Tag: ادیب

  • کٹر پنجابی، کٹر پاکستانی اور کٹر اردو ادیب

    کٹر پنجابی، کٹر پاکستانی اور کٹر اردو ادیب

    %d8%aa%d8%a7%d8%b1%da%91%d8%a7 مستنصرحسین تارڑ عہدِ حاضر میں جہاں اردو زبان و ادب کا قابلِ فخر سرمایہ ہیں، وہیں اپنی شخصیت اور عادات وگفتار کے لحاظ سے قابلِ تقلید ”تعصب“ اور اُس کے توازن کی عمدہ مثال ہیں۔
    لکھاری جس مٹی میں پلا بڑھا ہواس کی خوشبو سے کبھی فرار حاصل نہیں کر سکتا۔ اور مٹی سے وابستہ اس کے پڑھنے والے بھی اُسے اِسی طور محسوس کرتے ہیں۔ کسی لکھاری کو پسند کرنے والوں کو درحقیقت اس کے لفظ میں اپنے دل اپنی سوچ سے قربت کی مہک آتی ہے۔ وہ لکھاری جو ہمارے دل کے تار چھو جاتا ہے اس ساز کی ایک جھلک دیکھنے کی خواہش سے انکار نہیں کیا جا سکتا خاص طور پر اگر وہ ہمارے عہد اور ہماری دنیا میں ہمارے قریب بھی کہیں موجود ہو۔ قاری اور لکھاری کا گم نام سا رشتہ ساز و آواز کی مانند ہے، بےشک آواز ساز کے بنا مکمل تو ہے لیکن ساز آواز کو چہار سو پہنچا ضرور دیتا ہے، ورنہ دل کی بات دل ہی میں رہ جاتی ہے۔ ہم انسان ہر رشتے ہر احساس میں بنیادی طور پر بُت پرست واقع ہوئے ہیں جہاں ذرا سی روشنی دکھائی دی، سجدہ کر لیا۔ شخصیت کا بُت پہلی نظر یا پہلی ملاقات میں ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ لکھنے والا اپنے افعال و کردار میں ہمارے جیسا عام انسان ہی ہے۔ کبھی بت یوں ٹوٹتا ہے جب ہم قول و فعل کا تضاد دیکھتے ہیں یا لفظ اور کردار میں کہیں سے بھی مماثلت دکھائی نہ دے۔ اکثر کاغذی رشتے، صوتی ہم آہنگی جب رسائی کی حدت میں جذب ہوتے ہیں تو خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بےجان لگتے ہیں تو کبھی پُرشور ڈھول کی طرح اندر سے خالی۔ اس لمحے ہماری محبت ہمارا عشق چپکے سے دل کے مدفن میں اُتر جاتا ہے۔ یاد رہے”بت ٹوٹنے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔“ یہ بہت اچھی بات ہے کہ اس طرح انسان حقیقت اور تصور کے مابین گومگو کی کیفیت سے نکل جاتا ہے۔ اس میں اس لکھاری کا ذرا سا بھی قصور نہیں کہ
    ”بُت ہم خود بناتے ہیں اور اپنی خواہشوں کے مندر میں اونچا مقام دیتے ہیں۔“

    اپنے محبوب لکھاری مستنصرحسین تارڑ سے ملاقات کرنے والے ان کے لفظ کے عشق میں سرشار کیا کہتے ہیں، ذرا سنیے۔

    24 اکتوبر 2016ء …… ایک ملاقات ……. از سید عرفان احمد

    گھنٹہ پہلے مستنصر صاحب سے اُن کے لکھائی والے کمرے میں ملاقات ہوئی۔
    آج سارا دن نزلے اور بخار کی وجہ سے بستر پر لیٹ لیٹ کر اُکتاہٹ اور بوریت سی ہونے لگی۔ شام کو خیال آیا کہ مستنصر صاحب سے اُن کے نئے گھر میں ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی، اُن سے ملا جائے۔ غیر مناسب وقت کی پروا نہ کرتے ہوئے رات آٹھ بجے اُن کے گھر کے دروازے پر پہنچ گیا۔ فون کیا اور اپنا نام بتایا۔ نام پہچانتے ہوئے انہوں نے کہا ’’کِدّر پھرنا پیا ایں؟‘‘۔ میں نے کہا ایسے ہی آپ سے ملنے کا خیال آ گیا تھا۔

    مستنصر حسین تارڑ ’’کِتھے ویں ایس ویلے؟ انہوں نے پوچھا۔
    ’’تُہاڈے گیٹ تے‘‘ میں نے جواب دیا۔
    ’’اچھا میں گیٹ کھلوانا واں‘‘
    ملازمہ نے کہیں سے چابی ڈھونڈ کر دروازہ کھولا اور مجھے مستنصر صاحب کے لکھائی والے کمرے میں بٹھا دیا۔ اُن کی غیرحاضری کوغنیمت جان کر اردگرد کی چند تصویریں کھینچیں۔ چند منٹوں بعد مستنصر صاحب آ گئے اور پہلے والا سوال دہرایا۔ میں نے کہا کہ صبح سے نزلے اور بخار سےگھر پر تھا اور اب آپ سے ملنے آ گیا ہوں۔ میری بےساختہ ہنسی نکل گئی جب انہوں نے کہا ’’میرے کولوں پراں ای رو‘‘۔ اُن کے لہجے میں پیار و محبت اور مذاق اکٹھے ہی تھے۔
    تھوڑا پیلوں آ جانا سی، تینوں تھوڑا وقت تے دیندا۔ ھُن میرا لکھن دا ویلا ہُندا پیا اے‘‘۔”
    مستنصر صاحب اپنی آنے والی کتابوں کا بتانے لگے اور اُن کی جو تحریریں انگریزی زبان میں چند لوگ ترجمہ کر رہے ہیں۔ اُن کے دوستوں نے انہیں اپنی ٹی وی کی زندگی اور اُس سے جڑے واقعات کو کتابی شکل دینے کا کہا تھا۔ اس کا ذکر جب انہوں نے اپنی اہلیہ سے کیا تو انہوں نے اسے ویٹو کر دیا۔ میں نے کہا کہ ٹی وی سے متعلقہ جو واقعات ہم آپ سے سنتے رہتے ہیں وہ واقعی اس قابل ہیں کہ انہیں ضبطِ تحریر میں لایا جائے۔ ایک تاریخ ہے جو محفوظ ہو جائے گی۔ اس پر انہوں نے کہا ’’لکھاری پر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب اُس کا مقابلہ اپنے آپ سے ہو جاتا ہے اور اپنے آپ سے لڑنا آسان نہیں۔ اب مجھے کچھ لکھنا ہے تو پہلے سے بڑھ کر لکھنا ہے،یہ میرا خود سے مقابلہ ہے‘‘۔
    کیہڑی کتاب لینی اُوں‘‘ میں اُٹھنے لگا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا۔”
    ’’تہاڈیاں کافی کتاباں ہین نے میرے کول، رہن دیو‘‘۔ میں نے رسماً کہا۔ دل تو کر رہا تھا کہ کہہ دوں کہ ساریاں دے دوو۔
    ’’فیر وی، دس کوئی‘‘ انہوں نے پھر پوچھا
    ’’بہاؤ دے دیو‘‘
    مستنصرصاحب نے اُٹھ کر کتابوں کے ریک سے بہاؤ نکالی اور اپنے شفیق جملے اور دستخطوں کے ساتھ مجھے عنایت کی۔ میرے اصرار کے باوجود کہ رہنے دیں، مستنصر صاحب باہر نکل کر دروازے تک مجھے چھوڑنے آئے۔
    پتھر کے پہاڑ اور اور انسان کے پہاڑ بننے میں فرق یہ ہے کہ پتھر کے پہاڑ کا سر جھک نہیں سکتا۔ انسان جب پہاڑ بنتا ہے تو کسی بڑے ظرف والے انسانی پہاڑ کا سر انکساری اور اعلیٰ ظرفی سے جھک جاتا ہے اور یہ ادا اُسے اور بلند کر دیتی ہے۔
    مستنصر صاحب کے یار دوست اگر کبھی غلطی سے اُن سے اردو میں گفتگو کرنے لگیں تو مستنصر صاحب اکثر یہ جملہ بولتے ہیں:
    تیری طبیعت ٹھیک اے، اردو پیا بولنا ایں؟
    ……………………………………
    عمارہ خان کہتی ہیں،
    میں ان کو اپنی فیملی میں پنجابی ہی بولتے دیکھا ہے۔میں نے اپنی زندگی میں سر جیسے انکساری برتنے والے انسان نہیں دیکھے.. ان سے مل کے نہیں لگتا کہ یہ ایک لیجنڈ ہیں.. اور یہ ہی چیز سر کو سب میں بہت نمایاں کرتی ہے..
    دوسری بات سر کا اپنی زبان پہ قائم رہنا واہ شاندار.. آج کے زمانے میں جب لوگ اپنے گھر پنجابی نہیں بولتے سر ڈنکے کی چوٹ پہ ہر محفل, ڈنر, تقریب میں بولتے ہیں .. انسان کو اپنے اصل کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔
    ……………………………………
    ابوبکر سیال کہتے ہیں،
    مجھے بھی ٹوکا تھا کہ کونسے علاقے سے ہو تو میں نے سرائیکی بیلٹ کا بتایا اور اردو میں بات کی۔ تو انہوں نے کہا کہ اتنی گاڑھی اردو مت بولو اور پنجابی میں بات کرو۔ میری بھی جھجھک ختم ہوئی اور پنجابی تو میٹھی زبان ہے ہی۔
    ……………………………………
    حرفِ آخر از نورین تبسم
    اپنی زمین ہر انسان کی پہچان ہے تو زمین سے نسبت اس کو سربلندی عطا کرتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا۔۔۔
    زمین اچھی طرح ان کی جڑیں جب تھام لیتی ہے
    درختوں کی بھی پھر طوفاں میں گردن خم نہیں ہوتی

    تاثرات بشکریہ ….. مستنصرحسین تارڑ ریڈرز ورلڈ

  • گلستانِ ادب اطفال کا مہکتا پھول – حسیب اعجاز عاشر

    گلستانِ ادب اطفال کا مہکتا پھول – حسیب اعجاز عاشر

    %d8%ad%d8%b3%db%8c%d8%a8-%d8%a7%d8%b9%d8%ac%d8%a7%d8%b2 بچوں کی پسند ناپسند، ذوق، مزاج، مخصوص سوچ، تدریجی ارتقاء، تقاضوں، نفسیات، جذبات، عادات و اطوار، احساسات، میلانات، ضروریات، فہم و ادراک، فطری رحجانات، صلاحیتوں اور عمر کو مدِنظر رکھتے ہوئے نثری و نظمی تخلیق کیے گئے ادب کو بچوں کا ادب (ادبِ اطفال) کہا جاتا ہے۔ اُردو ہو یا انگلش یا پھر کوئی بھی زبان ہو، ادب کی اِس صنف کو مشکل ترین تصور کیا جاتا ہے اور اکثر قدآور ادیب و شاعر بھی اس صنف میں طبع آزمائی کرنے سے ہچکچاتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں موجود چار کروڑ بچوں کی آبادی کے تناسب سے ادب کے صنف پر صرف 25 فیصد کام ہوتا رہا جو کہ ایک قابلِ فکر اور قابلِ تشویش بات بھی ہے۔ ادبِ اطفال کی اہمیت سے وہی اہل قلم آشنا ہیں جن کے اندر آنے والیں نسلوں کے روشن مستقبل کی تڑپ ہے. علامہ اقبال، کمال احمد رضوی، صوفی تبسم کے علاوہ مجیب ظفر انوار حمیدی، شفیع الدین نیئر، صالحہ عابد حسین، ڈاکٹر ذاکر حسین، محسن احسان، اشتیاق احمد، منشی پریم چند، مائل خیر آبادی، کرشن چندر، عبدالرشید فاروقی، محبوب الہی، خواجہ مظہر صدیقی، محمد مزمل صدیقی، مسعود احمد برکاتی، سید نظر زیدی، اختر عباس، غلام عباس، احمد ندیم قاسمی، خاطر غزنوی، خالد بزمی، اسماعیل میرٹھی، عزیز اثری، شعیب مرزا، جاوید امتیازی، نذیر انبالوی سمیت دیگر کا شمار بھی ایسی ہی تڑپ کے ساتھ ادبِ اطفال کے حوالے سے گراں قدر خدمات پیش کرنے والی عظیم شخصیات میں ہوتا ہے۔

    عصرِ حاضر میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر کسی نہ کسی صورت میں ادبِ اطفال کے فروغ کی رفتارِ مشن میں نت نئے تجربوں سے قدرے تیزی آئی ہے اور نئے لکھاری کی بھی آمد آمد ہے۔ کئی نام اس فہرست میں شامل ہیں جو ادب اطفال کی اہمیت، ضرورت اور افادیت بارے باخوبی واقف ہیں اور بچوں میں مہد سے لحد تک تعلیمی رحجانات کو فروغ دینے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ حافظ محمد مظفر محسن اس حوالے سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ بڑی ہی پہلو دار شخصیت ہیں۔ صرف نام کے ہی نہیں بلکہ حقیقتاً محسنِ ادب ہیں۔ بچوں کے ادب کے حوالے سے اِن کی بے لوث اور بھرپور خدمات کے اعتراف میں انہیں ہر سطح پر پذیرائی حاصل ہے جبکہ شاعری ہو، طنز و مزاح نگاری ہو، کہانی نگاری ہو یا کالم نگاری ہی کیوں نہ ہو، ہر صنف میں اپنے نام کا لوہا خوب منوایا ہے۔ آپ اپنی دل آویز شخصیت کی بدولت دنیائے ادب میں خاص مقام رکھتے ہیں. حافظ صاحب کی محفل ہو اور قہقہے نہ ہوں، یہ ممکن نہیں ہے. دوست احباب ان کے ساتھ وقت گزارنے کو بےتاب رہتے ہیں۔ ان کا اخلاق، اخلاص، خوش مزاجی، خوشی کلامی ان سے ایک بار ملاقات کر لینے والے کو انھی کا بنا دیتی ہیں۔

    %d9%85%d8%ad%d9%85%d8%af-%d9%85%d8%b8%d9%81%d8%b1-%d9%85%d8%ad%d8%b3%d9%86 حافظ محمد مظفر محسن نے سیاسیات اور تاریخ میں ماسٹر کیا. اپنے قلمی سفر کا آغاز 1976ء میں ادبِ اطفال سے کیااور ماہنامہ ’’کھلونا‘‘ میں پہلی تحریر شائع ہوئی. ان کی بچوں کے لیے نظموں پر مشتمل کتاب ’’جاگو ہوا سویرا‘‘ کو 1985ء رائیٹرز گلڈ ادبی انعام سے نوازا جا چکا ہے، دوسری کاوش بچوں کے لیے کہانیوں کی کتاب ’’روشن آنکھیں‘‘ کو بھی نیشنل بک فائونڈیشن نے ایوارڈ سے نوازا ہے، تیسری قلمی کاوش بچوں کے لیے لکھی گئیں مزاحیہ تحریروں کا مجموعہ ’’سکندر خان کی واپسی‘‘ بھی مقبول عام ہے۔ بچوں کے لیے مجموعہ نظم’’نظمیں‘‘ اور ’’جگمگ میرا دیس‘‘ہیں۔ ’’نظمیں‘‘ نئی صدی ہجری ایوارڈ حاصل کر چکی ہے۔ دیگر طنزیہ، مزاحیہ اور سنجیدہ تحریروں کے مجموعوں میں ’’بوٹا مائی فرینڈ‘‘، ’’ستارے اپنی اپنی قسمت کے‘‘، ’’ہیلمٹ، لفافہ اور سیاسی آلودگی‘‘، ’’سفر و حج وعمرہ و مع فتاوی‘‘، ’’آلویز ویلکم‘‘، ’’بوٹا نہیں بے وقوف‘‘، ’’آدھ کھلا گلاب‘‘، ’’نیا دور جدید ہتھیار‘‘، ’’پل بھاگڑ کا آدم خور‘‘، ’’محبت کے بھیگتے پل (ترتیب)‘‘ شامل ہیں. 11 کتابوں کے تراجم بھی کر چکے ہیں۔ مجموعہ شاعری ’’جب بھی دیکھا، اُداس ہی دیکھا‘‘۔ حافظ صاحب کی تحریریں نوائے وقت سنڈے میگزین، فیملی میگزین، پھول میگزین، نئی بات، ارژنگ، بیاض، معاصر اور ادبیات کے علاوہ کئی اخبارات اور جریدوں میں تواتر سے شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ 2004ء اور 2006ء میں انھیں ماہنامہ پھول کی جانب سے بہترین ادیب ایوارڈ سے نوازا گیا، 2009ء اور 2010ء میں ماہنامہ’’گو گو‘‘ کراچی نے بھی انہیں بہترین ادیب کے ایوارڈ سے نوازا۔

    قلمی سفر کے حوالے سے عہد کی نامور ادبی شخصیات اپنے خوبصورت تاثرات میں انہیں بھرپور خراجِ تحسین پیش کرتی رہتی ہیں۔ مجموعہ نظم کے حوالے امجد اسلام امجد اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی، روزمرہ کی اور سامنے کی باتیں، سیدھے سادے الفاظ اور مفہوم بالکل واضح ہیں، اس لیے یہ نظمیں ہر اعتبار سے حوصلہ افزائی اور تعریف کی مستحق ہیں۔ سید ضمیر جعفری کا کہنا ہے کہ حافظ مظفر محسن کی نظمیں جذبے کے لحاظ سے توجہ اور قدر کے لائق ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ان کی روشنی ترتیبِ کردار کے لیے مفید ثابت ہو گی۔ عطاء الحق قاسمی کا بھی کہنا ہے کہ ’’مجھے یہ شخص پسند ہے کیونکہ وہ ایک سچا اور مخلص انسان ہی نہیں بلکہ ایک شگفتہ اور جینوئن مزاح نگار بھی ہے‘‘۔مزاح لکھنا جان جوکھوں کا کام ہے، لکھنے بیٹھو تو دانت تلے پسینہ آ جاتا ہے اور اگر کسی جملے کا وار صحیح نہ پڑے تو پڑھنے والا دانت کچکچانے لگتا ہے چنانچہ طنز و مزاح لکھنے والے نہ ہوں تو جریدے کہاں سے نکلیں؟۔ ان کی فنی و فکری ہنرمندیوں اور شخصیت کے روشن پہلوئوں کے حوالے سے اُردو زبان میں اپنی نوعیت کا واحد طنزیہ و مزاحیہ میگزین ’’مزاح، کراچی‘‘ بھی 112 صفحات پر مشتمل ’’نمبری ادیب، حافظ مظفر محسن‘‘ شائع ہوچکا ہے،جس میں عصر حاضر کے نامور ادیب، صحافی، شاعروں کے دلچسپ مضامین شامل ہیں۔ اِسی کتاب میں شائع ہونے والے انٹرویو میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں۔ احمد فراز کی شاعری پسند ہے، مگر مرزا غالب اور علامہ اقبال کو اپنا استاد مانتے ہیں. رات کی اُداسی میں شاعری لکھتے ہیں۔ میدانِ ادب میں شوکت نواز پیرزادہ، محمد صفدر راجہ، امتیاز جاوید، چوہدری محمد اقبال کو اپنا استاد تسلیم کرتے ہیں جبکہ مجید نظامی اور فرحت عباس شاہ ان کی پسندیدہ شخصیات میں شامل ہیں۔ بحیثیت کالم نگار دوستوں کے لیے پیغام میں انہوں نے کہا ہے کہ اپنے دل صاف رکھیں، دوستوں کو امتحان میں کبھی مت ڈالیں، دن کو دن کہیں اور رات کو رات، یہ یاد رکھیں کہ ہم جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں اِس دور کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ حکومت، اپوزیشن اور سیاسی رہنمائوں سب کے نظریات ایک ہیں، کیوں کہ یہی آج کی ضرورت ہے اور یہی حالات کا تقاضا ہے۔اسی لیے تو کہتے ہیں:
    تھک گیا ہوں لگا لگا کے میں
    ایک کے بعد دوسری امید

    حافظ مظفر محسن کا ’’امن اور ترقی کے حوالے سے ادب اطفال کے کردار‘‘ بارے کہنا ہے کہ پاکستان اور اردگرد کے حالات اس بات کے غماز ہیں کہ نئی نسل کی تربیت قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق کرنی ہے. صبروتحمل، ایثار و قربانی کا جذبہ ان حالات میں پہلے سے کہیں زیادہ ہمارے اندر موجود ہونا چاہیے کیونکہ شدت پسندی بہرحال کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہوتی۔ ان حالات میں جبکہ کتب بینی کا رحجان کم ہوتا دکھائی دیتا ہے، ہمیں اچھے تخلیق کاروں کی بےحد ضرورت ہے. جو چند ادیب شاعر بچوں کے لیے ادب تخلیق کر رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی اور انہیں یہ باور کرانا بڑا ضروری ہے کہ وہ ایک بہت بڑی قومی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ بحثیت وائس چیئرمین اکادمی ادبیات اطفال حافظ صاحب اکادمی ادیبات اطفال کی بچوں کے لیے ادبی تخلیق کرنے والوں کی تربیت اور ان کی حوصلہ افزائی و پذیرائی کے حوالے سے کیے گئے مثبت اقدامات پر بہت اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فروغِ ادب اطفال کا سلسلہ جاری رہے گا. ان شاء اللہ تعالی۔

  • اشفاق احمد اور ادبی دہشت گردی – کبیر علی

    اشفاق احمد اور ادبی دہشت گردی – کبیر علی

    %d8%a7%d8%b4%d9%81%d8%a7%d9%82-%d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%a8%d8%a7%d8%a8%d8%a7 اشفاق احمد صاحب کی برسی گزری۔ ان کے کام کے بار ے تو سبھی لوگ آگاہ ہیں کہ ریڈیو، ٹی وی، ڈرامہ نگاری، صداکاری، زاویہ پروگرام، افسانہ نگاری، تدریس، لغت سازی، روحانیت وغیرہ کی جہتوں پہ پھیلا ہوا ہے۔ تاہم اس تحریر کا مقصد، اشفاق صاحب اور ان کے قریبی دوستوں کے بارے پڑھنے والوں کی دو متضاد آرا کا جائزہ لینا ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو اشفاق صاحب کو صوفی اور ”بابا“ سمجھتے ہیں، واصف علی واصف کو پہنچا ہوا پیر اور قدرت اللہ شہاب کو ولی اللہ جبکہ دوسری طرف کچھ لوگ ہیں جن کے خیال میں اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب وغیرہ لوگوں کا ایک گروہ تھا جو ایک دوسرے کی مدح سرائی میں مصروف رہتے۔ من ترا حاجی بگویم، تو مرا حاجی بگو۔

    ان حضرات کو صوفی اور بابا سمجھنے والے کسی خاص فکری گروہ سے تعلق نہیں رکھتے۔ یعنی نہ وہ لازمی طور پہ رائٹ سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ ہی لیفٹ سے۔ یہ لوگ فقط ان سبھی لکھنے والوں کے قاری ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے دوست ہیں جو مندرجہ بالا ادیبوں کا نام انتہائی ادب سے لیتے ہیں، بلکہ شنید ہے کہ واصف علی واصف صاحب کی قبر پہ تو عرس بھی ہونے لگا ہے۔ یہ تمام وہ قارئین ہیں جنہوں نے بانو قدسیہ اور اشفاق صاحب کے تحریر کردہ ٹی وی ڈرامے دیکھے اور ان میں موجود کرداروں سے خود کو جڑا ہوا محسوس کیا۔ معروف گلوکار ہنس راج ہنس پاکستان میں ایک تقریب میں گانے کے لیے آئے تو کہنے لگے کہ وہ شدید بےچینی کا شکار تھے کہ انہوں نے اشفاق صاحب کا لکھا ہوا مشہور ڈرامہ ”من چلے کا سودا“ دیکھا اور پھر وہ سکون اور چین سے بیٹھ کے گانے لگ گئے۔ ناقدین شاید اس ڈرامے کے مواد پہ اعتراض کریں مگر اس پوری ٹیم نے جس قدر جاندار اداکاری کی ہے، اشفاق صاحب کے لکھے ہوئے مشکل مکالموں کو فطری طریقوں سے ادا کیا ہے، یعنی یوں نہیں محسوس ہوا کہ ”جملے پڑھے جار ہے ہیں“ بلکہ یہی محسوس ہوا کہ کردار آپس میں مکالمہ کر رہے ہیں، قابل تحسین ہے۔ اور پھر اشفاق صاحب نے جس طریقے سے ”روحانیت“ کے موضوع کو اپنے مخصوص انداز میں لکھا ہے، وہ شاید آج کے دور میں ممکن نہ ہو۔

    دوسری طرف کچھ دوست ایسے ہیں جو مندرجہ بالا لکھنے والوں کو ”مفاد پرست“سمجھتے ہیں۔ ان دوستوں کا خیال ہے کہ ان لکھنے والوں نے آمریت کو تحفظ دیا، اپنے تحریروں میں جانے بغیر مان لینے، چپ کر کے رہنے، حکمرانوں کے بجائے اپنے اعمال پر توجہ دینے اور اپنے من کو صاف کرنے کی بات کی ہے اور اس کے نتیجے میں اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کچھ مراعات لیں، پی ٹی وی اور پاکستان ریڈیو پر انہیں خوب ”نوازا“ گیا۔ اپنی تحریروں میں بابوں کا ذکر کر کے لوگوں کو اس وہم میں ڈالا کہ لکھنے والا خود بھی کوئی بابا ہے اور پھر ایک دوسرے کے ”مقام ولایت“ کی تصدیق بھی کرتے رہے۔ مفتی صاحب کے نزدیک شہاب صاحب پہنچے ہوئے بزرگ ہیں، بانو قدسیہ اشفاق احمد کو کسی دیوتا سے کم نہیں سمجھتیں اور اشفاق صاحب تو ہیں ہی اپنی انا کے اسیر۔ راجہ گدھ میں عجب غیر سائنسی انداز میں حلال حرام کے عقدے سلجھائے گئے ہیں۔ انہی معترض دوستوں میں سے کئی ایسے ہیں جو آگے بڑھ کر یہ بھی کہتے ہیں کہ اصل میں یہ تمام لکھنے والے ادب کے نام پہ کچرا لکھتے رہے، ان کا لکھا ہوا نہ صرف جھوٹ ہے اور آمریت کو تقویت پہنچاتا ہے بلکہ سرے سے اسے ادب ہی شمار نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح نسیم حجازی نے اسلامی تاریخ کا منجن بیچا، اسی طرح ان لوگوں نے بھی جعلی تصوف کا چورن خوب بیچا۔

    صاحب! آپ ہی بتائیے کہ یہ فکری و ادبی دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے؟ یعنی آپ صرف اس لیے ایک لکھنے والے کو مکمل طور پہ لایعنی قرار دے رہے ہیں کہ اس نے ”آپ کے ادبی معیار“ کے مطابق ادب تخلیق نہیں کیا، پس اس کی لکھت کو سرے سے ادب ہی نہ مانا جائے۔ ویسے تو ہر زبان ہی کسی نہ کسی درجے میں لشکری ہوتی ہے تاہم اردو زبان کے ساتھ تو خاص طور پر یہ معاملہ ہے کہ دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر آسانی سے سمولیتی ہے۔ اگر کوئی شاعر/متشاعر اپنی نظم کے اندر دو چار انگریزی کے الفاظ جڑ دے تو آپ واہ واہ کرنے لگتے ہیں اور اشفاق صاحب نے بیسیوں پنجابی الفاظ کو اردو تحریروں میں سمو کر نہ صرف اردو کے دامن کو وسیع کیا ہے بلکہ یوں محسوس ہونے لگتا ہےگویا دبستان دہلی و لکھنؤ کے بعد کوئی ”دبستان ِ پنجاب“ بھی قائم ہوگیا ہے۔ پنجاب کی مٹی سے جڑے الفاظ اور اظہار کے انداز کو اردو میں اس طرح بھر دینا کہ پنجاب کی مٹی کی خوشبو محسوس ہونے لگے، ایک کارنامہ نہیں تو اور کیا ہے؟

    کیا لازمی طور پہ ایک ادیب کو جدوجہد اور انقلاب کا پروپیگنڈہ ہی کرنا چاہیے؟ ہمارے ان انقلابی دوستوں نے اس نام نہاد انقلاب کی جدوجہد کر کے کون سا تیر مارا ہے؟ کیا ان کی انقلابی تحریروں سے غربت اور بےبسی کی چکی میں پستے ہوئے لوگوں کی زندگی میں کچھ بہتر ی آ گئی ہے؟ جبکہ دوسری طرف اگر دیکھیں تو ستر، اسی اور نوے کی دہائی کے لوگ آج کے نوجوانوں کی طرح اکہری شخصیت کے حامل نہ تھے، اس کی ایک وجہ یہ ”ٹولہ“ بھی تھا۔ آج جبکہ ہمارے میڈیا گروپس کے پاس کروڑوں کے بجٹ ہیں، کیا ہم سوچ بھی سکتے ہیں کہ زندگی سے اتنے قریب اور اتنے بھرپور ڈرامے بنائے جا سکیں جتنے پی ٹی وی کے اس دور میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ نے پاکستان کو دیے؟ مستنصر حسین تارڑ اردو کے ایک بڑے ناول نگار اور سفرنامہ لکھنے والے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد وہ شدید مغموم تھے۔ دل اداس، آنکھیں نم اور طبیعت بےچین، کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا ہوگیا اور آئندہ کیا ہوگا۔ ایسے میں اشفاق احمد نے اپنا ریڈیو ڈرامہ تلقین شاہ نشر کیا تو اسی سانحے کو موضوع بنایا، ان کا ہر ہر لفظ گویا ایک پھاہا تھا جو تارڑ صاحب اور دیگر سننے والوں کے زخموں پہ لگتا گیا، امید کی ایک جوت جوگی، زخمی دلوں کو کچھ قرار آیا اور دوبارہ سے جی اٹھنے کی امنگ جاگی۔ دوسری طرف ہمارے یہ معترض دوست ہیں جو آج بھی اس طرح کے مواقع پہ زخموں پہ نمک چھڑکنے سے باز نہیں آتے۔ یقین نہ آئے تو پاکستان کے مختلف قومی ایام پر ان دوستوں کی تحریروں اور سوشل میڈیا پوسٹس پر ایک نگاہ دوڑا کے دیکھ لیجیے۔

    جناب! ہم یہ نہیں کہتے کہ ان سبھی لکھنے والوں کو صوفی، بابا یا کوئی پیر مان لیا جائے اور ان کی تحریروں کو ”ملفوظات“ سمجھ لیا جائے مگر انصاف کی بات ضرور کہیں گے۔ پاکستانی معاشرے پر ان لکھنے والوں کے”بورژائی“ اثرات تو ہمارے یہ سیکولر دوست بھی تسلیم کرتے ہیں. اب یہ بھی تسلیم کر لیں کہ یہ بھی”ادب“ ہے چاہے یہ ہمارے ان دوستوں کے ”طے کردہ“ دائرہ ادب یا ان کی ”فہم رسا“ میں نہیں آتا۔ تاہم اگر افسانے کے نام پہ ایک بےسروپا تحریر میں مزدور کا ذکر کر دینا ہی تحریر کو ”سند ادب“ فراہم کرتا ہے تو واقعی ان لکھنے والوں نے ادب کی کوئی خدمت نہیں کی۔

  • سماج کے مجموعی تہذیبی علم سے مکالمہ کیجیے – قاسم یعقوب

    سماج کے مجموعی تہذیبی علم سے مکالمہ کیجیے – قاسم یعقوب

    میں ایک ادبی رسالے کی ادارت سے منسلک ہوں۔ میں جہاں معیاری ادب کی تلاش میں رہتا ہوں وہیں مجھے ادب کے اُن قارئین کی تلاش بھی رہتی ہے جو ادب کے معیاری پن کی کھوج میں رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ادب کے نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی بھی میرے بنیادی وظیفے میں شامل ہو جاتا ہے۔ میں نے اپنے تئیں نئے لکھنے والوں کی ایک کہکشاں متعارف کروائی اور ان کو بڑے لکھاریوں کے ساتھ شائع کر کے ایک ادبی ’’کُل‘‘ بنانے کی کوشش کی۔ گذشتہ ایک دو ہی سالوں سے’’ بلاگ کلچر‘‘ نے ادبی رسالوں کے مقابل ایک میڈیا کا روپ دھار لیا ہے۔ ادبی قاری ہونے کے ناطے مجھے بہت خوشی ہے کہ ہم ادب کی بہتر سے بہتر انداز میں ترویج کر رہے ہیں۔ بد قسمتی سے بلاگ کلچر خالصتاً ادبی کلچر کے بطن سے نمودار تحریک نہیں تھی، یہ تو سماجیاتی عمل کے اخباری مزاج کو اپنا موضوع بنا رہی تھی جس کی زد میں ادب بھی آ گیا یا ادب نے کُود کے اس عمل کاری میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ ادب کا حسن یہی ہے کہ وہ سماج اور معاشرت کو اکیلا نہیں چھوڑتا اور اپنے فرد کی ہر سطح پر تشفی کرتا ہے۔ ادیب جو ایک ادبی تخلیقی کارگزاری سے پہلے، باقاعدہ طور پرسماجی تحرکات سے گزرتا ہے اس لیے سماجی عمل سے دور نہیں رہ سکتا۔

    میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ادب کے ساتھ ساتھ سماجی تحرکات میں بھی حصہ لینا چاہیے تا کہ ادبی عمل کو سماج کے آئینے میں سمجھنے کی عادت پیدا ہو سکے۔ جب بلاگ کلچر کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تو یہاں ہم ادیب لوگ بالکل اجنبی تھے۔ (ادبی میلہ کراچی میں ویب سائٹ یا بلاگ کلچر پر ایک مذاکرہ بھی کروایا گیا جس پر آصف فرخی صاحب سے ہلکی سی گفتگو بھی ہوئی) بلاگ کلچر پر صحافیانہ کلچر حاوی تھا، جس میں ادب، تاریخ، سماجیات اور تہذیب کے مباحث نہ ہونے کے برابر تھے۔ لہٰذا مجھے سب سے پہلے حوصلہ شکن پیغام یہ ملا کہ آپ کسی بھی ویب سائٹ بلاگ کے لیے لکھنے کے قابل نہیں۔ یہ میرے لیے انکشاف سے کم نہ تھا۔ اور یہ پیغام مجھے اُس صحافی نے دیا جو خود کو ایک ادیب گنوانے میں ایڑی چوڑی کا زور لگا رہا ہے۔

    ایک معروف ویب سائٹ جس پر ایک مخصوص گروپ کی نظریاتی چھاپ واضح طور پر نظر آرہی ہے، نے مجھے ٹھینگا دکھایا تو میں نے اپنے آپ کو دوبارہ سے دیکھنا شروع کیا بلکہ خود کو ازسرنَو ترتیب دیا۔ جیسے سانپ والی لڈو میں اٹھانوے پر ایک دم آپ چار پہ پہنچ جائیں۔ میرے لیے یہ توہین آمیز دھچکا بہت سے معیارات اور نظریات کو جمع کرنے کا باعث بنا۔ میں کئی عرصے تک یہ سوچتا رہا کہ ادب کی تنہائی (Isolation) کا مجھ جیسا ایک حقیر سا کردار جس طرح کے توہین آمیزعملِ رد (Rejection) سے گزرا ہے، سماج کا ایسا طبقہ جو ادب و فنون سے مکمل بے بہرہ ہے، وہ تہذیبی عمل کے اس گراں تخلیقی کام کو کس قدر بےکار اور فضول تصور کرتا ہوگا.

    سو میں نے اس صحافیانہ کلچر میں ادبی عمل کاری کا بیڑہ اُٹھایا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ مجھے میرے کولیگ یاسر چٹھہ اور فیاض ندیم نے جس طرح خوش آمدید کہا بلکہ مجھے بہت کچھ سکھایا، وہ میری زندگی کی ایک انوکھی مثال ہے۔

    میں سوال یہ اٹھانا چاہ رہا ہوں کہ ادبی اور صحافیانہ عمل میں اتنا بُعد کیوں آ گیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی کام اور معیار کو بھی سمجھنے سے قاصر ہو گئے ہیں۔ یقین مانیے ہمارے ادبیوں کو بالکل بھی سماجیاتی عمل میں مصروف دانش ورانہ (صحافیانہ نہیں) کارگزاریوں کا علم نہیں اور اسی طرح بےچارے صحافیوں کو عام تو کیا بڑے بڑے ادیبوں کے کاموں کا علم نہیں۔ میں ’’جاننے‘‘ پر زور اس لیے دے رہا ہوں کیوں کہ تبھی ہم ایک دوسرے سے سماج کی نظریاتی گرہ کشائیوں کی مدد لے سکتے ہیں ورنہ ہم تو خلا میں معلق رہیں گے۔

    ایک وقت تھا جب وزیر آغا، احمد ندیم قاسمی اور فیض جیسے ادبا باقاعدہ سماجیات کی تشکیل کر رہے تھے اور عملی طور پر پہلے ادیب تھے۔ کیا آپ کو یاد نہیں رہا کہ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ جو آج کے ڈان جیسا اخبار تھا، فیض اُس کی ادارت کرتے تھے اور ’’امروز‘‘ کی ادارت احمد ندیم قاسمی کرتے تھے۔ وزیر آغا، ظہیر کاشمیری، سجاد ظہیر، ممتاز شیریں، حسن عسکری، جمیل جالبی وغیرہ پاکستانی شناخت کی بحثیں بنا رہے تھے۔

    آج کا صحافی اتنا نابلد ہے کہ اُسے چند مشہور ادیبوں کے صرف ناموں کے علاوہ ادب کا کچھ نہیں پتا اور دوسری طرف ادبا سماجیات کے عمل سے اتنے کورے کہ سماج کے کسی بھی مسئلے یا کرائسس پہ بات کرنا ایک فضول اور غیر ضروری عمل قرار دیتے آ رہے ہیں۔

    مشہور ویب سائٹ کے ’’بانی حضرت‘‘ کبھی کبھار ادبی بننے کی کوشش کرتے بھی ہیں مگر اُن کے ’’گروہی‘‘ سیاسی انداز سے مکالمہ مشکل ہو رہا ہے۔ چند مخصوص قسم کے نظریات سے مکالمے کھلنے والا نہیں بلکہ باقاعدہ نظریہ سازی کی ضرورت ہے۔ ادبی جمالیات و فنون کی’’ گھٹی‘‘ انھوں نے لینی نہیں اور گروہ بازی بھی انھوں نے چھوڑنی نہیں۔ اُن کے لکھاریوں پہ بعض اوقات ہنسی آتی ہے، اُن کا رویہ بالکل ’’مریدانہ‘‘ سا ہو گیا ہے۔ بس درخواست اتنی سی ہے کہ سماجیات عمل اُس وقت نامکمل سا ہے جب تک ادب و تہذیب کے عملِ مراقبہ سے نہ گزرا جائے ورنہ صرف خبریں رہ جائیں گی۔ خدا کے لیے خبروں سے باہر آئیں اور سماج کے مجموعی تہذیبی علم سے مکالمہ کیجیے۔

    (قاسم یعقوب اسلام آباد ماڈل کالج فار بوائز کے شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)