Category: نئے لکھاری

  • قوموں کی عظمت اور پاکستانی قوم – نعمان بخاری

    قوموں کی عظمت اور پاکستانی قوم – نعمان بخاری

    آپ نے میڈیا پر مختلف ممالک کے سربراہوں کو اپنی قوم کے عظیم ہونے کا دعویٰ کرتے دیکھا ہوگا. عظیم قوم بننے کے لیے کیا ضروری ہے؟ اس حوالے سے بہت سی آراء موجود ہیں. اقتصادی ترقی، فوجی قوّت، قدرتی وسائل، سائنسی و فنی علوم میں مہارت اور دنیا کی ترقی میں شراکت داری وہ چیزیں ہیں جو کسی قوم کے عظیم ہونے کے حوالے سے گنوائی جاتی ہیں. میری ناقص رائے میں ان خصوصیات سے کوئی قوم عظیم قوّت تو کہلا سکتی ہے مگر عظیم قوم نہیں. اگر اقتصادی حالت کی بہتری اور دولت سے عظیم ہونا ہوتا تو عرب ممالک عظیم ہوتے. فوجی برتری میں رومی کتنی قوت کے حامل تھے، قدرتی وسائل میں روس اور سائنس میں نازی جرمنی دنیا کے صف اول کے ممالک میں آتے تھے مگر کیا یہ عظیم تھے؟

    ارسطو کا قول ہے کہ کسی قوم کا سیاسی استحکام اور کامیابی اس قوم کے لوگوں کی اخلاقی اقدار میں چھپی ہوئی ہوتی ہے. کسی قوم کے عظیم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اعلیٰ اخلاق و کردار کی حامل ہو اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ وہ کس طرح کے افراد تیار کرتی ہے. اس کے علاوہ جو خوبی قوم کو عظیم بناتی ہے وہ جذبہ اور اسپرٹ ہے. جذبہ ہی کسی فرد و قوم کو کچھ کرگزرنے پر اُبھارتا ہے. منگول قوم کی مثال لیجیے، ٹوٹے پھوٹے اور بکھرے لوگوں میں جب جذبہ آجاتا ہے تو وہ دنیا کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں- مسلمانوں کی مثال بھی آپ کے سامنے ہے کہ ساز و سامان اور وسائل کے بغیر بھی جس جگہ پہنچے وہاں اپنے ایمانی جذبے کی بدولت کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے.

    پاکستانی قوم نے اخلاقی اقدار اور اس کی ترویج کے لیے دو قومی نظریے کی تشکیل دی، اس کے لیے الگ ملک حاصل کیا اور دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی. اور اس کے بعد قربانیوں اور ایثار کی عظیم داستانیں رقم کیں. قوم کے ایک چھوٹے بچے اعتزازاحسن کی قربانی جیسی مثال شاید دنیا میں کہیں اور نہ ملے. ایثار میں پاکستانی قوم ایک رول ماڈل ہے. کئی ملین مہاجرین کو تین دہائیوں سے اپنے ملک میں جگہ دینا اور بھائیوں کی طرح رہنا اس قوم کو واقعی عظیم بناتے ہیں. پاکستانی قوم کا جذبہ حب الوطنی بھی دیدنی ہے. مختلف قومیتوں کے ہونے کے باوجود جب پاکستان کی بات آتی ہے تو ساری قومیتیں پاکستانی قوم میں ڈھل جاتی ہیں. اس کے ساتھ پاکستانی قوم کا گِر کر اُٹھنے کا جذبہ بھی دیکھ لیجیے کہ دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں ہونے کے باوجود امن کا نوبل انعام جیتا ہے.

    یہ سلسلہ برقرار رکھنے کے لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کو اپنی اعلیٰ روایات اور اقدار سے روشناس کرائیں اور ان کو دنیا کے چیلنجز سے نبردآزما ہونے کی تربیت دیں تاکہ پاکستان رہتی دنیا تک عظیم قوم کہلائے.

  • مملکت خداداد اور ہماری ذمہ داریاں – ذیشان علی

    مملکت خداداد اور ہماری ذمہ داریاں – ذیشان علی

    ذیشان اگست کے تاریخی مہینے کا آغاز ہو چکا ہے، چودہ اگست کی آمد آمد ہے، پاکستان کے لیے یہ مہینہ اور دن خاص اہمیت کا حامل ہے کہ آج سے تقریباً 70 برس قبل اسی مہینے کی 14 تاریخ کو وطن عزیز دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوا اور مسلمانان برصغیر اس قابل ہوسکے کہ ایک آزاد ملک کی فضائوں میں سا نس لے سکیں۔ حسب روایت اس بار بھی آزادی کی خوشی میں تمام سرکاری اداروں، گھروں، گلیوں، محلوں اور چوراہوں میں سبز ہلالی پرچم لہرائے جائیں گے اور جگہ جگہ جھنڈیاں آویزاں کی جائیں گی کیونکہ ہم ایک آزاد اور زندہ قوم ہیں اور زندہ قومیں اپنے اسلاف کی قربانیوں اور کارناموں پر فخر کرتی اور انہیں یاد رکھتی ہیں اور یہ قابل قدر واقعات آئندہ نسلو ں کے لیے رہنمائی اور حوادث و مسائل کی اندھیری گھاٹیوں میں ماہ کامل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن کیا ہم واقعی زندہ قوم اور آزاد ملت ہیں؟ اس سوال کے ساتھ ہی بہت سے منتشر خیالات دماغ میں کھلبلی مچا دیتے ہیں اور میں ہمیشہ کی طرح ان کے سامنے بےبس ہو جاتا ہوں۔

    پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، ہزاروں خاندانوں اور لا کھوں انسانوں نے اس کی بنیادوں کو اپنے لہو سے سینچا، اپنے معصوم بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کی اس پر نچھاور کیا اور اپنی ساری عمر کی جمع پونجی پس پشت ڈال کر ایک ایسی مملکت کی آس میں نکل کھڑ ے ہوئے جہاں اللہ اور اس کے رسول کے احکام قوانین مملکت ہوں‌، جہاں ایک اسلامی اور اصلاحی معاشرہ قائم ہو، جہاں محبت، اخوت اور ہمدردی کی ٹھنڈی ہوائیں چلیں مگر افسوس کہ جس تیزی سے یہ احساس اور جذبات پروان چڑ ھے تھے، کچھ عرصے میں اسی تیزی سے جھاگ کی طرح بیٹھتے چلے گئے. اجتماعی مفاد کی جگہ خودغر ضی نے لے لی، غیرت اور حمیت کے مقابل بےحسی آکھڑ ی ہوئی، کام چوری اور کاہلی کو وتیرہ بنا لیا گیا، تاجروں نے دھو کہ با زی اور فراڈ کو شعار بنا لیا، بازار اور مارکیٹیں سود اور لوٹ مار کے مراکز بن گئیں، نتیجتاً سیاسی، معاشی اور سماجی میدان میں پستی میں لڑھکتے چلے گئے. تحریک آزادی کے سرکردہ رہنمائوں نے ملک میں اسلامی معاشرے کے قیا م کے لیے بھرپور جدوجہد کی لیکن بدقسمتی سے ابتدائی سالوں میں ہی مخلص قائدین کے داغ مفارقت دے جا نے اور بعد میں آنے والے حکمرانوں کی نااہلی اور بےتوجہی نے اس خواب کو کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا۔

    آج جتنی تحریک پاکستان اور اس کے مقاصد کو جاننے کی ضرورت ہے، اس سے پہلے کبھی نہ تھی. قوموں کی تاریخ ان کی ترقی میں ممد و معاون ہو تی ہے اور وقت کا صحیح استعمال سکھاتی ہے بقول ڈاکٹر صفدر محمود ” تا ریخ قوم کا حافظہ ہوتی ہے، جو قوم اپنی تاریخ بھلا دیتی ہے گویا اپنے حافظے سے محروم ہوجاتی ہے “۔ آج ہمیں بحیثیت قوم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر نے، آپسی لڑائی جھگڑ ے اور رنجشوں کو دفن کرکے اور فرقہ واریت سے منہ موڑ کر اس عزم کا اظہار کر نے کی ضرورت ہے کہ وطن عزیز کے مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے تاکہ روز قیامت ان شہداء کی روحوں کے آگے سرخرو ہو سکیں جو آج بزبان حال چیخ چیخ کر اپنے لہو کا حساب ما نگ رہی ہیں اور جنہوں نے اپنا تن من دھن سب ایک مقدس سو چ اور فکر کی آبیاری کے لیے پیش کر دیا تھا. ہر شخص اپنی ذات سے محاسبے اور اصلاح کا آغا ز کرے گا تو اجتماعی اور حقیقی تبدیلی کا آفتاب اپنی پوری آب وتاب سے چمکے گا اور اس مملکت خداداد سے تمام تر ظلمتوں اور اندھیروں کا خاتمہ کر دے گا۔

  • معافی ’’عام‘‘ لیکن صرف برائے ’’خواص‘‘ – سید اسرار علی

    معافی ’’عام‘‘ لیکن صرف برائے ’’خواص‘‘ – سید اسرار علی

    اسرار علی ’ناکام بغاوت‘ اور ’کامیاب انقلاب‘ کے بعد جب بھی جمہوری دور شروع ہوتا ہے تو کچھ دانشور یہ نصیحتیں کرتے تھکتے نہیں کہ گرفتاریاں نہیں ہونی چاہیں۔ عوام اور باغیوں (فوجی آمروں) میں محبت کی فضا قائم رکھنی چاہیے۔ اداروں میں ٹکراؤ کو روکنا چاہیے۔ معاف کردینا بہترین بدلہ اور جمہوریت بہترین انتقام قرار پاتے ہیں۔ ان سب لوگوں سے ہاتھ جوڑ کر کچھ سوالات کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں۔

    ہر بغاوت کے بعد ’’عام معافی‘‘ کا اعلان ، عام لوگوں کے لیے بھی ہوناچاہیے۔ مگر یہ مطالبہ صرف خواص کے لیے کیوں ہوتا ہے؟ یہ مطالبہ ہمیشہ آرمی، عدلیہ اور سیاستدانوں کے لیے ہی کیوں ہوتا ہے؟ ایسا مطالبہ عام افراد کے لیے کیوں نہیں ہوتا؟ ہر بغاوت میں لوگ مرتے ہیں اور ہر تحریک میں انسانوں کا خون بہتا ہے، پھر معافی کا اعلان صرف ان لوگوں کے لیے کیوں جو ’’خواص‘‘ ہوتے ہیں۔

    کیا ہم مطالبہ کر سکتے ہیں کہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں ہتھیار اٹھانے والوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جائے اور جو واپس آئے اسے کچھ نہ کہا جائے۔ اس کے ساتھ حسن سلوک کا ثبوت دیا جائے۔ لیکن اس معاملے میں آپ یہی کہیں گے کہ نہیں، ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ انہیں کسی صورت بھی معاف نہیں کیا جائےگا کیونکہ انہوں نے بےگناہوں کا خون بہایا ہے۔ آپ کی بات بالکل ٹھیک اور مبنی برحقیقت ہوگی لیکن پھر آپ ان لوگوں کے غم میں ہلکان کیوں ہو رہے ہیں جنہوں نے سینکڑوں لوگوں کا خون بہایا؟ جنہوں نے منتخب حکومت کو گرانا اور ملکی سالمیت اور استحکام کو داؤ پر لگانا چاہا؟ منتخب اور مقبول عام صدر کو مارنا چاہا، پارلیمنٹ پر چڑھائی کی، اور آئین کو پامال کرنا چاہا۔ ملک کو تشدد، افراتفری اور عناد کی طرف دھکیلنا چاہا۔

    عدل اور عقل، دونوں کا تقاضا یہ ہے کہ یا تو دونوں صورتوں میں عام معافی کا اعلان کر دیں ورنہ دونوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا مطالبہ کریں۔ فوجی کو وردی، جج کو گاؤن اور سیاستدان کو شیروانی کی وجہ سے یہ خصوصی رعایت نہیں دینی چاہیے کہ وہ جو چاہے کریں۔ اگر کامیاب ہوجائے تو پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں جبکہ ناکامی کی صورت میں ’’عام معافی اور حسن سلوک‘‘۔

    حضور! انصاف کیجیے۔ اگر ہم سب بحیثیت انسان برابر ہیں تو ہمارے گناہوں کی سزا بھی برابر ہونی چاہیے۔ بغاوت میں ناکامی کی صورت میں جو ’’حسن سلوک‘‘ آپ اپنے لیے پسند کر رہے ہیں۔ وہ رعایت دوسروں کو بھی دیجیے۔

  • فیس بک کے نیم ملا – محمد سجاد

    فیس بک کے نیم ملا – محمد سجاد

    محمد سجاد آپ نے سنا ہوگا کہ ’’نیم ملا‘‘ ایمان کے لیے خطرہ ہوتے ہیں، فیس بک پر اس طرح کے ’’نیم ملا‘‘ وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ خود پسندی کے مرض میں مبتلا یہ حضرات ایمان کے لیے خطرناک ہوسکتے ہیں، ان سے بچ کر رہنا چاہیے۔ زیادہ لائکس، کمنٹس اور بظاہر دلکش باتوں اور پوسٹس پر نہ جائیے کہ ان کے نزدیک یہی سب کچھ ہے. آئے روز دین اور اہل دین کے خلاف توپوں کا رخ کرکے سیکولرز اور اسلام دشمن لوگوں کی ’’واہ واہ‘‘ وصول کرکے خوش ہوتے ہیں۔ انھیں شاید یاد نہیں کہ روز محشر یہ لائکس اور واہ واہ کے کمنٹس کچھ کام نہیں آئیں گے۔ وہاں اعمال پیش ہوں گے اور انھی کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا. پروفائل تصویر سے ملا لگنے والوں سے اگر سوال کیا جائے کہ فیس بک سے ہٹ کر عملی زندگی میں آپ کی اسلام کے لیے کیا اور کون سی خدمات ہیں؟ تو شاید ندامت کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہ ہو۔

    ’’نیم ملا‘‘ حضرات اپنے ٹھرکیانہ مزاج کی وجہ سےخواتین کی آئی ڈیز پر جا کر انباکس میں انھیں ’’قابو‘‘ کرنے جبکہ عمر رسیدہ خواتین کو آنٹی اور امی کہہ کر دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں. (ایک محترمہ نے مجھے کچھ کے سکرین شارٹس بھیجے) خاتون سے بات کرتے وقت یہ پردہ اور نامحرم سے بلاضرورت بات کی ممانعت والے احکامات بھول جاتے ہیں۔خود پسند اتنے کہ اپنے ہر عمل کی تصویر بنا کر خود نمائی کرنے کے لیے ’’تصویر حرام‘‘ والے احکامات بھول جاتے ہیں۔ پریسما کو دجال سے تشبیح دے کر حرام قرار دے رہے ہیں جبکہ خود سیلفیاں سجانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے. خود کو کسی بڑے عالم اور بڑے مدرسے سے جوڑنےکی کوشش کرتے ہیں جبکہ وہ عالم ان سے کوئی تعلق رکھتا ہے نہ ان کے قول و فعل سے باخبر ہوتا ہے۔ دانشور بننے کے شوق میں ہر دینی مسئلے اور نازک ایشو پر لکھتے ہیں اور ظاہر ایسے کرتے ہیں جیسے دنیا کا ہر علم ان کی جیب میں ہے. صورت حال اگرچہ اس کے برعکس ہوتی ہے. ساری دانشوری اور دولت موبائل، انٹرنیٹ پیکج اور وکی پیڈیا تک محدود ہوتی ہے۔ اگر موبائل لے لیا جائے ساری ہوا نکل جائے. خود پسند کے مرض میں مبتلا خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس اندھیرے میں دھکیلتے ہیں. ضروری ہے کہ ’’نیم ملائوں‘‘ سے اپنے آپ کو بچا کر رکھا جائے.

  • تخیل کی تنگ دامنی – راشد حمزہ

    تخیل کی تنگ دامنی – راشد حمزہ

    کبھی آپ سے بہت ساری باتیں بہت مختصر لگتی ہیں اور کبھی رسمی دعا سلام بھی کافی ہوتی ہے. تعلقات میں حالات کا یہ زنانہ پن مجھے ذرا سا بھی پسند نہیں لیکن مجھے تسلیم کہ اپنی پسندیدگی ناپسندیدگی پر مجھے اختیار نہیں، بہت ساری چیزوں کو میں ناپسند کرتا ہوں لیکن پسند آجاتی ہیں اور بہت ساری چیزیں جو میں ناپسند کرتا ہوں ناپسند کرنے کی نہیں ہوتیں، میرے اختیار میں اتنا بھی تو نہیں کہ تم کو ناپسند کروں حالانکہ میری پسند بھی تو یہی ہے.

    میں بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں مگر کچھ لکھا نہیں جاتا، بہت کچھ کہنا نہیں چاہتا مگر کہہ جاتا ہوں. عرصہ ہوا لکھنے سے ہاتھ کھینچتا چلا آیا ہوں، شاید میرے خیالات تنگ دامنی کا شکار ہوگئے ہیں، میرا تخیل کسی نے تاراج کیا، میرے دماغ کے گوشے تاریک ہوگئے ہیں، میرے قلم نے لکھنے سے بغاوت کردی ہے، بس ایک ہی خواہش اب رہتی ہے کہ کسی ندی کے کنارے بیٹھ کر پانی کے شور میں پوری وضاحت کے ساتھ تمام تر تفصیلات کے ساتھ تمہارا سراپا لکھوں اور قلم توڑ دوں، میں اپنے خدا سے پوچھتا ہوں، تمہارے خالق سے پوچھتا ہوں کہ جس کی وضاحت تمام تر تفصیلات کے ساتھ ممکن نہیں ہونی تھی، ایسی چیز تخلیق کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ اور اگر تخلیق کرنے کی کوئی ضرورت تھی تو اس کی وضاحت رقم کرنے کی میری خواہش پیدا کیوں کی؟

    میری اب کی حالت اس چرواہے کی سی ہے جس نے کسی وسیع و عریض صحرا میں اپنی دس کی دس بکریاں گُم کر رکھی ہوں اور وہ درخت کے آرام دہ سائے میں لیٹا سستا رہا ہو، نہ اسے افسوس ہو مال و متاع کے گم ہوجانے کا اور نہ اس میں کوئی تڑپ ہو ڈھونڈ نکالنے کی. افسوس مال و متاع کے گم ہوجانے کا نہیں، میرے لیے باعث تشویش افسوس نہ ہونا ہے. کوئی بتا سکتاہے میں گمراہ تو نہیں ہوگیا ہوں، مجھے کوئی راستہ دکھا دے، میری بے چینی کسی نے لوٹ تو نہیں لی، کیا اب مجھے مزید بے قراری نصیب نہیں ہوگی؟

    عرصہ ہوا ہر چیز بھول جاتی ہے، ایک یہی بات یاد رہتی ہے کہ تم اب یاد نہیں رہتی. اگر یہ تمھارا سحر نہیں تو اور کیا ہے، کوئی ان راستوں سے کہہ دے تمہاری اپنی کوئی خودی نہیں، تمہارے پاس کوئی جذبہ نہیں، جو ان قدموں سے لپٹ کر روک سکے جو کسی کی منزل ہوتی ہے، اور ان کا ہر قدم دوری کا باعث بنتا ہے

  • خوشی کا پیالہ – افشاں فیصل شیوانی

    خوشی کا پیالہ – افشاں فیصل شیوانی

    ایک حکایت سنی تھی کہ ایک شخص نے کسی دانشمند سے پوچھا کہ زندگی کو کیسے گذارا جائے؟ اس دانا نے سوالی کو ایک دودھ سے بھرا پیالہ دیا اور ساتھ ایک غلام روانہ کیا اور اس سے کہا کہ یہ پیالہ پکڑ کر بازار کا ایک چکر لگا کر آؤ مگر خیال رہے کہ دودھ چھلکنے نہ پائے ورنہ یہ غلا م تمہارا سر تن سے جدا کر دے گا.
    سوالی پیالہ پکڑ کر چل پڑا اور پوری احتیاط کے ساتھ بازار کا چکر لگا کر واپس لوٹا. اب اس دانا نے سوال کیا کہ بتاؤ کہ بازار میں کیا دیکھا. تو اس شخص نے جواب دیا کہ حضور میں بھلا کیا دیکھتا، میرا تو سارا دھیان اس پیالہ کی طرف تھا کہ دودھ گرنے نہ پائے. اب اس دانشمند نے کہا کہ زندگی کو بھی اسی طرح گزارنا ہے۔ اگر میرے ہاتھ میں دودھ کا پیالہ ہو تو مجھے بہت آہستہ چلنا پڑے گا، چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے ہوں گے ورنہ دودھ چھلک جائے گا۔

    یہ تیز رفتاری ،یہ بھاگ دوڑ جو دن رات ہم کر رہے ہیں، یہ ہمارے نفس کے پیالہ کو چھلکا دیتی ہے تو کیا نفس کو روح کے پیالہ میں رکھنے کے لیے آہستہ چلنا ضروری نہیں؟ مگر ہم سب تو بہت تیزی میں رہتے ہیں اور مزید تیز بھاگنے کی کوشش ہے تاکہ دوسروں سے آگے نکل سکیں تو کیا ہمارا طرزعمل درست ہے؟ اگر دودھ کو گرنے سے بچانا ہے تو آس پاس سے نظریں ہٹانا ہوں گی، صرف اپنے پیالہ پر دھیان دینا ہوگا. ہمیں خود سے زیادہ دوسروں کی فکر رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارا نیکی کا پیالہ خالی ہوتا جا رہا ہے اور اسے بھرا ہوا رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آس پاس سے نظریں ہٹا لی جائیں اور آہستہ، چھوٹے اور مظبوط قدم اٹھائے جائیں نہ کہ بھاگنے کی کوشش کی جائے تاکہ جب منزل پر پہنچیں تو ہمارا پیالہ بھرا ہوا ہو، خالی نہ ہو. ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا پیالہ خوشیوں سے بھرا ہوا ہو مگر اس تیز رفتاری میں ہمارے پیالہ سے خوشیاں پھسلتی جا رہی ہیں اور ہم نے اپنے دل پر، خواہش پر اور خوشی پر سے نظریں ہٹائی ہوئی ہیں، صرف منزل پر پہنچنے کی جلدی ہے مگر اگر منزل پر پہنچے اور پیالہ خالی ملا تو کیا منزل حاصل ہوگی؟ خوشی کا پیالہ تو خالی ہو چکا ہوگا، پھر منزل پر پہنچ کر کیا حاصل کریں گے؟ ضروری ہے کہ تیزی کے بجائے آہستہ اور مناسب رفتار سے آگے بڑھا جائے تاکہ منزل بھی ملے اور خوشی بھی۔

  • کچھ تو سمجھوکچھ تو بولو – فاطمہ طاہر

    کچھ تو سمجھوکچھ تو بولو – فاطمہ طاہر

    فاطمہ طاہر پانی کی آواز؟؟ یہ کہاں سے آرہی ہے؟ ارے میں کہاں ہوں؟
    یہ کسی درخت کی اوٹ تھی. باہر نکلی تو مسحور کن نظارہ دیکھنے کو ملا. تاحد نگاہ پانی، سرسبز و شاداب جگہ، یہ تو کوئی جھیل ہے۔ مگر جگہ جانی پہچانی لگ رہی ہے. اسی اثنا میں سامنے سے ایک بچہ نمودار ہوا. سرخ پھول سے گالوں اور سنہری بالوں والا، ایک ہاتھ میں پاکستانی جھنڈا اور دوسرے ہاتھ میں ایک غلیل لیے ہوئے۔
    “میرے وطن کے حسین بچے”، میرے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی، اچانک گولیوں کی آواز آئی اور فضا میں جیسے ہلچل سی مچ گئی. بچہ بھاگ کر درخت پر چڑھ گیا اور غلیل کے ذریعے گولیاں برسانے والوں پر تاک کر نشانے لگانے لگا.گولیوں کی آوازیں مسلسل آرہی تھیں، پھر ایک دھماکے کی آواز آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے بچے کا جسم چیتھڑوں میں تبدیل ہو گیا. میری نگاہوں کے سامنے پرچم جلا ہوا پڑا تھا، کٹے ہوئے ہاتھ میں تھما ہوا. میں نے چیخنا چاہا، بھاگنا چاہا مگر آواز گھٹ کر رہ گئی، جسم ہلنے سے انکاری ہو گیا، یوں لگا کسی نے جکڑ لیاہے. اور پھر اسی کشمکش میں آنکھ کھل گئی.

    سارا دن دماغ اسی خواب میں الجھا رہا. موبائل کھولا تو جھیل ڈل کی تصویر پر نظر پڑی. یہی تو وہ جگہ ہے جو میں نے خواب میں دیکھی تھی. اچھا تو وہ جلتی ہوئی وادی کشمیر کی تھی، وہ پرچم تھامے معصوم بچہ کشمیری تھا.
    آہ ! کتنی امید سے اُس نے اس قوم کا پرچم تھام رکھا تھا جو اس کے وجود سے ہی غافل ہے. جسے ان کی مشکلات کا اندازہ و احساس ہی نہیں ہے. کیسے دکھ جھیلتی ہوں گی وہ مائیں، جن کے بچے ان کی آنکھوں کے سامنے لاشیں بن جاتے ہیں. ان کی چیخیں حلق میں گُھٹ جاتی ہیں، سسکیاں دم توڑ جاتی ہیں، اور ان کی آنکھیں کسی نجات دہندہ کے انتظار میں پتھرا گئی ہیں.
    تو دیکھ کے اپنی بیٹی کو، کر یاد انہیں بھی، سوچ ذرا
    کفار کی قید میں وہ بہنیں جو تجھ کو بلایا کرتی ہیں

    آسیہ اندرابی کاجذبہ یہ پیغام دیتا ہے کہ جدوجہد آزادی میں خواتین بھی بھرپور کردار ادا کر سکتی ہیں، عمر رسیدہ سید علی گیلانی کا آہنی عزم نوجوانوں کی غیرت کو للکارتا ہے، کچھ تو سمجھو، کچھ تو بولو
    سنو تو کاشمیر میں جبر و جور کی کہانیاں
    کٹے پھٹے بڑھاپے اور جلی سڑی جوانیاں
    ہیں تار تار عصمتیں، لٹی ہوئی ہیں رانیاں
    سناؤں کُھل کے میں تمھیں یہ روئیداد، فرض ہے

  • ادب، ڈرامہ اور معاشرتی اقدار – ظفراللہ

    ادب، ڈرامہ اور معاشرتی اقدار – ظفراللہ

    ظفراللہ سید مودودی نے کہا تھا کہ: معاش کے لیے کوئی ادب پیدا کرنے سے بہتر ہے کہ آدمی معاش کے لیے اینٹیں ڈھولے. لیکن المیہ دیکھیں کہ جن کو پتھر ڈھونا تھے، وہ آج ادیب کہلاتے ہیں اور میڈیا میں اپنی تخلیقات کے ہتھوڑے سے معاشرتی اقدار کو ڈھونے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ادب کا کیا فائدہ ہے؟ آخر ادب کیوں تخلیق کیا جاتا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کے ادب کو کیوں پڑھا جائے؟ اور آج ادب کا طالب علم ادب کی بہتر تفہیم پیدا کرنے سے کیوں قاصر ہے؟

    ادب دماغ ڈھالنے والی چیز ہے اور مسلمانوں کی فکری اصلاح میں ادب اور ادیب دونوں پیش پیش رہے ہیں. یہ سلسلہ نو آبادیاتی دور، اور اس کے بعد کبھی افراد اور کبھی تحریک کی صورت میں موجود دیکھائی دیتا ہے۔ اس کے بعد ادیبوں نے اپنے علاوہ ادب کا بھی قبلہ تبدیل کر دیا اور نتیجتا وہ معاشرے کے عام فرد سے دور ہوتے چلے گئے. عام فرد ادیب کے ساتھ ادب کو بھی خود کے لیے اجنبی تصور کرنے لگا، ادب زمینی نہ رہا بلکہ حقیقت سے فرار اختیار کرنے لگا. ادیبوں نے ادب اور معاشرے پر ظلم کیا کہ وہ مختلف ازموں کے پرچارک بن گئے اور فکری انتشار میں اضافہ کرنے لگے. آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے کچھ ادیب روس کے باقیات میں کچھ تلاش کرتے نظر آتے ہیں اور کچھ امریکہ سے انقلاب اور تبدیلی کی امید لگائے بیٹھے ہیں. رہتے پاکستان میں ہیں مگر ذہنی طور پر پاکستان کو قبول کرسکے ہیں نہ سماج کو اور نہ اس سماج سے جڑی اقدار کو ۔

    ادب کی ایک قسم وہ ہے جسے میڈیا کی سطح پر دیکھا جا رہا ہے. اس کا بیانیہ مادیت پرستی ہے۔ ان کی تخلیقات سے اسلامی تہذیب وتمدن کے بخیے ادھیڑے جا رہے ہیں۔ آج جو کچھ دکھایا جا رہا ہے اور تخلیق کار اپنی صلاحیتوں کو جس طرح بروئے کار لا رہے ہیں، اس پر صرف اظہار افسوس کیا جا سکتا ہے. اس قوم کی تہذیبی بربادی ادیب کوئی ردعمل دکھانے اور اس کا نوحہ لکھنے کے بجائے اس میں شریک ہے. لاجواب ڈراموں کی خالق اور ماہرنفسیات حسینہ معین نے اپنے انٹرویو میں آج کے ڈراموں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں :آج کا ڈرامہ ہماری تہذیب تباہ کر رہا ہے۔ ڈراموں کی سطح پر جو مادر پدر آزاد کلچر پروان چڑھایا جا رہا ہے،و ہ ہر گھر کی دہلیز پار کر چکا ہے. اس کا ادراک رکھنے والے بےحسی کی چادر اًوڑھے ہوئے ہیں۔ یہ دور چونکہ میڈیا کا ہے اور میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، ہمارے تخلیق کاروں کی سوچ صرف ایلیٹ کلاس یا برگر فیملی کی کہانی پیش کرنے میں اٹکی ہوئی ہے اور ان ڈراموں سے یہ تاثر جا رہا ہے کہ پورے پاکستان کا مسئلہ گرل فرینڈز رکھنا اور ان کی ناز برداری کرنا رہ گیا ہے، ایک پاکستانی کی دوڑ لڑکی سے شروع ہوتی ہے اور لڑکی ہی پہ ختم ہوتی ہے. محبت بے شک ایک عظیم جذبہ ہے مگر اس کی بنت ایک خاص طبقے تک محدود رکھنا ادب اور ادیبوں کا المیہ ہے۔ اس دور کاسب سے بڑا کمال یا تضاد یہ ہے کہ ہم سیاہ و سفید میں تمیز کرنے سے محروم ہوگئے ہیں اور ہمارا ادب بھی فحاشی اور عریانیت کا ضمیمہ بن کر رہ گیا ہے اور جب کسی معاشرے میں بداخلاقی اور فحاشی قانون توڑ رہی ہو اور اس سیل ِبد کے آگے بند نہ بندھا جا رہا ہو تو اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب یہ معاشرہ روبہ زوال ہے۔ پھر اس معاشرے کی بہتری کے لیے کوئی بھی ریورس گیئر نہیں لگتا اور پھر اس معاشرے کو اپنی قدرتی موت مرنا پڑتا ہے۔

    جو ڈرامے آج بڑے اہتمام کے ساتھ دکھائے جا رہے ہیں اور ان کے ذریعے ہندوانہ یا بدیسی کلچر کو جس بیتابی سے پروان چڑھایا جا رہا ہے، اس سے سابق بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی کی اہلیہ سونیا گاندھی کی وہ بات یاد آ رہی ہے کہ ہمیں پاکستان کے خلاف جنگ لڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم نے اپنی فلموں اور ڈراموں کے ذریعے اسے ثقافتی طور پرفتح کر لیا ہے۔ اس بھیانک منظرنامے میں اصل سوال یہ ہے کہ اپنی تہذیبی و ثقافتی اقدار کی بقا کی جنگ ہم کس طرح لڑیں اور کس کے ساتھ لڑیں۔ سیاسی و مذہبی قیادت کو مختلف بکھیڑوں میں الجھایا گیا ہے، انھیں خود سے فرصت نہیں.

  • ایک سوال – تیمور ارسلان

    ایک سوال – تیمور ارسلان

    لگتا ہے کہ پاکستان میں دو چار ایشوز کے علاوہ تمام مسائل حل ہو چکے ہیں۔ میڈیا پر گنے چنے موضوعات پر ہی بات کی جاتی ہے. حکومتی اداروں کی ترجیحات بھی حکومت اور مجموعی قومی سوچ کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر مجھے نہیں یاد کہ کبھی کوئی آرٹیکل ماحولیات کے موضوع پر نظر سے گزرا ہو۔ وجوہات کی اگر درجہ بندی جائے تو
    ۱۔ ماحولیات کی اہمیت کا احساس
    ۲۔ حکومتی اداروں کا رویہ
    ۳۔ مشترکہ قومی بے حسی
    ہی ممکنہ وجوہات ہیں۔

    پاکستان کے تمام بڑے شہروں مین پینے کا زیرزمین پانی آلودہ ہوچکا ہے، سعودی عرب جیسے ملک میں بھی جہاں زیر زمین پانی قابل استعمال نہیں، ادویات اور کیمیکلز کو آپ کوڑے میں نہیں پھینک سکتے کیونکہ ایکسپائرڈ اینٹی بائیوٹک اور ڈرگز بارش کے پانی میں حل ہو کرزیر زمیں پانی کو آلودہ کر دیتی ہیں اور خطرناک بیماریوں کا باعث بنتی ہیں. پاکستان میں ایسا کون سا اداراہ ہے جو چیک کرتا ہو کہ ایکسپائرڈ ادویات میڈیکل سٹورز سے کہاں تلف کی جاتی ہیں.

    یہ موضوع وسیع ہے، اس سے زیادہ یہ مسئلہ گھمبھیر ہے۔ ایک ایسے ملک میں یہ سوال، جس کے دل لاہور کے رنگ روڈ پر واقع لوہے اور سریے کی فیکٹریوں اور فیصل آباد کی ٹیکسٹائل کی آلودگی اور دھویں نے حکومتی اداروں اور میڈیا کو اندھا کر دیا ہو، کئی لوگوں کے لیے موجب پریشانی بھی ہو سکتا ہے.

  • ایک خدا کی ایک قوم – محسن علی

    ایک خدا کی ایک قوم – محسن علی

    اگر ہم پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا، ہم شروع سے ایسے ہی ہیں جیسے آج، کیونکہ لیاقت علی خان کے قتل، ایوب خان کے ماشل لا، محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ سلوک پر یہ قوم نہیں نکلی. سقوط ِڈھاکہ ہونے پر بھی اس کا رد عمل سامنے نہیں آیا. بھٹو کی پھانسی، ضیاء الحق کا مارشل لا، آتی جاتی جمہویت، پرویزمشرف کا ڈبل مارشل لا بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا گیا. پھر دہشتگردی کے خلاف اس کو ایک ساتھ کھڑے ہونے میں دس سال سے زائد کا عرصہ لگا. پھر چاہے تھر کے لوگ بھوک پیاس سے مریں، وکی لیکس آجائیں یا پانامہ لیکس، اس قوم میں اُٹھنے کی ہمت و طاقت نہیں ہے.

    اگر میڈیا یا کوئی ریاستی ادارہ یہ سمجھ رہا ہے کہ کچھ ہوگا ، کوئی نکلے گا تو یہ ان کی بھول ہے. آئے دن ہم کوئی نہ کوئی سانحہ ہوتا ہے مگر ہر طرف خاموشی ہے. لہذا میرا ماننا یہ ہے کہ اب عوام اور حکمران طبقے کوایک دوسرے کو معاف کرنا چاہیے اور ایک قانونی معاہدہ کرکے تمام پاکستانی سیاسدانوں کو دنیا بھر سے وطن واپس بلا کر عام معافی دی جائے اور اگلے الیکشن میں سب کو موقع دیا جائے چاہے وہ کسی بھی طرز کی سیاست کرتے ہوں، سب کوقومی دھارے میں لا کر ہتھیار کی سیاست ختم کروا دینی چاہیے اور سب کو مل کر پاکستان کا نیا معاشرتی نظام تشکیل دینے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، یہی پاکستان کی بقا کا راستہ ہے۔ غداری و کفُر وغیرہ کے الزامات ختم کرنے چاہیے اور دھرنوں، ہڑتالوں، احتجاجوں سے پرہیز کرنا چاہیے. کشمور سے مستونگ اور کراچی سے خیبر تک شاہراہیں بچھا کر امن وسکون بحال کرنا چاہیے.

    لکھنے والوں کی تحریریں، سیاستدانوں اور محب ِوطنوں کی تقریریں، اساتذہ کی تعلیمات اب تک تو اس ملک کو کچھ نہیں دے سکے. ایسے کرنے سے شاید کچھ تبدیلی آئے. اس کی بنیاد اس فقرے پر ہو”ایک خدا کی ایک قوم“ . مجھے پوری امید ہے کہ پاکستان کے حالات تیزی سے بدلیں گے اور ترقی کی طرف گامزن ہو سکیں گے۔