Tag: اسامہ بن لادن

  • اسامہ بن لادن کی موت کا 2001 سے 2011 تک 11 دفعہ اعلان کیا گیا – مولوی روکڑا

    اسامہ بن لادن کی موت کا 2001 سے 2011 تک 11 دفعہ اعلان کیا گیا – مولوی روکڑا

    دہشت گردی کو تقویت اس وقت ملی جب امریکہ نے نام نہاد ”وار آن ٹیرر“ نامی جنگ میں بےگناہ لوگوں کا قاتل عام کیا. 11 ستمبر، 2001ء کو نائن الیون کا واقعہ پیش آیا اور ٹھیک چھببیس دن بعد یعنی 7 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر چڑھائی کی گئی. اس دوران دنیا کو جو ثبوت دیا گیا وہ صرف یہ کہ فاکس نیوز، سی این این، بی بی سی پر کچھ ویڈیوز چلائی گئیں جن کی تصدیق بھی کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ سوات میں کوڑے مارے جانے والی ویڈیو کی تصدیق کرنا.
    یہاں تک کہ اسامہ کے خلاف آج بھی امریکہ میں باضابطہ طور پر کوئی قانونی ایف آئی آر درج نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی عدالتی ٹرائل ہوا. فرانسیسی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق جولائی 2001ء میں اسامہ بن لادن کو گردے کے علاج کے لیے دبئی میں امریکی ہسپتال لایا گیا تھا اور وہاں پر ان کی ملاقات سی آئی اے کے اتاشی سے ہوئی. اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 11 ستمبر کو پاکستان میں کہیں زیر علاج تھا. اسامہ اس جنگ میں”نو“ دفعہ مردہ قرار دیا گیا. اسامہ کو مردہ قرار دینے والے کوئی عام شخص نہیں تھے بلکہ،
    26 دسمبر، 2001ء کو فاکس نیوز کے مطابق طالبان نے،
    18 جنوری، 2002ء کو پرویزمشرف نے،
    17 جولائی، 2002ء کو ایف بی آئی میں انسداد دہشت گردی کے اس وقت کے سربراہ، ڈیل واٹسن نے،
    اکتوبر 2002ء میں، افغان صدر حامد کرزئی نے سی این این کو انٹرویو میں بتایا کہ اسامہ اس دنیا میں نہیں رہا.
    نومبر 2005ء میں، سینیٹر ہیری ریڈ کے مطابق اکتوبر میں پاکستان میں آنے والے زلزلے میں،
    ستمبر 2006ء میں، فرانسیسی انٹیلی جنس کی ایک لیک رپورٹ میں میں بتایا گیا کہ اسامہ مر چکا ہے،
    2 نومبر، 2007 ء کو، پاکستان کی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے الجزیرہ پر ڈیوڈ فراسٹ کو بتایا کہ عمر شیخ نے اسامہ بن لادن کوقتل کر دیا تھا !
    مارچ 2009ء میں سابق امریکی فارن انٹیلی جنس افسر اور بوسٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ینجیلو Codevilla نے کہا کہ تمام ثبوتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ایلوس Presley اسامہ بن لادن کے مقابلے میں آج زیادہ زندہ ہے.
    مئی 2009ء، پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ اب اسامہ زندہ ہے ،
    اور 2011ء میں اوبامہ اور اس کے با اختیار عہدے داروں نے اسامہ کی موت کی تصدیق کی!

    ایبٹ آباد آپریشن کتنا سچا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسامہ کو مارنے کی خاطر امریکا کو 1.5 کھرب ڈالر خرچ کرنے پڑے، اس کے ساتھ ساتھ تین ہزار امریکی فوجی ہلاک اور بیس ہزار کے قریب زخمی ہوئے. لیکن باوجود اس کے اسامہ کے مردہ جسم کو نہ میڈیا کو دکھایا گیا اور نہ امریکہ کی عوام کو جن کے ٹیکس سے افغانیوں اور پاکستان کے قبائلیوں کے چیتھڑے اڑائے گئے!

    دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلمان ممالک اور لیڈروں کا کردار کوئی خاص نہیں رہا، جہاں پاکستان اتحادی تھا وہاں مشرق وسطی میں عرب ممالک بھی امریکہ کے ساتھ کھڑے تھے. یوروپ اور امریکہ کے ساتھ دنیا بھر میں ہونےوالے جرائم اور دہشت گردی کو اسلام اور دہشت گردی کے کھاتے میں ڈال دیا گیا. انسداد دہشت گردی کے امریکی ماہرین کہتے ہیں کہ دہشت گردی میں اضافے کا سبب بےگناہ لوگوں کا قتل عام اور ان کے خاندان کا قتل ہے. سی آئی اے کے افسران کا ہی کہنا ہے کہ ڈرون حملے دہشت گردی میں اضافے کا سبب ہیں. اب سوال یہ ہے کہ یہ حملے کیونکر دہشت گردی میں اضافے کا سبب بنے، اس کا آسان جواب بےگناہ لوگوں کا قتل ہونا ہے. شکاگو کے پروفیسر Robert A. Pape جو بین الاقوامی سلامتی کے معاملات میں مہارت رکھتے ہیں،کے بقول وسیع تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ”خودکش دہشت گردی کی اصل وجوہات غیر ملکی فوجی تسلط ہےنہ کہ اسلام.“

    اگر مدرسے واقعی دہشت گرد پیدا کر رہے ہوتے تو مدرسوں کا سلسلہ نائن الیون کے بعد شروع نہیں ہوا تھا بلکہ دو سو سال پہلے سے برصغیر پاک و ہند میں مدارس موجود ہیں. مسلکی اختلاف تو اس سے پہلے سے موجود تھے لیکن ان اختلافات میں جارحانہ پن اس وقت آیا جب فرقہ واریت کی بنیاد پر عسکری تنظیمیں بنیں. ان تنظیموں کو ہر اس ملک نے سپورٹ کیا جس کا کہیں نہ کہیں کوئی پوائنٹ آف انٹرسٹ تھا. ان تنظیموں کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، میڈیا کا کردار انتہائی دوغلا اور لبرل اور سیکولر افراد کا جلتی پر تیل ڈالنے والا کردار کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا. وہ علمائے کرام جو حق زبان پر لائے، انھیں قتل کروا کر فرقہ واریت کو اور ہوا دی گئی.

    دہشت گردی کے اضافہ میں ایک اور اہم وجہ حکومتی سطح سے لے کر عوام تک یکطرفہ انصاف ہے، جس کا فائدہ دہشت گرد تنظیموں نے اٹھایا. ڈرون حملوں میں مارے جانے والے اور زخمی ہونے والوں کے لواحقین نے ایسی تنظیموں کے لیےایندھن کا کام کیا، اس سے دہشت گرد تنظیموں اور دوسرے ممالک کے پوائنٹ آف انٹرسٹ کو کامیابی ملی کیوں کہ ہم بحثیت قوم یکطرفہ انصاف اور یکطرفہ آنسو بہانے کے عادی ہو چکے ہیں.
    میرے ایک دوست نے کیا خوب کہا !
    Our sorrow, our sympathies and our EMPATHIES are directly proportionate to the quality of life a victim had
    ہمارے دکھ اور ہمدردی کی گہرائی کا انحصار اس بات پر ہے کہ نقصان اٹھانے والے کا میعار زندگی کتنا بلند تھا
    بلند معیار زندگی => زیادہ دیرپا غم ، زیادہ ہمدردی
    پست معیار زندگی => فی الوقت دکھ کا اظہار ، ہمدردی کی کمی یا فقدان
    (جاری ہے)

  • مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (3) – مولوی روکڑا

    مجاہد سے دہشت گرد تک کا سفر (3) – مولوی روکڑا

    نوے کی دہائی میں جہاں فرقہ واریت کی چنگاری پاکستان کو اپنے لپیٹ میں لے رہی تھی وہاںروس کو افغانستان میں شکست دینے کا صلہ ہمارے دیرینہ دوست امریکہ نے پاکستان پر اقتصادی پابندیوں کی صورت میں دیا. جب پاکستان نے 1998ء میں انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں جوہری دھماکے کیے تو امریکہ نے ایک دفعہ پھر اقتصادی پابندیوں کا بوجھ پاکستان پر ڈال دیا جس کی وجہ سے کچھ ہی دنوں میں روپے نے ڈالر کے مقابلے میں 30 فیصد قدر کھو دی. روز مرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں 25 فیصد اضافہ ہو گیا. کراچی اسٹاک ایکسچینج کی قدر 40 فیصد کم ہو گئی، چنانچہ اس وقت کے وزیراعظم جناب میاں نواز شریف مجبورا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قدموں میں جا بیٹھے. اس مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونے والا ملک صرف سعودی عرب ہی تھا، جس نے پاکستان کو مفت تیل دیا، اور مالی امداد کی.

    پرویزمشرف نے مارشل لا لگایا تو پابندیوں کے باوجود شروع میں معیشت میں بہتری آئی مگر پھر نائن الیون جیسا سانحہ رونما ہو گیا. نائن الیون کیوں ہوا، کس نے کیا؟ اس کی حقیقت تو شاید کبھی معلوم نہ ہو، لیکن امریکہ کی اسامہ دشمنی کا آغاز اس سے نہیں ہوا تھا بلکہ اصل مسلہ تب شروع ہوا جب 1990ء میں عراق نے کویت پر حملہ کیا تو سعودی عرب کو شک ہوا کہ عراق کا اگلا ہدف سعودی عرب ہوگا، اسی خدشہ کی بنا پر سعودی حکومت نے امریکی فوجیوں کو اپنی سرزمین میں تعینات کرنے کی اجازت دی، جس پر اسامہ بن لادن نے تنقید کی کیوں کہ اسامہ نہیں چاہتا تھا کہ کفار کی افواج کے پاؤں مقدس سرزمین پر پڑیں، اسی بنا پر امریکہ کو اسامہ بن لادن ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا. امریکی پروپیگنڈے کی وجہ سے اسامہ کو سعودی عرب سے دربدر کر دیا گیا اور اسامہ یمن چلا گیا! لیکن پروپیگنڈا جاری رکھا. امریکی حکومت کے لیے اسامہ افغان جہاد کے دوران عظیم مجاہد، عظیم کمانڈر اور افغانستان کا رکھوالا تھا، کیوں کہ وہ روس کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا اور اس کا فائدہ کہیں نہ کہیں امریکا کو ہو رہا تھا، اسی لیے اسامہ بن لادن اور اس کے جنگجوئوں کوامریکی اور سعودی حکومتیں مالی امداد فراہم کرتی تھی. بعض تجزیہ کاروں نے یہاں تک کہا کہ اسامہ بن لادن نے سوویت یونین کے خلاف جہاد کے لیے سی آئی اے سے سکیورٹی ٹریننگ لی تھی، اور اسامہ کو مقدس جنگ کا ہیرو قرار دیا گیا تھا.

    اسامہ اس وقت دہشت گرد بنا جب اس نے امریکی کی مڈل ایسٹ خاص کر سعودی عرب میں موجودگی پر تنقید کرنا شروع کی. اسامہ پہلا شخص نہیں تھا جسے اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، نیلسن منڈیلا جیسا عظیم رہمنا بھی مغرب کی نظر میں کبھی دہشت گرد تھا، اسامہ اور نیلسن منڈیلا کی دہشت گردی اور ہیرو کی داستان میں فرق اتنا ہے کہ نیلسن منڈیلا پہلے انگلینڈ کی نظر میں کالا دہشت گرد اور بعد میں ہیرو ہوا جبکہ اسامہ امریکہ کی نظر میں پہلے ہیرو تھا اور بعد میں دہشت گرد بنا.

    نائن الیون میں ایک بھی افغانی ملوث نہیں تھا مگر افغانستان پر چڑھائی کر دی گئی کیوں کہ افغانستان کی طالبان حکومت نے اسامہ کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار دیا، افغان حکومت نے امریکا سے اسامہ کے خلاف ثبوت مانگے لیکن ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا جس سے ثابت ہوتا کہ پھر نائن الیون کا ماسٹر مائنڈ تھا. انھوں نے اسامہ کو ایک تیسرے فریق کے حوالے کرنے کی بھی پیشکش کی مگر اسے مسترد کر دیا گیا. آج پاکستان اور دوسرے بہت سے ممالک کے دشمنوں نے مغرب میں پناہ لے رکھی ہے، تو کیا مغرب ان دشمنوں کو پاکستان یا بنا ثبوت کے کسی دوسرے ممالک کے حوالے کرے گا؟ مغرب اپنے دفاع کے لیے انٹرنیشنل لا اور ہیومن رائٹس جیسی اصطلاحات کے پیچھے چھپ جاتا ہے لیکن اگر یہی پریکٹس کمزور ممالک کریں تو ان پر چڑھائی کر دی جاتی ہے. یہ تو سب جانتے ہیں کہ امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی تو پرویزمشرف کو بش کے ایک پیغام نے ڈھیر کر دیا ”تم ہمارا ساتھ کھڑے ہو یا ہمارے دشمن“
    (جاری ہے)
    پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

    دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • بلیک سوان اور نائن الیون – رضوان اسد خان

    بلیک سوان اور نائن الیون – رضوان اسد خان

    رضوان اسد خان جب تک آسٹریلیا میں سیاہ رنگ کے راج ہنس (بلیک سوان) دریافت نہیں ہوئے تھے، دنیا کا خیال تھا کہ ”سوانز“ صرف سفید رنگ کے ہی ہوتے ہیں اور ان کا سیاہ رنگ کا ہونا ناممکن ہے. بعینہ جب تک 9/11 کا واقعہ نہیں ہوا تھا، دنیا کا خیال تھا کہ دنیا کی واحد سپر پاور میں اس قسم کی کارروائی ناممکن ہے. 9/11 بلا مبالغہ طور پر جدید تاریخ میں ”بلیک سوان“ کی سب سے بڑی مثال کہی جا سکتی ہے.

    ”بلیک سوان“ اب ایک اصطلاح ہے جس سے مراد کوئی بھی ایسا واقعہ ہے جو قطعی غیرمتوقع ہو پر اپنے اثرات کے اعتبار سے عظیم الشان اہمیت کا حامل بن جائے. کچھ لوگ نائن الیون کا مکمل کریڈٹ/الزام القاعدہ کو دیتے ہیں، کچھ کہتے ہیں امریکہ نے خود کروایا اور تیسری تھیوری یہ ہے کہ امریکہ کو اس کی خبر مل گئی تھی (بی بی سی؛ بذریعہ سابق طالبان وزیر خارجہ وکیل احمد متوکل)، پر اس نے افغانستان اور مسلم دنیا پر چڑھائی کا بہانہ ملنے اور اس پر عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کے لیے اسے ہونے دیا. (البتہ پینٹاگان اور وہائٹ ہاؤس کو بچا لیا؟) اپنی نوعیت اور پراسراریت کے لحاظ سے بھی یہ واقعہ ایک بلیک سوان ہی ہے.

    طالبان حکومت نے اس حملے کی مذمت کی. پھر بعد میں انہوں نے امریکی جارحیت پر اس کو پیشکش کی کہ ہم اسامہ بن لادن پر او آئی سی کی نگرانی میں مقدمہ چلانے کو تیار ہیں اور الزامات ثابت ہونے پر اسے کسی تیسرے ملک کے حوالے کر دیں گے یا خود سزا دیں گے.

    کیا یہ ”بلف“ تھا؟
    بش نے رعونت سے یہ پیشکش ٹھکرا دی.
    کیا صرف تکبر میں یا تحقیقات پر کچھ اور بھی سامنے آنے کا ڈر تھا؟
    بہرحال یہ ایسا بلیک سوان ہے جس کی اصل حقیقت شاید کبھی عیاں نہ ہو سکے.

    لیکن بلیک سوان کی تعریف کے دوسرے حصے پر یہ جس طرح پورا اترتا ہے، اس سے گمان ہوتا ہے کہ شاید یہ اصطلاح بنائی ہی اس کے لیے گئی تھی؛ یعنی اپنی تاثیر اور نتائج کے اعتبار سے اس کا فقید الامثال ہونا. اس کی اثر پذیری کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ تاریخ اب دنیا کو دو ادوار میں پیش کرتی ہے:
    نائن الیون سے قبل اور
    نائن الیون کے بعد

    نہ صرف عالمی تاریخ، بلکہ زندگی کے ہر شعبے کو اس واقعے نے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر دو حصوں میں بانٹ کر رکھ دیا ہے. عالمی تعلقات، سیاست، مذہب، معاشرت، معیشت، تہذیب، ثقافت، فلسفہ، حتی کہ فقہ الواقع، اجتہاد اور جہاد پر بھی اس نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں.
    اور بات بس یہیں تک نہیں، اس ایک بلیک سوان نے مذید کئی بلیک سوانز کو جنم دیا ہے. مثلاً
    .. اس واقعے کے بعد امریکہ میں اسلام زیادہ تیزی سے پھیلا،
    .. دنیا کی معیشت کو انتہائی غیر معمولی دھچا لگا جس کے اثرات اب تک جاری ہیں،
    .. ”وار آن ٹیرر“ نامی بلیک سوان کے ذریعے اسلام کی بنیادی تعلیمات، مثل خلافت و جہاد، کو بھی ”دہشت گردی“، ”بنیاد پرستی“، ”انتہا پسندی“، ”ریڈیکل اسلام“ اور نجانے کیا کیا قرار دے کر ان سے جان چھڑانے کی باقاعدہ مہم میڈیا اور کٹھ پتلی حکمرانوں کے ذریعے چلا کر ”ماڈریٹ اسلام“ کا دین الٰہی ٹائپ تصور پیش کیا گیا اور غامدی فکر کو پذیرائی دلائی گئی،
    .. ادھر اس سب کے رد عمل میں ”داعش“ جیسا بلیک سوان سامنے آیا جس نے بالواسطہ طور پر نادان دوست کی طرح خود اسلام، جہاد اور خلافت کے اداروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا.

    الغرض اس دیوہیکل بلیک سوان کے اثرات سے نکلنے کے لیے ہمیں ایک اور عظیم بلیک سوان کی ضرورت ہے، جس کی تلاش میں امت کی نظریں اس وقت شام پر لگی ہیں.