ہوم << والدہ ماجدہ کا رمضان - احمد الیاس نعمانی

والدہ ماجدہ کا رمضان - احمد الیاس نعمانی

والدہ ماجدہ کی وفات کے بعد یہ پہلا رمضان آنے کو ہے، یہ مبارک مہینہ جوں جوں قریب آرہا ہے امی کے "رمضانی معمولات" ذہن ودماغ میں تازہ ہوتے جارہے ہیں، ہم نے شعور کی آنکھ کھولی تو والدہ ماجدہ کو نہایت صحت مند پایا، بیمار ہونا یا تھکنا گویا وہ جانتی ہی نہ تھیں، اس صحت کا استعمال وہ رمضان میں خوب کرتیں، یہ مہینہ آتا تو ان کا پورا دن قرآن ومناجات کے گرد گردش کرتا، روزانہ پندرہ پارے تلاوت کرتیں، سخت گرمی کے روزوں میں اس کثرت تلاوت سے زبان خشک ہوجاتی اور تلاوت مشکل ہوتی تو بے آواز کے تلاوت کرنے لگتیں، جس پر ابا جان ان سے از راہ مزاح پوچھتے: یہ تلاوت ہورہی ہے یا قرآن کا مشاہدہ؟.

خیر اس کثرت تلاوت کے ساتھ افطار وسحری کے اوقات میں دعا ومناجات کا بہت اہتمام ہوتا، مناجات مقبول کا ایک پرانا پاکستانی نسخہ ان کے پاس تھا، جو غالبا ان کے والد ماجد نے ان کو دیا تھا، سحری وافطار کے وقت اس کی دعاؤں کا معمول تھا، افطار وسحری کے لیے ایسا اہتمام ہرگز نہ کرتیں جس سے ان کی عبادات میں فرق آئے، سحری میں تازہ کھانا پکانے یا کم از کم تازہ روٹی بنانے کا بالکل بھی اہتمام نہ ہوتا، بس کھانا گرم کرکے دسترخوان پر لگا دیتیں اور خود تہجد اور دعاؤں میں لگ جاتیں، ہمیشہ ان کو آواز ہی دینی پڑتی کہ پانچ سات منٹ بچے ہیں، جلدی آئیے، کبھی کبھی دسترخوان پر آنے میں ان کو ایسی تاخیر ہوجاتی کہ پوری سحری بھی نہیں کرپاتیں. افطار کے وقت بھی افطار کا دسترخوان کافی پہلے لگ جاتا، اور وہ اسی دسترخوان پر دعاؤں میں مشغول ہوجاتیں.

قرآن کا اچھا خاصا حصہ یاد تھا اس لیے تراویح نسبتا لمبی پڑھتیں، کثرت تلاوت کا نتیجہ ہی تھا کہ چند برس پہلے تک ان سے کسی آیت کو پوچھتے کہ یہ قرآن کے کس مقام پر ہے تو بالعموم سورت کا نام بتادیتیں.

یہ معمولات اب سے چند برس پہلے تک رہے، پھر ان کو شکر کا مرض لاحق ہوا، وہ اپنی اچھی صحت سے دھوکا کھا گئیں، اس مرض کو انھوں نے درخور اعتنا نہ جانا، بلکہ صحیح الفاظ میں کہا جائے تو اس کو انھوں نے چیلنج کیا، بدپرہیزی کا جو آخری تصور کیا جاسکتا ہے ان کی بدپرہیزی اس سے آگے کی تھی، جسم چونکہ فولاد کا پایا تھا، اس لیے اس مرض کی ظاہری تکلیفیں یا علامتیں ان کو لاحق نہ ہوتیں، پڑھنے والے شاید حیرت کریں شوگر لیول عام طور پر چار سو رہتا، پانچ سو یا اس سے اوپر بھی چلاجاتا، اور وہ بالکل نارمل رہتیں، یہاں تک کہ پیشاب کی زیادتی بھی نہ ہوتی جو اس مرض کی بالکل ابتدائی علامت ہے، ہم لوگ ان سے کہتے رہتے یہ آپ اپنے اوپر ظلم کررہی ہیں، لیکن ہر درخواست اور ہر اصرار صدا بصحرا ثابت ہوا، اور پھر وہ ہوا جس کا اندیشہ تھا، اس مرض نے ان کو لٹادیا، نو ماہ صاحب فراش رہ کر گزشتہ ستمبر میں راہی آخرت ہوگئیں، رحمہا اللہ. جب اس مرض کا کچھ اثر ہونا شروع ہوا تو تلاوت مشکل ہوتی گئی، گزشتہ دو تین برس ایسے گزرے کہ یومیہ پانچ چھ پاروں پر اکتفا کرنا پڑتا، دو برس پہلے کی بات ہے حسان ماموں نے دریافت کیا: آج کل کتنے پارے پڑھ لیتی ہیں، بڑی حسرت کے ساتھ بولیں: بھیا اب کچھ نہیں ہوپاتا، صرف پانچ چھ پارے تلاوت کرپاتے ہیں. آہ جو ہمارے حوصلہ کی انتہا ہو وہ ان کے لیے افسوس کا مقام تھا. رحمہا اللہ واسبغ علیہا نعمہ.

ہماری یہ تحریر "والدہ ماجدہ کا رمضان" پڑھ کر ہماری ماموں زاد بہن یعنی ہماری والدہ کی بھتیجی محترمہ عالیہ نعمانی صاحبہ نے ہمیں ذیل کی سطریں تحریر کی ہیں، انھوں نے اپنے بچپن میں والدہ ماجدہ کی نوجوانی دیکھی تھی، اس وقت کا والدہ ماجدہ حال جو انھوں نے تحریر کیا ہے وہ ہمارے لیے بڑا سبق رکھتا ہے، ملاحظہ ہو، اس تحریر میں "پھپھو" سے مراد والدہ ماجدہ اور "مما" سے مراد والد ماجد ہیں.

السلام علیکم، الحمدللہ عمرہ کر کے اور دو دن مکہ میں قیام کرکے ریاض پہنچ گئے۔ آپ سب مع ہماری پھپو اور مما کے سب لوگوں کے لئے خوب دعائیں کیں۔ اللہ تعالی اس گنہگار بندی کی دعا قبول فرما لے.

آپ کی تحریر پھپو سے متعلق پڑھی۔ اس میں ایک اضافہ کرنا چاہتے ہیں، بچپن سے پھپو کو کبھی قصہ کہانیوں کی کتابوں کو پڑھنے کا شوق نہیں تھا۔ وہ جب بھی فرصت میں ہوتیں تو دینی کتابوں کا مطالعہ کرتیں اور جب گھر کے کام کرتیں تو قرآن کی تلاوت ہلکی آواز میں زبان پر جاری رہتی. ہم بچپن میں ان کے پاس بہت رہتے تھے، وہ ہمارے پاس سوتیں تو ان کی تلاوت قرآن ہمارے لئے لوری کا کام کرتی۔

اے اللہ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرما. ان کو جنت کے اعلی درجات عطا فرما۔ اور ان کی طرح ہم کو بھی قرآن سے عشق عطا فرمادے۔