Tag: اخبار

  • دُہرا معیارکب تک؟-افتخار گیلانی

    دُہرا معیارکب تک؟-افتخار گیلانی

    m-bathak.com-1421247195iftekhar-jelani
    میڈیا اور دیگر اداروں نے پاکستان کے انگریزی اخبار کے صحافی سیرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا نوٹس لے کر پاکستانی صحافیوں کے ساتھ جو اظہار یکجہتی کیا وہ قابل ستائش ہے۔ جمہوری نظام میں طاقت کے نشے میں چور ایگزیکٹو کے بے لگام اور سرکش گھوڑے کو قابو میں رکھنے اور اس کی لگام تھامنے کے لئے پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا کا ذمہ دار اور آزاد ہونا بہت ضروری ہے۔ فوج اور سویلین انتظامیہ کے درمیان مبینہ چپقلش کی خبرکی بنا پر المیڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنا غیر ضروری تھا۔کوئی بھی ایجنسی اس خبر کے محرک کی تفتیش اس کے بغیر بھی کرسکتی تھی۔ دنیا بھرکے میڈیا اداروں، امریکی حکومت، آزادی اظہار اور جمہوریت کے علمبرداروں نے اس اقدام پر حکومت پر سخت نکتہ چینی کی۔ بھارت میں دانشوروں، ادیبوں، مقتدر صحافیوں اور ٹی وی اینکرز نے اس ایشو کی آڑ میں پاکستان کی فوج اور سویلین حکمرانوں کے درمیان مبینہ تلخیوںکو خوب اچھالا۔

    ہمیں اس پر یہ شکوہ ہے کہ جب اس طرح کے واقعات بھارت اورکشمیر میں وقوع پذیر ہوتے ہیں تو یہ نام نہاد دانشور‘ ادیب‘ مصنفین اور ٹی وی اینکر چپ کیوں سادھ لیتے ہیں۔ شاید انہیں یاد ہی نہیںکہ 30 ستمبر سے کشمیر کے ایک مقتدر انگریزی اخبار”کشمیر ریڈر‘‘ کی اشاعت پر پابندی عائد ہے۔ پچھلے کئی ماہ سے وقتاً فوقتاً سرینگر کے اخبارات کو ترسیل پر پابندی کی وجہ سے اپنی اشاعت موقوف کرنا پڑی۔ اظہار رائے کی آزادی کے یہ ”مجاہد‘‘ اس وقت بھی خاموش رہے جب 2010 ء میں امریکی مصنف اور دانشور پروفیسر Richard Shapiro کو حکومت ہند نے کوئی وجہ بتائے بغیر ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ 2010ء میں ہی جب مشہور براڈکاسٹر David Barasmian اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سلسلے میں بھارت پہنچے تو حکومت نے انہیں اندرا گاندھی انٹرنیشنل ہوائی اڈے سے ہی واپس بھیج دیا۔2011ء میں حقوق انسانی کے مشہور کارکن گوتم نولکھا کا واقعہ شاید لوگ ابھی نہیں بھول پائے ہوںگے۔ گوتم اپنی اہلیہ کے ہمراہ چھٹیاں منانے گلمرگ جانا چاہ رہے تھے کہ سرینگر کے ہوائی اڈے پر انہیں رات بھر حراست میں رکھنے کے بعد دہلی لوٹنے پر مجبورکر دیاگیا۔ حال ہی میں عالمی شہرت یافتہ حقوق انسانی کے کارکن خرم پرویزکو اندرا گاندھی ایئرپورٹ سے نہ صرف واپس بھیجا گیا بلکہ اگلے روز سرینگر جا کر ان کو بدنام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ یہ چند مثالیں ہیں ورنہ ایسے واقعات اس کثرت سے پیش آتے ہیں کہ ان کی گنتی کرنا مشکل ہے۔

    میں خودای سی ایل کا شکار رہا ہوں۔ 2004ء میں ایک ٹریک ٹو کانفرنس میں شرکت کے لئے میں بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ آنجہانی ایس کے سنگھ کے ہمراہ کٹھمنڈوجا رہا تھا کہ ای سی ایل میں شامل ہونے کے باعث دہلی ایئر پورٹ سے مجھے واپس لوٹا دیا گیا۔ ایس کے سنگھ نے جو چند ماہ بعد صوبہ اروناچل پردیش کے گورنر مقرر ہوئے،امیگریش افسروںکی منت سماجت کی، فون پر وزارت خارجہ اور داخلہ سے بھی رابطہ کیا مگر کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ آج بھی جب مجھے ملک سے باہر جانا ہوتا ہے تو امیگریشن کے کائونٹر پر سوالات کی ایک بوچھاڑ میری منتظر ہوتی ہے۔ کئی بار پاسپورٹ اور ویزے کی جانچ ہوتی ہے۔ ہر صفحے کی فوٹو کاپیاں لی جاتی ہیں۔ اہلکار اپنے سینئرافسروں سے فون پر رابطہ کرتے ہیں اور صبر آزما لمحات کے بعد امیگریش کا دریا پارکرنے کی اجازت ملتی ہے۔

    کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل 2008ء تا 2010ء اور پھر 2013ء میں افضل گورو کو تختہ دار پر لٹکانے کے دنوں میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔ سکیورٹی فورسز‘ عسکری تنظیموں اور حکومت نواز تائب جنگجوئوںکے درمیان انہیں چکی کے پاٹوںکی طرح پسنا پڑتا ہے کیونکہ صحافی ہی سب سے آسان شکار ہوتے ہیں۔ حکام کی طرف سے صحافیوںکو کرفیو پاس جاری نہ کرنے اور فورسزکے ذریعے انہیں ہراساں کرنے کی وجہ سے سرینگر سے شائع ہونے والے تقریباً تمام اخبارات کو شورش کے دوران کئی کئی دن اپنی اشاعت بند رکھنی پڑی، لیکن بھارت میں صحافیوں اور اخبارات کی بڑی تنظیموں مثلاً پریس کونسل آف انڈیا‘ ایڈیٹرزگلڈ اوردیگر تنظیموںکے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ 1990ء میں عسکری جدوجہد کے آغازسے اب تک تقریباً ایک درجن صحافی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ کشمیر میں صحافت کی روح کو زندہ و تابندہ رکھنے والے ان صحافیوںکو ایک آدھ واقعات کے سوا قومی اور بین الاقوامی صحافتی برادری کی طرف سے بھی نظر اندازکیا جاتا رہا۔

    پولیس اور سکیورٹی فورسزکے ہاتھوں فرضی انکائونٹرز میں بے گناہ شہریوں کے قتل کے متعدد واقعات ان دنوں سامنے آرہے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جبراً لاپتہ کردیے جانے کا سب سے پہلا واقعہ جو1989ء میں پیش آیا وہ ایک صحافی کا ہی تھا۔ محمد صادق شولوری اردو کے پندرہ روزہ”تکبیر‘‘ میں سینئر کاتب تھے۔ ایک دن وہ دفتر گئے اور پھرکبھی لوٹ کر گھر نہیں آئے۔ ان کی بیوی اور بچے آج بھی ان کے منتظر ہیں اور بد حال زندگی بسر کرنے کی زندہ تصویر ہیں۔ عسکری تنظیموں کی طرف سے میڈیا کو دھمکیاں دینے‘ صحافیوںکو اغوا کرنے اور اخبارات کی اشاعت بند کرانے کے بے شمار واقعات ہیں۔ حکومت بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہی۔ 1990ء میں اس وقت کے جموں و کشمیر کے گورنر جگ موہن نے ایک نوجوان صحافی سریندر سنگھ اوبرائے کو گرفتارکرنے اور تین اخبارات بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے پرنٹنگ پریس سیل کردیے گئے اور ان کے خلاف بدنام زمانہ ٹاڈا قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ معروف صحافی شجاعت بخاری کو کئی بار نامعلوم بندوق برداروں نے اغوا کیا۔ 2010ء کی ایجی ٹیشن کے دوران بھارت کی وزارت داخلہ نے نوٹیفیکیشن جاری کرکے ان کے اخبار رائزنگ کشمیر اور دو دیگر کثیرالاشاعت روزناموںگریٹرکشمیر اورکشمیر ٹائمزکے سرکاری اشتہارات بند کرنے کا حکم صادرکیا۔ وزارت داخلہ کشمیر ٹائمزکے پیچھے ایسے ہاتھ دھو کر پڑی اوراس کی مالی حالت اس قدر خستہ کر دی گئی کہ انہیں سرینگر کا پریس بیچ کر سرکولیشن کم کرنا پڑی۔ فوٹو جرنلسٹ محمد مقبول کھوکھر (جو مقبول ساحل کے نام سے مشہور ہیں) ساڑھے تین سال تک مقدمہ چلائے بغیر قید میں رہنے کے بعد جموں کی بدنام زمانہ کوٹ بلاول جیل سے رہا ئی پاسکے۔ حکومت نے انہیں رہا کرنے کے لئے جموں و کشمیر ہائیکورٹ اور قومی انسانی حقوق کمیشن کی درخواستوں پر بھی کان دھرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔کھوکھرکو 2004ء میں ان دنوںگرفتارکیا گیا جب جنوبی ایشیائی صحافیوںکی تنظیم سافما کی قیادت میں پاکستانی صحافیوںکا وفد بھی ریاست کا دورہ کر رہا تھا۔ ہائیکورٹ نے حکومت سے دو مرتبہ کہا کہ کھوکھر کے خلاف الزامات واپس لے لئے جائیں، لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔

    یہ سوال قابل غور ہے کہ انسانی حقوق کی اتنی صریح خلاف ورزی کے باوجود دہلی یا ملک کے دوسرے حصوں میں صحافی برادری میں ہمدردی کی معمولی سی لہر بھی آخر کیوں پیدا نہیں ہوئی؟ جن معاملات میں عسکریت پسند ملوث رہے ہیں، ان میں صحافیوںکی ہلاکت کی تفتیش میں بھی پولیس نے کبھی دلچسپی نہیں لی۔1991ء میں الصفا کے ایڈیٹر محمد شعبان وکیل کے قتل کی طرح دوسرے صحافیوں کے قتل اور ان پر حملوں کے درجنوں واقعات پر اب تک دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں۔ 1989ء میں صادق شلوری کو سی آر پی ایف نے اس وقت اٹھا لیا تھا جب وہ اپنی ڈیوٹی پر جا رہے تھے۔ انہیں لاپتہ قرار دے دیا گیا۔ 1992ء میں ایک دوسرے کاتب غلام محمد مہاجن کو پرانے سرینگر میں ان کی رہائشگاہ سے نکال کر ان کے چھوٹے بھائی کے ساتھ سر عام گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔ صحافیوں کو سر عام بے عزت کرنا ‘ سکیورٹی فورسز اور جنگجوگروپوں کے ذریعے صحافیوں کو ہراساں کرنا معمول ہے۔ ایک اہم سیاسی پارٹی کے رہنما نے ایک اردو روزنامہ کے ایڈیٹر کو صرف اس لئے بھرے بازار میں ننگے پائوں گھومنے پر مجبورکیا کہ اس کے اخبار نے ایک ایسی رپورٹ شائع کردی تھی جس سے پارٹی کے مفادات پر آنچ آتی تھی۔ اسی طرح کی بنیاد پر دو سیاسی جماعتوں نے موقر ہفت روزہ ”چٹان‘‘ کے دفتر پر حملہ کرکے اسے تہس نہس کردیا تھا۔ تقریباً بیس برس قبل جمو ں و کشمیر لبریشن فرنٹ میں پھوٹ پڑگئی تھی۔ متحارب دھڑوں نے اخبارات کو مخالف گروپ کی خبریں شائع کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی جس کے بعد کشمیر کے اخبارات گیارہ دنوں تک شائع نہیں ہوئے تھے۔

    اسی گروپ کے ایک دھڑے نے حضرت بل کمپلیکس میں صحافیوں کی اس لئے دھنائی کردی تھی کہ وہ پریس کانفرنس میں آدھ گھنٹہ تاخیر سے پہنچے تھے۔ یہ صحافی اس بات کی دہائی دیتے رہے کہ وہ اپنے ایک ساتھی صحافی کے عزیز کی تدفین کے بعد سیدھے یہاں آرہے ہیں۔کشمیر لائف کے ایڈیٹر مسعود حسین کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ انہیںبھارت نواز تائب جنگجوئوں اور عسکری تنظیموں کی ناراضگی کا شکار ہونا پڑا۔ ایک دہائی قبل حزب المجاہدین نے ان کے خلاف موت کا وارنٹ جاری کیا تھا۔ اس کے دو برس بعد تائب جنگجوئوں کے لیڈر ککا پرے نے بھی ان کا ایسا ہی موت کا وارنٹ جاری کیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ مسعود حسین اب تک حیات ہیں‘ لیکن معلوم نہیں کب تک!
    کشمیر میں ہر صحافی کی کوئی نہ کوئی کہانی ہے۔ بی بی سی اور رائٹرزکے لئے کام کرنے والے مشہور سینئر صحافی یوسف جمیل کو کئی بار نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ جس پارسل بم سے مشتاق کی موت ہوئی تھی وہ دراصل یوسف جمیل کے لئے ہی بھیجا گیا تھا۔2003ء میں ایک اور معروف صحافی احمد علی فیاض کو بی ایس ایف کے سینئرافسر کی طرف سے دھمکی آمیز فون موصول ہوا تھا۔ افسر نے اپنی شناخت ڈپٹی انسپکٹر جنرل دیس راج بتائی تھی اور فیاض کوگولی سے اڑا دینے کی دھمکی دی تھی۔ اس سلسلے کی آخری کڑی پرویز سلطان تھے جوایک مقامی نیوز ایجنسی کے ایڈیٹر تھے۔ عسکری تنظیموں کے دو دھڑوں کے درمیان چپقلش کی خبریں دینے کی پاداش میں انہیںگولیوں سے بھون دیا گیا۔

    کشمیر میں پریس کودرپیش سنگین حالات غماز ہیںکہ اگر آج ہمارے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے تو کل آپ بھی انہی حالات کا شکار ہوسکتے ہیں۔ آزادی اظہار کے حق کے لئے تعصب، منافرت اور دْہرے معیارکی عینک نہیں لگائی جا سکتی۔ جس طرح سیرل المیڈا کے ایشو پر دنیا کے جمہوری اداروں نے آواز بلند کی، اس کا عشرعشیر بھی کبھی کشمیری صحافیوں کے حصہ میں نہیں آیا۔ آخر یہ جانبداری کب تک؟

  • شعبہ صحافت کے لیے-جاوید چوہدری

    شعبہ صحافت کے لیے-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں اس وقت صحافت کے شعبے قائم ہیں، ہم اگر کسی دن طالب علموں کا ڈیٹا جمع کریں تو تعداد لاکھ تک ضرور پہنچ جائے گی گویا ملک میں ہر دو تین سال بعد لاکھ نئے ’’صحافی‘‘پیدا ہو رہے ہیں لیکن کیا یہ نوجوان واقعی صحافی ہیں؟  یہ دس کروڑ روپے کا سوال ہے!

    میرے پاس یونیورسٹیوں کے ٹورز آتے رہتے ہیں، مجھے شروع میں تیس چالیس طالب علموں کی میزبانی میں دقت ہوتی تھی لیکن پھر ہم نے گھر میں بیس تیس لوگوں کی مہمان نوازی کا مستقل انتظام کر لیا یوں اب میرے پاس مختلف یونیورسٹیوں کے شعبہ صحافت کے طالب علم آتے رہتے ہیں اور میں ان سے سیکھتا رہتا ہوں، میں نے ان چند ’’انٹریکشنز‘‘ کی بنیاد پر چند نتائج اخذ کیے ہیں، میں یہ نتائج یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور شعبہ صحافت کے چیئرمینوں تک پہنچانا چاہتا ہوں، میری خواہش ہے میری رائے کو صحافت کے ایک کارکن کا مشورہ سمجھ کر سنجیدگی سے لیا جائے، صحافت کے وہ طالب علم جو میڈیا انڈسٹری کو جوائن کرنا چاہتے ہیں وہ بھی میری رائے کو سینئر کی تجویز سمجھ کر چند لمحوں کے لیے توجہ ضرور دیں مجھے یقین ہے، یہ توجہ ان کے کیریئر میں اہم کردار ادا کرے گی۔

    میں دس مختلف یونیورسٹیوں کے بارہ ٹورز کی خدمت کر چکا ہوں، یہ خدمت ایک ہولناک تجربہ تھی، مثلاً مجھے ان بارہ ٹورز کے زیادہ تر نوجوان کتاب سے دور ملے اور اگر کسی سے زندگی میں کتاب پڑھنے کی غلطی سرزد ہو چکی تھی تو وہ کتاب کے نام سے ناواقف نکلا اور اگر اسے کتاب کا نام یاد تھا تو مصنف کا نام اس کے ذہن سے محو ہو چکا تھا اور اگر اسے مصنف اور کتاب دونوں کے نام یاد تھے تو وہ موضوع اور کرداروں کے نام ضرور بھول چکا تھا، مثلاً مجھے ان بارہ ٹورز کے طالب علم اخبار سے بھی دور ملے اور یہ ٹیلی ویژن بھی نہیں دیکھتے تھے۔

    میں ایک وفد سے دو گھنٹے گفتگو کرتا رہا آخر میں پتہ چلا، یہ مجھے کامران خان سمجھ رہے ہیں اور یہ میرے جیو چھوڑنے پر حیران ہیں، زیادہ تر طالب علموں کو یہ معلوم نہیں تھا، میرے کالم اور میرے شو کا نام کیا ہے، میں شروع میں اسے اپنی غیر مقبولیت سمجھتا رہا اور یہ سوچتا رہا لوگ اب مجھے پڑھ اور دیکھ نہیں رہے لیکن جب میں نے دوسرے صحافیوں اور دوسرے پروگراموں کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا یہ انھیں بھی نہیں جانتے لہٰذا میں نے اطمینان کا سانس لیا۔

    مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی یہ لوگ صدر پاکستان، چاروں گورنرز، تین صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں، یہ لوگ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کی تعداد بھی نہیں جانتے، یہ آج بھی بل کلنٹن کو امریکا کا صدر اور ٹونی بلیئر کو برطانیہ کا وزیراعظم سمجھتے ہیں، یہ عمران خان کے فین ہیں لیکن عمران خان نے کس کس حلقے سے الیکشن لڑا اور یہ قومی اسمبلی کی کس نشست سے ایوان کے رکن ہیں، ان میں سے کوئی نہیں جانتا تھا۔

    میں اس وقت حیران رہ گیا جب ایک نوجوان نے قذافی کا نام لیا اور میں نے اس سے قذافی کا پورا نام پوچھ لیا، وہ نہیں جانتا تھا، میں نے اس سے قذافی کے ملک کا نام پوچھا وہ بالکل نہیں جانتا تھا، میں نے صدام حسین اور حسنی مبارک کے بارے میں پوچھا، وہ ان دونوں سے بھی ناواقف تھا، میں نے باقی طالب علموں سے پوچھا وہ بھی نابلد تھے، آپ بھی یہ جان کر حیران ہوں گے یہ نوجوان قائداعظم اور علامہ اقبال کے بارے میں بھی دو دو منٹ نہیں بول سکتے تھے۔

    یہ نہیں جانتے تھے مشرقی پاکستان کو مشرقی پاکستان کیوں کہا جاتا تھا اور یہ نائین الیون کی تفصیل سے بھی واقف نہیں تھے، آپ کمال دیکھئے جنوبی پنجاب کی ایک یونیورسٹی کے دو طالب علموں نے مجھ سے آٹو گراف لیے باقی کلاس نے حیرت سے پوچھا ’’یہ آپ کیا کر رہے ہیں‘‘ میں نے بتایا ’’آٹو گراف دے رہا ہوں‘‘ ان کا اگلا سوال تھا ’’آٹو گراف کیا ہوتا ہے‘‘ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، میں شروع میں طالب علموں کو اس جہالت کا ذمے دار سمجھتا تھا لیکن جب تحقیق کی تو پتہ چلا اس علمی گراوٹ کی ذمے دار یونیورسٹیاں اور صحافت کے شعبے ہیں۔

    یونیورسٹیاں طالب علموں کی ذہنی نشوونما پر توجہ نہیں دے رہیں، کتاب، فلم اور سفر سیکھنے کے تین بڑے ذرائع ہیں، یونیورسٹیاں ان تینوں کو حرف غلط کی طرح مٹا چکی ہیں، تقریریں، مباحثے اور مشاہیر کے ساتھ سیشن علم پھیلانے کے بڑے ٹولز ہوتے ہیں، یونیورسٹیاں ان سے بھی فارغ ہو چکی ہیں، پیچھے صرف سلیبس بچتا ہے اور یہ بھی 70 سال پرانا ہے اور طالب علم اسے بھی پڑھنا پسند نہیں کرتے،یہ پچاس سال پرانے نوٹس کی فوٹو اسٹیٹس کرواتے ہیں، رٹا لگاتے ہیں، امتحان دیتے ہیں اور باقی وقت موبائل فون چیٹنگ پر خرچ کر دیتے ہیں اور یوں علم و عرفان کے عظیم ادارے جہالت کی خوفناک فیکٹریاں بن چکے ہیں۔

    یہ چند خوفناک حقائق ہیں ،میں اب یونیورسٹیوں کے ارباب اختیار کے سامنے چند تجاویز رکھنا چاہتا ہوں، ہمارے وائس چانسلرز تھوڑی سی توجہ دے کر صورتحال تبدیل کر سکتے ہیں، ہمارے تحریری اور زبانی الفاظ پھل کی طرح ہوتے ہیں اگر درخت نہیں ہو گا تو پھل بھی نہیں ہو گا، ہمارے طالب علموں کے دماغ خالی ہیں، اگر ان کے ذہن میں کچھ نہیں ہو گا تو پھر یہ کیا بولیں گے، یہ کیا لکھیں گے لہٰذا یونیورسٹیاں اور شعبہ صحافت سب سے پہلے طالب علموں کی دماغی ٹینکیاں فل کرنے کا بندوبست کریں۔

    یہ ان کے ذہن کو درخت بنا دیں، پھل خود بخود آ جائے گا، آپ شعبہ صحافت کے سلیبس کو دو حصوں میں تقسیم کرد یں، ایک حصہ تکنیکی تعلیم پر مشتمل ہو اور دوسرا انٹلیکچول ایجوکیشن پر مبنی ہو۔ 100 کتابوں، 50 فلموں اور 25 مقامات کی فہرستیں بنائیں، یہ تینوں صحافت کے طالب علموں کے لیے لازمی قرار دے دی جائیں، کتابوں میں 50 کلاسیکل بکس، 25 دو سال کی بیسٹ سیلرز اور 25 تازہ ترین کتابیں شامل ہوں، یہ کتابیں اساتذہ اور طالب علم دونوں کے لیے لازم ہوں۔

    فلموں میں 25 آل دی ٹائم فیورٹ،15 دس سال کی اکیڈمی ایوارڈ یافتہ فلمیں اور باقی 10 اُس سال کی بہترین فلمیں ہوں جب کہ 25 مقامات میں قومی اسمبلی اور سینٹ، چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیاں، گورنر ہاؤس اور وزراء اعلیٰ ہاؤسز، دنیا کے پانچ بڑے ملکوں کے سفارتخانے، آثار قدیمہ کے پانچ بڑے پاکستانی مراکز، جی ایچ کیو، آئی جی آفسز اور میڈیا ہاؤسز شامل ہونے چاہئیں، آپ ان کے ساتھ ساتھ نائین الیون سے لے کر ترکی کی تازہ ترین ناکام فوجی بغاوت تک دنیا کے دس بڑے ایشوز کو بھی سلیبس میں شامل کر دیں۔

    یہ ایشوز طالب علموں کو ازبر ہونے چاہئیں، آپ ملک کے بیس بڑے ایشوز کو دو طالب علموں میں تقسیم کر دیں مثلاً دو طالب علموں کو بجلی کا بحران دے دیا جائے، دو کے حوالے گیس کا ایشو کر دیا جائے اور باقی دو دو میں پٹرول، پانی، سیلاب، دہشت گردی، صنعت، بے روزگاری، صحت، تعلیم، ٹریفک، منشیات، انسانی اسمگلنگ، اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری، پراپرٹی مافیا، ٹیکس اصلاحات، آبادی کا پھیلاؤ، بے ہنری، سیاحت، ماحولیاتی آلودگی، خوراک کی کمی اور بے راہ روی جیسے ایشوز تقسیم کر دیے جائیں۔

    یہ طالب علم پورا سال ان ایشوز پر ریسرچ کرتے رہیں، یہ ہر ماہ دوسرے طالب علموں کو ان ایشوز پر ایک ایک گھنٹے کی پریذنٹیشن بھی دیں یوں یہ طالب علم ان ایشوز کے ایکسپرٹس بن جائیں گے اور باقی طالب علم ان کی پریذنٹیشن دیکھ اور سن کر ان ایشوز سے واقفیت پا لیں گے اور آپ طالب علموں کے لیے اخبار، ٹیلی ویژن اور ریڈیو بھی لازمی قرار دے دیں، طالب علموں کے گروپ بنائیں، ہر گروپ روزانہ دو اخبار پڑھے، ٹی وی کا کوئی ایک شو مسلسل فالو کرے اور کوئی ایک ریڈیو روزانہ سنے۔

    یہ گروپ ان دونوں اخبارات، اس شو اور اس ریڈیو کا ایکسپرٹ ہونا چاہیے، ان سے متعلق تمام انفارمیشن ان کی فنگر ٹپس پر ہونی چاہیے، یہ گروپ انٹرن شپ بھی ان ہی اداروں میں کرے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے یونیورسٹیوں کے پاس وسائل کہاں سے آئیں گے؟ یہ بھی بہت آسان ہے، آپ ڈیپارٹمنٹس کی کمپیوٹر لیبس فوراً بند کر دیں، ملک میں تھری جی اور فور جی آنے سے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹس متروک ہو چکے ہیں، آپ اب کمپیوٹر لیبس پر بلاوجہ رقم خرچ کر رہے ہیں، ملک میں اب موبائل فون کمپیوٹر لیب ہیں، آپ ڈیپارٹمنٹس میں تگڑا وائی فائی لگائیں اور طالب علموں کو موبائل فون کے مثبت استعمال کی عادت ڈال دیں۔

    آپ ہر ماہ لاکھوں روپے بچا لیں گے، آپ طالب علموں کو بتائیں اخبار، ٹیلی ویژن، ریڈیو، کتابیں، فلمیں اور تحقیقی مواد یہ تمام چیزیں موبائل فون پر دستیاب ہیں، آپ یہ سہولتیں فون سے حاصل کرسکتے ہیں یوں یونیورسٹی کے پیسے بھی بچیں گے اور طالب علم پڑھ، سن، دیکھ اور سیکھ بھی لیں گے اور پیچھے رہ گئے صحافت کے طالب علم تو میرا مشورہ ہے آپ اگر صحافی بننا چاہتے ہیں تو آپ ان تمام تجاویز کو تین سے ضرب دیں اور آج سے کام شروع کر دیں، میں آپ کو کامیابی کی گارنٹی دیتا ہوں، آپ ہم سب سے آگے نکل جائیں گے۔

  • دیوان سنگھ مفتون-ویب ڈیسک

    دیوان سنگھ مفتون-ویب ڈیسک

    diwan singh maftoon
    ایک ادبی مجلس میں دیوان سنگھ کا ذکر چھڑا۔ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر نے ان کی صاف گوئی کے مختلف واقعات بیان کرتے ہوئے کہا ’’اُردو کی ہفتہ وار اخبار نویسی میں صرف ۳؍ پرچے ایسے ہیں جو مر کر بھی زندہ رہیں گے: الہلال، اودھ پنچ اور ریاست۔ الہلال کا ہمیشہ ادب کیا گیا۔اودھ پنج خود ہنستا اور ہنساتا رہا لیکن ریاست ایسا پرچہ ہے جس سے اربابِ اقتدار خوف کھاتے رہے۔ ‘‘
    چراغ حسن حسرت نے کہا ’’مفتوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ آنکھیں چار کرکے لکھتا ہے، عام ایڈیٹروں کی طرح آنکھ مچولی نہیں کرتا۔‘‘ احمد شاہ بخاری نے صاد کیا ’’مفتوں بت کدہ میں اذان کی آواز ہے۔‘‘ مولانا عبدالمجید سالک بھی ان سے متفق تھے۔ انھوں نے اتنا اضافہ اور کیا ’’مفتوں نے ہفتہ وار اخبار نویسی کرکے تنہانویسی کی عمارت کھڑی کی ہے۔‘‘ شورش کاشمیری ان باتوں کے راوی ہیں۔

    دیوان سنگھ مفتوں کانام سامنے آتے ہی بے باک صحافت کے حوالے سے نئی جہت سامنے آتی ہے۔ ایک بار ثقہ ادیبوں کی محفل میں یہ سوال زیرِبحث تھا کہ اُردو اخبار نویسی میں کتنے ایڈیٹر ایسے ہیں جن کے قلم سے انسانوں کے بڑے گروہ نے محبت کی اور جن کی تحریروں کا دبدبہ تنی گردنیں جھکانے پر قادر رہا یا پھر جنھوں نے اپنے قلم کی طاقت سے بڑے بڑے معرکے سر کیے۔ ایسے مباحثہ میں ایک بات پر متفق ہونا مشکل ہے، لیکن تقریباً سارے ادبا کا اتفاق تھا کہ ہفتہ وار صحافت میں طویل عرصے تک جو درجہ و کمال دیوان سنگھ مفتوں کو حاصل رہا، وہ بے مثال ہے۔ مفتوں اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے واحد ایڈیٹر ہیں جنھوں نے ربع صدی تک پورے ہندوستان میں اپنا سکہ بٹھایا۔ ان کے ہم عصروں نے انھیں رشک سے دیکھا، دوستوں نے فخر کیا اور مخالفوں نے سر چھپانے میں خیر سمجھی۔

    دیوان سنگھ حافظ آباد (گوجرانوالہ) کے کھتہ کھتری سکھ خاندان میں پیدا ہوئے۔ والد کامیاب ڈاکٹر تھے۔ ۴۰؍ دن کے تھے کہ والد چل بسے اور یتیمی نصیب میں آئی۔ والد کے ترکہ سے ۱۲؍ سال اخراجات چلتے رہے۔ بھائی بہنوں کی شادیاں ہوئیں لیکن پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔ چنانچہ تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔ ۱۲؍ سال کے تھے کہ حافظ آباد کے ایک ہندو بزاز کے ہاں ۵؍ روپے ماہوار پر ملازمت ملی۔ ان کا کام گاہکوں کو کپڑے کے تھان کھول کر دکھانا تھا۔ اس ملازمت میں ایک واقعہ کا اثر ان کے دل پر نقش ہوگیا جو آیندہ زندگی ان کے کام آیا۔

    اپنی آپ بیتی ’’ناقابلِ فراموش میں خود لکھتے ہیں۔ ’’ ہندو بزاز کے ہاں ایک مسلمان بوڑھا درزی اور اس کا جوان بیٹا سلائی کرتے تھے۔ اتفاق سے ایک بار بوڑھے درزی کو کسی شادی کے سلسلے میں باہر جانا پڑا۔ عدم موجودگی میں وہ اپنے بیٹے کو کام سپرد کر گیا تاکہ جب وہ آئے تو گاہکوں کا کام مکمل ہو۔ جب وہ واپس آیا تو گائوں کے کسی بچہ کا سبز مخملیں کوٹ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ جلدی میں بیٹے نے بجائے سبز کے سفید دھاگے سے کوٹ کی سلائی کر دی تھی۔ بوڑھا درزی اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکا۔ اس نے زور دار تھپڑ جوان بیٹے کو مارا اور کہا: ’’نالائق! تو دیہات میں رہنے والے جاٹ کے بیٹے پر رحم نہ کھاتا مگر اس مخمل پر تو ترس کھاتا جس کا تو نے ستیاناس کردیا۔‘‘
    بوڑھے باپ نے اسی وقت بیٹھ کر کوٹ کی ساری سلائی ادھیڑی اور بڑی محنت سے دوبارہ کوٹ کو سبز دھاگے سے سیا۔ یہ سارا قصہ دیوان سنگھ کے سامنے پیش آیا۔ ننّے معصوم ذہن پر یہ بات نقش ہوگئی۔ تمام عمر انھوں نے خواہ اپنا کام کیا یا ملازمت کی، اُسے محنت اور محبت سے انجام دیا۔

    انھوں نے اخبار ریاست ۱۹۲۴ء میں نکالا اور ۳۳؍ برس تک اس کی شہرت میں چنداں فرق نہ آنے دیا۔ حق کو اپنایا۔ مظلوموں کے لیے جائے پناہ بنے۔ تحقیق کرنے کے بعد حمایت کے لیے کمربستہ ہوجاتے۔ والیانِ ریاست کے ستائے ہوئے لوگوں کی سنتے۔ بڑی پامردی سے مقابلہ کرکے حقدار کو اس کا حق دلاتے۔ پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ کے راز، دیسی ریاستوں کے اسرار، ان کے مظالم، سازشیں، رشوت، حکومت کی چیرہ دستیاں، جیلوں کی زندگی، اخلاقی پستی اور نمک حرامی کے حیرت انگیز واقعات ان کی زندگی میں پیش آئے۔ ۱۵؍ بار گرفتار ہوئے۔ ۵؍ جیلوں کے اسیر رہے، لیکن ان پر جتنی مصیبتیں نازل ہوئیں، جتنے مقدمات چلے، اسی قدر ان کی عزت اور شہرت میں اضافہ ہوگیا۔ وہ چاہتے تو گھر بیٹھے دولت کا انبار جمع کر لیتے مگر بڑی سے بڑی رشوت اور بڑے سے بڑا لالچ انھیں متاثر نہ کر سکا۔ انھوں نے صرف پانچویں تک تعلیم حاصل کی تھی۔ حالات نے آگے پڑھنے کا موقع نہ دیا۔ لیکن ان کے شوق، محنت، عزم اور شب و روز مطالعے نے انھیں صحافت کی صفِ اول میں کھڑا کردیا اور ان کے اخبار کو آزادیٔ رائے، بے لاگ تنقید اور زورِبیان بخشا۔ وہ خود کامیابی کا راز محنت اور صرف محنت اور کام کی لگن میں سمجھتے تھے۔

    وہ ایک کہنہ مشق اور کامیاب ایڈیٹر ہی نہیں بلکہ بلندپایہ ادیب اور انشاپرداز تھے۔ جن لوگوں نے ان کا اخبار پڑھا ہے، انھیں آج بھی مفتوں کا اندازِ بیان یاد ہوگا۔ سیدھے سبھائو، بے تکلف انداز میں صحیح تصویر کھینچ کر قارئین کو متاثر کر دیتے۔ اخبار میں ناقابلِ فراموش کالم کے مضامین شائع ہوئے تو لوگوں کی دلچسپی مزید بڑھ گئی۔ یہی وجہ ان کی کتاب ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کو صفحہ قرطاس پر لانے کی بنی۔ انھوں نے زندگی کا کوئی لمحہ ضائع نہیں ہونے دیا۔ نواب بھوپال والے مقدمہ میں جب ۳؍ ماہ ناگ پور جیل میں رہے تو ریاست کے مستقل کالم ’’ جذبات مشرق‘‘ کے لیے ہندی کے بہترین شعراء کے کلام کا ترجمہ کیا۔ وہ بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔ ان کی دونوں کتابوں کی نظیر ملنی مشکل ہے۔
    وہ خود لکھتے ہیں ’’میں نے صحیح اور درست اُردو بولنے اور لکھنے کے لیے ملاواحدی یا بیگم ممتاز مرزا، بہادرشاہ ظفر بادشاہ کے خاندان کی ایک مرحوم خاتون اور دوسرے دوستوں کی امداد حاصل کی، لیکن میں ایمانداری کے ساتھ اس کا اقرار کرتا ہوں کہ ’’۱۲؍ برس دلی میں رہے اور بھاڑ جھونکتے رہے‘‘ کے مصداق ۳۳؍برس میں اُردو پر قادر نہ ہوسکا۔ جو شخص پنجاب میں پیدا ہوا ہو اور کہے، وہ اُردو زبان پر قادر ہے تو وہ یقینا غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ اس کے ثبوت میں مرحوم پروفیسر محمد حسین آزاد کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔‘‘
    مرحوم پروفیسر محمد حسین آزاد دہلی میں پیدا ہوئے۔ مگر فارسی زبان کے عالم تھے۔ اپنی علمیت کے باعث سالہا سال تک گورنمنٹ کالج لاہور میں فارسی پڑھاتے رہے۔ آپ کو اس بات کا وہم تھا کہ آپ ایران کے اہلِ زبان کا فارسی میں مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اسی غلط فہمی میں مبتلا ایران گئے تاکہ وہاں فارسی دانی کا سکہ بٹھا سکیں۔ تہران میں ایک عالم اور مصنف کے مہمان ہوئے۔ دوسرے تیسرے روز کا ذکر ہے کہ آپ صحن میں بیٹھے تھے، قریب ہی چولہا جل رہا تھا۔ اتنے میں دیگچی زیادہ آنچ ہونے کے باعث ابل پڑی۔ مولانا پاس بیٹھے یہ دیکھ کر سوچنے لگے کہ دیگچی کی اس کیفیت کو کیا کہنا چاہیے۔ اتنے میں کمرے کے اندر سے ایک چھوٹی بچی آئی۔ جب اس نے دیگچی کا یہ حال دیکھا تو بے ساختہ ماں کو متوجہ کرتے ہوئے بولی:
    ’’اماں، اماں، دیگچی سرکردہ۔‘‘
    مرحوم پروفیسر کو تب احساس ہوا کہ وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں، کوئی شخص کسی غیرزبان میں کتنا بھی علم حاصل کر لے، وہ زبان پر قادر نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ پروفیسر واپس تشریف لے آئے۔‘‘
    دیوان سنگھ کو بزاز کی دکان پر کام کرتے چند روز گزرے تھے کہ محلے والوں کو پتا چل گیا۔ ان کی گلی میں ایک امیر برہمن رہتا تھا۔ اس نے کبھی مفتوں کے والد سے رقم لی تھی۔ اب اس نے انھیں بلا کر کہا، تم پڑھنا چاہتے ہو تو سارا خرچہ میں اٹھائوں گا۔ اس بات کا ذکر مفتوں صاحب نے گھر آ کر والدہ سے کیا۔ والدہ نے انکار کرتے ہوئے کہا ’’لوگ کیا کہیں گے؟ یہ ہمارے خاندانی وقار کے خلاف ہے‘‘۔
    والد نے بہت کچھ چھوڑا تھا۔ روپیہ اور پھر زیور ختم ہوا تو گھر کی اشیا فروخت کرکے گزارا ہوا۔ چنانچہ عرصے تک یہ کام جاری رہا، کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ کہتے ہیں جو لوگ عوام میں عزت اور شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر کردار پیدا کریں۔ دنیا میں دولت ہی سب کچھ نہیں، انسان کو اپنی عزت پر دولت قربان کرنی پڑتی ہے۔ عزت تب ہی حاصل ہوتی ہے۔ جو دوستوں کے ساتھ بددیانتی کرے، وہ اعتمادکش ہے۔ بازار کا ایک کتا بھی اس سے اچھا ہے جو اپنے دوست اور دشمن میں تمیز کرتا ہے اور دوستوں کے ساتھ غداری نہیں کرتا۔
    شروع میں دیوان سنگھ نے لاہور میں مختلف اخبارات میں دو تین گھنٹے کام کیا۔ مالی حالت چنداں اچھی نہ تھی۔ وہ اسے اپنی زندگی کا ناکام دور تصور کرتے تھے۔ اکثر ۲؍ سینئر صحافیوں لالہ رام چھپال سنگھ شیدا اور لالہ بانکے دیال کے ساتھ وقت گزارتے۔ ایک روز پنڈت راج نرائن ارمان انھیں ملنے آئے۔ باتوں باتوں میں بتایا، بھرگوسنگت کا کچھ حصہ ان کے پاس ہے۔ بھرگوسنگت نادر و نایاب کتاب ہے اور علم جوتش کے موجد، بھرگورشی کی تصنیف ہے۔ ہزارہا برس پہلے لکھی گئی۔کئی حصوں میں تقسیم ہے۔ مکمل کتاب کا وزن کئی من ہے۔ کتاب میں دنیا میں کتنے لوگ پیدا ہو چکے، موجودہ اور آیندہ، ہر آنے والے انسان کا زائچہ ہی نہیں اس کے ہر جنم کا حال بھی لکھا ہے کہ آیندہ وہ کہاں پید اہوگا۔ مفتوں لکھتے ہیں ’’میرا زائچہ بھی لیا۔ پھر ہزارہا کنڈلیوں میں سے میری کنڈلی (زائچہ) ملائی اور نتیجہ مجھے پڑھ کر سنایا، وہ مجھے اب تک یاد ہے۔
    ’’یہ انسان حمل میں ہوگا تو باپ کی صحت گرنی شروع ہو جائے گی۔ پیدا ہونے کے ۶؍ ماہ کے اندر باپ انتقال کر جائے گا۔ بہت ہوشیار ہوگا۔ ۱۸؍ برس کی عمر میں زمین ملے گی۔ ۱۷؍ برس کی عمر میں ایک لڑکی کے عشق میں مبتلا اور بہت تکلیف اٹھائے گا۔

    لڑکی کے ساتھ اس انسان کا پچھلے جنم میں بھی تعلق تھا۔ اس نے لڑکی کو پچھلے جنم میں تکلیف دی تھی۔ یہ لڑکی پچھلے جنم کا بدلہ اس جنم میں لے گی جب اس کی عمر ۱۷؍ سال ہو گی۔ یہ انسان پچھلے جنم میں بنارس کے ایک برہمن خاندان میں پیدا ہوا تھا۔ یہ انسان بہت خوش نصیب اور خوش بخت ہے۔ زندگی میں لاکھوں انسانوں کے دماغ پر حکومت کرے گا۔ چڑھنے کے لیے سواری نصیب ہوگی۔ لاکھوں روپیہ پیدا کرے اور لاکھوں روپیہ خرچ کرے گا۔ ہمیشہ مقروض رہے گا۔ زندگی بھر دشمنوں کا مقابلہ کرتا اور ان کو نیچا دکھاتا رہے گا۔ راجوں، مہاراجوں کے لیے خطرناک ہوگا۔ اس کا رزق اس کے وطن سے مشرق کی طرف ہوگا۔ ۸۰؍برس کی عمر کے بعد یکدم حرکتِ قلب بند ہونے سے موت واقع ہوگی۔‘‘

    دیوان سنگھ لکھتے ہیں ’’یہ مختصر حالات سن کر میں حیران رہ گیا۔ گزرے واقعات بالکل سچے تھے۔ آیندہ زندگی اتنی شاندار ہوگی، یقین نہ آتا تھا۔ میرے والد میری پیدائش کے ۴۰؍ دن بعد فوت ہوگئے تھے۔ تعلیم پانچویں تک حاصل کی۔ ۱۸؍ برس کی عمر میں زمین تقسیم ہوئی تو ملی۔ ۱۷؍ برس کی عمر میں جب دھرم کوٹ ضلع فیروزپور میں تھا، مجھے ایک لڑکی سے محبت ہوگئی۔ آپ یقین نہیں کریں گے اس زمانے میں مجھے عورت مرد کے تعلقات کا علم بھی نہیں تھا۔ اس لڑکی سے میں نے کبھی بات بھی نہیں کی لیکن ایک برس تک مجھے نیند نہ آئی، بے چین رہتا۔ ۲؍ سال بعد وہ لڑکی مر گئی۔ جب میں نے یہ خبر سنی میرے ہاتھ میں کچھ سامان تھا، وہ گر گیا۔ اب بھی جب کبھی اس کی یاد آئے، پورے جسم میں سنسنی دوڑ جاتی ہے۔‘‘
    اٹھارہ انیس سال کے تھے کہ ذوقِ صحافت کی تشنگی دور کرنے کے لیے لکھنٔوسید جالب مرحوم دہلوی ایڈیٹر ہمدم کے دفتر پہنچے۔ انھوں نے کہا ،کوئی جگہ نہیں۔ کہا، چپراسی ہی رکھ لیجیے۔ وہ بات بھی رَد ہوگئی۔ انکار میں جواب سن کر کہا ’’آپ کو مفت کام لینے میں کوئی اعتراض ہے؟‘‘ سید جالب نے کہا، مفت کام لینے میں کیا انکار ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اگلے روز سے ’’ہمدم‘‘ کے دفتر میں معاوضے کے بغیر کام شروع کردیا۔ پہلا معاوضہ کئی ماہ بعد ملا۔ بقول دیوان سنگھ’’ اس وقت میری ذاتی آمدنی اور خرچہ روزانہ آٹھ آنے سے زیادہ نہیں تھا۔‘‘ پھر آپ نے میدانِ صحافت میں جو معرکے انجام دیے، انھیں دیکھ کر بابائے صحافت سیدجالب دہلوی نے کہا ’’میرے شاگردوں میں سب سے زیادہ کامیاب دیوان سنگھ ہے۔ اس کی کامیابی پر مجھے فخر ہے۔‘‘

    اخبار ریاست کی ایڈیٹری پھولوں کی سیج نہیں بلکہ تلوار کی دھار تھی۔ ریاستوں کے راجے، مہاراجے ان کے خلاف تھے، لہٰذا مقدمے قائم ہوتے رہے۔ تلاشیاں ہوئیں اور زندگی کے تلخ تجربات سے گزرنا پڑا۔ بھرپور زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات انھوں نے اپنے خاص رنگ اور اسلوب میں تحریر کرنا شروع کیے جو ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کا حصہ بنے۔
    ہندی شاعری میں عوام کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ یہاں کی ریت، رسمیں، محبوبہ کے اَنگ اَنگ کی تصویر کشی، نینوں کا بانک پن، موسموں کے رنگ، چھیڑچھاڑ، سوتن کی آگ، جن کا سرچشمہ سچ مچ عوامی زندگی سے ہے اور ان کو بڑے طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔

    دہلی میں محلہ گڑھیا میں اخبار ریاست کا دفتر تھا۔ نچلی منزل میں میرے ابا سید مہربان حسین سبزواری رہتے تھے۔ اس وقت دستور تھا، گھر میں کوئی چیز پکتی تو پڑوس کے دو چار گھروں میں ضرور بھجوائی جاتی۔ میری امی خانہ داری میں کمال رکھتی تھیں۔ انھیں ڈیزائن بنانے اور کشیدہ کاری کرنے کا شوق تھا۔ پردے کے باوجود انھوں نے کشیدہ کاری کے مقابلوں میں انعامات حاصل کیے تھے۔ دیوان سنگھ کے ہاں بھی تیسرے چوتھے دن کھانا پکا سینی میں خوان بچھا اور اوپر سرپوش ڈال کر بھجواتیں۔ کڑھے سرپوش دیکھ کر دیوان سنگھ بہت خوش ہوتے۔ انھوں نے خواتینِ مشرق کے ایڈیٹر، عبداللہ فاروقی سے بات کی اور امی کو کہلوایا کہ کشیدہ کاری کی اپنی کتابیں شائع کروائیں۔ امی نے کرائسچ ورک، کشیدہ کاری، کروشیا کے بارے اور بچوں کے لیے بھی کہانیاں لکھیں جو بہت پسند کی گئیں۔ اس طرح گھر بیٹھے آمدنی کا سلسلہ قائم ہوگیا۔

    دیوان سنگھ کی کتاب’’ ناقابلِ فراموش‘‘ میں کھانے کی لذت کے عنوان سے ہمارے ہی گھر کا کچھ یوں ذکر ہے۔ ’’ دہلی کے مسلمانوں کے ہاں خاص قسم کی ماش کی پھریری دال پکا کرتی۔ یہ دال بے حد لذیذ ہوتی ۔ اس گھر میں پکتی تو مالکن اپنے ملازم کے ہاتھ یہ دال ضرور مجھے بھجوایا کرتی۔ میں نے ایک روز اس خاتون کو کہلا بھیجا کہ میں کسی عورت کا انتظام کرتا ہوں جو پردہ نہ کرتی ہو۔ آپ اس عورت کو دال پکانا سکھا دیں تاکہ وہ مجھے سکھا دے۔ میری اس درخواست پر اس خاتون نے جواب دیا، میں دال پکانا تو اس عورت کو سکھا دوں گی، مگر یہ تو اپنا اپنا ہاتھ ہے۔ تمام عورتیں کھانا پکاتی ہیں، کوئی لذیذ اور کوئی بدمزہ۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ عورت یا آپ بھی ایسی ہی دال پکا سکیں۔ اس جواب پر میں نے عورت بھیجنے کا ارادہ ترک کردیا۔‘‘

    مفتوں صاحب اسلام کی حقانیت کے قائل تھے۔ آپ بیتی میں لکھتے ہیں۔ ’’ایک بار دہلی جیل میں تھا۔ وہاں کانپور کے احراری مولوی عبدالقیوم دن رات ساتھ رہے۔ ہر بات میں یہ مخلص شخصیت مذہبی سند پیش کرتی۔ ایک روز مہاتما گاندھی کی زندگی اور حق پرستی کا ذکر ہو رہا تھا۔ ان کی صاف بیانی کا ذکر کرنے کے بعد مولوی عبدالقیوم نے ایک حدیث سنائی جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ’’دنیا میں سب سے بڑا جہاد بادشاہ کے منہ پر حق و صداقت کی آواز بلند کرنا ہے اور اگر یہ شخص کسی سزا کی پروا نہیں کرتا تو اس شخص کا یہ فعل تمام جہادوں میں سب سے بڑا جہاد قرار دیا جائے گا۔‘‘

    مولوی عبدالقیوم کے منہ سے یہ حدیث سن کر میں سوچنے لگا کہ جو رسول ﷺ حق و صداقت کی آواز بلند کرنے کو جہادوں میں سب سے افضل ترین جہاد قرار دے، ان کے بلند، حق پرست اور قابلِ احترام ہونے سے انکار کرنا کس قدر شرمناک اور باطل پرستی ہے۔
    مولوی عبدالقیوم کے منہ سے یہ حدیث سن کر اسلام کے متعلق میرے ذہن میں انقلاب پیدا ہوا۔ اس کے بعد جب بھی مجھے موقع ملا، میں نے رسول اللہﷺ کی زندگی کا مطالعہ کیا اور مختلف موضوعات پر قرآن کے احکام سمجھنے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہے کہ میرے دل میں گو بعض مسلمانوں کے اعمال دیکھ کر ان کے لیے نفرت ہے مگر رسول اللہﷺ، قرآن اور اسلام کے لیے اپنے دل میں اتنی ہی عزت اور احترام محبت کے جذبات رکھتا ہوں جتنے کہ ایک مسلمان کے دل میں ممکن ہیں۔‘‘

    دیوان سنگھ اکثر خطوں میں لکھتے ’’مجھے ایسا لگتا ہے، اسلام صرف عورتوں اور یتیموں کے لیے آیا تھا۔‘‘ عورت کی زبوں حالی دیکھ کر پریشان ہوجاتے۔ کہتے عورت کی فطرت میں قدرت نے فیاضی کے ساتھ رحمدلی اور محبت کا مادہ کوٹ کوٹ کر رکھا ہے اور انسانوں ہی نہیں حیوانوں میں بھی ایسا دیکھا گیا۔ اگر مادہ ہرنی شکاری کا شکار ہوجائے تو نر ہرن بھاگ جاتا ہے۔ اگر نرہرن کو گولی لگ جائے تو مادہ ہرن اس کے قریب ہی کھڑی رہتی ہے۔ عورت کی اسی رحمدلی اور محبت کا دوسرے لوگ فائدہ اٹھا کر اُسے بدنام کرتے ہیں۔
    دیوان سنگھ مفتوں کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے، انسان کی محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ اس کا پھل اسے ضرور ملتا ہے۔ ایک معمولی پڑھا لکھا انسان صرف اور صرف اپنی محنت کے بل بوتے پر آگے اور آگے بڑھنے کی جدوجہد میں سب کچھ بھول جاتا ہے۔ خواجہ حسن نظامی اور دیوان سنگھ نے مل کر ایک اخبارنکالا۔ یہ واحدی صاحب کے مکان کے ایک حصہ میں رہے جہاں اخبار کا دفتر بھی تھا۔ بھوک لگتی تو بازار سے کھانا منگوا کر کھا لیتے۔ صبح سورج نکلنے سے پہلے اٹھ کر کام کرنے لگتے۔ اتفاق سے ایک رات واحدی صاحب ۱۰؍ بجے آئے تو دیکھا، دیوان سنگھ کام کر رہے ہیں۔ رات ایک بجے پھر غسل خانے جانے لگے تو دیکھا، دیوان سنگھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے پوچھا، آخر تم اتنا کام کیوں کرتے ہو؟

    دیوان سنگھ نے کہا ’’انسان کی کامیاب زندگی کے لیے ضروری ہے وہ سخت محنت کا عادی ہو اور اپنی زندگی میں بہت کام کرے۔‘‘
    انسان محنت کرتا ہے تو اسے روپے کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ ایڈیٹر ریاست کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ لوگوں نے قدردانی کی بنیاد پر چپ چاپ اور کہیں زبردستی مدد کی۔ ان کا کہنا تھا ’’عوام کا کام کرنے والے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ روپیہ نہیں ملتا، وہ اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں اور ان میں اخلاص اور ایمانداری کی کمی ہے۔ عوام کی آواز کام کرنے والوں کے ایمان اور اخلاص کا سب سے بڑا تھرمامیٹر ہے۔ عوام کی آواز کبھی غلط نہیں ہوتی۔‘‘ اس دنیائے فانی میں کوئی ہمیشہ نہیں رہتا، ایک نہ ایک دن سبھی کو جانا ہے، لیکن دیوان سنگھ مفتوں کی بے باک صحافت کا نقش آج بھی لوگوں کے دلوں میں رقم ہے۔ ان کی تحریر کردہ دونوں کتابوں، ناقابلِ فراموش ہے

    بشکریہ اردو ڈائجسٹ
  • پرانی و نئی ویب سائٹس اور ایک تجویز – محمد عامر خاکوانی

    پرانی و نئی ویب سائٹس اور ایک تجویز – محمد عامر خاکوانی

    عامر خاکوانی سوشل میڈیا پر مائیکرو بلاگنگ نے ہمارے منظرنامے میں ایک بڑی اہم تبدیلی پیدا کی۔ بڑا فائدہ تو یہ ہوا کہ بہت سے عمدہ لکھاری سامنےآ گئے۔ علم وادب سے دلچسپی رکھنے والے کئی لوگ ایسے تھے، جن میں‌ لکھنے کی صلاحیت موجود تھی، مگر کوئی پلیٹ فارم دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے اور کچھ اپنی صلاحیتوں‌ پر عدم یقین کے سبب وہ لکھنے کی طرف نہیں‌ آ رہے تھے۔ فیس بک پر کمنٹس کی صورت میں انہوں‌ نے آغاز کیا اور بتدریج جیسے ہی ہاتھ رواں ہوا، اپنی وال پر چھوٹے بڑے بلاگ لکھنے شروع کر دیے۔ یوں‌جلد ہی انہیں قارئین کا حلقہ بھی مل گیا۔ جس میں‌ جتنی صلاحیت تھی، اسے اس اعتبار سے قاری ملتے گئے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ ان نئے لکھنے والوں میں خیالات کی تازگی تھی، کرنٹ‌ افئیرز پر لکھنے کا دبائو نہیں‌تھا، کسی قسم کے سنسر یا کارپوریٹ‌ دبائو کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا، یوں فیس بک پوسٹوں‌کی صورت میں‌ رنگا رنگ تحریروں‌ کا نہایت حسین گلدستہ بن گیا۔ ہر شام نت نئی تحریریں وجود میں آتیں اور دلچسپی رکھنے والے اپنے پسندیدہ لکھاریوں‌کو سی فرسٹ کیٹیگری میں‌ رکھ کر ان کی کوئی بھی پوسٹ مس نہ کرتے۔
    یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے، مگر پچھلے سال ڈیڑھ میں ایک اور خوشگوار تبدیلی رونما ہوئی کہ کئی عمدہ ویب سائٹس منظر عام پر آئیں۔ ویب سائٹس تو پہلے سے بھی موجود تھیں اور ان میں سے کچھ ٹھیک ٹھاک رش لے رہی تھیں، مگر ان نئی ویب سائٹس میں سے بیشتر نان کمرشل بنیاد پر آئیں، ان کا مقصد کمانا نہیں‌تھا یا یہ کہہ لیں‌ کہ صرف کمانا نہیں‌تھا۔ ان میں سے چند کا نام لینا چاہوں‌گا، جو میں دیکھتا رہا ہوں ، اور بھی ہوں‌گی، لیکن چونکہ میں‌انہیں دیکھتا نہیں تو ان پر کمنٹ بھی نہیں کر پائوں‌گا۔ ہمارے دوست اجمل شاہ دین نے دنیا پاکستان ویب سائٹ شروع کی، جس کے ایڈیٹر شروع میں‌ برادرم وجاہت مسعود تھے۔ دنیا پاکستان کو بہت جلد پزیرائی حاصل ہوئی، وجاہت صاحب نے نئے اور پرانے لکھنے والوں‌کا خاصا بڑا حلقہ اکٹھا کر لیا۔ ان میں سے کچھ تو ایسے تھے جو پہلے کبھی کبھار اپنے بلاگ پر کچھ لکھ دیتے یا پھر اپنی وال تک محدود تھے، دنیا پاکستان نے انہیں‌پلیٹ فارم دیا اور پھر تواتر سے لکھنے کی طرف مائل کیا۔ مجھے ذاتی طور پر بعض لکھاریوں‌ں نے چونکایا جن میں‌ حسنین جمال سرفہرست ہیں۔ حسنین جمال نے ایسی خوبصورت تخلیقی تحریریں لکھیں کہ خوشگوار حیرت ہوئی۔ وصی بابا کی نہایت شگفتہ فیس بک پوسٹوں کا میں شروع سے مداح تھا، مگر وجاہت مسعود کی صحبت اور رہنمائی نے انہیں سنوارا اور وہ ایک مستند، عمدہ لکھنے والے کی صورت میں سامنےآئے، جس میں شگفتگی کے ساتھ ساتھ تجزیہ کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ وقار احمد خان کی تحریریں اور سفرنامے بھی دلچسپ اور عمدہ تھے۔ دنیا پاکستان سے وجاہت مسعود صاحب کی علیحدگی نے ’’ہم سب ‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ دنیا پاکستان کو دھچکا تو شدید لگا، مگر یہ ویب سائٹ اب کسی حد تک سنھبل گئی ہے، گل نوخیز اختر جیسا منفرد مزاح‌نگار اور تجربہ کار صحافی اس کا ایڈیٹر ہے اور سنا ہے کہ برادرم نعیم احمد بلوچ بھی وہاں‌ کچھ ذمہ داریاں‌ انجام دے رہے ہیں۔

    ’’ہم سب‘‘ نے سوشل میڈیا یا یہ کہہ لیں کہ سائبر ورلڈ میں ایک ہلچل مچائی، تہلکہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ عدنان خان کاکڑ کی معاونت سے برادرم وجاہت مسعود نے بہت عمدہ کام کیا۔ بہت اچھے لکھنے والوں‌کی ایک فوج ظفر موج نہ صرف تیار ہوئی بلکہ اچھی بات یہ ہے کہ کئی عمدہ خواتین لکھاری بھی سامنے آ گئیں۔ ہم سب سے مجھے کئی لوگوں‌ کو پہلی بار پڑھنے کا موقع ملا۔ عثمان قاضی ان میں سرفہرست ہیں، ان کی علمیت اور خوبصورت زبان نے متاثر کیا۔ برادرم انعام رانا کے ہنر بھی ہم سب ہی میں کھلے اور بہت جلد اس آتشی رانگڑ نے اپنی جگہ بنا لی۔ برادرم آصف محمود جیسے منجھے ہوئے صحافی اور اینکر بھی ادھر لکھ رہے تھے تو دوسری طرف دینی مدارس کے بعض‌ طلبہ اور فارغ التحصیل کو بھی پہلی بار شائع ہونے کا موقع ملا۔ ہم سب کے بعض‌لکھنے والوں سے اس فقیر کو اختلاف ہے، مگر ان کے قلم کی خوبصورتی اور فنی مہارت کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ چونکہ میں‌ یہ تحریر ویب سائٹ پر نظر ڈالے بغیر عجلت میں لکھ رہا ہوں، اس لیے زیادہ نام نہیں‌ٌ لے سکتا، مگر فرنود عالم اور ید بیضا کا نام ضرور لینا چاہوں‌گا۔ اللہ انہیں راہ راست پر رکھے اور قلم وخیالات میں برکت عطا فرمائے۔ ظفر عمران کی بعض عمدہ تحریریں بھی یہیں پڑھنے کو ملیں۔ ہم سب کا مضبوط شعبہ اس کے بلاگ اور کالم ہیں۔ خبریں‌اگرچہ یہ دیتے ہیں، مگر اس پر شاید زیادہ فوکس نہیں۔

    آئی بی سی اسلام آباد کے سینئر صحافی اور اینکر سبوخ سید کا برین چائلڈ ہے۔ ایکسپریس لاہور کے میگزین سیکشن میں کام کرنے والے فرحان احمد خان جو مجھے چھوٹے بھائیوں‌ کی طرح عزیز ہے، وہ بھی سبوخ کا کچھ ہاتھ بٹاتا ہے، مگر حیرت ہے کہ اتنی مصروفیت کے باوجود سبوخ سید نے ایسی اچھی ویب سائٹ بنا دی۔ آئی بی سی کا مضبوط پہلو ان کی بہت عمدہ اور ایکسکلیوسو نیوز سٹوریز ہیں۔ یہ نظریاتی سے زیادہ صحافتی انداز کی ویب سائٹ ہے، اگرچہ بہت سی اچھی فکری اور نظریاتی تحریریں بھی ادھر شائع ہوتی رہتی ہیں۔

    وجود ایک اور اہم ویب سائٹ ہے۔ برادرم محمد طاہر اس کے مدیر ہیں۔ محمد طاہر کا تعلق کراچی سے ہے، تکبیر سے انہوں‌ نے نام کمایا اور بعد میں اپنا جریدہ وجود شائع کیا، جنرل مشرف کی حکومت کی ابتدا میں یہ رسالہ حکومتی جبر کی بنا پر بند کرنا پڑا۔ محمد طاہر نہایت عمدہ کالم نگار ہیں، روزنامہ پاکستان، جسارت وغیرہ میں کالم لکھتے ہیں، ٹی وی اینکر بھی رہے، کراچی کے بعض چینلز میں کرنٹ افیئرز پروگرام کرتے رہے، بعد میں دنیا چینل میں‌ بھی ریسرچ کے شعبے کے سربراہ رہے اور پروگرام بھی کرتے رہے۔ ایکسکلیوسو سٹوریز کی بنا پر انہیں‌ باخبر صحافی سمجھا جاتا ہے، بقول ہارون الرشید صاحب خبر محمد طاہر تک اڑ کر پہنچتی ہے۔ محمد طاہر نے وجود کو ایک باقاعدہ نیوز ویب میگزین شکل دے رکھی ہے۔ ایکسکلیوسو سٹوریز وہ دیتے رہتے ہیں اور محمد طاہر طبعآ بڑے شکاری ہیں، مدمقابل جتنا بڑا شکار ہوگا، اتنا ہی ان کی صلاحیتوں کو مہمیز لگتی ہے۔جہاں‌اچھے اچھوں‌کے پر جلتے ہیں، وہاں‌طاہر مسکراتے ہوئے قدم رکھتے اور فاتحانہ اپنا جھنڈا لہرا دیتے ہیں۔ وجود میں کالم اور بلاگ بھی شائع ہوتے ہیں۔ کئی اچھا لکھنے والے اس سے وابستہ ہیں۔

    برادرم رعایت اللہ فاروقی نے انکشاف کے نام سے عمدہ ویب سائٹ شروع کی، افسوس کہ وہ اپنے کچھ مسائل کی وجہ سے اسے زیادہ دیر نہیں چلا پائے اور بند کرنا پڑ گئی۔ فاروقی صاحب کے لیے اکیلے اسے چلانا مسئلہ تھا، ٹیم کے بغیر ویب سائٹ چلانا ناممکن ہے، مگر بدقسمتی سے فاروقی صاحب کے بعض اپنوں نے ان کا ساتھ نہ دیا، اگر وہ لکھنے والے جنہوں نے ان کے ساتھ پہلے پرجوش وعدے کیے تھے، ساتھ دیتے تو انکشاف آج بھی موجود ہوتی۔

    اردو ٹرائب ایک اور بہت عمدہ ویب سائٹ ہے، اگرچہ اس کا زیادہ فوکس نیوز ہیں، مگر بلاگ یہ بھی لگاتے ہیں۔ اردو ٹرائب نے دلچسپ خبروں کے ساتھ فیملی اور پیرنٹنگ کے حوالے سے بہت اچھا مواد شائع کیا ہے۔ اس کا لے آئوٹ بھی خوبصورت ہے۔

    برادرم ثاقب ملک کے آرچر آئی کا ذکر بھی ضروری ہے، میں آرچر آئی کو ویب سائٹ نہیں بلاگ سمجھتا تھا. ثاقب نے اس کے ذریعے کئی عنمدہ کام کیے، نئے لکھنے والوں کی ریٹنگ کا ڈول ڈالا، پیروڈیز شائع کیں، افسانوں کے مقابلے کیے، کئی عمدہ لکھنے والے متعارف کرائے۔ اور سیک کا سیمینار تو ہم سب کے سامنے کی بات ہے۔

    دوسروں کی ویب سائٹس کی اتنی تعریف کے بعد مجھے تھوڑا سا حق ملنا چاہیے کہ دلیل ڈاٹ پی کے پر بھی کچھ لکھ ڈالوں۔ ’’دلیل ‘‘ کو وجود میں‌ آئے ابھی بمشکل دو ماہ ہوئے ہوں‌گے، مگر الحمداللہ اس نے اچھی جگہ بنا لی۔ آج کی ریٹنگ کے مطابق یہ ٹاپ ساڑھے بارہ سو میں‌ آ چکی ہے۔ بغیر کوئی سرمایہ کاری اور پروموشن کے اس جگہ پر پہنچنا رب تعالیٰ‌ کی رحمت کے بغیر ممکن نہیں‌ تھا۔ دلیل کو شروع ہی سے بعض دوستوں‌نے ’’ہم سب‘‘ کا مدمقابل اور ہم سب کا جوابی بیانہ قرار دیا، اسے بعض دوست رائٹسٹ یا اسلامسٹ ترجمان کے طور پر بھی بیان کرتے رہے۔ ہم تو سادہ سی بات کہتے ہیں کہ دلیل کا مقصد دراصل اپنا نقظہ نظر بیان کرنے کا پلیٹ فارم تخلیق کرنا تھا، جہاں مختلف ایشوز پر شائستگی، اعتدال اور دلیل کے ساتھ اسلامی، نظریاتی حوالوں سے اپنا موقف بیان کیا جائے، الحاد اور سیکولرازم کے مقابلے میں اسلامی فکر کو پیش کیا جائے، نظریہ پاکستان کو بیان اور اس حوالے سے ہونے والے حملوں‌کا دفاع کیا جائے، نوجوانوں‌میں ادبی ذوق پیدا کیا جائے اور نئے لکھنے والوں کو بھرپور مواقع پیش کیے جائیں۔ دلیل کا پلیٹ فارم صرف اسلامسٹوں‌ کے لیے نہیں، بلکہ معتدل اور لبرل لکھاری بھی ادھر شائع ہوسکتے ہیں، البتہ مذہب، اخلاقیات اور نظریہ پاکستان کے حوالے سے تضحیک آمیز تحریروں کی ہمارے ہاں‌ کوئی جگہ نہیں۔ فرقہ پرستی، شدت پسندی اور پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی تنظیم، گروہ یا نظریے کی نہ صرف ہمارے ہاں کوئی گنجائش نہیں بلکہ ہم اس حوالے سے بھرپور دفاع بھی کریں گے ان شا اللہ۔ دلیل ایک طرح سے اسلامسٹ ویب سائٹ تو ہے، مگر ہمارا دعویٰ ہے کہ اسلام ایک اعتدال پسند مذہب ہے اور حقیقی اسلامسٹ ہوتا ہی معتدل ہے۔ اس لیے دلیل ایک اعتبار سے معتدل ویب سائٹ بھی ہے۔

    یہ اتنی لمبی چوڑی تحریر لکھنے کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ آج کل بعض اور ویب سائٹس کے آنے کا چرچا ہے۔ ہمارے محترم سینئر صحافی سجاد میر کے حوالے سے خبر ملی ہے کہ وہ بعض نوجوان کی سرپرستی کرتے ہوئے بہت جلد ایک نئی ویب سائٹ بنا رہے ہیں۔ برادرم انعام رانا نے ہم سب سے اپنی دست برداری کے اعلان کے بعد ایک پوسٹ کی کہ میری ویب سائٹ آ رہی ہے، وہ پوسٹ تو شاید مزاح کے طور پر لکھی گئی، مگر حسب توقع ان کے اندر کا مضطرب، بے چین جنگجو انہیں‌’’مکالمہ‘‘ کے نام سے ویب سائٹ کی طرف لے آیا ہے۔ میری نیک تمنائیں‌ اور دعائیں رانا صاحب کے ساتھ ہیں۔ آج شام کو اطلاع ملی کہ صحافی، کالم نگار اور چیریٹی تنظیم کاروان علم کے ڈائریکٹر برادرم خالد ارشاد نے اپنی ویب سائٹ ’’اخبار‘‘ کے نام سے شروع کر دی ہے۔ برادرم خالد ارشاد کو خوش آمدید کہنا چاہوں‌گا۔ انہوں نے منتخب کالموں، بلاگز وغیرہ کے سلسلے بھی رکھے ہیں، مگر خبروں‌ پر وہ خاصا فوکسڈ لگ رہے ہیں۔ ان سے توقع ہے کہ وہ ایک اچھی ویب سائٹ لوگوں‌کے لیے پیش کریں گے۔ مجھے تو لگ رہا ہے کہ آنے والے دنوں‌ میں شاید اوریا مقبول جان صاحب اور بعض دوسرے سینئر صحافی بھی اپنی ویب سائٹس سامنے لے آئیں۔ جماعت اسلامی کے وابستگان میں سے بعض نوجوان ایک ویب سائٹ لانا چاہ رہے ہیں، ممکن ہے اس پر بھی عمل ہوجائے۔

    میں اپنی اور دلیل کی جانب سے ان تمام ویب سائٹس کا خیر مقدم کرنا چاہوں‌گا، جو سامنے آ چکی ہیں یا جن کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ میرے خیال میں فیس بک کی مائیکرو بلاگنگ جس طرح بےمہار ہوچکی تھی، اس کے پیش نظر یہ ضروری تھا کہ زیادہ سے زیادہ ویب سائٹس سامنے آتیں اور لکھنے والے ادھر شفٹ ہوتے، وہاں کسی نہ کسی ایڈیٹر کے ڈسپلن میں وہ مناسب انداز میں لکھ پائیں گے۔

    میں ایک اور تجویز بھی پیش کرنا چاہوں گا کہ مین سٹریم میڈیا کی طرح سائبر ورلڈ پر ابھی بےرحم مسابقت اور مقابلہ شروع نہیں ہوا۔ ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے۔ بجائے ایک دوسرے کے مقابلے میں آنے کے ہمیں مفاہمت اور باہمی محبت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے کوئی غیر رسمی سا ضابطہ اخلاق بن جائے تو اچھا ہے۔ میری ذاتی رائے میں مختلف ویب سائٹس کو ایک دوسرے کی تحریروں کے تبادلے کی گنجائش باقی رکھنا چاہیے۔ خاص طور پر وہ ویب سائٹ جو ایک نظریے کی حامل ہیں، انہیں‌ مختلف نظریاتی، فکری ایشوز پر دوسروں کی بامقصد، اصلاحی، فکر انگیز تحریریں‌ لفٹ کر لینی چاہییں۔ اس میں ایک قباحت ریٹنگ کی ہو سکتی ہے کہ ہر ویب سائٹ کی خواہش ہوتی ہے کہ زیادہ وزیٹرز اس کی طرف آئیں تو اس کا حل یہ ہوسکتا ہے کہ کسی بھی ویب سائٹ کی تحریر ایک دو دنوں‌کے بعد لفٹ کی جائے اور اس کے نام کا حوالہ بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ اس کا لنک آخر میں دے دیا جائے۔ عام طور پر ویب سائٹس میں پہلے چوبیس گھنٹے اہم ہوتے ہیں، سٹوری کے زیادہ تر ویوز پہلے دن ملتے ہیں، اکا دکا ایسی ہوتی ہیں جو دوسرے دن بھی رش لیتی ہیں اور کبھی کبھار کوئی اس سے بھی زیادہ چل جاتی ہے، ورنہ نئی آنے والی سٹوریز، بلاگز کی وجہ سے پرانے ایک ڈیڑھ دن کے اندر پیچھے چلے جاتے ہیں۔

    میں ذاتی طور پر دلیل ڈاٹ پی کے کی طرف سے یہ پیش کش کر رہا ہوں کہ ہماری کوئی بھی تحریر خواہ وہ کس قدر ایکسکلیوسو ہو، اسے کوئی بھی ویب سائٹ دلیل حوالے کے ساتھ لفٹ کر سکتی ہے، تاہم سٹوری شائع ہونے کے بعد ایک دن کی رعایت اگر ہمیں بھی دے دیں تو شکر گزار ہوں گے۔ اس تجویز کا مقصد خدانخواستہ کسی ویب سائٹ کے ہٹس یا ویوز کم کرنا نہیں‌ بلکہ میری خواہش ہے کہ خیر کا باعث بننے والی تحریریں زیادہ سے زیادہ شیئر ہوں اور اگر ہم اس کارخیر میں حصہ ڈال سکیں تو ہماری خوش نصیبی ہوگی۔

  • کالم صحافت کی شاعری ہے – عبدالقادر حسن

    کالم صحافت کی شاعری ہے – عبدالقادر حسن

    عامر خاکوانی سینئر ترین کالم نگار عبدالقادر حسن کی کہانی ، ان کی اپنی زبانی
    عامر خاکوانی

    کالم کے بارے میں میری رائے کہ یہ صحافت کی شاعری ہے، یہ خداداد صلاحیت ہے۔ دوسرا یہ کہ کالم موضوعاتی ہوتا ہے اور یہ قاری کو ایک طرح کی انٹرٹینمنٹ اور اس کے ساتھ ساتھ تربیت دیتا ہے۔ جس طرح شاعری خداداد چیز ہے‘ اسے کوئی سیکھ نہیں سکتا‘ یہی با ت کالم کی ہے‘ مضمون نگاری البتہ سیکھی جاسکتی ہے۔ ایک اعتراض یہ کہاجاتا ہے کہ دنیا بھر کے اخبارات اور خود پاکستان کے انگریزی اخبارات میں قاری کی ذہنی اور فکری تربیت کی جاتی ہے جبکہ اردواخبارات کے روایتی کالموں میں صرف زبان کے چٹخارے اورلطیفہ گوئی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انگریزی کا اردو سے مختلف معاملہ ہے۔ اردو میں کالم کی روایت یہی ہے کہ ہلکے پھلکے انداز میں لکھا جائے‘ میرے ذاتی خیال میں تو اخبارات میں مضمون نگاری ہونی نہیں چاہیے۔ ادارتی صفحہ پر یا تو اداریہ ہوتا ہے یا اہم ایشوز پر کسی ماہر کا تبصرہ (Expert Opinion)‘ یا پھر کالم ہوتے ہیں۔ کالموں کو آسان اور عام فہم ہونا چاہیے۔ میں عربی فارسی جاننے کے باوجود ایک عام معمولی استعداد رکھنے والے قاری کے فہم کے مطابق لکھتا ہوں۔

    میرے پسندیدہ کالم نگار
    saadulla ایکسپریس میں میرے پسندیدہ کالم نگار سعد اللہ جان برق ہیں۔ وغیرہ وغیرہ لکھنے والے (عبداللہ طارق سہیل) بھی اچھا لکھتے ہیں۔ باقی عرفان صدیقی کبھی کبھی بہت اچھا لکھتے ہیں‘ ہارون الرشید بھی ٹھیک‘ عباس اطہرعباس اطہر کا نام سب سے پہلے لینا چاہیے کہ وہ زبردست کالم نگار ہیں اور انہوں نے اپنے آپ کو سب سے منوایا ہے۔ عطاء الحق قاسمی اچھا لکھتے ہیں‘ مگر آج کل وہ پی آر کے چکر میں بہت پڑ گئے ہیں‘ بہرحال ان کا اپنا ایک پاپولر سٹائل ہے۔ حسن نثار اچھا لکھ سکتا ہے‘ ان کا بالکل الگ سٹائل ہے‘ جاوید چودھری نے بھی بڑی محنت کرکے ایک خاص انداز اپنایا ہے‘ جسے مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔
    کالم نگار کو سب سے زیادہ زبان پر توجہ دینی چاہیے‘ جس زبان میں وہ لکھ رہا ہو‘ اس پر مکمل عبور حاصل ہو۔ پھر مسلسل مطالعہ کیا جائے‘ کالم لکھنے سے پہلے کچھ نہ تحقیق ضرور کریں‘ خبر اٹھا کر کالم لکھ دینا کوئی بات نہیں۔ سٹائل ہلکا پھلکا ہو مگر اس میں کوئی پیغام بھی ہونا چاہیے۔

    میرا کالم لکھنے کا طریقہ کار
    اخبارات سچی بات تو یہ ہے کہ ہم روز کے کالم لکھنے والے مسلسل عذاب میں رہتے ہیں‘ میرا بھی یہی حال ہے‘ جب تک کالم کا موضوع ذہن میں نہیں آجائے‘ ذہنی الجھن باقی رہتی ہے۔ میرے کالم لکھنے کا کوئی خاص وقت نہیں ہے‘ میں تو رات کو بھی لکھ لیتا ہوں‘ عموماً صبح اخبار دیکھنے کے بعد کالم لکھا جاتا ہے کہ شاید کوئی نیا موضوع مل جائے۔ میرے گھربارہ تیرہ اخبار روز آتے ہیں‘ ان کو پڑھتے کم اور دیکھتے زیادہ ہیں‘ اس لیے لفظ دیکھنے استعمال کیا ہے۔

    چینلز اور اخبارات
    چینلز اخبارات کو دنیا بھر میں ٹی وی چینل سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا۔ دراصل ریکارڈ صرف اخبارہی بنتا ہے۔ چینل صرف ہیڈ لائن دیتا ہے‘ اس کی تفصیل اخبار ہی میں ملتی ہے۔ اخبار کو اصل خطرہ تعلیم نہ ہونے سے ہے کہ قوم ان پڑھ ہوتی جارہی ہے۔ باقی کالم نگاری اخبار کا مستقل شعبہ تھا‘ ہے اور رہے گا‘ ہاں ٹرینڈز بدلتے جاتے ہیں‘ ہمارے دور میں کچھ اور تھے‘ اب اور ہوگئے ہیں‘ اسی طرح آگے بھی کچھ نہ کچھ بدلیں گے۔

    سیاست دان
    سچی بات تو یہ ہے کہ میرا کوئی آئیڈیل سیاست دان نہیں ہے۔ سب نے کسی نہ کسی حوالے سے مایوس کیا ہے۔ نصراللہ نواب زادہ نصر اللہ خان کا بہت کنٹری بیوشن رہا ہے مگر بعض معاملات میں حیرت ہوتی تھی کہ یہ کیا کررہے ہیں۔ میں ان معاملات کو دوبارہ سے نہیں چھیڑنا چاہتا مگر بہرحال سب نے مایوس کیا۔ آج کل کے سیاست دانوں کو تو سیاستدان کہنا ہی نہیں چاہیے۔ ان کی بڑی تعداد ایک فوجی آمر کے ساتھ ہے‘ جو نہیں وہ ڈیل کے چکروں میں ہیں تو یہ سیاست دان تو نہ ہوئے۔ دراصل ان کو کسی نے سیاست کی تربیت ہی نہیں دی‘ یہ لوگ سیاست کو محض پھنے خانی اور اثر و رسوخ کا ذریعہ بناتے ہیں۔
    ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ ایک زمانے میں ہر شعبے میں اس قدر بڑے اور قدآور لوگ موجود تھے‘ آج کل قحط الرجال کیوں ہوگیا ہے؟ دراصل تقسیم سے پہلے انگریز کے خلاف جو تحریک چلی تھی‘ اس نے بڑے بڑے لوگ پیدا کیے‘ پھر پاکستان بن گیا‘ تو تحریک کا معاملہ ختم ہوگیا‘ پھر بڑے لوگ بھی پیدا نہیں ہوئے۔ بڑے لوگ بھی حالات پیدا کرتے ہیں‘ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔
    نظریاتی تحریکیں ختم ہونے میں روس کے ٹوٹنے کا اہم کردار ہے۔ آپ دیکھیں جو لوگ کمیونسٹ پارٹی کے ریگولر تنخواہ دار ممبر تھے‘ ادھر روس ختم ہوا اور وہ پہلی فلائیٹ سے واشنگٹن چلے گئے۔ وہ سرخ انقلابی اب علی الاعلان امریکہ کا مال کھا رہے ہیں۔ آئی اے رحمٰن وغیرہ سب ایسا کررہے ہیں۔

    دینی جماعتیں اور انسانی حقوق
    دینی جماعتیں انسانی حقوق کے حوالے سے دینی جماعتوں کو سب سے پہلے آگے آناچاہیے کہ اسلام تو مظلوموں کا سب سے بڑا حامی ہے۔ دراصل ہماری دینی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی اینٹی اسلام ہے‘ اب دین کے شعبے میں بھی ان پڑھ لوگ آگئے ہیں‘ یہ ان پڑھ مولوی ہیں ‘ اخبار تک نہیں پڑھتے۔ ان کا مطالعہ صرف پانچ چھ سو سال پرانی کتابیں پڑھنے تک محدود ہے‘ ہمارے پیغمبر ﷺ نے انتہائی فرسودہ اور جاہل قوم کو دنیا کا فاتح بنادیا مگر ہمارے یہ مولوی اسلام کی اصل روح نہیں سمجھتے۔

    مدارس کا نصاب
    مدرسہ میں تو کہتا ہوں کہ دینی مدرسوں میں قانوناً اصطلاحات ہونی چاہیے‘ جنرل مشرف یہ بات تو ٹھیک کہتا رہا کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی این جی او ہے۔ مدرسوں کا نصاب بزور بدلنا چاہیے لیکن یہ کام کرنے کا حق ان کو ہرگز نہیں ہے‘ جنہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ قرآن پاک کے 30سپارے ہیں یا 40۔ یہ کام وہ کریں جنہیں سپاروں کی گنتی تو کم از کم آتی ہو۔

    قوم میں موجود فرسٹریشن
    qaum قوم میں مایوسی تو بہرحال ہے۔ مہنگائی اور بےروزگاری آپ کے سامنے ہے‘ افسوس یہ ہے کہ فوج کے آنے پر ہمارے تمام سیاستدان اس کے ساتھ مل جاتے ہیں‘ ایوب خان نے جب کنونشن لیگ بنائی تو قائد اعظم کی مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے تمام زندہ ارکان ایوب کے ساتھ مل گئے تھے۔ یہ جرنیل غلط کام کرتے ہیں‘ اس کی سپورٹ سیاست دان کرتے ہیں اور مارے عام لوگ جاتے ہیں۔ جنرل ضیاء کے زمانے میں چند فوجی افسر ہی سول انتظامیہ میں آئے تھے‘ اب تو انتہا ہوگئی ہے‘ اس کے باوجود میں مایوس نہیں ہوں۔ ابن خلدون کا مشہور قول ہے کہ ’’مٹتی ہوئی قومیں اپنے ہیرو ایجاد کرلیتی ہیں‘‘۔ اب کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک جج ہیرو بن جائے گا‘ مگرایسا ہوا۔ دراصل ہماری قوم لیڈر کی بھوکی ہے اور اس کے انتظار میں ہے۔
    عمران خان میں جان ہے‘ میں اسے پسند کرتا ہوں‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسے سیاست نہیں آتی‘ ویسے اس میں ایثار کا جذبہ ہے۔ نواز شریف میں بھی صلاحیت ہے اور کوئی کرپشن کا الزام بھی اس پر نہیں۔ دیکھیں بہرحال وہ پہلا وزیراعظم ہے جس نے دو چیف آف آرمی سٹاف الگ کرنے کی جرأ ت کی۔

    کالم لکھنے میں تلخ تجربات
    سب سے مشکل بھٹو صاحب کا دور تھا‘ وہ سیاست دان تھے‘ ان کے خلاف لکھنا مشکل ہوتا ہے‘ دلچسپ بات یہ کہ رکاوٹوں اور پابندیوں میں لکھنے کا مزا بھی آتا ہے۔ اس وقت بندہ بڑے آرٹ کے ساتھ لکھتا ہے۔ جنرل مشرف نے آزادی دی تو لکھنے کا مزا نہیں آتا رہا۔ مجھے اپنے لکھے کا ریسپانس ہمیشہ ملا ہے۔
    ایک بار مجھ سے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا کبھی لکھنے پر خوف محسوس ہوا؟ سچ بات یہ ہے کہ میرا دیہاتی بیک گرائونڈ ہے۔ مجھ میں خوف موجود نہیں‘ مصلحت یا مجبوری الگ شے ہے مگر مجھے کبھی خوف نہیں آیا۔ اگر آپ اپنے نظریات اور اعتقادات کو پوری طرح مانتے ہیں اور اس پر سٹینڈ لیتے ہیں تو قدرت مدد کرتی ہے۔ اگر خود ہی مصلحت پر آجائیں تو قدرت کی مدد شامل نہیں ہوتی۔ پھر انسان کو آخر کسی بات پر نقصان اٹھانے کے لیے تو تیار رہنا چاہیے۔ ایک بار جنرل پرویز مشرف کی صحافیوں کو بریفنگ میں ان کے ساتھ خاصی بحث ہوگئی۔ میں سوال پوچھنے کے لیے کھڑا ہوا اور بولا کہ جنرل صاحب! ڈاکٹر قدیر جو آپ کے بھی ہیرو ہیں … ابھی اتنا کہا تھا کہ جنرل مشرف ترنت بولے وہ میرے ہیرو نہیں ہیں۔ میں نے جواب دیا لیکن وہ میرے تو ہیرو ہیں۔ اس پر پورے ہال میں سناٹا چھا گیا۔ میں نے سوال مکمل کیا کہ آپ یکطرفہ طور پر ڈاکٹر قدیر کے خلاف چارج شیٹ لگا رہے ہیں‘ ان کو تو اپنا مؤقف بیان کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ مشرف جنرل مشرف نے دوبارہ سے ڈاکٹر قدیر پر اپنے پرانے الزامات دہرانے شروع کردیے۔ بعد میں بعض لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو سوال پوچھتے خوف نہیں لگا تھا کہ ان دنوں خاصے لوگ پراسرار طور پر لاپتہ ہو رہے تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے ایک لمحے کے لیے بھی خوف محسوس نہیں ہوا۔ دراصل اگر آپ اخبار نویس بنے ہیں تو اس کے مسائل و مصائب کے لیے بھی تیار رہیں۔ ایسے واقعات بھٹو صاحب کے ساتھ بھی ہوجاتے تھے‘ مگر وہ سیاست دان تھے‘ ناراض ہونے کے بجائے اپنے مؤقف کی وضاحت کرتے تھے۔ جنرل مشرف کے دور میں مجھے تمغہ امتیاز دینے کا بتایا گیا اور اس کے لیے بائیو ڈیٹا مانگا گیا تو میں نے انکار کر دیا کہ مجھے کسی فوجی حکمران سے کوئی تمغہ نہیں چاہیے۔ دوسروں نے تو تمغہ لے کر انکار کیا ہے۔ میں نے تو پہلے ہی انکار کردیا تھا۔ تو جیسی جرأت انکار جسٹس چودھری نے کی‘ وہ بندے میں کسی نہ کسی حد تک ہونی چاہیے۔

    موسیقی
    رفیع لتا موسیقی بہت پسند ہے‘ ہلکی پھلکی فلمی موسیقی‘ غزلیں اور کبھی کبھار کلاسیکل بھی جو قدرے عام فہم ہو۔ پاپ موسیقی قطعاً پسند نہیں ہے۔ مجھے لتا منگیشکر اور رفیع پسند ہیں‘ خاص کر رفیع کہ مردانہ آواز کے باوجود وہ تان میں لتا کا مقابلہ کرتا تھا۔ نور جہاں اور مہدی حسن کے سٹائل میں بڑی یکسانیت ہے۔ لگتا ہے کہ ایک ہی غزل بار بار گا رہے ہوں۔ فوک میوزک بہت پسند ہے‘ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی پہلے پسند تھا‘ اب وہ اپنے آپ کو دہرا رہا ہے۔

    فلم
    Devdas_2002_soundtrack پہلے بہت فلم دیکھتا تھا‘ ا ب تو کئی سال سے سینما گھر ہی نہیں گیا‘ ٹکٹ کے ریٹ کا ہی پتہ نہیں‘ بھارتی اداکار شاہ رخ خان مجھے بہت پسند ہے۔ اس کی فلم دیوداس بہت اچھی لگی‘ اس میں وہ فن کی انتہا تک پہنچ گیا۔ ہمارے ہاں اب تو کوئی اداکار ہے ہی نہیں۔ پرانوں میں ظریف اچھا تھا۔ محمد علی نے مجھے کبھی متاثر نہیں کیا۔

    شاعری
    فیض احمد فیض فیض صاحب میرے پسندیدہ شاعر ہیں‘ ان سے بڑا اچھا تعلق رہا‘ وہ میرے بڑے مہربان تھے‘ ان کی شاعری کا کیا کہنا‘ ان کی خوش قسمتی تھی‘ وہ روس کے خاتمے سے پہلے ہی رخصت ہوگئے ورنہ یہ ان کے لیے بہت گہرا صدمہ ہوتا۔ حبیب جالب کی شروع کی شاعری اعلیٰ تھی ‘ بعد میں تو وہ شاعرانہ رپورٹنگ ہو کر رہی گئی تھی‘ ویسے یہ حقیقت ہے کہ ایوب خان کو سب سے زیادہ نقصان جالب کی شاعری نے پہنچایا تھا۔

    اخبارنویسی کا کیرئر
    میں اپنے کیریئر سے مکمل طور پر مطمئن ہوں۔ اخبار نویسی نے مجھے متوازن شخصیت بنایا ورنہ ملا بن گیا ہوتا۔ دراصل اخبار نویس حالات کے ساتھ ساتھ آگے چلتا ہے‘ میں نے صحافت ملازمت کے لیے نہیں کی تھی، کیونکہ مجھے روزگار کے لیے ملازمت کی ضرورت نہیں تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اس میں عزت ملی۔ اب مکمل ذہنی آسودگی کا احساس ہوا ہے۔ اللہ کرے کہ ایسی آزادی آگے برقرار رہے۔