ہوم << افطاری دکھائیں مت ، کھِلائیں - ‎ فاخرہ گل

افطاری دکھائیں مت ، کھِلائیں - ‎ فاخرہ گل

مجھے تصویریں اور وڈیوز بنانے کا بہت شوق ہے، یہاں تک کہ چند سال پہلے تک میں اکثر مختلف ڈشز کی بھی تصاویر فیس بک پر اپلوڈ کرتی تھی، مثلاً ایک دن ریسٹورنٹ گئے ، پلیٹوں میں چکھنے کے برابر کھانا ملا تو فوٹو بنا کر اپلوڈ کر دی اور کیپشن لکھا: ”جتنے پیسوں میں اعلٰی ہوٹل میں جا کر ایک سرونگ چکھی جاتی ہے اتنے پیسوں میں تو چکن بریانی کی دیگ بن جاتی ہے۔“

جیسا کہ کیپشن سے ظاہر ہے کہ یہ کوئی سنجیدہ پوسٹ نہیں تھی، لہذا کافی دنوں تک کمنٹس کے ذریعے زندہ رہی اور اُس کے بعد روزے شروع ہو گئے، روزوں میں ہی ایک دن فیس بک دیکھتے ہوئے وہی فوٹو دوبارہ سامنے آئی تو بے اختیار دوبارہ کھانے کی خواہش پیدا ہوئی، لیکن ظاہر ہے افطار تک انتظار لازم تھا. مگر اچانک خیال آیا کہ میں نے یہ تصویر دیکھی ، کھانے کا دل چاہا اور اگر چاہوں تو روزےکےبعد کھا ہی لوں گی، لیکن روزے ہوں یا نہ ہوں، اگر کھانے پینے کی اس جیسی تصاویر کوئی ایسا بندہ دیکھے، جس کی فی الحال اتنی استطاعت نہ ہو اور وہ لے کر یا بنا کر نہ کھا سکتا ہو، تواس طرح کی تصویروں سے اس کے دل پر کیا گزرے گی؟
اپنے حالات پر نظر جائے گی
شاید تقدیر سے کچھ شکوہ کرے
عین ممکن ہے دل میں حسرت ابھرے
زبان پر کاش کا احساس آئے
یا دل ہی دل میں اللّہ کی تقسیم پر سوال اٹھائے۔ پھر خود احتسابی کے عمل کے بعد فیصلہ کیا کہ آخر ہم کچھ ایسا کریں ہی کیوں، جس کی وجہ سے کوئی بھی خود کو دوسروں سے کم سمجھے؟؟

روزے میں لگی شدید بھوک نے مجھے یہ احساس اتنی شدت سے دلایا کہ وہی تصویرمیری فیس بک پر پوسٹ کی گئی آخری تصویر ثابت ہوئی، اس کے بعد آج تک کبھی کوئی کھانے کی تصویر اپ لوڈ نہیں کی. تو عرض ہے کہ جس طرح لوگ اس کیپشن کے ساتھ تصویریں شئیر کرتے ہیں کہ ”ملازموں کو ہوٹل میں ساتھ بٹھا کر کھانا نہیں کھُلا سکتے تو انہیں ساتھ لے کر جاتے ہی کیوں ہو؟؟“، تو یقین کیجیے کہ وہی کام لذیذ پکوانوں کی تصاویر اپ لوڈ کر کے ہم خود بھی کر رہے ہوتے ہیں، جس سے بچنے کی اشد ضرورت ہے.

فرق صرف اتنا ہے کہ تصویر میں چند امراء کو کھانا کھاتے دیکھ کر سامنے بیٹھی ملازمہ کی آنکھوں میں حسرت ہم دیکھ پاتے ہیں اس لیے اس کی ہمدردی کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں اور اُس کے سامنے بیٹھ کر کھانا کھانے والوں کو برا بھلا کہتے ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ وہی حسرت چند آنکھوں میں ان لذیذ پکوانوں کو دیکھ کر بھی اترتی ہے، جنھیں ہم بڑے مزے سے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں، ان کی ترکیبیں شئیر کرتے ہیں۔

ابھی پچھلے رمضان کی ہی بات ہے ایک فیس بک فرینڈ کا میسج آیا، جس کا لبِ لباب کچھ اس طرح تھا:
” ہماری گلی میں ایک بہت بڑا گھر بنا ہوا ہے، کل وہاں افطاری تھی. انھوں نے اپنے سب رشتے دار بلائے ہوئے تھے، دیگیں وغیرہ بھی پکیں. میری ایک چھوٹی بہن ایبنارمل ہے، دیگیں کیونکہ ہمارے گھر کے سامنے ہی پکی تھیں، تو وہ نمکین چاولوں کےلیے ضد کرنے لگی. ہم نے سمجھایا کہ رمضان ہے، جب روزہ افطار ہوگا، تب چاول ملیں گے. وہ شام سے دروازے سے لگ کر بیٹھ گئی اور افطار کا انتظار کرنے لگی. لیکن وہ لوگ کیونکہ کھاتے پیتے ہیں اور ہم رِلیاں بنا کر بیچتے ہیں، تو ہمارا ان کا کوئی لین دین نہیں، نہ ہی انہوں نے ہمارے گھر افطار کے وقت کچھ بھیجا، تو پھر ظاہر ہے میری بہن کل نمکین چاولوں کے لیے بہت روئی، جو ہم کل نہیں پکا سکے، اور اتنا روئی کہ اُس کی آواز بیٹھ گئی. ایک تو وہ بچی ہے، پھر ہے بھی ایبنارمل ، تو یقین کریں کہ کل ہمارے گھر میں بہت دُکھ والا ماحول تھا. میں مجبور ہو گئی کہ آپ کو میسج کروں کہ پلیز اس بارے میں کچھ لکھیں ۔“�

آپ سب نے یہ میسج پڑھا . اب سوچیے کہ مجھے تو اس نوعیت کا صرف ایک میسج ملا، لیکن ایسے کئی سفیدپوش گھرانے ہیں جو خاص طور پر رمضان میں ایسی صورتحال سے دو چار ہوتے ہیں, تو میں سوچتی ہوں کہ بھلا ایسی افطاریاں کس کام کی جو صرف رشتہ داری یا دنیا داری نبھانے اور افطاری کا بدلہ افطاری کے طور پر ادا کرنے کےلیے تیار کی جائیں؟ گلی کے روزے دار ہمارے پکوانوں کی خوشبو سونگھ کر صبر کریں، اپنے بچوں کو یہاں وہاں کی باتیں سُنا کر بہلائیں، اور ہم کئی کلومیٹر دور سے عزیزوں کو بلا کر کھلاتے پلاتے رہیں، اور وہ بھی صرف اس لیے کہ چونکہ انہوں نے ہماری افطاری کی تھی تو اب ہمیں بھی کرنی ہے۔

میں رشتہ داروں کے حقوق کے خلاف نہیں لیکن کم از کم رمضان میں تو سب سے پہلے معاشی طور پر خود سے کم حیثیت طبقے کی طرف خیال کریں، اور جان لیں کہ اللّہ کی طرف سے ہمارے رزق میں ان لوگوں کا حصہ مقرر کیا گیا ہے. ہماری ذمہ داری ہے کہ ان تک ان کا حصہ وقت پر پہنچایا جائے ۔ ویسے بھی رزق میں برکت اور دل کا سکون یونہی نہیں ملتے، ان کے لیے پہلے کسی کے دسترخوان تک رزق اور کسی کے دل تک سکون پہنچانا ہوتا ہے، تب جا کر وہ راضی ہوتا ہے جو اس دل میں رہتا ہے. نبی اکرم صلی الّلہ علیہ وآلہ وسلم نے گوشت کا شوربہ تک زیادہ رکھنے کی اس لیے تاکید کی کہ پڑوسی کو بھیجا جا سکے ( کہیں ایسا نہ ہو اُس تک خوشبو جائے اور اُس کے بچوں کا بھی کھانے کو جی چاہے). لہذا اسی وقت دل میں عہد کر لیجیے کہ ہم اپنے طعام و خوان سوشل میڈیا پر دوسروں کو دکھانے کے بجائے قرب و جوار میں اوروں کو کھلانے پر فوکس کریں گے. اس امید اور یقین کے ساتھ کہ اس عمل کی بدولت اللّہ کی رحمتوں اور برکتوں کا فوکس بھی ہم پر رہے گا.