Tag: اسلام آباد دھرنا

  • دھرنا اور منافقت کا سرٹیفیکیٹ – کامران نواز

    دھرنا اور منافقت کا سرٹیفیکیٹ – کامران نواز

    کامران نواز عدالت میں پانامہ لیکس کے تناظر میں کرپشن کے خلاف کیس چل پڑا ہے. حکومت کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا گیا ہے. اس سے پہلے کے سیاسی حالات انتہائی کشیدہ رہے. عمران خان اسلام آباد پر چڑھائی اور سب کچھ بند کردینے کے عزم کے ساتھ دھرنے کی تیاریوں اور حکومت لاٹھی چارج تشدد اور گرفتاریوں میں مشغول رہی. عمران خان نے ایک نجی چینل کے ساتھ ٹاک شو میں واضح کیا تھا کہ یکم نومبر کو تحقیقات میں پیش رفت اور مثبت عدالتی فیصلے کے باوجود دھرنا ہر حال میں ہوگا چاہے کوئی آسمان گر پڑے لیکن اچانک فیصلے کے بعد عمران خان نے دھرنا مؤخر کرکے یوم تشکر کا اعلان کیا. اس سے پہلے کئی جماعتوں کی عمران خان نے دھرنے کے حوالے سے کئی پارٹیوں کی حمایت بھی حاصل کر لی تھی لیکن سب کا شکوہ ہے کہ عمران خان نے فیصلہ کرتے وقت ان کو اہمیت نہیں دی جو کہ بالکل بجا شکوہ ہے. یہی کام اگر کوئی حمایت کرنے والی پارٹی بغیر کسی مشاورت کے کرتی تو عمران خان سمیت ان کی سوشل میڈیا ٹیم ان کو منافق کا سرٹیفکیٹ دینے کے لیے سرگرم عمل ہو جاتی.

    تحریک انصاف اپنے رویے، معاملات اور فیصلوں میں سب کچھ جائز سمجھتی ہے لیکن خود اس سے کئی زیادہ چھوٹے درجے کے حوالوں کے ساتھ دوسروں پر منافقت اور سودے بازی کا الزام ڈال دیتے ہیں. یہ فیصلہ تو وقت کرے گا کہ دھرنے کا اعلان کرنا اور مؤخر کرنا دونوں میں سے کون سا بہتر فیصلہ تھا، اور کس فیصلے نے نے عوامی سطح پر کوئی نقصان دیا ہے کیونکہ کارکن سطح پر مخالفت کے باوجود پارٹی کی حمایت میں کوئی کمی نظر نہیں آ رہی. لیکن اب عدالت جلد پانامہ لیکس کے کیس کو جلد از جلد نمٹانے کی خواہش مند نظر آ رہی ہے. لیکن واضح رہے کہ عدلیہ کی معاملات تک رسائی بھی محدود حد تک ہے، باقی کام گورنمنٹ اور ان کے نمائندوں کا ہوتا ہے جس کا اختیار خود ملزم کے پاس ہے، اس صورتحال میں عدلیہ کیسے بروقت اور بہتر فیصلہ کر سکتی ہے، یہ آئندہ چند دنوں کی سماعت میں اندازہ ہو جائے گا.

  • عمران خان نے کیا پایا؟ محمد زاہد صدیق مغل

    عمران خان نے کیا پایا؟ محمد زاہد صدیق مغل

    زاہد مغل پی ٹی آئی کے مؤقف کے حامی احباب عمران خان کی پسپائی کو خوشنما دلیلوں کے ذریعے ”بڑی کامیابی“ دکھانے میں مصروف ہیں۔ چنانچہ کہا جارہا ہے کہ عمران نے اس سارے شور و غل سے اولا یہ حاصل کیا کہ وہ سب سے قدآور اپوزیشن لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ یہی بات تو ہم کب سے کہہ رہے ہیں کہ “چور مچائے شور” کا یہ سارا شور شرابا سیاسی دکان چمکانے کے لیے ہی ہے۔ نئی بات صرف یہ ہوئی کہ خود عمران کے حامی احباب نے بھی اس حقیقت کو قبول کرلیا کہ یہ بنیادی طور پر سیاسی شعبدہ بازی تھی جس کا مقصد اس دوڑ میں بلاول سے آگے رہنا ہے۔

    دوسری بات یہ کہی جارہی ہے کہ اس شور و غل کے بعد گویا عمران نے وزیر اعظم کو خود کو احتساب کے لئے پیش کرنے پر مجبور کردیا، جبکہ یہ بات حقیقت کے خلاف ہے۔ پانامہ پیپرز کے بعد خود نواز شریف نے آزاد کمیشن کی تجویز دی، پھر اسمبلی کے فورم سے ٹی او آرز کی پیشکش کی جس پر کام ہوا۔ اس سب کے خلاف یہ کہا جارہا ہے کہ نواز شریف اپنی مرضی کے کمیشن اور ٹی او آرز بنوانا چاہتا تھا جو اب ممکن نہیں۔ یہ باتیں صرف ادھورا سچ ہیں کیونکہ یہ بات تو ایک معلوم حقیقت ہے کہ کسی مختلف فیہ قضیے میں ہر گروہ اپنے ہی حق میں بارگین کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ بات صرف ن لیگ ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن جماعتو ں کے لئے بھی جوں کی توں درست ہے جو ”اپنی اپنی مرضی“ کے ایسے ٹی او آرز بنوانا چاہتے تھے جن میں ان کے نامزد ملزمان کسی نہ کسی طور بچ نکلیں۔ ٹی او آرز طے کرنے والی کمیٹی میں بذات خود اپوزیشن کے بعض کمیٹی ممبران کو پی ٹی آئی کے ٹی او آرز سے اتفاق نہ تھا جن کا مقصد ”اپنی اے ٹی ایم مشینوں“ کو صاف بچا کر احتساب کا پھندہ صرف نواز شریف کے گلے تک محدود کیا جانا تھا۔ اس اختلاف کے بعد حکومت نے اسی وقت یہ پیشکش کی تھی کہ ان ٹی او آرز کو عدالت عظمی میں بھیج دیتے ہیں کہ وہ انہیں طے کردے، مگر پی ٹی آئی نہیں مانی کیونکہ عمران خان کا مقصد پہلے دن سے کچھ اور ہی تھا۔ اس کے بعد اس معاملے پر ڈیڈ لاک ہوا اور عمران خان نے اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کی کال دی لیکن عوام کی طرف سے ایک مرتبہ پھر مسترد کردئیے جانے کے بعد انہوں نے فیس سیونگ کے لئے عدالت کا رخ کیا جہاں انہیں عین اسی بات کو ماننا پڑا کہ ٹی او آرز عدالت طے کرلے۔ اپنے مؤقف کی اس پسپائی کو ”یوم تشکر“ میں بدل کر انہوں نے اپنے کارکنان کے دل کا غم ہلکا کردیا۔ چنانچہ بات صرف یہ نہیں ہے کہ اب حکومت کی مرضی کے ٹی او آرز نہیں بنیں گے بلکہ یہ بھی ہے کہ اب عمران خان کی مرضی کے ٹی او آرز بھی نہیں بنیں گے جنہیں منوانے کے لئے وہ ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر یہ سب شور و غل کر رہے تھے۔

    خود عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن اور عدالت میں اپنے اثاثوں میں خردبرد سے متعلق کیسز دائر ہیں مگر دوسروں سے احتساب مانگنے والے “انصاف کے یہ چمپئین” ان کا جواب دینے کی زحمت گورا نہیں کرتے۔ اوپر اوپر سے یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ”سب سے پہلے میرا احتساب کرو“ اور جہاں کیس لگا ہوا ہے وہاں یہ تاریخ پر جاتے نہیں۔ ہمیں اس بات پر دلی خوشی ہوگی کہ نواز شریف کے ساتھ ساتھ عمران خان اور ان کی اے ٹی ایم مشینوں کا بھی احتساب ہو تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ احتساب کا نعرہ لگانے والے یہ محتسب خود کتنے ”صاف“ ہیں۔ پاکستان میں یہ نظارہ شاید لوگوں نے پہلی مرتبہ دیکھا ہوگا کہ حکمران سے آف شور کمپنیوں کا حساب مانگنے کے لیے کے پی سے آنے والوں میں وہ لوگ شامل تھے جن کے اپنے نام پانامہ پیپرز میں شامل ہیں، لاہور سے وہ آنے کا عندیہ دیتے رہے جن کی اپنی آف شور کمپنیاں ہیں، حساب مانگنے والوں میں خود بنی گالہ میں بیٹھے لیڈر کے دست راست وہ تھے جو خود آف شور کمپنی کا اقرار کرچکے ہیں، اور تو ان حساب مانگنے والوں کے خود لیڈر صاحب وہ تھے جو پاکستان میں آف شور کمپنیوں کے بانی ہیں۔ ”حساب دو حساب دو“ کا شور مچا کر یہ ہنگامہ آرائی کرنے والے اگر سراج الحق صاحب ہوتے تو چلیں کم از کم یہ تو کہا جاسکتا تھا کہ انہیں بہرحال اس کا اخلاقی جواز حاصل ہے، لیکن دس نامزد چوروں میں سے اگر کچھ چور ایک کے خلاف، جو محض اتفاق سے اس وقت حکمران ہے، ”حساب دو حساب دو“ کا یہ غل غپاڑہ کر رہے ہوں تو انسان بس حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔

    چنانچہ اس پورے شور و غل میں عمران خان پوری طرح ایکسپوز ہو کر سامنے آگئے کہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے یہ فساد برپا کرنے کی حد تک جاسکتے ہیں، وہ تو خدا کا شکر ہے کہ عوام نے ان کی غیر قانونی کال کو مسترد کردیا وگرنہ خدانخواستہ اگر انہیں اسلام آباد میں چند ہزار لوگ دستیاب ہوجاتے تو یہ اس عدالت کا کبھی رخ نہ کرتے جسے یہ پہلے ہی ٹھکرا چکے تھے۔ یہ بات بھی بالکل کھل کر سامنے آگئی کہ اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے یہ صوبائیت کا کارڈ کھیل کر حکومت کو بلیک میل کرنے کی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔ یہ رویہ انتہائی حد تک شرم ناک تھا مگر عمران خان اور اس کے وزیر اعلی نے ایک مرتبہ بھی اس پر قوم سے معافی مانگنا گوارا نہ کیا۔ ماضی میں عوام کو لاقانونیت پر ابھارنے والے اس لیڈر کا چہرہ لوگ پہلے ہی بھانپ چکے تھے، اس مرتبہ صرف اس کی تائید ہوگئی ہے۔

  • دھرنا تحریک: مثبت اور منفی پہلو – محمد عامر خاکوانی

    دھرنا تحریک: مثبت اور منفی پہلو – محمد عامر خاکوانی

    کئی ماہ پہلے کی بات ہے، عالمی شہرت یافتہ موٹی ویشنل سپیکر اور مائنڈ میپ تکنیک کے بانی ٹونی بوزان کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ ٹونی کے ساتھ تین چار گھنٹوں کی نشست رہی، جس کے دوران کئی کتابوں کے مطالعہ سے بھی زیادہ باتیں سیکھیں۔ ٹونی بوزان نے سکندر اعظم کا واقعہ سنایا کہ جب وہ کوئی معرکہ جیت جاتا تو تھکا ہارا اور کبھی زخمی ہونے کے باوجود اپنے شاہی خیمے میں نہ جاتا۔ سکندر عام سپاہی کا لباس پہن کر اپنے چہرے پر کچھ کالے نشان لگا لیتا تاکہ پہچانا نہ جائے اور پھر لشکر کے مختلف حصوں میں جاتا۔ عام سپاہیوں کے ساتھ بیٹھتا، ان کی تکلیف کو محسوس کرتا، ان کے مائنڈ سیٹ اور احساسات کا اندازہ کرتا۔ باتوں باتوں میں ان سے جنگ کا فیڈ بیک لیتا اور پھر رات گئے اپنے خیمے میں جا کرغسل کرتا، شاہی لباس پہن کر باہر آتا، سپاہیوں کو جمع کرتا، ایک چبوترے پر کھڑا ہو کر ان سے خطاب کرتا اورکہتا: ”آج ہم جنگ جیت گئے ہیں، مگر مجھے اندازہ ہے کہ لڑائی کتنی سخت رہی، تمہارے کچھ دوست کام آئے، کچھ زخمی ہوئے، تم لوگوں کا بھی لہو بہا، مجھے اس کا اندازہ ہے۔ میں بھی تمہارے ساتھ ہی تھا، میرا بھی خون نکلا، میرے بھی عزیز دوست نشانہ بنے، مگر آخری نتیجہ یہ نکلا کہ ہم جنگ جیت گئے۔ اپنی غلطیوں کو ہم نہیں دہرائیں گے اور اگلی جنگ اس سے بہتر انداز میں لڑیں اور جیتیں گے‘‘۔ اس کے بعد سکندر اعلان کرتا کہ اگلے تین دن جشن کے ہیں۔ کسی سپاہی پر کوئی روک ٹوک نہیں، خوب کھاؤ پیو، جو مرضی آئے کرو، جی بھر کر جشن مناؤ۔ اس انداز میں سپاہیوں کے دلوں کو چھونے، ان کے دکھ درد میں شریک ہونے کی وجہ سے یونانی فوج سکندر کو دیوتا مانتی اور اس کے پسینے پر خون بہانے کو تیار رہتی۔

    عمران خان نے بدھ کو یوم تشکر منانے کا اعلان کیا۔ مجھے خیال آیا کہ کیا یوم تشکر منانے سے پہلے گزری رات عمران خان نے بھی اپنی پالیسیوں، حالیہ حکمت عملی کا تجزیہ کیا یا یہ رات بھی عام راتوں کی طرح گزرگئی؟

    عمران خان کی حکمت عملی کا تجزیہ کیا جائے تو بعض چیزیں اس نے حاصل کی ہیں اور کچھ نقصانات بھی ہوئے۔

    سب سے اہم یہ کہ وہ ایک بار پھر حقیقی اپوزیشن لیڈر بن کر ابھرا۔ اس پورے احتجاج کے دوران ملک بھر پر یہ واضح ہوگیا کہ اچھا یا برا، جذباتی یا دانشمند، کم عقل یا عقلمند کی بحث سے قطع نظر اپوزیشن لیڈر وہ اکیلا ہی ہے۔ واحد شخص ہے جو میاں نواز شریف کی حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتا اور اپنی کمزور تنظیم کے باوجود ان پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ اپوزیشن کی دوسری جماعتیں ایک بار پھر پیچھے چلی گئی ہیں، خاص کر پیپلزپارٹی کو شدید دھچکا پہنچا۔ پنجاب سے پہلے ہی فرینڈلی اپوزیشن کی وجہ سے پیپلزپارٹی کا صفایا ہوچکا، اب بلاول بھٹو کو میدان میں اتار کر اور اس سے جذباتی تقاریر کروا کے کچھ ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ پہلے یہ کہا کہ ستائیس دسمبر سے پیپلز پارٹی لانگ مارچ شروع کرے گی، پھر جب دیکھا کہ عمران بہت آگے نکل گیا ہے اور کہیں میدان مار نہ لے تو پھر جلد بازی میں سات نومبر سے احتجاج کرنے کا اعلان ہوا، مگر اب تحریک انصاف کا احتجاج ختم کرنے سے پیپلزپارٹی کے پاس کچھ نہیں بچا۔ جماعت اسلامی کو بھی دھچکا لگا؛ حالانکہ جماعت نے اس حوالے سے کچھ بھاگ دوڑ کی تھی۔ سپریم کورٹ میں وہ سب سے پہلے گئے، سراج الحق واحد سیاسی لیڈر تھے جو یکم نومبر کو سپریم کورٹ پہنچے۔ کرپشن کے خلاف جماعت احتجاجی جلسے بھی کر رہی ہے؛ تاہم سپریم کورٹ میں بڑا فریق تحریک انصاف ہے، کریڈٹ بھی اسی کو جائے گا۔

    عمران خان کا دوسرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ پڑھے لکھے پروفیشنلز کو عملی سیاست میں لے آیا۔ یہ پڑھا لکھا طبقہ ہر معاشرے کی کریم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر، انجینئر، چارٹرڈ اکائونٹنٹ، آئی ٹی پروفیشنلز، سافٹ ویئر ڈویلپرز، اداکار، فیشن ڈیزائنر، ٹیچر اور دیگر شعبوں کے پڑھے لکھے لوگوں کو صرف تحریک انصاف ہی سیاست کی طرف کھینچ لائی ہے۔ پہلے یہ صرف ووٹر تھے، اب پہلی بار انہیں ماریں کھانے اور پولیس کی آنسو گیس شیلنگ کا بھی تجربہ ہوا۔

    تیسری کامیابی ممکنہ پاناما کمیشن کے حوالے سے ہے۔ عمران خان نے اپنے دباؤ کے ذریعے تین چار وہ باتیں حکومت سے منوا لی ہیں جو اس سے پہلے نوازشریف صاحب ماننے کو قطعاً تیار نہیں تھے۔ مثال کے طور پر میاں صاحب اپنی مرضی کا کمیشن بنانا چاہتے تھے، اب یہ کمیشن سپریم کورٹ کی مرضی سے بنے گا۔ حکومت اس کمیشن کا دائرہ کار متعین کرنے پر بضد تھی، اب یہ دائرہ کار سپریم کورٹ طے کرے گی۔ میاں صاحب اور ان کے اتحادیوں کی یہ بھرپور کوشش تھی کہ اگر کمیشن بن جائے تو اس کا فیصلہ حکومت پر بائنڈنگ نہ ہو، سپریم کورٹ نے پہلی شرط ہی یہ منوائی کہ دونوں فریق اس کا فیصلہ مانیں گے۔ پاناما لیکس والے معاملے کو سات آٹھ ماہ ہوگئے، ابھی تک میاں نوازشریف کی طرف سے اس کا کوئی باقاعدہ جواب آیا تھا اور نہ ہی وہ ٹی او آرز طے کرنے دے رہے تھے، اب حکومت یہ جواب دینے کی پابند ہے اور ٹی او آرز کے حوالے سے بھی حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کا ہوگا۔

    عمران نے خاصا کچھ کھویا بھی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ تحریک انصاف کی تنظیمی کمزوریاں بری طرح ایکسپوز ہوئیں۔ درست کہ پنجاب حکومت نے بڑی بے رحمی سے تشدد کیا اور پکڑ دھکڑ کی، مگر کسی بھی احتجاجی تحریک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اپوزیشن اسے ناکام بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ تحریک انصاف ایسا نہیں کر سکی۔ یہ ایک حقیقت ہے جو انصافی کارکنوں کو تسلیم کرنی چاہیے۔ وہ کوئی ایک شہر بھی بند کرنے کی سکت اور استعداد نہیں رکھتے۔ پنجاب سے جتنے لوگ نکلنے چاہیے تھے، نہیں نکل پائے۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ جن لیڈروں نے اپنے شہروں سے کارکنوں کو موٹی ویٹ کر کے باہر نکالنا تھا، وہ سب تو بنی گالہ پہنچ گئے تھے۔ وقت سے پہلے ان کے جانے کی کوئی تک نہیں تھی۔ اگر خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ جلوس لے کر نہ چلتے تو تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کا بھرم بھی رکھنا ممکن نہیں تھا۔ عمران خان کی اپنی پالیسی بھی سمجھ نہ آنے والی تھی۔ انہیں اب عوامی سیاسی لیڈر بننے کے گر سیکھنے چاہییں۔ انہیں باہر نکل کر اپنے کارکنوں کا ساتھ دینا اور پولیس کے ساتھ سینگ پھنسانے چاہییں۔ نجانے وہ کیوں دو نومبر کے چکر میں گھر بیٹھے رہے جبکہ پورے ملک میں کارکن مار کھا رہے تھے،گرفتاریاں دے رہے تھے۔ خاص کر جب بنی گالہ کے باہر خواتین تک کو پولیس پکڑ رہی تھی، تب عمران خان کو باہر آنا چاہیے تھا۔ ان کے اس رویے سے بہت سوں کو مایوسی ہوئی۔ یہ بھی واضح ہوگیا کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کی پہلی، دوسری صف میں خاصی صفائی کی ضرورت ہے۔ علی امین گنڈا پور جیسے لوگوں سے فوری طور پر جان چھڑا لینی چاہیے۔ ایسی بدنامی پر ایک کیا ایم پی اے کی کئی سیٹیں قربان کی جا سکتی ہیں۔ تحریک انصاف کونئے سرے سے اپنی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے، اس پر ان شاء اللہ تفصیل سے بات ہوگی۔

  • عمران خان کا دھرنا اور ناکام حکمت عملی – ارشد زمان

    عمران خان کا دھرنا اور ناکام حکمت عملی – ارشد زمان

    ارشد زمان آئینی، سیاسی اور جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے ہوئے ہرگز ہرگز کسی دھرنے، مارچ، جلسے اور جلوس پر اعتراض اور تنقید نہیں کی جا سکتی کہ یہ اس راستےکے ضروری بلکہ بعض اوقات لازمی ذرائع ہیں جو مقاصد کے حصول کے لیے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔

    مگر اس طریق کار اور حکمت عملی پر اختلاف ہو سکتا ہے جو ہر سیاسی جماعت اپنی سوچ، ویژن، مقاصد اور ترجیحات کے مطابق طے کرتی ہے۔

    سیاسی میدان میں اس سیاسی لیڈر کو اناڑی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جو اپنی مرضی کو دیگر سیاسی جماعتوں پر ٹھونسنے اور اسے اپنا حق سمجھنے کے زعم میں مبتلا ہوا کرتا ہے۔ ایسی سوچ، رویہ اور طرزعمل تکبر، غرور اور گھمنڈ کہلاتا ہے اور یہ بہت بڑی کمزوری ہے جو اس لیڈر اور اس کی جماعت کو سیاسی تنہائی سے دوچار کر رہی ہوتی ہے۔
    آج کل کے سیاسی حالات میں عمران خان صاحب کی سیاسی اپروچ اور طرزعمل سے اسے بخوبی جانچا اور سمجھا جا سکتا ہے۔

    ہمارا نہیں خیال کہ کسی کو خان صاحب کے دھرنے پر اعتراض تھا، جس پہلو نے تنقید کا جواز فراہم کیا، وہ ان کا طریق کار اور عزائم تھے۔ کرپشن کو ایشو بنانا، اس کے خلاف قوم میں آگاہی پیدا کرنا، لوگوں کو متحرک کرکے حکمرانوں کو انڈر پریشر رکھنا، اداروں کو اس کے خلاف کچھ کرنے کرانے پر مجبور کرنا، اور کچھ کر گزرنے کے لیے خود کو پیش کرنا، منوانا، اعتماد حاصل کرنا اور جگہ پانا اور معاملہ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں حکومت کو ہر ہر صورت عدم استحکام سے دوچار کرنا، اسے گرانا اور وزیراعظم کی چھٹی کرانے سے کم کسی چیز پر راضی نہ ہونا الگ اپروچ ہے. ظاہر ہے کہ ان راستوں کے تقاضے مختلف اور نتائج علیحدہ علیحدہ ہوں گے۔

    ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ حکمرانوں کی کرپشن خان صاحب کا ایشو نہیں ہے، یہ تو پوری قوم کا ایشو ہے، مگر یہ ضرور کہنا ہے کہ ان کی سوچ اور مقصد واضح ہے کہ وہ خود فوری وزارت عظمی اور حکومت کے تمام تر اختیارات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے ان کی خواہش اور مطالبہ بلکہ ”فتوی“ ہے کہ ملک کے تمام سیاسی و غیر سیاسی، ظاہری و پوشیدہ، نئے اور پرانے، سب عناصر غیر مشروط طور پر ان کے پیچھے پیچھے چلیں اور ان کی حکمت عملی کی داد بھی دیا کریں بغیر نتائج کے پروا کے۔
    یہی خیال ہے جس نے محترم کو انانیت کے خول میں بند کر رکھا ہے، اس کے مظاہر ضد، ہٹ دھرمی اور انتہاپسندی کی صورت ہم دیکھتے ہیں۔

    اب اسے کیا نام دیا جا سکتا ہے کہ ایک سیاسی اور اپوزیشن جماعت کی برپاکردہ تحریک کے تمام تر مطالبات کی تکمیل یعنی،
    جوڈیشل کمیشن کی تشکیل
    انتخابی اصلاحات
    چار کے بجائے بیس منتخب حلقوں کی دوبارہ جانچ پڑتال
    وغیرہ اور ہونے والے معاہدہ کےلیے پارلیمنٹ کی ضمانت کے حصول کو محض اس ایک شرط کہ وزیراعظم لازمی استعفی دے، کو پورا نہ ہونے پر زمین پر پٹخ دیا جائے اور میں نہ مانوں کی پالیسی پر کاربند رہا جائے؟ اس طرزعمل کا جو نتیجہ خود انھوں نے، ان کی جماعت نے اور پوری قوم نے بھگتا، وہ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
    کیا اس کا تجزیہ اور محاکمہ کرنا، تحریک انصاف اور اس کے ہمدردوں کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ ایک موقع ایسا آتا ہے کہ ایک کے علاوہ ان کے تمام مطالبات ماننے میں عافیت سمجھی جاتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا آئے کہ یہ تمنا، آرزو اور حسرت مقدر ٹھہر جائے کہ،
    ”کاش کوئی واپسی کا باعزت راستہ دکھائے۔“

    اسی تناظر میں جب خان صاحب نے جاتی عمرہ، رائے ونڈ میں جلسے کے تجربے کے بعد اسلام آباد کو بلاک کرنے یا کرانے کا اعلان فرمایا تو سیاسی تجزیہ نگاروں نے اس پر حیرت اور تعجب کا اظہار کیا اور انھیں متوجہ کیا کہ ایسے میں کہ حکومت کا زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، وہ اپنی صوبائی حکومت کی کارکردگی پر توجہ دیں اور بقول ان کے جو اصلاحات کی گئی ہیں اور اقدامات اٹھائے گئے ہیں، اس کے نتائج اور ثمرات کے حصول پر فوکس کریں اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لیے اسے ماڈل کے طور پر پیش کریں۔ اس طرح نواز حکومت کو اپنی ناکامی چھپانے کےلیے کوئی آڑ نہیں ملےگا۔ اچھی منصوبہ بندی اور مسقبل کے لیے تیاری کے ساتھ تحریک کو جاری رکھا جائے مگر کسی انتہائی اقدام اٹھانے سے گریز کیاجائے، مگر حسب روایت خان صاحب اونچی اڑان کے شوق میں اعلان کربیٹھے کہ ”آسمان گر جائے، تب بھی دھرنا ہوگا۔“ جو کہ بدقسمتی سے نہ ہوسکا۔

    زمیں اور آسمان اپنی جگہ قائم ہیں مگر خان صاحب نے اپنی پوری جماعت اور تحریک کو ہلا کے رکھ دیا، اسے متنازعہ اور مشکوک ٹھہرا دیا۔ اس کا انھیں خود کو بھی احساس ہے اور متعدد بیانات میں اپنے کارکنوں کی ناراضی کا اظہار کر چکے ہیں. یہ تو اللہ بھلا کرے سراج الحق کا کہ وہ عین وقت پر سپریم کورٹ سے کوئی امید افزا فیصلہ لینے میں کامیاب ہو گئے جس سے خان صاحب کو ”یوم تشکر“ منانے کا نادر موقع ہاتھ آیا اور صحیح تر معنوں میں واپسی کا محفوظ راستہ ملا۔ سراج الحق نے ہی سب سے پہلے سپریم کورٹ میں پڑیشن دائر کی تھی اور اس کے ذریعہ مسئلہ حل کروانے پر زور دیا تھا، اب خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کو مکمل حق حاصل ہے کہ وہ اپنی غلطی اور ناکامی کی اچھی سی اچھی توجیح پیش کریں، اور سراج الحق کی کامیاب حکمت عملی اور کامیابی کو ہائی جیک کرکے اس پر خوشی کے شادیانے بجائیں مگر جو تلخ حقیقت ہے اس سے صرف نظر نہ کیاجائے، شاید اندرونی طور پر انھیں اس کا شدت سے احساس بھی ہوا ہے اور تسلیم بھی کرایا گیا ہے کہ محض یوم تشکر منانے پر اکتفا کرنے کی بنیادی وجہ غلط حکمت عملی اور کوئی معقول اور قابل اعتبار تعداد کو اسلام آباد تک لانے میں ناکامی ہے۔ میڈیا کے باخبر ذرائع کے توسط سے اس اجلاس کی جو اندرونی کہانی سامنے آئی ہے، وہ سب کچھ بتاتی ہے۔

    یہاں ہم ضرور جماعت اسلامی اور اس کے امیر سراج الحق کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ انھوں نے بہت ہی احسن انداز میں کرپشن کے خلاف نہ صرف تحریک کو اٹھایا ہے بلکہ مؤثر انداز میں اسے آگے بھی بڑھایا ہے۔ آج کرپشن کا ناسور اور حکمرانوں کی بد دیانتی ہر سنجیدہ محفل اور سوچنے والے حلقوں کا موضوع بنا ہوا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی سیاسی جماعتیں اور میڈیا کسی نہ کسی انداز میں اس پر بحث و مباحثہ کرنے اور کرانے پر مجبور ہیں، اس سے عوامی شعور اور بیداری میں ضرور مدد ملےگی۔ سراج الحق کی سپریم کورٹ میں پٹیشن اور مؤثر انداز میں اس کی پیروی پر سپریم کورٹ کا جو فیصلہ سامنے آیا ہے، وہ تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے اور اگر درست اور مؤثر انداز میں اس کیس کو یونہی آگے بڑھایا گیا تو حکمرانوں کو دن میں تارے نظر آ جائیں گے۔

    ہم گزارش کریں گے کہ انانیت، ضد، جلد بازی اور خود کریڈٹ لینے اور تنہا سفر کرنے کے بجائے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو باہمی مشاورت اور اعتماد کے ساتھ اچھی حکمت عملی اور مؤثر جدوجہد کے ذریعے اکٹھے آگے بڑھنا چاہیے اور اس ملک کے بہتر مستقبل کے خاطر دیگر سیاسی جماعتوں اور خیر کے عناصر کو بھی جگہ دینے اور ساتھ ملانے کی فکر کی جائے۔ خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس جانگسل جدوجہد میں کامیابی تب ہوگی جب دوستوں کی تعداد زیادہ اور دشمنوں کی کم ہوگی.

  • عمران خان نے لیڈر بننے کا موقع پھرگنوا دیا – ابو انصار علی

    عمران خان نے لیڈر بننے کا موقع پھرگنوا دیا – ابو انصار علی

    عمران خان کو لیڈر بننے کے بے شمار مواقع ملے، وہ ہر بار تھوڑی سی کسر سے لیڈر بنتے بنتے رہ گئے، مگر کیسے ؟ یہ سوال اور اس کا جواب آج کی تحریر کا موضوع ہے، لیکن اس پر بات کرنے سے قبل خود سے پوچھتے ہیں کہ پاکستان کے’ پاکستان‘ نہ بننے کی بڑی وجوہات کیا ہیں؟ اور کیا عمران خان کے سوا کسی نے انہیں بخوبی انداز سے سمجھا؟ پہلے سوال کا جواب حکمران طبقے سے لے کرچھوٹے ملازمین کی نت نئے انداز میں کی جانے والی کرپشن، سستے اور فوری انصاف اور ضروریات زندگی جیسے تعلیم ،صحت اور روزگار کی بہتر منصوبہ بندی کے بغیر فراہمی شامل ہیں۔

    عمران خان کی 20 برس کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالیں، تو وہ سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے حق میں، کرپشن اور اقربا پروری کے خلاف شروع دن سے بولتے نظر آئیں گے، وہ جماعت اسلامی اور اصغر خان کے بعد اس حوالے سے ایک مضبوط اور توانا آواز رہے ہیں، وہ ان ہی وجوہات پر مبنی سسٹم کی تبدیلی کے لیے بھی ہر دم کوشاں ہیں، انہوں نے اپنے اس مضبوط اور راست موقف ہی کے باعث اپنے سیاسی قد کاٹھ میں اتنا اضافہ کرلیا کہ وہ آج سے قبل تک وزیراعظم نوازشریف کی مسلم لیگ کے بعد دوسرے بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ کہلائے جاتے تھے۔
    ع
    مران خان جو 1992ء میں پاکستان کو کرکٹ کاورلڈ چیمپئن بھی بنواچکے ہیں، انہوں نے صحت کے شعبے میں شوکت خانم کینسر اسپتال اور تعلیم کے حوالے سے نمل یونیورسٹی جیسے منصوبے دیے، جو یقینا ان کے جذبہ خلوص کے عکاس ہیں، کیا جذبہ خلوص کا یہ عکس ہی سیاست میں کامیابی کا احسن جواز ہے؟ پاکستان میں سیاست دان بننا تو آسان ہے اور سیاسی جماعت کا سربراہ بننا بھی اس کے بعد دوسرا آسان کام ہے، الیکشن کمیشن پاکستان میں 3 سو سے زائد سیاسی و مذہبی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں، ان کے سربراہان بھی ہیں، پر وہ سب لیڈر نہیں، لیکن پاکستان میں کئی بار لیڈر بننے کا موقع صرف عمران خان کو ملا، افسوس وہ ہر بار موقع گنوا بیٹھے۔

    پاکستان کی حالیہ سیاست، معیشت اور معاشرت میں بڑی تبدیلی کو سمجھنے کے لیے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں، چھوٹی چھوٹی چند باتوں کا سمجھ لینا کافی ٹھہرے گا۔ پاکستان کا مالی سال 2016-17 کا بجٹ 43 ارب ڈالر کے قریب قریب کا ہے، دو ڈھائی برس قبل سعودی عرب سے ملے صرف ڈیڑھ ارب ڈالر سے ملکی معیشت پر بہت سے مثبت اثرات پڑے، جنہیں یہاں گنوانے کی ضرورت نہیں تاہم اسے آسان انداز میں یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ’110‘ سے اوپر پرواز کرنے والے امریکی ڈالر کے ’پر‘ اتنے کاٹ دیے گئے کہ وہ’ 90‘ سے کم پر اڑنے پر مجبور ہوگیا جبکہ 51 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری سے بننے والے سی پیک کو حکمران طبقہ پاکستان سمیت خطے کی تقدیر بدلنے والا منصوبہ قرار دے رہا ہے، جس سے مستقبل میں پیدا ہونے والے روزگار، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

    بات یہاں ختم نہیں ہوتی، سوچنے کی اصل بات تو یہ ہے کہ ’گزشتہ ادوار میں پاکستان خزانے کو مختلف انداز سےلوٹنے والے حکمرانوں کے 250ارب ڈالر باہر ہیں‘ یعنی 51ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری سے بھی چار گنا زیادہ رقم، جو اگر پاکستان میں واپس آجائے تو ہم ’تعلیم، صحت اور روزگار کی کئی گنا بہتر فراہمی کو یقینی بناسکتے ہیں، بڑے شہریوں کےمسائل کے حل کے ساتھ کئی چھوٹے شہر کا دائرہ بھی وسیع کیا جاسکتا ہے، عمران خان عوام کو مسلسل اس ہی بات پر متوجہ کر رہے ہیں، اب تک کی کامیابی کا راز بھی یہی ہے۔

    پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ہے، جو قدرتی اور معدنی وسائل سے مالامال ہیں، ان کا محل وقوع ہی اسے خطے میں کلیدی کردار کا حامل بناتا ہے، بھارت کو اپنی توانائی ضروریات پوری کرنی ہیں تو پاکستان کا راستہ درکار ہے، چین نے ترقی کا نیا دروازہ کھولنا ہے تو اسے پاکستان درکار ہے، جن ممالک میں ’ستان‘ لگتا ہے انہوں نے ترقی کے نئے در وا کرنے ہیں تو پاکستان ہی ان کی چوائس بن جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی امداد اور قرضے پر کیوں پڑا ہے؟ اسے ہر بار آئی ایم ایف، ورلڈ بینک جیسے اداروں کے رحم و کرم پر کیوں پڑنا پڑتا ہے ؟ اس کی وجہ بھی عمران خان درست ہی بتاتے آئے ہیں۔

    پاکستان میں موروثی سیاست ہے، سرکاری نوکری میں اقربا پروری اور رشوت کا چلن عام ہے، گزشتہ ادوار میں تو تقریباً تمام ہی بڑی سیاسی جماعتوں کو کھلایاگیا اور اتنی کرپشن کی گئی کہ ملک کا دیوالیہ نکلتے نکلتے بچا، اب بھی صورتحال ڈھکے چھپے انداز میں تقریبا ویسی ہی ہے، اس کا ایک اظہاریہ پاکستان بڑھتا اندرونی اور بیرونی قرضہ ہے، اسحق ڈار پیسے دے کر خود کو خطے کا سب سے اچھا وزیرخزانہ قرار دینے کی کوشش ہیں، مگر آج تک شفاف تحقیقات ہوئیں نہ ہی کسی کو قرار واقعی سزا ملی۔

    انصاف کی فراہمی کا حال یہ ہے ملک میں وکیل نہیں جج کرلو کی اصطلاح بھی زبان زد عام ہوچکی ہے، عام آدمی کی ترقی کے تمام ہی راستے تقریبا بند ہیں، تھوڑے بہت لوگ ہی ہیں جو اپنی صلاحیتوں کے عین مطابق کام کر رہے ہیں، خطے میں ہمارا امیج پالیسی میں بار بار کی قلابازیوں کے باعث خراب ہوچکا ہے، بلکہ کچھ دن قبل تک ملک کی عالمی سطح پر تنہائی کا ذکر بھی چل رہا تھا، انتظامی صورتحال یہ ہے کہ اسلام آباد کےایک چوک پر’پنجابی فلموں ‘ کے ولن کا کردار اد ا کرنے والا سکندر آج بھی سزا سے محفوظ ہے، ملک دشمنی سے بھرپور رپورٹنگ ہوتی ہے اور بدنامی کا سبب بننے والا صحافی ’مکھن‘ سے غائب ہوا ’ بال‘ بن جاتا ہے، بھارت مداخلت کرتا ہے، اس کا جاسوس گرفتار ہوتا ہے مگر حکمران چپ ہیں۔

    ملکی نظام میں موجود ’مالی کرپشن‘ کو اگر آپ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، قتل اور بھتہ خوری سے بڑا جرم قرار دیں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ مؤخر الذکر تمام جرائم آخری تجزیے میں کرپشن اور سستے اور فوری انصاف کی عدم فراہمی کی کوکھ سے ہی پیدا ہوتے ہیں، کیونکہ یہاں تعلیم، صحت اور روزگار نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں بن رہے ہیں۔ ایسے میں اگر کرپشن کا ایک معاملہ ’ملکی دولت کی باہر منتقلی‘یعنی پاناما لیکس سامنے آتا ہے، تو یہی وہ ایشو تھا، جس پر قوم کو یکجا کیا جانا ممکن تھا، حکومت یہ بات سمجھ رہی تھی، وہ آئیں بائیں اور شائیں کرکے وقت گزار رہی تھی، صورتحال کو ہر صورت قابو میں رکھنے کے لیے سرگرم تھی، وہ جانتی تھی کہ عمران خان اس مسئلے پر عوام کے ساتھ باہر نکلا تو پھر اس سے جان بچانا مشکل ہے اور عمران خان کو ملک کے عوام کا لیڈر بننے سے روکنا ناممکن ہوجائےگا۔

    مگر یہ کیا؟ سپریم کورٹ کی جانب سے حتمی فیصلہ آئے بنا ہی، احتجاج مؤخر کردیا، یوم تشکر منانے کا اعلان کردیا، یعنی’نادان سجدے میں گر پڑے جب وقت قیام آیا‘۔ جناب عمران خان صاحب! ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے، ابھی تو کمیشن بنانے کی بات ہوئی ہے، ٹی او آرز مانگے گئے ہیں، اس بات کا اعلان تھوڑی ہوا ہے کہ ’ اپوزیشن‘ کے نکات پر ہی وزیراعظم کی تلاشی لی جائے گی، آپ کو بھولنا نہیں چاہیے کہ یہ پاکستان کا عدالتی نظام ہے، یہاں فیصلہ آنے میں وقت لگتا ہے اور تب تک پلوں سےکئی ہزار کیوسک پانی گزر چکا ہوتا ہے، سیاسی ہوا بدل چکی ہوتی ہے اور سیاسی وفاداریاں بھی۔

    عمران خان پھر ایک بار لیڈر بنتے بنتے رہ گئے، یقینا اس کے پیچھے حکمرانوں کی چالاکیاں اور چالبازیاں بھی ہوں گی، سختیاں اور رکاوٹیں بھی ہوں گی، اس کے ہتھکنڈے بھی ہوں گے، عمران کو ایک موقع پر محسوس ہوا ہوگا کہ ’ کارکن‘ کا پہنچنا ناممکن ہے، میری سیاست کا شیش محل دھڑام سے گر سکتا ہے، ایسے میں اس کے اردگرد موجود چھوٹے چھوٹے قد کے سیاست دانوں نے اسے تنکے کے سہارے پر اکتفا کرنے پر ابھارا ہوگا، وہ بھی اس بال ٹمپرنگ کا شکار ہوگئے. انہیں سمجھنا چاہیے کہ ان کے اردگرد وہ لوگ ہیں جن کی سیاسی تربیت بہرحال کرپٹ سیاسی قائدین نے ہی کی ہے، ان کے اپنے مفادات ہیں، وہ ان کی خاطر رشتوں کا کوئی پاس نہیں رکھتے، پر اب کیاکریں؟ عمران خان نے پاکستان کا بڑے قد کا لیڈر بننے کا موقع گنوا دیا، اپنی سیاسی بساط خود ہی لپیٹ ڈالی اور پاناما لیکس جیسے ایشو کو اپنے ہاتھوں دفن کردیا، اب کل ہونے والا جلسہ بھی اس’اصولی موقف‘ کی سیاسی شکست کی بھرپائی نہیں کرسکتا، افسوس صد افسوس۔

  • عمران خان کے پاس کیا آپشنزموجود ہیں؟ محمد عامر خاکوانی

    عمران خان کے پاس کیا آپشنزموجود ہیں؟ محمد عامر خاکوانی

    سب سے پہلے یہ اعتراف کرنا چاہوں گا کہ اصولی طور پر مجھے عمران خان کی طرف سے دو نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج اور شہر بند کرنے کی دھمکی پر تشویش ہے۔ اس بات سے متفق ہوں کہ کسی بھی شخص کو اس حد تک احتجاجی سیاست کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ یہ بالکل بھی درست نہیں کہ وفاقی دارالحکومت کا محاصرہ کر کے کاروبار زندگی معطل کر دیا جائے، شہریوں کی زندگی اجیرن اور حکومت مفلوج ہو کر رہ جائے۔ اسی طرح کسی وزیر اعظم سے استعفیٰ لینے اور حکومت ختم کرنے کی کوئی روایت قائم نہیں ہونی چاہیے۔ ایک بار اگر ایسا ہو گیا تو پھر بار بار ہوتا رہےگا۔ کل کو عمران خان اقتدار میں آ گیا تو پھر اس کے ساتھ بھی اپوزیشن ایسا کر سکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ مسلم لیگ (ن) کے حامی لکھاری اور تجزیہ نگار مسلسل یہ دلائل دہرا رہے ہیں، ان سے مجھے اصولی طور پر اتفاق ہے۔ درست بات ہے کہ سیاسی نظام ڈی ریل نہیں ہونا چاہیے، کسی طالع آزما کو آنے کا موقع نہ دیا جائے۔ یہ سب باتیں بجا ہیں، درست ہیں، ان سے ہر عقل و ہوش رکھنے والا شخص اتفاق کرنے پر مجبور ہوگا۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ پھر عمران خان کو کیا کرنا چاہیے؟ اس کے پاس کیا آپشنز بچی ہیں؟

    عمران کے پاس احتجاج کے سوا اور کون سا راستہ کھلا ہے؟ اس سوال کا جواب اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت یا ان کے میڈیا سیل سے مانگا جائے، حکمران جماعت کے اتحادی مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی، محمود اچکزئی، ڈاکٹر مالک بلوچ، شیرپائو وغیرہ سے رائے لی جائے یا پھر ہمارے پیارے ملک کو فرینڈلی اپوزیشن کی اصطلاح کا تحفہ دینے والی پیپلزپارٹی اور حکومتی وزیر برائے اپوزیشن امور کا عوامی خطاب پانے والے قائد حزب اختلاف جناب خورشید شاہ کی طرف رجوع کیا جائے تو یہ سب متفقہ طور پر یہی فرمائیں گے کہ عمران خان کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں، وہ پاناما لیکس والا معاملہ پارلیمنٹ میں لے جائے، جہاں( محتاط اندازے کے مطابق ) اگلے ڈیڑھ دو برسوں میں ٹی او آرز طے ہوجائیں گے، تب تک نیا الیکشن سر پر آپہنچے گا تو قوم کے عظیم مفاد میں اس مسئلے کو اگلی پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا جائے گا۔ عمران خان تب تک اپنی کے پی کے حکومت کی طرف رجوع فرمائیں یا آرام سے بنی گالہ میں رہیں اور ٹی وی پر جناب وزیراعظم کے ملک و قوم کے مفاد میں کیے جانے والے عظیم الشان ترقیاتی پروگرام دیکھ کر محظوظ ہوں، دل چاہے تو تالیاں بھی بجا لیں۔ اگلے الیکشن کے بعد، جس میں2013ء والے نتائج کا ری پلے ہی دیکھنے کے نوے فیصد سے زیادہ امکانات ہیں، اس کے بعد عمران خان چاہے تو ایک بار پھر دھاندلی کا نعرہ لگا سکتا ہے، جس کے بعد پورا حکومتی میڈیا اور اس کے حمایتی قلم کار و تجزیہ کار طنز کے نت نئے اسلوب تراشتے ہوئے خان کا مضحکہ اڑائیں گے، اسے دھاندلی خان کہہ کر نکو بنائیں گے۔ تب خان صاحب چاہیں تواپنے بیٹوں کی تربیت کے لیے انگلستان تشریف لے جا سکتے ہیں، کرکٹ کمنٹری کی آپشن ان کے پاس ہمیشہ کھلی ہے یا پھر دوبارہ سے سوشل ورک شروع کر دیں۔ غرض یہ کہ جو مرضی کریں، مگر پیارے نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف کچھ نہ بولیں۔ اس طرح اور اس سے ملتی جلتی باتیں ہیں جو شریف خاندان، ان کے سیاسی اتحادی اور ان سے وابستہ میڈیا والے اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پر کہتے اور سمجھاتے ہیں۔

    سچ تو یہ ہے کہ میرے جیسے لوگ عمران خان کی آل آؤٹ وارکے حامی نہیں ہیں، احتجاجی تحریک کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لے جانے کو قطعی سپورٹ نہیں کرنا چاہتے۔ دو سال پہلے اسلام آباد کے دھرنے کی میں نے مخالفت کی تھی۔ آج بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ شہر بند کر دینا انتہا پسندی ہے۔ سیاسی عمل میں اس شدت تک نہیں جانا چاہیے۔ مجھے نہیں پتا کہ عمران خان کے اس ایڈونچر کا کیا انجام ہوگا؟ وہ لوگ اکٹھے کر پائے گا یا نہیں؟ اس کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن ہوجائے گا،گرفتاریاں، نظربندی یا کچھ اور؟ یہ سب بعد کی باتیں ہیں۔ دو نومبر کے فائنل شو میں ابھی نو دس دن پڑے ہیں، امید کرنی چاہیے کہ معاملہ سنبھال لیا جائے گا۔ سوال تو مگر یہ ہے کہ کس سے امید کی جائے؟ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے ادارے ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ ہمارے اس گلے سڑے سسٹم میں اتنی قوت، سکت اور مزاحمت موجود نہیں جو اپنی من مانی پر تلے ہوئے حکمرانوں کو راہ راست پر لا سکے اور جس سے اپوزیشن کو انصاف پانے کی امید ہو۔ میرا اصل دکھ اور المیہ ہمارے سسٹم کی یہی ناکامی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میرے پاس کوئی ایسی ٹھوس دلیل موجود نہیں جس کے ذریعے میں عمران خان یا تحریک انصاف کو آل آؤٹ وار سے روک سکوں، انہیں قائل کر سکوں کہ آپ اسلام آباد کا محاصرہ نہ کریں، شہر بند نہ کریں، آپ کوہمارا سسٹم انصاف مہیا کرے گا۔ سردست میرے پاس صرف اقوال زریں ہیں، اخلاقی حوالے ہیں، اصولی کتابی باتیں ہیں جو اس کالم کے پہلے پیرے میں سب دہرا دی ہیں، مگر بدقسمتی سے مجھے خود وہ الفاظ کھوکھلے، بے معنی اور کمزور لگ رہے ہیں۔

    میں نہیں چاہتا کہ عمران خان یا کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے احتجاج کو انتہا پر لے جائے، شہر بند کرے، حکومت الٹانے کی کوشش کرے۔ ان سب باتوں پر میں یقین نہیں رکھتا، ان کی وکالت نہیں کر سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں اتنا مایوس بھی ہوں کہ ہمارا یہ سسٹم عمران خان کو انصاف دے سکتا ہے۔ نہیں، قطعی نہیں۔ غیر جانبدار ذہن رکھنے والے کسی شخص کو اس میں شک ہوگا کہ پاناما لیکس والا پورا معاملہ بڑا اہم اور حساس ہے۔ شریف خاندان پر پچھلے بیس برسوں سے یہ الزام لگ رہا تھا کہ انہوں نے منی لانڈرنگ کر کے لندن میں جائیداد خریدی۔ اس کے جواب میں شریف خاندان، مسلم لیگی رہنما اور ان کے صحافتی وکیل دھڑلے سے انکار کر دیتے تھے۔ پاناما لیکس نے اس دیرینہ الزام کو پہلی بار وزن دیا۔ جناب وزیراعظم نے اس بات کو محسوس کیا اور وہ فوراً ٹی وی پر آئے، قوم سے خطاب کیا، اپنی صفائی پیش کی اور اعلان کیا کہ اس الزام کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے گا۔ عملی طور پر کیا ہوا؟ حکومت نے سرتوڑ کوشش کی کہ ایسا کوئی کمیشن نہ بن سکے، شاید انہیں معلوم ہے کہ اس طرح وہ بری طرح پھنس جائیں گے۔ دانستہ وہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لے گئے، عمران خان نے اتمام حجت کے لیے پارلیمنٹ کی آپشن استعمال کی۔ وہاں پہلے تو پارلیمانی کمیٹی ایسی بنائی گئی جس میں حکومت اور اس کے اتحادیوں کی تعداد زیادہ ہو۔ پھر ٹی او آرز کا ایسا ڈرامہ رچایا گیا کہ کئی مہینے اس میں صرف ہوگئے۔ تھوڑی سی بھی معلومات رکھنے والا ہر شخص جانتا تھا کہ یہ اتفاق رائے کبھی نہیں ہوگا۔ مسلم لیگی ارکان اسمبلی نجی محافل میں مسکراتے ہوئے کہتے کہ ہم پاگل ہیں جو اتفاق رائے کر لیں گے، اپنی گردن میں رسہ کیوں ڈالا جائے گا؟ پھر ایسا ہی ہوتا رہا۔ پیپلزپارٹی نے تو سیاسی ڈرامہ بازی کی حد کر دی۔ ایک بیان حکومت کے خلاف مگر عملی طور پر حکومت کی سپورٹ۔ متحدہ اپوزیشن بنا کر ایک قدم بھی نہ اٹھایا۔ عمران نے اپنے طور پر جدوجہد شروع کی تو پھر اسے طعنے دیے گئے۔ لگتا ہے کہ جناب زرداری اور خورشید شاہ اس پوری قوم کو بے وقوف سمجھتے ہیں؟ افسوس کہ قوم اتنی بےوقوف کبھی نہیں تھی، اگر ہوتی تو تین صوبوں سے پیپلزپارٹی کا صفایا نہ ہوتا۔ سندھ میں بھی چونکہ دوسری آپشن نہیں تھی اس لیے وہاں وہ سلوک نہیں ہوا۔

    الیکشن کمیشن، نیب، ایف بی آر نے تو ثابت کیا ہے کہ وہ ریاست کے نہیں بلکہ حکومت کے ادارے ہیں۔ عدالتوں کا ہم احترام کرتے ہیں، ان پر کام کے دباؤ کا اندازہ ہے مگر بعض اوقات تاخیر سے انصاف مل بھی جائے تو وہ بےفائدہ ہوتا ہے، جیسے سزائے موت پا جانے والوں کو موت کے بعد بےگناہ قرار دیا جا رہا ہے یا خواجہ آصف اور سعد رفیق کے حلقوں کا فیصلہ تین سال گزرنے کے باوجود نہیں ہو سکا، کیا پارلیمنٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد فیصلہ ہونا چاہیے؟ پاناما کیس کا نوٹس لینے کا فیصلہ مستحسن ہے، مگر سپریم کورٹ کوئی تفتیشی ادارہ یا ٹرائل کورٹ تو ہے نہیں۔ پاناما کوئی قانونی نکتے والا کیس نہیں ہے، اس کے لیے تو جوڈیشل کمیشن ہی بننا چاہیے اور فوراً ۔ عوام اور اپوزیشن رہنمائوں کو قومی اداروں سے انصاف کی امید باقی رہے تو انتہا پر جانے والوں کی حوصلہ شکنی ہو سکے گی۔ پھر شدت پر آمادہ رہنماؤں کو قوم مسترد کر دے گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو صرف اقوال زریں کے زور پر عوامی احتجاج اور سیاسی ایجی ٹیشن کو روکنا ممکن نہیں۔