Tag: ابوجہل

  • مسیحا اعظم ﷺ – پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

    مسیحا اعظم ﷺ – پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

    عبداللہ بھٹی مشرکین مکہ کی شدید مخالفت، دشمنی، ظلم و جبر، ترغیب اور پرکشش پیشکشوں کے باوجود اسلام کا نور تیزی سے پھیلتا جا رہا تھا. مشرکین مکہ کسی صورت بت پرستی اور اپنے آبائو اجداد کا مذہب چھوڑنے کو تیا ر نہیں تھے اور خدا کا پیغام ماننے کے بجائے اپنے ہی ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کے سامنے ماتھا رگڑنا افضل سمجھتے تھے۔ اسلام کے دشمنوں میں سرفہرست ابوجہل نے اسلام اور پیارے آقا ﷺ کو نقصان پہنچانے کی بہت کوشش اورسازشیں کیں لیکن ربِ کعبہ کے فضل و کرم سے اُس کی ہر کوشش و یورش ناکام ہوئی، اُس کی شدید دشمنی کے باوجود سیدالانبیاء ﷺ کا نام دن بدن سورج کی طرح جزیرہ عرب میں پھیلتا اور مسلمانوں کی تعداد میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا تھا. ابوجہل کی ساری کوششیں رائیگاں جا رہی تھیں اور ناکامی کی وجہ سے بےحد جلن، شکست اور توہین کی آگ میں دن رات جل رہا تھا.

    ابوجہل دن رات اسلام اور پیارے آقا پاک ﷺ کو ختم کر نے کے منصوبے بناتا رہتا تھا. آخر اُس نے ایک اور سازش کا منصوبہ بنایا. اُس کا ایک دوست حبیب ابن مالک تھا جو یمن کا رہنے والا تھا، ایک پہلوان اور اپنے قبیلے کا سردار بھی تھا. ابوجہل جب ہر طرف سے ناکام ہوگیا تو اُس نے اپنے یمنی دوست کو پیغام اور مدد کے لیے پکارا کہ تم میرے کیسے دوست ہو، میرے اوپر مشکل آگئی ہے، تم میری مدد کو نہیں آئے؟ مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے، اِس لیے فوری طور پر چلے آئو. دوست کی پکار سن کر حبیب یمنی فوری طور پر چلا آیا اور آکر ابوجہل سے پوچھا کہ کون سی مشکل آن پڑی ہے جو تمہارے جیسا سردار اور مضبوط آدمی بھی پریشان ہوگیا؟ ابوجہل نے پریشان لہجے میں کہا کہ محمد (ﷺ) نے نبوت کا دعوی کر دیا ہے اور کہتا ہے کہ خدا ایک ہے، اس سے بڑی مشکل اور کیا ہوگی کہ وہ ہمارے خدائوں کو نہیں مانتا اور ایک خدا کی بات کرتا ہے. ہمارے آبائواجداد کے مذہب کو ترک کر دیا ہے اور کہتا ہے کہ یہ سارے خدا جھوٹے ہیں، یہ کسی کو کچھ دے سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں، ہم نے اُس کے پیغام کو روکنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن وہ دن بدن طاقتور ہوتا جا رہا ہے، اُس کو ماننے والوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، وہ غلام اور آقا کو برابری کا حق دیتا ہے، اس طرح تو ہمارا مذہب اور کلچر تباہ ہو جائے گا. حبیب یمنی نے ساری بات سننے کے بعد کہا تم پریشان نہ ہو، اِس کا حل یہ ہے کہ تمام سردارانِ قریش کا اجلاس بلائو اور محمد(ﷺ) کو بھی اُس جلسے میں بلائو. میں وہاں ان سے کچھ سوالات کروں گا.

    نبی کریم ﷺ کو جلسے میں شرکت کی دعوت دی گئی، آپ سرکار ﷺ شرکت کے لیے تشریف لائے. رات کا وقت تھا، چودھویں کی رات کی وجہ سے آسمان پر چاند پوری آب و تاب کے ساتھ روشن تھا. سرور کونین ﷺ کی آمد سے پہلے ابوجہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ دیکھو جب محمد (ﷺ) یہاں آئیں تو اُن کے احترام میں کوئی بھی کھڑا نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی اُن سے عزت و احترام سے پیش آئے گا. تمام مشرکین نے ابوجہل سے ایسا ہی کر نے کا وعدہ کیا۔ لیکن جس کی عزت ربِ ذوالجلال کرانا چاہے، اُسے کون کم کر سکتا ہے، جیسے ہی سرتاج الانبیاء ﷺ اجلاس میں تشریف لائے تو سب سے پہلے جس شخص نے کھڑے ہو کر آپ ﷺ کا استقبال کیا، وہ ابوجہل تھا. ابوجہل کو احتراما کھڑا ہوتے دیکھ کر باقی سردار بھی اپنی اپنی جگہوں پر احتراماً کھڑے ہو گئے. اجلاس ختم ہوا تو تمام لوگوں نے ابوجہل سے کہا کہ تم نے ہمیں تو کھڑا ہو نے سے منع کیا تھا لیکن خود سب سے پہلے محمد (ﷺ) کے احترام میں کھڑے ہوگئے تو ابوجہل کہنے لگا کہ جب محمد (ﷺ) تشریف لائے تو میرا احترام میں کھڑا ہونے کا کوئی ارادہ نہ تھا لیکن جیسے ہی محمد (ﷺ) اجلاس میں آئے تو کسی قوت نے میرے دونوں کان پکڑا کر مجھے کھڑا کر دیا. میں نے کھڑا نہ ہو نے کی پوری کوشش کی لیکن مجھے یوں محسوس ہوا کہ اگر میں کھڑا نہ ہوا تو میرے دونوں کان جڑ سے اکھاڑ دیے جائیں گے، اس طرح مجھے زبردستی کھڑا کر دیا گیا۔

    نبی رحمت ﷺ جب قریش کے اجلاس میں تشریف لائے تو حبیب ابن مالک کی جیسے ہی نظر محبوب خدا ﷺ کے چہرہ انور پر پڑی تو دل میں سوچا کہ ایسا نورانی چہرہ کسی جادوگر یا جھوٹے کا ہو ہی نہیں سکتا، یہ ہستی ضرور اللہ تعالی کی جانب سے مبعوث کی گئی ہے لیکن پھر بھی رسول اقدس ﷺ سے سوال کیا کہ آپ ﷺ کس بات کی دعوت دیتے ہیں؟ تو شافع دوجہاں، نبی رحمت مجسم ﷺ دلنواز تبسم سے فرمایا اس بات کی کہ اللہ ایک ہے، وہ وحدہ لاشریک ہے اور میں محمد ﷺ اللہ کا رسول ہوں۔ پیارے آقا پاک ﷺ کے لہجے کی مٹھاس، شفیق تبسم اور سچائی سے حبیب ابن مالک متاثر ہو رہا تھا لیکن پھر بھی ہمت کر کے بولا کہ جس طرح ماضی کے تمام رسولوں کو اللہ تعالی نے مختلف معجزے عطا کیے تھے، اسی طرح اگر آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں تو آپ ﷺ کے پاس کون سا خاص معجزہ ہے تاکہ اس معجزہ کو دیکھ کر ہم آپ ﷺ کے دعوے کی سچائی کو مان سکیں تو آقائے دوجہاں ﷺ نے پراعتماد اور ٹھوس لہجے میں فرمایا کہ اے حبیب تو بتا، تجھے کیا چاہیے جس سے تم میری اور خدا کی سچائی کو مان جائو؟ شاہ عرب سرتاج الانبیاء اور سرور دوجہاں ﷺ کی بات سن کر حبیب ابن مالک نے دل ہی دل میں سوچا کہ اگر واقعی محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں تو میں ان سے دو باتوں کا مطالبہ کرتا ہوں کہ ایک ظاہری طور پر اور دوسری باطنی طور پر کیونکہ اللہ کے نبی دل کی بات کو بھی بوجھ لیتے ہیں. حبیب ابن مالک کی ایک معذور بیٹی تھی جو پیدائشی معذور تھی، چل پھر نہیں سکتی تھی، ہر وقت بےحس و حرکت لیٹی رہتی تھی، اپنی بیٹی کی معذوری کی وجہ سے حبیب ابن مالک بہت اداس اور پریشان رہتا تھا. اس نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اپنی بیمار اور معذور بیٹی کی بات اپنے دل میں ہی پوشیدہ رکھوں گا. اگر محمد ﷺ واقعی اللہ کے سچے رسول ﷺ ہوئے تو آپ ﷺ میرے دل کی بات جان جائیں گے، جب حبیب ابن مالک سوچنے لگا تو تمام مہمان اُس کے منہ کی طرف دیکھنے لگے کہ یہ کیا سوچ رہا ہے، اور اب یہ محمد ﷺ سے کیا بات یا مطالبہ کر ے گا؟

    آخر حبیب ابن مالک نے سکوت کو توڑا اور آسمان پر چودھویں کے چاند کی طرف دیکھا اور کہا کہ میرا ایک مطالبہ تو یہ ہے کہ آپ ﷺ چاند کے دو ٹکڑے کر دیں. رسول دو جہاں ﷺ نے حبیب کی بات سنی تو آپ ﷺ کے چہرے کا ابدی تبسم اور بھی گہرا اور روشن ہوگیا. آپ ﷺ نے فرمایا کہ آئو سب لوگ میرے ساتھ صفا پہاڑ پر چلو اور پھر تمام لوگ صفا پہاڑ پر آگئے اور پھر پہاڑ پر کھڑے ہو کر سرورکائنات ﷺ نے اپنی شہادت کی انگلی سے چاند کی طرف اشارہ کیا تو سب نے حیران کن منظر دیکھا کہ آسمان کی بلندیوں پر روشن چاند نے سرورکو نین ﷺ کے اشارے پر لبیک کہتے ہوئے خود کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا اور پھر ان ٹکڑوں کا درمیانی فاصلہ بڑھتا چلا گیا کہ ایک ٹکڑا پہاڑ کے ایک طرف تو دوسرا پہاڑ کے دوسری طرف چلا گیا. چاند نبی کریم ﷺ کے اشارے پر دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکا تھا، کافی دیر کے بعد حبیب بولا کہ اب چاند کو دوبارہ جوڑ دیں تو سردارالانبیاء ﷺ نے اشارہ کیا اور چاند کے ٹکڑے آپس میں مل گئے. پھر سرور عالم ﷺ نے فرمایا کہ اے حبیب تمہارا دوسرا مطالبہ کیا ہے؟ حبیب آپ ﷺ کا معجزہ دیکھ کر ایمان لانے کا فیصلہ کر چکا تھا، بولا آپ ﷺ خو د ہی معلوم کرلیں کہ میرے دل میں کیا ہے؟ تو آقا کریم ﷺ نے فرمایا تو سن تیرے دل میں کیا ہے؟ تیری ایک بیٹی ہے جو پیدائشی معذور ہے اور تو چاہتا ہے کہ وہ تندرست ہو جائے، گھر جا، وہ تندرست ہوگئی، اُس کی معذوری ختم ہو چکی ہے. حبیب نے یہ سنا تو فورا کلمہ توحید پڑھ کر اسلام کے رنگ میں رنگا گیا اور بھی بہت سارے لوگوں نے کلمہ پڑھ لیا۔ حبیب گھر پہنچا، دروازے پر دستک دی تو اُس کی بیٹی نے ہی دروازہ کھولا، اس کی زبان پر بھی کلمہ شریف کا ورد تھا. حبیب پوچھا کہ بیٹی تجھے یہ کلمہ کس نے پڑھایا تو بیٹی بولی ابا جان آپ جس پاک ہستی کے پاس گئے تھے، وہ یہاں تشریف لائے تھے، انہوں نے اپنا دست مبارک رکھا تو مجھے مکمل شفا ہوگئی اور پھر مجھے کلمہ پڑھا کر مسلمان کر دیا. حبیب نے وقت پوچھا تو بیٹی نے جو وقت بتایا اُس وقت حبیب سرور دوجہاں ﷺ کے ساتھ صفا پہاڑ پر کھڑا تھا۔ سبحان اللہ

  • اُمت کے فرعون – پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

    اُمت کے فرعون – پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

    عبداللہ بھٹی مسجدِنبویﷺ کاصحن سید الانبیاءﷺ کے جانثاروں پروانوں سے بھرا ہوا تھا، پروانوں کی درود و سلام کی صدائوں سے مسجدنبویﷺ گو نج رہی تھی، پروانے اپنی اپنی عقیدتوں کا اظہار اپنےاپنے طریقے سے کر رہے تھے، ہر روز جانثاروں کے قافلوں کے قافلے اظہار عقیدت کےلیے مسجد نبوی ﷺ آتے ہیں اور اپنی عقیدتوں کا اظہار اور خالی جھولیاں بھر کر واپس جاتے ہیں.

    اچانک میرے دماغ میں دو فرعونوں کا خیال آیا جو مجھے مضطرب کر گیا. کون ہیں ابوجہل اور ابولہب کہ جنہوں نے نبی رحمتﷺ کو بہت زیادہ ایذائیں دیں، جان کے درپے ہوگئے یہاں تک کہ آقا پاکﷺ کو مکہ شہر چھوڑ کر مدینے ہجرت کرنا پڑی. نبی کریمﷺ کے مدینہ جانے کے بعد بھی ان کی آتش انتقام ٹھنڈی نہ ہوئی بلکہ ابوجہل ہتھیاروں سے لیس ہو کر لشکر جرار کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوگیا کہ (نعوذ باللہ) سرتاج الانبیاﷺ کو ختم کر کے ہی واپس جائوں گا. جنگ بدر کے دوران تاریخ انسانی کا سب سے بڑا ظالم فرعون یہ کلمات پڑھتا ہوا فخریہ مشرکین مکہ کے درمیان چکر لگا رہا تھا۔ یہ شدید جنگ مجھ سے کیا انتقا م لے سکتی ہے؟ میں وہ نوجوان طاقتور اونٹ ہوں جو اپنے عنفوان شباب میں ہے، میری ماں نے مجھے ایسی جنگوں کے لیے ہی جنا ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم اور دیگر محدثین نے اِس عبرت انگیز واقعے کو حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کے حوالے سے یوں روایت کیا ہے کہ بدر کے دن میں مجاہدین کی صف میں کھڑا ہوا تھا تو میں نے اپنے دائیں بائیں دو نوعمر انصاری نوجوانوں کو کھڑے دیکھا تو یہ سوچا کہ کاش میرے دائیں بائیں ان نوجوانوں کے بجائے طاقتور مضبوط جنگجو ہوتے تو بہت بہتر ہوتا، ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اُن نوعمر نوجوانوں میں سے ایک میرے قریب آیا اور بولا اے چچا جان کیا آپ ابوجہل کو جانتے ہیں تو میں بو لا ہاں بھتیجے میں اُسے خوب جانتا ہوں، تمھیں اُس سے کیا کام ہے؟ تو وہ بولا مجھے پتا چلا ہے کہ وہ میرے نبی پاک پیارے آقا جی ﷺ کے بارے میں بے ادبی کرتا ہے، بخدا اگر میں اس کو دیکھ لوں تو میرا بدن اس کے بدن سے جدا نہ ہوگا جب تک ہم دونوں میں سے وہ نہ مر جائے جسے مرنے کی جلدی ہے. ابھی اُس نوجوان نے اپنی بات ختم ہی کی تھی کہ دوسرا نوجوان میرے قریب آیا اور وہی سوال کیا وہی بات پوچھی جو پہلے نے پوچھی تھی. اسی دوران میں نے دیکھا کہ ابوجہل لوگوں کے درمیان چکر لگا رہا ہے اور فخریہ رجز پڑھ کر انہیں جوش دلا رہا ہے. میں نے نوجوانوں سے کہا یہ ہے وہ گستاخِ نبی جس کے بارے میں تم دونوں پوچھ رہے تھے، میرایہ کہنا تھا کہ دونوں نوجوان عقابوں کی طرح ابوجہل پر جھپٹے اور اُس ظالم فرعون پر حملہ آور ہوگئے، اپنے واروں سے اُس فرعون کو گھائل کر دیا اور وہ بےحس و حرکت زمین پر جا گرا. یہ کارنامہ برق رفتاری سے انجام دے کر دونوں دلنواز آقا کریمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے اور عرض کی یارسول اللہﷺ ہم نے ابوجہل کو ٹھکانے لگا دیا ہے. نبی کریمﷺ نے پو چھا تم دونوں میں سے کس نے اُسے قتل کیا تو دونوں بو لے میں نے اُسے قتل کیا تو آقا کریمﷺ نے دونوں کی تلواروں کو چیک کیا تو اُن پر ابوجہل کا خون لگا ہوا تھا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا ہاں تم دونوں نے اُسے قتل کیا ہے. ان دونوں نوجوانوں کے نام معاذ اور معوذ تھے. حضرت معاذ ؓ خود فرماتے ہیں، میں نے لوگوں سے سنا کہ ابوجہل دشمن رسولﷺ ہے، اور اُس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا ہے. میں نے دل میں ارادہ کر لیا کہ میں اِس دشمن خدا اور رسول کو جہنم رسید کروں گا. دوران جنگ جب مجھے ابوجہل دکھائی دیا تو میں تلوار لے کر اُس پر ٹوٹ پڑا. میرے پہلے وار سے اُس کی ٹانگ پنڈلی سے کٹ کر دور جا پڑی، اپنے باپ کو زخمی دیکھ کر اُس کا بیٹا عکرمہ جو بعد میں مسلمان بھی ہوگیا، نے میرے اوپر حملہ کر دیا جس سے میرا بازو کٹ گیا، صرف جلد بچ گئی جس کے سہارے بازو کندھے سے لٹکنے لگا، میں سارا دن اِس کٹے بازو کے ساتھ مشرکین سے جنگ لڑتا رہا. قاضی زادہ سے روایت ہے کہ جب جنگ ختم ہوئی تو حضرت معاذ ؓ اپنا کٹا ہوا بازو لے کر دربار رسالت ﷺ میں حاضر ہوگئے. شافع دوجہاںﷺ نے اپنا لعاب دہن اس پر لگایا تو کٹا ہوا بازو کندھے کے ساتھ دوبارہ جڑ گیا۔

    سرور دوجہاںﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو ابوجہل کی لاش لانے کو کہا کہ عبداللہ بن مسعود اپنے پیارے آقا ﷺ کے حکم پر ابوجہل کی لاش کی تلاش میں نکل پڑے، ایک جگہ ابوجہل کو زمین پر زخموں سے نڈھال پڑے ہوئے دیکھا، اُس کا سارا جسم فولادی زرہ میں چھپا ہوا تھا. تلوار اس کی رانوں پر پڑی ہوئی تھی، کمزوری کے باعث وہ حرکت کرنے کے قابل نہ تھا. عبداللہ بن مسعود ؓ نے اُس کے اردگرد چکر کاٹا اور پھر ابوجہل کے سینے پر چڑھ گئے. ابوجہل بولا ’’اے بکریوں کے نکمے چرواہے تو نے بڑے دشوار زینہ پر قدم رکھا ہے‘‘، ابوجہل کی ٹانگیں کٹ چکی تھیں، سارا جسم زخمی زخمی تھا، موت سر پر نظر آرہی تھی لیکن تکبر، غرور، نفرت و عداوت ابھی تک باقی تھی. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے کہا کہ اپنے نبیﷺ کو میرا پیغام پہنچا دینا کہ میں عمر بھر اس کا دشمن رہا ہوں اور اِس وقت بھی اِن کے بارے میں میرا جذبہ عداوت بہت شدید ہے. پھر عبداللہ بن مسعود ؓ نے ظالم کی گردن کاٹنے کا ارادہ کیا تو خیال آیا کہ میری تلوار پرانی اور بوسیدہ ہے. شاید اِس کی گردن نہ کاٹ سکے تو انہوں نے تلوار سے اُس کے سر پر ضربیں لگانا شروع کر دیں، اُنہیں یاد آگیا کہ وہ ظالم کبھی اُن کے بالوں کو کھینچا کرتا تھا، ابوجہل پر جاں کنی کا عالم طاری ہوگیا، مرتے مرتے سر اٹھایا اور پوچھا کہ فتح کس کی ہوئی تو عبداللہ بن مسعود ؓ بولے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی، پھر عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ظالم کی داڑھی پکڑ کر زور سے جھنجھوڑا اور کہا اللہ تعالی کا شکر ہے کہ جس نے اے اللہ کے دشمن تجھے ذلیل کیا، میں نے اس کا خَود اس کی گردن سے ہٹایا اور تلوار کا بھرپور وار کیا، اس کی گردن کٹ کر دور جا گری، اس کا سر اٹھایا اور دربار رسالتﷺ میں پیش ہوگیا اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ابوجہل کا سر حاضر ہے تو شافع دوجہاںﷺ نے تین مر تبہ فرمایا کہ اللہ تعالی کا شکر ہے جس نے اسلام اور اہل اسلام کو عزت عطا فرمائی اور پھر نبی کائنات ﷺ سر بسجود ہوگئے اور فرمایا ہر امت کا فرعون ہوتا ہے، امت مسلمہ کا فرعون ابوجہل تھا.

    یہاں پر خدا کی قدرت کی شان دیکھیں، زخمی ہو کر بھی ابوجہل بےہوش یا مرا نہیں تھا، بس نڈھال تھا اور اپنے ہوش و حواس میں تھا، اس کی حکمت یہ تھی کہ اللہ نے آج انصاف کرنا تھا، اسلام لانے کے جرم میں ابوجہل، عبداللہ بن مسعود ؓ جو جسمانی لحاظ سے کمزور اور قبیلے کے لحاظ سے بھی کمزور تھے، اُن کو سخت سزائیں دیا کر تا تھا، اکثر ان کے بال پکڑ کر منہ پر طمانچے مارتا، گالیاں دیتا تھا اور طرح طرح سے نقصان پہنچایا کرتا تھا اور یہ مسکین جواب دینے کی ہمت نہیں رکھتے تھے اور جنگ بدر کے دن وہی عبداللہ بن مسعود ؓ اس کے سر پر ٹھوکریں مار رہے تھے، اس کی چھاتی پر بیٹھ کر مونگ دَل رہے تھے، اُس کی تلوار چھین کر اس کی گردن کاٹ کر حضور اقدس ﷺ کے نعلین پاک کے نیچے پھینک دی، اس طرح قیامت تک کے لیے عبرت کا نشان بن گیا.

    دوسرے دشمن کا انجام بھی بہت خوفناک ہوا. جنگ بدر کی شکست کو ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ابولہب عذاب الہی کی گرفت میں آگیا. ایک خطرناک پھنسی نکل آئی جو عربوں میں بہت منحوس اور متعدی بیماری سمجھی جاتی تھی. جب بیٹوں اور گھر والوں کو پتہ چلا تو انہوں نے اُس کے قریب آنا بند کر دیا، وہ اکیلا درد اور اذیت سے چیخیں مارتا، مدد مدد بلاتا لیکن کوئی نہ آتا، بے یار و مددگار مر گیا، اس کی لاش تین دن تک بےگور و کفن پڑی رہی،اور پھر پھول کر پھٹ گئی، بدبو سے اہل محلہ کے دما غ پھٹنے لگے لیکن کوئی بھی مکہ کے سردار کو دفن کر نے کو تیار نہ تھا. جب بھی کوئی اس کے بیٹوں سے کہتا کہ شرم کرو، تمہارے باپ کی لاش سے بدبو آ رہی ہے، اُس کو دفن کرو تو وہ کہتے کہ اس کی بیماری کہیں ہمیں نہ لگ جائے، پھر بدنامی کے خوف سے لکڑیوں سے لاش کو دھکیل کر گڑھے میں گرا دیا گیا اور پھر دور سے پتھر مار مار کر گڑھے کو بھر دیا اور اس طرح لوگوں نے یہ عبرتناک منظر دیکھا کہ گستاخانِ رسالت ﷺ کا انجام کتنا ہولناک اور اذیت ناک ہوتا ہے. کسی کی آنکھ میں آنسو نہیں آتے اور غیر تو غیر اپنے بیٹے بھی قبر پر مٹی ڈالنے کو تیار نہیں ہوتے۔