Tag: اخلاق

  • کیا اہل مذہب بداخلاق ہیں؟ ابوبکر قدوسی

    کیا اہل مذہب بداخلاق ہیں؟ ابوبکر قدوسی

    ابوبکر قدوسی کالج سے چھوٹے تو کاروبار نے جکڑ لیا. خود کاروبار کیا ہے، محض ایک چٹیل میدان جہاں افکار کے سوتے خشک ہوتے دیکھے، ان کو جلا کیا ملتی؟ لیکن قسمت اچھی تھی کہ کاروبار کتاب کا تھا. کتاب بیچتے کتاب چھاپتے مدت گزر گئی. جی ہاں میرا مذہبی کتب کا کاروبار ہے، مولوی نہیں لیکن ایک خالص مولوی کا بیٹا ہوں. باپ کے منہ سے گالی تو بڑی بات، کبھی بد تہذیبی کی ہلکی سی بات بھی یاد میں نہیں. اگرچہ ہمارے لڑکپن میں ہی وہ دنیا سے چلےگئے، لیکن ہماری زندگی کی عمارت کی بنیاد رکھ گئے. میں ان کے اخلاق کو شاید چھو بھی نہ سکوں لیکن کسی سے بدزبانی کرنا، توہین کرنا، میرے لیے بھی ویسے ہی مشکل ہے. ہماری دکان پر بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث کے چوٹی کے علماء کا مستقل آنا جانا رہتا تھا، میں نے مذہبی طبقے کو جتنا بااخلاق پایا اس کی کم ہی مثال ملے گی.

    مجھے شاید چار برس ہوے سوشل میڈیا پر لکھتے ہوئے، بہت سا لکھا، کبھی اچھا کبھی گوارا، بہت سے افراد پر تنقید کرتا ہوں، اور بہت کا رد، لیکن ایک بات عجیب ہے کہ مجھ سے ایک دو بار ہی کسی نے بدزبانی کی ہے. بلاشبہ یہ ایسا ہی مے خانہ ہے کہ جہاں قدم قدم پر پگڑی اچھلتی ہے، لیکن ہم تو اس گلی میں سے اپنی دستار و جبہ بنا کسی داغ کے بچا کے لے آئے ہیں. ہم کوئی ایسے پارسا نہ تھے اور نہ ہی کوئی بھگت کبیر کہ جو ”باجار“ میں کھڑے سب کی”کھیر“ ہی مانگتے رہتے ہیں. بیسیوں بار بہت سوں کے بارے میں تند و تیز بھی لکھا اور شدید تلخ بھی لیکن سب کچھ ایک خاص سلیقے کے ساتھ تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے.

    یہ سب قصہ طویل اس لیے ہے کہ ایک صاحب کا لکھا دیکھا کہ مذہبی لوگوں کا اخلاقی دیوالیہ پن حد سے گزر گیا. میں صرف اس بات سے حیران ہوں کہ اخلاق کی گراوٹ کی دہائی دیتے ہوئے صاحب ایسے بے اختیار ہوئے کہ مدارس کے خاتمے کی پیشین گوئی تک کر ڈالی. سوشل میڈیا پر موجود ایک خاص طبقے کی جہالت کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کو ہی مذہبی طبقے کا چہرہ قرار دے دیا.

    ایسی بھی کیا بےخبری اور سادگی کہ بندہ معقول سا تجزیہ بھی نہ کر سکے. حضور والا مجھ کو آج تک چار برس میں کسی نے گالی دی نہ دشنام کیا، میں مسلسل لکھتا ہوں اور طویل لکھتا ہوں، کہہ چکا کہ اختلاف کرتا ہوں اور ڈٹ کے کرتا ہوں، تنقید کرتا ہوں اور کھل کے کرتا ہوں، آپ خود سوچیے کہ کیا وجہ ہے کہ ایک صاحب کو اس معمولی سی ”فیس بکی اقلیت“ میں اہل مذہب کا چہرہ دکھائی دے رہا ہے، اور ان کی نظر میں یہی مذہب کا مستقبل ٹھہرے، یہی مذہب کے دیس نکالے کا سبب..

    مثال حضرت ڈھونڈ کے لائے ہیں جناب غامدی صاحب کی کہ ان کو ملک سے باہر نکلنا پڑا. کاش ہم تجزیے میں دیانت کو اپنا شعار کر سکیں، اگر میں کہوں کہ خود اس مظلوم ”طبقے“ نے فکری بداخلاقی کی انتہا کر دی تو کیا غلط ہوگا ؟. اور شریف اہل مذہب اس کو مدت تک بےبسی سے سہتے چلے آ رہے ہیں، اور اس کے بعد جانے یکایک کیا ہوا کہ صاحب پاکستان سے نکل گئے اور الزام مذہبی طبقے پر دھر دیا. اس پاکستان میں عاصمہ جہانگیر، ماروی سرمد، فرزانہ باری جیسی خواتین اور مہدی حسن صاحب، پرویز ہود بھائے جیسے افراد جو چاہتے ہیں ہر دم کہتے ہیں اور پھر بھی امن چین سے رہ رہے ہیں.

    لگے ہاتھوں میں اس ”مظلوم“ فکر کے ایک نمائندے جناب شبیر احمد کی کتاب ”صحیح بخاری کا مطالعہ“ پڑھنے کا مشورہ دوں گا. آپ کو ”اخلاقیات“ کی صحیح خبر ہو گی کہ کس کا گرا ہے اور کون ابھی بھی بچا ہے؟

    حیرت ہے کہ اس ملک میں ایک طبقہ دشنام میں مقدسات تک کو معاف نہیں کرتا، اور سنجیدہ اہل مذہب اس تک کو جلتے کڑھتے برداشت کرتے ہیں، ہر دم ان کی داڑھی اور ٹوپی کا مذاق بنایا جاتا ہے، ان کے لطیفے گھڑے جاتے ہیں، ان کی معمولی سی غلطی کو بریکنگ نیوز بنادیا جاتا ہے، اور خود ہاتھی بھی ہضم کر لیا جاتا ہے، پھر بھی بد اخلاق یہی مولوی ٹھہرتے ہیں.

    ”قاصد“ گھبرا نہ جائے اس لیے مختصر کرتا ہوں. ایک سوال ہے کہ آپ کی قوم کی، لیڈر شپ کی، اشرافیہ کی، حکمرانوں کی، بیوروکریسی کی. اور حضور عام عوام کی اخلاقی حالت کیا ہے؟ ان کی تربیت کس نے کی؟ گالی، زنا، شراب، مجرے، دوسروں کی بہن بیٹیوں کو نچوانا، فراڈ، قوم کا پیسہ ہضم کرنا، پورے پورے الیکشن چرا لینا، ہمہ وقت جھوٹ، یہ سب کیا اچھے اخلاق ہیں؟ یہ سب کون کرتا ہے؟ محض فیشن کے طور پر مولوی کو گالی دینا اور اپنے احساس کمتری کو اس مہین پردے میں چھپانا ایک کار لا حاصل ہے، جس میں سب کچھ عیاں ہے.

    بات اگر نصیحت کے واسطے کی جاتی تو عمدہ ہوتی. کہا جا سکتا تھا کہ اہل مذہب کو، اور ان کو جو مذہب کی شناخت رکھتے ہیں، مباحثے میں کبھی اخلاق کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے، لیکن یہ کیا کہ تمام اہل مذہب کو بد اخلاق قرار دے کرگردن زدنی قرار دے دینا، اور معیار بھی فیس بک کہ جہاں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ صاحب مرد بھی ہیں یا نہیں، اور خاتون کہیں زلف دراز کے ساتھ مونچھیں بھی تو نہیں رکھتیں.
    اور ہاں ایک مشورہ ہے کبھی ملحدین کے صفحات پر جائیے اور آپ کو اخلاق کے نئے مفاہیم کی خبر ہو گی اور پھر آپ کو یہ ”ملا ملانے“ بہت با اخلاق دکھائی دیں گے.

  • نئی نسل مطالعہ اور اخلاقی اقدار سے کیوں دور ہو رہی ہے؟ رحمان گل

    نئی نسل مطالعہ اور اخلاقی اقدار سے کیوں دور ہو رہی ہے؟ رحمان گل

    رحمان گل ”نئی نسل کو مطالعے کا شوق نہیں۔“ یہ جملہ اکثر سننے کو ملتا ہے۔ اسی طرح کا ایک اور جملہ جو سننے کو ملتا ہے وہ یہ کہ ”نئی نسل اپنی ثقافتی و اخلاقی اقدار سے دور ہوتی جا رہی ہے۔“ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ یہ امر توجہ طلب ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

    پہلا جملہ کہ نئی نسل کو مطالعے کا شوق نہیں اپنی جگہ حقیقت ہے۔ اس ضمن میں کچھ سوالات اٹھتے ہیں جو یقیناً درست وجوہات تلاش کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔
    پہلا سوال: کیا بچوں کے لیے مطلوبہ مقدار میں معیاری اور دلچسپ ادب تخلیق ہو رہا ہے؟
    دوسرا سوال: اس حوالے سے درس گاہیں اور اساتذہ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟
    تیسرا سوال: گھر میں مطالعے کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جا رہا ہے؟ میرے خیال سے یہ بنیادی سوال ہے۔
    چوتھا اور آخری سوال: کیا معاشرہ اور اہلِ دانش اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟

    ایک وقت تھا کہ جب تفریح کے ذرائع محدود تھے اور جرائد و رسائل تفریح کا ذریعہ تھے، تب مطالعہ کے شوق کی آبیاری بہت سہل تھی مگر آج وقت بدل چکا اور تفریح کے ایک سے بڑھ کر ایک دلچسپ اور دلکش ذرائع موجود ہیں ان حالات میں مطالعے کا شوق پروان چڑھانے کے لیے نئے زمانوں کے مطابق حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اہلِ دانش اور مطالعے کی عادی افراد اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، وہ اس طرح کہ اپنے زیرِ مطالعہ کتب پر تبصرے کیے جائیں، کتابوں سے متعلق رائے دی جائے، اور نئے پڑھنے والوں کی اس ضمن میں رہنمائی کی جائے۔ معاشرہ میں کتابیں تحفتاً دینے کے رواج کو فروغ دیا جائے۔ یہ درست ہے کہ دلیل جیسی ویب سائٹس کے آنے سے لوگوں میں مطالعے کا شوق بڑھا ہے مگر اس سے جملہ معترضہ کی خاطر خواہ تشفی نہیں ہوتی۔

    دوسرا جملہ کہ نئی نسل اپنی ثقافت سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ یہ واقعی بہت پریشان کن ہے اور یہ صرف جملہ نہیں بلکہ ایک المیہ ہے۔ اس ضمن میں معاشرے، ذرائع ابلاغ اور اہلِ دانش کا کردار نا ہونے کے برابر ہے اور شاید انہیں اس حوالے حالات کی سنگینی کا اندازہ بھی نہیں۔ ایسے میں جب دنیا ایک عالمی گاوں کی صورت اختیار کر چکی ہے اور ثقافتوں کا ادغام جاری ہے اور بڑی ثقافتیں چھوٹی ثقافتوں کو نگلتی جا رہی ہیں، ہمیں اپنی ثقافت کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ درست ہے ثقافتیں اثر قبول کرتی ہیں مگر ایسا نہ ہو کہ پاکیستانی ثقافتیں اثر قبول کرتے کرتے اپنی بنیاد ہی گم کر بیٹھیں۔ اس ضمن میں فنکار برادری جو کہ عموماً ثقافت کی علمبردار/ نمائندہ سمجھی جاتی ہے، کا کردار بھی مایوس کن ہے اور فنکاروں کی ایک بڑی تعداد دوسری ثقافتوں سے مرعوب نظر آتی ہے۔ ذرائع پر مکمل طور پر بیرونی ثقافتوں کا غلبہ ہے اور جو تھوڑی بہت مقامی پیداوار ہے فلموں اور ڈراموں کی وہ بھی بیرونی ثقافتوں سے مرعوب ہے۔ ایسے حالات میں جب ہر طرف بیرونی ثقافتوں کی یلغار ہو نئی نسل کیسے اپنی ثقافت کو اپنائے۔
    ہم نئی نسل کو جیسا دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں بس اسی طرح کا ماحول فراہم کرنا ہوگا بقول شاعر
    ؂ ذرا نم تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

  • آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا-محمد اظہار الحق

    آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا-محمد اظہار الحق

    izhar
    مسجد کے بڑے ہال کا دروازہ کھول کر باہر نکلنے لگا تھا کہ ایک بزرگ صورت صاحب نمودار ہوئے۔ یوں تو چٹے سر اور چٹی داڑھی کی وجہ سے میں بھی اچھا خاصا بزرگ لگتا ہوں مگر وہ جینوئن بزرگ دکھائی دے رہے تھے۔ دروازہ کھول کر کھڑا رہا تاکہ وہ پہلے گزریں۔ وہ گزرے مگر یوں جیسے میں کئی نسلوں سے ان کا خاندانی مزارع تھا۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ میری طرح ان پڑھ تھے۔ لباس سے تعلیم یافتہ لگ رہے تھے۔ باہر نکل کر نوٹ کیا کہ وہ جس گاڑی میں بیٹھ رہے تھے‘ وہ پرانی تھی نہ چھوٹی!

    آپ ڈرائیو کر رہے ہوں‘ راستہ تنگ ہو یا کسی دوسرے گاڑی والے نے مڑنا ہو‘ اور آپ رک جائیں تاکہ وہ پہلے گزر جائے تو وہ یوں شانِ بے نیازی سے گزرے گا‘ جیسے رکنا آپ کا فرض تھا اور اس کا حق۔ پوری مہذب دنیا میں دوسری گاڑی والا ہاتھ اٹھا کر شکریہ ادا کرتا ہے۔ ہاں! ایک بار ایک ٹیکسی والے نے ہاتھ لہرا کر شکریہ ادا کیا اور موٹر سائیکل پر سوار ایک لڑکے نے‘ جس کے گزرنے کے لیے میں نے بریک لگائی‘ شکریہ ادا کیا۔ مگر یہ شرح اس قدر برائے نام ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے!

    آخر ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ ہم شکریہ ادا کرنے میں یا ایک مسکراہٹ بکھیرنے میں‘ جس پر کوئی خرچ بھی نہیں اٹھتا‘ اس قدر تنگ دل کیوں ہیں؟ دو افراد بات کر رہے ہوں تو ان کی گفتگو کے ختم ہونے کا انتظار کیوں نہیں کرتے‘ درمیان میں کیوں کود پڑتے ہیں؟ کسی کو فون کریں تو بات کرنے سے پہلے اپنا تعارف کیوں نہیں کراتے؟ وعدہ کرتے ہیں کہ کسی کو فون کریں گے اور مطلوبہ معلومات مہیا کریں گے‘ مگر اس وعدے کی کوئی اہمیت نہیں۔ دوسری بار پوچھے گا تو دیکھیں گے۔ سیڑھیوں کے پاس کھڑے دو اشخاص بغل گیر ہونے کے بعد باتیں کرنے لگتے ہیں۔ آپ نے اوپر جانا ہے۔ وہ راستہ بند کرکے کھڑے ہیں۔ آپ جب راستہ دینے کے لیے کہتے ہیں تو معذرت کرنے کے بجائے یوں دیکھتے ہیں جیسے آپ نے ان کی خواب گاہ کی پرائیویسی میں خلل ڈالا ہے!
    آپ دکاندار سے یا کائونٹر پر بیٹھے ہوئے صاحب سے کچھ پوچھتے ہیں‘ وہ یا تو جواب ہی نہیں دیتا یا انتہائی بددلی سے ایک نامکمل جواب دیتا ہے!
    اچھی خاصی پارکنگ کی جگہ چھوڑ کر دکان کے عین سامنے گاڑی کھڑی کرتے ہیں۔ اصل میں بس نہیں چلتا ورنہ گاڑی کو اندر لے جائیں اور گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی خریداری کریں۔

    اتنی بڑی گاڑی اندھے کو بھی نظر آ جائے لیکن ہمیں نہیں نظر آئے گی۔ اس کے عین پیچھے گاڑی پارک کریں گے۔ واپس آئیں گے تو وہ شخص جس کی گاڑی بلاک تھی‘ کہے گا کہ آپ کو یہاں گاڑی کھڑی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ہم اس سے معذرت کے دو بول نہیں کہیں گے۔ ایک بدبخت گائودی کی طرح‘ ایک نیچ کی بے شرمی کے ساتھ ٹھسّے سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چل دیں گے۔
    دیکھ رہے ہیں کہ دکاندار ایک گاہک کو اٹنڈ کرنے میں مصروف ہے‘ پھر بھی دکاندار کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس میں بھی اتنا شعور نہیں کہ انتظار کرنے کی تلقین کرے۔ وہ دو گاہکوں کو بیک وقت اٹنڈ کرنے لگے گا۔ ایک کا کام تسلی بخش ہو گا‘ نہ دوسرے کا! اور تو اور‘ اے ٹی ایم کے کیبن میں کھڑے ہو کر ٹیلی فون پر لمبی بات کریں گے‘ یہ سوچے بغیر کہ باہر لائن لگی ہے!

    ترقی یافتہ ملکوں میں یہ قاعدہ عام ہے کہ سامنے بیٹھے ہوئے شخص کا آپ کی توجہ پر زیادہ حق ہے بہ نسبت اس کے جو فون پر بات کرنا چاہتا ہے۔ آپ جب تک اپنی بات یا اپنا کام ختم نہیں کر لیتے‘ وہ فون نہیں سنے گا یا فون کرنے والے کو بتائے گا کہ بعد میں بات ہو گی۔ مگر ہم سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو عجیب و غریب صورت حال میں ڈالنے کے ماہر ہیں۔ فون پر لمبی غیر ضروری بات ہو رہی ہے۔ ایک کے بعد دوسرا فون اٹنڈ ہو رہا ہے۔ سامنے بیٹھا ہوا سائل یا ضرورت مند‘ یا کلائنٹ‘ اٹھ کر جا سکتا ہے نہ ہی ہماری توجہ حاصل کر پاتا ہے۔

    ہماری بداخلاقی سوشل میڈیا پر بھی چھائی ہوئی ہے۔ مہذب دنیا میں جب مارکیٹنگ کے لیے یا کسی اور مقصد کے لیے ای میل کی جاتی ہے تو لامحالہ‘ ای میل کے مضمون کے آخر میں یہ آپشن دیا جاتا ہے کہ اگر آئندہ اس قسم کی میل وصول نہیں کرنا چاہتے تو یہاں کلک کریں۔ اسے UN-Subscribe کرنا کہتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں اس کا رواج نہیں! ہر شخص اپنے مخصوص مذہبی نظریات یا سیاسی نقطہ نظر کی تبلیغ کرنا چاہتا ہے۔ سو ڈیڑھ سو ای میل ایڈریس نہ جانے کہاں سے اکٹھے کر لے گا۔ پھر اللہ دے اور بندہ لے! دھڑا دھڑ ای میلیں آپ کے ان بکس میں اتریں گی۔ آپ ان ای میلوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں مگر وہ آپشن تو دیا ہی نہیں گیا۔ پھر آپ خصوصی ای میل کرتے ہیں کہ جانِ برادر! اِس طویل فہرست سے میرا ایڈریس ازراہ کرم نکال دیجیے۔ تجربہ یہ ہے کہ صرف دس فیصد لوگ اس درخواست کو درخور اعتنا گردانیں گے! ایک ریٹائرڈ وفاقی سیکرٹری نے چند سیاست دانوں کو دام میں لا کر ایک تھنک ٹینک قسم کی شے قائم کی ہے۔ اب ان صاحب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار کون ہو گا؟ بے شمار رپورٹیں‘ جو ردی کی ٹوکری میں پھینکے جانے کے قابل ہیں‘ دھڑا دھڑ بھیج رہے ہیں۔ زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ بدقسمتی سے ایسی ای میلیں بلاک کرنے کی گنجائش بھی کم از کم میرے آئی پیڈ پر نہیں!
    ان بداخلاقیوں کے لیے ایس ایم ایس ہی کیا کم تھا کہ وٹس ایپ بھی پلے پڑا ہوا ہے۔ مذہبی روایات‘ سیاسی بحثیں‘ وڈیوز‘ سب کچھ بھیجا جا رہا ہے۔ ساتھ یہ تلقین بھی کہ جان کی خیر چاہتے ہو تو دس افراد کو آگے روانہ کرو۔ خوش قسمتی سے ایسے فارغ اصحاب کے ایس ایم ایس اور وٹس ایپ بلاک کیے جا سکتے ہیں!

    یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ من حیث القوم ہم میں پیدائشی نقص یعنی
    manufacturing Defect ہے۔ ہرگز نہیں! خلاّقِ عالم نے ساری صلاحیتیں‘ حواسِ ظاہری اور غیر مرئی اعضا ہماری قوم کو کمال فیاضی سے عطا کیے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو ہم پاکستانی دوسرے ملکوں میں جا کر جون کیسے بدل لیتے؟ کیا آپ نے بارہا نہیں دیکھا کہ پاکستانی لندن یا نیو یارک کے ہوائی اڈوں پر کتنے خوش اخلاق ہوتے ہیں۔ اپنی باری کا انتظار خوش دلی سے کرتے ہیں۔ گفتگو آہستہ آواز میں کرتے ہیں۔ مسکرا کر تھینک یو اور پلیزکہنا نہیں بھولتے۔ سپر سٹور پر اگر گوشت ختم ہو رہا ہے تو آخری پیس دوسرے گاہک کو خریدنے کا موقع دیتے ہیں اور ساتھ مسکراہٹ بھی بکھیرتے ہیں۔ سفید فام لوگوں کی دعوت میں وقت پر پہنچتے ہیں۔ جہاں ٹیلی فون کرنا ہے‘ ضرور کرتے ہیں اور تاخیر سے گریز کرتے ہیں۔ مگر جیسے ہی کراچی لاہور یا اسلام آباد کے ایئرپورٹ پر اترتے ہیں‘ کایا کلپ ہو جاتی ہے۔ ایئر ہوسٹس کا لہجہ بھی کھردرا ہو جاتا ہے۔ جیسے ہی اعلان ہوتا ہے کہ ابھی اپنی اپنی نشستوں پر ہی تشریف رکھیے‘ سب یوں اٹھ پڑتے ہیں جیسے نشست پر بجلی کے کرنٹ نے ڈس لیا ہے۔ دوسروں کے سروں کے اوپر سے سامان وحشیانہ سرعت کے ساتھ اتارا جائے گا۔ تھینک یو اور پلیز کے الفاظ لغت میں جیسے کبھی تھے ہی نہیں! چہروں پر مسکراہٹ کی جگہ غیظ و غضب سے بھرے مکروہ نقوش نے لے لی ہے۔ ہر شخص کو جلدی ہے۔ بیلٹ سے سامان اتارتے وقت ہمارے اندر کی پاکستانیت عروج پر ہوتی ہے! پھر شاہراہیں تو ہمارے باپ دادا کی ملکیت ہیں۔ سگریٹ کی خالی ڈبیا‘ خالی ماچس‘ پھلوں کے چھلکے‘ خط نکالنے کے بعد خالی لفافہ‘ یہ ساری اشیا صرف ٹیکسیوں اور رکشوں سے باہر نہیں پھینکی جاتیں‘ شاہراہوں پر یہ احسانات بی ایم ڈبلیو‘ مرسڈیز اور پجارو والے بھی کر رہے ہیں۔

    بچّے بھی یہی کچھ سیکھ رہے ہیں۔ اس لیے کہ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں‘ ان کے کورے ذہنوں پر نقش ہو جاتا ہے۔ ہماری اپنی زندگیاں تو جنگلیوں کی طرح گزر گئیں‘ کم ازکم بچوں کے معاملے میں تو ہوش کے ناخن لیں۔ انہیں سکھائیں کہ شکریہ کہنا ہے۔ کسی کو زحمت دینی ہو تو پلیز یا ”مہربانی ہو گی‘‘ کے الفاظ کہیں۔ دوسرے بات کر رہے ہوں تو درمیان میں نہ کودیں‘ بلکہ انتظار کریں۔ کھانے میں نقص نہ نکالیں۔ اگر کوئی ڈش پسند نہیں تو بے شک نہ کھائیں‘ مگر تنقید نہ کریں۔ اندھوں‘ لنگڑوں‘ بہروں کا مذاق نہ اڑائیں۔ ان کے تضحیک آمیز نام نہ رکھیں۔ اگر کوئی حال چال پوچھے تو شکریہ ادا کرکے اس کا حال احوال بھی دریافت کریں۔ مہمان سے ہاتھ ملاتے وقت اس کی طرف دیکھیں۔ دوست کے گھر کھانا کھائیں یا پارٹی اٹنڈ کریں تو اس کے ماں باپ کا شکریہ ضرور ادا کریں۔ کسی کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے دستک دیں۔ فون کریں تو پہلے اپنا نام بتائیں اور پھر پوچھیں کہ کیا میں فلاں سے بات کر سکتا ہوں۔ ای میل یا ایس ایم ایس کے ذریعے ضروری پیغام وصول کریں تو وصولی کی اطلاع دیں ”او کے۔ شکریہ‘‘ لکھ کر بھیجنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ کسی کے گھر جا کر کوئی دستاویز یا خط یا پیغام دیتے وقت وصول کرنے والے کا نام ضرور پوچھیں۔ مذاق کرتے وقت کسی کی عزت نفس نہ مجروح ہونے دیں۔ چلتے وقت کسی سے ٹکرا جائیں تو معذرت کریں۔ لوگوں کے سامنے ناک میں انگلی نہ ڈالیں۔ تھوکنے سے گریز کریں۔ کھانستے وقت یا جمائی لیتے وقت منہ پر ہاتھ رکھیں۔
    خدا کرے ہماری آئندہ نسل صرف آدمی نہ ہو‘ انسان بھی ہو!

  • استاد کی تذلیل….-رؤف کلاسرہ

    استاد کی تذلیل….-رؤف کلاسرہ

    m-bathak.com-1421245675rauf-kalasra
    میرا چھوٹا بیٹا سکول سے لوٹا‘ تو منہ لٹکا ہوا تھا۔ افسردہ دیکھ کر میں نے اسے پاس بلا کربٹھایا اور وجہ پوچھی ۔وہ بولا بابا بہت برا ہوا۔ ایک لڑکے کو کل اردو کی میڈم نے ہلکی سے چماٹ لگا دی تھی۔ سکول میں اس کا ایک دوست موبائل فون پر سیلفیاں بنا رہا تھا اور میڈیم اسے لے کر پرنسپل کے پاس جارہی تھی کہ اس لڑکے نے میڈیم کو روکا کہ کیوں اس کے دوست کو لے کر جارہی ہیں۔ اس پر میڈیم نے اسے گال پر ہلکاسے تھپڑ لگا دیا کہ تم اپنے کام سے کام رکھو۔

    وہ اگلے دن اپنے باپ کو لے آیا ۔ اس کا باپ مشہور آدمی اورنواز شریف حکومت میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس نے سکول میں رولا ڈال دیا۔ آخر میں میڈم کو اس کے بیٹے سے معافی مانگنی پڑی۔
    میرا بیٹا بولا ایسے نہیں ہونا چاہیے تھے۔
    مجھے حیرانی ہوئی کیونکہ میرا یہ بیٹا خود اسی میڈم سے دو دفعہ تھپڑ کھا چکا تھا ۔

    مجھے یاد آیا پچھلے سال میرے بڑے بیٹے کو اسی میڈم نے ایک تھپڑ مارا تھا۔ وہ گھر لوٹا تو مسکراتے ہوئے بولاآج میڈیم نے مجھے مارا ہے۔ میں نے کہا بیٹا خوش قسمت ہو ۔ استاد کا تھپڑ آگے لے جاتا ہے۔وہ فوراً بولا نہیں بابا وہ اچھی ہیں۔ میں نے تو ویسے ہی آپ کو کہا ہے۔ اسی استاد اور اس کے تھپڑ کی وجہ سے میرے بیٹے کا اس سال او لیول میں اسی مضمون میں اے گریڈ آیا۔ اب چھوٹا بیٹا بھی ان کے پاس پڑھتا ہے۔ اسے بھی دو دفعہ گالوں پر ہلکا سا تھپڑ پڑ چکا ہے۔وہ ہر دفعہ آکر بتاتا ہے اور مسکراتا ہے۔ میں نے کہا شرمندہ ہونے کی بجائے مسکراتے ہو۔

    بائی چانس چار دن قبل اسی میڈیم سے ملاقات ہوگئی۔ میرا چھوٹا بیٹا بھی ساتھ تھا ۔ وہ کہنے لگیں یہ محنت نہیں کررہا۔ میں نے کہا میڈم آپ نے پچھلے سال بڑے بیٹے کو ایک تھپڑ مارا تھا وہ ٹھیک ہوگیا تھا اور اس نے اے گریڈ لیا۔ ایک آدھ اس کو بھی جڑ دیں تو شاید اس کے نصیب بدل جائیں…وہ بولیں آپ کو اعتراض تو نہیں ہوگا؟ میں نے کہا‘ کیا پچھلے سال میں کوئی احتجاج کرنے آیا تھا ؟ میں نے کہا یہ شکر کریں کہ آپ لوگ گالوں پر ہلکا پھلکا تھپڑ جڑ دیتی ہیں۔ میں گائوں سے آیا ہوں وہاں تو سارے گائوں والے استاد سے منت ترلے کر کے ہم بچوں کو سزا سے بچاتے تھے ورنہ استاد کا جب تک دل چاہتا کان پکڑا کر چھترول کرتا۔ میں خود کئی دفعہ استادوں کے ہاتھوں پٹ چکا ہوں۔ میں نے ہتھیلی آگے کر کے کہا ان ہاتھوں پر کئی دفعہ ڈنڈے کھائے ہیں اور ایسی کئی جگہوں پر ڈنڈے کھائے ہیں جن کا بتایا تک نہیں جاسکتا….وہ ہنس پڑیں۔میرے دونوں بچے حیرانی سے مجھے دیکھ رہے تھے کہ ان کا باپ بھی استادوں سے پٹتا رہا ہے۔

    تشدد اور گالوں پر ہلکا تھپڑ مارنے میں بہت بڑا فرق ہے۔ ہمارے دور میں تو باقاعدہ بچوں پر تشدد ہوتا تھا جو کہ غلط تھا۔ مجھے خود یاد ہے کہ خوف کے مارے میں سکول جانے سے گھبراتا تھا ۔ یہ درست ہے کہ بچوں پر سکول میں تشدد نہیں ہونا چاہیے اور آج کے جدید سکول تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ ماں باپ ڈنڈا لے کر پہنچ جاتے ہیں۔

    مجھے اپنے لندن میں مقیم دوست شعیب کی بیگم عالیہ کی ایک بات یاد آئی۔ دو ہزار گیارہ کے لندن میں فسادات کے بعد پولیس نے والدین کو کہا کہ وہ اپنے بچوں پر سختی کریں کیونکہ یہ بگڑ گئے ہیں۔ اس پر عالیہ نے خوبصورت تبصرہ کیا تھا کہ پہلے ہمیں کہا گیا کسی نے بچے پر سختی کی تو بچہ چھین لیا جائے گا۔ سکولوں میں بچوں کو کہا گیا گھر پر اگر کوئی سختی کرے تو پولیس کو رپورٹ کرو اور اب وہی پولیس کہتی ہے کہ بچوں پر سختی کرو کیونکہ وہ فسادات کررہے ہیں۔

    بچوں کو کچھ نہیں کہنے والے کلچر کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اسلام آباد کے کچھ سکولوں کے بارے میںمشہور ہے وہاں آٹھویں سے لے کر دسویں یا اے لیول تک کچھ بچے کھلے عام سگریٹ پیتے اور دیگر نشہ کرتے ہیں کیونکہ استادوں سے والدین نے جرأت چھین لی ہے کہ وہ اپنے شاگرد کو کسی غلط بات پر منع کر سکیں یا اسے ہلکی پھلکی سزا دے سکیں۔

    کچھ سال قبل میرے چھوٹے بیٹے نے جس کی عمر اس وقت بمشکل آٹھ برس ہوگی مجھے کہا کہ بابا ہمارا گینگ ہے۔ میں نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھا تو وہ بولا، کل ہمارے ایک دوست کو کچھ لڑکوں نے مارا تھا۔ آج ہم دوستوں نے انہیں مارا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ ہم اکٹھے لڑیں گے۔ یہ وہی سکول ہے جہاں بچے کچھ بھی کرتے رہیں استاد انہیں روک نہیں سکتے۔ میں نے اسی دن اپنے بیٹے کو سکول سے نکال کر موجودہ سکول میں ڈال دیا جس کا پڑھائی کے علاوہ ڈسپلن بہت اچھا ہے۔ یہاں کسی گینگ کا سوال تک پیدا نہیں ہوتا ۔

    کبھی کلچر ہوتا تھا لوگ کسی کے بچے کو غلط کام کرتے دیکھ کر اسے روکتے تھے اور بچہ بھی رک جاتا تھا۔ ڈر جاتا تھا کہ اگر اس کی شکایت لگ گئی تو گھر والے اور ڈانٹیں گے۔ وہ بچہ پورے گائوں کا بچہ ہوتا تھا۔ گائوں کا بڑا جب چاہے اس کو روک سکتا تھا۔ اسے سزا بھی دے سکتا تھا۔ اور پھر اچانک ماحول بدلنا شروع ہوا اور پڑھی لکھی مائوں اور ان کے باپ نے نیا دستور اپنا لیا کہ ہمارے بچہ کچھ بھی کرتا ہو تم کون ہوتے ہو اسے روکنے والے۔ میں نے اپنی بیوی کو سختی سے کہا ہوا تھا کہ ہمارے بچوں کو اگر کوئی بڑا روکے اور اگر کچھ سخت کہہ بھی دے تو کبھی ان کے گھر جا کر مت لڑنا۔ یقینا ہمار بچہ کوئی غلط کام کررہا ہوگا جس پر اس نے روکا ہوگا۔

    کچھ عرصہ قبل میں جہاں رہتا تھا وہاں ایک بارہ سالہ بچے نے گاڑی چلانا شروع کردی۔ اس کا باپ فخر سے گاڑی اسے سکھا رہا تھا۔ ایک دن بچہ خود تیز گاڑی چلا رہا تھا۔ میں نے اسے روک کر منع کیا اور کہا‘ بیٹا پہلے تو تمہیں اس عمر میں گاڑی نہیں چلانی چاہیے کہ تم بہت چھوٹے ہو۔ دوسرے اتنی تیز چلا رہے ہو۔ بولا، آپ کو کیا۔میرے بابا نے اجازت دے رکھی ہے ا ٓپ کیوں روک رہے ہیں۔ میں نے کہا بیٹا کیونکہ تم میرے بیٹے کی عمرکے ہو۔تمہیں اگر تکلیف پہنچی تو مجھے پریشانی ہو گی ۔دوسرے دن اس کا باپ ملا تو وہ ناراض ہونے لگا ۔ میں نے کہا بات سنیں آپ کو میرا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا۔ آپ الٹا ناراض ہورہے ہیں۔ اپ کیسے باپ ہیں جو بچے کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں۔ وہ بولا وہ بہت اچھا ڈرائیور ہے۔ میںنے کہا وہ معاشرے بیوقوف ہیں جنہوں نے ڈرائیونگ کی عمر اٹھارہ برس رکھی ہے؟ اپ زیادہ سمجھدار نکلے ہیں اور اس عمر کو بارہ سال کر دیا ہے۔ ڈرائیونگ کوئی کھیل نہیں ہے۔ میں کئی واقعات جانتا ہوں جب اس طرح بچے گاڑیاں لے کر دوستوں کے ساتھ نکل جاتے ہیں اور اکثر حادثے ہوتے ہیں کیونکہ ڈرائیونگ میں فوری فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے، حاضر دماغی چاہیے ہوتی ہے، اور سب سے بڑا کر جذباتی ٹھہرائو کی ضرورت ہے جو بارہ سالہ بچے میں نہیں پائی جاتی لہٰذا عمرا اٹھارہ برس کی گئی ہے۔ ایک آپ ہیں کہ آپ الٹا مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ اپنے ایک دوست کا بتایا جس کا اکلوتا بیٹا اپنے باپ کی گاڑی لے کر دوستوں کے ساتھ نکل گیا۔ دریا پر نہانے گیا اور ڈوب گیا۔ میں باپ سے تعزیت کرنے گیا تو وہ بولا‘ میں نے لاڈ میں بچے کو کم عمری میں گاڑی چلانے کی اجازت دے رکھی تھی۔ وہ زارو قطار رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا غلطی ہوگئی۔

    اس میڈیم سے بھی غلطی ہوگئی تھی۔ اسے کیا پڑی ہے کہ وہ امیروں کے بچوں کو تمیز اور سلیقہ سکھانے کی کوشش کرے۔ اگر اگلے دن میں نے سکول جا کر اس سے پورے سکول کے سامنے اپنے بیٹے سے معافی منگوانی ہے تووہ کیوں میرے بچے پر سختی کرے۔ وہ کیوں خیال کرے میرے بچے کو تمیز اور آداب کا پتہ ہو۔ اسے پتہ ہو کہ استاد کو کیسے احترام دکھانا ہے۔ اگر اس پر سختی نہ کی تو وہ شاید تعلیم میں پیچھے رہ جائے۔ایک ہلکا سا گال پر تھپڑ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔
    تشدد اور اس ہلکے پھلکے تھپڑ میں ہم تمیز نہیں کرسکتے۔؟

    مجھے اپنے گائوں کے سکول سے لے کر کالج اور یونیورسٹی تک کے استاد یاد آئے۔ جن کے فیض کے بقول یہاں تک پہنچا ہوں۔کہیں سے پیار تو کہیں سے مار ملی لیکن ان سب کا مقصد میری بھلائی تھا ۔ کہاں گئے رومی جیسے عظیم شاگرد جو اپنے گرو شمس تبریز کے حکم پر ایک شراب خانے پر قطار میں لگ کر کھڑے تھے کہ رومی کی انا توڑنا مقصود تھا یا پھر رومی کے گھر جب ایک طوائف شمس تبریز سے ملنے آئی تھی تو ہر کوئی کانپ گیا تھا ۔ رومی کے گھروالوں نے کہا ایک طوائف اور رومی کے گھر کی چھت کے نیچے؟

    نیلے آسمان کی طرف اشارہ کر کے بے نیاز شمس بولا تھا اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پہلے بھی تو ہم سب ایک ہی چھت کے نیچے رہ رہے ہیں؟
    رومی کا بیٹا ناراض ہوگیا تھا لیکن کیا رومی اپنے استاد کو ناں کر سکا۔محبت کے چالیس لازوال اصولوں نے ایسے ہی جنم نہیں لے لیا تھا۔رومی کو اپنے استاد شمس کے کئی امتحان پاس کرنے پڑے تھے۔ آج کے بچے تو استادوں سے ہی معافی منگواکر فخر کرتے ہیں!

    سقراط کو بڑا آدمی اس کے شاگرد افلاطون نے بنایا تھا۔افلاطون اگر اپنے استاد کے آخری دنوں کی داستان نہ لکھتا تو آج سقراط کو کون جانتا؟
    کہاں گئے عباسی بادشاہ ہارون الرشید کے بچوں جیسے شاگرد جن کے بارے میں سنا تھا کہ وہ دونوں بھائی ایک دن اس بات پر ایک دوسرے سے لڑ پڑے تھے کہ آج اپنے استاد کے سامنے جوتی پائوں میں کون رکھے گا !کہاں گئے ایسے استاد اور ایسے شاگرد؟ شاید وقت کے صحرا کی پرانی دُھول نے سب کچھ چاٹ لیا !

  • ایان علی سے الیاس گھمن تک – ظفر عمران

    ایان علی سے الیاس گھمن تک – ظفر عمران

    ظفر عمران جب ایان علی کا ”رنگے ہاتھوں“ پکڑے جانے والا واقعہ سامنے آیا، تو مجھے علم ہوا، کہ ایان علی کوئی ماڈل ہے۔ ہمارا معاشرہ ایسا ہے کہ ہمیں گریبان میں جھانکنے کا بہت شوق ہے؛ خاص طور پہ جب یہ گریبان کسی عورت کا ہو۔ سوشل میڈیا پہ تو جو غلاظت پھیلائی گئی، سو پھیلائی گئی، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے بھی خُوب مسالا چھڑکا۔ میں کوئی پارسا نہیں کہ کہوں میں کچھ بُرا نہیں دیکھتا، بُرا نہیں کہتا، بُرا نہیں سُنتا۔ آپ مجھے نارسا کہ لیں۔ بے خبر سمجھیے۔ مجھے پروپگنڈا سُننے، دیکھنے سے بالکل دل چسپی نہیں رہی۔

    ہمارے یہاں مخالفین یا سیاست دانوں کو بدنام کرنے کی جو مہم چلائی جاتی ہے، ایان علی جیسے اسکینڈل اس کی مثال ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا، کہ سیاست دان خامیوں سے پاک ہیں، لیکن سیاست دان نہیں، تو کون ہے، جس کے ہاتھ صاف ہیں؟ (افواہوں کے مطابق سیاست دان کا مال لے جاتے) رنگے ہاتھوں پکڑی جانے والی کا چالان عدالت میں پیش کرتے چار پانچ یا شاید چھہ مہینے لگا دیے گئے۔ مقصد کیچڑ اچھالنا تھا، اچھالا گیا۔ کیچڑ اچھالنے کا وقفہ بڑھایا گیا۔ (افواہوں کے مطابق ”سیاست دان“ سے بارگینگ کے لیے پریشر بڑھایا گیا) ایسے میں جتنے منہ اتنی باتیں۔ ایک کی چار چار لگائی گئیں۔

    شوبز سے وابستہ خاتون تو ویسے بھی پبلک پراپرٹی ہوتی ہے۔ تماش بینوں کی نظر میں وہ کسی فاحشہ سے کم نہیں ہوتی۔ شوبز سے جڑے ہونے کی وجہ سے میں اتنا کہتا ہوں کہ اس میدان میں کام کرنے والے ویسے ہی ہیں، جیسے کسی اسکول، مدرسے، اسپتال، عدالت، پولِس، فوج، کھیل، اور دوسرے اداروں میں کام کرنے والے؛ کام کرنے والیاں۔ بہتان تراشنے والے تو اسکول کالج میں پڑھنے پڑھانے والیوں، اسپتال میں کام کرنے والیوں سے لے کر، ہر اس عورت مرد پہ انگلی اٹھاتے ہیں، جو اپنے گھر کا نہ ہو۔ ایان علی کو چھوڑیے، سوشل میڈیا پہ دیکھ لیجیے، غیر لڑکیوں کی تصویروں کو فوٹو شاپ سے کیسے کیسے ”سنوارا“ جاتا ہے۔ کیا دین دار، اور کیا بے دین؛ کسی کی تخصیص نہیں۔

    گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پہ الیاس گھمن نامی کسی شخص پر الزام لگایا گیا۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا، میں پارسا نہیں، نارسا ہوں؛ بے خبر کہ لیجیے، تو الیاس گھمن کون ہے، نہیں جانتا۔ میں نے کسی ایسی پوسٹ کو نہیں‌ پڑھا، لیکن ”نیوز فیڈ“ میں آدھا ادھورا، ایک سطر، دو سطر پہ نظر پڑتی رہی۔ اندازہ ہوا کہ یہ صاحب دین کے معلم مشہور ہیں، اور ان سے ایک دُنیا واقف ہے۔ کچھ دین دار دوستوں کے بیان نظر سے گزرے، جن کا خلاصہ یوں ہے، کہ کسی پر بنا ثبوت الزام نہیں لگانا چاہیے، کیوں کہ دین کا معاملہ ہے۔ اچھی بات ہے، کسی پہ ایسا الزام نہیں لگانا چاہیے، جس کے آپ گواہ نہیں، یا ثبوت نہ ہو؛ کیوں کہ قانون، اخلاق، اور دین اس کی اجازت نہیں دیتے۔ بہتان مت تراشیں، نشانہ الیاس گھمن نامی دین کا رکھوالا ہو، یا ایان علی ماڈل/اداکارہ۔

    دین کے معلمین نے ایان علی پہ لگاے جانے والے بہتانوں کی کبھی مذمت نہیں کی۔ دین کے اساتذہ نے سیاست دانوں پر لگاے گئے بہتانوں کی کبھی مذمت نہیں کی۔ کچھ نے ایسا کیا ہوگا، لیکن اکثریت کی بات ہو رہی ہے۔ کاش دین کے معلم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے ہوتے، اور ایک دوسرے کا مقام طے کرنے کے بجائے اخلاق سنوارنے پہ توجہ دیتے۔ اس پہ زور ہوتا کہ اے دین دارو! مسٹر ٹین پرسینٹ کہتے ہو، تو ثبوت مہیا کرنا ہوگا، ورنہ یہ بہتان ہے، اور بہتان کا گناہ یہ، سزا یہ مقرر ہے۔ کسی مریم کو گھر سے بھاگتے نہیں دیکھا، کسی سیتا وائٹ کی بچی کے تم گواہ نہیں ہو، ثبوت نہیں ہے، تو خاموش رہو۔ جن کے پاس ثبوت ہے، انھیں بولنے دو۔ لیکن ایسا کب ہوا؛ نہیں‌ ہوا۔ ہوتا تو دین دلوں میں اترتا، فرقہ پرستی کی میل نہ جمتی؛ لیکن معلمین اخلاق کا وہ نمونہ نہ پیش کر سکے؛ ایسا بھی ہو سکتا ہے، اس میں میری بے خبری کا، نارسائی کا عمل دخل ہو۔

    صاحب! دین کے معلمین کو بہتان کی تشریح کرنا اب یاد آیا ہے، جب انگلی ان کی طرف اٹھی ہے؟۔ ایان علی، بے نظیر، آصف علی زرداری، مریم نواز، سیتا وائٹ عمران خان، شیخ رشید کے اسیکنڈل اور ڈھیروں نام، ان کی باری ان کا ایمان نہیں جاگا، تو کوئی بات نہیں۔ لیکن اے معصوم دین دارو، یہ بات سچ ہے، کہ کسی پہ بہتان لگانے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے، اگر آپ پر، آپ ہی کے متعلق، یا آپ کی عزیز ترین ہستی کے بارے میں بہتان کی ایسی ہی گٹھڑی رکھ دی جاے، تو آپ یہ بوجھ اٹھا کر کتنی دور تک جا سکیں گے؟۔ کیا آپ دین کی تعلیمات سے دور رہ کر دین دار کہلانا پسند کریں گے؟

    (ظفر عمران تمثیل نگار، ہدایت کار، پروڈیوسر ہیں.)

  • اخلاق، تربیت اور بچے – انوار الحق

    اخلاق، تربیت اور بچے – انوار الحق

    انوار الحق دلیل پر بچوں کی تربیت کے حوالے سے تین مضمون نظر سے گزرے، جن میں نہایت عمدگی سے اس بات کا احا طہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ بچوں کی تربیت کیسے کی جائے؟ ایک بات جو اس حوالے سے ذہن میں کھٹکتی ہے کہ بچوں کی تربیت کے معاملے میں بھی ہم دو انتہاؤں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اگر ایک طرف ایسے والدین ہیں جنہیں یہ تک نہیں پتا کہ ان کے بچے سارا دن، ساری رات کیا کرتے ہیں تو دوسری طرف ایسے والدین بھی ہیں جو اپنے بچوں کو گھر کے اندر ہوا میں ہاتھ کھول کر اسے بھی اپنے اندر جذب نہیں کرنے دیتے۔ اتنی سختی یا نرمی معاشرے کا عموم تو نہیں ہے مگر ایسے لوگ موجود ضرور ہیں۔

    معاشرے کا بچوں کے حوالے سے مقبول عام رویہ یہی ہے کہ ان کی خوراک، تعلیم، صحت اور ضروریات زندگی کا ہر طرح سے خیا ل رکھو، تعلیم میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نظر آئے تو تنبیہ کرو اور عمومی معاشرتی مزاج کے خلاف کوئی عمل سرزد ہوجائے تو اس پر گرفت کرو۔ چونکہ ہمارا عمومی معا شرتی مزاج زیادہ مذہبی یا تعلیم و تعلم سے شغف رکھنے والا نہیں ہے، سو ایسے میں مذہب سے متعلقہ امور اور کتب بینی و مطالعے کے حوالے سے زیادہ سختی دیکھنے میں نہیں آتی۔ اخلاقیات کا تصور مذہب و تعلیم سے وابستہ ہے، جب مذہب عام لوگوں کی زندگیوں میں چند عبادات سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا تو اخلاقی تربیت میں کمی رہ جاتی ہے۔ بعض اوقات ایک انسان عبادات میں پیش پیش ہونے کے باوجود اخلاقیات اور معاملات کے میدان میں ایسی ایسی حرکتوں کا مرتکب ہو رہا ہوتا ہے، جن کے بارے میں ہم اکثر کہتے ہیں کوئی مسلمان ایسا کیسے کرسکتا ہے؟

    تعلیم کے ساتھ بچوں کی اخلاقی اصلاح کا تصور جڑا ہوا ہے اور بلا شبہ اچھے اساتذہ بچوں کی اخلاقی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں لیکن موجودہ دور میں رسمی اور فنی علوم کی زیادتی اور سلیبس پر عمل درآمد کے اہتمام نے اخلاقی تربیت کی حیثیت ثانوی کردی ہے۔ اس کی ایک اور وجہ استاد اور شاگرد کے مابین تعلق کی نوعیت کی بھی ہے جو زیادہ تر کاروباری ہو چکی ہے۔ سو والدین، مذہبی ادارے اور تعلیم مجموعی طور پر اخلاقی تربیت کرنے سے قاصر ہیں۔ میڈیا بھی ایک اہم فیکٹر کے طور پر سامنے آیا ہے اور اخلاقیات کی خرابی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس ماحول میں ایسی تربیت کرنا جو ان تینوں مضامین میں بیان کی گئی ہے، اگر ناممکن نہیں تو بہت دشوار ہے۔ اچھی تربیت کے لیے عملی صورت وہی ہے جو مجاہد تارڑ صا حب نے بیان کی ہے کہ ہر طرح سے جدیدیت سے متعلق رہنا ہے اور بچ کے بھی رہنا ہے۔ اور ذرا سی محنت و کاوش سے یہ ممکن ہے۔

    بچوں کی تربیت کے ضمن میں ایک بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ انھیں سختی کا احساس نہ ہو۔ انھیں یہ نہ لگے کہ ان پر بےجا پابندیاں لگائی گئی ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنی زندگی سے لطف بھی نہیں اٹھاسکتے۔ اگر ایسا ہوا تو ساری تربیت صرف سامنے سامنے مئوثر رہے گی، اس کے کوئی دوررس نتائج نہیں مرتب ہونگے۔ بچوں کو والدین بےشک اپنے طریقے سے چلائیں، ان پر نظر رکھیں، کمپیوٹر اور موبائل کے استمعال کے حوالے سے احتیاط برتیں، بچے کے دوستوں سے متعلق واقفیت رکھیں، بچے کا وقت کن کاموں میں صرف ہو رہا ہے، اس کا خیال رکھیں مگر بچے کی تخلیقی صلاحیت اور آگے بڑھنے کے جذبے کو مت کچلیں۔ ہر ممکن طریقے سے بچوں کی نگرانی اور راہنمائی کریں مگر ان کی خود اعتمادی کو مجروح نہ ہونے دیں۔ تربیت کا تقاضا ہے کہ سختی کے ساتھ اس پہلو کو بھی مدنظر رکھا جائے تاکہ بچے کی زندگی میں کوئی خلا نہ رہ جائے۔

    آخر میں ممتاز مفتی کی کتاب تلاش سے ایک بات کہ ہر بچے کے لیے اس کا اپنا دور جینا ضروری ہوتا ہے۔ اپنے بچوں کی تربیت بھی کریں اور انہیں اپنا دور بھی جینے دیں۔ اب یہ والدین پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح اس توازن کو برقرار رکھتے ہیں۔