Tag: اسلحہ

  • شہر کراچی میں بہائے جانے والے ناحق خون کا ذمہ دار کون؟ : رجب علی

    شہر کراچی میں بہائے جانے والے ناحق خون کا ذمہ دار کون؟ : رجب علی

    رجب علی
    شہر قائد جس کی روشنیاں بحال کرنے کے دعوں میں حکومت اور کوئی قانون نافذ کرنے والا ادارہ پیچھے نہیں رہنا چاہتا ہے،، ہر ادارہ اور حکومت عوام سے داد وصول کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا کہ ہم نے اس شہر کی روشنیاں بحال کیں، ورنا تو پہلے کے حالات اس قدر پر آشوب تھے کہ نہ پوچھیے، 2013میں قتل و غارت گری کی سالانہ یومیہ شرح 7.6 تک پہنچ گئی تھی اس طرح 2013کے دوران قتل و غارت کی 2700سے زائد وارتیں ہوئی تھی لیکن کوئی حکومتی نمائندہ یا قانون نافذ کرنے والاے ادارے کے سربراہ یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے کہ شہر میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے،، حکومتی اعلیٰ عہدیدار تمام زمینی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ڈھائی کروڑ کی آبادی والے شہر میں روز چند افراد کا قتل کوئی تشویشناک بات نہیں ہے ۔یہ وہی شہر تھا جہاں صبح سے رات تک اسپتالوں میں فائرنگ کے زخمی اور مقتولین کی لاشوں کا ڈھیر لگا رہتا تھا،، اگست 2010 میں ایک ایک دن میں سو سو لاشیں بھی اس شہر میں اٹھائی گئی تھیں جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام کا کہنا تھا کہ حالات پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کیسی کوششیں تھی جن سے روز بروز حالات خراب ہوتے جا رہے تھے لیکن جنہیں حالات پر قابو پانے کے لئے عملی اقدامات کرنے تھے وہ تمام حکام چین کی بانسری بجا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ اس وقت شہر میں شہریوں پر چھوٹے بڑے تمام ہتھیار استعمال کئے جا رہے تھے، اس وقت تو کسی نے حیرت کا اظہار نہیں کیا کہ بھائی اس شہر میں اینٹی ائر کرافٹ گن سمیت دیگر بھاری ہتھیار لسانی فساد کے لئے استعمال کئے جا رہے ہیں، لیکن عزیز آباد میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو سے چند قدم کے فاصلے پر مکان کے تہہ خانے سے بڑی تعداد میں جنگی اسلحہ سمیت بڑے اور چھوٹے ہتھیار برآمد ہونے پر سب حیرت زدہ نظر آرہے ہیں،کیوں؟؟؟؟

    یہاں ایسا لگتا ہے جیسے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو کالعدم پیپلز امن کمیٹی جسے ”لیاری گینگ وار“ کا نام دیا جاتا ہے سے علیحدہ دکھایا گیا اسی طرح اب ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان کو بھی دو مختلف جماعتیں ظاہر کئے جانے کی کوشش ہورہی ہے،، حکام کیوں حقائق بتانے سے گریزاں ہیں،، پچھلے دور میں شہر کی تمام سیاسی جماعتوں ، کالعدم تنظیموں اور مذہبی انتہا پسند جماعتوں نے مل کر اس شہر کا امن تباہ کیا تھا لیکن آج سب ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں لگے ہوئے ہیں ،، آج امن و امان کے قیام کے تمام دعوے دار اس وقت خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر آپ نے یہ تسلیم کر لیا کہ پچھلے دور میں حالات اس قدر بگڑے ہوئے تھے تو ان تمام زمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہیے تھا جو ان حالات کے زمہ دار تھے ، ان زمہ داروں میں آج شہر کا دورہ کرتے ہوئے عوام میں گل مل جانے والوں سمیت سیاست دانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان بھی شامل ہیں، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔۔۔۔کیا روز قیامت ان زمہ داروں سے سول نہیں کیا جائے گا کہ اختیار ہونے کے باوجود تم نے کچھ نہیں کیا اور شہر کی سڑکوں ، گلی، محلوں میںبے گناہوں کا خون بہتا رہا، اگر تم بے اختیار تھے تو مثتفی کیوں نہیں ہوئے اور گھناﺅنا کھیل کیو ں دیکھتے رہے ؟؟؟

    یہ بات تو طے ہے کہ اس شہر میں ایسے مہلک ہتھیار شہریوں پر استعمال کئے جاتے رہے ہیں جسکی روشنی میں ہمیں اس بات پر تحقیقات کرنی چاہیے کہ ناجانے شہر قائد میں عزیز آباد جیسے مزید کتنے تہہ خانے موجود ہیں، جہاں مہلک ہتھیار بڑی تعداد میں چھپائے گئے ہیں ۔۔ یہاں ایک بات پر حیرت ہے کہ گزشتہ برس نائن زیرو اور اطراف میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھرپور آپریشن کیا ،کئی پرانے خطرناک دہشت گرد بھی پکڑے گئے اور رہنماﺅں کو بھی گرفتار کیا گیا ،، لیکن کیا ان گرفتار ملزمان سے تفتیش بھی کی گئی تھی یا وہ صرف ڈرامہ تھا؟۔ اگر تفتیش کی گئی تھی تو کیا ان خطرناک دہشت گردوں کو بھی یہ نہیں معلوم تھا کہ اتنا بڑا اسلحے کا ذخیرہ بغل میں چھپایا گیا ہے، یہ وہ سول ہیں جو عام آدمی کے زہن میں اٹھ رہے ہیں۔۔

    یہاں یہ بات بھی ضروری ہے کہ ملنے والے جنگی ہتھیار کی خرید اری کیا کوئی آسان کام ہے،، کیا یہ ہتھیار کسی اسلحہ ڈیلر سے خریدے جاسکتے ہیں،، کیا عام طور پر یہ ہتھیار اسلحہ فروخت کرنے والی دکانوں پر مل جاتے ہیں ۔تو ان تمام سوالوں کا جواب ہے نہیں۔ نہ ہی یہ ہتھیار کسی اسلحہ ڈیلر سے خریدے جاسکتے ہیں اور نہ ہی ایسے ہتھیار اسلحہ کی کسی دکان پر موجود اور وہاں حاصل کئے جاسکتے ہیں، ملنے والے ہتھیاروں میں نیٹو ، امریکی ساختہ، بھارتی ساختہ، چائنہ ساختہ سمیت دیگر ہتھیاروں کے علاوہ سرکاری ہتھیار بھی موجود ہیں ،، سرکاری ہتھیاروں کے حوالے سے تو کہا جاسکتا ہے کہ چھینے گئے ہوں گے لیکن دیگر ہتھیار تو باقائدہ خرید کر دوسرے ممالک سے منگوائے گئے ہوں گے اور یہ ہتھیار زمینی، ہوائی یا پھر سمندری راستے سے ہی لائے گئے ہوں گے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا بڑا اسلحے کا ذخیرہ یہاں تک پہنچا کیسے تھا ۔ویسے تو گزشتہ برس نائن زیرو پر رینجرز کے آپریشن سے قبل تک یہ علاقہ ، شہر کے بعض علاقوں کی طرح علاقہ غیر سمجھا جاتا تھا ، نائن زیرو کے اطراف تمام گلیوں کو عوام کے لئے بند رکھا گیا تھا، صرف یہاں رہنے والے ہی ان گلیوں سے گزرنے کا حق رکھتے تھے ، تو ممکن ہے کہ ایسے وقت میں یہاں اسلحہ کی یہ کھیپ لائی گئی ہو گی،، اس حوالے سے ڈی آئی جی ویسٹ ذوالفقار لاڑک سے جب سوال کیا گیا کہ اسلحہ کی اتنی بڑی کھیپ یہاں کیسے پہنچ گئی تو وہ کہنے لگے کہ جیسے پورے شہر میں اسلحہ پہنچا ویسے ہی یہاں بھی پہنچا ہوگا ،، ڈی آئی جی نے جواب تو مختصر دیا لیکن یہاں ہماری تحقیقات کی تصدیق بھی کر دی گئی کہ اب اس حوالے سے تحقیقات ہونی چاہیے کہ ایسے تہہ خانے مزید کہاں کہاں موجود ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

  • کتابوں میں پھول اور امن کی خواہش – رحمان گل

    کتابوں میں پھول اور امن کی خواہش – رحمان گل

    رحمان گل امن کی خواہش رکھنا اور امن کے خواب دیکھنا یقیناً اچھی بات ہے اور جنگ جو کہ بذات خود ایک مسئلہ ہے, کی باتیں کرنا اور جنگ مسلط کرنایا جنگ کو کسی مسئلے کا حل سمجھنا ہرگز درست عمل نہیں لیکن کیا صرف امن کی خواہش رکھنے یا کتابوں میں پھول رکھنے سے امن قائم ہو سکتا ہے؟ ذرا ماضی کے اوراق پلٹ کے دیکھتے ہیں شاید کچھ سیکھنے کو مل جائے. یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں جب یہودیوں کے لیے اس زمین کو دوزخ بنا دیا گیا تھا اور لاکھوں لوگوں کو اذیت ناک موت سے دو چار کیا گیا. کیا ان لاکھوں لوگوں میں سے کسی نے بھی امن کی خواہش نہیں کی ہوگی؟ کسی کے دل میں کتابوں میں پھول رکھنے کا خیال نہ آیا ہوگا؟ پھر ایک وقت تھا جب اسرائیلیوں کے معاشی حالات سخت تھے، ایسے میں اسرائیلی وزیر اعظم گولڈ میئر اپنی تاریخ کی سب سے بڑی اسلحے کی خریداری کا معاہدہ کرتی ہیں تب کہیں جا کر ان کو امن نصیب ہوا.

    ناچیز کے ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا کشمیر، فلسطین، شام، عراق، افغانستان اور یمن کے لوگ امن کے خواہشمند نہیں؟ کیا ان کے دل میں نہیں آتا کہ وہ کتابوں میں یاسمین یا گلاب کے پھول رکھیں اور امن پالیں، مگر کیا وجہ ہے ان کو امن میسر نہیں اور ظلم ان پر مسلط ہے. تاریخ گواہ ہے کہ گیارہ مئی انیس سو اٹھانوے کو جب ہمسایہ ملک نے ایٹمی دھماکے کیے تھے تو اس وقت امن کی خواہش صرف کتابوں میں موتیے یا چنبیلی کے پھول رکھنے سے نہیں پوری ہوئی تھی بلکہ جواب میں ایٹمی دھماکے کرنا پڑے تھے، تب جا کہ امن کی خواہش پوری ہوئی تھی. ویسے اگر کوئی شاگرد چاہے تو ان دونوں ایٹمی دھماکوں کے درمیانی پندرہ دنوں میں ہمسائیوں کا رویہ دیکھ سکتا ہے اس میں بھی بہت کچھ ہے سیکھنے والوں کے لیے . امید ہے کہ شاگرد نے یہ بات سمجھ لی ہوگی کہ امن کتابوں میں پھول رکھنے سے نہیں بلکہ طاقت کے توازن سے آتا ہے.

    اب ذرا بات کر لیتے ہیں استاد کی ایک بات تو طے ہے کہ غلطی سے پاک کوئی انسان نہیں چاہے وہ استاد ہو یا شاگرد. وقت بدلتا ہے, حالات بدلتے ہیں، حکمت عملی بدلتی ہے، ایک فیصلہ جو آج کے حالات میں درست ہو ضروری نہیں کہ وہ کل بھی درست ہو اور ریاستیں مفاد پر چلتی ہیں یہ بات تو سب جانتے ہیں. استاد نے جو بھی قدم اٹھائے ہیں ماضی میں یا اب وہ یقیناً حالات، دستیاب وسائل اور مواقع کو مد نظر رکھ کر اٹھائے ہوں گے. تمام دنیا میں اصول, قوانین اور ریاستی بیانیے و پالیسیاں مفادات کے گرد گھومتی ہیں اور یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں.

    شاگرد چونکہ بہت ذہین ہے اور مشکل سے مشکل گتھیاں چٹکی بجاتے ہی سلجھا لیتا ہے تو ایسے شاگرد کو یہ راز بھی جان لینا چاہیے کہ جس مکتب کہ تمام مضامین ایک ہی استاد کے ذمے ہوں تو وہاں پر کچھ نا کچھ کسر رہ ہی جاتی ہے. شاگرد چونکہ بہت نابغہ روزگار ہے اس لیے سمجھ سکتا ہے ایسا استاد جس کے ذمے بہت سے اضافی کام ہوں اس کے لیے کچھ نہ کچھ رعایت تو بنتی ہے.

  • امریکہ نے 7 ارب ڈالر کا فوجی سامان کیوں جلایا؟ قادرخان افغان

    امریکہ نے 7 ارب ڈالر کا فوجی سامان کیوں جلایا؟ قادرخان افغان

    قادر افغان امریکہ کو اپنی واپسی کےلیے افغان فوج پر تکیہ کرنے کے سبب، سب سے بڑی پریشانی افغانیوں اور امریکی مخالف گروپ کا باہمی طور پر ایک دوسرے سے واقفیت و تمدن و ثقافت ہے، جس بنا پر وہ افغان فوجیوں پر بھی اعتماد کرنے سے تامل برت رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو اپنا سات ارب ڈالر مالیت کا وہ عسکری سامان تلف کرنا پڑا جو وہ پاکستان اور افغانستان میں کسی کو بھی نہیں دیناچاہتا۔ اندازے کے مطابق امریکی فوج نے ستر ہزار ٹن مجموعی وزن کے حامل ساز و سامان کوسکریپ میں بدل دیا تھا جس میں سات ارب ڈالر کی خطیر مالیت کے سامان کوتلف کر دیا گیا۔ ان میں بارودی سرنگوں کے خطرے سے محفوط تقریبا دو ہزار مشینوں کے علاوہ تعدادلاکھوں میں تھی۔ امریکہ افغانیوں کودفاع کےلیے ساز و سامان نہیں دے رہا اور اس کو اسکریپ میں تبدیل کر رہا ہے تو امریکہ کی دل جیتنے کی تمام ایسی کوششیں بھی لاحاصل ہوں گی کہ فوجی انخلا سے بیشتر پورے ملک میں ایسے مذہبی و تمدنی امور سے متعلق افسر مقرر کیے جائیں جو امریکیوں اور ان کے بعد افغان فوجیوں کے راہ میں رائے ہموار کریں کیونکہ ان کے خیال میں فوجی انخلا کے بعد سب سے بڑا چیلنج مقامی لیڈروں کا اعتماد حاصل کرنا ہے، جس میں امریکہ، بر طانیہ اور نیٹو ممالک ناکام نظر آتے ہیں۔

    امریکہ اپنے تئیں ایسی پلاننگ اپناتا ہے جس میں اس کی دانست کے مطابق سو فیصد کامیابی مل سکتی ہے گو کہ وقتی طور پر جبر کے ذریعے وہ قابض تو ہوجاتا ہے لیکن کسی کے دل پر راج کرنا ایسے ممکن نہیں ہے۔ بین الاقوامی تنظیم فرینڈز کمیٹی آف نیشنل لیجسلیشن کے مائیک شینک کہتے ہیں کہ ایسا کرنا ماحولیات کے لیے نقصان دہ اور خوفناک ہے، اوراس ملک کے لیے بُرا، جہاں یہ کیا جائے گا۔ لیکن ایسا کرنا اسلحہ سازوں کے لیے سود مند ہوگا کیونکہ انھیں مستقبل میں نئی فرمائشیں مل جائیں گی۔ لیکن یہ امریکہ کے ٹیکس دہنددگان کے سات ارب ڈالر کانقصان ہوگا۔” اور یہ سب امریکہ کے خلاف اٹھنے والی تحریک مدارس کے طلبہ سے ہوا جنھیں طالبان کا نام دیا گیا، کیونکہ اسلحہ تلف کرنے کا معاملہ عراق اور کویت جنگ میں نہیں ہوا تھا، یہ صرف افغانستان میں ہو رہا ہے کیونکہ امریکہ جانتا ہے کہ افغانستان میں علمی و مذہبی لحاظ سے جڑیں انتہائی مضبوط ہیں۔

    نیٹو افواج افغانستان کے مخصوص علاقوں کے علاوہ آزادی ساتھ کہیں نہیں جاسکتے، خودکشیوں کے بےتحاشا واقعات نے امریکی فوجیوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے مسلمان جانتے ہیں کہ امریکہ و برطانیہ دوغلے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ باقی یورپ بھی ان کے نقش ِ قدم پر ہے۔ فرانس کے وزیر داخلہ نے2012ء میں فرانس کے شہر سٹراس بگ میں ایک مسجد کے افتتاح کے موقع پر متعصبانہ بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ اسلام زیر زمین پھیلنے والا مذہب بن جائے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ فرانس یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک ہے جہاں پچاس لاکھ سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ فرانس کےلیے یہ بہت پریشان کن بات ہے کہ اسلام تیزی کے ساتھ یورپ میں پھیل رہا ہے اور ان کے منفی پروپیگنڈے ناکام ہو رہے ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ کے مکروہ چہرے یورپ کے پڑھے لکھے عوام کے سامنے آچکے ہیں۔اس کے علاوہ مسلم ممالک بھی سمجھ چکے ہیں ہمیں ان کے طلسمی شکنجے سے باہر نکلنا ہے لیکن بد قسمتی سے مسلمانوں کے درمیان مسلکی اور فقہی اختلافات کا بھرپور فائدہ اٹھانے میں یورپ ماہر ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ جب امریکہ میں بننے والی گستاخانہ فلم نے مسلمانوں کے جذبات مشتعل کردیے تھے تو انھیں اسے فرو کرنے کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنے پڑے جس کے بعد میڈیا میں اس گستاخانہ فلم کی گونج کم ہوگئی۔ امریکہ اور افغانستان میں قرآن کریم کی بےحرمتی اور ناروے میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد اب شام میں مذہبی مقامات پر متحارب گروپوں سے حملوں کا مقصد مسلم امہ میں ایک ایسی انارکی پیدا کرنا ہے کہ جس میں فرقوں کے نام پر بٹے مسلمان آپس میں لڑنے مرنے پر تیار ہوجائیں اور امریکہ اس کوشش میں کامیاب نظر آتا ہے ورنہ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ فوجی آمریت کے خلاف نام نہاد جمہوری حکومتیں پابندیاں عائد نہ کریں۔

    امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کی زبوں حالی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں اب افغانستان میں ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں جو پختون رواج کے برخلاف ہو۔ یقینی طور پر اس پر جہاں چہ میگوئیاں ہوں گی، وہاں پختون اپنی روایات کی بنا پر مشتعل بھی ہوسکتا ہے اور امریکہ کو مزید رکنے کے لیے بہانہ مل سکتا ہے کہ افغانستان اب بھی محفوظ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے اپنی فوج اور اسلحے کے انتقال کا مکمل ٹائم فریم نہیں دیا تھا، کبھی وہ اسلحہ تلف کرنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے تو کبھی اسے دیگر افغانستان کے ساتھ جڑے اور مخالف ممالک کو دینے کے لیے پلاننگ بناتا ہے۔

  • اپنے گھوڑے تیار رکھّو-ہارون الرشید

    اپنے گھوڑے تیار رکھّو-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    پاکستان اس بحران سے انشاء اللہ سرخرو ہو گا۔ مقدمہ ہمارا مضبوط ہے اور وقت کا دھارا انشاء اللہ ہمارے حق میں بہے گا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ انسانوں کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کریں۔ لیس للانسان الا ماسعیٰ۔ فرمایا: اپنے گھوڑے تیار رکھّو!
    پندرہ برس ہوتے ہیں‘ باخبر اور نکتہ رس زہیر رانا نے بی بی سی بھارت پر ایک مباحثہ دیکھا۔ فعال طبقات سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے بھارتی‘ اتفاق رائے کے ساتھ انہوں نے قرار دیا کہ بھارت کو‘ پاکستان پر حملہ کر دینا چاہیے۔

    1947ء میں کشمیر پہ کس نے قبضہ کیا ۔ 1971ء میں پاکستان کو کس نے دولخت کیا ۔ بھارتی مسلمانوں کو شودروں سے بدتر حالت میں کس نے پہنچایا کہ فوج‘ سرکاری ملازمتوں اور کاروبار میں ان کا حصّہ برائے نام ہے۔ سیاچن اور سرکریک میں کس نے جارحیت کی۔ کراچی‘ بلوچستان اور قبائلی پٹی میں دہشت گردوں کا مددگار کون ہے۔ ایران‘ افغانستان میں قونصل خانوں اور رابطہ افسروں کا جال کس نے بچھایا۔ ایسے دانشوروں کی کوئی کمی نہیں جو پاکستان کو قصور وار سمجھتے ہیں۔ بھارتی نہیں‘ پاکستانی بزرجمہر۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کی عسکری اور سول قیادت نے غلطیوں کا ارتکاب نہیں کیا‘ مشرقی پاکستان‘ مقبوضہ کشمیر اور کارگل میں۔ سوال یہ ہے کہ جارح کون ہے اور اپنے عوام کو کس نے جنگی بخار میں مبتلا کر رکھا ہے؟

    صرف اُڑی حادثے کے بعد‘ پاکستانی اور بھارتی میڈیا کا ایک جائزہ ‘ اس سوال کا مسکت جواب فراہم کرنے کو کافی ہے۔ بھارت میں اخبار نویس‘ حتیٰ کہ سنجیدہ صحافی‘ پاکستان کو سبق سکھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بالکل برعکس‘ پاکستانی صحافت امن کی حامی ہے ۔
    وزیراعظم نوازشریف نے سوال اٹھایا ہے کہ بارہ مولا میں بھارتی بریگیڈ پر خودکش حملے کے چند گھنٹے بعد ہی یہ نتیجہ کیسے اخذ کر لیا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان سے ہے؟ بالکل بجاطور پر انہوں نے کہا کہ اس طرح کی تحقیقات کے لیے چند گھنٹے نہیں کم از کم کئی ہفتے درکار ہوتے ہیں۔

    پاکستان کی دفاعی پالیسی بھارت پر مرتکز (India Centric) ہے۔ این جی اوز کے کارندے اور بھارتی پروپیگنڈے سے متاثر دانشور ارشاد کرتے ہیں۔ پانچ برس ہوتے ہیں یہی بات مائیکل ملن نے جنرل اشفاق پرویز کیانی سے کہی تھی۔ ہمیشہ دلیل سے بات کرنے والے فوجی مدبر نے کہا : امریکیوں کو ایک نظر‘ بھارتی فوج کی Deployment پر ڈالنی چاہیے۔ کہاں کہاں ان کے دستے تعینات ہیں۔ پاکستان کی پالیسی‘ بھارت پہ مرتکز نہیں بلکہ پاکستان بھارت کے اعصاب پر سوار ہے۔

    ہیجان طاری ہو جائے یا اپنے تعصب اور مفاد کے لیے کوئی گروہ اندھا ہو جائے تو عقل رخصت ہوتی ہے۔ ہود بھائی سمیت ان دانشوروں کے انداز فکر کا جائزہ لیجئے‘ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت میں جو ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے۔ آج یہی پروگرام برصغیر میں امن کی ضمانت ہے۔

    واشنگٹن کے بعد‘ ماسکو سے مراسم خراب ہونے کے بعد‘ چین نے ایٹمی پروگرام کا ڈول ڈالا۔ ایک موزوں پہاڑی مقام پر ایٹمی میزائل نصب کرنے کے بعد‘ انہوں نے امریکہ سے مراسم بہتر بنانے کا اشارہ دیا تو ہنری کسنجر منہ میں گھاس لے کر بیجنگ پہنچے۔ پاکستان ان مذاکرات کا رابطہ کار تھا۔ عالمی امن کے لیے اس نے ایک بے مثال خدمت انجام دی۔ ایک بار پھر امریکیوں کے سر میں انتقام کا سودا ہے۔ برطانیہ اس کا پوڈل ہے۔ اب کی بار ان کا مسئلہ چین کی فروغ پذیر معیشت اور دنیا بھر میں بڑھتا ہوا اس کا رسوخ ہے۔ بھارت اس لیے ان کا تزویراتی حریف ہے کہ نئے عالمی نظام (New World Order) میں‘ امریکہ اور اس کا پوڈل‘ ایک تھانیدار کا کردار چاہتے ہیں۔ جنوبی سمندروں کے تنازعے پر اسی لیے تیل چھڑکا گیا۔

    بھارتیوں کا خناس یہ ہے کہ وہ ایک عالمی طاقت بننے کے خواب دیکھتے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ صرف اس لیے ان کی مددگار نہیں کہ چین کا گھیرائو مقصود ہے۔ بلکہ اس لیے بھی کہ مشرق وسطیٰ میں وہ اسرائیل کے بل پر غلبے کا آرزو مند ہے۔

    ایک ناجائز ریاست تشکیل دی گئی اور پورے کا پورا مغرب‘اس کی پشت پر آن کھڑا ہوا۔ ٹھیک اس وقت پاکستان وجود میں آیا۔ تب کسی کے گمان میں نہیں تھا کہ ایک دن وہ ایٹمی پروگرام کے علاوہ دنیا کی بہترین لڑاکا فوج کا حامل ہو گا۔ چین اور ترکی کا حلیف۔بندوں کے اپنے منصوبے ہیں اور اللہ کے اپنے۔ فرمایا: مکروا و مکراللہ واللہ خیرالماکرین۔ انہوں نے تدبیر کی اور اللہ نے تدبیر کی اور بے شک اللہ ہی بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔

    پاکستان کی موجودگی میں‘ بھارت اس خطے کا آقا نہیں بن سکتا ۔بی بی سی کے لیے بھارتی اخبار نویس سوتک بسواس کا کہنا ہے کہ اگرچہ بھارتی عوام کارروائی کے خواہش مند ہیں مگر بھارتی فضائیہ‘ پاکستان کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی۔ امریکہ‘ چین اور سعودی عرب پر دبائو ڈالنا چاہیے۔ پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد ہونی چاہئیں۔ اسے تنہا کر دیا جائے تو بھارت اپنی جنگ جیت لے گا۔

    نفرت اور تعصب کے باوجود‘ اس رائے میں احتیاط کی جھلک ہے۔ تاریخی شعور سے بے بہرہ تمام انتہا پسند وں کی طرح وزیر اعظم نریندر مودی کا مسئلہ یہ ہے کہ جو آگ وہ بھڑکا چکے آسانی سے اب بجھا نہیں سکتے۔ آزاد کشمیر یا کسی اور حصے میں چھوٹے سے کسی علاقے پر قبضہ کر کے‘ پاکستان کو بیچارگی میں مبتلا کرنے کا خواب پورا نہیں ہو سکتا اس لیے کہ بھارتی فوج اگر پاکستانی حدود کے اندر ہو تو اس چھوٹے جوہری بم کے خوف سے لرزتی رہے گی۔ لائن آف کنٹرول کوگرم کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے بہانے‘ بوفور توپوں سے بمباری بھی مگر اس کا جواب دیا جائے گا ۔ضروری نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں‘ جہاں عظیم اکثریت مسلمان ہے اور پہلے ہی زخم خوردہ ۔ بڑے پیمانے کی جنگ کا اندیشہ نہیں کہ دنیا اس کی متحمل ہے اور نہ بھارت۔ پاکستان کو مغلوب کرنے کی خواہش‘ بھارت میں بہت ہے مگر اس کی قیمت بہت ہو گی۔ شدید مشکلات میں وہ ہمیں مبتلا کر سکتا ہے مگر خود اپنی تباہی کو دعوت دے کر۔ پاکستان کے اندر اس کے ہتھیار کند ہو چکے۔ الطاف حسین کے ساتھ ”را‘‘ کا معاہدہ یہ تھا کہ جنگ کی صورت میں پاکستانی افواج کو کراچی کے ساحل سے محروم کر دیا جائے گا۔ محمود اچکزئی اور اسفند یار سمیت‘ دانشوروں کی کھیپ فکری اور نظریاتی انتشار پیدا کر سکتی تھی موجودہ حالات میں مگر وہ چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ امن ہی واحد راستہ ہے ۔مذاکرات ہی واحد راستہ۔

    بھارتی جنون برقرار ہے مقبوضہ کشمیر کے شہری قتل کئے گئے اور انہیں پاکستانی قرار دیا گیا آزاد کشمیر میں داخل ہو کر دہشت گردوں کو قتل کرنے کا دعویٰ سامنے آیا بعض بھارتی شہروں میں عام لوگوں کو جنگ کے لیے تیار رہنے کو کہا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بھارتی بحریہ کو انتہائی چوکس کر دیا گیا ہے، حملے یا پاکستان کا رخ کرنے والے بحری جہازوں کی راہ روکنے کے لیے؟
    بھارتی قیادت اپنے پیدا کردہ بھنور میں ہے بڑے پیمانے کی نہ سہی‘ اپنے ووٹروں کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے نریندر مودی کوئی احمقانہ حرکت ضرور کریں گے، خواہ یہ دہشت گردی کی کارروائیاں ہی کیوں نہ ہوں۔ مذہبی فرقہ پرستوں‘ افغانستان کی این ڈی ایس ‘ طالبان یا کراچی میں بچے کھچے کارندوں کی مدد سے۔ ہر چیز کی مگر ایک قیمت ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں فاصلہ کم ہوا ہے۔ پہلی گولی چلتے ہی سیاسی آویزش ختم ہو جائے گی۔
    جارحیت کا اندیشہ ہے مگر پاکستانی قیادت ہیجان میں مبتلا ہے اور نہ عوام۔ ذہنی کشیدگی بھارت پر مسلط ہے۔ فوج پر ‘ سول قیادت پر‘ میڈیا اور بھارتی عوام میں ۔ خود کردہ را علاجے نیست ۔

    ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ عالمی میڈیا جنگ کا اہم ترین میدان ہے، حکومتیں اگر نہیں سنتیں تو مقبوضہ کشمیر میں خون ریزی اور ستم گری کے شواہد دنیا بھر کے میڈیا اور فعال طبقات تک پہنچاناچاہئیں ۔خود کشمیریوں کی طرف سے وزیراعظم کے خصوصی پیغام بروں کو جکارتہ ‘ استنبول ‘ ماسکو سمیت دنیا بھر کے دارالحکومتوں کا رخ کرنا چاہیے۔ ارکان اسمبلی نہیں‘ مشاہد حسین ایسے لوگ ‘ہنر مند اور فصیح۔
    پاکستان اس بحران سے انشاء اللہ سرخرو ہو گا۔ مقدمہ ہمارا مضبوط ہے اور وقت کا دھارا انشاء اللہ ہمارے حق میں بہے گا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ انسانوں کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کریں۔ لیس للانسان الا ماسعیٰ۔ فرمایا: اپنے گھوڑے تیار رکھّو!