Tag: اسحاق ڈار

  • ہوسِ لقمۂِ تر کھا گئی لہجے کا جلال-ہارون الرشید

    ہوسِ لقمۂِ تر کھا گئی لہجے کا جلال-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed
    جمہوریت بجا مگر ایک چیز اخلاق بھی ہوتا ہے‘ قانون بھی‘ کردار بھی…افسوس کہ کم ہی لوگ غور کرتے ہیں۔ رہے سرکاری اخبار نویس تو وہ سوچ بچار کریں یا دربار داری؟ضمیر کی آواز سنیں تو کیسے سنیں ؎
    ہوسِ لقمۂِ تر کھا گئی لہجے کا جلال
    اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی

    یہ ہمارے لیڈر۔ اگر وہ ہمارے گناہوں کی سزا نہیں تو اور کیا ہیں؟ سینیٹر سعید غنی بھلے آدمی ہیں۔ ایک منظر ایسا میں نے دیکھا کہ دل کی گہرائیوں سے ان کی عزت کرتا ہوں۔ محترمہ فریال تالپور کے دستر خوان پر کھانا چنا جا چکا تو وہ میز پر آ بیٹھے۔ پھر دھیمے لہجے میں یہ کہا : مجھے بھوک نہیں۔ آداب کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کچھ دیر بیٹھے رہے‘ پھر اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں بولے : مجھے نماز ادا کرنی ہے۔ اُٹھ کر ساتھ کے کمرے میں گئے، عبادت کی۔ لوٹ کر آئے تو لمحہ بھر کھڑے رہے۔ پھر یہ کہہ کر اجازت طلب کی : پارٹی کا اجلاس شروع ہونے والا ہے‘ مجھے اجازت دیجئے۔ آپ تو بعد میں بھی آ سکتی ہیں‘ مجھے انتظام دیکھنا ہے۔

    کپتان کے عیب شمار کرنے پر مامور ایک اخبار نے ان کا بیان نمایاں طور پر چھاپا ہے۔ بہرحال انہی کا ہے : عمران خان کے اردگرد ٹیکس چور جمع ہیں۔ ضرور ہوں گے۔ عمران فرشتہ ہیں اور نہ ان کے ساتھی۔ 1996ء میں تحریک انصاف کی نیو رکھی گئی تو دو بار بلدیہ رحیم یار خان کے چیئرمین اور تین بار قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہونے والے میاں عبدالخالق نے دلچسپی کا اظہار کیا۔ ان سے کہا گیا کہ نام آپ کا لکھ لیا ہے۔ کوائف جانچنے کے بعد اطلاع دیں گے۔ وہ ہکا بکا رہ گئے۔ اکھڑ میاں صاحب بہت ہیں۔ ان کے کھردرے لہجے کی شکایت سبھی کو رہتی ہے مگر مالی معاملات میں اکل کھرے۔ گلبرگ لاہور کے شمالی آغاز، مین بلیوارڈ میں جو فوارّہ کروڑوں کی لاگت سے لگا‘ انہوں نے 70 ہزار روپے میں نصب کرا دیا تھا‘ اسی کمپنی سے۔ معائنہ کرنے کے لیے انجینئر رحیم یار خان پہنچا۔ صبح سویرے چہل قدمی کو نکلا اور لوگوں سے بات کی ۔ ان میں سے بعض نے کہا : کہاں تم پھنس گئے۔ میاں تو ایک بے فیض آدمی ہے۔ تکنیک ان کی یہ تھی کہ شہر کی مالی کم مائیگی کا رونا روتے۔ اصرار کرتے رہتے کہ فلاح عام کے اس کام میں ٹھیکیدار منافع سے دستبردار ہو جائے۔ آخر کار زچ ہو کربعض مان بھی جاتے یا معمولی یافت پر اکتفا کرتے۔ ایسے آدمی کے بھی کوائف جانچنا تھے۔

    بیس سال کے سفر میں تحریک انصاف‘ دوسری پارٹیوں ایسی پارٹی بن گئی ۔ پارٹی کا چندہ تک لوگ کھا گئے ‘ کروڑوں روپے ‘مگر ان کا احتساب نہ ہوا۔ ان میں سے ایک کے بارے میں کپتان نے خود مجھ سے کہا : ذرہ برابر اعتماد اس پر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے باوجود مزید کئی برس پارٹی سے وہ چمٹا رہا۔ نہایت اہم ذمہ داریاں اس کے سپرد ہیں۔ دوسروں کی قسمت کے فیصلے وہ کرتا رہا تاآنکہ بے قابو ہو کر پھسل گیا۔

    نکتہ اور ہے۔ تحریک انصاف کے عیب تو سینیٹر صاحب کو صاف دکھائی دیتے ہیں۔ زرداری صاحب نظر نہیں آتے۔ دوسروں کی آنکھ کا تنکا تاک لیتے ہیں‘ اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور زرداری صاحب کا سرے محل یاد نہیں آتا۔ سوئزر لینڈ کے کھاتے نہیں‘ فرانس کے محلات اور امریکہ کی وسیع و عریض جائیداد بھی نہیں۔ کیسے عجیب لوگ ہیں‘ کتنے عجیب لوگ۔

    وزیراعظم میاں محمد نوازشریف سے مطالبہ یہ ہے کہ ازراہ کرم پاناما لیکس کی تحقیقات کرائیے۔ ملک بھر کا تقاضا ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں اس پر متفق ہیں۔ جواب میں ان کا ارشاد یہ ہے کہ میرے مخالفین ترقی کا عمل روک دینے کے آرزو مند ہیں۔ بجلی کی قیمت دوگنا کر دی ۔ فرمان یہ ہے کہ قوم ذرا دم لے‘ سستی کر دیں گے۔ قیمت اس وقت بڑھائی جب پٹرول کی قیمت 110 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر 40 ڈالر رہ گئی۔ بعض اوقات اس سے بھی کم۔ اٹھارہ برس کے لیے قطر سے گیس کا معاہدہ کیا ہے۔ فی یونٹ 6 ڈالر۔ یہی گیس جاپان والے کھلی مارکیٹ میں 4 ڈالر پر خرید رہے ہیں۔ ثابت کرنے والوں نے اعداد و شمار سے ثابت کر دیا گیا کہ راولپنڈی کی میٹرو بس کا ڈھانچہ‘ اسی طول کی امرتسر میں تعمیر ہونے والی شاہراہ سے تین گنا زیادہ ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں‘ لاہور کے لیے ریل کا منصوبہ بنا تو اسے بی او ٹی پر تعمیر ہونا تھا۔ نقد ادائیگی کے بغیر ہی۔ بڑا حصہ زیِرزمین تھا۔ دنیا کی بہترین کمپنیوں کو اسے تعمیر کرنا تھا۔ پھر خود ہی اس کا نظام چلا کر سرمایہ واپس وہ وصول کرتے۔ شرحِ منافع 0.25 تھی‘ یعنی تقریباً سود کے بغیر ہی۔ پنجاب میں شریف خاندان نے اقتدار سنبھالا تو ایشیائی ترقیاتی بینک کو لکھ بھیجا کہ اس منصوبے کی ضرورت ہی نہیں۔ 2008ء میں اگر یہ شاہی فرمان جاری نہ ہوا ہوتا تو 2012ء میں شہر اس سے استفادہ کر رہا ہوتا۔ کئی سال گزر جانے کے بعد چین کی ایک غیر معروف ناتجربہ کار کمپنی سے معاہدہ کیا۔ سود کی شرح گیارہ گنا زیادہ۔ اخراجات لگ بھگ دوگنا۔ اس قدر سفاکی اور بے رحمی کا جواز کیا تھا؟ یہ کہ کریڈٹ‘ چوہدری پرویز الٰہی کو نہ مل جائے۔ چوہدری صاحب کوئی درویش نہیں۔ حکومت میں رہتے ہوئے‘ بہت کچھ وہی انہوں نے کیا‘ جو شریف اور زرداری خاندان کا خاصا ہے۔ان سے عناد کی سزا مگر قوم کو کیوں ملی؟

    فوجی حکومت کا کوئی جواز نہیں۔ کہنے والے نے کہا تھا : میں لوہے کا یہ حق تسلیم نہیں کرتا کہ وہ انسانوں پر حکومت کرے۔ تاریخی تجربہ یہی ہے کہ اصلی اور پائیدار ترقی جمہوری نظام میں ہوتی ہے۔ یہ کیسا جمہوری نظام ہے کہ معاشی میدان میں‘ مارشل لا سے بھی بدتر۔
    پرویز رشید صاحب نے فرمایا : جنرل مسائل پیدا کرتے ہیں اور حل ہمارے میاں صاحب کو کرنا پڑتے ہیں۔ زمینی حقائق مگر مختلف ہیں۔ اعداد و شمار کی شہادت بالکل ہی دوسری ہے۔

    جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو قومی خزانے میں صرف 400 ملین ڈالر پڑے تھے۔ بہت دن تک عالم یہ رہا کہ قرضوں کی واپسی لیت و لعل سے‘ کچھ دن بتا کر یا بھیک مانگ کر کی جاتی۔ ایوان اقتدار سے وہ نکلے تو زرمبادلہ کے ذخائر اٹھارہ ارب ڈالر تھے۔ 1999ء میں پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرض 38.5 بلین ڈالر تھا۔ گئے تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار قرض کم ہو چکا تھا‘ 34 ارب ڈالر۔ خون چوس آئی ایم ایف سے نجات پا لی گئی تھی۔ اب یہ قرض 80 ارب ڈالر ہے اور دن بدن فروغ پذیر۔ آنے والی نسلیں یہ بوجھ کیسے اٹھائیں گی؟ 1999ء میں ڈالر کی قیمت 55 روپے تھی۔ آٹھ سال بعد وہ چھوڑ کر گئے تو 60 روپے۔ آٹھ برس میں 106 روپے ہو چکی۔ مزید زوال کا خطرہ سامنے ہے۔
    1988ء سے 1999ء تک‘ گیارہ سالہ جمہوری دور میں بیرونی سرمایہ کاری چار ارب ڈالر رہی‘ مشرف کے دور میں 13ارب ڈالر۔ نوازشریف کے پچھلے دور میں غربت کی شرح 34 فیصد رہی۔ مشرف کے زمانے میں 23 فیصد رہ گئی۔ اللہ کے فضل و کرم سے اب پھر سے 39 فیصد ہے۔ مشرف کو اقتدار ملا تو سالانہ شرح ترقی چار فیصد تھی۔ 2004-5 میں نو فیصد کو پہنچی۔ ایشیا کے سب سے لائق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بقول اب پھر سے 4.5 فیصد ہے۔ مگر ان کے اعدادوشمار ماہرین قبول نہیں کرتے۔ 1999ء میں پاکستان اپنی کل قومی آمدنی کا 64 فیصد قرضے اور سود کی ادائیگی پر ادا کرتا۔ مشرف عہد میں یہ شرح 28 فیصد رہ گئی۔ 1999ء میں کراچی کی مشہور زمانہ اور رسوائے زمانہ سٹیل مل اربوں کے خسارے میں تھی۔ مشرف دور میں منافع کمانے لگی‘ سالانہ ایک ارب اور بعض برسوں میں اس سے بھی زیادہ۔

    فیلڈ مارشل ایوب خاں اور جنرل محمد ضیاء الحق کے ادوار سے متعلق اعداد و شمار اور بھی ہیں۔ صنعتی بنیادیں ایوب خاں کے عہد میں استوار ہوئیں۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے ادوار میں غربت کم ہوئی۔ تین ماہ ہوتے ہیں، چوہدری پرویز الٰٰہی نے جب یہ کہا کہ دس لاکھ ملازمتین ہر سال پیدا ہوا کرتیں تو میں حیرت زدہ رہ گیا۔

    انسانی صلاحیت آزادی ہی میں نشودنما پاتی ہے مگر یہ کرپشن‘ حکمرانوں کا یہ کاروبار زرگری۔یہ نعرہ فروشی‘ یہ دھوکہ دہی۔
    جمہوریت بجا مگر ایک چیز اخلاق بھی ہوتا ہے‘ قانون بھی‘ کردار بھی…افسوس کہ کم ہی لوگ غور کرتے ہیں۔ رہے سرکاری اخبار نویس تو وہ سوچ بچار کریں یا دربار داری؟ضمیر کی آواز سنیں تو کیسے سنیں ؎
    ہوسِ لقمہ تر کھا گئی لہجے کا جلال
    اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی

  • ڈوبتے کوایوارڈ کا سہارا؟ رضوان الرحمن رضی

    ڈوبتے کوایوارڈ کا سہارا؟ رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ اتنی بھلی چنگی چلتی ہوئی حکومت کو آخر تنکوں کے سہارے کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟ وہ کون سا دباؤ ہے جس کے تحت، وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے کاروباری طبقے کو لاہور کے گورنر ہاؤس میں بیٹھ کر بتانا ضروری خیال کیا کہ ان کے سمدھی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ’’ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے بڑے بڑے اداروں کی طرف سے بہترین وزیرخزانہ کا ایوارڈ مل گیا ہے‘‘۔ اگر یہ ایوارڈ اتنا ہی اہم تھا تو یہی ایوارڈ اسحاق ڈار صاحب کے دستِ راست، جن کی پاکستانی شہریت کے بارے میں بہت سی افواہیں زیرگردش ہیں، یعنی ہمارے گورنر سٹیٹ بینک صاحب کو بھی ملا ہے تو ان کا ذکر کرنا کیوں ضروری خیال نہیں کیا گیا۔یہ تو ایسے ہی ہے کہ اباجان نے بازار سے اپنے لیے ایک عدد ٹوپی خریدی، کندھے پر سوار بچے نے ضد کی ’’میں نے بھی لینی ہے‘‘ تو ایک اسے بھی دلوا دی۔

    یہ اور اس طرح کے کسی بھی ایوارڈ کی حیثیت شاید اب پرِکاہ کے برابر بھی نہیں رہ گئی۔ سب کام پیسے کا ہے۔ دنیا میں معروف لوگوں کی ایک سالانہ ڈائریکٹری چھپتی ہے، ہو از ہو؟ کوئی بھی شخص ڈیڑھ دو سو ڈالر دے کر اس میں نام چھپوا سکتا ہے۔ ’’ہو از ہو‘‘ نامی اس فراڈ کی مارکیٹنگ کرنے والے اپنے کلائنٹ (یعنی معزز چغد) کو یہ باور کروا دیتے ہیں کہ اس کتاب میں ان کے نام (اور پروفائل) کی اشاعت سے بس ان کی شخصیت اور صدرِ امریکہ کی شخصیت میں اہمیت کے حوالے سے دو چار انچ کا فاصلہ رہ جائے گا۔ شروع شروع میں تو اپنا نام اور پتہ چھپوانے کے لیے پاکستانی چغدوں نے ہزاروں ڈالر ادا کرنے میں بھی عار محسوس نہ کیا لیکن پھر امریکیوں کی بدقسمتی کہ ان کو ہمارا ایک چنیوٹی شیخ بزنس مین دوست ’ٹکر‘ گیا جس نے صرف سو ڈالر میں نام بھی درج کروایا بلکہ الٹا کافی بھی اس مارکیٹنگ مینیجر کے پلے سے پی۔

    ہمیں اپنے پیشہ ورانہ کیرئیر کے دوران سب سے زیادہ مشکل اس وقت ہوتی جب کوئی کاروباری شخصیت اس ادارے سے دوسو ڈالر کا ’تھوک‘ لگوا کر آ جاتی اور فرمائش ہوتی کہ چوں کہ ہمارا نام ’ہو از ہو‘ نامی اس فراڈ میں چھپ گیا ہے تو اب تم ایک خبر اپنے اخبار میں چھاپو تاکہ اہلِ پاکستان پر بھی ہماری عظمت کا سورج طلوع ہو جائے۔ گھنٹوں مغز ماری کر کے اسے یہ باور کروانا پڑتا کہ حضور آپ بیوقوف بن چکے ہیں اور اب اس کی خبر چھپنے پر جن لوگوں کو نہیں پتہ، ان کو بھی پتہ چل جائے گا کہ آپ کتنے بڑے چغد ہیں۔

    اسی طرح دنیا بھر میں مختلف ادرے ہیں جو پیسے لے کر ایوارڈ دیتے ہیں۔ پاکستان کا ہر تھکا ہوا اور اپنی سروس کے اعتبار سے گھٹیا ترین بینک ہر سال ’’یورو منی ایوارڈ‘‘ لے آتا ہے۔ اس کا اخبار میں اشتہار بھی دیا جاتا ہے اور ساتھ میں یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ ہم یہ ایوارڈ گذشتہ دس سال سے جیت رہے ہیں۔ یادش بخیر اس طرح کی جعل سازیوں کا راستہ ہماری بینکنگ انڈسٹری کو اللہ بخشے جناب شوکت عزیز صاحب نے دکھایا تھا جواس شعبے کے بہت پرانے اور نامور کھلاڑی تھے۔

    ملکی سطح پر اس طرح کا سب سے بڑا ایوارڈ ’’ایف پی سی سی آئی ایکسپورٹ ٹرافی‘‘ ہے جس کا وہ بیس سے پچاس لاکھ کا خرچہ وصول کرتے ہیں یعنی جہاں پر جو گر جائے، اس سے وہ رقم وصول کر کے اسے یہ ٹرافی یا ایوارڈ دے دیا جاتا ہے۔ اس کو فیڈریشن کے لوگ ’ڈونیشن‘ یعنی عطیے کا نام دیتے ہیں۔ اگر ایک شعبے میں زیادہ دعویدار آ جائیں تو پھر ’’بزرگ‘‘ صلح صفائی سے معاملہ یوں حل کرواتے ہیں کہ اس سال ایک کو دے دیں، اگلے سال دوسرے فریق کو اور یوں گلشن کا یہ کاروبار چلتا رہتا ہے۔ یہی کام ایوانِ صنعت و تجارت لاہور اور دیگر مقامی ایوانوں نے بھی شروع کیا بقول شخصے بات یہاں تک جا پہنچی کہ ’’پرانی جوتیوں اور کپڑوں کے بدلے ایوارڈ بھی ملنے لگ گئے‘‘۔ حاصل وصول یہ ہوتا ہے کہ حکومت جس کو اپنی کارکردگی کے جھنڈت گاڑنے ہوتے ہیں، اس کا نمائندہ (صدر یا وزیراعظم) یہ ایوارڈ دینے کے لیے تشریف لاتا ہے اور اس کے ساتھ ایوارڈ وصول کرنے والی کی ایک تصویر بن جاتی ہے جسے وہ صاحب اپنے ڈرائنگ روم میں لگا کر آنے جانے والوں پر اپنی کاروباری عظمت کی دھاک بٹھاتے رہتے ہیں۔ ورنہ دبئی میں اپنی ہیرے جیسے پراڈکٹس کوڑیوں کے مول بھارتیوں کو بیچ آنے والوں کو تو جوتے پڑنے چاہییں۔

    ملک کے اندر واقفانِ حال کو معلوم ہے کہ ان ایوارڈوں کی اہمیت اور ’’ذلت‘‘ کیا ہوتی ہے اس لیے اسے کوئی قابلِ فخر بات نہیں سمجھا جاتا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر صدا کے کاروباری وزیراعظم کو کاروباری افراد میں بیٹھ کر ایسی بات کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ واقفانِ حال کا یہ کہنا ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے ایک باغ و بہار شخصیت پائی ہے۔ وہ ’بندہ جاتا ہے تو جائے فقرہ نہ جائے‘ کے اصول کے بانی مبانی ہیں، اس لیے انہوں نے اپنے سمدھی کو ’جگت‘ فرمائی تھی لیکن میڈیا مینیجر کوڑھ مغز ہونے کے باعث اس کو سمجھ ہی نہ سکا اور اس کی خبر بنوا کر چلوا دی۔ میڈیا مینیجر کے کوڑھ مغز ہونے کی تصدیق کچھ یوں بھی ہوجاتی ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے اجلاس کی سمری کے لیک ہونے کا الزام بھی جناب کی ذا ت پر آ رہا ہے۔

    یادش بخیر وزیر اعظم نواز شریف کے دوسرے دور کی بات ہے کہ انہوں نے الحمرا میں تقریر کرتے ہوئے ایک لطیفہ سنا دیا۔ شام کو ان کے اُس وقت کے میڈیا مینیجر سارے اخبارات کے دفاتر میں اس ’لطیفے‘ کو رکوانے کے لیے منتیں ترلے کرتے پائے جا رہے تھے۔ جی ہاں اس پر حیران نہ ہوں، اس وقت میڈیا کی عزت ہوا کرتی تھی۔ تو نتیجہ یہ ہے کہ میاں صاحب آئی ہوئی بات روکنے کے قائل نہیں اس لیے یہ بات بھی اسی اصول کے تحت ان کے منہ سے نکل گئی ہوگی۔

    تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں صاحب اور ان کی مالیاتی ٹیم کو ایسے تنکوں کے سہاروں کی کیوں ضرورت پڑ رہی ہے؟ ابھی کل ہی تو اسحاق ڈار صاحب نے پوری قوم کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر ساڑھے چوبیس ارب ڈالر کی سطح سے پار جا پڑے ہیں۔ اب جب کہ زرمبادلہ کے ذخائر بیس ارب ڈالر سے اس قدر بڑھ گئے ہیں، کیسے بڑھے یہ ایک الگ داستان ہے، تو ایسے میں امریکی ڈالر کی پاک روپے سے شرح تبادلہ کو 104 روپے کے آس پاس رکھنے کا کیا جواز ہے؟ پھر تو روپے کی قیمت ایک سو روپے سے کم ہونا چاہیے۔ لیکن واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اگلے سال جب پاکستان کے ذمے ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کے قرض کی واپسی کا وقت آئے گا تو ڈالر مزید گرایا جائے گا، اور یوں ڈالر کی اس کمی بیشی سے یار لوگوں کی دیہاڑیاں لگیں گی۔

    ملکی معیشت کی درماندگی کی جو اہم وجوہات ہیں اور جن کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا جارہا، وہ یہ ہے کہ ملک کی برآمدات موجودہ مالی سال کے پہلے تین ماہ میں دس فی صد سے زائد کے حساب سے تنزلی کا شکار ہیں اور برآمدات کے اس زوال میں کمی کے کوئی امکانات مستقبل قریب میں نظر نہیں آ رہے۔ وزیرتجارت اور ان کے خاندان کے مالیاتی مفادات گوجرانوالہ شہر کی حدود کی طرح مسلسل پھیلتے جا رہے ہیں لیکن ملک کی برآمدات مسلسل سکڑ رہی ہیں۔ گرتی برآمدات کو سہارا دینے کے لیے حکومت کی طرف سے ٹیکسٹائل سیکٹر کو ایک پیکیج دینے کی باتیں سننے میں آ رہی ہیں لیکن حکومت بظاہر ایسا کرنے سے بھی گھبرا رہی ہے کہ اس مجوزہ پیکیج کو اقرباء پروری کے کھاتے میں ڈال کر کنٹینر پر کھڑے حضرات ان کے خلاف چارج شیٹ میں ایک اور الزام کا اضافہ نہ کرلیں۔

    حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے پنجاب میں صنعتوں کے لیے بجلی کی بندش کی شرح اکتوبر 2015ء سے صفر کر دی ہے تواس کا مطلب تو یہ ہے کہ پنجاب میں بھی تمام بند صنعت چل پڑی ہے جو بجلی کی عدم یا کم دستیابی کے باعث کلی یا جزوی طور پر بند پڑی تھی؟ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ بند صنعتیں چل پڑی ہیں تو ان کا نتیجہ برآمدی اعداد و شمار میں ظاہر کیوں نہیں ہو پا رہا؟

    اُدھر مالی سال کے پہلے انہی تین ماہ کے دوران حکومتی محاصل کی وصولی کی شرح میں بھی مسلسل کمی کا رحجان ہے لیکن حکومت کی خواہش ہے کہ اس طرف نہ دیکھا جائے اور صرف اقتصادی راہداری کا وہ خرگوش دیکھا جائے جو اس کے چیف جادوگر، جناب چوہدری احسن اقبال صاحب ہر چوک میں اپنے ہیٹ میں سے نکال کر دکھاتے پائے جا رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف عمران خان کا کرپشن اور احتساب کا نعرہ اس قدر دلفریب ہے کہ اب عوام اقتصادی راہداری کے خرگوش کی طرف دیکھنا نہیں چاہ رہے۔

    مجموعی طور پر آج کی تاریخ میں حکومت کے کھاتوں میں منفی اقتصادی اشاریوں کی شرح مثبت کی اقتصادی اشاریوں کی نسبت زیادہ ہے تو ایسے میں وزیراعظم صاحب کا ایسی باتیں کرنا ہی بنتا ہے۔

  • شکوک بانڈز – شعیب لطیف

    شکوک بانڈز – شعیب لطیف

    میڈیا پر اس بات کا بہت چرچا ہے کہ اسحاق ڈار صاحب میاں صاحب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پاکستان کے اثاثہ جات گروی رکھ کر قرض حاصل کر رہے ہیں تاکہ ملکی نظام جوں کا توں چلتا رہے۔ ملکی اثاثہ جات کو گروی رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومتی عہدیداران کو مکمل یقین ہے کہ بہت جلد وہ یہ قرض واپس کر دیں گے اور گروی رکھی گئی عمارات و سڑکیں واپس پاکستان کی ملکیت ہو جائیں گی۔ ان عمارات اور سڑکوں کو گروی رکھ کر سکوک بانڈز جاری کیے جائیں گے، جو بھی شخص یا کمپنی یہ بانڈز خریدے گی، وہ گروی شدہ وقت میں ان اثاثہ جات کا مالک بن جائے گی۔

    حکومتی عہدیداران کے اس اطمینان اور یقین کو سلام ہے، جو پچھلی تین دہائیوں سے مسلسل بڑھتے ہوئے قرض کے باوجود اس بات پر مطمئن ہیں کہ عنقریب یہ قرض ادا ہو جائے گا۔ ایسا قرض جس کی مالیت 70 ارب روپے سے بڑھ کر 90 ارب روپے ہو چکی ہے۔ سلام ہے پاکستانی عوام کو بھی جس نے اس فیصلے کو من و عن تسلیم کر لیا۔ سلام ہے پاکستان کے ان تمام احتسابی اداروں کو جنہوں نےگزشتہ تلخ تجربات کے باوجود اس فیصلے کو جاری و ساری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ سلام ہے ان ماہرین اقتصادیات، محقیقین اور دانشوروں کو جنہوں نے اس حکومت کو اس گروی شدہ فیصلے پر نظرثانی کا موقع نہیں دیا۔

    میاں نواز شریف صاحب، اسحاق ڈار صاحب اور دیگر حکومتی عہدیداران سے التماس ہے کہ برائے مہربانی نظر ثانی کر لیجیے۔ اگر مزید قرض کی اشد ضرورت ہے اور اتنا ہی زیادہ اس بات پر بھروسہ بھی ہے کہ یہ قرض عنقریب اتر جائے گا تو برائے مہربانی ملک کو داؤ پر مت لگایئے۔ اگر آپ اپنے اس جوئے پر اتنا ہی اعتماد کرتے ہیں تو ماشاءاللہ آپ خود، دیگر حکومتی عہدیداران، ماضی کے حکمران اور اشرافیہ اس قدر دولت مند ہے کہ صرف سوئس بینکوں میں آپ سب کی دولت کا تخمینہ تقریبا 370 ارب روپے ہے۔ مجھے یقین ہے، آپ سب ہاتھوں ہاتھ گروی رکھے جائیں گے۔ دنیا میں وہ بےوقوف لوگ ہی ہوں گے جو آپ کو سکوک بانڈز کی خاطر گروی نہ لیں۔ خدارا سلطنت خداداد کو اتنی بڑی آزمائش میں مت ڈالیے جس کا ہر چھوٹا بڑا آپ کے سکوک بانڈز کو شکوک بانڈز کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔