Tag: احسان کوہاٹی

  • زرد صحافت اسے کہتے ہیں!  –  احسان کوہاٹی

    زرد صحافت اسے کہتے ہیں! – احسان کوہاٹی

    یہ غالباً سولہ سترہ برس پرانی بات ہے جب روزنامہ امت کا دفتر کراچی کے گنجان ترین علاقے نامکو سینٹر میں ہوا کرتا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب شہر ایم کیو ایم کے قبضے میں اور صحافت یرغمال ہوا کرتی تھی۔ تب نیوز چینلز نے جنم نہیں لیا تھا۔ الیکٹرانک میڈیا میں صرف پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان ہی تھے، جو بلاشرکت غیرے سرکار کے قبضے میں تھے۔ لے دے کر اخبارات اور جرائد ہی بچے تھے، جو ایم کیو ایم سے بچے ہوئے نہیں تھے، سرشام ہی اخبارات کے فیکس نائن زیرو کے بیانات دینا شروع کردیتے جن کی نوک پلک سنوار کر اخبارات نمایاں طور پر شائع کرنے کے پابند ہوتے تھے۔

    ایسے میں روزنامہ امت اکلوتا اخبار تھا جس نے اس پابندی کو قبول کرنے سے علانیہ انکار ہی نہیں کیا، بلکہ ایم کیو ایم کے حوالے سے کھل کر لکھنا بھی شروع کردیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب الطاف حسین کو لندن میں چھینک بھی آتی تو کراچی میں آٹھ دس معصوم شہریوں کا صدقہ دے دیا جاتا۔ اس ماحول میں امت کی بے باکی اکثر کی نظروں میں حماقت ٹہری تھی۔ ان دنوں ایڈیٹر صاحب کا معمول ہوتا تھا کہ وہ آٹھ نو بجے رپورٹنگ ڈیسک پر آتے اور ہر رپورٹر سے پوچھتے کہ آج کیا لائے ہو؟ خبر اچھی اور بڑی ہوتی تو وہ رپورٹر کو اپنے چھوٹے سے دفتر میں بلالیتے، خبر کے بارے میں سوال جواب کرتے، شواہد طلب کرتے کہ اس ایکسکلوزیو نیوز کے ثبوت کیا ہیں اور اس ادارے، شخص کا موقف کہاں ہے؟ موقف کے بنا خبر شائع نہیں ہوتی تھی۔ ایڈیٹر کا کہنا تھا کہ جس کے خلاف خبر ہے، اس سے لازمی رابطہ کریں۔ اس کا موقف لیں، بے شک وہ گالیاں دے۔

    ایسے ہی اک رات ایڈیٹر صاحب اپنے کمرے سے نکلے، رپورٹنگ ڈیسک پر پہنچے اور رپورٹروں سے کارگزاری پوچھنے لگے۔ ایک سینئر رپورٹر نے خبر سامنے رکھ دی جو ایم کیو ایم کی خاتون بااثر راہنما نسرین جلیل صاحبہ کے خلاف تھی۔ ایڈیٹر صاحب نے خبر ہاتھ میں لی اور پڑھنے کے بعد رپورٹر سے پوچھا کہ موقف کہاں ہے؟ رپورٹر نے پس و پیش کی کہ ایم کیو ایم والوں سے کیسے بات کی جائے؟ کیسے موقف لیا جائے؟ ایڈیٹر صاحب نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ موقف لو، اس کے بعد ہی خبر فائل کرنا۔ رپورٹر نے سعادت مندی سے سر ہلایا اور تار کھینچ کر ٹیلی فون کو قریب کھسکاکر نمبر ڈائل کرکے نسرین جلیل صاحبہ سے لگا۔ ایڈیٹر صاحب اپنے کمرے کی طرف پلٹے تو آغا خالد صاحب نے رپورٹر سے پوچھا: ’’بات ہوگئی؟‘‘

    رپورٹر نے اثبات میں سر ہلایا جس پر آغا خالد صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ فون تو ڈید پڑا ہوا ہے، موقف کیسے لے لیا؟ اب رپورٹنگ ڈیسک میں لگنے والا قہقہہ خاصا زور دار تھا۔

    آج سیلانی کو وہ واقعہ اور قہقہہ بڑی شدت سے یاد آرہا ہے کہ اک دور وہ بھی تھا اور یک دور آج کا بھی ہے کہ صحافت کی لغت سے ہی ذمہ داری، اصول پسندی کے الفاظ نکال دیئے گئے ہیں۔ مقام افسوس یہ کہ ایسی بے اصول صحافت اب وہ اخبار بھی کررہے ہیں جو پاکستان کے بڑے اخبار قرار پاتے ہیں۔ جو فرنٹ پیج پر پاکستان کے سب سے بااصول لیڈر بابائے قوم کی تصویر فخریہ چھاپتے ہیں کہ قائد اعظم ان کا اخبار پڑھا کرتے تھے۔ انگریزی کے اسی بڑے اخبار کے صفحہ اول پر لگنے والی خبر نے اپنی ہی ساکھ پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔

    سیلانی اسلام آباد سے دور کراچی میں رہتا ہے، لیکن اب فاصلوں کی اہمیت ہی کیا رہی ہے۔ سیکنڈوں منٹوں میں یہاں کی آگ کی تپش وہاں اور وہاں کی پھوہار کی بوندیں یہاں پہنچ جاتی ہیں۔ پھر کراچی کے اس بڑے انگریزی اخبار کی خبر ڈسکس کیسے نہ ہو، یہ خبر تو ملکی سرحدوں سے نکل کر نئی دہلی میں بھی مزے لے لے کر سنائی جارہی ہے کہ معاملہ پاکستان کا ہے۔ سچی بات ہے یہ خبر سیلانی کی نظر سے نہیں گزری تھی، البتہ اس نے سنا تھا کہ ایک بڑے انگریزی اخبار نے کچھ ’’بڑی بریکنگ نیوز‘‘ دی ہے۔

    سیلانی کو وہ خبر ای میل کی صورت اسلام آباد میں ایک دوست نے بھیجی، وہ دفاعی تجزیہ نگار ہیں، رابطہ ہوا تو پھبتی کستے ہوئے کہنے لگے ’’آج کل آپ کراچی والے کیا چلارہے ہیں۔۔۔۔‘‘

    ’’میں سمجھا نہیں‘‘ سیلانی کو معاملے کا علم ہی نہیں تھا۔

    ’’ارے بھئی کراچی والوں نے ڈی جی آئی ایس آئی اور شہباز شریف کو بھڑا دیا اور آپ کو خبر ہی نہیں۔‘‘

    استفسار پر پتا چلا کہ ایک بڑے اور پرانے انگریزی اخبار نے کسی اجلاس کی خبر چھاپی ہے، جس میں بتایا گیا ہے شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر کے درمیان گرما گرمی ہوئی ہے اور ظاہر یہ کیا جارہا ہے کہ سول اور عسکری قیادت فاصلے پر کھڑی ہے۔۔۔ سول حکومت کا گلہ ہے عسکری قیادت انتہا پسند جہادیوں کو سپورٹ کرتی ہے اور اسی وجہ سے پاکستان عالمی تنہائی کی طرف جارہا ہے۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تو سیدھا سیدھا سول اور ملکی سلامتی کے اداروں کو ایک دوسرے سے بھڑانے کی کوشش ہے۔ بھارت سمیت دنیا کو بتانا ہے کہ فوج اور حکومت کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے اور حکومت نے عسکری اداروں پر واضح کیا ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہائی سے بچنے کے لیے اہم معاملات پر اتفاق رائے سے کارروائیاں ہونی چاہئیں۔

    ’’اوہ ان حالات میں یہ خبر تو واقعی خطرناک ہے۔ اگر کسی اردو اخبار میں شائع ہوتی تو شاید اتنا زیادہ مسئلہ نہ ہوتا لیکن یہ انگریزی اخبار تو بااثر سفارتی حلقوں میں پڑھا جاتا ہے۔‘‘

    ’’اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ سوچ سمجھ کر ہی خبر شائع کی گئی ہے۔‘‘

    انہوں نے سیلانی کو خبر ای میل کردی، جو اب سیلانی کے سامنے تھی۔ خبر کیا تھی نئی دہلی اور واشنگٹن کی باچھیں کھلارہی تھی۔

    ’’حکومت نے واضح اور غیر معمولی طریقے سے قیادت کو یہ پیغام پہنچادیا کہ عالمی سطح پر تیزی سے پاکستان تنہا ہورہا ہے جبکہ ریاستوں کی جانب سے کئی اہم معاملات پر کارروائیوں کے لیے اتفاق رائے کا بھی تقاضا کردیا۔‘‘

    پیر 3 اکتوبر کو آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر ہونے والی ایک خفیہ ملاقات میں کم سے کم دو اقدامات پر اتفاق کیا گیا۔ پہلا یہ کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کے ہمراہ چاروں صوبوں کا دورہ کریں گے اور صوبائی اپیکس کمیٹیوں اور آئی ایس آئی کے سیکٹرز کمانڈرز کو ایک پیغام دیں گے۔ وہ پیغام یہ ہوگا کہ: فوج کے زیر انتظام کام کرنے والی خفیہ ایجنسیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کالعدم شدت پسند گروہوں اور ان گروپس کے خلاف کارروائیوں میں مداخلت نہیں کریں گی، جنہیں اب تک سویلین ایکشن کی پہنچ سے دور سمجھا جاتا تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر کے دورہ لاہور سے اس عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔ دوسرا یہ کہ وزیر اعظم نواز شریف نے ہدایات دیں کہ پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات کو کسی نتیجے پر پہنچانے کے لیے نئے اقدامات کیے جائیں جبکہ ممبئی حملہ کیس سے متعلق مقدمات راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں دوبارہ سے شروع کی جائیں۔ یہ فیصلے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے درمیان ہونے والی زبردست بحث کے بعد کیے گئے۔ زیر نظر مضمون ان شخصیات سے ہونے والی گفتگو پر مبنی ہے جو رواں ہفتے ہونے والے اس اہم اجلاس میں شریک تھے، تاہم ان تمام افراد نے آن ریکارڈ بات کرنے سے انکار کیا اور انہوں نے جو باتیں کیں، ان کی تصدیق متعلقہ افراد کی جانب سے بھی نہیں کی گئی۔‘‘

    حیرت کی بات یہ تھی کہ خبر ہی میں کہا جارہا تھا کہ اس حوالے سے فریقین میں سے کسی نے تصدیق کی نہ آن دی ریکارڈ بات کی۔ پھر بھی خبر صفحہ اول پر چھاپ دی گئی۔ خبر میں مزید دعویٰ کیا گیا تھا:

    ’’سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی اور دیگر سول عہدے داروں کے درمیان حیرت انگیز اور غیر معمولی تبادلہ خیال شروع ہوگیا۔ سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ کے رد عمل میں ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر نے استفسار کیا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا ہونے سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟ اس پر اعزاز چوہدری نے جواب دیا کہ عالمی برادری کا سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ جیش محمد، مسعود اظہر، حافظ سعید، لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے جواب دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ جسے ضروری سمجھتی ہے گرفتار کرے، تاہم یہ واضح نہیں کہ انہوں نے یہ بات مذکورہ افراد اور تنظیموں کے حوالے سے کہی یا پھر عمومی طور پر کالعدم تنظیموں کے ارکان کے حوالے سے کہی۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے غیر متوقع طور پر مداخلت کی گئی اور انہوں نے رضوان اختر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی سول حکام ان گروپس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ انہیں رہا کرانے کے لیے پس پردہ کوششیں شروع کردیتی ہے۔

    شہباز شریف کا یہ موقف سن کر شرکاء ششدر رہ گئے، تاہم کشیدگی کو کم کرنے کے لیے خود وزیر اعظم نواز شریف نے رضوان اختر کو مخاطب کیا اور کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا، وہ ریاستی پالیسیاں تھیں اور ڈی جی آئی ایس آئی کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جارہا۔ قبل ازیں اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی نے بتایا کہ فوج کی پالیسی ہے کہ وہ شدت پسند گروہوں کے درمیان فرق نہیں کرتی اور فوج اس پالیسی کو رائج رکھنے کے لیے پر عزم ہے۔ تاہم آئی ایس آئی چیف نے مختلف شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کے وقت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا اور کہا ان کارروائیوں سے ایسا تاثر نہیں جانا چاہیے کہ یہ بھارت کے دباؤ پر کی جارہی ہیں یا ہم نے کشمیریوں سے اظہار لاتعلقی کردیا ہے۔‘‘

    ملک کے ٓبڑے انگریزی روزنامے میں سیاسی اور عسکری قیادت میں تلخ ملاقات کا الزام، اس کا ’’احوال‘‘ اور ’’فیصلے‘‘ رپورٹ کرنے والے نے اتنی بڑی خبر بنا موقف کے ہی نیوز ڈیسک کو دے دی اور پھرشاباش کہ اسے چھاپ بھی دیا گیا۔ سیلانی کے دوست نے بتایا کہ اصولی صحافت کے علمبرداروں نے اگلے روز وزیر اعظم ہاؤس سے آنے والی تردید بھی اندرونی صفحوں میں شائع کر دی۔

    اس خبر کے حوالے سے سیلانی کے دوست کا کہنا تھا یہ خبر دینے والے صاحب انگریزی اخبار کے رپورٹر ہی نہیں ہیں، وہ تو کالم نگار ہیں۔

    اصولی صحافت کی شاہکار خبر سیلانی کے لیپ ٹاپ پر اپنی تما م تر شرانگیزیوں کے ساتھ موجود تھی۔ اس خبر کا مقصد قومی سلامتی کے اداروں اور حکومت کو آنے سامنے لانے اور پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے بجائے کیا ہوسکتا ہے۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی جوبن پر ہے۔ بھارت سے بپھرے کشمیری سنبھلے نہیں سنبھل رہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں پر مجاہدین کے حملے پھر سے بڑھ گئے ہیں۔ نوجوانوں نے پھر سے بندوقیں اٹھالی ہیں اور ایسی صورتحال میں جب بھارت پاکستان کو عالمی سطح پرتنہا کرنے کے لیے سازشیں کررہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر توپیں لارہا ہے، راجھستان میں مورچے کھود رہا ہے، بارڈر کے دیہات خالی کرا رہا ہے، جنگی تیاریاں کررہا ہے، نریندرا مودی جنگ کے دنوں کے لیے اسلحے کی مخصوص پوجا کررہا ہے اور ہم یہاں اپنی ہی سول اور عسکری قیادت کو لڑوا رہے ہیں۔ دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ حکومت کچھ کہتی ہے اور فوج کچھ کرتی ہے۔۔۔

    بالفرض مان لیتے ہیں اجلاس میں ایسا ہی ہوا ہوگا تو بھی کیا اسے ان حالات میں خبر بننا چاہیے تھا؟ صحافی ہونے، اخبار نکالنے اور پیسہ کمانے سے پہلے ہم پاکستانی بھی ہیں۔ پاکستان ہے تو ہم یہاں موجیں کررہے ہیں۔ مزے سے رہ رہے ہیں۔ یہاں سے کمائے جانے والے پیسوں سے ہمارے بچے باہر کی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں اور ہم سالانہ تعطیلات میں دنیا کے مہنگے شہروں میں مع اہل و عیال پائے جاتے ہیں۔۔۔ ہمیں تھوڑی دیر کے لیے خودغرض ہوکر وطن کی نہیں، اپنی ان عیاشیوں کی ہی فکر کرلینی چاہیے کہ پاکستان ہے تو یہ عیاشیاں ہیں۔ ہم اس شاخ کو تو نہ کاٹیں جس پر آشیانہ ہے۔۔۔۔ سیلانی یہ سوچتا ہوا سامنے میز پر رکھے لیپ ٹاپ کی اسکرین کو لب بھینچے دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • ’’حاجی صاحب‘‘  –  احسان کوہاٹی

    ’’حاجی صاحب‘‘ – احسان کوہاٹی

    سیلانی نے آنکھیں ملتے ہوئے سیل فون کی روشن اسکرین پر نظر ڈالی اور ایس ایم ایس پڑھ کر بڑبڑانے لگا ’’یہ نہیں سدھریں گے۔۔۔‘‘

    سیلانی فون چارجنگ پر لگاکر غسل خانے میں گھس گیا۔ وضو کیا، نماز پڑھی اور کالم لکھنے کے لیے مسہری پر لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا، لیکن اس کا ذہن اسی ایس ایم ایس کی طرف تھا۔ اس نے لیپ ٹاپ ایک طرف کیا اور حاجی صاحب سے لڑنے کے لیے ان کا نمبر ڈائل کرنے لگا کہ یہ کیا طریقہ ہے۔ صبح سویرے کوئی اس طرح کا بیہودہ مذاق بھی کرتاہے۔۔۔

    سیلانی نے حاجی صاحب کا نمبر ڈائل کیا، دوسری طرف سیل فون کی گھنٹی بجی اور پھر خلاف توقع کسی نسوانی آواز میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔
    ’’السلام علیکم حاجی صاحب سے بات کرادیں۔‘‘
    ’’حاجی صاحب کا تو انتقال ہوگیا ہے۔۔۔‘‘
    ’’کیا، یایایایایا۔۔۔ آپ کون بات کررہی ہیں؟‘‘

    ’’میں ان کی مسز بات کررہی ہوں۔۔۔ رات ان کی طبیعت خراب ہوئی، اسپتال لے کر گئے لیکن۔۔۔‘‘

    ’’آپ مذاق نہ کریں، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘
    ’’بھائی ہمیں تو خود بھی یقین نہیں آرہا۔۔۔‘‘

    سیلانی نے لائن کاٹ دی اور دوبارہ لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا۔ اسے پتا تھا کہ پینسٹھ برس کے شرارتی حاجی صاحب نے مسز کو بھی ساتھ ملالیا ہے۔ اس نے کالم لکھا، ’’امت‘‘ کو ای میل کرکے حاجی صاحب سے دو دو ہاتھ کرنے نکل کھڑا ہوا۔

    حاجی صاحب سیلانی کے ان خاموش قارئین میں سے تھے جو برسوں سے سیلانی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہاتھوں کے پیالوں میں اس کے لیے دعائیں لیے رکھتے ہیں، لیکن کبھی سیلانی سے نہیں ملے۔ غالبا ایک سال پیچھے حاجی طفیل صاحب ان خاموش قارئین کی صف سے نکل آئے۔ انہوں نے سیلانی کا سیل نمبر لیا اور کال کرکے پاکستان چوک آنے کی دعوت دی۔

    ’’پاکستان چوک پر دکنی مسجد معروف ہے، اس کے بالکل سامنے خاکسار کی چھوٹی سے ڈیری شاپ ہے۔ ادھر آکر کسی بسم اللہ ملک شاپ اور لال داڑھی والے حاجی صاحب کا پوچھ لیجیے گا، آپ پہنچ جائیں گے۔‘‘

    اور ایسا ہی تھا، خوش مزاج حاجی صاحب پاکستان چوک میں اپنے خالص دودھ دہی اور خوش مزاجی کی وجہ سے چھوٹوں بڑوں، سب میں مشہور تھے۔ خاص کر بچے تو ان کے گرویدہ تھے۔ شاید ہی کوئی بچہ ہو جو انہیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے ہاتھ نہ ہلاتا ہو۔ انہوں نے دکان میں بچوں کے لیے ٹافیوں کی بڑی سی برنی بھر رکھی تھی اور ہر وہ بچہ اس ٹافی کا حقدار تھا جن پر ان کی نظر پڑجاتی۔

    حاجی صاحب کے اخلاق نے پہلی ہی ملاقات میں سیلانی کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ وہ گوجرانوالہ کے تھے اور دیکھنے میں بھی گوجرانوالہ کے ریٹائرڈ پہلوان ہی لگتے تھے۔ سیلانی نے انہیں کھرے مزاج کاسچا بندہ پایا۔ انہوں نے سفید داڑھی ہی مہندی سے رنگی ہوئی تھی، اس کے سوا ان کی شخصیت پر ملمع کاری کا دور دور تک واسطہ نہ تھا۔

    سیلانی کی حاجی صاحب سے دوستی ہوگئی۔ عمروں کے فرق کے باوجود مزاج ایک سے تھے، اس لیے خوب دوستی ہوگئی۔ اس دوستی میں پاکستانیت اور خوش خوراکی کا بڑا عمل دخل تھا۔ سیلانی خود ہی کو بڑا خوش خوراک سمجھتا تھا، لیکن حاجی صاحب کے سامنے وہ واقعی طفل مکتب تھا۔ سیلانی ان سے سٹی کورٹ کے پیچھے کیفے حسن کی نہاری کا ذکر کرتا تو حاجی صاحب کہتے اسلم روڈ والے کی نہاری کھائی ہے؟ سیلانی ان سے جامع کلاتھ کی چنا چاٹ کی بات کرتا تو فرماتے اقبال کی چنا چاٹ کھائی ہے؟ اور پھر وہ سیلانی کو وہ چیز کھلانا فرض سمجھ لیتے۔ انہوں نے اصرار کرکے منیب الرحمان اور شیث خان کو بھی ایک دن دکان پر بلالیا اور اس کے بعد تو حاجی صاحب سیلانی کے گھر کے فرد جیسے ہی ہوگئے۔ منیب الرحمان تو اٹھتے بیٹھتے ان کے گن گاتا رہتا۔ اس کی حاجی صاحب سے ایسی دوستی ہوگئی کہ نیند سے بھی اٹھاکر حاجی صاحب کے پاس چلنے کے لیے کہا جاتا تو آنکھیں ملتا ہوا پاؤں میں چپل ڈال کر کھڑا ہوجاتا۔

    سیلانی موٹر سائیکل دوڑائے چلا جارہا تھا اور وہ تمام القابات، خطابات جمع کررہا تھا جو اس نے آج حاجی صاحب کو عطا کرنے تھے۔ اس سے پہلے بھی وہ ایک بار ایسی ہی حرکت کرچکے تھے۔ حرکتیں تو بہت سی کرتے رہتے تھے، ان کی تازہ ترین حرکت سیلانی کو اپنا پیر ومرشد قرار دینا تھی۔ وہ ان سے ملنے جاتا تو کسی مرید کی طرح کھڑے ہوجاتے۔ سیلانی بھی کسی پیر کی طرح ان کے شانے پر کرامتی ہاتھ سے تھپتھپاہٹ دے دیتا اور پھر دونوں پیر مرید مل کر قہقہہ لگاتے۔ بات پیر و مرشد ٹھہرانے تک رہتی تو کوئی مضائقہ نہ تھا۔ حاجی صاحب نے تو اوروں سے بھی سیلانی کا تعارف ’’میرے پیر ومرشد‘‘ کی حیثیت سے کرانا شروع کردیا تھا۔ کچھ دن پہلے دو خواتین دکان میں داخل ہوئیں۔ سیلانی کی شامت آئی ہوئی تھی کہ وہ بھی وہیں موجود تھا۔ ان خواتین کو دیکھ کر حاجی صاحب نے فورا کہا
    ’’او بسم اللہ بسم اللہ، میری بیٹیاں آئی ہیں، کوئی ٹھنڈی لسی شسی پلائے‘‘۔
    ملازم نے ان کے لیے بنچ صاف کرکے رکھ دیا۔ وہ دونوں خواتین تھکی ہوئی لگ رہی تھیں۔ حاجی صاحب نے بتایا کہ یہ بچیاں پولیو ورکر ہیں۔ بڑی محنت کر تی ہیں۔ پھر ان سے خیر خیریت پوچھتے پوچھتے اچانک ہی گویا ہوئے ’’یہ میرے پیر صاحب ہیں، انہیں سلام کریں، دعائیں لیں۔‘‘

    اب جو خواتین نے کلین شیو پیر صاحب پر نظر ڈالی تو یہ بات ہضم نہ کرسکیں۔ ادھر سیلانی ان کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگا، لیکن حاجی صاحب کہاں باز آنے والے تھے۔ انہوں نے مزید کہا: ’’ان کے کلین شیو چہرے کی طرف نہ جائیں یہ اللہ والے اپنا آپ چھپاکر رکھتے ہیں‘‘۔

    بس ان کا یہ کہنا تھا کہ ایک پولیو ورکر التجائیہ لہجے میں گویا ہوئی ’’میرے لیے دعا کیجئے کہ اس بار پوری تنخواہ مل جائے، بہت محنت کر رہے ہیں‘‘
    دوسری نے کہا ’’بس دعا کریں کہ ہمارے حالات اچھے ہوجائیں، ہمیں گھر سے باہر دھکے نہ کھانا پڑیں‘‘

    حاجی صاحب نے صدق دل سے آمین کہا اور ملازم سے کہا کہ انہیں ایک ایک لسی گھر کے لیے بھی پارسل کرکے دو۔ آج میرے پیر صاحب آئے ہوئے ہیں، میرا دل بڑا ہی خوش ہے۔۔۔ وہ احسان مند لہجے میں شکریہ ادا کرکے چلی گئیں اور سیلانی نے حاجی صاحب کے سامنے ہاتھ جوڑ لیے

    ’’نہ کیتا کرو حاجی صاحب، کیوں پھنسوائوگے‘‘

    ’’میں توانوں اتھے پیر صاحب مشہور نہ کردیاں تے کہنا‘‘ حاجی صاحب نے شرارتی انداز میں اپنے ارادوں کا اظہار کیا اور سیلانی نے وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔

    سیلانی موٹر سائیکل دوڑتا ہوا پاکستان چوک کے علاقے میں داخل ہوچکا تھا۔ وہ سوچ چکا تھا کہ حاجی صاحب کے ساتھ کیا کرنا ہے، لیکن کسی انجانے خدشے سے اس کا دل بھی دھک دھک کررہا تھا، جیسے جیسے دکان قریب آرہی تھی، اس کے دل اور تیزی سے دھڑکتا جارہا تھا۔ پھر دکان سامنے آگئی۔ دکان کھلی ہوئی تھی۔ اس کے دل کو ذرا ڈھارس سی ہوئی۔ اس نے دکان کے سامنے موٹرسائیکل کھڑی کی اور تیزی سے اترکر آگے بڑھا تو حاجی صاحب کے بیٹے انس کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو۔ اس نے دکان میں نگاہ ڈالی، حاجی صاحب کی کرسی خالی تھی۔
    ’’حاجی صا۔۔۔صاب‘‘ سیلانی نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔
    ’’رات انتقال ہوگیا جی۔‘‘ ملازم نے اداس لہجے میں بتایا۔

    ’’کب کیسے۔۔۔ ابھی تو تین دن پہلے میں ان سے مل کر گیا تھا، کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
    ’’ابو جی کی دو دن سے طبیعت خراب تھی، رات کو طبیعت پھر بگڑگئی، ایمبولینس منگوائی، اسپتال لے کر گئے لیکن ۔۔۔‘‘

    سیلانی انس کے گلے لگ کر رو پڑا۔ انس سیلانی کے گلے لگ کر رو رہا تھا اور سیلانی انس کو گلے لگاکر گلوگیر آواز میں جانے کیا کیا کہہ رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں علی بھی آگیا۔ تدفین کا انتظام کرنا تھا۔ سچی بات ہے سیلانی کی تو سمجھ نے ہی کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گیا۔ اس کا دل ہی نہیں مان رہا تھا کہ حاجی صاحب اس طرح اچانک چلے جائیں گے۔

    وہ تین دن پہلے ہی تو حاجی صاحب سے مل کر اور ہمیشہ کی طرح تڑی لگاکر گیا تھا کہ اب اگر انہوں نے یہ تکلفات کا سلسلہ بند نہ کیا تو وہ نہیں آئے گا اور یہ سچ بھی تھا۔ حاجی صاحب اس کی موٹرسائیکل کے ہینڈل پر بڑا سا تھیلا لٹکا دیتے جس میں بچوں کے لیے کبھی لسی کبھی بسکٹ اور والدہ کے لیے میٹھا دہی ہوتا۔ ان کے اس تکلف کی وجہ سے سیلانی نے ان سے ملنا کم کردیا تھا، لیکن ایسا کم ہی ہوتا کہ یہ وقفہ ہفتہ دس دن سے زیادہ رہا ہو۔ حاجی صاحب کی محبت خلوص اسے زیادہ دن پاکستان چوک سے دور رہنے نہیں دیتی تھی، لیکن اب وہ ہی دور ہو رہے تھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جارہے تھے۔

    حاجی صاحب سے سیلانی کی دوستی سال بھر کی بھی نہ تھی، لیکن اس مختصر سے عرصے میں حاجی صاحب نے سیلانی کے دل میں ہمیشہ ہمیشہ کی جگہ بنالی تھی۔ ایسی جگہ کہ شاید ہی کوئی اس کا مالک ہوسکے۔ ایسے محبت کرنے والے کھرے سچے لوگ آج کل کی مصنوعیت میں کہاں ملتے ہیں؟ حاجی صاحب کی نماز جنازہ آرام باغ کی مسجد میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ کے بعد حاجی صاحب کے چہرے پر سے چادر ہٹائی گئی، ہنسنے بولنے والا حاجی طفیل خاموشی سے آنکھیں موندے لیٹا ہوا تھا، جیسے طویل مسافت کے بعد مسافر تھک کر سوتے ہیں۔ سیلانی کا جی چاہا کہ وہ اس تھکے ماندے مسافر کو جگادے، کہہ دے کہ کچھ دن تو ٹھہرجاؤ۔ ابھی تو علی اور انس کی دُلہن تلاش کرنی ہے۔ بیٹی کو وداع کرنا ہے۔ نادر نے تیز موٹرسائیکل چلانا نہیں چھوڑی، اس کے کان کھینچنے ہیں اور منیب الرحمان بھی تو آپ کو بہت یاد کرتا ہے، اسے کیا کہوں گا۔۔۔۔ اے کاش کسی کے جگانے سے ابدی نیند سونے والے جاگ سکتے، روکنے سے رک سکتے۔۔۔ سیلانی حاجی صاحب کے سرہانے کھڑا تھا کہ آواز آئی آگے آگے بڑھتے جائیں، بھائی اوروں کو بھی چہرہ دیکھنے دیں، تب سیلانی بوجھل قدموں سے آگے بڑھتے ہوئے نمناک آنکھوں سے حاجی صاحب کو آنکھیں موندے لیٹادیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • ’’پھر پاکستان مردہ باد!‘‘ –  احسان کوہاٹی

    ’’پھر پاکستان مردہ باد!‘‘ – احسان کوہاٹی

    ٹیلی ویژن اسکرین ایک نیا تماشا دکھا رہی تھی۔ بااثر لوگوں کا منہ چڑھا پولیس افسر ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار کو ہتھکڑیاں لگا ئے لیے جا رہا تھا اور خواجہ اظہار الحسن اس سے پوچھے جارہے تھے کہ آپ مجھے کس جرم میں گرفتار کررہے ہیں؟ وارنٹ کہاں ہے؟ وہاں ایم کیو ایم پاکستان کے قائد فاروق ستار بھی دکھائی دے رہے تھے جو راؤ انوار سے یہی کچھ کہہ رہے تھے، لیکن راؤ انوار نے پہلے کب کسی کی سنی تھی جو اب سنتا۔ اس نے ستائیس مقدمات میں ضمانتوں پر رہا ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی خواجہ اظہار الحسن کو ساتھ لیا اور سپر ہائی وے کے سائیٹ تھانے کی طرف چل پڑا۔
    sailani-01
    یہ اس چھاپے کے دو گھنٹے بعد ہوا جو خواجہ اظہار الحسن کے گھر پر مارا گیا تھا۔ اس چھاپے سے ہی نیوز چینلز کو بریکنگ نیوز کا بوفے لنچ ملا۔ سیلانی اس ”وقت“ کے دفتر میں تھا جب ایک ساتھی نے کسی کا ٹیلی فون وصول کرکے کہا:
    ’’خواجہ اظہار کے گھر پولیس نے چھاپہ مارا ہے‘‘

    ’’ابے بھائی! پولیس میں یہ مجال کہاں، رینجرز والے ہوں گے۔‘‘ سیلانی نے فوراً کہا اور خبر کی تصدیق کے لیے سامنے دیوار پر آوایزاں درجن بھر ٹیلی ویژن اسکرینیں دیکھنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک نیوز چینل کی اسکرین پر ڈبا گھوما خواجہ اظہار کے گھر پولیس کا چھاپہ۔۔۔ سیلانی کے لیے یہ چھاپہ حیران کن تھا۔ ہماری پولیس ’’سیاہ سی‘‘ ہونے کے ساتھ مکمل طور پر سیاسی رنگ میں رنگی بلکہ لتھڑی ہوئی ہے۔ فی الوقت بوڑھے شاہ کی جگہ لینے والا جوان العمر شاہ اس موڈ میں نہیں تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان سے مخاصمت کا کوئی دروازہ کھولے، پھر پولیس کس کے کہنے پر سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کے گھر گئی اور کیا لینے گئی؟ سیلانی کے ذہن میں ان سوالات کا جھکڑ چلنے لگا۔ اس نے اپنے ذرائع سے رابطے کی کوشش کی، لیکن اتفاق کہ کسی سے بات نہ ہوسکی، البتہ راؤ انوار سے قریب کچھ صحافی دوستوں کے توسط سے پتا چلا کہ راؤ انوار کا کہنا ہے کہ خواجہ اظہار کے گھر میں کچھ ٹارگٹ کلرز موجود تھے۔۔۔ راؤ انوار کا یہ موقف دینے والے کو بھی اس پر ہنسی آرہی تھی اور سیلانی کو بھی۔ ایسے برے وقت میں کوئی پڑوسی کی بلی بھی گھر میں گھسنے نہ دے کجا کہ کوئی ٹارگٹ کلر کو مہمان بنائے۔ ایم کیو ایم کے حوالے سے باخبر ساتھی جانتے ہیں کہ اس کا سیاسی سیٹ اپ تنظیمی سیٹ اپ سے بالکل ہٹ کر ہے۔ مار دھاڑ والے کارکنوں سے کام لینا اور انہیں محفوظ پناہ گاہوں میں محفوظ رکھنا کے ٹی سی (کراچی رابطہ کمیٹی) کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے، سیاسی سیٹ اپ والے ان معاملات میں ’’معصوم‘‘ ہوتے ہیں۔
    sailani-03
    ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر راؤ انوار کا یہی موقف ڈبے میں گھومنے لگا۔ ادھر وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اس چھاپے کا فوری نوٹس لیا کہ معاملہ سپر ہائی وے پر مارے جانے والے ’’باریش دہشت گردوں‘‘ کا نہیں تھا، جو کلائیوں میں پڑی ہتھکڑیوں کے باوجود ’’مقابلہ‘‘ کرلیتے ہیں اور عدلیہ سے لے کر مقننہ تک کوئی نوٹس نہیں لیتا کہ دہشت گردی کے نام پر قتل ہونے والے نے ہتھکڑیاں کیوں پہنیں اور پھر مقابلہ کیسے کیا۔۔۔ وزیر اعلیٰ نے نہ صرف نوٹس لیا بلکہ کچھ دیر بعد یہ بھی کہہ دیا کہ راؤ انوار کے خلاف کارروائی ہوگی۔

    ادھر وزیر اعلیٰ نے ایکشن لینے کا عندیہ دیا، ادھر راؤ انوار خود نفری لے کر خواجہ اظہار کو گرفتار کرنے چل پڑے اور اسے ہتھکڑیاں لگاکر سائیٹ تھانہ سپر ہائی وے پہنچ گئے۔ وزیر اعلیٰ بپھر گئے۔ انہوں نے ایس ایس پی کو فوری طور پر معطل کرکے اس زون کے ڈی آئی جی کو بھی فارغ کردیا۔ اس معطلی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ معطل ایس ایس پی نے نیوز کانفرنس بلالی اور اب تمام اسکرینوں پر سفید کنپٹیوں والا ایک معطل ایس ایس پی بتارہا تھا کہ خواجہ اظہار الحسن کو باقاعدہ گرفتار کیا گیا ہے۔ کراچی میں ان ہی کے حکم پر گزشتہ دنوں گاڑیاں جلائی گئی تھیں اور ان پر نفرت انگیز تقاریر کے لیے سہولت کار ہونے کا بھی الزام ہے۔ اب انہیں کوئی پولیس افسر رہا نہیں کراسکتا۔ اب صرف عدالت ہی میں فیصلہ ہوگا۔۔۔
    sialani-04
    سیلانی کو اس سارے ڈرامے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ لیلائے اقتدار کو کنیز رکھنے والے ایسی چالیں چلتے رہتے ہیں۔ اسے یقین تھا کہ راؤ انوار کو قانون کی رکھوالی کا ہیضہ نہیں ہوا، کہیں سے اسے ہدایات دی گئی ہیں، اس پر کسی کا تو ہاتھ ہے جو وہ نیوز کانفرنس میں دھڑلے سے اپنے سینئر افسران کو کہہ رہا ہے کہ وہ اسے ہلکا نہ لیں۔ میں وہ اور وہ ڈی آئی جی نہیں ہوں۔۔۔ اس لہجے کی کوئی تو وجہ ہوگی۔ کوئی تو سبب ہوگا۔ کسی نے تو اس دھاگے کو پسے ہوئے کانچ کا لیپ دے کر مانجھا بنایا ہوگا۔ راؤ انوار پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے خاصے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ اسی قربت کی بنا پر وہ کسی کو گھاس نہیں ڈالتے۔ مرضی کے علاقے ملیر میں تعینات رہتے ہیں اور مرضی پر چلتے ہیں۔ یہ تعلقات بڑے پرانے ہیں۔ کراچی کے سینئر کرائم رپورٹر ائیر پورٹ تھانے کے اس سب انسپکٹر تھانیدار کو نہیں بھولے ہوں گے، جو دو ہفتے کی چھٹی کی درخواست لے کر ایس ایس پی شرقی کے پاس جاتا ہے۔ درخواست منظور ہوجاتی ہے تو فرمائش کرتا ہے کہ اس کی غیر حاضری میں کوئی دوسرا ایس ایچ او نہ لگایا جائے۔ ایس ایس پی اسے گھور کر چلے جانے کا کہتا ہے۔ وہ یہ درخواست اور فرمائش لے کر ڈی آئی جی کے پاس جاتا ہے۔ ڈی آئی جی اسے ڈانٹ کر دفتر سے نکال دیتا ہے کہ یہ پولیس ہے، تمہارے گھر کا باورچی خانہ نہیں کہ فرمائشی پروگرام چلاؤ۔ وہ چلا جاتا ہے اور پھر ڈی آئی جی آفس کو اسلام آباد سے ہدایت دی جاتی ہے کہ راؤ انوار کی چھٹی منظور کی جائے اور وہ اپنی رخصت پر تھانے کا ایڈشنل چارج جسے دے کر جارہا ہے اسے نہ چھیڑا جائے۔۔۔

    جی ہاں! اس وقت راؤ انوار سب انسپکٹر تھا اور اتنا بااثر تھا کہ سینئیرپولیس افسران بھی اس کے سامنے نہ آتے تھے، آج وہی ایس ایس پی ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی اور اپوزیشن لیڈر پر ہاتھ ڈال رہا تھا تو اس ہاتھ کے پیچھے کس کا ہاتھ ہوسکتا تھا؟

    سیلانی کو اس ڈرامے سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی، وہ دفتر سے نکل گیا، اسے ابرش یاد آرہی تھی، اس کا معصوم مسکراتا چہرہ یاد آرہا تھا، وہ جب اپنے بابا کو دیکھ کر خوشی سے چمکتی آنکھیں لیے اس کی طرف ہمکتی ہے تو اس لمحے کی لذت دنیا کی کسی چیز میں نہیں ملتی۔ سیلانی بائیک دوڑاتا ہوا گھر پہنچا۔ موٹر سائیکل کھڑی کی اور اپنے کمرے میں چلا آیا۔ وہاں ابرش مزے سے سورہی تھی۔ سیلانی نے اپنی بیٹی کی پیشانی چومی اور سیل فون ایک طرف رکھ کر کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا۔ منہ ہاتھ دھوکر لباس بدل کر سیلانی غسل خانے سے باہر نکلا تو سیل فون اسے اپنی جانب متوجہ کررہا تھا۔ سیلانی نے موبائل فون اٹھایا، واٹس اپ پر آنے والے پیغام نے اسے چونکا دیا۔ یہ ایک چھوٹا سا کلپ تھا۔ فاروق ستار کی نیوز کانفرنس کا چھوٹا سا ٹکڑا، جس میں فاروق ستار کہہ رہے تھے:

    ’’معاملہ لندن سے آنے والے بیانات نہیں ہیں۔۔۔ معاملہ پاکستان مخالف نعرے لگانے کا نہیں ہے۔۔۔“ فاروق ستار نے ابھی یہ دو جملے ہی کہے تھے کہ ان پاس موجود لوگ کہنے لگے:
    ’’دشمنی ہے، دشمنی ہے، دشمنی ہے‘‘

    ایک اور آواز آئی:
    ’’مہاجر دشمنی ہے‘‘

    اور پھر وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا، وہاں موجود لوگوں نے دل میں چھپا بغض نکالنا شروع کردیا، ایک نے آواز لگائی:

    ’’پاکستان ‘‘
    اور بہت ساری آوازیں آئیں ’’مردہ باد‘‘
    اور یہ نعرہ ایک بار نہیں لگا، دو بار پاکستان کا نام لیا گیا اور دو ہی بار کیمروں کے مائک نے مردہ باد، مردہ باد کی ناپاک اور غلیظ آوازیں ریکارڈ کیں۔
    sailani-02
    چھاپہ پڑا خواجہ اظہار کے گھر پر۔۔۔ گرفتار کیا گیا خواجہ اظہار کو۔۔۔ اس چھاپے پر فوری نوٹس بھی لیا گیا، ایس ایس پی معطل بھی ہوگیا۔ ڈی آئی جی کو بھی سندھ سے باہر کردیا گیا لیکن پھر بھی پاکستان مردہ باد!

    یہ گرفتاریاں، یہ ہتھکڑیاں، جیل کی روٹیاں اور جیلر کی سوٹیاں سیاست دانوں کے لیے صرف اس وقت نئی ہوتی ہیں جب پہلی بار ان سے سامنا ہوتا ہے۔ پھر یہ سیاسی کارکنوں کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ۱۹۵۴ ء ۱۹۵۵ میں قادیانیوں کے خلاف تحریک میں جمعیت علمائے پاکستان کے مولانا عبدالستار نیازی رح اور جماعت اسلامی کے مولانا مودودی رح کو عدالت نے سزائے موت سنائی، لیکن مولانا نیازی نے پاکستان سے بیزاری کا اظہار کیا اور نہ مولانا مودودی نے کہا کہ وہ اس پاکستان کو نہیں مانتے۔ یہ وہ پاکستان نہیں جو اسلام کے لیے بنا تھا۔ کسی نے بھی کہیں بھی پاکستان مردہ باد کا نعرہ نہیں لگایا۔۔۔ اس سے پہلے قائد ملت کو شہید کیا گیا۔ انہوں نے بھل بھل بہتے گولی کے زخم پرہاتھ رکھتے ہوئے آخری الفاظ کہے کہ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔۔۔ ان کے بعد نوابزادہ صاحب کی اولاد میں سے کس نے کہا کہ ہم نے اس لیے پاکستان کے لیے جاگیریں چھوڑی تھیں کہ ہمارے باپ کو سرعام قتل کیا جائے؟ ہم ایسے پاکستان کو نہیں مانتے، جہاں ہم محفوظ نہ ہوں۔۔۔ اب آگے چلیں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی، کس جیالے نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا۔۔۔ اور آگے بڑھیں بی بی بینظیر کو قتل کیا گیا۔ بلاول، آصفہ، بختاور میں سے کس نے پاکستان مردہ باد کہا؟ دو برس پہلے جمیعت علماء اسلام کے مولانا خالد سومرو کو گولیاں ماری گئیں، جمعیت کے کس کارکن نے کہا کہ پاکستان مردہ باد؟
    sailani-05
    سیلانی انتظار کرتا رہا کہ سندھ اسمبلی کے معزز رکن کے گھر پر چھاپے اور گرفتاری کا نوٹس لینے والے وزیر اعلٰی اور برہمی کا اظہار کرنے والے وزیر اعظم پاکستان میں ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کے نعرے لگانے کا بھی نوٹس لیں گے، وہ آئی جی سندھ اور آئی جی سندھ سے کہیں گے کہ فاروق ستار کی موجودگی میں جس جس نے پاکستان مردہ باد کہا اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے، اسے فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔۔۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ ایک رکن سندھ اسمبلی کے گھر پر چھاپہ پڑا، اس کا استحقاق مجروح ہوا، اسے گرفتار کیا گیا، نوٹس لیا گیا، کارروائی کی گئی، لیکن پاکستان کے استحقاق کا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ سب ٹھنڈے پیٹوں پی گئے۔ پاکستان نہ ہوا غریب کی جورو ہوگئی۔ جس کا جی چاہے کھڑا ہوکر مادر وطن کو گالی دے دے۔ جیسے کوئی کالج کی عقبی دیوار کی طرف منہ کرکے پیشاب کردیتا ہے۔۔۔ سیلانی نے اراکین سندھ اسمبلی کے واٹس اپ گروپ میں اس مکروہ فعل کا ذکر کیا۔ اس نے اپنے صحافتی حلقوں میں دوستوں کو آگاہ کیا اور صبح تک موبائل اٹھا اٹھاکر اس نوٹس کا انتظار کرتا رہا جس نے نہیں آنا تھا، وہ ریموٹ لے کر ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھ گیا۔ چینل بدل بدل کر دیکھتا رہا کہ ابھی وزیر اعلیٰ ہاؤس کے ترجمان کی پٹی چلے گی، ابھی وزیر اعظم ہاؤس سے نوٹس لیے جانے کی بریکنگ نیوز چلے گی، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کیوں کہ یہ معاملہ کسی پاکستانی سیاست دان کے استحقاق کا نہیں پاکستان کا تھااور پاکستان تو بس۔۔۔

    سیلانی نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے ریموٹ ہاتھ میں لیے ٹی اسکرین پر نظریں جمائے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • مہاجر !کیا اب بھی نہ سوچیں گے  –  احسان کوہاٹی

    مہاجر !کیا اب بھی نہ سوچیں گے – احسان کوہاٹی

    کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ بانیان پاکستان کی اولاد کہلانے والے خود سے سوال کریں، اپنے گریبان میں جھانکیں اور سوچیں کہ انہوں نے قائد کے لیے کیا کیا نہ کیا۔۔۔ قائد نے کہا کہ ٹیلی ویژن ریفریجریٹر بیچ کر کلاشنکوفیں خریدو۔۔۔ اردو بولنے والے نوجوانوں نے بستے اتار کر کلاشن کوفیں اُٹھالیں۔

    قائد نے کہا کہ پٹھان، پنجابی، سندھی دشمن ہیں تو شہر لسانی طور پر تقسیم ہوگیا۔ لالو کھیت لیاقت آباد میں رکشہ ٹیکسی والوں نے جانا چھوڑ دیا۔ سندھی ٹوپی پہننے والا غلطی سے چلا جاتا تو ’’بھائی‘‘ کے چاہنے والے ’’غلطی‘‘ نہ کرتے۔

    قائد کو پیر ہونے کا شوق ہوا تو ’’پیر صاحب‘‘ کی تصویریں کروٹن کے پتوں پر نمودار ہونے لگیں۔ لوگ قطاریں باندھ کر زیارت کے لیے آنے لگے۔ مسجد کے سنگ مرمر پر بھائی کی شبیہہ کا شبہ ہوا تو مرید پورا سلیب ہی اکھاڑ کر لے گئے۔

    قائد کی سالگرہ ہوئی تو کئی منزلہ کیک کاٹنے کے لیے ہاتھ میں سونے کی تلوار دی گئی۔
    قائد جو جو کہتے رہے، ’’قوم‘‘ وہ وہ کرتی رہی۔ مولانامحمد علی جوہر، شبلی، نعمانی، حسرت موہانی، نواب وقار الملک کی قوم میں کن کٹے، دادے، لولے لنگڑے اور پنواڑی ہونے لگے۔

    پھر قتل وغارت گری شروع ہوئی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے۔ قائد نے بھی حرکت کی اور برطانیہ پہنچ گئے۔ قوم نے اسے جلا وطنی کہہ کر نعرہ لگایا:
    ’’وہ دور ہے تو کیا ہوا دلوں میں ہے بسا ہوا‘‘
    altaf hussain daleel
    قوم یہاں آپریشن بھگتتی رہی اور قائد وہاں لند ن میں دنیا کے مہنگے ترین علاقوں میں مزے سے قوم کا دکھ ’’محسوس‘‘ کرتے رہے۔

    پھر قائد نے برطانیہ کی شہریت لی۔ ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا وہاں حلف اٹھایا۔ حلف یافتہ کارکنوں نے جشن یہاں منایا۔

    قائد نے ایک قدم آگے بڑھایا۔ سندھ تقسیم کرنے کی بات کی۔ کارکنوں نے بھی کہا:
    سندھ میں ہوگا کیسے گزارا۔۔۔ آدھا تمہارا آدھا ہمارا

    پھر بات بڑھی اور بائیس اگست کی سہ پہر قائد کی نظر میں پاکستان ناسور اور عذاب ہوگیا۔

    میرے خیال میں اب بانیان پاکستان کی اولادوں کو سوچنا ہوگا کہ اس اسکرپٹ کے سامنے فل اسٹاپ لگا دینا چاہیے، لیکن ایسا جذباتی ہوکر نہ کیا جائے، سوچا جائے، سمجھا جائے۔ 80ء کی دہائی میں مہاجر تحریک کن اسباب پر اٹھی تھی؟

    محصورین وطن کی واپسی
    سندھ میں کوٹا سسٹم کا خاتمہ
    حکمرانی کا حق
    لسانی شناخت

    اب یہ سوال کس سے پوچھا جائے کہ محصورین کی واپسی کے لیے قائد نے کیا کیا؟ بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپوں میں جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے والے محصورین پاکستان کہاں ہیں؟ ایم کیو ایم چار دہائیوں سے وفاقی اور سندھ حکومت کا حصہ رہی ہے، پیپلز پارٹی سے لے کرمسلم لیگ نون تک ،جو جماعت بھی اقتدار میں آئی، ایم کیو ایم اس کی گود میں آبیٹھی۔ اہم وزارتیں،اہم مناصب ان کے پا س رہے، بس محصورین پاکستان پاس نہ رہے۔

    سندھ میں دیہی اور شہری سندھ کو تقسیم کرنے والا کوٹا سسٹم آج بھی اسی شکل میں موجود ہے، ایم کیو ایم نے اسے ختم کیوں نہ کیا؟

    آج سوچا جائے کہ حکمرانی میں حصہ ملنے کے بعد مہاجر وں کو کیا ملا؟ بار بار تصادم کی راہ پر مہاجروں کو کس نے ڈالا اور مشکل وقت میں قائد صرف زبانی جمع خرچ کے کیا کرسکے؟

    خود سے پوچھا جائے کہ لسانی شناخت نے مہاجروں کو کیا دیا؟ ملک کا سب سے پڑھا لکھا مہذب سمجھا جانے والے لوگ اب کیا سمجھے اور کیا کہے جاتے ہیں؟ اُردو داں طبقے کو پہلے کس نظر سے دیکھا جاتا تھا اور اب مہاجروں کو کس نظر سے دیکھاجاتا ہے؟ پہلے اُردو بولنے والوں کی شناخت شستہ لہجہ، تہذیب، شائستگی، رکھ کھاؤ ہوا کرتی تھی، اب وہ شناخت کہاں گئی؟ مہاجروں نے چار دہائیوں کی لسانی سیاست میں کیا پایا اور کیا کھویا؟ قائد تو اپنا الو سیدھا کرکے لندن سدھار گئے، قوم یہاں راستوں کی پیچیدگیوں میں بھٹک گئی اور جانے کب تک بھٹکتی رہے گی.

  • ’’سوری بھائی !میں بھی ذہنی تناؤ میں تھا‘‘  –  احسان کوہاٹی

    ’’سوری بھائی !میں بھی ذہنی تناؤ میں تھا‘‘ – احسان کوہاٹی

    اچھا ہی ہوا، الطاف حسین کا خبث ظاہر ہوگیا۔ وہ جو ایک عرصے سے بانیان پاکستان کی اولادوں کے قائد کا تاج سر پر لیے ملکہ برطانیہ کے سایہء عافیت میں موجیں کررہا تھا، اس کا اصل چہرہ قوم کے سامنے آگیا۔ دل میں پنپنے والی غلیظ آرزوئیں لیسدار کیچوئوں کی طرح زبان سے آکر لٹکنے لگیں۔ مکاری کی تاریکیوں سے ننگی خواہشیں باہر نکل کر رقص کرنے لگیں۔ سازشی ذہن میں پلنے والی لے پالک سوچ بھی دانت نکوسنے لگی۔ اس حوالے سے واقفان حال تو بہت پہلے سے جانتے تھے کہ فلم ’’ناسور‘‘ کا پرڈویووسر کون ہے؟ کاسٹ میں کون کون شامل ہیں؟ اسکرپٹ کس کا لکھا ہے؟ مکالمے کہاں سے ای میل ہوئے ہیں؟ موسیقی کس نے ترتیب دی ہے اور دھنیں کس نے بنائی ہیں۔۔۔!!! آئٹم سونگ کے لیے بھائی کو کسی نیم عریاں رقاصہ کے ہیجان انگیز رقص کی ضرورت نہیں، وہ خود مہان کلاکار ہیں۔ قوم کو یاد تو ہوگی بھونڈی آواز میں لہک لہک کر پردے میں رہنے دینے کی وہ التجا جو ازلی آزردہ کو بھی ہنسا دیتی ہے۔ بھائی نے کیسے جھوم جھوم کر معنی خیز گاناگایا تھا
    پردے میں رہنے دو پردہ نہ اٹھاؤ
    پردہ جو اٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا
    اللہ میری توبہ۔۔۔۔ اللہ میری توبہ

    بھائی ایک عرصے سے اشاروں کنایوں میں اس فلم کو پردے کے حوالے کرنے کا ذکر کر رہے تھے۔ بند کمروں میں تو کھل کر ڈسکس کرتے تھے لیکن جلسے جلوسوں میں بھی سندھ کی تقسیم، کبھی انتطامی بندر بانٹ اور کبھی پاک فوج کے خلاف توپیں دم کرکے شائقین کے تجسس کو ہوا دے رہے تھے۔ ماحول بنا رہے تھے۔ پھر فلم پروڈیوسر کا بھی اصرار بڑھ گیا کہ بہت ہوچکی ایڈیٹنگ، اب فلم کو پردے پر آجانا چاہئے اور اکیس اگست کی سہہ پہر بھائی نے فلم کا ٹریلر مارکیٹ میں پھینک دیا۔ ٹریلراچھا چل گیا۔ بھائی فلم چلانے کے لیے تیار ہوگئے، لیکن صلاح کاروں نے مشورہ دیا کہ ابھی ٹھہر جائیں۔ ٹریلر کو دھوم مچانے دیں، پھر فلم ریلیز کیجیے گا۔ بھائی کے ساتھیوں نے مہورت کے لیے تیاریاں شروع کردیں اور ایم کیو ایم پاکستان نے معافی نامہ جمع کراکر شائقین پر ’’اداروں‘‘ کا دباؤ کم کرانے کی کوشش کی لیکن کیا کیجیے کہ معافی نامے کے چند گھنٹوں بعد ہی بھائی کے اندر چھپا پاکستان کے خلاف خبث تنگ کرنے لگا۔ انہوں نے مائک منگوایا اور امریکہ میں 2016ء کے ’’مکتی باہنوں‘‘ کے کارکنوں کے سامنے قے کرنے لگے۔

    ’’اللہ کرے، اپنے حبیب پاک کے صدقے۔۔۔ جن لوگوں نے تیرے نام پہ، اللہ کے نام پہ، حضور ﷺ کے نام پہ پاکستان بنایا تھا، انہی کو یہ قتل کررہے ہیں، اس پاکستان کو تباہ و برباد کردے۔‘‘ بھائی یہ بددعا کرتے جا رہے تھے اور مکتی باہنی کے غدار آمین، آمین، ثم آمین کہتے جارہے تھے۔

    ’’ایک آواز آئی ’’ان شاء اللہ بھائی آپ کی دعائیں ضرور رنگ لائیں گی۔۔۔‘‘
    دوسرا دریدہ دہن بولا: ’’تقسیم در تقسیم مقدر ہے اس پاکستان کا‘‘
    ایک اور منمنایا ’’ان شاء اللہ بھائی، یہ تو نظر آرہا ہے بھائی، جو ہورہا ہے یہی نظر آرہا ہے، تقسیم ہوگا اور تقسیم ہوگا۔ جو یہ ظلم اور زیادتیاں کریں گے، پہلے بنگالیوں کے ساتھ کیں، اب مہاجروں کے ساتھ کررہے ہیں۔ یہ دیکھیے تقسیم ہوگی اور تقسیم ہوگی‘‘۔

    بھائی کی آوازپھر سنائی دینے لگی
    ’’پورا حیدر آباد زونل آفس سیل کیا ہے سیل، نائن زیرو۔۔۔‘‘

    بھائی کے اس دکھ پر کارکنوں نے پرسہ دیا، تسلی دی کہ یہ ہمارے دلوں کو سیل نہیں کرسکتے۔ ہم انہیں دوبارہ کھولیں گے، ابھی کچھ اور منمنانے کو تھے کہ بھائی غرائے
    ’’بات کرو۔۔۔۔ تم میں سے جو اسرائیل سے بات کرسکتا ہے، ایران سے کرسکتا ہے، افغانستان سے کرسکتا ہے، بھارت سے کرسکتا ہے، بات کرو۔۔۔ ہماری مدد کریں، ہماری مدد کریں، ہم سے غلطی ہوگئی، گناہ ہوگیا۔۔۔۔ اے ہندوؤ! ہم نہیں سمجھے۔ ہم اس سازش کو نہیں سمجھے جو انگریز نے بنائی تھی۔ ہم اس کا حصہ بن گئے جو نہیں بنے، وہ عیش کر رہے ہیں، حکمرانی کررہے ہیں، وردی پہن کر بے عزتی کررہے ہیں۔۔۔۔ ہر کسی سے مدد مانگو، اللہ سے مدد مانگو کہ ہر جگہ سے ہمارے لیے ذرائع پیدا کردے۔۔۔ امریکہ ساتھ دے، اسرائیل ساتھ دے۔۔۔۔ میں داعش، القاعدہ، طالبان اور اس کو پیدا کرنے والی آئی ایس آئی اور اس کی فوج کے خلاف خود لڑنے کے لیے جاؤں گا‘‘۔

    اللہ اور رسولﷺ کا نام لے لے کر اللہ اور رسول ﷺکے نام پر بننے والے پاکستان کو توڑنے کی بددعائیں دینے والے اس شخص نے چند گھنٹے پہلے ہی کہا تھا کہ میں ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔ میں معذرت چاہتا ہوں، میں معافی چاہتا ہوں، مجھے وہ سب نہیں کہنا چاہئے تھا اور اس معافی نامے کو لے کر لندن میں بیٹھے ہوئے دیگر ’’فرزندان وطن‘‘ کہہ رہے تھے بھائی نے معافی مانگ لی، سو بات ختم ہوگئی۔ اب کیا جان لوگے؟ اور سچ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے تو بات ختم ہی کردی تھی۔ الطاف حسین نے پاکستان کو اکیس اگست کی سہہ پہر ناسور کہا تھا اور سب نے اسے ٹھنڈے پیٹوں پی لیا تھا۔ انتظامیہ تو اے آر وائے ٹی وی کے بیورو آفس میں گھسنے پر حرکت میں آئی تھی۔ اگر اس روز ایم کیو ایم کی غنڈیاں توڑ پھوڑ نہ کرتیں تو کیا کوئی نیوز چینل اس کا ذکر کرتا؟ ’’نیو نیوز‘‘کو چھوڑ کر سب نیوز چینلز بھی خاموش تھے۔ صرف ایک یہی نیوز چینل تھا جس نے بریکنگ نیوز میں بتایا کہ الطاف حسین پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوارہا ہے۔۔۔ پاکستان کو ناسور کہہ رہا ہے۔ پاکستان کو عذاب کہہ رہا ہے۔ ان نیوز چینلز کے تو اس وقت کان کھڑے ہوئے جب الطاف حسین نے تین بڑے چینلوں کے نام لے کر باجیوں اور ساتھی بھائیوں کو شہہ دی کہ یہ مزے والی کوریج نہیں دے رہے۔ کارکنوں نے آپیوں باجیوں کے ہمراہ آپے سے باہر ہوکر توڑ پھوڑ کی تو نیوز چینلز کو بھی ہوش آیا اور انہوں نے پہلی بار نامعلوم سے معلوم کا فاصلہ طے کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بدمعاشیاں ایم کیو ایم کے کارکن کررہے ہیں۔

    اس روز جو ہوا سو ہوا، ایم کیو ایم نے معافیاں تلافیاں کرکے منزل سے بڑھ کر ماننے جاننے والے قائد سے اظہار لاتعلقی کرکے اپنی جان بھی چھڑالی اور ’’ایم کیو ایم پاکستان‘‘ ہوکر پوری تنظیم کو بھی بچالیا لیکن چند گھنٹوں بعد ان کا قائد پھر کس دباؤ میں آگیا؟ پھر کس ذہنی تناؤ میں آگیا؟ فاروق ستار عامر خان کہتے ہیں کہ بھائی کی ذہنی کیفیت درست نہیں تو یہ کیسا پاگل پن ہے؟ یہ کس قسم کے مرگی کے دورے ہیں کہ ذہنی مریض خود کو مارنے پیٹنے، آس پاس موجود لوگوں کا گلا دبانے، ان کے کپڑے پھاڑنے کے بجائے پاکستان کو گالیاں دینے لگتا ہے! وہ اس ذہنی دباؤ میں پاکستان توڑدینے کے اسباب بھی بیان کرتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ کس کس ملک سے جاکر مدد مانگو! کون کون سا ملک تمہاری مدد کرے گا۔۔۔ اسے ذہنی دباؤ میں یہ بھی یاد ہے حیدرآباد کے زونل آفس کے تالے میں موم ٖڈال کر سیل کیا گیا ہے، وہ اس ذہنی دباؤ میں اس عزم کا اظہار بھی کرتا ہے کہ وہ پاک فوج اور آئی ایس آئی سے لڑنے خود جائے گا!

    سیلانی کو ایک دفاعی مبصر کی بات یاد آگئی کہ الطاف حسین نے یوں ہی منہ اٹھاکر پاکستان کے خلاف زبان نہیں چلادی، یہ سب کچھ بڑی ٹائمنگ سے ہورہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی اب کسی طرح بھارت سے سنبھل نہیں رہی۔ پانچ ہزار سے زائد کشمیری زخمی اور سو کے قریب شہید ہوچکے ہیں، لیکن ہر شہید کے جنازے میں پچھلے شہید سے زیادہ لوگ اور زیادہ پاکستانی پرچم ہوتے ہیں۔ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر سے دور رہنے کے لیے پہلے مودی نے بلوچستان کا شوشا چھوڑا لیکن بلوچوں نے اس کے خلاف ریلیاں جلسے کرکے بھرپور جواب دیا تو اب اس نے الطاف حسین کو حق نمک ادا کرنے کے لیے کھل کر سامنے آنے کا حکم دیا اور پھر آپ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ گوادر چائنا اقتصادی راہداری کی شکل پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی اقتصادی تحریک اٹھنے والی ہے۔ ایسے میں سیاسی عدم استحکام اور بغاوت کی تحریکیں دشمنوں کا بڑا ہتھیار ہوتی ہیں۔ اب اس کے خیال میں یہ ہتھیار استعمال کرنے کا وقت آچکا ہے۔۔۔ اپنے دوست کے تجزیئے کے مطابق ایسا نہ بھی ہو تو ایسا کہاں ہوتا ہے کہ ایک ملک کا شہری بھاگ کر سات سمندر پار ملک میں جابسے، وہاں کی شہریت لے، حلف اٹھاکر خدا کو حاضر ناظر جان کر کہے کہ وہ اس ملک کی ملکہ کا وفادار رہے گا۔ وہ شادی کرے تو اسی ملک کی شہری خاتون سے، اسے وہ ملک پاسپورٹ دے تو باچھیں پھیلاکر پاسپورٹ کے ساتھ تصویر کھنچوائے۔ وہ دنیا کے مہنگے ترین علاقے میں ٹھاٹ باٹھ سے رہے اور وہ پھر کبھی اپنی اولاد کو بھی اس ملک کی ہوا تک نہ لگوائے جہاں سے اس کی دوا اور دارو کے لیے چندہ بھتہ جمع کرکے بھیجا جاتا ہو۔ اس کے بدن پر چڑھے کوٹ کی قیمت بھی وہیں سے آنے والے چندے سے ادا ہوتی ہو۔ پیروں کے جوتا کے دام بھی وہاں سے آنے والی فطرانے کی رقم سے ادا ہوتے ہوں۔ اسے کوئی پیر کہے، کوئی بھائی کہے اور کوئی قائد کہے، قائد بھی ایسا کہ جس کے لیے نعرے لگتے ہوں، ہمیں منزل نہیں راہنما چاہیے اور پھر وہ اس ملک میں اپنے چیلوں چانٹوں کو وفاقی وزیر مشیر میئر بنوائے۔ اقتدار کے لیے سودے بازی کرے۔ منہ پھاڑ کر اپنا حصہ لے اور اس قوم کا مسیحا کہلائے جسے گرداب میں چھوڑ کر وہ وہ دوردیس جا بسا ہو۔۔۔ یہی نہیں وہ احسان فراموش وہاں سے بیٹھ کر اس ملک کو ناسور قرار دے۔۔۔ عذاب قرار دے۔۔۔ خاتمے کو ثواب کہے۔۔۔ اور دشمن ملکوں سے مدد لینے کے لیے کہے۔۔۔

    اوہ سوری، سوری سوری۔۔۔! سیلانی کچھ زیادہ ہی کہہ گیا۔ بھائی کے چاہنے والے یہ پڑھ کر یقیینا بھڑک اٹھیں گے۔ اشتعال میں آجائیں گے۔ چلیں کوئی بات نہیں، میں ایڈوانس میں معذرت مانگ لیتا ہوں۔ میں ان سب دوستوں سے دست بستہ کہتا ہوں کہ میرا مقصد تو یہی تھا جو آپ نے پڑھا اور سمجھا ہے، بس میں کسی ’’غدار وطن‘‘ کی دریدہ دہنی پر غصے میں آگیا تھا۔ ذہنی تناؤ کا شکار ہوگیا تھا۔۔۔ سیلانی یہ لکھتے ہوئے قطار میں ترتیب سے بیٹھے لفظوں کو دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • ’’بول اٹھا بلوچستان۔۔۔ پاکستان پاکستان‘‘ – سیلانی

    ’’بول اٹھا بلوچستان۔۔۔ پاکستان پاکستان‘‘ – سیلانی

    آج آپ کو سیلانی سرحد پار کی کچھ مزیدار خبریں سناتا ہے، لیکن پہلے زمین پر کسی گندے کپڑے کی طرح پڑا کپڑے کا یہ ٹکڑا دیکھ لیجیے اور اب ذرا تھوڑی دیر کے لے ایران چلیے۔ ایران بھی وہ جب یہاں کسریٰ حکمران تھا اور ایران دنیا کی سپر پاور ہوا کرتا تھا۔۔۔ جی جی وہی مسلمانوں کے شمشیرو سناں اول والے دور کا ایران، یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب چار سوایران کا طوطی بولتا تھا۔ ایرانیوں کی فوج کے نام سے ہی اچھے اچھے راجے مہاراجے کان پکڑ لیا کرتے تھے کہ ان کے پاس تو چنگھاڑتے ہاتھی ہیں۔ ایک ایک پاؤں کے نیچے چار چار کچلے جاتے ہیں۔ کم بختوں کی موٹی چمڑی میں تیر گھستا ہے نہ نیزہ اثر کرتا ہے۔ ان کے منہ کو کون آئے۔۔۔۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے۔ تاریخ کے جھروکے سے دیکھیں تو سہی، اس کے گھمنڈی ایرانی شاہ کے دربار میں کیا ہورہا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں ناں اس بے خود نڈر شخص کو، یہ جو ”شاہ“ کو کلمہ پڑھنے کی دعوت دے رہا ہے۔ یہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ یہ فرما رہے ہیں کہ اللہ کی کبریائی تسلیم کرلو یا پھر میدان میں آجاؤ۔ اللہ کی بڑائی مان لیتے ہو تو زمین بھی تمہارے پاس رہے گی اور اس کا نظم و نسق بھی۔ نہیں مانتے تو جزیہ دینا ہوگا اور دونوں باتیں نہیں مانتے تو پھر مقابلہ ہوگا۔۔۔ ان کی اس بات پر کسریٰ کا غصے میں تلملانا کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ کہاں اس کی سرحد پر جمع چند ہزار جنگجو اور کہاں وہ ہاتھی گھوڑوں کی فوج رکھنے والا مطلق العنان حکمران۔۔۔ آپ دیکھ رہے ہیں ناں اس نے کیا کیا؟ اس نے مغیرہ بن شعبہ کے سر پر مٹی پھینک دی کہ مٹی کی بات کرتے ہو تو یہ لو مٹی۔۔۔ اور جاؤ اپنے سپہ سالار کو دے دینا کہ تمہارے سر پر خاک۔۔۔ اس نے مسلمان سفیر کی۔ بھرے دربار میں تضحیک کرکے یہ پیغام دیتے ہوئے روآنہ کردیا گیا کہ اگر انہوں نے ایران کی جانب دیکھنے کی کوشش کی تو اس کا نتیجہ رسوائی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ مسلمانوں کا سفیر اسی حال میں اپنے سپہ سالار سعد بن وقاص کے سامنے پیش ہوگئے اور سارا ماجرا کہہ ڈالا۔ سپہ سالار یہ دیکھ کر بالکل بھی پریشان نہ ہوئے اور کہنے لگا: ’’ایرانی بادشاہ نے مٹی نہیں پھینکی بلکہ اپنی زمین ہمارے حوالے کردی ہے اور پھر مورخ نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔ عرب سے آنے والے تھوڑے سے مجاہدین نے سپر پاور ایران کی ناک رگڑوا دی۔ وہ چنگھاڑتے ہوئے ہاتھی میدان میں لائے تو ان کی سونڈیں کاٹ کر اس چلتی پھرتی بلا کا رخ انہی کی جانب موڑ دیا۔ ایرانیوں کی تلواریں گرگئیں اور ایران فتح ہوگیا۔

    اب سیلانی کے ساتھ پندرہ اگست کی صبح بخشی اسٹیڈئم چلیے۔ ارے بھئی آیئے ناں کچھ نہیں ہوگا۔ آپ پر کوئی پیلٹ گن فائر کرے گا نہ جی ٹو کا برسٹ چلائے گا۔ ساتھ آئیں اور چپ چاپ تماشا دیکھیں۔۔۔ جی یہ بخشی اسٹیڈئم ہے۔ سری نگر کا بخشی اسٹیڈیم، سیکیورٹی دیکھ رہے ہیں آپ؟ ایک ایک فٹ فٹ پر بھارتی فوجی کھڑے ہیں۔ یہاں بھارت کی یوم آزادی کی سرکاری تقریب ہونا ہے۔ محبوبہ مفتی آرہی ہیں جھنڈالہرانے، اور یہ لیں وہ آگئیں، وقت کی پابند خاتون ہیں۔ ادھر یہ جھنڈے چڑھائیں گی اور ادھر ان کے پردھان منتری نریندر مودی ترنگا لہرائیں گے۔ شش شش چپ رہیے بھئی، بس دیکھتے جایئے۔

    دیکھ رہے ہیں ناں محبوبہ مفتی صاحبہ لمبے سے سبز رنگ کے چوغے میں پورے کروفر کے ساتھ بخشی اسٹیڈئم پہنچی ہیں۔ بھئی یہ پروٹوکول اور اقتدار ہی تو ہوتا ہے جو بھائیوں کو قتل کروا دیتا ہے اور باپ کو قید خانے میں ڈلوادیتا ہے۔ مفتی صاحبہ نے بھی تو اپنے محبوب اقتدار کے لیے ضمیر کا ٹیٹوا دبا رکھا ہے۔ کشمیریوں کی جان لے رہی ہیں تو کیا عجیب۔۔۔ محبوبہ صاحبہ آگے بڑھیں۔ وہاں موجود لمبے تڑنگے سپاہیوں سے سلیوٹ وصول کیے اور پورے وقت پر ایک سکینڈ اوپر نہ نیچے ترنگا لہرانے کے لیے ہاتھ سامنے کردیا۔ اب ان کے ہاتھ میں ترنگے کی ڈور ہے۔ کچھ ہی دیر میں بھارتی پرچم پور ے جبر کے ساتھ سری نگر میں لہرانے لگے گا۔۔۔ یار! آپ بہت بولتے ہیں اور خواہ مخواہ بولتے ہیں۔ اب جبر کو جبر نہ کہوں تو کیا کہوں۔ یہ جو چالیس روز سے مسلسل کرفیو لگا ہوا ہے، کیا یہ ڈل جھیل میں کشتیوں کی دوڑ کے لیے ہے؟۔۔۔ بس خاموش رہیں، وہ دیکھیں محبوبہ صاحبہ کے ہاتھوں میں ڈور ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ان کی ڈور دہلی سرکار کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے ترنگا چڑھانے کے لیے ڈور کھینچی۔ گلاب کی پتیاں بیچ میں رکھ کر تہہ کیا گیا۔ ترنگا آہستہ آہستہ اوپر جارہا ہے۔ اب جیسے ہی یہ اوپر پہنچے گا ہلکے سے جھٹکے سے کھل کر پھڑپھڑانے لگا۔۔۔ ارے ارے یہ کیا یہ، یہ، یہ تو پھڑپھڑانے کے بجائے نیچے زمین پر آرہا۔۔۔ یہ تو محبوبہ مفتی صاحبہ کے پیروں میں پڑا ہوا ہے۔۔۔ اوہ مائی گاڈ۔۔۔ چچ چچ بہت افسوس ہوا۔ بھارتی ترنگے کی ایسی بے حرمتی ورسوائی پر۔۔۔ اسی موقعے کے لیے انہوں نے کرفیو لگاکر ہزاروں فوجی کھڑے کیے تھے کہ کوئی آتنک وادی، گھس بیٹھیا رنگ میں بھنگ نہ ڈال دے۔ چائے میں تمباکو نہ پھینک دے۔۔۔ کیسی شرمندگی کی بات ہے بھئی، پوری دنیا دیکھ رہی ہے کشمیری وزیر اعلٰی کے چہرے پر ہوائیاں تو اڑیں گی ناں۔۔۔ اوہ دیکھو کیسی شرمندہ شرمندہ سی لگ رہی ہیں۔ چلیں اب واپس آجائیں آپ کا وقت بڑا قیمتی ہے۔ سیلانی کی بہنوں نے گھر کی صفائی ستھرائی کرنی ہے۔ کسی نے بجلی جانے سے پہلے واشنگ مشین لگانی ہے تو کسی نے پونچھا لگانا ہے۔ بھائی لوگوں نے بھی دفتر جانا ہوگا۔ سو کام ان کے منتظر ہوں گے۔ باقی وہاں جو کچھ ہوا میں بتادیتا ہوں۔

    سیلانی کو سرحد پار سے پتا چلا کہ مودی جی نے اس ’’درگھٹنا‘‘ کا بڑا ہی سخت نوٹس لیا۔ ان کی سیاہ پیشانی پر کئی بل پڑ گئے۔ انہوں نے انکوائری بھی بٹھادی کہ معلوم کریں اس کے پیچھے کس کا ہاتھ، اور ہاتھ جس کا بھی ہو اس کے پیچھے بازو آئی ایس آئی کا ہی تلاش کرکے دو۔۔۔ اس ہدایت کے ساتھ وہ خوب گرجے برسے۔ انہیں بلوچستان بھی یاد آگیا اور انہیں کی سینے میں بلوچوں کے لیے درد بھی اٹھا۔ اس درد میں کلبھوشن یادو کی پکڑائی کا دکھ بھی شامل تھا۔ سیلانی کو خبر ملی ہے کہ سری نگر میں جھنڈا گرائی کی تقریب اور پاکستان پر گرجنے برسنے کے بعد انہوں نے ایک گھپا میں دھونی جماکر بیٹھے ننگ دھڑنگ گیانی سادھو سے رابطہ کیا اور انہیں پرنام کرنے کے بعد ترنگے کے ساتھ ہونے والی رسوائی کا بڑے ہی دکھ بھرے انداز میں ذکر کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ سادھو کے پاس کبھی کبھار ہی جاتے ہیں۔ سادھو مہاراج نہاتے دھوتے ہیں نہ استنجا کی زحمت کرتے ہیں۔ اس بنا پر ان سے آنے والی ’’خوشبو‘‘ کئی دن تک نتھنوں میں موجود رہ کر ان کی یاد دلاتی رہتی ہے۔۔۔ سیلانی کو انہی ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے بنارس کے بڑے مندر کے مہان پجاری سے بھی رابط کیا ہے کہ وہ جھنڈا گرائی کا شگن معلوم کرکے بتائیں اور خصوصی پوجا بھی کرائیں۔ مودی جی نے کالی ماتا کے مندرکے پجاری سے بھی کہا ہے کہ وہ دیوی جی کے چرنوں میں بلی چڑھانے والے کشمیری مسلمانوں کی تعداد بڑھا رہے ہیں۔ پجاری جی بھی پوجا کی آنچ تیز کردیں۔

    سیلانی کو مزید پتا چلا ہے کہ کشمیر میں ہونے والی جھنڈے کی بے توقیری کے بعد مودی جی کے منہ کا ذائقہ کشمیری راجہ کے بیٹے نے خراب کردیا ہے۔ بھارت سے کشمیر کا سودا کرنے والے مہاراجہ ہری سنگھ کے بیٹے ڈاکٹر کرن نے بھارتی سرکار کو سرخ جھنڈی دکھادی۔ راجیہ سبھا میں بھانڈا پھوڑ دیا کہ ان کے پتا جی نے بھارت سے معاہدے میں یہ تھوڑی کہا تھا کہ بھارت کشمیر پر چڑھ دوڑے۔ جب ان کے والد نے بھارت سے الحاق پر دستخط کیے تو وہ اس وقت وہیں موجود تھے۔ اس معاہدے کے تحت بھارت کے پاس صرف مواصلات، دفاع اور امور خارجہ کے محکمے ہونے تھے۔ باقی معاملات ریاست کی ذمہ داری تھی۔ کشمیر پہلے کبھی بھارت کا اٹوٹ انگ تھا نہ اب ہے۔۔۔۔ لنکا ڈھانے والے گھر کے بھیدی نے اسی پر بس نہیں کیا۔ یہ بھی کہہ دیا کہ بھارت کشمیر کو اندرونی معاملہ قرار دے کر پاکستان سے مذاکرات سے انکار نہیں کرسکتا۔ کشمیر کبھی بھارت میں ضم ہی نہیں ہوا تو اٹوٹ انگ کیسے ہوگیا؟ یہ آخری برطانوی گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت تھی جس کا نتیجہ کشمیری آج بھی بھگت رہے ہیں‘‘۔

    سیلانی کو دہلی کے ذرائع بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر کرن کے اس لنکا ڈھانے پر مودی جی کا موڈ بہت خراب ہوا۔ اتنا تو اپنی پتنی جاشو دابھن کے ذکر پر بھی نہیں ہوتا۔ اس پر ظلم یہ ہوا کہ وہ بلوچستان جس کے غم میں پندرہ اگست کو ان کے سینے میں درد اٹھا تھا، اب ان کے پیٹ کا مروڑ بن چکا ہے۔ سیلانی کو ان کی تکلیف کا اندازہ ہے۔ اس کرب کا اندازہ ہے کہ وہ دنیا کے سامنے پاکستان پر انگلی اٹھاچکے ہیں کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہا ہے اور اس ہمدردی کے جواب میں کوئٹہ سے لے کر قلات اور قلات سے لے گوادر اور گوادر سے لے کر ڈیرہ بگٹی تک میں بلوچ پشتون خالص پاکستانی بن کر مودی کے پتلے جلارہے تھے۔ سبز ہلالی پرچم لہرا رہے تھے۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ سیلانی قومی میڈیا پر بلوچوں کا غصہ دیکھ رہا تھا۔ وہ کہیں مودی کے پتلے کو گدھے پر بٹھاکر اسے اس کا مقام بتا رہے تھے تو کہیں جوتیاں برساکر اس کی تقریر کا سواگت کررہے تھے۔ اسی پر بس نہ چلا تو انہوں نے مودی کے پتلے کو ریل کی پٹری پر لٹاکر ٹرین چلواکر واضح پیغام دے دیا کہ مودی جی اپنی للو سنبھال کر رکھیں۔

    سچی بات ہے بلوچستان میں پاکستان کے لیے ہونے والے مظاہرے اس کے لیے بڑے خوش کن تھے۔ مزے کے یہ سب دیکھنے کے بعد سیلانی نے چینل تبدیل کرتے ہوئے عابدہ پروین کو سر لگاتے دیکھا اور وہی ریموٹ رکھ دیا۔ عابدہ پروین ابھی سر لگا ہی رہی تھی کہ اس کے سیل فون کی گھنٹی نے ڈسٹرب کردیا۔ اس نے بادل نخواستہ فون اٹھایا۔ دوسری جانب سے شور کی آوازیں آرہی تھیں۔ اسی شور میں کسی نے اس کا نام پکارا ’’سیلانی بھائی!‘‘
    ’’جی ،جی بول رہا ہوں آپ کون؟‘‘
    ’’میں نصراللہ بگٹی بول رہا ہوں‘‘
    ’’نصراللہ بگٹی۔۔۔‘‘ سیلانی بڑبڑایا۔ اسے تو اس نام کا کوئی شناسا یاد نہ تھا۔
    ’’آپ سے دو سال پہلے سول اسپتال ملاقات ہوا تھا۔‘‘
    ’’اچھا اچھا ضرور ہوا ہوگا۔ کہو کیسے یاد کیا؟‘‘
    ’’آپ کو تو ہم یاد ہی رکھتا ہے۔ آپ نے کبھی یاد نہیں کیا۔ ہم آپ کو یہ آواز۔۔۔‘‘ شور کی وجہ سے سیلانی نصر اللہ کی بات نہیں سمجھ پا رہا تھا۔ عجیب سا شور تھا جیسے نعرے لگ رہے ہوں:
    ’’یہ شور نہیں ہے پاکستان زندہ باد کا نعرہ ہے۔ ہم لوگوں نے پاکستان کے لیے ریلی نکالا ہے۔۔۔۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘ سیلانی چونک گیا۔ ڈیرہ بگٹی میں پاکستان کے لیے ریلی، یہ علیحدگی پسند برہمداخ بگٹی کا آبائی ضلع ہے۔ اسی برہمداخ نے بھارتی وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا تھا اور اسی شکر گزاری پر اس کے قبیلے کے لوگ اس کے اپنے گھر پر اس پر برہم تھے۔

    ’’آپ ڈیرہ بگٹی میں ہو؟‘‘ سیلانی کے لہجے میں ابھی تک بے یقینی تھی۔
    ’’ہاں ہاں، سیلانی بھائی ہم ڈیرہ بگٹی میں ہوں۔ آپ حیران کیوں ہو رہا ہے؟ کیا ہم پاکستانی نہیں ہے؟ یہ لو سنو۔۔۔‘‘ اس کے بعد نصر اللہ کے فون کا اسپیکر پاکستان زندہ باد، مودی مودی مردہ باد کے نعرے سنانے لگا۔ یہ آوازیں یہ شور اتنا میٹھا لگ رہا تھا کہ سیلانی نے سامنے ٹیلی ویژن پر اپنی پسندیدہ گلوکارہ عابدہ پروین کی آواز دبی ہی رہنے دی اور مسکراتے ہوئے پاکستان زندہ باد کے نعرے سننے لگا۔ یہ نعرے اسی سرزمین سے پھوٹ رہے تھے، جہاں بھارت ایک عرصے تک اپنی انٹیلی جنس ایجنسی RAWکے کلبھوشنوں سے دہشت گردی کی آگ کو ہوا دیتا رہا اور اب اپنے تئیں بغاوت کا الاؤ جلاکر پاکستان کو کشمیر پر بلیک میل کرنے لگا تھا کہ اگر کشمیر کشمیر کی آواز بند نہ کی تو تمہارا بلوچستان ہاتھ سے نکل جائے گا۔ آج وہی بلوچستان مودی کو جوتے دکھا رہا تھا۔ آج وہی بلوچستان بول اٹھا تھا۔۔۔ پاکستان پاکستان، سیلانی فون کان سے لگائے ڈیرہ بگٹی کے بگٹی بھائیوں کے فلک شگاف نعرے سننے لگا اور مسکراتے ہوئے چشم تصور میں نریندرا مودی کی سیاہ پیشانی پر پسینے کے چمکتے قطرے دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • ’’گورکن‘‘   –  سیلانی

    ’’گورکن‘‘ – سیلانی

    سیلانی کی آنکھوں کے گوشے نم ہوئے نہ منہ سے آہ نکلی۔ وہ بت بنا خالی خالی نظروں سے ٹیلی ویژن کے سامنے کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ ٹی وی پر کوئٹہ میں ڈھائی گئی قیامت کے مناظر دکھائے جا رہے تھے۔ لہو میں لت پت لاشیں۔۔۔ موت کی اچانک جھپٹ پر حیران کھلی ہوئی ساکت آنکھیں۔۔۔ اکھڑتی ہوئی سانسیں۔۔۔ کراہتے ہوئے زخمی۔۔۔ اور ان زخمیوں کے درمیان بچ رہنے والے بوکھلائے ہوئے حواس باختہ خوش نصیب۔۔۔

    سول اسپتال کوئٹہ کی ایمرجنسی لمحوں میں قتل گاہ بن چکی تھی۔ بارودی دھماکے نے انسانی جسموں کے چیتھڑے اڑا دیئے تھے۔ درو دیوار خون سے رنگ دیئے تھے۔ زمین مذبح کے فرش کی طرح سرخ کردی تھی۔ اس مقام پر کٹے پھٹے وجود آڑھے ترچھے پڑے ہوئے تھے، جہاں زندگیاں بچائی جاتی ہیں، مسیحائیاں کی جاتی ہیں، آج وہیں ایک انسان نما درندہ موت بانٹ کر خود ’’جام شہادت‘‘ نوش کرگیا تھا، لیکن ایسا پہلی بار تو نہ ہوا تھا۔ دہشت و وحشت کا یہ کھیل پہلی بار کھیلا گیا ہوتا تو سیلانی کے چہرے کا رنگ بھی متغیر ہوتا۔ اس کا حلق خشک ہو تا اور آنکھیں چھم چھم برستیں۔ گزشتہ چار دہائیوں سے موت اس دھرتی پر ایسا ہی ناچ ناچ رہی ہے۔ بازار، اسپتال، تھانے، چھاؤنیاں، کچہریاں، سرکاری دفاتر، مدارس، اسکول، یونی ورسٹیاں حتیٰ کہ عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں۔

    ملک کا کون سا حصہ ہے جہاں خوف و دہشت نے کوئی سانحہ رقم نہیں کیا؟ خوف کی زیادتی خوف کو شکست دے دیتی ہے۔ دکھ کو دکھ اور تکلیف کو تکلیف مات دے دیتی ہے، سیلانی تو اپنے حصے کے اشک کب کے بہاچکا۔ 1987ء میں پہلی بار کراچی کے بوہری بازار میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد سے اس ملک میں اتنے دھماکے ہوئے کہ اب کوئی دھماکا دھماکا نہیں لگتا۔ اس کا دل بھی کسی قصاب، سرجن یالاشیں زخمی اٹھانے والے رضاکارکی طرح سخت سا ہوگیا ہے، اسی لیے جب اسے کوئٹہ کے سول اسپتال میں بم دھماکے کی اطلاع ملی تو وہ بس خاموش سا ہوگیا اور ٹیلی ویژن کے سامنے آکر لاشیں گننے لگا۔ دھماکے میں پندرہ جانوں کے ضیاع سے شروع ہونے والی بریکنگ نیوز اب پچاس کا ہندسہ عبور کرچکی تھیں۔ زخمیوں کی تعداد سو سے زیادہ بتائی جارہی تھی۔ رات تک یہ تعداد ستر تک پہنچ چکی تھی اور پھر سب کچھ ویسا ہی ہو نے لگا جیسا اب تک ہوتا آیا ہے۔

    آرمی چیف کوئٹہ پہنچ گئے۔۔۔ زخمیوں کی عیادت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔۔۔ امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاس طلب کرلیے گئے۔۔۔ وزیر اعظم بھی کوئٹہ تشریف لے ہی آئے۔۔۔ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے عزم کا اظہار کیا جانے لگا۔۔۔ مژدہ سنایا جانے لگا کہ بھاگتے دہشت گرد اب بوکھلاہٹ میں نہتے عوام کو نشانہ بنارہے ہیں۔۔۔ انکشاف ہونے لگے یہ دہشت گرد ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ دلاسے دیئے جانے لگے کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھا جائے گا۔۔۔ سب کچھ ویسا ہی ہورہا تھا جیسا دہشت گردی کے پہلے واقعے کے بعد سے ہوتا آیا ہے۔ سیلانی ٹیلی ویژن پر یہ سب دیکھتا رہا اور کڑھتا رہا۔

    حکمران ’’قیمتی جانوں‘‘ کے ضیاع پر اس افسوس کا اظہار کرچکے جو انہیں کبھی نہیں ہوا۔ سیاستدانوں نے بھی مذمتی بیان چلواکر اپنا فرض ادا کر دیا۔ امن و امان کے قیام کے ذمہ دار ادارے جیسے پہلے متحرک تھے، ویسے ہی اب بھی متحرک ہوگئے۔ میڈیا نصرت فتح علی کے الاپ کے ساتھ نیوز رپورٹیں دکھا دکھاکر رات نو بجے کا خبرنامہ بھگتا چکا، جس کے بعد سیلانی نے دفتر سے اپنا بیگ اٹھایا اور باہر نکل آیا، دفتر کے ایک دو دوستوں نے اس سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش بھی کی، لیکن سیلانی نے کوئی جواب نہیں دیا اور چپ چاپ باہر نکل آیا۔

    اس کا دفتر پریس کلب سے پیدل مسافت پر ہے، وہ وہیں موٹر سائیکل کھڑی کرتا ہے۔ وہ جانے پہچانے راستوں پر سر جھکائے چلتا ہوا پریس کلب کی طرف چل پڑا۔ وہ گہری سوچ میں گم تھاکہ آخر اس دہشت وحشت کے کھیل کا خاتمہ کب ہوگا؟ وہ آخری دہشت گرد کب مارا جائے گا جس کے بعد ہم سکون سے کہہ سکیں کہ ہماری نسلیں اب اس کینسر سے محفوظ ہیں اور ان سے آنے والی نسلیں ان سے پوچھا کریں گی کہ یہ خودکش دہشت گرد کیسا ہوتا تھا۔۔۔ کاش اس کا آخری کالم اسی آخری دہشت گرد کے خاتمے پر ہو۔

    سیلانی نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور گھر کو ہولیا۔ دفتر سے گھر کا راستہ ہمیشہ سیلانی کے کاندھوں پر وزنی اینٹوں کی مشقت کا سا بوجھ رکھ دیتا ہے، لیکن آج ستر جنازوں کے بوجھ کے خیال نے یہ بوجھ ہلکا کردیا۔ اسے نہیں پتا چلا کہ کب ماری پور روڈ پر بچھا فاصلہ سمیٹا، کب گلبائی سے ٹرک اسٹینڈ تک گڑھوں کی دھول مٹی میں اٹا راستہ عبور کیا اور کب گھر پہنچا۔ موٹر سائیکل کے ہارن کی آواز پر ہمیشہ کی طرح منیب نے حسب معمول ’’بابا آگئے‘‘ کا نعرہ لگایااور دروازہ کھول دیا۔

    سیلانی نے موٹرسائیکل اندر کھڑی کی۔ منیب نے پنجوں پر کھڑے ہوکر بابا کے گال پر بوسہ دیا اور اس کے کاندھے سے بیگ لیتے ہوئے بولے: ’’بابا! آج آپ نے اتنی دیر کردی، ہم تو ڈر ہی گئے تھے۔‘‘

    ’’ڈر۔۔۔‘‘ سیلانی چونکا۔

    ’’جی، ہم سمجھے کہ آپ کو ئٹہ نہ چلے گئے ہوں۔۔۔ آپ کا پتا نہیں چلتا ناں، آپ رپورٹنگ کے لیے چلے جاتے ہیں، بابا! آپ یہ جاب چھوڑ دیں۔‘‘

    منیب نے وہیں کھڑے کھڑے اپنے خدشے کا اظہار کرکے سیلانی کو صحافت چھوڑنے کا بھی کہہ دیا۔ اس کا یہ انداز، یہ بے چینی غیرمعمولی تھی۔ وہ ایک حساس بچہ ہے اور سیلانی کی طرح گہرا مشاہدہ کرنے والا observer ہے، لیکن اس طرح اس نے کبھی نہیں کہا۔ سیلانی نے پیار سے اس کے پھولے پھولے گالوں کو چھوا اور جواب دیئے بغیر والدہ کے کمرے میں چلا آیا۔ انہیں سلام کیا۔ انہوں نے جواب میں ہاتھ اٹھاکر ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے کہا: ’’ظالموں نے آج کوئٹہ میں قیامت ڈھا دی۔ اللہ انہیں غرق کرے، انہیں تباہ کرے۔۔۔ دیکھو ذرا! بیچارے لوگوں کے پیچھے پڑگئے ہیں۔‘‘

    ’’جی مورے! ستر بندے مرگئے ہیں۔‘‘
    ’’کیا، ستر بندے ہاہ آہ۔۔۔ اللہ انہیں برباد کرے۔‘‘ والدہ ہاتھ ملتے ہوئے بددعائیں دینے لگیں اور سیلانی اپنے کمرے کے غسل خانے میں گھس گیا۔ نہا دھوکر کپڑے بدل کر باہر آیا۔ ننھی ابرش نیند سے جاگ چکی تھی۔ سیلانی نے اسے بے اختیار اٹھاکر سینے سے لگالیا۔ ابرش کو سیلانی کی سخت شیو چبھتی ہے، وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اپنے بابا کا چہرہ دور کرنے لگی۔ وہ جتنا دور کرتی، سیلانی اتنا ہی اس کے نرم و نازک چہرے پر اپنا گال رگڑنے لگتا۔ ابرش تنگ آکر رونے لگی۔ شیث نے فوراً اپنی لاڈلی بہن کو بابا سے لیا اور پچکارتے ہوئے کمرے سے باہر لے گیا۔

    سیلانی صبح سے پہلی بار مسکرایاتھا، وہ مسہری پر نیم دراز ہوگیا۔ منیب بھی مسہری پر چڑھ آیا اور کہنے لگا: ’’بابا! آج کوئٹہ میں دو کیمرا مین بھی مر گئے ہیں ناں۔‘‘
    ’’جی بیٹا‘‘
    ’’یہ کیمرا مین بھی صحافی ہوتے ہیں؟‘‘
    ’’جی یہ بھی صحافی ہی ہوتے ہیں، ان کا کام تو زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ کسی بھی حادثے دھماکے میں انہیں وہاں کی فوٹیج بنانی ہوتی ہیں۔ فوٹو بنانی ہوتی ہیں۔‘‘

    ’’لیکن بابا! آپ کا کام بھی تو خطرناک ہے ناں، آپ بھی تو زخمی ہوئے تھے۔۔۔ بابا! آپ یہ جاب چھوڑ دیں۔‘‘

    ’’پھر کیا کروں؟‘‘ سیلانی نے مسکراکر اپنے ننھے خیر خواہ سے پوچھا۔
    ’’آپ، آپ آپ۔۔۔ ایسا کریں کہ گورنمنٹ جاب کرلیں۔‘‘

    ’’اچھا مگر کیوں؟‘‘
    ’’گورنمنٹ جاب میں خطرہ کم ہوتا ہے۔‘‘ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے شیث خان نے اس کی بات کی فوراً ہی نفی کردی۔
    ’’گورنمنٹ ملازمین کو تو دہشت گرد زیادہ ٹارگٹ کرتے ہیں۔ کبھی ان کی بس پر حملہ کرتے ہیں اور کبھی ان کے دفتروں پر۔‘‘
    ’’پھر بابا! آپ فوجی بن جائیں۔ ان کے پاس تو بندوق بھی ہوتی ہے۔‘‘

    سیلانی نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’بیٹا! سب سے زیادہ خطرہ تو فوجیوں کو ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ حملے تو انہی پر ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’پھر آپ کوئی بزنس کرلیں، لیکن ایک مسئلہ ہوگا کہ بزنس مینوں کو بھتے کی پرچی ملتی ہے۔‘‘ منیب نے خود ہی اس پیشے کو اپنے بابا کے لیے ناموزوں قرار دے دیا۔ پھر وہ تھوڑی دیر سوچتا رہا اور کہنے لگا: ’’ایسا کریں کہ آپ کسی اسپتال میں جاب لے لیں۔‘‘

    ’’اسپتال میں؟‘‘ سیلانی مسکرایا۔
    ’’نہیں نہیں نہیں۔۔۔ منیب نے تیزی سے یہ ملازمت بھی ردکر دی اور آہستگی سے بولا: ’’آج دھماکا اسپتال ہی میں تو ہوا ہے۔۔۔‘‘

    ’’بابا!آپ کچھ ایسا کریں ناں کہ جس میں خطرہ نہ ہو۔‘‘ سیلانی نے پیار سے منیب کو سینے سے لگایااور کہا: ’’میں بالکل محفوظ ہوں، کوئی پریشانی والی بات نہیں ہے۔‘‘

    ’’نہیں بابا، ہمیں ڈر لگتا ہے، آپ رپورٹنگ چھوڑ دیں۔‘‘
    منیب کی فرمائش پر شیث کہنے لگا: ’’بازار، اسپتال، روڈ، بسیں، ائیر پورٹ ہر جگہ ہی تو دھماکے ہوتے ہیں۔۔۔ پھر بابا کیا کریں؟‘‘

    شیث کی بات پر منیب نے جو جواب دیا اسے سن کر سیلانی لرز کر رہ گیا۔ منیب اپنے بابا سے کہہ رہا تھا:
    ’’ایک جگہ ایسی ہے جہاں دھماکے نہیں ہوتے۔‘‘
    ”کیا مطلب؟“ سیلانی چونکا۔

    ’’بابا! آپ undertakerبن جائیں۔‘
    ’’میں ریسلر کیسے بن جاؤں ۔۔۔‘‘

    ’’نہیں، نہیں بابا! وہ والا انڈرٹیکر نہیں، میں قبرستانوں والے انڈرٹیکر کا کہہ رہا ہوں۔۔۔ قبرستانوں میں دھماکے نہیں ہوتے، آپ قبریں کھودنے والا بن جائیں۔۔۔ ہماری میڈم بتا رہی تھیں کہ شہر میں ایک ایک قبر ہزاروں روپے کی ملتی ہے۔‘‘

    سیلانی نے منیب کی آنکھوں میں جھانکا، وہاں معصومیت محبت اور careکے علاوہ کچھ نہ تھا۔ سیلانی نے بے ساختہ منیب کو سینے سے لگاکر اس کی پیشانی چوم لی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم صرف گزشتہ ایک عشرے میں 49,000 جانیں گنوائے بیٹھے ہیں۔ یہ انچاس ہزار جانیں گنوانے کے بعد بھی آج ہم اپنے آنے والے کل کو محفوظ کل نہیں دے سکے ہیں۔ ہمارے معصوم بچے ذہن لڑا لڑا کر تھک رہے ہیں۔ اسکول، کالج، یونی ورسٹیاں، بازار، چھاؤنیاں، ائیرپورٹ، تھانے، کھیل کے میدان اور سڑکیں۔۔۔ کسی جگہ بھی تو امان نہیں۔ امان ہے تو بس شہر خاموشاں میں۔ پھر وہ کیوں نہ وہاں جا بسنے کی بات کریں۔۔۔ ہمیں اب دہشت گردوں کے خلاف ہرمصلحت جھاڑ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ اب دہشت گردوںاور جاسوسوں کو بھگانا نہیں، لٹکانا ہوگا۔ انہیں گردن کے ٹوٹے ہوئے منکوں کے ساتھ نشان عبرت بنانا ہوگا۔ بچھو کو بچھو اور سانپ کو سانپ صرف سانپ ہی نہیں کہنا ہوگا، ان کا سر بھی کچلنا ہوگا۔ ہم آج یہاں خدا کو حاضر ناظر جان کر فیصلہ کرتے ہیں تو شاید کل کوئی سیلانی کسی آخری دہشت گرد پر آخری کالم لکھ سکے۔ حکمران ملک و قوم کی خاطر نہ سہی، اپنی غرض کے لیے ہی خودغرض بن کر سوچیں تو یہ ان کی مجبوری ہے۔ انہیں اپنی شہنشاہی کے لیے زندہ رعایا بھی تو چاہیے۔۔۔ سیلانی یہ سوچتا ہوا اپنے ہاتھوں کے پیالے میں منیب کا چہرہ لیے شفقت پدری سے دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • ’’ اٹلی کا وینس‘‘  –  احسان کوہاٹی

    ’’ اٹلی کا وینس‘‘ – احسان کوہاٹی

    سارے منظر ویسے کے ویسے ہی ہیں، تالاب بنی سڑکیں۔۔۔ مٹیالے پانی سے جھیل بنے میدان اور پارک۔۔۔ گندے نالوں کے کنارے ٹین کی ٹپکتی چھتوں والے گھروں کے باہر سہمے ہوئے چہرے والی مخلوق۔۔۔ بجلی کے کھمبوں سے لگنے والے کرنٹ سے مرنے والوں کے پیلے چہرے۔۔۔ اور ایک آنکھ والے کیمرے سے اس مخلوق کا خوف ٹیلی ویژن کی اسکرین پر پہنچانے والے پیشہ ور رپورٹر۔۔۔ یہ سارے مناظرایک سے ہی ہیں، کوئی بھی تبدیلی تو نہیں آئی، سوائے اس کے کہ پہلے یہ منظر کسی تصویر کی صورت میں کسی اخبار میں جگہ پاتے تھے اور اب یہ اخبارکے ساتھ ساتھ نیوز چینلز کے خبرناموں کا لقمہ بھی بنتے ہیں۔

    ساکن تصویروں سے متحرک تصویروں تک برسوں کا سفر بھی یہ مناظر تبدیل نہیں کرسکا۔ میں جب شرارتی بچہ تھا تب کراچی میں برسنے والے بادل ایسے ہی منظروں کا تحفہ دے کر نکل بھاگا کرتے تھے۔ جب میری مسیں بھیگنے لگیں تب بھی بھیگی رت کراچی والوں کے چہروں پر ایسی ہی بے چارگی چھوڑتی تھی اور جب میں مونچھوں کو تاؤ دینے لگا تب بھی مون سون میں کراچی ایسے ہی ’’وینس‘‘ بنا دکھائی دیتا تھا۔ اس کی سڑکیں وینس کی آبی گلیوں کا سا منظر پیش کرنے لگتی تھیں اور آج جب جوانی کے بخار کے بعد طبیعت میں کچھ افاقہ سا محسوس کر نے لگا ہوں تب بھی میرا کراچی ویسے کا ویسا ہی ہے ۔

    karahchi
    طلسماتی حسن والے اٹلی کا منفرد شہر وینس کا خیال اب بھی مجھے گدگداتا رہتا ہے۔ یہ عجیب شہر ہے جس کی آبی گلیوں میں ناہنجار موٹرسائیکلوں کے بجائے کشتیوں کے انجن کا شور سنائی دیتا ہے، یہاں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے آپ ٹیکسی نہیں کشتی پکڑتے اور کرایہ طے کرتے ہیں۔ یہی اس شہر کی انفرادیت ہے جو لاکھوں سیاحوں کو یہاں کھینچ کر ان کے کریڈٹ کارڈوں کو اے ٹی ایم مشینوں سے وصال پر مجبور کرتی ہے ۔

    ساون بھادوں میں اپنا کراچی بھی وینس بن جاتا ہے لیکن افسوس کہ ہم اسے کیش نہیں کراتے۔ سندھ حکومت اس کی مناسب تشہیر کرکے بیرون ملک سے نہیں تو بیرون شہر سے سیاحوں کو کھینچ لاسکتی ہے۔ جمعے کی شب سے ہونے والی بارش نے کمشنر اور ایڈمنسٹریٹر کراچی کے چہرے پر بارہ بجا دیئے تھے۔ انہونی جو ہو گئی تھی۔ مون سون کی بارشیں روکنے کے لیے بلدیاتی اداروں نے جس بنگالی عامل کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں، اس کے مزید خدمت سے انکار کے بعد ہی بادل گرج چمک کر برسے تھے۔ کمشنر کراچی اور بلدیاتی اداروں کے افسران کا خیال تھا کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں آنے والی تبدیلی اب انہیں تبدیل کردے گی، انہیں افسر بکار خاص بن کر صرف حق حلال کی تنخواہ پرگذارہ کرنا پڑے گا لیکن وزیر اعلیٰ ہاؤس میں آنے والی تبدیلی نے ہفتے کی صبح انہیں پرسکون کردیا۔

    murad ali shah

    سندھ کے نئے نویلے جوان العمر وزیراعلیٰ مراد علی شاہ زمین سے ڈھائی فٹ اونچی لینڈ کروزر میں وزیر اعلیٰ ہاؤس سے باہر نکلے تو صحافیوں کو بھی خبر دے دی گئی۔ خبرنگار بھی کیمروں کے ساتھ سندھ کی مراد کے قافلے میں شامل ہوگئے۔ مراد علی شاہ نے شہر کا سرپرائز دورہ کیا۔ وہ محمودآباد گئے، لیاقت آباد میں رکے، پرانی سبزی منڈی کا چکر لگایا اور واپسی پر صدر کے کاکڑ ہوٹل میں چائے پراٹھے کا ناشتہ کرکے تاثر دیا کہ تبدیلی آگئی ہے لیکن شکر ہے کہ کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ایم اے جناح روڈپر سٹی کورٹس کے اردگرد جیسے پہلے گھٹنوں گھٹنوں پانی کھڑا ہوتا تھا اب بھی ویسا ہی پانی موجود ہے۔۔۔ ایمپریس مارکیٹ کو گاہکوں سے دور رکھنے کے لیے جیسے پہلے پانی حصار باندھتا تھا آج بھی ویسا ہی آبی حصار دیکھا گیا۔۔۔ لیاقت آباد کی سڑکوں پر جیسے پہلے بچے پیراکی کیا کرتے تھے، آج بھی وہاں یہی مشق جاری ملی۔۔۔ انڈر بائی پاس میں تو باقاعدہ غوطہ زنی کی تربیت ہورہی تھی۔

    karachi rain 01
    مراد علی شاہ صاحب نے کاکڑ ہوٹل پر چائے پراٹھے کا ناشتہ کرتے ہوئے میڈیا سے باتیں بھی کیں اور کہا کہ ذرا بارش رک جائے تو بلدیاتی عملہ صفائی ستھرائی کا کام شروع کر ے گا۔۔۔ یعنی تب تک شہری صبر کے پھل کا تصور کریں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو سے متاثر ہیں اور پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت سے رہبری لیتے رہیںگے۔۔۔ مراد علی شاہ کی اس گفتگو سے مجھے تو بڑی ڈھارس ہوئی اور یک گونہ مایوسی بھی کہ اب کی بار پھر وینس جانے کا ارادہ بنتا نظر نہیں آرہا۔ بھئی جب ہر مون سون میں کراچی کی کا ہر ٹاؤن وینس بن جائے تو مجھے کیا پڑی ہے لاکھوں خرچ کرکے اٹلی جانے کی؟

    اللہ سلامت رکھے بھٹو صاحب کو، سدا سلامت رکھے جب تک بھٹو صاحب حیات ہیں یہاں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔۔۔ لیکن ایک منٹ، ایک منٹ! میں معذرت چاہتا ہوں تبدیلی آئی ہے۔ پہلے شہر میں 70اور80ملی میٹر بارش کے بعد گلیوں میں نہریں بہتی تھیں، اب خیر سے47ملی میٹر کے بعد ہی کراچی وینس ہو گیا ہے۔۔۔ اور یہ اس وقت تک وینس بنتا رہے گا جب تک وزیر اعلیٰ ہاؤس میں قصاب سے گوشت میں ہڈی کم کروانے کے لیے تو تکار کرنے والا۔۔۔بجلی کا زائد بل لے کر کے الیکٹرک کے دفتر کے چکر کاٹنے والا۔۔۔ منی بس ڈبلیو گیارہ میں واہیات گانوں پر کنڈیکٹر سے الجھنے والا اورمحلے کے کریانہ اسٹور سے ادھار چینی لینے والا محمودآباد کا چوہدری محمد مراد، لالوکھیت کا مرزا مراد ،بنارس کا مراد خان اور ملیر کا مراد بلوچ نہیں پہنچے گا، جس کا اتنا ہی چانس ہے جیسے میرا وینس جانے کا !

  • ’’کاش شاہ صاحب واقعی بھنگ پیتے‘‘ – احسان کوہاٹی

    ’’کاش شاہ صاحب واقعی بھنگ پیتے‘‘ – احسان کوہاٹی

    وہ شخص اپنے چہرے مہرے سے کسی دوسرے علاقے کا لگتا تھا۔ اس کے چہرے پر عیاں تھکن بتا رہی تھی کہ وہ دور پار کا سفر کرکے یہاں پہنچا ہے۔ اسے مسافر جان کر بارعب چہرے والے دراز قامت شخص نے کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی،جسے کاندھوں پر تھکن رکھے مسافر نے بلا حجت قبول کرلی۔ اب وہ اپنے میزبان کے ساتھ بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔ سامنے کھانے میں ایک برتن میں گھی بھی موجود تھا۔ وہ شخص بے صبرے پن سے لقموں کے ساتھ گھی کھانے لگا۔ اسے اس طرح ندیدے پن سے گھی کھاتا دیکھ کر میزبان کے لبوں پر مسکراہٹ سی آگئی جس پر مسافر شرمندہ سا ہوکر کہنے لگا

    ’’معافی چاہتا ہوں میرے علاقے میں قحط پڑا ہوا ہے، پیٹ بھر کر کھانا کھائے بھی عرصہ ہوگیا۔ گھی کی تو بات ہی کیا،آج پیالے میں گھی سامنے آیا تو صبر نہ ہوسکا۔‘‘

    یہ سننا تھا کہ میزبان کے لبوں کی مسکراہٹ غائب ہوگئی ،گھی کے پیالے کی طرف بڑھنے والا ہاتھ رک گیا اور پھر عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس وقت تک گھی نہیں کھایا جب تک اس علاقے کے قحط زدہ مکینوں نے سیر ہوکر کھانا نہیں کھالیا۔ ان کی انگلیاں گھی سے چکنی نہ ہوگئیں اور اس علاقے کے بچے گھی میں لتھڑی ہوئی انگلیاں چاٹتے بھاگتے نہیں پھرے۔

    مجھے یہ سب سندھ اسمبلی میں بوڑھے شاہ کی رخصتی پر میزیں بجا بجا کر خراج تحسین دینے پر یاد آگیا اور ساتھ ہی مٹھی کے سرکاری اسپتال کی وہ one pounder baby بھی یاد آگئی جو شیشے کے بکس میں آنکھیں موندے ’’جمہوریت کے خلاف سازش‘‘ کررہی تھی۔ وہ اتنی کمزور اور منحنی سی تھی کہ اسے دیکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا۔اس کے گوشت سے خالی وجود کی پسلیوں پر بس چمڑی منڈھی ہوئی تھی۔ ایک ڈیڑھ کلو کے وزن کی اس بچی کے سرہانے گہری سانولی رنگت والی ایک کمزور سے عورت بے بسی سے اسے دیکھے جا رہی تھی۔ اس کی اداس آنکھوں سے چھلکتی ممتا بتا رہی تھی کہ اس ہی نے اسے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جنم دیا ہے۔ وہ اسی کے وجود کا حصہ ہے اور اب شاید وہ اس حصے کو خود سے جدا ہوتا دیکھ رہی تھی۔ اس میں یہ ہمت یہ حوصلہ تھا مجھ میں نہیں تھا، میں اس کمرے سے باہر نکل آیا ۔

    میڈیا کا کہنا تھا کہ تھرپارکر میں قحط معصوم زندگیاں نگل رہا ہے جبکہ حکمران چیخ رہے تھے کہ تھرپارکر میں کسی قسم کی قحط سالی نہیں، سندھ اسمبلی کے ٹھنڈے ٹھار پرشکوہ ہال میں سندھ واسیوں کے منتخب لوگوں نے اس پر خوب بحث کی تھی۔ یہ سب وہ لوگ تھے جنہیں قحط کے معنی بھی نہیں معلوم تھے لیکن یہ پھر بھی بولے کہ سامنے پریس گیلری میں نیوز چینلز کے بائیس کیمرے نصب تھے۔۔۔ حکومت کا اصرار تھا کہ تھر میں کسی قسم کا قحط نہیں اور اپوزیشن کا موقف تھا کہ قحط ہے ہی تھر میں، کون سچا اور کون جھوٹا تھا؟ اس کا جواب تھر واسی ہی دے سکتے تھے، اس لیے جب مجھے مٹھی جانے کا موقع ملا تو میںنے ضائع نہیں کیا۔ یہاں پہنچ کر مجھ پر کھلاکہ قائم علی شاہ کا کہنا درست ہے یہاں قحط نہیں غذاکی کمی ہے۔ چالیس پینتالیس برس کی چھوئی موئی سی لاغر عورت کسی صحت مند وجود کو کیا جنم دے گی، غذائی قلت کی وجہ سے قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوںکو فوراً ہی اسپتال اور ڈاکٹر کی ضرورت پڑ جاتی تھی اور یہ سہولت مائی بھاگی کے تھر میں کل بھی عیاشی تھی اور آج بھی عیاشی ہے سو غریب تھری ماؤں کی آنکھوں کے سامنے معصوم فرشتے آنکھیں موند لیتے کبھی نہ کھولنے کے لیے۔

    qaiim ali shahf

    2014میں تھرپارکر کی 326ماؤں کی کوکھ اسی غذائی قلت کے ہاتھوں اجڑی تب سندھ پر حضرت قائم علی شاہ کی حکومت قائم تھی، 2015میں یہ تعداد 398تھی تب بھی وزیر اعلیٰ سندھ حضرت والا ہی تھے اور نئے شاہ خزانے کی کنجیاں سنبھالے ہوئے تھے۔ این جی اوز کے ڈیٹا اورآزاد ذرائع کے مطابق تین برسوں میں سولہ سو بچے جان سے گئے اور حکومت کچھ نہ جان سکی کہ تھرپارکر جہاں مور ررقص کرتے ہیںموت کا رقص کیوں جاری ہے۔

    قائم علی شاہ کے ایک قریبی ساتھی رشید چنہ صاحب سے کراچی کے علاقے یونس آباد میں ملاقات ہوئی۔ وہ کبھی اپنی برادری سے تھے، پھر وزیر اعلیٰ ہاؤس کو پیارے ہوگئے اور ان کے شب و روز کا بڑا حصہ سائیں کے ساتھ گذرنے لگا۔ یونس آباد میں سائیں نے ایک پل کا افتتاح کرنے آنا تھا، سائیں کے لیے پاک بحریہ نے ہیلی کاپٹر کی سواری کا انتظام کیا تھا سو وہ اڑکر آنے والے تھے، ان کا اسٹاف سرکاری گاڑیوں میں ذرا پہلے پہنچ گیا، رشید چنہ کو دیکھ کر میں ان کے پاس چلا آیا وہ وقت گذاری کے لیے گپ شپ کرنے لگا، بات سے بات نکلی تو پوچھ ہی لیاکہ سائیں !کچھ پیتے پلاتے بھی ہیں کیا؟

    فوراً کہنے لگے پنج وقتہ نمازی ہیں، سگریٹ تک نہیں پیتے ،میں نے تو کبھی انہیں کچھ پیتے نہیں دیکھا۔

    چنہ صاحب کا کہنا تھا کہ میں نے کبھی شاہ صاحب کو بھنگ کا پیالہ پکڑے بھی نہیں دیکھا، پینا پلانا تو دور کی بات ہے۔۔۔ مجھے رشید چنہ کی یہ گواہی یاد آتی ہے توسوچتا ہوں کاش چنہ صاحب سچ نہ کہتے ہم کم از کم یہ تو کہتے سائیں کیفیت میں رہتے تھے، انہیں دور پار کے تھرپارکر کی کیا خبر۔۔۔سائیں خبر رکھتے تھے لیکن انہوں نے کبھی خبر نہ لی، انہیں فکر تھی تو بس ان ہاتھوں کی جن کی گرفت میں سندھ حکومت کا ریموٹ کنٹرول تھا، ویسے وہ ہاتھ چاہتے تو بوڑھے وفادار ملازم کوبیمار کرکے طبی بنیادوں پر استعفیٰ دے کر باعزت رخصت کردیتے، عزت سادات تو رہ جاتی!