Tag: افغان حکومت

  • حزب اسلامی اور گلبدین حکمتیار کا مستقبل – فیض اللہ خان

    حزب اسلامی اور گلبدین حکمتیار کا مستقبل – فیض اللہ خان

    فیض اللہ خان حزب اسلامی کا افغانستان میں جاری مزاحمت میں بہت بڑا کردار نہیں تھا، عسکریت کی میدان میں افغان طالبان کی حکمرانی ہے. اگرچہ گلبدین حکمت یار کا حصہ بہت کم تھا لیکن اس کی ایک علامتی حیثیت ضرور تھی کہ جب اتحادی افواج افغانستان پہ چڑھ دوڑیں اور سابق جہادی قیادت اقتدار کے مزے لوٹنے کی تیاری میں تھی، ایسے میں حکمتیار نے مزاحمت کو ترجیح دی. ستر اور اسی کی دہائی میں حزب اسلامی افغانستان کی اہم ترین سیاسی و جہادی جماعت تھی، روس کےخلاف مزاحمت میں حزب اسلامی کا نمایاں کردار رہا، لیکن نوے کی دہائی میں امریکہ و پاکستان نے مل کر ”سرکش“ حکمتیار کو سزا دی. طالبان کی آمد کے بعد گلبدین حکمت یار کے لیے تہران نے اپنے دروازے کھول دیے اور حزب اسلامی کے سربراہ نے وہاں سیاسی پناہ حاصل کی لیکن ایران کی خواہش کے باوجود حکمتیار نے شمالی اتحاد میں شمولیت اختیار نہیں کی۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ دو ہزار آٹھ میں اپنے ادارے کے لیے میں نے حکمتیار کو ایک سوالنامہ بھیجا تھا جس کا جواب ویڈیو کی شکل میں آیا اور اس میں حکمتیار نے عالمی قوتوں کے ساتھ پاکستان اور ایران کو افغانستان کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیا۔

    گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد افغانستان میں حامد کرزئی کی سربراہی میں حکومت قائم ہوئی تو اس میں کئی وزراء اور اراکین اسمبلی کا تعلق حزب اسلامی سے تھا. القاعدہ کے علاوہ حکمتیار وہ واحد جہادی لیڈر تھے جنہوں نے امریکہ پر حملوں کو القاعدہ یا عربوں کی کارروائی قرار دیا اور ان قیاس آرائیوں کی تردید کی کہ اس میں یہودی یا امریکہ خود ملوث تھا.

    گلبدین حکمتیار کی بدقسمتی رہی کہ ان کے ساتھی نظریاتی طور پر کمزور ثابت ہوئے اور بدلتے حالات میں اکثریت نے پہاڑوں پہ چڑھنے کے بجائے حکومتی ایوانوں میں بیٹھنا پسند کیا۔ اس کے برعکس ملاعمر کے پیروکار ان کے مکمل وفادار رہے، اگر کسی نے طالبان تحریک سے علیحدگی اختیار کی تو بھی حکومت میں شامل نہیں ہوا۔

    اس میں شک نہیں کہ ایک زمانے میں حکمتیار کو شمال و جنوب یعنی مختلف اقوام میں مقبولیت حاصل تھی لیکن اب پل کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور منظر نامے میں خاصی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ حکمتیار کی سیاسی حیثیت اسی صورت میں مستحکم ہوسکتی ہے کہ حزب اسلامی کے سارے دھڑے ان کی اطاعت تسلیم کرلیں ورنہ معاملات مشکل رہیں گے۔

    پاکستان کے لیے صورتحال اس حد تک حوصلہ افزاء ضرور ہے کہ افغانستان کی سابقہ جہادی قیادت میں واحد گلبدین حکمتیار ہیں جو ہماری پالیسیوں سے اختلاف کے باوجود پاکستان سے نفرت والا رویہ نہیں رکھتے بلکہ افغان مہاجرین کی میزبانی پر انھوں نے ہمیشہ شکریہ ادا کیا ہے۔

    افغانستان میں طالبان طاقتور فریق کے طور پر موجود ہیں، وہاں امن یا جنگ کا فیصلہ انہوں نے ہی کرنا ہے اور میسر معلومات کے مطابق وہ فی الحال مذاکرات کی میز پہ بیٹھنے کو لیے تیار نہیں ہیں۔ حکمتیار کو انہوں نے پہلے بھی خاص اہمیت نہیں دی تھی اب بھی نہیں دیں گے۔

  • افغان حکومت اور حزب اسلامی کا معاہدہ – کاشف نصیر

    افغان حکومت اور حزب اسلامی کا معاہدہ – کاشف نصیر

    کاشف نصیر کابل حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان دو سال سے جاری مذاکرات کے بعد آج معاہدے پر باضابطہ دستخط ہوگئے ہیں۔ دستخط کی تقریب امن کونسل کے دفتر میں منعقد ہوئی جہاں دونوں اطراف کے نمائندوں نے حتمی مسودے پر دستخط کیے جبکہ اشرف غنی اور حکمتیار کے دستخط ابھی باقی ہیں۔ امریکہ نے اپنے ابتدائی ردعمل میں اس معاہدے کو خوش آمدید کہا ہے جبکہ کابل حکومت کے اہم ستون عبداللہ عبداللہ نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

    معاہدے کی رو سے کابل حکومت تمام اہم فیصلوں میں حزب اسلامی سے مشاورت کی پابند ہوگی، اسیر کارکنان رہا کردیے جائیں گے، جنگجو فدائین کو سرکاری فوج میں جگہ ملے گی، تمام مقدمات واپس لے لیے جائیں گے اور طویل جنگ میں ہمدردوں کو پہنچنے والے مالی نقصان کی زر تلافی ادا کی جائے گی۔ اس کے بدلے میں گلبدین حکمتیار کابل حکومت کی قانونی حیثیت کو قبول کرکے ملک کے سیاسی عمل میں شامل ہوجائیں گے اور حزب اسلامی کے تمام عکسری ڈھانچوں کو ختم کردیا جائے گا۔

    کہا جارہا ہے کہ معاہدے کی غیراعلانیہ دفعات کے مطابق امریکہ جلد گلبدین حکمتیار کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دے گا۔ یوں حکمتبیار کے منظرعام پر آنے کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ختم ہوجائے گی۔ پاسپورٹ مل جائے گا اور وہ باآسانی غیرملکی سفر کرسکیں گے۔

    افغانستان کی موجودہ صورتحال میں حزب اسلامی ملک کے کسی بھی علاقے میں اپنا اثر و رسوخ نہیں رکھتی ہے۔ اس لیے بظاہر یہی لگتا ہے کہ سیاسی عمل کا حصہ بن کر حکمتیار ایک بار پھر پختون صوبوں میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ یہ فیصلہ 2001ء میں کرتے تو شاید آج ملک کے صدر ہوتے لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ کابل پر ان کی حریف قوتوں کی گرفت انتہائی مظبوط ہے۔ دوسری طرف حکمتیار کے مزاج میں سیاسی تنوع بالکل بھی نہیں ہے اور وہ اتحاد کرنے اور جلد ہی توڑ دینے کے لیے مشہور ہیں۔ اس لیے یہ امید رکھنا کہ وہ بدلے ہوئے کابل میں زیادہ عرصے گزارا کرلیں گے، بہت مشکل ہے۔

    تنازعات کا پرامن تصفیہ تلاش کرنا قابل ستائش ہے لیکن اصولوں پر سمجھوتہ کبھی بھی عزیمت کا راستہ قرار نہیں دیا جاتا۔ اگر حکمتیار کو امریکی فوج کے انخلا کی بنیادی شرط کے بغیر سیاسی عمل کا حصہ بننا تھا تو وہ یہ کام پہلے بھی کر سکتے تھے. نہیں معلوم کہ وہ 2001ء میں غلط تھے یا آج غلط ہیں۔