Tag: افغان

  • حسین تابوت کی خواہش – ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    حسین تابوت کی خواہش – ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    وہ تیس پینتیس کے اریب قریب کا میانہ قد قدرے فربہ جسم کا گورا چٹا مرد تھا سر کے بال درمیان سے اڑے ہوئے.
    جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تو وہ لوگوں کے گھیرے میں آنکھیں موندے چت لیٹا ہوا تھا. گویا سو رہا ہو. اتنے بےشمار لوگ تھے لیکن سکوت ایسا تھا کہ سوئی گرنے کی آواز بھی دھماکے کی مانند سنائی دیتی.
    اس نے گہرے نیلے رنگ کی شلوار پہنی ہوئی تھی اور قمیض کی جگہ صرف بنیان تھی.
    اس کے ساتھ موجود خاموش ہجوم کے لباس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ افغان ہے. بڑی بڑی پگڑیاں اور کھلے گھیر والی شلواریں. کمر پر کارتوس کی بیلٹیں اور مونڈھدوں پر بندوقیں.
    عجیب بارات تھی جس کا دولہا سو رہا تھا.
    اور عجیب دولہا تھا جو گھوڑے کے بجائے اسٹریچر پر لایا گیا تھا.
    اس کی سہرا بندی اس صورت کی گئی تھی کہ اس کے دونوں بازو اس کی شلوار کے نیفے کے اندر کر کے ازار بند سے مضبوط گرہ لگا دی گئی تھی تاکہ وہ ادھر ادھر نہ جھولیں. اس کے پائوں کے دونوں انگوٹھے بھی ایک پٹی کے ذریعے باندھ دیے گئے تھے.
    میں اور میرے ہم جماعت یہ منظر پہلی منزل سے دیکھ رہے تھے نیچے شعبہ طب شرعی (فارینزک میڈیسن)کا صحن نما برآمدہ تھا. یہاں دائیں ہاتھ پر ایک کمرے میں پولیس چوکی تھی جس میں ایک حوالدار یا سپاہی آنے جانے والی لاشوں کی رجسٹریشن کیا کرتا تھا. وہیں پارکنگ تھی. جہاں پولیس وین اور موٹر سائیکل اور سائیکلیں کھڑی ہوتی تھیں. فارینزک میڈیسن کا مرکزی دروازہ باہر انارکلی میں دھنی رام روڈ پر کھلتا تھا. اس گیٹ کے بالمقابل سڑک پار ایک دولہا ہاؤس تھا گویا باہر زندگی اور اندر موت تھی. اس بیرونی صحن کو پار کر کے اندرونی ورانڈے میں داخلے کے لیے ایک لوہے کی سلاخوں والا گیٹ تھا جو لاک رکھا جاتا تھا اور ایک کانسٹیبل اس کی چوکیداری کیا کرتا. اسی اندرونی سلاخ دار دروازے کے ساتھ سے چپس اور کنکریٹ سے بنی بل دار سیڑھیاں اوپر تعلیمی شعبے میں داخل ہوتیں. نچلے ورانڈے کے دو اطراف میں انگریزی کے حرف ایل کی شکل میں کمرے بنے تھے جہاں آفسز، پوسٹ مارٹم کا کمرہ اور اس کی متعلقہ گیلری اور نعشوں کو محفوظ کرنے کے لیے قد آدم ریفریجریٹر موجود تھے جن کے سٹیل کی چمک اور ٹھنڈک ہیبت طاری کرتی تھی.
    اسی کمرے کے سامنے نیوی بلیو شلوار اور بنیان میں ملبوس دلہا اپنے آخری بستر پر پڑا تھا.
    کسی کاروباری جھگڑے میں بات بڑھ جانے پر اسے کاروباری حریف نے سینے میں گولی مار دی تھی جس سے وہ موقع پر ہی جان کی بازی ہار گیا تھا.
    اب اس کا خاندان پولیس رپورٹ کروانے کے بعد اس کے پوسٹ مارٹم کے لیے یہاں آیا تھا.
    تمام مجمع پرامن تھا لیکن ان کے پاس اسلحے کی موجودگی اور ان کی نفری سہما دینے والی تھی. پولیس جب تمام لوگوں کو اندر آنے سے روکنے میں ناکام رہی تب پولیس نے مزید فورس منگوا لی. اور اس مجمع کے گرد گھیرا ڈال لیا. سیکیورٹی بریچ کے خطرے کے پیش نظر ہمارے لیکچر کینسل کر دیے گئے اور ہمیں شعبہ طب شرعی خالی کر دینے کا حکم ملا. تمام کلاس کالج کے دروازے سے باہر نکلتے ہوئے پہلی منزل کی بالکونی سے نیچے کا منظر دیکھ رہی تھی. وہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے کہ خطرے کو دیکھ کر خوفزدہ ہونے کے بجائے ایکسائٹمنٹ محسوس ہوتی ہے، تو ہم سب اس دن کے دلہا کو دیکھ رہے تھے اور اس کی جوانمرگی پر دکھی تھے. جس طرح اسے اسٹریچر پر رکھا گیا تھا، اس نے میرے دل میں ایک عجیب احساس پیدا کیا کہ اس نے کبھی سوچا ہوگا اس انجام کے بارے میں. اس لاش اور باقی انسانوں میں مختلف کیا ہے کہ یہ اپنے جھولتے بازو سنبھالنے کے لیے اپنے ازاربند کا محتاج ہے. مجھے اس کا نامکمل لباس اور لوہے کے ٹھنڈے اسٹریچر پر پڑا اس کا جسم انسان کی بےوقعتی محسوس ہوا.
    اگلے روز وہی دلہا جب رخصت ہوا تو ایک خوبصورت رائل بلیو اور سکن کلر کے تابوت میں تھا. سفید کفن میں تھا اور اس کا چہرہ پرسکون تھا. اس کا خاندان تمام رات وہیں طب شرعی کے برآمدے میں بیٹھا رہا کیونکہ وہ اپنے پیارے کو اکیلا چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے. ان کے ساتھ کا سکون دلہے کے چہرے اور سواری سے جھلکتا تھا. ہاں اس لمحے مجھے لگا کہ انسان کو عزت دی گئی. کتنا خوبصورت تابوت ہے. کسی کلاس فیلو کی آواز ابھری. بہت سے سر تائید میں ہلے.
    میرے دل میں اک سوال ابھرا. دوسرے کی اچھی چیز کو دیکھ کر اپنے لیے اسی چیز کی خواہش کرنے والی انسانی فطرت کیا اس حسین تابوت کی بھی خواہش رکھتی ہے؟

  • تم ہوسکتے ہو لیکن تم نہیں ہوسکتے-اوریا مقبول جان

    تم ہوسکتے ہو لیکن تم نہیں ہوسکتے-اوریا مقبول جان

    orya

    سیکولرازم اور لبرل ازم کا بھوت جب قوموں کے سروں پر سوار ہوا تو انھوں نے مذہب کو ریاست سے دیس نکالا دے دیا۔کبھی کہا مذہب خونریزی پیدا کرتا ہے اور کبھی ’’انسان عظیم ہے خدایا‘‘ کا نعرہ لگایا۔ اب قوم کو کسی ایک جذبے کے تحت متحد رکھنا تھا سو مادر وطن، دھرتی ماتا، ہوم لینڈ اور قومیت کے جذبے کو ابھارا گیا۔ اس جذبے کو ابھارے ابھی ایک دہائی بھی نہ گزری تھی کہ نسل اور قوم کے نام پر پہلی جنگ عظیم لڑی گئی، کروڑوں انسانوں کا خون بہایا گیا۔ اب اس قومی تعصب کو مستحکم کرنے کے لیے 1920ء میں پاسپورٹ کا ڈیزائن لیگ آف نیشنز میں منظور ہوا۔ ویزا ریگولیشنز وجود میں آئے اور ہر ملک کی سرحد پر بارڈر سیکیورٹی فورسز کھڑی کر دی گئیں۔

    بتا دیا گیا یہ تمہارا پنجرہ ہے، قحط، وبا، غربت یا جنگ جو بھی ہو تم نے یہیں مرنا ہے۔ غربت ہے تو ہماری اجازت سے آؤ، ہماری غلامی کرو، پھر دیکھیں گے تمہیں مستقل رہنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔ تمہارے ملک میں کوئی وبا ہے تو ویکسین لگوا کر آؤ، ورنہ اپنے ملک میں ہی بیماری کی موت مر جاؤ۔ سرحدوں کا بکھیڑا ایسا ہے جیسے محلے میں گھروں کی اونچی دیواریں ہوتی ہیں۔ پڑوسی بھوک سے مر رہا ہو، اس کے گھر میں آپس کی جنگ میں لوگ قتل ہو رہے ہوں، وہ دیوار پر کھڑا ہو کر آپ کو مدد کے لیے پکار رہا ہو۔ ان تمام حالات میں آپ پہلے اپنے گھر کو دیکھتے ہیں پھر اس کی مدد کرنا چاہیں تو کریں ورنہ آپ پر عالمی قوانین کے تحت کوئی پابندی نہیں۔ آپ کے گھر خوراک وافر ہو گی، آپ اسے سمندر میں پھینک دیں گے تا کہ اس کی قیمتیں کم نہ ہوں، لیکن قحط زدہ پڑوسی ممالک کو نہیں دیں گے۔

    جدید سیکولر قومی ریاستوں نے دنیا کو خوفناک جنگوں میں مستقل الجھائے رکھا۔ پہلے دو عالمی جنگیں لڑ کر دنیا کو پندرہ کروڑ اموات کا تحفہ دیا، پھر سرد جنگ کے نام پر ویت نام سے جنوبی امریکا تک ہر خطے کا امن برباد کیا گیا۔ اس کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ نے اس دنیا کو مزید انسانی کھوپڑیوں کے مینار بخشے۔ افغانستان ایک ایسا خطہ ہے جس پر سرد جنگ کے زمانے میں قتل و غارت مسلط کی گئی۔

    سوویت روس کی افواج وہاں داخل ہوئیں اور پھر پوری مغربی دنیا مفاد کے تیر چلانے افغانوں کی مدد کے نام پر وہاں جا پہنچی۔ سرد جنگ سوویت یونین کے زوال سے ختم ہو گئی لیکن افغانوں پر دہشتگردی کے نام پر پچاس کے قریب ممالک نے یلغار کر دی۔ اس مستقل اور مسلسل جنگ اور خوف کا ایک نتیجہ افغان مہاجرین ہیں۔ دسمبر 1979ء میں روس افغانستان میں داخل ہوا اور 1980ء کے آغاز میں مہاجرین کے لٹے پٹے قافلوں نے پاکستان کی سرزمین کا رخ کیا۔ بلوچستان میں ہونے کی وجہ سے میں ان کی آمد کے سلسلوں کا اول دن سے گواہ ہوں۔

    دنیا میں جہاں کہیں بھی مہاجر گئے ہیں یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ انھوں نے اس ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ضرور ڈالا ہے۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہماری معیشت پر باہر سے آئے لوگ بوجھ ہیں۔ مہاجر دنیا کی ہر معیشت کی ضرورت ہوتا ہے۔ بے آسرا، بے گھر، بے وطن، سر جھکا کر کام کرتا ہے۔ محنت سے رزق کماتا ہے۔ اپنے لیے کوئی مراعات طلب نہیں کرتا، کسی حکومتی، سیاسی اور گروہی گٹھ بندی کا حصہ نہیں بنتا، سارے محنت طلب کام وہی کرتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں 25 کروڑ لوگ کسی نہ کسی وجہ سے اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا کر آباد ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد بھارت کے لوگوں کی ہے جو ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ہے۔ اس کے بعد میکسیکو کے افراد ہیں جو ایک کروڑ بیس لاکھ ہیں۔

    پاکستان سے ہجرت کر کے دیار غیر جانے والے افراد کی اس وقت معلوم تعداد نوے لاکھ کے قریب ہے۔ جن میں سب سے زیادہ تعداد متحدہ عرب امارات (16 لاکھ)، سعودی عرب (15لاکھ) اور برطانیہ میں چودہ لاکھ ساٹھ ہزار ہیں جب کہ بقیہ یورپی ممالک میں 8 لاکھ سے زیادہ پاکستانی ہجرت کر کے آباد ہیں۔ ان میں سے ہر کسی نے کسی نہ کسی طرح خود کو اس مملکت پاکستان میں غیر محفوظ، معاشی طور پر پسماندہ اور کہیں سیاسی طور پر کچلا ہوا تصور کیا اور وہ وہاں پہنچ گیا۔ ان تمام ممالک میں جانے والے پاکستانیوں کی جھوٹ سچ کہانیاں اور اس ملک میں آباد ہونے کی سرتوڑ کوششیں رکھنا شروع کی جائیں تو کتابوں کی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن چونکہ مہاجر ہر معاشرے میں معاشی طور پر اپنا بھر پور کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں اس لیے خواہ لوگ ان سے نفرت کریں، حکومتیں ان کے خلاف مسلسل بولتی رہتی ہیں، تا کہ وہ خوفزدہ ہوں، ان کو کوئی اپنے ملک سے نکالتا نہیں۔

    افغان مہاجرین جب سے پاکستان میں آئے ہیں پاکستان کی معیشت میں ان کا جو کردار ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں۔ بلوچستان کے بے آب و گیاہ  علاقے کی مثال لے لیتے ہیں۔ کوئٹہ سے کراچی اور کوئٹہ سے ایران کی شاہراہیں کبھی ویرانی کا منظر تھیں۔ یہ ہرے بھرے سیب، آڑو، ناشپاتی، انگور اور آلو بخارے کے باغات کب اور کس کی محنت سے آباد ہیں، سب جانتے ہیں۔ چاغی میں نوشکی کے بعد ایک صحرا ہے، اس صحرا میں ہاتھ سے کنویں کھود کر فصل کس نے اگائی، دالبندین کے مرحوم سخی دوست جان ایم پی اے کی زمینیں مدتوں سے بے آباد تھیں، کاریزیں خشک ہو چکی تھیں، ان زمینوں سے وہ نوے کی دہائی میں افغان مہاجرین کی محنت سے لاکھوں روپے کمانے لگا تھا۔ ازبک مہاجرین کے بارے میں تو یہ لطیفہ مشہور ہو گیا تھا کہ ’’جب اللہ نے گدھے کو پیدا کیا تو ازبک نے شکایت کی کہ پھر مجھے کیوں پیدا کیا تھا۔‘‘ کون تھا جو ڈھونڈ کر ازبک مزدور نہیں لاتا تھا کہ ایسا ایماندار اور جانفشانی سے کام کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔ ملک میں امن اور خوشحالی ہو تو کوئی دوسرے ملک میں نہیں رہتا کہ وہاں کے لوگ اسے اجنبی سمجھتے رہتے ہیں۔

    آج بھی اس ملک کے کچرا دانوں سے شدید بدبو کے عالم میں بوتلیں، ٹین، گتے علیحدہ کرتے اور فیکٹریوں کا پہیہ چلانے والے یہی افغان مہاجرین ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جسے کوئی بیان نہیں کرتا کہ 1995ء میں جب ملا محمد عمر کی حکومت قائم ہوئی، افغانستان میں صدیوں کے بعد امن آیا تو افغان مہاجرین کے کیمپ ویران ہو گئے۔ محمود اچکزئی کے گھر کے آس پاس جنگل پیر علی زئی، گلستان، سرخاب اور سرانان کے کیمپوں میں ہُو کا عالم تھا۔ ہر کوئی پاکستان چھوڑ کر افغانستان جا رہا تھا۔ پنچپائی اور محمد خیل کے مہاجر کیمپ جو بلوچ علاقوں میں تھے وہاں سے بھی اکثریت واپس چلی گئی۔ لیکن افغانستان کا امن کسی کو اچھا نہیں لگتا۔ ان پر ایک اور جنگ مسلط کر دی گئی اور وہ ایک بار پھر خانماں برباد ہو گئے۔

    ہجرت اور مہاجر ایک اسلامی تصور ہے اور دنیا میں اگر واقعی کسی ملک میں اللہ کے نام لیواؤں پر ظلم مسلط ہے تو وہاں کے لوگ جو جان کے تحفظ میں نکلتے ہیں تو وہ مہاجرین ہیں۔ خواہ کشمیر سے نکلیں یا بوسنیا سے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اخوت جن کے نبی سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا ورثہ ہے، جو منبر رسول پر بیٹھ کر اخوت مدینہ کی باتیں کرتے ہیں، ان کی زبانیں گنگ ہیں اور ان مہاجرین کے حق میں قوم پرست رہنما پشتون ہونے کے ناطے بیاں دے رہے ہیں۔ کیا وہاں سے اس لیے نکالے گئے کہ وہ پشتون تھے، نہیں وہ اس لیے نکالے گئے کہ وہ مسلمان تھے اور ہر ایسے نظام کے مخالف اٹھ کھڑے ہوئے تھے جو اسلام کے نزدیک طاغوت ہے۔

    حیرت ہے اسلام کی عظمت کے گن گانے والے پاکستانی معیشت کا رونا روتے ہوئے انھیں واپس جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کیا مدینہ کے کسی رہنے والے نے مہاجرین کو یہ مشورہ دیا۔ اگر معیشت پر بوجھ ہی ایک اصول ہے تو پھر کل اگر دنیا کے ممالک نے نوے لاکھ پاکستانیوں کو واپس بھیج دیا گیا تو پھر کیا دلیل دو گے۔ وہ پاکستانی جو معیشت کے نام پر ہجرت کر کے گئے ان کے لیے دیار غیر میں تمام سہولتیں مانگتے ہو اور اپنے گھر آئے ہوئے ’’مہاجرین‘‘ کو دھکے مارتے ہو۔ ایک اصول اپناؤ، ایک کسوٹی بناؤ۔ یاد رکھو جس ملک کو تم ریاست مدینہ کے بعد دوسرا بڑ واقعہ قرار دیتے ہو وہ ایسے ہر لٹے پٹے، بے خانمان شخص کا گھر ہے جسے اللہ کے نام پر ستایا اور بے گھر کیا گیا۔

    حج کے دوران ایک بلجیئم کے نو مسلم سے ملاقات ہوئی۔ اس کے چہرے پر اس قدر نور تھا کہ پلک چھپکنے لگتی تھی۔ اس نے سوال کیا پاکستان کیسے وجود میں آیا۔ میں نے بتایا ہم نے اسلام کے نام پر اپنے پنجابی، سندھی، بلوچ اور پشتون بھائیوں کو چھوڑ کر ایک علیحدہ ملک بنایا۔ اس نے جواب دیا Than I am a Natural Citizen of your Country. تو میں آپ کے ملک کا حقیقی طور پر شہری ہوں۔ میرے ساتھ حامد میر بھی تھے۔ مجھے منیٰ کے خیمے میں حامد میر کا جواب آج بھی یاد ہے۔ انھوں نے کہا You can but you can’t تم ہو سکتے ہو لیکن تم نہیں ہو سکتے۔ یہی ہمارا المیہ ہے۔ ہم اللہ سے کوئی اور وعدہ کرتے ہیں اور بندوں سے کوئی اور سلوک۔ جس دن ہم نے یہ منافقت چھوڑ دی اللہ ہم پر مہربان ہو جائے گا۔

  • اوقات-محمد اظہار الحق

    اوقات-محمد اظہار الحق

    izhar

    دو سال اور زندہ رہتا تو وہ پورے ستر سال کا ہو جاتا۔
    مگر امیر تیمور اُن لوگوں میں سے نہیں تھا جو عمر کی طوالت کی خواہش رکھتے ہیں۔

    68 برس کی عمر میں اس نے چین کی تسخیر کا منصوبہ بنایا۔ یہ وہ عمر ہے جس میں انسانوں کی اکثریت مُصلّے پر بیٹھ جاتی ہے یا چارپائی پر دراز ہو جاتی ہے۔ مصلّے پر اس لیے کہ دنیا سے خود کنارہ کش نہیں ہوتے، یہ دنیا ہے جو انہیں ریٹائر کر دیتی ہے۔ پھر وہ سر پر سوراخوں والی ٹوپی پہن کر ہاتھ میں تسبیح پکڑ لیتے ہیں اور خدا کو نہیں، اُس دنیا کو یاد کرتے ہیں جس نے انہیں گھر بھیج دیا۔

    تیمور ایسا نہیں تھا، اس لیے کہ ابھی کئی سلطنتوں نے اس کی آل اولاد سے پھوٹنا تھا۔ وقت کی تقویم نے اُسے انیسویں صدی میں نہیں، چودھویں صدی میں پیدا کیا تھا۔ دہلی سے ماسکو تک اس نے منزلیں سر کیں۔ سلطنت عثمانیہ کو خاک چٹوائی، پورے شرق اوسط کو، پورے ایشیائے کو چک کو پیروں تلے روندا اور اب 68 برس کا بوڑھا چین فتح کرنے کی تیاری کرنے لگا۔ بہادری عمر سے نہیں ہوتی، اس کے لیے حوصلہ چاہیے۔ حوصلہ کسے کہتے ہیں؟ اللہ کے بندو! حوصلہ کا لغوی معنی پوٹہ کے ہیں۔ وہ ذرا سا معدہ جو پرندے کے حلق کے نیچے ہوتا ہے۔ جس میں وہ چگے ہوئے دانے ذخیرہ کرتا ہے۔

    مرغی کو ذبح کرنے کے بعد اس کے حوصلہ (پوٹہ) میں یہ ذخیرہ شدہ دانے دیکھے جا سکتے ہیں۔ بہادری اس حوصلہ سے عبارت ہے۔ تیمور کا حوصلہ بڑا تھا۔ اس نے عزم کر لیا کہ چین کی مِنگ سلطنت کو تہس نہس کر دے گا۔ اس نے ان کے سفیر کو پا بجولاں کر لیا۔ پھر روانہ ہو گیا۔ مگر سیرِِ دریا کے اُس دوسرے کنارے موت کا پرندہ اُس کے سرخ خیمے میں پروں کو پھڑ پھڑاتا، اندر آیا اور اس کی روح کو لے کر، پروں کو پھڑ پھڑاتا، نکل گیا۔ یہ فاراب تھا۔ سمرقند سے کوسوں دُور! موت یہیں لکھی تھی۔

    تیمور اپنی آل کو دنیا کے مختلف حصوں میں سلطنتیں دے گیا۔ اسی بلند حوصلہ تیمور کا ایک بیٹا بہادر شاہ ظفر بھی تھا جس کو میرِ سپاہ بنانے کے لیے 1857ء میں پورے شمالی ہند کے ہندوئوں اور مسلمانوں نے آرزُو کی۔ کئی جتن کیے، مگر مسئلہ حوصلے کا تھا۔ پوٹہ بہادر شاہ ظفر کا چھوٹا تھا۔ اُس نے تاج سر پر رکھا۔ رنگین مخمل کا چُغہ، جسے وسط ایشیا میں آج بھی چپان کہا جاتا ہے اور جو ٹخنوں تک ہوتا ہے، زیبِ تن کیا اور اپنے آپ کو ایک ادنیٰ رینک کے برطانوی افسر کے سپرد کر دیا۔ یہ مرحلہ زوال کا ناگزیر ہے۔ سلطنتیں اپنی طبعی عمر کو پہنچتی ہیں۔ عصا دردست ہو جاتی ہیں۔ بینائی کھو بیٹھتی ہیں۔ پھر پائوں قبر میں لٹکا کر، فنا کا انتظار کرتی ہیں۔ آخری ہچکی لیتی ہیں تو ان کی طرف دیکھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا کہ آنکھیں بند کر کے ناک میں روئی ہی ٹھونس دے۔

    اِسی مرحلہ وار زوال کو سیاسی جماعتوں پر منطبق کر دیجیے۔ مسلم لیگ سب سے بڑی مثال ہے۔ کہاں محمد علی جناح۔۔۔ اور پھر کہاں چھوٹے قد و قامت کے جانشین جو خُرد بین سے بھی نہ دیکھے جا سکیں۔ پیپلزپارٹی، جس کا بانی اور سربراہ زندان میں بھی کتابیں پڑھتا اور کتابیں لکھتا رہا۔ سارے عیب اس میں موجود تھے جو مطلق العنان بادشاہوں میں ہوتے ہیں۔ مگر بات استعداد کی، وژن کی اور حوصلہ کی ہو رہی ہے۔ پھر یہی پارٹی جن کے ہاتھوں میں پہنچی انہوں نے بولیاں لگوائیں۔

    پرسوں ایک سیاسی مذہبی رہنما نے خالص لسانی بنیادوں پر ایک اجلاس بلایا۔ اس میں صرف وہ لیڈر مدعو تھے جو بقول میڈیا ”پختون قائدین‘‘ تھے۔ اس اجلاس میں کوئی غیر پختون رہنما نہ تھا۔ مسئلہ افغان مہاجرین کا تھا۔ مطالبہ کیا گیا کہ افغان مہاجرین کو 2021ء تک پاکستان ہی میں رہنے دیا جائے۔ یہ کہ انہیں تنگ نہ کیا جائے۔ یہ کہ ان کی جائیدادوں کی فروخت کے لیے مربوط نظام مرتب کیا جائے۔ یہ کہ ”پشتونوں‘‘ کے شناختی کارڈ بلاک کیوں کیے جا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مگر دلچسپ ترین نکتہ لسانی بنیادوں پر اکٹھے کیے گئے اِن قائدین کا یہ تھا کہ افغانستان سے اچھے تعلقات نہیں ہیں تو اس کا سبب ہماری پالیسیاں ہیں! گویا افغانستان فرشتہ ہے! سارا قصور پاکستان کا ہے!
    بچہ بھی جانتا ہے اور ذہنی امراض کے ہسپتال میں جو پاگل زنجیروں میں بندھا ہے، اُسے بھی معلوم ہے کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ کس کے اثر و نفوذ سے افغانوں کو شناختی کارڈ ملے؟ وہ کس کے ووٹر بنے؟ شناختی کارڈ پختونوں کے نہیں، افغانوں کے بلاک کیے جا رہے ہیں۔ ان قائدین کی پاکستان سے وابستگی کی گہرائی ملاحظہ ہو، افغان مہاجرین نے جب جائیدادیں خریدیں تو یہ چُپ رہے۔ اب فروخت ہونی ہیں تو یہ ”مربوط نظام‘‘ چاہتے ہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ افغان مہاجرین پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کراچی، لاہور، ملتان سے لے کر مری اور راولپنڈی تک۔ مگر اجلاس میں صرف ”پختون قائدین‘‘ کو زحمت دی گئی۔

    تا ہم یہ ہمارا موضوع نہیں۔ موضوع زوال ہے۔ سلطنتوں کا زوال اور سیاسی جماعتوں کا زوال ہے۔ اس اجلاس میں، جو خالص لسانی بنیاد پر بلایا گیا تھا، سید ابوالاعلیٰ مودودی کے جانشین بھی شریک تھے۔ محمود خان اچکزئی کے ساتھ، کندھے سے کندھا ملائے۔

    تصور کیجیے، ابوالاعلیٰ مودودی کی شخصیت کا اور ذہنی وسعت کا جو پاکستان سے باہر کی اسلامی دنیا سے ربط رکھتے تھے۔ ان کے نظریات سے ہم اتفاق کریں یا اختلاف، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ مگر اس میں کیا شک ہے کہ وہ ندی نہیں، سمندر تھے۔ زوال کا اندازہ لگائیے آج ان کا جانشین اس اجلاس میں بیٹھا ہے جو خالص لسانی اور نسلی بنیاد پر بلایا گیا ہے۔ جس میں الیکشن اور ووٹوں اور شناختی کارڈوں کے ان پہلوئوں کو موضوع بنایا گیا جو مشکوک ہیں، دھندلے ہیں، صاف ستھرے اور اُجلے نہیں! میلے ہیں اور حد درجہ مبہم!
    اب کون پوچھے کہ کیا وہ اس اجلاس میں اپنی جماعت کی نمائندگی کر رہے تھے؟ اگر ایسا ہے تو کیا ان کی جماعت نے پختون ہونے کی وجہ سے قیادت انہیں سونپی؟ اگر وہ ذاتی حیثیت میں شریک ہوئے تو کیا اس اجلاس کی کارگزاری وہ اپنی جماعت کے ساتھیوں سے اور شوریٰ سے شیئر کریں گے؟ کریں گے تو کیا ذاتی حیثیت سے کریں گے؟

    آندھی کی طرح چھا جانے والے تیمور، گڑ گڑاتے، گھگھیاتے بہادر شاہ ظفر بن جاتے ہیں۔ قدر آور لیڈروں کی گدیاں پراپرٹی ڈیلروں کے قبضے میں آ جاتی ہیں۔ کہاں وہ لیڈر جو لِیڈ کرتے تھے۔ کہاں یہ ڈیلر جو ڈِیل کرتے ہیں۔ سمندر گم ہو گئے۔ اب چھوٹے چھوٹے نالے ہیں۔ چلّو بھر پانی پر مشتمل ندیاں۔ بقول ظفر اقبال ؎

    جس آب رود کی اوقات چند قطرے ہو
    تو اس کو پھاندنا کیا، اس میں پائوں دھرنا کیا

    اپنا وجود ثابت کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرنے والے! خبروں میں زندہ رہنے کے لیے جتن کرنے والے! بس کوئی ایسی سرگرمی کہ ٹی وی پر جھلک آ جائے اور اخبار میں تصویر! عبرت کا مقام ہے!

    مگر زوال کی اس سے بھی زیادہ عبرت ناک قسم وہ ہے جس میں عروج نصیب ہی نہیں ہوتا۔ پیدائش کے بعد، پہلا مرحلہ ہی زوال کا ہوتا ہے۔ گویا شباب آیا نہیں۔ کہولت آ گئی۔ عمران خان کی تحریکِ انصاف دیکھیے۔ اس زوال کی زندہ مثال ع

    اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
    یا یوں کہیے کہ ؎
    تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
    اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا

    جنرل پرویز مشرف کی باقیات جمع کرنے میں دوسری سیاسی جماعتوں کو زمانے لگ گئے مگر تحریک انصاف نے یہ سارے زمانے ایک جست میں طے کر لیے۔ جہلم کے ضمنی الیکشن کے لیے جن صاحب کو چنا وہ پہلے جنرل صاحب کی جماعت میں تھے۔ پھر پیپلزپارٹی میں آئے۔ پھر قاف لیگ کے گھاٹ پر اترے۔ اب تحریک انصاف نے اپنے دروازے ان پر کھول لیے۔ ایک سو ایک فیصد وہی رویہ جو دوسری پارٹیوں کا ہے۔ کہاں کا میرٹ، کہاں کے نوجوان!

    کچھ دیہاتی ایک وکیل کے پاس گئے۔ مقدمے میں جان نہیں تھی۔ وکیل نے چالیس ہزار روپے مانگے۔ یہ متاثر نہ ہوئے۔ کسی بڑے وکیل کی تلاش میں اُٹھ گئے۔ دو لاکھ کا وکیل کیا۔ مقدمہ ہار گئے۔ پہلے وکیل نے طعنہ دیا کہ یہی کام میں چالیس ہزار روپے میں کر کے دے رہا تھا۔ جہلم کی یہ نشست تو آپ کے پاس پہلے بھی نہیں تھی۔ اب بھی نہیں ملی۔ تو یہ ”کامیابی‘‘ حاصل کرنے کے لیے سینے پر لوٹا نوازی کا تمغہ سجانا ضروری تھا؟

  • خدارا جذباتی فیصلے نہ کریں – عامرہزاروی

    خدارا جذباتی فیصلے نہ کریں – عامرہزاروی

    عامر ہزاروی پنجاب میں بچوں کے اغواء کا معاملہ شدید ہوتا جا رہا ہے. اچھی بات یہ ہے کہ عدلیہ اور حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں. ہم پنجاب کی خبریں سن رہے تھے کہ مانسہرہ سے بھی خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ یہاں بھی بچے اغواء ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

    کل سے ایک خوف و ہراس ہے، لوگ گھبرائے ہوئے ہیں، آج اپنے ادارے گیا تو بچوں کے چہروں پہ خوف کے واضح آثار تھے، بچے کہہ رہے تھے کہ افغانی بچوں کو اغوا کر رہے ہیں، ہمیں چھٹیاں دی جائیں، بچوں کو سمجھایا کہ آپ خوف نہ کھائیں اللہ بہتر کرے گا۔

    واپسی ہوئی تو گاڑی میں دیکھا کہ ایک افغانی اور ایک پاکستانی لڑ رہے تھے. پاکستانی کہہ رہا تھا کہ آپ ہمارے بچے اغوا کر رہے ہیں، افغانی کہہ رہا تھا کہ میرے سولہ بچے ہیں، میں انہیں نہیں سنبھال سکتا، آپ کے بچوں کو اغوا کر کے کیا کروں گا؟ اس افغانی نے کہا کہ ہم نے آپ کی جنگ لڑی، روسیوں کو مارا، اپنی جانیں دیں لیکن روس کو آپ تک نہیں آنے دیا، ہمارے بچے آپ کے ملازم ہیں، کیوں ہمیں الزام دیتے ہو؟ دیکھو امریکیوں سے ہم نے جنگ کی، انہیں آج تک الجھا کے رکھا ہوا ہے، میرا ملک تو جنگ میں ہے لیکن ہم نے وہ جنگ آپ پہ مسلط نہیں ہونے دی، ہم نے اس ملک کا کھایا، ہم کیوں نمک حرامی کریں گے؟

    مجھے یہ باتیں سن کے تکلیف ہوئی.

    بھائی آپ افغانیوں کو نکالیں میں آپ کے ساتھ ہوں۔ سوال یہ ہے کہ ان کو بدظن کر کے کیوں نکال رہے ہیں؟ تیس سال تک آپ نے انہیں سنبھالے رکھا، اب احترام سے انہیں رخصت کریں۔ ان پہ الزام کیوں لگا رہے ہیں کہ یہ بچوں کو اغوا کر رہے ہیں ؟ کیا یہ ضروری ہے کہ عوام کو ان کے ساتھ لڑایا جائے؟ کیا خون کی لکیر کھینچنا ضروری ہے ؟ کیا ایک نئی جنگ لڑنا ضروری ہے؟ کیوں بھارت کے ہاتھ مضبوط کیے جارہے ہیں؟ یاد رکھیں جہاں خون بہتا ہے وہاں نفرتیں بڑھتی رہتی ہیں. بھارت کی مثال لے لیں، بھارت سے آج تک نفرت کم نہیں ہوئی، بنگلہ دیش کی مثال لیں، بنگالیوں کا آج بھی غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا، وہ ہمارے سفید داڑھی والوں کو لٹکا کے جشن مناتے ہیں۔

    مجھے معلوم ہے کہ ریاست جب ایک فیصلہ کرتی ہے تو عوام کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے نفرت کے بیج بوتی ہے، آج ایک بار پھر نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں. جو لوگ ایسا کر رہے ہیں وہ ملک کے ساتھ محبت نہیں کر رہے. میں آنے والے حالات کا تجزیہ کرتا ہوں تو جھرجھری سی آجاتی ہے اور جسم کپکپا اٹھتا ہے. خود کو عقل کل سمجھنے والے لوگ یہ کیسے فیصلے کر رہے ہیں؟
    دیکھیں
    بھارت ہمارا دشمن، ایران ہمارا دشمن، روس ہمارا دشمن، دبئی ہمارا دشمن، افغانستان ہمارا دشمن، بنگلہ دیش ہمارا دشمن، اب امریکہ بھی دشمن بن گیا ہے، اس نے بھی فنڈز روک لیے ہیں۔ بتایا جائے کہ ہمارا دوست کون ہے؟

    یہ وقت جذبات کا نہیں ٹھنڈے دماغ سے کام لینے کا ہے. خدا کے لیے اپنے پاؤں پہ کلہاڑیاں مت ماریں. عوام کو عوام سے نہ لڑائیں. حکومتیں مل بیٹھ کے ایک فیصلہ کریں. ہم مزید تباہی سے دوچار ہونا نہیں چاہتے۔

  • افغان اور پشتون کی بحث…سعد اللہ جان برق

    افغان اور پشتون کی بحث…سعد اللہ جان برق

    m-bathak.com-1421245693sadullah-jan-barq

    سیاست کی اپنی اپنی کروٹیں ہوتی ہیں جو وقتاً فوقتاً بدلتی رہتی ہیں ان میں کچھ کروٹیں تو متوقع ہوتی ہیں لیکن زیادہ تر کروٹیں اونٹ کی طرح قطعی خلاف توقع ہوتی ہیں، چنانچہ ان دنوں اس اونٹ نے جو خلاف توقع کروٹ لی ہے وہ محمود خان اچکزئی کے ایک بیان سے شروع ہوئی ہے۔

    اصل مسئلہ لفظ افغان کا ہے جو ان بیانات میں اچھا جا رہا ہے ۔ طورخم کی جو لکیر ہے وہ قطعی ایک غیر فطری لکیر ہے کیوں کہ فطری سرحدوں کے جو اصول یا شرائط ہیں وہ یہاں ایک بھی موجود نہیں، یہ تو امیر عبدالرحمن اور انگریزوں نے باہم متفق ہو کر ڈیوائڈ اینڈ رول کا مظاہرہ کیا تھا کیوں کہ دونوں کو اس کی ضرورت تھی، اگر یہ لکیر نہ کھینچی جاتی تو امیر عبدالرحمن کی حکومت کے لیے پشتون ہمیشہ خطرہ بنے رہتے کیوں کہ دونوں جانب کے پشتون مل کر دوسری افغان اقوام سے اکثریت میں ہو جاتے، خود امیر عبدالرحمن نسلی لحاظ سے پشتون تھا لیکن حکمرانوں کا کوئی مذہب یا نسل یا زبان نہیں ہوتی اور اس کے اردگرد اصل حکومت چلانے والا حلقہ غیر پشتونوں پر مشتمل تھا۔

    انگریزوں کو افغانستان سے کوئی لینا دینا نہیں وہ تو روسی خطرے کے آگے دیواریں بنانا چاہتے تھے چنانچہ دریائے آمو سے طورخم تک ایک دیوار بنی، دوسری قبائل سے ٹسلڈ ایریا کی دیوار بنی روس کو برٹش ایمپائر پر پہنچنے کے لیے ان دیواروں کو عبور کرنا پڑتا اور ان دیواروں کی تباہی یا گرنے ٹوٹنے سے اس کا کوئی نقصان نہ ہوتا اگر مرتے تو پشتون ہی مرتے، ان حالات میں ڈیورنڈ لائن کی لکیر کھینچی گئی جو فطری معنی میں ’’سرحد‘‘ بالکل نہیں تھی کیوں کہ سرحد یا تو ناقابل عبور سمندروں دریاؤں یا پہاڑوں کی ہوتی ہے جیسی کہ چین اور ہندوستان کے درمیان ہے یا اس کی بنیاد مذہب پر ہوتی ہے یا قوم یا نسل کی وجہ سے لیکن یہاں میں کوئی بھی حالت موجود نہیں ہے، دونوں اطراف میں ایک ہی مذہب ایک ہی قوم ایک ہی نژاد ایک ہی زبان اور ایک ہی نظریئے و عقیدے کے لوگ رہتے ہیں سوائے حکومتوں کے مفادات کے، لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ہے کہ اس پر اب بحث کرنا فضول ہے یہ لکیر اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ کسی طرح بھی اس کا مٹانا ممکن نہیں رہا ہے۔

    سوائے ایک صورت کے کہ دونوں اطراف کے عوام اور حکومت جرمنی کی طرح متفق ہو جائیں لیکن یہ بھی ایک ’’خیال و محال‘‘ قسم کی بات ہے۔ اب آتے ہیں اصل مسئلے کی طرف کہ کون افغان اور کون پشتون ؟ یہ دو الفاظ یا نام ہمیشہ سے مبہم اور ناقابل تشریح رہے ہیں، دونوں ممالک کے کسی بڑے سے بڑے لیڈر یا مدعی سے پوچھا کہ افغان کون اور پشتون کون؟ تو اس کا جواب نہیں دے پائے گا۔

    انگریزوں کے زمانے سے یہ طریقہ رہا ہے کہ قومیت کے خانے میں افغان لکھا جاتا ہے اور یہ طریقہ اب بھی رائج ہے لیکن جو لوگ دونوں ناموں کی حقیقت جانتے ہیں وہ قومیت کے خانے میں اب پشتون بھی لکھنے لکھوانے لگے ہیں، لیکن عامتہ الناس کو اب بھی دونوں کی اصل حقیقت معلوم نہیں ہے کیونکہ ’’افغان‘‘ قطعی ایک الگ مفہوم رکھتا ہے اور پشتون کے اپنے مخصوص معانی ہیں، یوں کہیے کہ ہر پشتون افغان ہو سکتا ہے لیکن ہر افغان پشتون نہیں ہوتا، اس کا سلسلہ یوں ہے کہ پشتون صرف اسی کو کہا جا سکتا ہے جو اپنے اس مخصوص علاقے میں ہو اس کی زبان پشتو ہو اور زبان کے علاوہ ایک پشتو اور ہے جو طرز زندگی رسم و رواج اور معاشرتی تعلقات کا نام ہے اس پر بھی کاربند ہو، مزے کی بات یہ ہے کہ پشتون کے اس دائرے میں دوسری اقوام کے لوگ بھی آجاتے ہیں جسے عرب، ایرانی، کشمیری، پنجابی، سندھی، بلوچی حتیٰ کہ انگریز تک بھی آسکتے ہیں مثلاً یہ جو بزرگان دین ہیں جسے بایزید انصاری عرب تھا لیکن پشتون قومیت کا سب سے بڑا علمبردار تھا، پیر صاحب (سید علی ترمذی) نژاد کے لحاظ سے ایرانی تھے لیکن ان کی اولاد آج مستند طور پر پشتون حضرت کاکا صاحب شیخ رحمکار ؒ بھی سید تھے۔

    اسی طرح اور بھی کئی بزرگ تھے جو دوسری نژادوں سے تعلق رکھتے تھے ہمارے موجود وقت میں کتنے ہی ہندو مسلمان ہوئے، کتنے پنجابی آکر یہاں بس چکے ہیں اس طرح کشمیریوں اور ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد اب ’’پشتون‘‘ کے دائرے میں شامل ہیں جو پشتو بولتے ہیں پشتو کرتے ہیں اور پشتونوں میں رہتے ہیں، لیکن افغان کا سلسلہ قطعی الگ ہے بہت سارے لوگ جو نسلی اور نژادی لحاظ سے پشتون ہیں لیکن اب دوسرے معاشروں میں رہتے ہیں نہ پشتو جانتے ہیں نہ پشتو (قوانین) پر عمل درآمد کر سکتے ہیں یہ سب کے سب افغان کے دائرے میں آتے ہیں مثلاً جوش ملیح آبادی، علامہ تاجور نجیب آبادی، علامہ نیاز فتح پوری، مولانا محمد علی و شوکت علی، ڈاکٹر ذاکر حسین، یا فلم انڈسٹری میں جو بے شمار ’’خان‘‘ ہیں یہ سب کے سب افغان تو ہیں لیکن پشتون نہیں ہیں یہ بالکل ویسی ہی بات ہے کہ ایک شاخ اگر درخت سے کاٹ کر کہیں دور لگائی اور اگا لی جاتی ہے تو نسل اور خاندان کے لحاظ سے تو وہ اپنے اصل سے تعلق رکھتی ہے لیکن خود وہ درخت اسی علاقے کا ہوتا ہے جہاں وہ پلا بڑا ہے، چنانچہ دوسری جانب تاجک، ازبک اور دری زبان بولنے والے فارسی بان افغان بے شک ہیں لیکن پشتون نہیں ہیں کیوں کہ وہ اس مخصوص معاشرے اور زبان سے دور ہو کر کسی اور طبقے میں شامل ہو چکے ہیں۔

    ہند میں ایسے کئی اولیاء کرام گزرے ہیں جو نژادی لحاظ سے پشتون تھے لیکن اب وہ پشتون نہیں بلکہ افغان کہلائیں گے اور ان کی اولادیں بھی اسی زمرے میں شمار ہوں گی، اس بنیاد پر دیکھا جائے تو افغان نسبتاً وسیع دائرہ ہے جب کہ پشتون کا دائرہ محدود ہے، یوں کہیے کہ پشتون ایک قوم ہے اور افغان ایک ملت ۔ پنجاب میں ایک بڑی تعداد پشتونوں کی موجود ہے جیسے درانی، نیازی، سندھ میں ایک بہت بڑا قبیلہ ’’انیدھڑ‘‘ کے نام سے موجود ہے جو اصل میں انڈر ہیں جو غزنی میں تو ایک پوری ولایت ان کی ہے جب کہ ہمارے خیبر پختون خوا میں بھی بہت ہیں اب یہ انڈر یا انیڈھر اگر افغانستان میں یا خیبر پختون خوا میں ہیں اور پشتو بولتے یا کرتے ہیں تو پشتون کہلائیں گے لیکن اگر سندھ یا ہند کے آندھرا پردیش میں ہیں تو وہ ’’افغان‘‘ ہیں۔

    اسی طرح ایک ہی قبیلہ یوسف زئی یا خٹک کے جو لوگ دوسرے علاقوں میں رہتے ہیں جیسا کہ محمد علی، شوکت علی زسف زئی تھے جوش ملیح آبادی آفریدی تھے، نیاز فتح پوری بھی غالباً آفریدی تھے یہ سب افغان کے زمرے میں تو آتے ہیں لیکن پشتون کے دائرے میں نہیں کیوں کہ اس کے لیے اس مخصوص سرزمین پر رہنا پشتو بولنا اور پشتو کرنا لازمی ہوتا ہے، رہی سیاسیات کی بات تو ۔۔۔۔ سیاست تو گرگٹ ہوتی ہے لمحے لمحے رنگ بدلتی ہے کل کے دوست اور حلیف ایک لمحے میں دشمن ہو جاتے ہیں اور کل کے دشمن اچانک ایک دوسرے کے گلے لگ جاتے ہیں۔