Tag: اخبارات

  • صحافت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے – رضوان الرحمن رضی

    صحافت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے – رضوان الرحمن رضی

    رضوان رضی اس وقت پاکستان کا صحافتی منظرنامہ دو واقعات سے گونج رہا ہے۔ ابھی سیرل المیڈا کی خبر پر اٹھنے والا شور وغوغا مدھم نہیں ہوا تھا کہ عروس البلاد کراچی میں ایک خاتون اینکر کو رینجرز کے ایک اہل کار نے ’کارِ سرکار میں مداخلت پر‘ چٹاخ سے ایک تھپڑ جڑ دیا۔ دونوں واقعات کا بظاہر ایک دوسرے سے دور کا بھی تعلق بھی نہیں نظر نہیں آتا لیکن اگر احتیاط سے دیکھا جائے تو دونوں واقعات کے ڈانڈے ایک ہی جگہ سے جا کر ملتے ہیں۔

    کوئی دور تھا کہ صحافت میں صرف اہل الرائے اور نظریاتی لوگ ہی آیا کرتے تھے، کیوں کہ صحافت میں تنخواہیں بہت کم ہوا کرتی تھیں اور وہ بھی کبھی کبھار ہی ملتی تھیں۔ جب ہم جیسے جونیئرز اپنے سینیئرز سے اس حوالے سے شکوہ کناں ہوتے تو جواب ملتا کہ ’جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں‘؟ صحافیوں کو معاشرے میں بیک وقت رحم اور خوف کی نگاہوں سے دیکھا جاتا۔ ہمیں بتایا جاتا کہ صحافت واحد شعبہ ہے جس میں پچاسی فی صد سے زائد لوگوں کو تنخواہ تو ملتی ہی نہیں تھی۔ اس حوالے سے ضلعی اور علاقائی نامہ نگاروں کا حوالہ دیا جاتا جو ہر گلی محلے میں اعزازی طور پر کام کرتے اور کسی عوضانے یا تنخواہ کے طلب گار نہ ہوتے۔ بڑے بڑے اخبارات بھی ان کو فی سطر کے لحاظ سے ادائیگی کرتے جو ان کے قلم کی سیاہی کا خرچ بھی پورا نہ کرپاتی۔

    پھر گذشتہ صدی کی اسی کی دہائی میں لاہور میں ایک رحجان ساز تبدیلی آئی جب کچھ صحافیوں نے ایڑیاں اٹھا کر میڈیامیں شامل ہونے کی کوشش کی اور علاقائی نامہ نگاروں کو کہہ دیا گیا کہ ’’اپنا کھا آنا، اور ہمارے لیے لیتے آنا‘‘یعنی ان اخبارات نے پورے ملک کے ہر گلی محلے میں پھیلے اپنے نمائندگان اور نامہ نگاروں کے ذمے لگایا کہ وہ ہر محلے سے انہیں اس قدر رقم بھیجیں ، بھلے وہ اخبار اس قابل ہے یا نہیں کہ اس کو اشتہار دیا جا سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے پورے معاشرے میں بلیک میلروں کے سیلاب کا ایک ریلا کھول دیا۔ کبھی تھانے بکتے ہوں گے یا پھر ائیرپورٹس پر امیگریشن کے کاؤنٹر بکتے ہوں گے اب شہروں کے بیورو بھی بکنے لگے۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اخبارات نے پولیس کے متوازی ایک حکومت قائم کر لی جو ہر سرکاری ادارے کی بدعنوانی کے یا تو حصہ دار تھے یا پھر پشتی بان۔ اور جہاں پر وہ یہ نہ ہوتے تو اس کی خبر چھپ جاتی۔

    ہمیں یاد ہے کہ جب ہمارا رشتہ گیا تو ہماری ہونے والی زوجہ محترمہ کی نانی (مرحومہ) نے دریافت کیا کہ ’لڑکا کرتا کیا ہے‘‘ تو انہیں بتایا گیا کہ وہ اخبار نویس ہے۔ اس پر انہوں نے بڑے تحمل سے کہا کہ وہ تو ٹھیک ہے لیکن کام کیا کرتا ہے؟ ہماری بیٹی کو کہاں سے کھلائے گا؟ ہم انہیں شادی کے دس سال بعد تک نہ سمجھا پائے کہ اس شعبے میں بھی تنخواہ دینے کا رواج ہو گیا ہوا ہے۔ اس صدی کی ابتدا تک اگرچہ حالات بہت خراب ہو چکے تھے لیکن بلیک میلنگ کے لیے آنے والے صحافی کا قلم جیب میں ہی چھپا ہوا تھا اور خال ہی باہر آتا، جب اسے اپنا تعارف کروانے کی ضرورت ہوتی۔

    لیکن نجی ٹی وی کی آمد نے تو بیچ چوراہے بھانڈہ پھوڑ دیا۔ اب تو صحافی (خصوصاً علاقائی) ہاتھ میں مائیک ایسے لہراتا ہے جیسے مولا جٹ گنڈاسہ لہرایا کرتا تھا۔ لاہور کے ایک ٹی وی نے اپنے ایک نامہ نگار کو ایک جعلی ڈی ایس این جی محض اس لیے بنوا کر دی ہے کہ وہ اپنے علاقے کو کنٹرول کر سکے۔ یار دوستوں کو معلوم ہے کہ اس وین کے اوپر جڑی ڈش کا مصنوعی سیارے سے دور کا بھی واسطہ نہیں لیکن اس سے کسی کو کیا لینا دینا، ساہی وال کی نواحی اوکاڑہ چھاؤنی کے علاقے کا یہ شاہکار رپورٹر مختلف صنعت کاروں اور تاجروں کے گھروں کے باہر اپنی یہ ڈی ایس این جی کار کھڑی کرتا ہے اور انہیں دھمکی دیتا ہے کہ وہ ان کے کاروبار کی بد اعمالیوں اور سیاہ کاریوں پر ’براہِ راست‘ نشریات شروع کرنے لگا ہے۔ اور من کی مراد پا کر واپس آتا ہے۔ ایک دفعہ جب ایک کثیر القومی ادارے کے مقامی دفتر نے ان کے مطالبات پورے کرنے سے انکار کیا تو انہوں نے خبر چلوا دی کہ اس ادارے کے پاس لاکھوں ایسی سمیں موجود ہیں جو طالبان کو فراہم کی جاتی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سب سے پہلے کی دوڑ میں شامل میڈیا نے بغیر تحقیق کے اس پر پروگرامات بھی کر ڈالے۔ وہ تو بعد میں جب اصل حقیقت آشکار ہوئی تو مقامی پولیس اور ملک کے سب سے بڑے ’خفیہ ادارے ‘ نے مل ملا کر معاملہ دبا دیا۔ کیوں کہ اس میں کچھ ’پردہ نشینوں‘ کے بھی نام آتے تھے۔

    لیکن اب ہوا یہ ہے کہ اس معاشرے نے دو دہائیوں میں میڈیا متاثرین کی جو ایک نسل تیار کی ہے وہ اب پیسے کے زور پر میڈیا مالکان کی صف میں شامل ہو رہی ہے۔ چوں کہ ان کو بلیک میل کر کے ان کی راتوں کی نیند حرام کرنے والا صحافی دراصل ایک رپورٹر ہی ہوا کرتا تھا، اس لیے صحافت اور صحافی (رپورٹر) سے نفرت ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اس لیے نئے میڈیا مالکان کا بس نہیں چلتا کہ وہ صحافیوں کو ذلیل کر کے اپنی عزتِ نفس مجروح کرنے کا انتقام ان سے لیں۔

    اب مسئلہ یہ ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس کے ایک اجلاس کی اندرونی کہانی کی خبر ایک ایسے صاحب نے دی جن کا رپورٹنگ کا ایک دن کا بھی تجربہ نہیں۔ ایک پیدائشی رپورٹر کے طور پر ہمیں معلوم ہے کہ جس طرح کی سمری موصوف کے ہاتھ لگی ہے، اس طرح کی بہت سی دستاویزات روزانہ کی بنیاد پر ایک رپورٹر کے ہاتھ لگتی ہیں، لیکن اس کے اندر کا سنسر بورڈ فوراً اس طرح کی خبروں کو مسترد کر دیتا ہے۔ چوں کہ موصوف کے فرشتوں نے تمام عمر ایسا کام نہیں کیا تھا بلکہ انہیں تو سکھایا ہی چھپی ہوئی خبر پر تبصرہ کرنا تھا، اس لیے موصوف نے اپنی خبر میں وہ اعلیٰ قسم کی بونگیاں ماری ہیں کہ صحافت سر پیٹتے ننگے سر بازار میں نکل آئی ہے۔

    میڈیا مالکان نے دوسرا انتقام صحافت سے یہ لیا ہے کہ صحافی کون ہے؟ اور اس کی اوقات کیا ہے؟ صحافی کو اس کی اوقات یاد دلوانے کے لیے اسے کیمرے کے سامنے سے اٹھا کر کیمرے کے پیچھے بٹھا دیا گیا اور کیمرے کے سامنے ایک حشرسامان بیگم جان براجمان ہو گئی ہیں۔ محرومی اور ڈپریشن کا شکار خبر سننے کے لیے رکے یا نہ رکے، اس بیگم جان کو دیکھنے کے لیے ضرور رکتی ہے۔ جس خاتون کو ’مدعہ ای اے بھائی‘ کہہ کر پورے رپورٹنگ روم میں منہ نہیں لگایا کرتا تھا، اب وہ ملک کی ٹاپ رینکنگ اینکر ہوتی ہے۔ یہ وہ انتقام ہے جو ہر میڈیا مالک نے ہم جیسے صحافیوں سے لیا ہے۔ دوسری طرف ہر تعلیم فروش، سوتر فروش، سگریٹ فروش، کیبل فروش اور ضمیر فروش اب میڈیا مالکان کی صف میں گھس آیا ہے۔

    اب کراچی میں تھپڑ کھانے والی خاتون کو اگر میڈیا پروڈکشن یا صحافت کے معیار کے طور پر دیکھیں تو کسی طور بھی پرائم ٹائم کیا انہیں سرے سے ہی سکرین پر نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن سہاگن وہ جو پیا من بھائے۔ چوں کہ وہ اس چینل کے مالک صاحب کو پسند ہیں ، اس لیے ’ضروری ہیں‘۔ اس کے بعد انہوں نے جو حرکت فرمائی وہ سبحان اللہ۔ ہمیں پہلے دن بتایا گیا تھا کہ ادارے کا نکتہ نظر اس کے سربراہ سے معلوم کیا جاتا ہے۔ اگر پولیس کا آئی جی نہ ملے تو کم ازکم ڈی آئی جی سے کم بات نہ کرنا۔ لیکن موصوفہ نے تو ایک سپاہی کو ہی بتانے کی کوشش کی کہ اس کے گھر میں ماں بہن ہوتی ہے کہ نہیں۔

    بہادر کمانڈو جنرل پرویز مشرف صاحب کی اعلیٰ پالیسیوں کے باعث ان کے ادارے کے بارے میں لوگوں کی پسندیدگی اس انتہا کو پہنچی تھی کہ ادارے کو یہ بات نوٹی فائی کرنا پڑی تھی کہ ادارے کا کوئی افسر یا ملازم یونیفارم میں عوامی جگہوں پر نہ جائے۔ یہ دور صحافت میں آیا ہی چاہتا ہے کہ کسی بھی جگہ صحافی کا تعارف کروانے پر لوگ باقی کام چھوڑ کر آپ کی ’آؤ بھگت‘ میں مصروف ہو جائیں۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ پیشے کے خانے میں استاد، لکھنا شروع کردیں کہ اب صحافی کا تعارف کروانا بھی ایک جرم سا لگنے لگا ہے۔
    ان دونوں واقعات کے پس منظرمیں صحافتی پیشہ وراریت کی نہیں اخلاقی تربیت کی شدید کمی کارفرما نظر آتی ہے اور اس عمر میں ان کو یہ باتیں تو سکھائی نہیں جاسکتیں کیوں کہ یہ بنیادی باتیں انہیں ماں کی گود سے سیکھنا تھیں جہاں سے نکلے انہیں عرصہ بیت چکا ہے۔

  • بھارت سے پاکستان کا کیا موازنہ؟-ہارون الرشید

    بھارت سے پاکستان کا کیا موازنہ؟-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    جی ہاں! ظلم ہے اور اس کا تدارک ہونا چاہیے۔ سیاست میں جرائم پیشہ ہیں ان سے چھٹکارا چاہیے۔ نئی پولیس چاہیے، نئی عدلیہ چاہیے‘ سیاسی جماعتوں کی تشکیل نو۔ سب سے بڑھ کر تعلیم کا فروغ۔ بھارت سے مگر پاکستان کا کیا موازنہ۔

    بھارتی اخبارات دیکھے جائیں تو شاید کچھ اور تفصیلات مل جائیں۔ تفصیلات سے مگر کیا حاصل۔ چھوٹی سی کہانی ہے مگر عبرت کی ایک پوری دنیا۔ اڑیسہ کے سرکاری ہسپتال میں دانا ماجھی کی بیوی نے دم توڑ دیا۔ روپیہ نہ تھا کہ ایمبولینس کا کرایہ ادا کر سکتا۔ کمبل میں نعش لپیٹ کر اس نے کندھے پر رکھی اور اپنے گائوں کی طرف چلا۔ سولہ کلومیٹر تک چلتا رہا تاآنکہ ایک ٹی وی چینل کو خبر ہوئی۔ انہوں نے گاڑی کا بندوبست کیا مگر اس سے پہلے فلم بنانے میں کوتاہی نہ کی۔چھوٹی سی کمسن بیٹی اس کے ساتھ روتی ہوئی بھاگتی جاتی تھی۔

    یہ ہے بے درد بھارت کا اصل مکروہ چہرہ‘ ہمارے بعض لیڈراور دانشور جس کی مدح کرتے مرے جاتے ہیں۔ ہندوستان جاتے تو لوٹ کر آنے پر طرح طرح کی طلسمی کہانیاں سناتے ہیں۔ فکری بِھک منگے اور کھوکھلے۔ اس معاشرے کے باطن میں کم ہی جھانکتے ہیں جو آج کی دنیا میں‘ واحد بت پرست سماج ہے۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا‘ ہمارے وزیراعظم اور وہ میڈیا گروپ بھی جو سب سے بڑا ہونے کا دعویدار ہے۔ ایک اعتبار سے پورا میڈیا ہی‘ خبرنامے مکمل نہیں ہوتے اگر کسی بھارتی فلم یا اداکارہ کاجلوہ نہ ہو۔

    47 سال قبل 1969ء میں صحافت سے وابستہ ہونے کے لیے لاہور آیا تو تلخ تبصرے اکثر سننے میں آتے۔ ہندوئوں نے لاہور میں گلاب دیوی ہسپتال بنایا‘ گنگا رام ہسپتال تعمیر کیا‘ مسلمانوں نے کیا کیا؟ پاکستان وجود میں آیا تو اس خطے میں فی کس آمدنی 80 ڈالر تھی اور بھارت میں 180 ڈالر۔ مسلمان غریب تھے۔ کاروبار سے وہ کبھی وابستہ ہی نہ تھے۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان صدیوں پہلے انہوں نے بھلا دیا تھا کہ رزق کے دس میں سے نو حصے تجارت میں رکھے گئے۔ کاشتکاری کو انہوں نے شعار کیا یا سپاہ گری اور دوسری نوکریوں کو۔ نتیجہ اس کے سوا کیا نکلتا۔

    قائداعظمؒ کے سارے قول سچے ہوئے۔ بار بار انہوں نے کہا تھا : پاکستان لامحدود وسائل کی سرزمین ہے۔ مسلمان کی سرشت میں آزادی ہے۔ ترکی اور ملائشیا کی طرح مواقع فراہم ہوں تو وہ کرشمے کر دکھاتا ہے۔ شرط وہی ہے کہ اجتماعی حیات میں ابدی اصولوں کو ملحوظ رکھا جائے۔ پاکستان جب تک مکمل طور پر شورش اور بدعنوان حکمرانوں کی گرفت میں نہ آ گیا‘ بھارت کے مقابلے میں اس کی شرح نمو زیادہ رہی۔ بعض اوقات دو سے تین گنا تک۔ 1988ء تک ہم بھارت کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھلتے پھولتے رہے‘ تاآنکہ ہم نے اس جمہوریت کا مزہ چکھا‘ جس کے کرتا دھرتا سیاست کے نام پر تجارت کرتے رہے۔ لوٹ لوٹ کر ملک کی دولت ملک سے باہر بھیجتے رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ جناب آصف علی زرداری اور جناب نواز شریف۔ اس اثنا میں بھارت نے جواہر لعل نہرو کے سوشلزم سے نجات پائی اور آزاد منڈی کی نعمت کا ادراک کر لیا۔ نوکر شاہی کی گرفت ڈھیلی کر دی گئی اور دوسرے ملکوں کے ساتھ لین دین کے دروازے کھول دیے۔

    پاکستان کی کاروباری قوت کو پہلے بھٹو نے کچلا‘ پھر ان کی اولاد اور شریف خاندان نے۔ بینک‘ انشورنس کمپنیاں اور بڑی بڑی صنعتیں قومیائی گئیں۔ صرف بینکوں کو اچک لینے سے ملک کو 25ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ سماجی انصاف ‘جی ہاں انصاف ضروری تھا۔ اللہ کی زمین پر عدل سے بڑی کوئی سعادت نہیں‘ جہاں اس کے بادل برستے ہیں آسودگی کی فصل وہیں اگتی ہے۔ بھٹو نے عام آدمی کو آواز عطا کی۔ سیاست میں اس کے کردار کو فروغ دیا۔ مگر یہ کیوں ضروری تھا کہ کاروباری طبقے کی کمر توڑ دی جائے۔ سب جانتے ہیں کہ اس کی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لائے بغیر کوئی معاشرہ آسودہ نہیں ہو سکتا۔ اس پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے‘ جیسا کہ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے کمال اختصار اور کمال بلاغت سے‘ مالک بن اشتر کے نام اپنے خط میں اشارہ کیا ہے۔

    عرب کبھی تجارت کے سب اسرار سے آشنا تھے۔ ان میں سے ایک سیدنا عمر فاروق اعظمؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ کہا کہ مدینہ منورہ میں بڑے پیمانے پر وہ گھوڑے پالنا چاہتا ہے ۔ فرمایا: ضرور‘ مگر مدینہ کا چارہ تم استعمال نہیں کر سکتے۔ اس نے احتجاج کیا اور اپنے حق کے لیے وہ احتجاج کرنے والے لوگ تھے۔ فرمایا: چارہ محدود ہے‘ ایک آدھ گھوڑا پالنے والا بیچارہ کیا کرے گا؟

    بس اتنی سی ضرورت ہوتی ہے ‘کاروبار ہو یا سیاست‘ صنعت یا سرکاری و نجی دفاتر‘ نگرانی کے ایک چُست نظام کی۔ آزادی ہی میں صلاحیت پوری طرح جلوہ گر ہوتی ہے۔ آدمی میں مگر غلبے کی جبلت پائی جاتی ہے۔ بے مہار ہونے کی اسے اجازت نہ ملنی چاہیے۔ اس نکتے کا جس معاشرے نے ادراک کر لیا‘ کوئی چیزاس کے فروغ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ مکمل آزادی اور پورا ڈسپلن‘ قانون کی حکمرانی‘ ایسی پولیس اور عدالتوں کے ذریعے جو حکمرانوں کے آلہ کار نہ ہوں۔

    بے شمار الجھنوں اور پیچیدگیوں کے باوجود‘ جن میں سب سے بڑی یہ ہے کہ اقتدارپتھر دلوں کے قبضہ قدرت میں ہے‘ پاکستانی معاشرہ‘ بھارتی سماج سے بدرجہا بہتر ہے۔ ہزاروں بھارتی کسان ہر سال خودکشی کرتے ہیں کہ قرض نہیں چکا سکتے اور بھوک مٹا نہیں سکتے۔ ہزارہا بھارتی عورتیں جنم لینے سے پہلے اپنے بچوں کو ہلاک کر دیتی ہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں شرح آمدنی بڑھ جانے کے باوجود دس کروڑ سے زیادہ بھارتی شہری فٹ پاتھوں پر پڑے ہیں۔ وہیں جنم لیتے‘ وہیں پروان چڑھتے اور وہیں مر جاتے ہیں۔ ان کا کوئی گھر نہیں ہوتا‘ ڈاک کا کوئی پتہ نہیں ہوتا‘ درحقیقت کوئی رشتہ اور ناتہ ہی نہیں۔ صرف دہلی میں ہر روز اوسطاً پچیس افراد بھوک سے مر تے ہیں۔ کیا پاکستان میں اس کا تصور بھی کیا جاسکتاہے۔ بہت سے مظلوم اور دکھی ہیں۔

    دکھوںکا مداوا چاہیے‘ اندمال چاہیے۔ جاگیرداروں کے جبر سے انہیں نجات دلانی چاہیے۔ اورنج ٹرینوں اورجنگلہ بسوں پر سرمایہ برباد کرنے کے بجائے ، ایسے منصوبوں پر لگانا چاہیے جن سے ملازمتیں پیدا ہوں۔ اس جورو ستم کے باوجود جس کے ہم سب ذمہ دار ہیں، بھارت سے پاکستان کا کیا مقابلہ؟کسی بھوکے کو اورکہیں کھانا میسر نہ ہو تو داتاگنج بخشؒ، عبداللہ شاہ غازیؒ اور بری سرکارؒ کے مزارپر لازماً ہو گا۔ شوکت خانم ہسپتال عجب شان سے سر اٹھائے کھڑا ہے‘ گنگا رام جس کے ایک کونے میں سما جائے۔ ایک کے بعد دوسرا۔جنرل خداداد مرحوم کی قبر کو اللہ نور سے بھر دے۔ نوے فیصد مریضوں کا مفت علاج کرنے والے الشفا ہسپتال کی سات سے زیادہ شاخیں کام کر رہی ہیں۔

    لاہور کے ہسپتالوںمیں ہر مریض اوراس کے لواحقین کو بہترین کھانا مفت ملتا ہے۔ پورے احترام کے ساتھ ۔ اپنی غربت اور بیماری کو ہم بہت روتے ہیں۔ بجا کہ لمبے دانتوں والے ستمگر بہت ہیں۔ مگر تیسری دنیا میں کہیں اور بھی کوئی ایدھی فائونڈیشن پائی جاتی ہے۔ کہیں اور بھی کوئی اخوت پائی جاتی ہے، کوئی بھی شہری جس سے بلا سود قرض حاصل کر سکے۔ انسانی خدمت پرنوبل انعام اگر حقدار ہی کو دیا جاتا تو عبدالستارایدھی اورڈاکٹر امجد ثاقب کو بہت پہلے مل چکا ہوتا؛ اگرچہ اس سے وہ بے نیاز ہیں۔

    بیس برس ہوتے ہیں،ڈاکٹر شعیب سڈل سے میں نے کہا: پاکستانی ہرسال 70 ارب روپے خیرات کرتے ہیں۔ پولیس افسر کی نگاہ سماج کی خرابیوں پر زیادہ ہوتی ہے۔ بولے: سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عرض کیا: آغا خان فائونڈیشن کا جائزہ ہے۔ بعد کے برسوں میں تصدیق ہوتی گئی۔ اب یہ کم ازکم دس گنا ہے۔ بعد کے مطالعوں سے معلوم ہوا کہ دوسری اقوام کے مقابلے میں اہل پاکستان دوگنا زیادہ خیرات کرنے والے لوگ ہیں۔ سمندر پار پاکستانیوں کے طفیل ، ان کے ایک کروڑ سے زیادہ غریب رشتہ دار قوت لایموت پاتے ہیں۔ ایک اندازہ ہے کہ رمضان المبارک میں دو کروڑ پاکستانیوں کے لیے افطار کا بندوبست ہوتا ہے۔

    تیس برس ہوتے ہیں ممتاز بھارتی دانشور خشونت سنگھ نے لکھا تھا: پاکستان میں ڈرائیور کو ”بیٹا‘‘ کہہ کر بلایا جاتا ہے۔ تقریبات میں وہی کھانا اسے دیا جاتا ہے جو دوسرے مہمانوں کو۔ بھارت سے پاکستان کا کیا مقابلہ۔

    جی ہاں! ظلم ہے اور اس کا تدارک ہونا چاہیے۔ سیاست میں جرائم پیشہ ہیں ان سے چھٹکارا چاہیے۔ نئی پولیس چاہیے، نئی عدلیہ چاہیے‘ سیاسی جماعتوں کی تشکیل نو۔ سب سے بڑھ کر تعلیم کا فروغ۔ بھارت سے مگر پاکستان کا کیا موازنہ۔

  • جونیئرصحافیوں کے لیے(حصہ دوم)-جاوید چوہدری

    جونیئرصحافیوں کے لیے(حصہ دوم)-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    ملک میں آج کل بچوں کے اغواء کا سلسلہ بھی چل رہا ہے‘ ہمارے چینلزروزانہ درجنوں خبریں دیتے ہیں‘ میں یہ ایشو بھی پڑھ رہا ہوں‘میں پولیس کے ان افسروں سے بھی رابطہ کر رہا ہوں جو مجرموں سے تفتیش کر رہے ہیں یا پھر اغواء کا ڈیٹا جمع کر رہے ہیں اور میں کوئی ریٹائر اغواء کار بھی تلاش کر رہا ہوں‘ یہ کوشش بھی میرے کام میں میچورٹی پیدا کر ے گی ‘ میں اسی طرح پانامہ لیکس‘ ٹی او آرز اور دنیا نے اس ایشو پر کیا قانون سازی کی اس پر بھی معلومات جمع کر رہا ہوں‘ یہ اضافی معلومات بھی آنے والے دنوں میں میرے کام آئیں گی۔

    میرے پاس کیرئیر کے شروع میں تین موٹے موٹے رجسٹر ہوتے تھے‘ میں اخبارات سے اہم خبریں کاٹ کر ان رجسٹروں میں چپکا دیتا تھا‘ میں کتابوں کے اہم واقعات‘ اہم معلومات اور خوبصورت فقرے بھی ان رجسٹروں میں درج کر دیتا تھا‘ یہ معلومات‘ یہ واقعات اور یہ خبریں میرے خزانے تھے اور یہ آج تک میرے کام آ رہے ہیں‘ 2010ء کے بعد آئی فون اور آئی پیڈ نے رجسٹروں کی جگہ لے لی‘ میں اب خبروں کی تصویریں کھینچ کر فون میں محفوظ کر لیتا ہوں اور اہم معلومات فون کی نوٹ بک میں ٹائپ کر لیتا ہوں‘ آپ بھی یہ کر سکتے ہیں‘میں پچھلے 22 برسوں سے ایک اور پریکٹس بھی کر رہا ہوں‘ میں شروع میں روز تین اخبار پڑھتا تھا‘ یہ تعداد اب بڑھتے بڑھتے 19 اخبارات تک پہنچ چکی ہے۔

    میں ان کے علاوہ اخبار جہاں‘ میگ‘ فیملی‘ ٹائم‘ نیوزویک اور ہیرالڈ بھی پڑھتا ہوں‘ میں یہ ٹاسک دو گھنٹے میں پورا کرتا ہوں‘ آپ دو اردو اور ایک انگریزی اخبار کو اپنی اولین ترجیح بنا لیں‘ آپ یہ تینوں اخبارات پورے پڑھیں اور اس کے بعد باقی اخبارات صرف سکین کریں‘ اخبارات کی 90 فیصد خبریں مشترک ہوتی ہیں‘ آپ ان نوے فیصد خبروں پر سرسری نظر دوڑائیں اور باقی دس فیصد ایکس کلوسیو خبروں کو تفصیل کے ساتھ پڑھ لیں‘ پیچھے رہ گئے میگزین‘ آپ افورڈ کر سکتے ہیں تو آپ یہ میگزین خرید لیں‘ دوسری صورت میں آپ دفتر یا بک اسٹالز پر ان میگزین کی ورق گردانی کریں اور آپ کو جو مضمون اچھا لگے آپ موبائل سے اس کی تصویر کھینچ لیں اور جب فرصت ملے موبائل کھولیں‘ مضمون کی تصویریں نکالیں اور پڑھنا شروع کر دیں یوں آپ کی فرصت بھی کارآمد ہو جائے گی اور آپ کے علم میں بھی اضافہ ہو گا یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے ہم اگر جونیئر صحافی ہیں تو ہم اتنے اخبارات اور رسائل کیسے خریدیں گے‘ مجھے بھی کیریئر کے شروع میں یہ مسئلہ پیش آیا تھا‘ میں نے اس کا دلچسپ حل نکالا‘ میں ایک گھنٹہ پہلے دفتر چلا جاتا تھا۔

    اخبارات کی فائل نکالتا تھا اور ساتھیوں کے آنے سے پہلے تمام اخبارات دیکھ لیتا تھا‘ آج کل انٹرنیٹ نے سہولت پیدا کر دی ہے‘آ پ دنیا جہاں کے اخبارات آن لائین پڑھ سکتے ہیں‘ آپ اسی طرح پانچ کالم نگاروں کی فہرست بنائیں‘ آپ انھیں روز ’’فالو‘‘ کریں‘ یہ عادت بھی آپ میں گہرائی پیدا کر دے گی‘ میں تیس برسوں سے کتابوں کی سمریاں بھی بنا رہا ہوں‘ میں جو کتاب پڑھتا ہوں‘ اس کی اہم معلومات‘ واقعات اور فقرے ڈائری میں لکھ لیتا ہوں‘ یہ ڈائری ہر وقت میرے بیگ میں رہتی ہے‘ مجھے جب بھی وقت ملتا ہے میں ڈائری کھول کر اپنی سمریاں پڑھتا ہوں‘ یہ عادت میری یادداشت کو تازہ کر دیتی ہے‘ میں نے پچھلے 16 برس سے بیگ کی عادت بھی اپنا رکھی ہے‘ میں درمیانے سائز کا ایک بیگ ہمیشہ ساتھ رکھتا ہوں‘ بیگ میں میرا رائیٹنگ پیڈ‘ آئی پیڈ‘ کوئی ایک کتاب اور ڈائری ہوتی ہے‘ مجھے جہاں فرصت ملتی ہے میں کتاب‘ ڈائری یا آئی پیڈ کھول کر بیٹھ جاتا ہوں‘ آپ بھی یہ عادت اپنا لیں‘ یہ آپ کے لیے بہت فائدہ مند ہو گی‘ مجھے سفر کے دوران‘ ریستورانوں‘ کافی شاپس اور واک میں اکثر اوقات لوگ ملتے ہیں۔

    یہ لوگ مجھ سے سوال بھی کرتے ہیں لیکن میں جواب دینے کے بجائے ان سے پوچھتا ہوں ’’آپ کیا کرتے ہیں‘‘ وہ جواب میں اپنا پروفیشن بتاتے ہیں اور میں پھر ان سے ان کے پروفیشن کے بارے میں پوچھنے لگتا ہوں یوں میری معلومات میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ آپ بھی اپنے ملاقاتیوں کو بتانے کے بجائے ان سے پوچھنا شروع کر دیں‘ آپ کے پاس بھی معلومات کا انبار لگ جائے گا اور آخری بات آپ یہ نقطہ پلے باندھ لیں جرأت اور غیر جانبداری صحافت کی روح ہے‘ آپ کسی قیمت پر غیرجانبداری کو قربان نہ ہونے دیں‘ آپ یہ پیشہ چھوڑ دیں لیکن آپ کی غیرجانبداری پر آنچ نہیں آنی چاہیے‘ آپ اپنے اندر سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے کا حوصلہ بھی پیدا کریں‘ آپ کو خواہ پوری دنیا گالی دے لیکن آپ سچ کو سچ کہتے چلے جائیں آخر میں آپ ہی کامیاب ہوں گے‘ آپ کبھی تالی بجوانے یا واہ واہ کرانے کے لیے جھوٹ کا رسک نہ لیں‘ کیوں؟ کیونکہ آپ جھوٹ لکھ یا بول کر تھوڑی دیر کے لیے تو واہ واہ کرا لیں گے لیکن بعد ازاںآپ کا پورا کیریئر تباہ ہو جائے گا۔

    میں آپ کو یہاں 2014ء کے دھرنوں کی مثال دیتا ہوں آپ کو یاد ہو گا 2014ء میں میڈیا دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا‘ پہلا حصہ دھرنے کا حامی تھا‘ اس حصے کو دھرنے میں انقلاب بھی نظر آتا تھا اور حکومت کی گرتی ہوئی دیوار بھی جب کہ دوسرے حصے کا خیال تھا یہ دھرنا کامیاب نہیں ہو سکے گا‘ یہ لوگ اور ان لوگوں کو پارلیمنٹ ہاؤس تک لانے والے دونوں ناکام ہو جائیں گے‘ عوام نے میڈیا کے پہلے حصے کے لیے جی بھر کر تالیاں بجائیں‘ یہ لوگ قائدین انقلاب بھی کہلائے جب کہ دوسرے حصے کو دل کھول کر برا بھلا کہا گیا‘ انھیں گالیاں بھی دی گئیں اور ان پر حملے بھی ہوئے لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ وہ لوگ جنھیں غدار‘ لفافہ اور بکاؤ کہا گیا یہ آج بھی پیشہ صحافت میں موجود ہیں۔

    یہ آج بھی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں جب کہ کنٹینر پر چڑھ کر تبدیلی کا چاند دیکھنے والے تمام صحافیوں کا کیریئر ختم ہو گیا‘ میڈیا مالکان آج ان کے ایس ایم ایس کا جواب تک دینا پسند نہیں کرتے چنانچہ نقصان کس کا ہوا؟ ان لوگوں کا جو وقتی واہ واہ کے ریلے میں بہہ گئے تھے اور فائدہ کن کو پہنچا جنہوں نے سیلاب میں بھی زمین سے قدم نہ اٹھائے‘ آپ دوسری مثال ایم کیو ایم کی لیجیے‘ الطاف حسین نے 22اگست کو ٹیلی فون پر خطاب کیا‘ یہ تقریر اینٹی پاکستان اور ناقابل برداشت تھی‘ ملک کے بچے بچے نے الطاف حسین کی مذمت کی‘ یہاں بھی میڈیا دوگروپوں میں تقسیم ہو گیا‘ پہلے گروپ کا مطالبہ تھا حکومت ایم کیو ایم پر پابندی لگا دے جب کہ دوسرے گروپ کا کہنا تھا جرم الطاف حسین نے کیا ہے۔

    ایم کیو ایم نے نہیں چنانچہ سزا صرف اور صرف الطاف حسین کو ملنی چاہیے‘ میں میڈیا کے دوسرے گروپ میں شامل ہوں‘ عوام مجھے اس جسارت پر بھی بڑی آسانی سے گالی دے سکتے ہیں لیکن حقائق اس کے باوجود حقائق رہیں گے اور حقیقت یہ ہے آپ دنیا میں جس طرح کسی شخص سے اس کی شہریت نہیں چھین سکتے بالکل آپ اسی طرح کسی سیاسی جماعت پر اس کے نظریات کی بنیاد پر پابندی نہیں لگا سکتے‘ مولانا مودوی کو 1948ء میں جہاد کشمیر کی مخالفت میں گرفتار کیا گیا‘یہ 1953ء میں تحریک ختم نبوت میں بھی گرفتار ہوئے اور ریاست نے انھیں موت کی سزا تک سنا دی لیکن جماعت اسلامی پر پابندی نہیں لگی‘ جئے سندھ کے جی ایم سید نے پوری زندگی پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا لیکن جئے سندھ پر پابندی نہیں لگی‘عوامی نیشنل پارٹی کے قائدخان عبدالغفار خان نے پاکستان میں دفن ہونا پسند نہیں کیا تھا۔

    ان کی قبر آج بھی جلال آباد میں موجود ہے لیکن اے این پی نے بعد ازاں حکومتیں بھی بنائیں اور یہ آج بھی ایوانوں میں موجود ہے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے عسکری ونگ الذوالفقار نے بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی لیکن ریاست پیپلز پارٹی پر پابندی نہ لگا سکی‘ پارٹی نے اس کے بعد تین بار وفاقی حکومتیں بنائیں‘ آپ اسی طرح بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کا ڈیٹا دیکھ لیجیے‘بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)‘ بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)‘ نیشنل پارٹی ‘ جمہوری وطن پارٹی اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی ان تمام بلوچ سیاسی جماعتوں پر مختلف اوقات میں مختلف الزام لگتے رہے لیکن ریاست نے ان پرکبھی پابندی نہیں لگائی‘میرے کہنے کا مطلب ہے سیاسی جماعتوں پر پابندیاں نہیں لگا کرتیں اور اگر ریاستیں یہ غلطی کر بیٹھیں تو پھر سیاسی جماعتیں ملیشیا بن جاتی ہیں‘ یہ ملک میں چھاپہ مار کارروائیاں شروع کر دیتی ہیں اور کوئی ملک یہ افورڈ نہیں کر سکتا‘ آپ اگر صحافی ہیں تو آپ پھر جرم اور مجرم کو ’’فوکس‘‘ کریں‘ آپ کبھی مجرم کے گھر اور لواحقین کو جرم کی سزا نہ دیں‘ ایم کیو ایم بطور سیاسی جماعت ایک حقیقت ہے‘ آپ اس حقیقت کو ہمیشہ حقیقت مانیں‘ پیچھے رہ گئے الطاف حسین اور ان کے سہولت کار تو تمام پاکستانی ان کی حرکتوں‘ ان کی فلاسفی اور ان کے خیالات کے خلاف ہیں‘ ریاست کو بہرحال ان کا منہ بند کرنا ہوگا۔

    آپ جونیئر صحافی ہیں‘ آپ یاد رکھیں حقائق داغ دار سیب کی طرح ہوتے ہیں‘ عقل مند لوگ سیب کا صرف گندہ حصہ کاٹتے ہیں‘ پورا سیب نہیں پھینکتے‘ آپ بھی صرف گندہ حصہ کاٹیں پورے سیب کو ٹھوکر نہ ماریں۔

    حصہ اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کرئے
  • نوجوان طلبا میں کتب بینی؛ دل کے پھپھولے – کبیر علی

    نوجوان طلبا میں کتب بینی؛ دل کے پھپھولے – کبیر علی

    محترم عامر ہاشم خاکوانی نے صحافت کے طلبہ میں ذوق مطالعہ کی نایابی پہ ایک کالم لکھا اورپہلے بھی لکھتے رہے ہیں۔ ہم صحافت کے طالب علم تو نہیں تاہم کتب بینی کے حوالے سے پچھلے چار پانچ برسوں میں مختلف جامعات میں جو کچھ تجربہ ہوا وہ پیش خدمت ہے۔ اس میں اپنے اساتذہ اور بڑوں کے ساتھ کچھ گلے شکوے ضرور ہیں تاہم مقصد تنقیص نہیں بلکہ اصلا ح ہے۔

    پہلی بات یہ ہے کہ اگر ایک طالب علم یونیورسٹی تک ذوق مطالعہ کے بغیر پہنچ گیا ہے تو اب اسے مطالعہ کی طرف راغب کرنا بہت مشکل کام ہے۔ چونکہ میں خود ایک یونیورسٹی سے چار سالہ بی ایس پروگرام کرنے کے بعد ایک دوسری یونیورسٹی سے ایم ایس کر رہا ہوں اور اپنے مطالعہ کے ذوق کو کسی نہ کسی طور سنبھالے پھر رہا ہوں، اس لیے کتب بینی کے ضمن میں کچھ ذاتی حالات و واقعات کا ذکر ناگزیر ہے۔

    میں نے چوتھی جماعت سے اخبار پڑھنا شروع کیا۔ والد صاحب کے کچھ دوست اکٹھے ہوتے اور گھنٹہ دوگھنٹے اخبار کا مطالعہ کرتے، کچھ خبروں پہ تبصرہ کرتے۔ میں بھی سنتا رہتا، کچھ باتیں سمجھ میں آتیں، کچھ نہ آتیں، تاہم اخبار پڑھنے کی یہ لت ایسی لگی کہ اب تک چھٹ نہیں سکی۔ اب بھی صبح جب تک اخبار کی سرخیاں اور دو چار کالم دیکھ نہ لوں چین نہیں پڑتا۔ تاہم ایمانداری کا تقاضا ہے کہ یہ واضح کر دیا جائے کہ چوتھی جماعت سے میٹرک تک اخبار بینی کسی خاص مقصد کے لیے نہ تھی بلکہ یہ ایک قسم کی لت تھی جس کے بغیر سکون نہیں ملتا تھا۔ حتیٰ کہ امتحان کے دنوں میں بڑوں سے ڈانٹ کھانا پڑتی کہ امتحان کی طرف توجہ دو، امتحان میں کیا خبریں اور کالم لکھو گے؟۔ اخبار میں ہفتہ وار بچوں کا صفحہ شوق سے پڑھتا، سنڈے میگزین بھی اچھا لگتا۔ بعض مذہبی مزاج رکھنے والے بزرگ اخبار پڑھتے دیکھتے تو کسی مذہبی مضمون پہ انگلی رکھ کے کہتے کہ یہ سلسلہ ضرور پڑھا کرو اور ہم دل ہی دل میں فخر کرتے کہ ہم تو پہلے ہی سے یہ سلسلہ پڑھ رہے ہیں۔

    چھٹی جماعت میں ’’خبر‘‘ ہوئی کہ گھر میں ماہانہ بنیادوں پہ آنے والے مختلف ڈائجسٹ بھی پڑھنے کی ’’چیز‘‘ ہوتے ہیں۔ ان ڈائجسٹوں میں عنایت اللہ صاحب کا حکایت ڈائجسٹ، مجیب الرحمن شامی صاحب کا قومی ڈائجسٹ، الطاف حسن قریشی صاحب کا اردو ڈائجسٹ اور شمس الرحمن عظیمی صاحب کا روحانی ڈائجسٹ خاص طور پہ شامل تھے۔ حکایت میں شائع ہونے والی معاشرتی کہانیاں بہت دلچسپ ہوتیں، شکاریات کے موضوع پہ بھی تواتر سے کہانیاں شائع ہوتیں۔ احمد یار خان کی کہانیاں میں شوق سے پڑھتا جن میں وہ بطور پولیس افسر مختلف کیسز کی تفتیش کرتے نظر آتے۔سیارہ ڈائجسٹ کا ایک پرانا شمارہ ہاتھ لگا جس میں ممتازمفتی کا روحانیت پہ ایک مضمون نظر آیا، چونکہ اس کے ساتھ یہ بھی تحریر تھا کہ یہ ایک قسط وار سلسلہ ہے اس لیے کافی تگ و دو کے بعد یہ سلسلہ ’’تلاش‘‘ کی کتابی شکل میں مل ہی گیا۔ اسی طرح ہر ڈائجسٹ کی اپنی اپنی خوبیاں تھیں اور میرے نوخیر ذہن کے لیے یہ ایک حیران کن اور پرکشش دنیا تھی۔

    چھٹی جماعت ہی میں کچھ بچوں کے رسائل تک بھی رسائی ہوئی یعنی ’تعلیم و تربیت‘، ’پھول، اور ’پھول اور کلیاں‘ وغیرہ۔ بعد میں ’بچوں کا اسلام‘ اور کئی دیگر رسائل بھی پڑھنے کو ملے۔ ایک خاص بات یہ تھی کہ ان تمام ڈائجسٹوں اور بچوں کے رسائل میں سے سوائے حکایت کے کوئی بھی گھر میں مستقل لگوا نہیں رکھا تھا۔ تاہم یہ سبھی والد صاحب کے توسط سے ملتے رہتے۔ بعد میں پتہ چلا کہ والد صاحب کے دوست مختلف مزاج کے تھے اور ہر کسی نے کوئی نہ کوئی ڈائجسٹ لگوا رکھا تھا اور یہ ڈائجسٹ پورا مہینہ ایک دوست سے دوسرے دوست کے پاس منتقل ہوتے رہتے۔ اس سارے عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں اپنی عمر سے بڑی باتیں کرنے لگا۔

    اس مضمون کا مقصد آپ بیتی بیان کرنا نہیں بلکہ کچھ اور تلخ حقائق بیان کرنا ہے۔ پہلے حال سنیے ہمارے دو مختلف سکولوں کے کتب خانوں کا۔ ہمارے پرائمری سکول میں لکڑی کی ایک الماری اور ایک صندوق تھا۔ یہ دونوں چیزیں انتہائی’’پراسرار‘‘ تھیں۔ ہمارے کچھ سینئرز کی طرف سے ان دونوں کے متعلق ہمیں ایک روایت’’سینہ بہ سینہ‘‘ پہنچی۔ اس روایت کے مطابق یہ معلوم ہوا کہ الماری میں کتابیں ہیں اور یہ الماری ہمارے سکول کی ’’لائبریری‘‘ ہے جبکہ صندوق میں کچھ شیشے کی بوتلیں اور کچھ چھوٹے چھوٹے ’’سائنسی پرزے‘‘ ہیں جو مختلف سائنسی تجربے کرنے کے کام آتے ہیں۔ بقول ہمارے سینئرز انہیں یہ ’’گراں قدر معلومات‘‘ اس لیے ملیں کہ ایک دن انہوں نے ہیڈ ماسٹر صاحب کی نگرانی میں الماری اور صندوق کی صفائی کی تھی۔ تاہم یہ روایت ایک ’’زبانی‘‘ روایت تک ہی محدود رہی اور خدا گواہ ہے کہ آج چودہ پندرہ برس بعد بھی مجھے یقین سے معلوم نہیں کہ اس الماری اور صندوق میں کیا تھا۔

    اب سنے ہمارے دوسرے سکول کی’’لائبریری‘‘ کا حال۔ یہ سکول شہر کا ایک مشہور ہائی سکول تھا جس کے طلبہ کی تعداد آج سے دس سال قبل 5 ہزار کے قریب تھی۔ اس سکول میں ہمیں پڑھتے ہوئے تین سال ہوچکے تھے کہ ایک روز سبھی لڑکے کچھ کرسیاں ’’ہائی حصے‘‘ میں رکھنے گئے تو پہلی دفعہ ہم نے سکول کی لائبریری دیکھی۔ تاہم اگلے دوسال یعنی میٹرک تک بھی یہ لائبریری ہمارے لیے اجنبی ہی رہی۔ لائبریر ی سے کتابیں لینا ہمیں اس وقت نصیب ہوا جب ہم نے میٹرک کے بعد شہر کی پبلک لائبریری میں اپنا اکاؤنٹ کھلوایا۔

    دکھ اس بات کا ہے کہ گریجوایشن تک اپنی سولہ سالہ تعلیم کے دوران سوائے یونیورسٹی کے ایک استاد کے مجھے کوئی بھی استاد ایسا نہ ملا جسے صاحب مطالعہ کہا جا سکے۔ حالانکہ اس دوران کم و بیش پچاس کے قریب اساتذہ سے مجھے پڑھنے کا موقع ملا۔ اگر ذرا جذباتی انداز میں کہوں تو میں طلب ِعلم کا کشکول لیے کھڑا رہا مگر نصاب سے ہٹ کر مجھے علم کی خیرات کسی استاد نے نہ دی۔ اگر کوئی خود کچھ ذوق مطالعہ رکھتا تو مجھے بھی دان کرتا۔ میں سر جھکا کے یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ان اساتذہ نے نصابی میدان میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر غیرنصابی ذوق مطالعہ ابتدائی طور پہ مجھےگھر سے ملا اور میٹرک کے بعد لائبریری سے ناطہ جڑا تو خود بخود آگے بڑھتا رہا۔ اب میں اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں ایم ایس (ہیومن ریسورس) کا طالب علم ہوں مگر اس بات پہ شاکی ہوں کہ پچھلے سترہ سال میں، میں اپنے ذوق مطالعہ کو اپنے ناتواں کندھوں پہ لیے پھرتا رہا، کسی استاد نے اس شوق کو مہمیز دینا تو دور کی بات پوچھنا بھی کبھی گوارا نہ کیا۔ میرامطالعہ ایک خودرو پودے کی طرح تھا جو کسی خاص توجہ کے بغیر اپنے آپ ہی پھلتا پھولتا رہا۔ اب سوچتا ہوں کہ اگرسکول کی لائبریری کے دروازے سبھی طلبہ پر کھول دیے جاتے تو شاید کچھ مزید طلبہ بھی مطالعے کی طرف راغب ہو جاتے کیونکہ ہر کسی کو توگھر میں اخبار اور ڈائجسٹ مہیا نہیں ہوتے۔ میر اسب سےبڑا ذاتی دکھ یہ ہے کہ اگر مجھے مطالعہ کے حوالے سے رہنمائی ملتی رہتی تو جن کتب اور اصناف ادب کے بارے مجھے دیر سے پتہ چلا، بہت پہلے ہی ان کے متعلق معلوم ہو جاتا اور مطالعے کا یہ سفر اور بھی شاندار ہو جاتا۔

    محترم خاکوانی صاحب! ہمارے بڑوں کا ہم سے یہ شکوہ بجا ہے کہ نئی نسل ذوق مطالعہ سے عاری ہے مگر اس میں بہت کچھ قصور ہمارے انہی بڑوں کا بھی ہے۔ گھر میں کتابیں پڑھنے والا کوئی نہیں، اساتذہ نے نوکری لگنے کے بعد سے اب تک کسی غیر نصابی کتاب کو چھونا بھی گوارا نہیں کیا تو بچوں میں ذوق مطالعہ کہاں سے پیدا ہوگا؟ میں نے خود اپنے دوستوں کو تحریک دلا کے کئی مشہور ناول پڑھوائے ہیں۔ کیا اساتذہ یہ کام نہیں کر سکتے؟

    ایک اور تلخ بات بھی سن لیجیے۔ یونیورسٹی کے میرے اکثر (اکثر کا لفظ میں انتہائی سوچ سمجھ کے استعمال کر رہا ہوں) اساتذہ ادبی ذوق سے بےبہر ہ ہیں۔ بخدا اس وقت ذہن پر کوڑے برسنے لگتے ہیں جب میں دیکھتا ہوں کہ شعر کے نام پر سطحی اور بےوزن دو سطریں جو میرے کسی پرائمری پاس دوست نے اپنی وال پر شئیر کیں، وہی کچھ دنوں بعد میرے کسی پی ایچ ڈی استاد (حتیٰ کہ صدر شعبہ) نے شئیر کی ہیں اور اس پہ طرہ یہ کہ داد بھی مل رہی ہے۔ تو ان تمام حالات میں کہاں کا ذوق مطالعہ اور کہاں کی کتب بینی؟ کوئی میری طرح کا طالب علم انفرادی طور پر کسی وجہ سے غیرنصابی کتب کی طرف مائل ہو جائے تو الگ بات ہے وگرنہ ہمارے تعلیمی نظام میں ذوق مطالعہ نہ تو کوئی مقصد ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کبھی سوچا گیا ہے۔