کے ساتھ دوہرا سلوک بدترین خیانت اور بھونڈے انداز میں تاریخ مسخ کرنے کا بھیانک حربہ ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
فلسطین یعنی قبلہ اول کی حفاظت امت مسلمہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ تبھی عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے لے کر صلاح الدین ایوبی ؒ تک مسلمانوں نے مل کر قبلہ اول کی سربلندی اور حفاظت کے لیے جان لڑائی۔ آج اگر ستر سالوں میں ہمارے سامنے فلسطین کے اکثر حصے پر یہودیوں نے قبضہ کرلیا، تو شاید کل تک گریٹر اسرائیل کی حدود حرمین شریفین تک وسیع ہوجائیں، جو اسرائیل سے تقریبا پندرہ سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ یاد رہے کہ گریٹر اسرائیل کا یہ ہدف شام، عراق اور یمن کے راستے پھیلایا جا رہا ہے۔اس لیے بروقت جاگنا امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ سوشل میڈیا سے لے کر بین الاقوامی میڈیا اور امریکہ تک سارے ذرائع اسرائیل استعمال کررہاہے، تو پھر کیوں عالم اسلام بالخصوص او آئی سی دنیا کے دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر امریکہ اور اسرائیل کے حالیہ گٹھ جوڑ کے خلاف اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر آواز بلند نہیں کرتا؟ بحیثیت مسلمان یہ ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ فلسطینی مسلمانوں اور قبلہ اول کی حفاظت و مدد کرے ،ان پر کیے جانے والے مظالم دنیا کے سامنے آشکار کرے، اور گوگل، فیس بک، یوٹیوب سمیت امریکہ اور اقوام متحدہ کے فلسطینی مظلوموں کے ساتھ روا رکھے جانے والے دوہرے سلوک کو واضح کرے۔
-
نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا – رضوان الرحمن رضی
میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہو رہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری حکومت کو حاصل ہوا، ورنہ وردی والی جمہوریت کے دور میں تومعاملہ کبھی ملک میں موجود ’’نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ کے خلاف عالمی مدد کی بھیک مانگنے کی جدوجہد سے آگے نہیں بڑھ پایا جو کہ دراصل دہشت گردی میں ملوث ہونے کا بالواسطہ اعتراف ہوا کرتا تھا۔
گذشتہ پندرہ سال تو ہمیں وہ پچیس لاکھ افغان مہاجرین بھی بھولے رہے، جن کی ہم اب تک میزبانی کرتے رہے ہیں۔ اور کشمیر کا تو ذکر ہی کیا کہ اس پر کمانڈو جنرل پرویز مشرف نے وہ وہ قلابازیاں کھائیں اور اس کے اتنے ایک حل تجویز کر دیے کہ محسوس ہونے لگا کہ مسئلہ کشمیر اب دفن ہوگیا ہے۔ لیکن کشمیری بہت سخت جان نکلے اور برہان مظفر وانی نے خون دے کر اپنی آزادی کی جدوجہد کو جو مہمیز بخشی تو اب یہ لازم تھا کہ پاکستان کے عوام کی منتخب قیادت اس پر اپنے ووٹرز کے جذبات کے عین مطابق عمل کرتی۔ جس طرح بھارتی فوجیون نے شہید کا گلا کاٹنے کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالی اور بھارتی عوام نے اس پر تالیاں بجا کر داد دی تو پوری چناروادی میں آگ سی لگ گئی۔ اب وہاں کا ہر جوان برہان مظفر بننے گھر سے نکل پڑا ہے۔
بھارت نے اس کو جنگی جنون بنانے کی کوشش کی اور پاکستان کی بحثیت ریاست اور اس کے عوام کا ردعمل جاننے کے لیے ایک ماحول بنایا تو اسے سرحد سے اس پار سے مسکت جواب گیا جس سے اس کی ’تسلی‘ ہو گئی۔ اس کے میڈیا کی کذب بیانی سے دیا گیا تاثر کہ نیپال، بنگلہ دیش اور افغانستان بھی پاکستان مخالفت میں اس کے ساتھ ہیں، چوبیس گھنٹے کی عمر بھی نہ جی پایا۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے سوشل میڈیا پر پاک فوج کے ایک جرنیل کے کپتان صاحبزادے کے ہاتھوں موٹروے پولیس کے انسپکٹرز کی درگت بنانے کی وجہ سے سوشل میڈیا پر ہمارے اداروں کے بارے میں جن جذبات کا اظہار ہو رہا تھا، وہ سب پس منظر میں چلے گئے اور قوم نے یک زبان ہو کر بتایا کہ ہم کس طرح یک جان ہیں۔ یہ پیغام نئی دہلی میں بہت تشویش کے ساتھ سنا اور سمجھا گیا۔
وزیراعظم کی تقریر سے محض ایک دن قبل برطانوی فوج کے سربراہ کی اسلام آباد آمد، پاکستان کے آرمی چیف سے ملاقات اور اس کے بعد آرمی چیف کا میاں نواز شریف کو امریکہ فون کرنا اس امر کی غمازی کرتے تھے کہ بھارتی خواہش پر امریکہ نے اپنا کوئی بالواسطہ پیغام بھیجا ہے۔ دراصل امریکی خواہشات کے ہم تک پہنچانے کے لیے گذشتہ ڈیڑھ دہائی سے یہی راستہ استعمال ہوتا رہا ہے۔ لیکن ظاہر ہے سامنے ایک فون پر ڈھیر ہوجانے والی قیادت نہیں تھی، اس لیے تقریر سے تو یہی پتہ چلا کہ بات نہ بن سکی۔ اور آخرکار امریکی دفترِ خارجہ کا ایک غیرجانبدار سا بیان آ گیا کہ دونوں ملک اپنے مسائل کو باہمی گفت و شنید سے حل کریں، حالاں کہ پاکستان کی قیادت یہ باور کروا چکی تھی کہ باہمی مذاکرات سے مسئلہ حل نہ ہونے کی وجہ سے ہی ہم سے عالمی فورم پر لے کر آئے تھے۔
میاں نواز شریف نے اقوامِ متحدہ روانہ ہونے سے پہلے مقامی طور پر کچھ اداروں سے بھی رعایتیں طلب کی تھیں جو عطا کر دی گئیں۔ عمران خان صاحب جو اس سے قبل رائیونڈ دھرنے کی تاریخ بیس سے بائیس ستمبرکے درمیان رکھنے پر مُصر تھے، انہوں نے اس کو دس دن آگے بڑھا دیا اور قادری صاحب جو برطانیہ پدھارنے سے پہلے یہ کہتے ہوئے پائے گئے تھے کہ وہ وہاں جا کر یورپی یونین کے سامنے موجودہ نواز شریف حکومت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مہم چلائیں گے، ان کو بھی ایک سخت ’’شٹ اپ‘‘ کال دی گئی۔ کال اتنی سخت تھی کہ موصوف تا دمِ تحریر نہ صرف بولنے سے انکاری ہیں بلکہ ان کی عمرانی دھرنے مین شرکت بھی مشکوک نظر آتی ہے۔
میاں نواز شریف نے کمال ہوشیاری اور عقل مندی سے خود پر ’مودی کا یار‘ ہونے والے الزامات لگانے والوں کو مودی کی بغل میں کھڑا کردیا ہے۔ وہ اپنے اوپر پڑنے والا مقامی دبائو بڑی چالاکی سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس ڈائس پر چھوڑ آئے ہیں جہاں انہوں نے کھڑے ہو کر تقریر فرمائی تھی۔ اب ان کے سیاسی مخالفین کو ان کے خلاف ماحول بنانے کے لیے معاملہ پھر صفر سے شروع کرنا پڑے کرے گا جس کے لیے ’بہاماس‘ سے نئی کمک پہنچ چکی ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے بھی پہلی مرتبہ پیشہ ورانہ دیانت داری کے ساتھ اس اہم موقع کی تیاری کی اور شاید ان کے لیے بھی پہلا موقع تھا کہ انہیں معاملات کو خالص پیشہ ورانہ انداز میں دیکھنے کی ’’اجازت ‘‘ ملی تھی۔ اور ’جس کا کام اسی کو ساجھے‘ کے مصداق جب یہ کام پیشہ ورانہ ہاتھوں میں آئے (جن میں سے کسی کو دعویٰ نہیں تھا کہ اسے سب پتہ ہے) تو سائیڈ لائن پر او آئی سی کا اجلاس بھی ہوا، جس میں پاکستان کی ’ہرقسم‘ کی حمایت کا نہ صرف زبانی اعادہ کیا گیا بلکہ اس کے عملی ثبوت بھی نظر آئے۔ دنیا بھر کی اہم قیادت سے ملاقاتیں بھی ہوئیں اور ان تک اپنا نکتہ نظر بھی موثر انداز میں پہنچایا گیا۔
جب اجلاس سے پاکستانی وزیراعظم نے خطاب کرلیا اور اس ضمن میں امریکی و بھارتی خواہشات کو بھی خاطر میں نہیں لائے تو پھر ایران کے صدر کو بھی پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات کرنا یاد آ گیا۔ اور اس کے بعد ایران نژاد پاکستانی لابی، سوشل میڈیا پر روبہ عمل ہو گئی جس کا واحد مقصد سعودی عرب کو شیریں مزاری اور مشاہد حسین ٹائپ کی پارلیمانی تقریر کے موافق سوشل میڈیائی گدڑ کٹ لگانا اور گالم گلوچ کرنا تھا۔ حالاں کہ طے شدہ معاملات کے مطابق او آئی سی، جس کی نمائندگی سعودی عرب کے پاس تھی، اس نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سائیڈ لائن پر اجلاس طلب کر کے پاکستان کو جو سفارتی کمک فراہم کی تھی، اس نے بھارت کا سارے کا سارا بیانیہ اڑا کے رکھ دیا تھا، شاید اسی کا اندازہ کرتے ہوئے بھارت نے اپنے نودریافت شدہ ’متر‘ امریکہ کو اس معاملے میں اتارا۔
سوشل میڈیا پر اور تو کچھ نہیں ہوسکا لیکن سب سے پہلے یہ بیانیہ چھوڑا گیا کہ نواز شریف نے جی ایچ کیو کی لکھی ہوئی تقریر پڑھی۔ حالاں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ جی ایچ کیو ادھر ہی واقع ہوا کرتا تھا جب بہادر کمانڈو جنرل پرویز مشرف نے کشمیر پر قلابازیاں لگانے کی انتہا کر دی تھی۔ تو پھر انہوں نے اتنی اہم تقریر اپنے چیف کو کیوں نہیں لکھ کر دی؟ حیرت ہے۔
بھارت نے بھی میاں نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے بعد جنگی جنون سے مراجعت کا سفر اختیار کر لیا ہے، مناسب ہوگا کہ ان کے مقامی ناقدین بھی کچھ دنوں تک اپنے خیالات سے مراجعت نہ بھی کریں تو کم ازکم میاں نوازشریف کی وطن واپسی کا انتظار کرلیں ۔ان سے گذارش ہے کہ میاں صاحب بھی ادھر ہی ہیں اور سیاست بھی کہیں نہیں جاتی، اور اب قدرے تاخیر سے ہی سہی لیکن اگر ایرانی قیادت کی طرح، جناب عمران خان کو بھی کشمیریوں کا بہتا خون نظر آ گیا ہے تو پھر کیوں نہ چند روز کے لیے وہ کان بند کر لیں، کہ بعض موقعوں پر خاموشی بھی بہت بڑی عقل مندی ہوتی ہے۔
-
جنرل اسمبلی کا اجلاس اور پاکستان کو سفارتی محاذ پہ درپیش چیلنجز – محمد اشفاق
پاکستان اور وزیراعظم نواز شریف کے لیے بھارت کی بدلی ہوئی حکمت عملی کی وجہ سے سفارتی محاذ پہ چیلنجز بڑھتے چلے جا رہے ہیں.
بھارت پاکستان کے حوالے سے دو تین پہلوؤں پہ ایک ساتھ کام کر رہا ہے. ایک تو وہ کشمیر کے معاملے پر پاکستانی کی جارحانہ سفارتی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے ناراض بلوچ رہنماؤں کو اپنے ساتھ ملا کر بلوچستان کے مسئلے کو ہائی لائٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے. دوسرا اور زیادہ خطرناک وار ”سی پیک“ کو متنازعہ بنانا ہے. اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موجودہ سیشن میں بلوچستان کے خود ساختہ نمائندے جناب مہران مری نے سی پیک کو چیلنج کر کے بھارتی عزائم آشکار کر دیے ہیں. ان کا کہنا یہ ہے کہ بلوچی سرزمین کا چین کے حوالے کیا جانا ان کے لیے ناقابل قبول ہے اور وہ پاکستان اور چین کے خلاف عالمی عدالت تک جانے کو تیار ہیں. دوسری جانب براہمداغ بگٹی صاحب نے بھی بھارت میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ساتھ میں ملتے جلتے عزائم دہرائے ہیں. ان کے اس موقف کو عالمی سطح پہ زیادہ پذیرائی تو کبھی نہیں مل پائے گی، لیکن یہ ان کا مقصد بھی نہیں ہے. اصل مقصد چین کو سی پیک کے معاملے پر تشویش کا شکار کرنا ہے. ایک چینی تھنک ٹینک کے مطابق چین کو اندیشہ ہے کہ سکیورٹی خطرات کے سبب شاید سی پیک کی لاگت ابتدائی تخمینے سے کہیں زیادہ بڑھ جائے گی، اور ہمسایہ ممالک خصوصا افغانستان کی مخالفت کی وجہ سے اس سے شاید وہ معاشی فوائد بھی نہ حاصل ہو پائیں جن کی توقع کی جا رہی تھی. چین اس کے باوجود یقینا سی پیک کو ہر صورت میں آگے بڑھانا چاہےگا مگر چینی حکومت کی تشویش پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے.
بھارت افغانستان کو اپنا ہمنوا بنا کر اکنامک کاریڈور کو مزید متنازعہ بنانا چاہتا ہے، ہماری بدقسمتی کہ افغانستان کے امور پر فیصلہ سازی کا اختیار ہم سویلین حکومت کو دینے پر تیار نہیں ہیں اور ہماری اپنی سوچ کا یہ حال ہے کہ آج چلغوزوں کی تجارت پہ پابندی لگا کر ہم اپنی وسط ایشیائی ریاستوں سے مستقبل کی اربوں ڈالر کی تجارت کو داؤ پہ لگا رہے ہیں. ہمیں یہ چیز سمجھنا ہوگی کہ سی پیک کی کامیابی کے لیے افغانستان کا کردار بہت اہم ہے اور اسے ہم نے ہر صورت ساتھ رکھنا ہے. اشرف غنی جیسے سمجھدار اور صابر لیڈر کا بھارتی کیمپ میں چلے جانا ہمارے پالیسی سازوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے. مزید ستم یہ کہ اپنے جن اثاثوں کی خاطر ہم نے اشرف غنی کو ناراض کیا، آج وہ بھی ہم پہ اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں. افغانستان بھی اگر بھارت کی ہمنوائی میں جنرل اسمبلی میں کراس بارڈر ٹیررازم کا راگ الاپتا ہے تو ہمارے لیے مشکلات مزید بڑھ جائیں گی. اور یہی وہ تیسرا پہلو ہے جس پہ بھارت کام کر رہا ہے.
اڑی میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعے کو بھارت ممکنہ حد تک اچھالےگا اور اس سے پاکستان کے کشمیر پہ موقف کو کمزور کرنے کی کوشش کرے گا. بھارت کی دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش ہوگی کہ کشمیر میں موجودہ شورش ایک عوامی تحریک نہیں ہے بلکہ پاکستان کے سپانسرڈ دہشت گردوں کا کیا دھرا ہے. اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے موجودہ اجلاس میں بھارتی نمائندے نے نہ صرف کشمیر بلکہ بلوچستان میں بلوچ راہنماؤں کی گرفتاری،گمشدگی اور قتل، سندھ میں اقلیتوں کو نشانہ بنائے جانے اور ایم کیو ایم راہنماؤں کی گرفتاری، کے پی کے میں جاری آپریشن میں لاکھوں لوگوں کے بےگھر ہونے کے حوالے سے بھی پاکستان پہ سنگین الزامات عائد کیے ہیں. اس سے بھارت کے عزائم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے.
اس کے جواب میں ہم کیا کر رہے ہیں؟
وزیراعظم نواز شریف نے اپنے بیس نمائندے مختلف ممالک میں بھیجنے کا جو فیصلہ کیا وہ بھی ایک مثبت اقدام تھا. سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو وزیراعظم کا خط بھی ایک اچھا فیصلہ ہے. جنرل اسمبلی سے خطاب سے پہلے کشمیر جانا اور جناب راجہ مسعود کو اپنے ساتھ نیویارک لے کر جانا بھی اچھا سفارتی اقدام ہے جبکہ وزیراعظم سائیڈ لائن میٹنگز میں مصروف ہوں گے، راجہ صاحب او آئی سی کے کشمیر پہ ورکنگ گروپ کو بریفنگ دیں گے.جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں پانچ چھ ایشو مرکزی اہمیت رکھتے ہیں، جن میں شام کی صورتحال، یوکرائن کا تنازعہ، شام اور یوکرائن دونوں میں سیزفائر پر عملدرآمد یقینی بنانا، مہاجرین کا مسئلہ جسے پہلی بار اتنی اہمیت ملی ہے. شام کے ایک علاقے کو سیف زون قرار دے کر وہاں لوگوں کی آبادکاری، ایران سے کیے گئے جوہری معاہدے پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ ان ایشوز میں شامل تھے. پاکستان کی بروقت اور تندوتیز سفارتی کوششوں کے نتیجے میں اب عالمی ذرائع ابلاغ ان معاملات کے ساتھ ساتھ کشمیر پر پاک بھارت کشیدگی کا بھی ذکر کر رہے ہیں، جو بلاشبہ ہماری کامیابی ہے. کئی برسوں بعد کشمیر کے معاملے کو ایک بار پھر عالمی توجہ ملنے کا امکان پیدا ہوا ہے، اسے اب ضائع نہیں ہونا چاہیے.
کل جنرل اسمبلی سے وزیراعظم کا خطاب اس حوالے سے بہت اہم ہے. ان کے الفاظ کے چناؤ سے اندازہ لگایا جائے گا کہ پاکستان اس معاملے پہ کس حد تک جانے کو تیار ہے. عین ممکن ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے بھی پاکستانی وزیراعظم ایک دو وضاحتی جملے کہہ دیں، جبکہ بلوچستان کے معاملے پر بولنا اس مسئلے کو زیادہ اہمیت دینے کے مترادف ہوگا اس لیے شاید اس پر خاموشی اختیار کی جائے، یا پھر یہ بھی امکان ہے کہ اسے بھارتی مداخلت کے ثبوت کے طور پہ پیش کیا جائے.
ایک سخت اور جارحانہ تقریر وزیراعظم کی ضرورت بھی ہے. طاہرالقادری صاحب نے مسلسل وزیراعظم کو سکیورٹی تھریٹ قرار دیا ہے اور ان پہ بھارت نوازی کے سنگین الزامات لگائے ہیں، گو کہ قادری صاحب کو کوئی بھی سیریس نہیں لیتا، مگر ایک نرم تقریر مخالفین کو ان الزامات کا اعادہ کرنے پہ اکسائے گی. دوسری جانب عمران خان صاحب کی ایجی ٹیشن کے خلاف عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے بھی اور فوج کو راضی رکھنے کے لیے بھی ایک جارحانہ اور تندوتیز تقریر کام آئے گی. اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم کراؤڈ کے لیے کھیلنا پسند کرتے ہیں یا پھر ایک ٹھوس، سنجیدہ مگر مدبرانہ موقف اپناتے ہیں.
مگر یہ چیلنجز محض جنرل اسمبلی کے اجلاس تک محدود نہیں ہیں، اب یہ طے ہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کی بھرپور کوشش ہوگی کہ پاکستان کو خارجی محاذ پہ دفاعی پوزیشن پہ دھکیلا جائے. نومبر میں پاکستان میں سارک سربراہ اجلاس ہونا ہے جس میں چینی صدر اور بھارتی وزیراعظم کی شرکت متوقع تھی، پاکستان کے پاس بین الاقوامی امیج بہتر بنانے، سارک کے چھوٹے ممبرز سے اپنے کشیدہ تعلقات بہتر کرنے اور سفارتی محاذ پہ چند اچھے پوائنٹ سکور کرنے کا بہترین موقع تھا مگر اب یہ اجلاس بھی منسوخ ہوتا دکھائی دے رہا ہے. ہمیں یہ سوچنے کی بھی ضرورت ہے کہ وہی سارک جس میں کبھی بھارت اور نیپال کو چھوڑ کر سب ملک ہمارے ہم خیال ہوا کرتے تھے، آج اس میں سری لنکا کے علاوہ ہمیں اپنا کوئی اور ہمدرد کیوں نہیں ملتا. بری خبر یہ بھی ہے کہ سری لنکا کے موجودہ صدر بھی اپنی بھارت نوازی کے لیے مشہور ہیں.
ہمیں اپنے خیرخواہ بڑھانے اور ناقدین کم کرنے کی اشد ضرورت ہے. اس کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنا گھر سیدھا کرنے کی کوشش کریں، بلوچستان اور افغانستان کے مسئلوں پہ سویلین حکومت کو آگے بڑھ کر حالات سنبھالنے کا موقع دیں. اپنے ملک میں موجود عسکریت پسندوں کو، خواہ وہ ماضی میں ہمارے کتنے ہی لاڈلے کیوں نہ رہے ہوں، یہ موقع بالکل نہ دیں کہ وہ کشمیر میں کم سن بچوں کی قربانیوں کے نتیجے میں پنپنے والی خالصتا مقامی تحریک کو اپنے کسی بیہودہ ایڈونچر سے سبوتاژ کر سکیں. لائن آف کنٹرول پہ نگرانی کا نظام بہتر کیا جانا چاہیے، اب ہم مجاہدین درآمد یا برآمد کر کے کشمیر کاز کو فائدہ نہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گے. زمانے کے انداز بدلے گئے، اب ہماری اسی کے عشرے کی پالیسیاں ہمارے کام نہیں آنے والی.
پاکستان کے لیے آنے والے ماہ و سال آسان نہیں ہیں، مگر یہ پاکستانیوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں رہی. ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری حکومت اور ادارے متوقع خطرات سے پوری طرح آگاہ ہوں اور ان سے نبٹنے کا ایک واضح لائحہ عمل رکھتے ہوں.
-
اقوام متحدہ کے حاشیے پر کشمیر کا مقدمہ – فاروق اعظم
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 71واں سالانہ اجلاس نیو یارک میں شروع ہوچکا ہے۔ پیر کے روز تارکین وطن اور شام کے بحران جیسے بڑے مسائل پر اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا۔ جس کا مقصد آئندہ دو سالوں میں پناہ گزینوں کے سبب دنیا پر پڑنے والے اثرات سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دینا تھا۔ جنرل اسمبلی کا عمومی اجلاس منگل 20 ستمبر سے شروع ہوکر آئندہ ایک ہفتے تک جاری رہے گا۔ جس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے سربراہانِ مملکت اور مندوبین اپنا نقطہ نظر پیش کریں گے۔ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں امریکی صدر بارک اوباما آخری مرتبہ شرکت کر رہے ہیں، جب کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کا بھی یہ آخری اجلاس ہے۔ قریباََ ایک عشرے تک عالمی ادارے کے سربراہ رہنے کے بعد وہ 31 دسمبر کو اپنے منصب سے سبک دوش ہو رہے ہیں۔ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر اعظم نواز شریف کر رہے ہیں۔ وہ بدھ 21 ستمبر کو اجلاس کے 17ویں مقرر ہوں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف اپنے خطاب میں پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ 70 برس سے باعثِ نزاع بننے والے مسئلہ کشمیر پر خصوصی روشنی ڈالیں گے۔ دوسری جانب بھارت کا مؤقف پیش کرنے کے لیے نریندر مودی کے بجائے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نمائندگی کر رہی ہیں، ان کا خطاب 26 ستمبر کو ہوگا۔
جنرل اسمبلی کے 71ویں اجلاس میں مسئلہ کشمیر ایک ایسے موقع پر زیر بحث ہونے جا رہا ہے، جب پاک بھارت کے مابین تعلقات کشیدگی کی انتہاء پر ہیں۔ گزشتہ دنوں مقبوضہ کشمیر میں اُڑی کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر بڑے حملے کے بعد بھارت نے ایک بار پر پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے، جس کی پاکستان نے سختی سے تردید کی ہے۔ علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ ڈھائی ماہ سے زبردست تحریک بھی برپا ہے۔ جس میں اب تک سو سے زائد شہادتیں ہوچکی ہیں اور زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اُڑی حملے کے تناظر میں تجزیہ کاروں اور مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت اس حالیہ حملے پر ’’کراس بارڈر ٹیررازم‘‘ کا شدید واویلہ کرکے عالمی رائے عامہ کو اپنی ’’مظلومیت‘‘ کی جانب مبذول کرائے گا۔ یہ کہنا بڑی حد تک درست ہے۔ اسی ضمن میں بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہے اور اسے الگ تھلگ کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ تاہم ہماری رائے میں اُڑی حملہ بھارت کے لیے عالمی منظر نامے پر ہزیمت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ چوں کہ کشمیری اپنی جدوجہد آزادی کو بھارت کے خلاف ہر محاذ پر جاری رکھنے میں حق بجانب ہیں۔ اقوام متحدہ کا عالمی منشور بھی انہیں اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کا بھرپور حق دیتا ہے۔ ان حالات میں کشمیر کے مقدمے کو مضبوط بنیادوں پر اٹھاکر عالمی رائے عامہ کو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی جانب مبذول کرایا جاسکتا ہے۔ پاک بھارت کے مابین یہ واحد دیرینہ تنازع ہے، جس پر تین جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔ اسی مسئلے کے سبب خطے پر آئے روز جنگ کے خطرات بھی منڈلاتے رہتے ہیں۔ جہاں تک اُڑی حملے پر بھارت کا پاکستان کے خلاف الزامات کی بات ہے، تو وہ محض الزامات ہی ہیں۔ الزام سے کسی پر فردِ جرم عائد نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت ممبئی سے پٹھان کوٹ تک الزامات ہی عائد کرتا رہا ہے۔ اس سلگتی آگ کو بجھانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں استصواب رائے کا حق دیا جائے۔
وزیر اعظم ہائوس کے بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف اپنے دورہ کے دوران سائیڈ لائنز پر مختلف ممالک کے سربراہان مملکت سے دوطرفہ ملاقاتیں بھی کریں گے۔ اگر وزیر اعظم اقوام متحدہ کے حاشیے پر مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب عالمی منظرنامے کا رخ موڑنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ سرخرو رہیں گے۔ ورنہ اس سے قبل بھی نواز شریف تین بار جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرچکے ہیں اور یہ ان کا چوتھا خطاب ہوگا جو نشستاََ برخاستاََ ہی کہلائے گا۔
-
وزیراعظم کا دورہ امریکہ اور جنرل اسمبلی سے خطاب – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اکہترواں اجلاس پیر کے روز نیو یارک میں شروع ہوا۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف بھی اس اجلاس سے خطاب فرمانے کے لیے نیویارک پہنچ چکے ہیں۔ پیر ہی کے روز انہوں نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے سے اہم دو طرفہ ملاقاتیں کیں۔
یوں تو وزیر اعظم ہر سال جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے تشریف لے جاتے ہیں تاہم اس سال اس دورہ اور ان کے خطاب کی اہمیت دوچند کہی جاسکتی ہے۔ سفارتی حلقوں کے مطابق کشمیر کے حوالہ سے ان کی تقریر پر بہت زیادہ فوکس ہے۔ پاکستان کی سابق وزیر خارجہ محترمہ حنا ربانی کھر نے ایک ٹی وی پروگرام میں فرمایا کہ کشمیر کا ذکر ہر سال ہی ہوتا ہے اس بار بھی ہوگا اور اس میں کچھ خاص بات نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔
کشمیر میں بھارتی قبضہ کے خلاف اٹھنے والی ہمہ گیر تحریک اور اس کی سرکوبی کے لیے بھارت کی جانب سے ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم اس سال کی تقریر کو اہم بناتے ہیں۔
یہی نہیں، کچھ اور عوامل بھی ایسے ہیں جو اس بار مختلف ہیں۔ کشمیر کی تحریک سے بوکھلاہٹ کے شکار بھارت کی جانب سے بلوچستان اور گلگت بلتستان میں مبینہ پاکستانی مظالم اور وہاں ”آزادی“ کے حوالہ سے بیانات و اقدامات، بشمول براہمدغ بگٹی کو سیاسی پناہ دینے کا معاملہ صورتحال کو مزید پیچیدہ بنارہے ہیں۔ اتوار کو مقبوضہ کشمیر میں اڑی کے مقام پر قائم بھارتی فوج کے بریگیڈ ہیڈ کرارٹر پر مسلح حملہ جس میں 17 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے، خطے کے امن کو نئے خطرات سے دو چار کر رہا ہے۔
گمان ہے کہ بھارت ہر صورت پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ وہ اقوام متحدہ کے فورم پر اس مسئلہ کو مؤثر طور اٹھا نہ سکے۔ بعض مبصرین کی رائے میں اڑی کے حملہ کو اس کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں در اندازی کر رہا ہے۔ اس بات کی واضح تردید پاکستانی ڈی جی ایم او پہلے بھی کرچکے ہیں اور خود پاکستان نے اقوام متحدہ کے مبصرین کو کہا ہے کہ وہ کنٹرول لائن کی مانیٹرنگ کریں جبکہ بھارت اس سے انکار کر رہا ہے۔ اس لیے اس بابت پاکستان کا کیس مضبوط ہے۔ پاکستان کو یہ باور کروانا چاہیے کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے دورہ بھارت کے موقع پر کشمیر میں چٹی سنگھ پورہ میں اجتماعی قتل کی لرزہ خیز واردات اور سمجھوتا ایکسپریس جیسے سانحات کا بعد میں بھارت کا ”اندرونی“ کام ثابت ہو جانے کے باوجود پاکستان کسی بھی ٹھوس انٹیلی جنس پر کاروائی کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔
یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ بھارت کے ایما پر وزیر اعظم پاکستان کے خطاب کے موقع پر نام نہاد بلوچ تنظیمیں یا پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کی لندن شاخ کے کچھ لوگ اقوام متحدہ کے سامنے احتجاج کے لیے موجود رہیں۔ اس کے مؤثر سدباب کے لیے بھی اقدامات ضروری ہیں۔ اچھا ہوتا اگر پاکستان سے بلوچ قیادت اور کراچی سے ایم کیو ایم پاکستان کے لوگ وزیر اعظم کے ہمراہ ہوتے۔
وزیر اعظم کو اپنی ملاقاتوں اور پھر جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں تین باتوں پر زور دینا چاہیے۔
اول یہ کہ پاکستان ہمیشہ سے ”حل“ کا حصہ رہا ہے، مسئلہ کا نہیں، اور اس کا کردار اسی روشنی میں دیکھا جائے۔ امریکا اور چین کے مابین روابط کے قیام میں اعانت ہو، ایران عراق جنگ ہو، اقوام متحدہ کے تحت امن خدمات ہوں پاکستان ہمیشہ ایک ذمہ دارانہ رول ادا کرتا آیا ہے۔ یہاں تک کہ نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کے لیے سب سے بہتر کمانڈ، کنٹرول اور تحفظ کا نظام بھی پاکستان نے ترتیب دی اور اس حوالہ سے اپنی میچیورٹی سب پر واضح کردی۔1979 اور 2001ء کے واقعات پاکستان کے تخلیق کردہ نہیں تھے۔ لیکن عالمی امن اور اقوام متحدہ کی ساکھ کے لیے پاکستان نے اپنی سر زمین کو جنگ کا میدان بنایا۔ اپنی ترجیحات کو پس پشت ڈال کر عالمی اتفاق رائے کو سپورٹ کیا۔ اپنے عوام کی ضروریات پورا نہ کرسکنے کے باوجود 30 لاکھ سے زائد مہاجرین کا بوجھ اٹھایا۔ آج پاکستان کو کسی بھی طرح موجودہ عالمی حالات کے لیے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ پراکسی وار کا یہ طریقہ خود امریکا کی دین ہے۔
دوم یہ کہ پاکستان اور خطہ کے امن کے لیے کشمیر کا مسئلہ حل کرنا ضروری ہے۔ یہ کشمیریوں کا وہ حق ہے جو اقوام متحدہ نے تسلیم کررکھا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ اس پر مثبت اور ٹھوس پیش رفت کی جائے۔ کشمیر کا مسئلہ خطہ اور عالمی امن کے لیے ایک مسلسل خطرہ ہے۔ یہ ایک ایسا ٹائم بم ہے جو کسی حادثہ کی صورت اچانک بھی پھٹ سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر، یہ ایک انسانی المیہ بننے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس کا حل بھی اسی جذبہ کا متقاضی ہے جو ہم نے دارفر اور مشرقی تیمور کے معاملہ میں دیکھا۔ کشمیر آج الفاظ کے بجائے عمل کا منتظر ہے۔ پہلے قدم کے طور پر وہاں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ فوری بند کروایا جائے اور پیلٹ گن کے استعمال جیسے بہیمانہ اقدامات کی فوری روک تھام کا بندوبست کیا جائے تاکہ مظلوم کشمیریوں تک اقوام عالم کا واضح پیغام پہنچ سکے۔ نیز اقوام متحدہ اپنی سیکورٹی کونسل کی ان قراردادوں پر عمل درآمد کروائے جن میں کشمیری عوام کو ان کے مستقبل کا آزادانہ فیصلہ کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
سوم۔ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل اور افغان مہاجرین کی باعزت اپنے گھروں کو واپسی وہ بنیادی اقدامات ہیں جس کے نتیجہ میں پاکستان اپنی معیشت، سماجیات اور ملینیم ڈویلپمنٹ گولز جیسے اہداف پر فوکس کرسکے گا۔ پاکستان ایک صلح جو ملک ہے، ہم بشمول اپنے سب کے لیے امن کے خواہشمند ہیں۔ ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے بجائے ہمارے ساتھ پارٹنرشپ قائم کی جائے۔ عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ پاکستان کی ساجھے داری اس کی ایک روشن اور قابل تقلید مثال ہے۔
پاکستان نے عالمی امن کے لیے بہت قربانی دی، اب دنیا کو اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ وہ ہماری قربانیوں کی قدر کرتی ہے اور ہمیں پرسکون اور آسودہ زندگی کا ہمارا بنیادی حق ہمیں لوٹانے کو تیار ہے۔
-
رائے شماری سے اٹوٹ انگ تک ( حصہ دوم )-وسعت اللہ خان
بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو کی جانب سے کشمیر کے جبری الحاق کو کشمیری عوام کی توثیق سے مشروط کرنے کی بابت عالمی برادری کو مختلف مواقع پر جو واضح یقین دہانیاں کرائی گئیں۔ان سے بظاہر لگتا ہے کہ کشمیر نہرو کی حد تک بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں تھا۔
کشمیر کو اقوامِ متحدہ میں لے جانا وہ رسہ ہے جو بھارت نے گھبرا کے اپنے گلے میں خود ڈالا۔ آج کوئی لاکھ کہے کہ زمینی حقائق بدل چکے ہیں، پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے،کشمیر کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی قرار دادیں چیٹر سیون کے تحت لازمی نہیں بلکہ چیپٹر سکس کے تحت سفارشی نوعیت کی ہیں اور وہ بھی ساٹھ ستر برس پرانی۔لہٰذا ان پر عمل درآمد لازمی نہیں۔کوئی کچھ بھی کہتا رہے مگر یہ قرار دادیں پشت سے بندھا وہ کنستر ہے جو کشمیر کی ہر ہر بے چینی کے موقع پر بجے گا ضرور۔ جب تک اقوامِ متحدہ کا ریکارڈ موجود ہے کشمیر کی قرار دادیں وہ چھچوندر بنی رہیں گی جو نہ نگلی جائے نہ اگلی جائے۔
کیوں ڈھونڈھ رہے ہو کسی دیوار کا سایہ
یہ دھوپ تو ہر رخ سے پریشان کرے گیگذشتہ کالم میں نہرو اور ان کے اہلکاروں کے کشمیر کے بارے میں انیس سو سینتالیس تا اکیاون بیانات و تقاریر اور خطوط کے اقتباسات پیش کیے گئے۔آج اکیاون سے سن ستاون تک کے بیانات پیش کیے جا رہے ہیں تاکہ تاریخ کے طلبا مسئلہ کشمیر کا مطالعہ کرتے ہوئے کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے یہ تاریخی مواد بھی ذہن میں رکھ پائیں۔
بارہ ) ہم نے کشمیریوں اور اقوامِ متحدہ سے جو وعدہ کیا ہے اس پر کل بھی کاربند تھے اور آج بھی ہیں۔ یعنی جو فیصلہ کرنا ہے کشمیریوں نے کرنا ہے ( بھارتی پارلیمان میں وزیرِ اعظم کا بیان مورخہ بارہ فروری انیس سو اکیاون )۔
تیرہ ) میں حکومتِ بھارت کی جانب سے یقین دلاتا ہوں کہ کشمیر میں آئین ساز اسمبلی کے قیام کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کی بابت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی راہ میں حائل ہو ( مورخہ انتیس مئی انیس سو اکیاون کو سلامتی کونسل میں بھارت کے مستقل مندوب راجیشور دیال کا خطاب )۔
چودہ )گیارہ جون انیس سو اکیاون کو نہرو جی سے پریس کانفرنس میں سوال ہوا کہ اگر کشمیر کی مجلسِ قانون ساز بھارت میں شمولیت کا فیصلہ کرتی ہے تب کیا ہوگا ؟ نہرو جی نے کہا ’’ ہم نے مکمل واضح کردیا ہے کہ کشمیر اسمبلی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے کسی فیصلے کی راہ میں ہرگز رکاوٹ نہیں بنے گی‘‘۔
پندرہ ) یہ سمجھنا درست نہیں کہ کشمیر بھارت یا پاکستان کے لیے کوئی انعام ہے۔ایسے لوگ کیوں بھول جاتے ہیں کہ کشمیر کوئی بیچنے خریدنے والی جنس نہیں۔اس کی اپنی شناخت ہے اور اس کے مستقبل کا فیصلہ صرف وہاں کے عوام کر سکتے ہیں ( نہرو جی کا آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب مورخہ چھ جولائی انیس سو اکیاون )۔
سولہ ) حکومتِ بھارت نہ صرف یہ اصول تسلیم کرتی ہے کہ بھارت کے ساتھ کشمیر کا الحاق برقرار رکھنے کا فیصلہ اقوامِ متحدہ کے تحت رائے شماری کے آزاد و غیر جانبدار جمہوری طریقے سے ہونا ہے بلکہ بھارت اس عمل کے لیے جتنی جلد ممکن ہو فضا سازگار بنانے کی کوشش بھی کر رہا ہے (اقوامِ متحدہ کے ایلچی برائے کشمیر کے نام بھارتی وزیرِ اعظم کا خط مورخہ گیارہ ستمبر انیس سو اکیاون )۔
سترہ ) اس ( کشمیر ) کے وارث کشمیری عوام ہیں۔اگر وہ ہم سے کہتے ہیں کہ واپس چلے جاؤ تو ہم بلا تامل لوٹ جائیں گے۔ہم ہی یہ معاملہ اقوامِ متحدہ میں لے کر گئے اور اس کے پرامن حل کے لیے اپنا وچن دے چکے۔ایک عظیم قوم کے طور پر ہم اپنے وعدے سے کیسے پھر سکتے ہیں۔ (بھارتی وزیرِ اعظم کا بیان مورخہ دو جنوری انیس سو باون )۔
اٹھارہ ) اگرباقاعدہ رائے شماری میں عوام فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو ہم یہ فیصلہ بصد دکھ قبول کر لیں گے۔ہم ان کے خلاف فوج نہیں بھیجیں گے۔اگر ضروری ہوا تو اس کے لیے آئین میں ترمیم بھی کر لیں گے ( مورخہ چھبیس جون انیس سو باون کو وزیرِ اعظم کا بھارتی پارلیمنٹ میں بیان )۔
انیس ) میں یہ واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ کشمیر کے مستقبل کا حتمی فیصلہ بالاخر کشمیری عوام کی مرضی کرے گی۔اس معاملے میں پارلیمنٹ (بھارتی پارلیمان)کی مرضی یا خیرسگالی کی اہمیت نہیں۔میرا یہ مطلب نہیں کہ یہ پارلیمنٹ کشمیر کے حل کی طاقت یا صلاحیت نہیں رکھتی بلکہ مراد یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے اس بارے میں کوئی فیصلہ تھوپنا اس پارلیمنٹ کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہوگا۔کشمیر ہمیں بہت عزیز سہی لیکن کسی فیصلے یا بدقسمتی کے سبب یہ بھارت سے الگ ہوتا ہے تو یقیناً ہمارے لیے ایک صدمے کی بات ہوگی۔مگر کشمیر کے عوام جانا چاہیں تو انھیں جانے دیا جائے۔ہمیں انھیں ان کی مرضی کے خلاف اپنے ساتھ نہیں رکھیں گے۔ہم سنگین کے بل پر اپنی مرضی نافذ نہیں کریں گے۔اس بارے میں وہ خود مختار ہیں (پنڈت نہرو کا بھارتی پارلیمنٹ سے خطاب مورخہ سات اگست انیس سو باون )۔
بیس) کشمیر جیسے بین الاقوامی معاملے کے سلسلے میں پارلیمنٹ کئی اقدامات کر سکتی ہے مگر اس کی بین الاقوامی حیثیت ختم نہیں کر سکتی ( پنڈت نہرو کا بھارتی پارلیمنٹ سے خطاب مورخہ پچیس مارچ انیس سو تریپن )
اکیس ) انیس سو تریپن تک تو جواہر لعل نہرو صرف یہ کہتے آئے تھے کہ کشمیر میں امن و امان کے حالات سازگار ہوتے ہی اقوامِ متحدہ کے تحت رائے شماری ہونی چاہیے لیکن انیس سو چون میں نہرو کا موقف بدلنے لگا اور ’’ سازگار حالات ’’ کے ساتھ ساتھ بیانات میں ’’ مناسب وقت ’’کا اضافہ بھی ہوتا چلا گیا۔ مثلاً انھوں نے پندرہ مئی انیس سو چون کو کہا ’’ بھارت کشمیر کے معاملے پرعالمی برادری سے کیے گئے وعدوں پر اب بھی قائم ہے اور مناسب وقت آنے پر ان پر عمل درآمد کرے گا‘‘…
بائیس ) اکتیس مارچ انیس سو پچپن کو لوک سبھا میں وزیرِ اعظم کے بیان میں ’’ سازگار حالات’’ اور ’’مناسب وقت’’ کے ساتھ ساتھ ’’ کشمیری عوام کی رضامندی ’’ کی شرط بھی شامل ہو گئی۔
’’ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے پیچیدہ حل طلب تنازعہ ہے۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیر کوئی بے جان شے نہیں جو بھارت اور پاکستان بانٹ لیں بلکہ اس کی اپنی روح اور انفرادیت ہے۔چنانچہ کشمیریوں کی خیر سگالی اور رضامندی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا ’’۔
انیس سو ستاون میںسلامتی کونسل نے کشمیر کے بارے میں آخری قرار داد منظور کی تو بھارتی مندوب کرشنا مینن کو وضاحت کرنا پڑی کہ بھارت کو کشمیر کے معاملے میں اپنی بین الاقوامی زمہ داریاں یاد ہیں۔
انیس سو باسٹھ میں بھارت چین جنگ ہوئی۔جنگ کے بعد پاکستانی وزیرِ خارجہ زوالفقار علی بھٹو اور بھارتی وزیرِ خارجہ سورن سنگھ کے مابین مذاکرات کے پانچ دور ہوئے۔ پھر پینسٹھ کی جنگ ہوگئی۔اس جنگ کے بعد بھارت میں کشمیر کے لیے اٹوٹ انگ کی اصطلاح کا رواج پڑا اور کشمیری رفتہ رفتہ تنازعے کی بس میں بیک سیٹ پر اور بھارتی اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹس فرنٹ سیٹ پر آ گئیں۔اور پھر شملہ سمجھوتے کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ اس تنازعے کا ایک ہی مصرف رھ گیا کہ دونوں ممالک کشمیر کے کوڑے سے حسبِ مفاد و منشا ایک دوسرے کی سفارتی و سٹرٹیجک پٹائی کریں۔اس چکر میں سب سے زیادہ پٹائی کشمیریوں کی ہو رہی ہے۔اللہ اللہ خیر صلا… (اس مضمون کی تیاری میں بنیادی مواد سری نگر و جموں کے انگریزی اخبار گریٹر کشمیر سے لیا گیا)۔
حصہ اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کرئے
-
مسئلہ کشمیر مولانا شیرانی کی زبانی – عامرہزاروی
مسئلہ کشمیر پہ ان دنوں بحث جاری ہے، سوچا اپنی رائے لکھوں لیکن ہاتھ کھینچ لیا اور مولانا شیرانی کی کتاب پڑھنے لگا. مولانا شیرانی اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟ 1990 میں انہوں نے پارلیمنٹ میں ایک خطاب کیا جس کا عنوان ہے کشمیر مسئلہ کس کا ہے ؟ ان کی چند باتیں لکھ رہا ہوں، امید ہے کہ اس پہ مثبت بحث ہوگی، فقط فتوی بازی نہیں کی جائے گی.
مولانا شیرانی پارلیمنٹ کے فلور سے صدا بلند کرتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کس کا ہے؟ آیا یہ مسئلہ پاکستان کا ہے یا کشمیریوں کا؟ مولانا کہتے ہیں کہ ہم اس کے دوحصے کرتے ہیں؟ کشمیر محل وقوع کے اعتبار سے دریاؤں کا سرچشمہ ہے، اگر کشمیر ہندوستان سے الحاق کرتا ہے تو پنجاب اور سندھ بنجر ہوجائے گا. دوسرا معدنیات، ٹورازم اور جنگلات کی وجہ سے اس میں معاشی پہلو بھی ہے. اس چیز کو دیکھا جائے تو کشمیر مسئلہ پاکستان کا ہے. دوسرا حصہ ہے کہ کشمیر کشمیریوں کا ہے. ان کا حق ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں کہ انہوں نے الحاق کرنا ہے یا آزاد رہنا ہے؟ مولانا شیرانی کہتے ہیں کہ اگر یہ مسئلہ ہمارا ہے تو پھر پوری قوم کو جہاد کےلیے نکلنا چاہیے، چند لوگوں کو ٹھیکدرا نہیں بننا چاہیے. اگر کشمیریوں کا ہے تو پھر جہاد کے بجائے ہر جمہوری بندے کو اس کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے، پھر خون کشمیری دیں اور جمہوری آواز ہر جمہوری بندہ بلند کرے کہ آزادی ہر ایک کا حق ہے.
مولانا مزید سوال اٹھاتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر الجھا کیسے؟ اور اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ جب تقسیم ہو رہی تھی تو اس وقت یہ طے پایا تھا کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ پاکستان بنے گا. اس اصول کی رو سے علاقے کے تشریح صوبے سے کی گئی، اس تشریح کے مطابق پورا پنجاب اور بنگال پاکستان کا تھا. اگر پنجاب پورے کا پورا پاکستان بنتا تو آج ہمارے لیے یہ مسئلہ نہ بنتا. جب یہ تشریح کی گئی تو دو خواہشات سامنے آئیں، ایک ہندوؤں کی اور دوسرا انگریزوں کی.
ہندو سمجھ رہا تھا کہ اگر اس تشریح کو مان لیں گے تو تمام اقتصادی مراکز پاکستان کے حصے میں آجائیں گے. جتنے پانی کے ہیڈورکس ہیں وہ بھی پاکستان کے حصے میں آجائیں گے اور کشمیر سے ہمارا راستہ کٹ جائے گا، یوں ہندوستان پاکستان کے سامنے سوالی ہوگا لہذا ہمیں اس تشریح کو توڑنا چاہیے. یہ ہندوؤں کی خواہش تھی.
ایک خواہش انگریز کی بھی تھی. انگریز سمجھ رہا تھا کہ تقسیم کے بعد ہندوستان ایسی سیاست کے ہاتھ لگے گا جو اپنی قوم اور ملک سے مخلص ہوگی جبکہ دوسری طرف قائد کے ہاں کھوٹے سکے تھے جب ہندوستان معاشی لحاظ سے مضبوط ہوگا اور اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی تو وہ ہمیں آنکھیں دکھائے گا، دنیا پہ حکمرانی کا خواب دیکھے گا کیوں نہ ان کے راستے میں ایسا روڑہ اٹکا دیا جائے جو ان کے پائوں کی زنجیر بن جائے. انگریزوں نے کشمیر کو ہمیشہ کے لیے ان کے گلے کی ہڈی بنا دیا. انگریز کی سوچ تھی کہ پاکستان بن جانے کے بعد جب یہاں اسلام نہیں ہوگا تو لوگ ہندو دشمنی کی بنیاد پہ نہیں لڑیں گے کیوں نہ اقتصادی لحاظ سے ان پہ ایک ایسا خطرہ رکھا جائے جو جنگ کا سبب بن سکے. کل کو جب بھی جنگ کروانی ہو تو مذہبی بنیادوں پہ نہ سہی اقتصادی بنیادوں پہ جنگ کروائی جاسکے. یوں ہماری سیاسی قیادت نے علاقے کی تفسیر صوبے سے کرنے کے بجائے نیچے آنے کو ترجیح دی. افسوس کہ علاقے کی تفسیر ضلع سے بھی نہ کی. اگر ضلع سے کرتے تو گورداسپور کا پورا ضلع پاکستان ہوتا، اگر ایسا ہوجاتا تو کشمیر کا ہندوستان سے راستہ کٹ جاتا لیکن اس سے بھی نیچے آئے اور انہوں نے فیروز پور اور شکرگڑھ کا بھی سودا کر لیا یوں ہماری سخاوت نے یہ مسئلہ آج تک الجھا کے رکھا ہوا ہے.پھر پاکستان بن جانے کے بعد جب قبائلیوں نے وہاں جنگ کی تو بھارت اقوام متحدہ میں چلا گیا. بھارت جب گیا تو پاکستان بھی اقوام متحدہ میں جا کے فریق بن گیا. جس وقت پاکستان فریق بنا اس وقت کشمیر میں ایک عارضی حکومت بھی تھی اور اس کی فوج بھی، بجائے اس کے کہ کشمیریوں کو فریق بنایا جاتا ہم خود بن گئے، اس کے دو نقصان ہوئے، ایک کشمیریوں کا اعتماد کھو دیا اور دوسرا کشمیر کو متنازعہ بنا دیا. اب پاکستان اگر پیش قدمی کرتا ہے تو بھارت پکار اٹھتا ہے کہ ہم کشمیر کو تو بھول گئے. یاد کریں 65 کی جب جنگ ہوئی تھی تو وہ جنگ کشمیر میں ہونے کے بجائے لاہور میں لڑی گئی اور ہم نے لاہور بچانے کے لیے معاہدہ تاشقند کیا. سچ یہ ہے کہ ہم نےسو کروڑ کے بدلے تین دریا فروخت کیے، ستلج بیاس اور راوی. یہ ہمیں فائدہ ہوا.
مولانا شیرانی کہتے ہیں کہ جنگ دو اسباب سے جیتی جاتی ہے، عقیدے کی بنیاد پہ یا اسلحے کی برتری کی بنیاد پہ. ہم نہ عقیدے میں ایک ہیں اور نہ ہی اسلحہ رکھتے ہیں. ہم خود بھیک مانگتے ہیں. بھیک مانگنے والی قوم کو جذباتی ہونے کے بجائے ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیے.
یہ باتیں ہیں مولانا شیرانی کی جو انہوں نے 1990ء میں کی تھیں. افسوس اب تک بدلا کچھ نہیں ہے. مولانا شیرانی کاتجزیہ غلط ہے یادرست اس پہ بحث ہو سکتی ہے لیکن انہیں گالیاں دینا اور فتوے لگانا انصاف نہیں ہوگا. اگر کوئی ان کی باتوں کو دلیل کی بنیاد پہ رد کرنا چاہے تو مجھے خوشی ہوگی….
-
معزز جنگی مجرم صاحبان…وسعت اللہ خان
جب صدام حسین کو انسانیت سوز اور جنگی جرائم کی پاداش میں اکتیس دسمبر دو ہزار چار کی شب پھانسی دی گئی تو دورِ جدید کے ’’ چنگیز خان اور عرب ہٹلر ’’ کے خاتمے اور عراق کو دورِ جمہوریت سے سرفراز کرنے کے مشن کی کامیابی پر تالیاں بجانے والوں کی صفِ اول میں جارج بش اور ٹونی بلئیر سب سے نمایاں تھے۔
صدام حسین کی پھانسی سے ساڑھے تین ماہ قبل پندرہ ستمبر کو اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے الفاظ چبائے بغیر کہا ’’ ہاں عراق پر امریکی قیادت میں حملہ غیر قانونی تھا۔یہ اقوامِ متحدہ کی منظوری کے بغیر اقوامِ متحدہ کے چارٹر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کیا گیا‘‘۔
حالانکہ میڈیا کئی ماہ سے ایک جنگی فضا بنانے کی وائٹ ہال اور واشنگٹن اسٹیبلشمنٹ کی مرتب کردہ مہم کا دانستہ و نادانستہ آلہِ کار بنتے ہوئے صدام حسین کے ایٹمی ، کیمیاوی و حیاتیاتی ہتھیاروں کے خطرے اور ان ہتھیاروں کو پینتالیس منٹ کے اندر برطانیہ سمیت مغرب کے خلاف قابلِ استعمال تیاری کی صلاحیت پر مبنی انٹیلی جینس رپورٹوں کی بنیاد پر پھیلایا جانے والا سرکاری خوف مسلسل نشر کر رہا تھا۔حالانکہ امریکی وزیرِ خارجہ کولن پاول سلامتی کونسل میں عراقی جوہری و کیمیاوی ہتھیاروں کی موبائل لیبارٹریوں کی تصاویر دکھا دکھا کر دنیا کو صدامی عفریت سے ڈرا کر متحد کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔مگر عام آدمی ڈر کے ہی نہیں دے رہا تھا۔دماغ پر پروپیگنڈے کی مسلسل بمباری کے باوجود دل کہہ رہا تھا کہ دال میں بہت کچھ کالا ہے۔
چنانچہ عراق پر حملے سے ایک ماہ پہلے پندرہ فروری دو ہزار تین کو ٹوکیو سے سڈنی اور لندن سے سان فرانسسکو تک ڈیڑھ کروڑ انسان سڑکوں پر یہ بینر اٹھائے چل رہے تھے ’’ ہمارے نام پر جنگ منظور نہیں‘‘۔سب سے بڑا جلوس لندن میں نکلا جس میں پندرہ لاکھ مرد ، عورتیں اور نوزائیدہ بچے بھی شدید سردی کے باوجود شریک تھے۔( یہ خادم اور دو بچے بھی اس تاریخی مظاہرے کا حصہ تھے )۔
جب برطانوی پارلیمنٹ کا ایوانِ زیریں جنگ میں جانے نہ جانے کے مباحثے میں بری طرح الجھا ہوا تھا۔اس دوران میرے پسندیدہ برطانوی لیبر رکنِ پارلیمان ٹونی بین نے اپنے خطاب کا اختتام ان الفاظ پر کیا۔
’’جنگ کے بارے میں بات کرنا جتنا آسان ہے اتنا ہی اس کی ہولناکی کے بارے میں سمجھانا مشکل ہے۔ بالخصوص انھیں جنہوں نے جنگ نہیں دیکھی۔ میں نے انیس سو چالیس میں لندن پر ہونے والی بمباری سے ڈاک لینڈ میں لگنے والی آگ میں پانچ سو افراد کو مرتے دیکھا۔اگر ہمارے لیے یہ تباہی اتنی خوفناک تھی کہ آج تک یاد ہے تو ذرا سوچئے کہ ہم ان لاکھوں لوگوں کو اس سے کہیں زیادہ تباہی سے دوچار کرنے جا رہے ہیں کہ جن کا صدام حکومت کے جرائم سے کوئی لینا دینا نہیں ؟ آج ہم ایک ایسے احمق دور میں رہ رہے ہیں جب ہمارے لیے جنگ کی اہمیت ایک ویڈیو گیم اور چینل فور کی ہیڈ لائن سے زیادہ نہیں رہی۔آج جس جس نے بھی جنگ میں جانے کے حق میں ووٹ دیا وہ اس جنگ کے تمام نتائج و عواقب کا بھی ساجھے دار ہوگا۔
میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ انیس سو پینتالیس میں آپ نے اقوامِ متحدہ کے جس چارٹر پر دستخط کیے، اس کی پہلی سطر ہی یہی ہے کہ ہم اقوامِ متحدہِ کے شہری عہد کرتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کو ایسی جنگوں اور تباہیوں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے جنہوں نے آج تک ہمیں ناقابلِ بیان مصائب میں مبتلا کیے رکھا۔ہماری گذشتہ نسل نے یہ عہد آج کی نسل سے کیا تھا اور کتنے شرم کی بات ہے کہ ہم اگلی نسل کو اس چارٹر کی دھجیاں تحفے میں دینا چاہ رہے ہیں اور یہ سب ہم عالمی برادری کے نام پر کر رہے ہیں۔کم ازکم میں اس فیصلے کا حصہ نہیں ہوں ’’…
اٹھارہ مارچ کو جنگ سے ایک دن پہلے برطانوی پارلیمنٹ نے عراق سے جنگ کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی دوسری قرار داد کا انتظار نہ کرنے کے حق میں کثرتِ رائے سے فیصلہ دے دیا اور اگلی شب بغداد پر بم گرنے شروع ہوگئے۔
اس جنگ اور جنگ کے بعد کے تباہ کن حالات کے نتیجے میں اگلے تیرہ برس کے دوران ڈیڑھ سے چھ لاکھ کے درمیان عراقی (جتنی تنظیمیں اتنے اندازے) جاں بحق ہوئے۔ چار ہزار چار سو بیالیس امریکی اور ایک سو نواسی برطانوی فوجی ہلاک ہوئے۔عراقی ریاست تحلیل ہوگئی اور بھانت بھانت کے حشرات الارض چہار جانب سے نکل نکل کر زمین پر پھیلتے چلے گئے اور چلے جا رہے ہیں۔
اس ماہ کے شروع میں سات برس کی محنت کے بعد برطانیہ میں شایع ہونے والی سرکاری چلکوٹ رپورٹ نے جنگ میں جانے کے اسباب پر منڈھے گئے رہے سہے جھوٹ کے کپڑے بھی اتار پھینکے۔اس رپورٹ میں ٹونی بلئیر اور بش کی خط و کتابت بھی ہے جو جنگ سے ڈیڑھ برس پہلے شروع ہوئی اور جس میں بلئیر نے بش کو یقین دلایا کہ ’’ حالات جو بھی ہوں میں آپ کے ساتھ ہوں ‘‘۔برطانوی فوج کے میجر جنرل مائیکل لاری نے چلکوٹ کمیشن کے سامنے شہادت دیتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم اچھی طرح جانتے تھے کہ حکومت نے عراق کے وسیع تر تباہی کے ہتھیاروں کی بابت بڑھا چڑھا کر جو مقدمہ تیار کیا ہے۔
اس کا مقصد جنگ کی راہ ہموار کرنا ہے ‘‘۔برطانوی انٹیلی جینس ادارے ایم آئی فائیو کی سابق سربراہ میننگھم بولر نے اپنی گواہی میں کہا کہ اس جنگ کے نتیجے میں دہشت گردی کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گئی ‘‘۔اس وقت کے نائب برطانوی وزیرِ اعظم جان پریسکوٹ نے کہا ’’ کابینہ کو جنگ کے معاملے میں گمراہ کرکے منظوری لی گئی۔اٹارنی جنرل لارڈ گولڈ اسمتھ نے کابینہ کو زبانی طور پر تو یہ بتایا کہ یہ جنگ قانونی ہے مگر کبھی تحریری طور پر یہ رائے کابینہ کے سامنے نہیں رکھی گئی۔ میرے خیال میں جو ہوا وہ قانون کے دائرے سے باہر تھا اور میں مرتے دم تک اس دکھ کے ساتھ جئیوں گا ‘‘۔
ہمارے ہیرو ٹونی بلئیر صاحب نے اگرچہ اس رپورٹ کے آنے کے بعد یہ اعتراف ضرور کیا کہ انٹیلی جینس اطلاعات ناقص تھیں اور جنگ کی قانونی حیثیت کمزور تھی اور میں سب زمہ داری قبول کرتا ہوں مگر میں یہ نہیں مانتا کہ صدام حسین کو ہٹانے کا فیصلہ غلط تھا۔اس جنگ کے نتیجے میں ہی خان نیٹ ورک کا پتہ چلا اور ہم لیبیا کا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے میں کامیاب ہوئے ( یعنی دونوں کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے عراقی ریاست تحلیل کرنا ضروری تھا۔سبحان اللہ )۔
ایسا بیان اگر تیسری دنیا کا کوئی لیڈر دیتا تو اسے عالمی میڈیا کامیڈی کی بہترین مثال کے طور پر پیش کرتا اور ناظرین لوٹ پوٹ ہوجاتے۔پھر بھی غنیمت ہے کہ برطانیہ نے اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش تو کی۔ امریکا سے تو یہ تکلف بھی نہ ہو پایا۔بش جونئیر آج بھی اپنی رینچ پر مچھلیاں پکڑ رہا ہے اور چھتری تلے ٹانگ پے ٹانگ دھرے کتاب پڑھ رہا ہے۔
رہا یہ مطالبہ کہ غیر قانونی جنگ کرنے والوں نے جن جرائم کی پاداش میں صدام حسین کو پھانسی پر لٹکایا اب انھیں انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کے کٹہرے میں کھڑا کرنے میں کیا امر مانع ہے ؟ تو اس کا جواب ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ بھینس احتجاج کرے تو بس آئی ایم سوری کہنا کافی ہے۔رہی یہ بات کہ اتنے مسلمان ممالک میں سے عراق سمیت کسی ایک کو چلکوٹ رپورٹ کی روشنی میں جنگی جرائم کی عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے تاکہ اگر روانڈا اور بوسنیا کے جنگی مجرم انصاف کے کٹہرے میں لائے جا سکتے ہیں تو ’’ مہذب دنیا کے مہذب مجرم ’’ کیوں نہیں ؟ مطالبہ تو بہت معقول ہے مگر شیعہ سنی جھگڑے سے زیادہ معقول تو نہیں ؟