Tag: اسلامی نظریاتی کونسل

  • ہاں سازش تو کہیں ہے-انصار عباسی

    ہاں سازش تو کہیں ہے-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    آج کے اخبار ات میں ایک خبرپڑھی تو بہت دکھ ہوا۔ لیکن جب میں نے تصدیق کےلیے متعلقہ افراد سے بات کی تو معاملہ بالکل مختلف نکلا۔ گزشتہ چند ہفتوں سے میں اس معاملےپر لکھنا چاہتا تھا لیکن کسی نہ کسی وجہ سے تاخیر ہوتی گئی۔ آج کے تقریباً تمام اخبارات میں اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالےسے ایک خبر شائع ہوئی۔ خبر کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نےوفاق کی جانب سے تعلیمی اداروں میں قرآن پاک کی تعلیم کےلیے تیار کردہ نصاب پر اعتراض کر دیاجس کی وجہ جہادسے متعلق آیات نصاب میں شامل نہ کرناہے۔ ان خبروں کے مطابق کونسل کے ممبران کی اکثریت کاموقف تھا کہ جہادسے متعلق 484 آیات میں سے کسی ایک آیت کو نصاب میں شامل نہ کرنا ایک سازش ہے۔ مجھے چونکہ حکومت کی طرف سےا سکولوں کالجوں میں مسلمان طلبا و طالبات کو قرآن حکیم ناظرہ اور ترجمہ کے ساتھ پڑھانےکےفیصلے کےبارےمیں علم تھا اور اس بارے میں میں نے کچھ عرصہ قبل ایک خبر بھی جنگ اورنیوز میںشائع کی تھی، اس لیے نظریاتی کونسل کے حوالےسے یہ خبرپڑھ کر دکھ ہوا کہ یہ کیا ہو گیا۔

    دکھ اس بات پر تھا کہ حکومت کس طرح قرآن پاک کے کسی بھی حصہ کو اسکولوں کالجوں کے نصاب سے نکال سکتی ہے۔ میں نے سوچا ہو سکتا ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک کےپریشر میں حکومت نے واقعی یہ فیصلہ کر لیا ہو کہ جہادسے متعلق قرآنی احکامات کو نصاب میں شامل نہ کیا جائے۔ لیکن اس بارے میں جب میں نے متعلقہ وزیر مملکت جناب بلیغ الرحمنٰ سے بات کی تو معلوم ہوا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔

    بلیغ الرحمنٰ جنہوں نے قرآن پاک کو اسکولوں کالجوں میں پڑھانے کی حکومتی پالیسی کے بننے میں کلیدی کردار ادا کیاتھا، کا کہنا ہے کہ نصاب میں سے قرآن پاک کا کوئی ایک لفظ بھی وہ نکالنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کے تحت اسکول کے بچوں کو مکمل قرآن پڑھایا جائے گا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلی سے پنجم جماعت تک کے بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھایا جائے گا۔ چھٹی جماعت سے بارہویں جماعت تک کے طلبہ کو قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ پڑھایا جائے گا۔ ترجمہ پڑھانےکےلیے قرآن پاک کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ مکی سورتوں کو چھٹی سےلے کر دسویں جماعت تک کے طلبہ کوپڑھایا جائے گا جبکہ گیارویں اور بارہویں جماعت کے بچوں کو مدنی سورتیں ترجمعہ کے ساتھ پڑھائی جائیں گی۔ بلیغ الرحمنٰ کا کہنا تھا کہ چونکہ مدنی سورتوں میں جہاد سمیت دوسرے قرآنی احکامات کا ذکر ہے اس لیے یہ مناسب سمجھا گیا کہ بچے جب نسبتاً سمجھ کے قابل ہوں تو انہیں قرآن پاک کے اس حصہ کا ترجمہ پڑھایا جائے۔ مکی سورتوں کا نصاب تیار ہو چکاہے جسے اسلامی نظریاتی کونسل کے سامنے رکھا گیا جبکہ مدنی سورتوں کا نصاب تیاری کے عمل میںہے۔

    سوچا حکومتی وزیر ہونے کی حیثیت سے ہو سکتا ہے بلیغ الرحمنٰ کوئی بات چھپا رہے ہوں تو نظریاتی کونسل کے ایک ممبر کے علاوہ ایک سینئر افسر سے بات کی تو دونوں حضرات نے میڈیا کی خبروں کے بالکل برعکس مجھے بتایا کہ کونسل نے تو حکومت کی اس پالیسی سے اتفاق کیا ہے۔ دونوں حضرات نے جہادسے متعلق قرآن پاک کے حصہ کو نصاب سے نکالنے کی بات کی تصدیق نہیں کی اور وہی بات کی جو بلیغ الرحمنٰ صاحب نے کی۔ کونسل نے ترجمہ میں بہتری کی کچھ تجاویز دیں اور ساتھ ہی یہ مطالبہ کیا ہے حکومت جلد از جلد مدنی سورتوں سے متعلقہ نصاب کو بھی تیار کرے تا کہ قرآنی تعلیم کا یہ سلسلہ جلد از جلد شروع ہو سکے۔ جو خبر بدھ کے روز کے اخبارات میں شائع ہوئی اور جو کچھ متعلقہ وزیر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے دو معتبر ذرائع نے مجھ سے کی، اُن دونوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔

    آج کے خبارات کی خبروں میں جہاد کی آیتوں کو نکالنےکے حوالے سے ـ’’سازش‘‘ کی بھی بات کی گئی۔ یقینا ًسازش تو کہیں ہے لیکن شاید اُس کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کے اس قابل تحسین فیصلےپر عمل درآمد کو روکا جائے۔ اگر ہمارے بچوں نے قرآن پاک پڑھ لیا، اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس کلام کو سمجھ لیا تو پھر اس پر تکلیف تو ملک کے اندر اور ملک سےباہر بیٹھے بہت سوں کو ہو گی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ مختلف مکاتب فکر کےبڑےبڑے علمائے کرام سے حکومت نے متعلقہ نصاب کے سلسلے میں رابطہ کیا اور تقریباً ہر ایک نے نصاب میں شامل کیےگئے ترجمہ کواصولی طورپر منظور کرتےہوئےحکومت کے اس عمل کو سراہا۔ ترجمہ کو مزید بہتر کیا جا سکتا ہے اور اس سلسلے میں علم فاونڈیشن کے متعلقہ افراد نے منگل کے روز نظریاتی کونسل کے اجلاس میں بھی شرکت کی اور بہتری سے متعلق تجاویز حاصل کیں۔

    اب دیکھنا یہ ہے کہ تمام تر سازشوں کے باوجود حکومت کس طرح اس فیصلےپر عمل درآمد کرتی ہے۔ بلیغ الرحمنٰ صاحب کے مطابق وفاقی حکومت تواس سلسلے میں کافی سنجیدہ ہے جبکہ صوبوںنےابھی اس بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔ میری وزیر اعظم نواز شریف صاحب سے گزارش ہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کےلیے وہ ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے فوری طورپر وفاقی اسکولوں کالجوں میں اس نصاب کو پڑھانے کا حکم صادر کریں۔ جہاں تک صوبوں کا تعلق ہے تو پنجاب اور بلوچستان میں تو ن لیگ ہی کی حکومت ہے جبکہ خیبر پختون خوا میں اس فیصلے پر عملدرآمد کےلیے جماعت اسلامی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ امید کرتےہیں کہ سندھ میں بھی اسکولوں کالجوں کے بچوں کو قرآن پڑھایا جائے گا۔ یقین جانیں اس اقدام سے یہاں بہت بہتری آئے گی

  • وفاقی شرعی عدالت کا اختیار سماعت – محمد مشتاق

    وفاقی شرعی عدالت کا اختیار سماعت – محمد مشتاق

    جنرل محمد ضیاء الحق نے قوانین کو اسلامیانے کے عمل میں بنیادی طور پر توجہ، فوجداری قانون کی طرف دی۔ چنانچہ انھوں نے ایک طرف اسلامی نظریاتی کونسل کے ذریعے حدود سزاؤں کے نفاذ کے لیے مسودۂ قانون تیار کروایا اور دوسری طرف تمام عدالت ہائے عالیہ میں ”شریعت بنچ“ بنائے، بعد میں ان شریعت بنچوں کو توڑ کر ایک ”وفاقی شرعی عدالت“ کی تشکیل کی اور اس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی سماعت کے لیے عدالتِ عظمیٰ میں ”شریعت اپیلیٹ بنچ“ بنایا۔ وفاقی شرعی عدالت کو یہ اختیار سونپا گیا کہ جو قوانین اسلام سے متصادم ہیں ان کو وہ تصادم کی حد تک کالعدم قرار دے ۔ دوسرا کام اس عدالت کا یہ ہے کہ حدود کے مقدمات میں یہ اپیلیٹ کورٹ کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔ ان دونوں حیثیتوں میں وفاقی شرعی عدالت نے کئی اہم فیصلے سنائے ہیں۔

    وفاقی شرعی عدالت کے اختیار سماعت سے چار قسم کے قوانین باہر کردیے گئے ہیں: دستور، عدالتی طریقِ کار سے متعلق قوانین، مسلم شخصی قانون اور مالیاتی قوانین۔ ان میں آخر الذکر، یعنی مالیاتی قوانین، سے متعلق مدت پہلے دو سال تھی جسے بعد میں پانچ سال اور پھر دس سال کر دیاگیا۔ یہ مدت ۱۹۹۰ء میں ختم ہوئی لیکن پالیمنٹ میں دوتہائی اکثریت نہ ہونے کے باعث اس شق میں حکومت ترمیم نہ کرسکی اور مدت میں اضافہ نہیں کیا جاسکا۔ بہت سی درخواستوں کے ذریعے سودی قوانین کو شریعت سے تصادم کی بنیاد پر چیلنج کیاگیا۔ ۱۹۹۱ء میں عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا جس کے تحت ان قوانین کو کالعدم قرار دے کر ان میں ترمیم کے لیے حکومت کو حکم دیا گیا اور قرار دیا کہ اگر چھ ماہ کی مدت میں ان قوانین کو شریعت کے مطابق نہ کیا گیا تو یہ ازخود ختم ہوجائیں گے۔ حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی اور اس کے بعد تقریباً آٹھ سالوں تک اس کیس کی سماعت نہ ہوسکی۔

    ۱۹۹۹ء میں جب بالآخر اس کی سماعت شروع ہوئی تو حکومت نے کئی تاخیری حربے استعمال کرنا شروع کیے، مثلاً بنچ کے ایک رکن (جسٹس خلیل الرحمان خاں ) کو وفاقی محتسب بنا کر بنچ کچھ مدت کے لیے توڑ دیا گیا۔ حکومت نے عدالت میں درخواست بھی دائر کردی کہ وہ اپیل واپس لے کر وفاقی شرعی عدالت میں نظرثانی کی درخواست دائر کرنا چاہتی ہے، لیکن عدالت نے یہ درخواست مسترد کردی۔ دسمبر ۱۹۹۹ء میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا اور حکومت کو ۳۰ ؍جون ۲۰۰۱ء تک کی ڈیڈ لائن دے دی۔ جون ۲۰۰۱ء میں حکومت نے سپریم کورٹ میں درخواست دی کہ مدت میں مزید اضافہ کیا جائے۔ چنانچہ عدالت نے مدت ۳۰؍ جون ۲۰۰۲ء تک بڑھادی۔

    جب وہ مدت پوری ہونے کو آئی تو یونائیٹڈ بینک نے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کردی۔ اس دفعہ عدالت نے نہ صرف اپنے پچھلے فیصلے کو ختم کردیا، بلکہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو بھی ختم کرکے کیس واپس وفاقی شرعی عدالت میں بھیج دیا کہ وہ از سر نو اس کا جائزہ لے اور بعض نئے اٹھائے گئے سوالات پر بھی فیصلہ سنادے۔ تب سے چودہ سال ہوئے مگر آج تک اس کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی !

    شخصی قوانین کا معاملہ اور بھی افسوس ناک ہے۔ بھارت جیسے ملک میں بھی شخصی قوانین کی حد تک اسلامی شریعت کا لحاظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر پاکستان میں ایوب خان دور کے عائلی قوانین کی شریعت سے مطابقت معلوم کرنے کی اجازت عدالت کو نہیں تھی۔ ۱۹۸۰ء میں پشاور ہائی کورٹ کے شریعت بنچ نے ان قوانین کا جائزہ لے کر اس کی دفعہ 4 کو شریعت سے متصادم قرار دیا۔ (مسماۃ فرشتہ کیسPLD 1980 Pesh 78 ) جب ہائی کورٹس کے شریعت بنچ ختم کرکے وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی تو اس کے دائرۂ سماعت سے ان قوانین کو باہر کر دیا گیا۔ بعد میں سپریم کورٹ کے چند فیصلوں کو بنیاد بناکر وفاقی شرعی عدالت نے طے کیا کہ وہ مسلم فیملی لاز آرڈی نینس ۱۹۶۱ء کا جائزہ لے سکتی ہے۔ چنانچہ عدالت نے ۱۹۹۳ء میں اس آرڈی نینس کے متعلق درخواستوں کی سماعت شروع کی۔ بالآخر دسمبر ۱۹۹۹ء میں عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا جس کے تحت اس آرڈی نینس کی چند شقیں قرآن و سنت سے متصادم قرار دی گئیں۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کور ٹ میں اپیل کی گئی جس کی سماعت تاحال (یعنی سولہ سال گزرنے کے بعد بھی ) شروع نہ ہوسکی۔

    باقی رہا دستور اور عدالتی طریق کار سے متعلق قوانین کا معاملہ تو ان پر تو بات بھی نہیں کی جاسکتی۔ اس سے کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قوانین کو اسلامیانے کے سلسلے میں ہماری فوجی اور سول حکومتیں کتنی مخلص رہی ہیں!