حیات شعلہ مزاج و غیور و شور انگیز
سرشت اس کی ہے مشکل کشی، جفا طلبی
یہ شعر علامہ اقبال کے منفرد اسلوب کا شاہکار ہے، جو استعارہ، علامت اور فلسفیانہ گہرائی کا امتزاج پیش کرتا ہے۔ "شعلہ مزاج" اور "شور انگیز" کا تصور زندگی کو ایک ایسی قوت کے طور پر پیش کرتا ہے جو نہ صرف شدید ہے بلکہ تغیر پذیر بھی ہے۔ اقبال نے زندگی کو انسانی صفات، جیسے غیور (عزت نفس رکھنے والا)، دے کر اسے شخصیت بخشی ہے، جو زندگی کی عظمت اور اس کے اعلیٰ مقاصد کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
اقبال نے مشکل کشی (مشکلات کو حل کرنا) اور جفا طلبی (مشقت کا سامنا) جیسے الفاظ کے ذریعے یہ دکھایا ہے کہ زندگی اپنی مکمل صلاحیت اس وقت تک حاصل نہیں کرتی جب تک کہ وہ مشکلات اور خارجی و داخلی مبارزت کا سامنا نہ کرے۔ شعر کی موزونیت اور متضاد عناصر—آگ اور مشکل—اقبال کی ادبی عظمت کی عکاسی کرتے ہیں۔
مذہبی پہلو
اسلامی فکر میں زندگی ایک آزمائش ہے، روحانی کمال کی طرف ایک سفر ہے۔ اقبال کا یہ شعر قرآن کے اس پیغام کے مطابق ہے: "کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ یہ کہہ دیں گے کہ ہم ایمان لائے اور انہیں آزمایا نہ جائے گا؟" (سورۃ العنکبوت: 2). "شعلہ مزاج" اور "جفا طلبی" کی صفات انسانی جدوجہد کو ظاہر کرتی ہیں، جو اسلامی تعلیمات میں صبر اور استقامت کی تلقین کے مطابق ہیں۔ زندگی کی شور انگیزی اس الٰہی چنگاری کی علامت ہے جو انسان کو اعلیٰ مقاصد کے حصول کی تحریک دیتی ہے۔
مذہبی نقطہ نظر سے، زندگی کی مشکل کشی (مشکلات کا حل نکالنا) عبادت کا عمل ہے، اور جفا طلبی (مشقت کا سامنا) اللہ کی حکمت اور عدل پر بھروسہ کرنے کی عملی شکل ہے۔ اقبال کا یہ شعر مذہبی تعلیمات کے عین مطابق زندگی کو ایک ایسی حقیقت کے طور پر پیش کرتا ہے جو جدوجہد، قربانی اور استقامت کا مطالبہ کرتی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے، زندگی کا بنیادی مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے، جو عبادات، معاملات اور اجتماعی بھلائی کے ذریعے ممکن ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، دنیاوی زندگی ایک آزمائش ہے جو انسان کو اس کے اعمال کے ذریعے آزما کر اس کی روحانی ترقی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اقبال کی شاعری اس قرآنی تصور کی تشریح کرتی ہے کہ زندگی کا اصل جوہر جدوجہد میں پنہاں ہے۔ "شعلہ مزاج" اور "جفا طلبی" کے الفاظ اس جدوجہد کی شدت اور مشکلات کو واضح کرتے ہیں، جو نہ صرف انسانی وجود کا حصہ ہیں بلکہ روحانی بالیدگی کی بنیاد بھی ہیں۔
اقبال کی "شعلہ مزاج" زندگی کا تصور قرآن مجید کے اس پیغام سے ہم آہنگ ہے: "بے شک ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا۔" (سورۃ البلد: 4). یہ مشقت بعد میں آسانی میں تبدیل ہوجاتی ہے، اور یہ آسانی نہ صرف زندگی کے عملی پہلو کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے، بلکہ روحانی تناظر سے بھی ترقی فراہم کرتی ہے، جو ایک شخصیت کو مکمل کرتی ہے۔ اسی لیے قرآن میں اس آسانی کی طرف اشارہ ہوا ہے: "تو بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔" (سورۃ الانشراح: 6)
اقبال کے نزدیک، زندگی کا "غیور" اور "شور انگیز" ہونا ایک ایسی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے جس میں انسان اپنی شخصیت اور روحانی جوہر کو چمکانے کے لیے مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ یہ تصور اسلامی تعلیمات کے اس اصول سے مطابقت رکھتا ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے:
"مشکل کشی" اور "جفا طلبی" اسلامی اخلاقیات کے دو اہم اصول ہیں جو زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ قرآن اور حدیث دونوں صبر اور استقامت پر زور دیتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ ان صفات کا عملی نمونہ ہے، جہاں آپ نے ہر مشکل کا حل اللہ پر کامل یقین اور استقامت کے ساتھ نکالا اور ہر آزمائش کو صبر کے ساتھ برداشت کیا۔ میرے نزدیک صبر سے مراد وہ خاص صفت ہے کہ جب آپ پر کوئی ایسی آزمائش آ جائے جس کے حل کے طور پر آپ کے پاس تمام وسائل موجود ہو لیکن آپ اسے اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہ کریں بلکہ اس کا نتیجہ اپنے رب پر چھوڑ دیں، اس کی عظیم ترین مثال طائف کا واقعہ ہے۔ اقبال کے یہ الفاظ انہی اصولوں کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں زندگی کو مشقت کا سامنا کرنے والا مسافر تصور کیا گیا ہے جو اپنی منزل کو حاصل کرنے کے لیے صبر، استقامت اور جدو جہد کے ہتھیاروں سے لیس ہے۔
"شعلہ مزاج" زندگی اسلامی صوفیانہ فلسفے میں عشق الٰہی کی علامت ہے، جو انسان کو ہر قسم کے خوف اور پستی سے آزاد کرکے اللہ کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اقبال کی شاعری میں یہ تصور بارہا ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کا حقیقی مقصد اپنے اندر موجود روحانی شعلے کو بھڑکانا اور اللہ کے قریب ہونا ہے۔ یہ "شعلہ مزاجی" وہ کیفیت ہے جو انسان کو اپنی حدود سے آگے بڑھنے پر مجبور کرتی ہے اور اسے زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا دیتی ہے۔ ساتھ ہی یہ جلال کی کیفیت کی طرف بھی اشارہ ہے، اور یہاں سے ہی اقبال کے مردِ مومن اور نطشے کے Ubermensch کے درمیان فرق واضح ہوتا ہے۔ جہاں نطشے کا فوق البشر فقط طاقت سرچشمہ ہے اور ہر وقت اس پر جلال کی کیفیت طاری ہوتی ہے، لیکن اس کے برعکس اقبال کا مردِ مومن موقع کے لحاظ سے جمال اور جلال دونوں کیفیات اور صفات کو اپناتا رہتا ہے۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کی زندگیوں کو جدوجہد کی روشن مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰؑ کی فرعون کے ساتھ کشمکش، حضرت ابراہیمؑ کی بت پرستی کے خلاف جدوجہد، اور حضرت محمد ﷺ کی مکی زندگی کی مشکلات یہ ثابت کرتی ہیں کہ اللہ کی رضا کا حصول صرف جدوجہد کے ذریعے ممکن ہے۔ اور یہی جدوجہد انسان میں ایک مثبت تبدیلی اور تغیر کا سبب بنتی ہے۔ اقبال انہی قرآنی واقعات سے متاثر ہو کر زندگی کو ایک مسلسل کشمکش کے طور پر بیان کرتے ہیں، جہاں "جفا طلبی" نہ صرف ایک ضروری خصلت ہے بلکہ روحانی کامیابی کا ذریعہ بھی ہے۔ مسند الفردوس میں حضرت علی کرم اللہ وجہ سے منقول ہے کہ: "جس شخص کے دو دن یکساں گزرے، وہ نقصان میں ہے، جس کا کل آج بہتر نہ ہو، وہ ملعون ہے، جس کے عمل میں زیادتی نہ ہوئی ہو، وہ گھاٹے میں ہے اور جس کے عمل میں کمی ہو گئی ہے، اس کے لیے مرنا ہی بہتر ہے۔" جبکہ سورۃ العصر کا موضوع ہی تمام کے تمام اسی مثبت تغیر، صبر اور استقامت کے اردگرد گومتا ہے۔
"شور انگیز" زندگی کا تصور اسلامی فکر میں شور اور ہنگامے کے بیچ انسان کی اپنی روحانی منزل کی تلاش میں سرگردانی ظاہر کرتی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے، ایک فعال اور "شور انگیز" زندگی ہی وہ زندگی ہے جو اللہ کی رضا کے ساتھ ساتھ دنیوی اور اُخروی کامیابی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اقبال کے نزدیک، یہ شور انگیزی انسان کو عمل پر مجبور کرتی ہے، یہ عمل انسان کو اس خاص جمود سے نکالتا ہے جو عجمی مذہب پرستی کے نتیجے میں مسلمانوں کی سرشت میں صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔
منظر چمنستاں کے زیبا ہوں کہ نازیبا
محرومِ عمل نرگس مجبورِ تماشا ہے
یہی آئینِ قدرت ہے، یہی اسلوبِ فطرت ہے
جو ہے راہِ عمل میں گام زن، محبوبِ فطرت ہے
مجاہدانہ حرارت رہی نہ صوفی میں
بہانہ بے عملی کا بنی شرابِ الست
ناپید ہے بندہِ عمل مست
باقی ہے فقط نفس درازی
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
اقبال کے نزدیک جو شخص مسلسل عمل، کوششِ پیہم اور جوش انگیز تغیر سے محروم ہوا، وہ موجود کے بجائے معدوم ہوا۔ یہی بات وہ افلاطون اور اس کے مابعدالطبیعاتی خیالات کے لیے کہا ہے کہ عمل کے ذوق سے خالی خیالات انسان کو جمود کا شکار کر دیتے ہیں اور نتیجتاً یہ اسے معدوم کا شیدائی بنا دیتے ہیں:
بسکہ از ذوقِ عمل محروم بود
جان او وارفتہ ی معدوم بود
"غیور" زندگی کا تصور اسلامی تعلیمات میں عزت نفس اور خودداری کے اصولوں سے ہم آہنگ ہے۔ قرآن مجید میں بارہا اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ انسان کو اللہ کے علاوہ کسی کے سامنے جھکنا نہیں چاہیے۔ اقبال کے اس شعر میں زندگی کی "غیور" فطرت اس اصول کا عملی نمونہ ہے، جہاں انسان ہر قسم کی مادی اور غیر مادی غلامی سے آزاد ہو کر صرف اللہ کی بندگی اختیار کرتا ہے۔ فلسفیانہ طور پر یہ شعر وجودی فلسفہ اور نطشے کے نظریات سے ہم آہنگ ہے۔ زندگی جامد نہیں بلکہ ایک متحرک قوت ہے، جو اپنی جدوجہد اور تغیر کے ذریعے معنی حاصل کرتی ہے۔ "شعلہ مزاج" مزاج ارادہ برائے قوت (Will to Power) کی عکاسی کرتا ہے—نطشے کا وہ تصور جو زندگی کو خود پر قابو پانے کی خواہش کے طور پر دیکھتا ہے۔
اقبال جمود کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں؛ وہ زندگی کو ایک مسلسل تغیر کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو مشکلات میں پروان چڑھتی ہے۔ یہ شعر برگساں کے ElanVital(زندگی کی تخلیقی قوت) کی بازگشت بھی ہے، جو زندگی کو ایک تخلیقی ارتقاء کے طور پر دیکھتا ہے، جسے اندرونی توانائی آگے بڑھاتی ہے۔ اس کے ہمدم، یہ شعر باروخ اسپنوزا کے ایک فلسفیانہ نظریہ Conatus (کوناتوس/جہد) سے بھی مطابقت رکھتا ہے، جو کسی شے کا اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے اور خود کو بہتر بنانے کی ایک فطری میلان ہے۔ اس کے ساتھ ہی، اس میں آرتھر شوپن ہاؤر کی Will to Live کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے، اور یہ خود کو دراصل محفوظ رکھنے کی جبلت ہے، جو عام طور پر زندگی کی حالت میں مستقبل کی بہتری کی امیدوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔
نفسیاتی طور پر، یہ شعر حوصلے اور ثابت قدمی کی عکاسی کرتا ہے—وہ صفات جو جذباتی ذہانت اور ذہنی مضبوطی کے لیے ضروری ہیں۔ "شعلہ مزاج" مزاج انسانی جذبہ اور مقصدیت کی عکاسی کرتا ہے، جو ناکامیوں کے باوجود مقاصد کے حصول کے لیے ضروری ہیں۔جفا طلبی پر زور انسانی تکالیف برداشت کرنے کی صلاحیت کی جانب اشارہ کرتا ہے، جو وکٹر فرانکل کے اس تصور سے ہم آہنگ ہے کہ مشکلات میں معنی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ یہ زندگی کی اس اندرونی صلاحیت کو اجاگر کرتا ہے جو صدمات کے ذریعے ڈھلتی اور پروان چڑھتی ہے، اور جدید نفسیاتی نظریات، جیسے صدمہ کے بعد نمو (Post-Traumatic Growth)، کے مطابق ہے۔
کوانٹم میکینکس میں زندگی کی متحرک فطرت کو غیر یقینی کے اصول اور موجِ ذرہ دوگانگی سے جوڑا جا سکتا ہے، جو افراتفری اور نظم دونوں کی علامت ہے۔ "شعلہ مزاج" کا مزاج ایٹمی سطح پر موجود توانائی کے عمل سے مشابہ ہے، جہاں الیکٹرانز کی حرکت وجود کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔
کوانٹم میکینکس کے تناظر میں دیکھنے سے ایک غیر معمولی مطابقت سامنے آتی ہے۔ کوانٹم میکینکس مادے اور توانائی کی انتہائی باریک سطح پر حرکات اور رویوں کو بیان کرتی ہے۔ اس کے مطابق، مادے کی ہر سطح پر توانائی موجود ہے، اور یہ توانائی کسی بھی لمحے ممکنہ تبدیلی یا جدوجہد کی صورت میں ظاہر ہوسکتی ہے۔ زندگی کی "شعلہ مزاج" فطرت کو ہم کوانٹم میکانکی اصول "انرژی کوانٹائزیشن" سے جوڑ سکتے ہیں، جہاں ذرات اپنی توانائی کو چھلانگوں (quantum leaps) میں تبدیل کرتے ہیں۔ یہ تبدیلیاں کسی غیر متوقع لمحے میں، بغیر کسی ظاہری پیشگی اشارے کے، اچانک وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ اقبال کا "شعلہ مزاج" زندگی کا تصور اس اصول سے ہم آہنگ ہے، جہاں زندگی مسلسل توانائی اور حرکت کے ذریعے اپنی بقا کے لیے نئے امکانات پیدا کرتی ہے۔ کوانٹم ذرات کی طرح، انسان کی فطرت بھی کسی نہ کسی جدوجہد میں مصروف رہتی ہے، اور یہ جدوجہد اسے اپنی موجودہ حالت سے آگے بڑھنے کی صلاحیت دیتی ہے۔
کوانٹم میکینکس میں "شور" (noise) اور "فلوکچوئیشنز" (quantum fluctuations) کسی نظام کی بے ترتیبی کو بیان کرتے ہیں، جو بظاہر بے معنی نظر آتی ہے لیکن درحقیقت تخلیق کے عمل میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ خلا (vacuum) بھی مکمل سکون کی حالت میں نہیں ہوتا؛ اس میں مسلسل ذرات اور ضد ذرات پیدا اور فنا ہو رہے ہوتے ہیں، جو کائنات کی توانائی کو برقرار رکھتے ہیں۔ اقبال کا "شور انگیز" زندگی کا تصور بھی اسی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ زندگی بظاہر بے ترتیبی اور ہنگامے سے بھری نظر آتی ہے، لیکن اس شور میں وہ تخلیقی عمل چھپا ہوتا ہے جو زندگی کو مسلسل آگے بڑھاتا ہے۔ کوانٹم فلوکچوئیشنز کی طرح، زندگی بھی اپنے غیر متوقع اور شور انگیز رویے کے ذریعے نئی حقیقتوں کو جنم دیتی ہے۔
سلسلہ روز و شب، نقش گرِ حادثات
سلسلہ روز و شب، اصل حیات و ممات
کوانٹم میکینکس کا ایک اہم اصول "سپرپوزیشن" ہے، جس میں ایک ذرہ بیک وقت کئی مختلف حالتوں میں موجود ہوسکتا ہے، جب تک کہ کوئی مشاہدہ اسے کسی خاص حالت میں نہ لے آئے۔ یہ اصول اقبال کے "مشکل کشی" کے تصور سے جڑا ہوا ہے، جہاں زندگی بیک وقت مختلف امکانات کے درمیان معلق رہتی ہے اور جدوجہد کے ذریعے ایک خاص حالت میں اپنی حقیقت کو ظاہر کرتی ہے۔ زندگی کی مشکل کشی، دراصل ان امکانات کے انتخاب کا عمل ہے جو فرد کو اپنی مکمل صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دیتے ہیں۔ بالکل کوانٹم ذرات کی طرح، جو مشاہدے کے ذریعے اپنی حالت کا تعین کرتے ہیں، زندگی کی مشکلات بھی انسان کو اپنی حقیقت کو نکھارنے اور اسے ایک نئی شکل دینے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔
کوانٹم میکینکس میں توانائی کی منتقلی ایک بنیادی اصول ہے، جہاں توانائی کبھی فنا نہیں ہوتی بلکہ ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اقبال کا "جفا طلبی" کا تصور بھی زندگی کے اس پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مشکلات اور جدوجہد کے ذریعے توانائی کو نئے امکانات اور تخلیقی قوتوں میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ یہ اصول ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی کی جفا طلبی، دراصل انفرادی اور اجتماعی ترقی کا ذریعہ ہے، جہاں مشکلات کو ایک نئے موقع کی طرح دیکھنا چاہیے۔ جیسے کوانٹم ذرات مشکلات کے باوجود اپنی توانائی کو برقرار رکھتے ہیں، ویسے ہی انسان کی جفا طلبی اسے اپنی مشکلات کو عبور کرنے کا ذریعہ فراہم کرتی ہے۔
اجتماعی سطح پر، یہ شعر اجتماعی عمل اور باہمی تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ مشکل کشی سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے کمیونٹیز کی مشترکہ کوششوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ جفا طلبی ان قربانیوں کی علامت ہے جو افراد دوسروں کی بہتری کے لیے دیتے ہیں، جیسے غربت یا ناانصافی جیسے اجتماعی مسائل کا سامنا کرتے ہوئے۔ اقبال کا وژن انفرادی جدوجہد سے ماورا ہے، وہ ایک ایسی امت کی وکالت کرتے ہیں جو استقامت اور عزت نفس کے مشترکہ اقدار سے متحد ہو۔ ان کے نزدیک یہی صفات قوم کی زندگی کے بقا کے لیے لازمی ہیں۔ اسی نظم کے ایک اور شعر میں اس نقطے کو واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ:
اسی کشاکشِ پیہم سے زندہ ہیں اقوام
یہی ہے راز تب و تابِ ملتِ عربی
اسی بات کو "مسجدِ قرطبہ" میں کچھ یوں بیان کی گئی ہے:
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
سیاسی طور پر یہ شعر خودغرضی کی مذمت کرتا ہے اور فعال شمولیت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ایک شعلہ مزاج قوم وہ ہے جو ظلم کے خلاف اٹھ کھڑی ہو، اور انصاف کے حصول میں اپنی تگ و دو کی مظہر ہو۔ مشکل کشی اقبال کے اس عقیدے کی عکاسی کرتی ہے کہ جدوجہد خودمختاری اور حاکمیت کے حصول میں اہم کردار ادا کرتی ہے، جیسا کہ ان کے مسلم ریاست کے آزاد اور مضبوط خواب میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ شعر انقلابی خیالات سے ہم آہنگ ہے، جو معاشروں کو ظلم کا سامنا کرنے اور اجتماعی جدوجہد اور استقامت کے ذریعے ایک باوقار وجود کی تعمیر کی ترغیب دیتا ہے۔ اس شعر میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ایک قوم (خصوصاً مسلمان) اپنی آزادی کے بجائے طویل سجدوں یعنی ان اعمال میں وقت سرف کرتے ہیں جو انھیں جمود کا شکار بناتے ہیں اور وہ اسی میں خوش رہ کر محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔
ہزار کام ہیں مردانِ حر کو دنیا میں
انھی کے ذوقِ عمل سے ہیں امتوں کے نظام
خدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو
وہ سجدہ جس میں ہے ملت کی زندگی کا پیام
[…] اقبال کا آہنگِ حیات – سید عبدالوحید فانی […]