Category: ادبیات

  • شیدا سیکرٹ سروس – ریحان اصغر سید

    شیدا سیکرٹ سروس – ریحان اصغر سید

    ریحان اصغر سید میں اور شیدا پہلوان دودھ دہی کی اُس دوکان کے سامنے چنگ چی رکشے سے اترے جس کی بالائی منزل کے سامنے ہماری جاسوس کمپنی “شیدا سیکرٹ سروس” کا ہیڈ آفس تھا۔ جس کے باہر لگے بورڈ پر نمایاں اور واضح لفظوں میں رقم تھا کہ ہماری کوئی دوسری شاخ یا برانچ نہیں۔ ملتے جھلتے ناموں سے دھوکہ نہ کھائیے۔ ہمارا ادارہ ہر قسم کی جاسوسی خدمات کے علاوہ جادو ٹونے کی کاٹ، پلٹ ، کا ماہر ہے، نیز محبوب کو آپ کے قدموں میں لانا اور شوہر کوراہ راست دیکھانا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ اس کے علاوہ ہم ہر قسم کے تعویذ گنڈے کے بھی ماہر تسلیم کیے جاتے؎
    ہیں۔ بے اولاد حضرت کے علاوہ ہر قسم کے زنانہ اور مردانہ پوشیدہ امراض کا شافعی و تسلی بخش علاج بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ لکی کمیٹی، انعامی سکیم، پرائز بانڈ، غیر ملکی کرنسی سمیت ہر قسم کی خفیہ معلومات کے لیے تشریف لائیے۔
    چوبیس گھنٹے سروس،
    آفس ٹائم دن آٹھ سے شام چھ بجے۔
    صدر و چیف ایگزیکٹیو پیر و مرشد حضرت گجراتی بابا المعروف پیزے برگر والی سچی سرکار۔
    اسٹنٹ ڈائریکٹر، اکاوئنٹنٹ، ڈائریکٹر ایچ آر شیدا جِن۔
    اب ایسا نہیں تھا کہ ہم روزانہ چنگ چی پر ہی آفس آتے تھے۔ ہمارے پاس ایک پرانی لیکن دھانسو قسم کی سپورٹس بائیک تھی، جسے میں اس اتوار ایک جوئے کی محفل میں ہار گیا تھا۔ چونکہ وقت خراب ہے اور شریف لوگوں کا باہر نکلنا بھی دوبھر ہوگیا ہے اس لیے ہم سب ہم پیالہ و نوالہ پینے پلانے کا بندوبست کر کے کسی ایک دوست کے ہاں سرشام ہی بیٹھ جاتے ہیں۔ بعض دفعہ تاش کی بازی بھی لگ جاتی ہے۔ اس دفعہ میں کچھ زیادہ ہی پی گیا۔ مزید ستم یہ کہ شیدے نے اپنے دو بھرے ہوئے سیگریٹ بھی مجھے پلا دیئے تو میرے دماغ کی رہی سہی بتی بھی گل ہو گئ۔ پہلے میں اپنے سارے پیسے ہارا، پھر شیدا جو کہ میری پشت پر بیٹھا مجھے پنکھی سے ہوا دے رہا تھا اور گاہے بہ گاہے مجھے سیگریٹ کے کش لگوانے کے علاوہ بازی سے متعلق مفید مشورے دینے میں مشغول تھا، اس کی ساری جیبوں کی تلاشی کے بعد ملنے والے دو سو روپے بھی ہار گیا۔
    اس کے بعد غم غلط کرنے کے لیے میں نے گلاس سر پر رکھا۔ بوتل ہاتھ میں پکڑ کر لہک لہک کے ماتمی گیت گانے شروع کیے۔
    دیوہیکل شیدا فرط غم سے فرش پر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا اور اپنے منہ سے ویسا بیک گراونڈ میوزک دینے کی کوشش کر رہا تھا جیسا آجکل نعت خوانوں کے پیچھے کھڑے دیہاڑی دار منہ سے گھٹر غوں، گھٹر غوں جیسی آوازیں برآمد کرتا ہے۔ شیدے کا دوسرا ساز اس کا پہاڑ جیسا پیٹ تھا۔ جسے وہ بنیان اٹھا کر دونوں ہاتھوں سے بجانے میں مصروف تھا۔ میرے جگری دوستوں نے کچھ دیر میری مجذوبانہ حرکات پر درد دل کے ساتھ غور کیا اور باہمی مشورہ سے اس نتیجے پر پہنچے کہ اس موقع کو ہاتھ سے جانے دینا کفران نعمت کے مترادف ہو گا اور مزید یہ کہ گھوڑے گھاس سے دوستی نبھائیں تو کھائیں کیا؟
    اس لیے انھوں نے مجھے گھیر کر دوبارہ چٹائی پر بیٹھایا اور سمجھایا کہ اب کی بازی بڑی ہونی چائیے تاکہ میرے پچھلے نقصان کا ازالہ بھی ہو سکے۔ بڑی بازی سے میرا دھیان شیدے کی طرف چلا گیا۔ جب میرے پاس ہارنے کو کچھ نہ بچتا تھا تو میں شیدے کو بازی پر لگا دیتا تھا۔ پہلے پہل شیدا پانچ ہزار والی بازی کے کام آتا تھا، لیکن عالمی کساد بازاری کے دور رس اثرات کی وجہ سے شیدے کی مارکیٹ ویلیو بھی ڈاون ہوتی چلی گئ جس کی وجہ سے اب شیدے کو زیادہ سے زیادہ دو ہزار والی بازی پر لگایا جا سکتا تھا۔ اگر میں بازی ہار جاتا تو شیدا تب تک میرے دوستوں کے زیر استعمال رہتا جب تک میں مطلوبہ رقم ادا کر کے شیدے کو بازیاب نہ کروا لیتا۔ تب تک شیدا میرے دوستوں کی گاڑیاں موٹر سائیکل دھونے، گھروں کا سامان ڈھونے، بچوں کو کھیلانے ، انھیں سکول چھوڑنے اور واپس لانے کے کام آتا۔
    بڑی بازی کا سن کر شیدے کے تارکول جیسے رنگ پر مزید سیاہی چھا گئ۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھ سے رحم کی اپیل کی۔ اس سے پہلے کہ میں رحم کی اپیل مسترد کرتا، میرے دوست ارشد ماکڑی نے تصیح کی۔
    او نہیں یار ! بڑٰی بازی سے ہماری مراد موٹر بائیک کی بازی ہے۔ پھر ارشد ماکڑی نے میری جیت جانے کی صورت میں ہونے والے متوقع مالی فوائد کے ساتھ ساتھ میری اور شیدے کی زندگی میں آنے والی خوشگوار تبدیلیوں پر تفصیلی بریفنگ دی تو میں پرجوش ہو کر راضی ہو گیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔۔۔۔

    بات ہو رہی تھی آفس پہنچنے کی۔ میں اور شیدا سیڑھیاں چڑھ کر آفس کے لکڑی کے خستہ دروازے کے سامنے پہنچے جس پر کافی پنکچر لگے ہوئے تھے۔ باہر ایک زنگ آلودہ تالا ٹنگا تھا۔ یہ تالہ ہماری عملی زندگی شروع کرنے کی نشانی تھا۔ ہم جو بھی نیا کام شروع کرتے اس کے آفس کے باہر یہی تالا استعمال کرتے۔ شیدا بیک وقت چابی، سکریو ڈرائیور اور ہتھوڑے سے تالا کھولنے کی معمول کی کاروائی میں مصروف تھا۔ ساتھ ساتھ اس کے منہ سے تالے کے خاندانی پس منظر، عادت و خصائل اور ان کی مستورات کی بے راہروی کے بارے میں انکشافات کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ آخر کار تالہ کھل گیا۔ شیدے نے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے فخریہ انداز میں مجھے دیکھا۔
    میں نے شیدے کے کاندھے پر شاباشی دیتے ہوئے کہا کہ فکر نہ کر، آج کوئی گاہک قابو آیا تو سب سے پہلے تجھے نیا تالا لے کر دوں گا۔ پھر ہم دونوں اپنے کبوتر خانے جیسے آفس میں داخل ہوئے۔ جہاں ایک طرف انسانی ڈھانچہ پڑا تھا۔ جو بنا تو پورسلین کا تھا مگر شیدے کی کاریگری کے بعد بلکل اصلی لگتا تھا۔ میز پر ایک کھوپڑی اور کچھ ہڈیاں بکھری پڑی تھی۔ چھت پر رنگ برنگی لائیٹس لگی تھی جن کی روشنی سے کمرے کا منظر کافی ڈراونا بن جاتا تھا۔
    پیچھے الماریاں میں دوائوں کی شیشیاں پڑی تھی جن میں ہم نے رنگ دار پانی بھرا ہوا تھا۔
    کبوتر خانے کے پیچھے ایک اور ڈربہ نما کمرہ تھا جس میں ہم نے خفیہ ساونڈ سسٹم فِٹ کر رکھا تھا۔ روحوں اور موکلوں سے ملنے کے شوقین افراد سے شیدا اسی کمرے میں بیٹھ کر ہم کلام ہوتا۔ شیدے کے جن بھوت والے مختلف کاسٹیوم بھی ادھر ہی پڑے تھے۔ میں نے فون کی آنسرنگ مشین آن کی۔ آج کل کیبل پر ہمارا اشتہار چل رہا تھا جسے دیکھ کر یہی محسوس ہوتا تھا کہ دنیا میں موت کے سوا ہر بیماری کا علاج ہمارئ پاس ہے۔مسئلہ کشمیر کے علاوہ ہم سارے مسئلے حل کرنے پر قادر ہیں۔ یورپ، آسٹریلیا، امریکہ کا ہر ویزا ہماری اجازت سے مشروط ہے۔ بندے کو تعویذ سے مارنا ہمارے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ ہمارے مشورے کے بغیر کوئی بھی کاروبار شروع کرنا، یا زمین و مکان کی خرید و فروخت نہایت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

    جب سے ہم نے جادوئی کلپ کا ایڈ دیا تھا اس کے جادوئی اثرات نظر آ رہے تھے۔ ماٹھا پڑتا کاروبار چمک اٹھا تھا۔ ہر وقت فون کالز اور گاہکوں کا تانتا بندھا رہتا۔ ابھی بھی آنسرنگ مشین پر رات کو آنے والی کالز کے پیغامات موجود تھے۔ پہلی ریکارڈنگ کسی موٹے سیٹھ کی تھی جو کافی موٹی آسامی لگ رہا تھا۔ وہ اپنے سے بھی موٹی بیوی کو ہماری ہر دلعزیز پروڈکٹ کالا کوبرا تعویذ سے مروا کر کسی کم عمر چھوکری سے شادی کرنے کی فکر میں تھا۔ میں نے جواباً میسج ریکارڈ کروا دیا کہ کالا کوبرا تعویذ صرف افریقی ملک یوگینڈا کے ایک کالے مندر میں چاند کی چودھویں رات میں اُس کالے بکرے کے خون سے ہی لکھا جا سکتا ہے جو پیدائشی بھینگا اور لنگڑا ہو۔ ٹکٹ اور آنے جانے کا کل خرچہ ملا کر دس لاکھ سے تجاوز کر جاتا ہے۔ جس میں سے آدھا ایڈوانس وصول کیا جائے گا۔ کام شرطیہ پورا ہو گا۔ آزمائش شرط ہے۔ اپنی بیوی کی تازہ تصویر اور مبلغ پانچ لاکھ روپے آفس پہنچا دیں تاکہ کاروائی کا باقاعدہ آغاز کیا جا سکے۔

    دوسرا پیغام کسی کالج کی لڑکی کا تھا جو اپنے محبوب کو اپنے قدموں میں دیکھنا چاہتی تھی۔ چونکہ بیچاری کے پاس صرف دو سونے کی بالیاں ہی تھی۔ اس لیے غریب پروری کرتے ہوئے اسے بھی بالیاں اور محبوب صاحب کی جمیع تفصیل کورئیر کرنے کی ہدایت کر دی گئی ۔پھر ایک ساسو ماں کا میسج تھا جسے عین الیقین تھا کہ اس کی بہو اس پر کالا جادو کرتی ہے۔ وہ اس کی کاٹ اور پلٹ کروانا چاہتی تھی۔
    میری اور شیدے کی آنکھیں ایک نوجوان کا میسج سن کر چمکیں جس کا باپ امریکہ میں تھا۔ وہ جادو کے زور پر خود کو کالج میں ٹاپ اور رقیب کو فیل کروانا چاہتا تھا۔ ظاہر ہے ایسے مشکل کام کے لیے موکل ایسی کالی گائے کا خون مانگتے ہیں جس نے ساری عمر پاکدامنی میں گزارنے کے علاوہ صرف ایسے کھارے کنویں کا پانی پیا ہو جیسے کسی لنگڑے مستری نے کھودا ہو ..اور ایسی گائیں صرف کینیا میں ہی پائی جاتی ہیں۔ گائے کی خون کی بلی لینے کے بعد موکل دو ماہ تک کھلے سمندر میں چلہ کرتے ہیں پھر کہیں جا کر کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ یہ ساری تفصیلات بتا دی گئیں۔ امید تھی لڑکا قابو آجائے گا اور پھر ہم دو چار دن میں ہی نئ موٹر بائیک لینے کے قابل ہو جائیں گے۔

    تھوڑی دیر گزری تو ایک سیاہ فام بونی سی عورت آفس کے داخلی دروازے سے اندر داخل ہوتی نظر آئی۔ جو مجھے شکل سے ہی سکہ بند جادوگرنی لگ رہی تھی۔ کچھ عجب نہیں کہ وہ ہم سے کالے جادو کے نئے جنتر منتر سیکھنے آئی ہو۔ اس کی سانپ جیسی چھوٹی چھوٹی آنکھیں اور پیلے دانت کافی ڈروانے لگ رہے تھے۔ پہلے اس نے آنکھیں گھما گھما کر آفس، شیدے اور میرا بغور معائنہ کیا۔
    جی محترمہ ! میں کیا خدمت کر سکتا ہوں آپ کی۔ میں نے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا
    مجھے اپنے شوہر کی جاسوسی کے لیے آپ کی خدمات کی ضرورت ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ وہ کسی دوسری عورت کے چکر میں ہے۔ بونی عورت نے چھت کی لائیٹوں کا حیرت سے مشاہدہ کرتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا۔
    جی ہم ہر طرح کی جاسوسی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ مجھے بہت افسوس ہوا آپ کے شوہر کے بارے میں جان کر۔ ان کی عقل پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔ پتہ نہیں آج کل کے شوہروں کو کیا ہو گیا ہے جو آپ جیسی حسین و جمیل اور گریس فل خاتون کو چھوڑ کر کسی اور عورت کے چکر میں ہے۔ یقیناً وہ اندھے ہوں گے۔ میں نے پورے یقین سے کہا کیونکہ اس چڑیل نما عورت سے کوئی اندھا ہی شادی کر سکتا تھا۔
    بونی عورت نے میری بات سنی ان سنی کر دی وہ اس وقت ٹیبل پر پڑے فون کو اٹھا کر حیرت سے الٹ پلٹ کر کے دیکھ رہی تھی۔ لگتا تھا اس نے یہ سب چیزیں زندگی میں پہلی بار دیکھی ہیں۔
    میں نے کھنکار کر بونی عورت کو متوجہ کیا تو وہ چونکی۔
    آپ لوگوں کی فیس کتنی ہے؟
    فیس کی بات سے ہماری منہ میں ایسے پانی بھر آتا تھا جیسے اکثر لوگوں کے پیزے اور بریانی کے نام سے۔ میں نے لیپ ٹاپ کے کئ بورڈ پر بے مقصد انگلیاں بجائیں۔ کیلکولیٹر پر دو تین دفعہ ۷۸۶ کو ۷۸۶ سے ضرب دے کر ۳۰۲ کو نفی کر کے ۴۲۰ کو جمع کیا اور گھمبیر لہجے میں کہا کہ اس طرح کے کاموں میں ایجنٹوں کو بہت بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے۔ سبجیکٹ کی نگرانی کے لیے فیول و دیگر اخراجات بے پناہ ہو جاتے ہیں۔ آپ وقتی طور پر پچاس ہزار روپے جمع کروا دیں پھر باقی حساب کتاب بعد میں کر لیں گے، گھر والی ہی بات ہے۔ اپنا اور اپنے خاوند کا پتہ و دوسری تفصیلات اس کاغذ پر لکھ دیں۔
    پچاس ہزار کا سن کر وہ بونی عورت اس طرح اچھلی جس طرح کسی غریب کا پانچ ہزار بل آ جائے تو وہ اچھلتا ہے۔ ہاتھ نچا کر بولی
    آئے ہائے ! اتنے سے کام کے اتنے زیادہ پیسے؟
    تم لوگوں نے تو بہت زیادہ لوٹ مار مچا رکھی ہے اور فیول کا خرچہ کاہے کا؟
    کیا تمہارے جِن اور موکل پیٹرول پر چلتے ہیں؟
    تم لوگ تو اپنے ایڈ میں کہتے ہو کہ ہر کام کے لیے تمہارے پاس جِنّوں اور موکلوں کی علیحدہ علیحدہ تجربہ کار ٹیمیں ہیں۔ ریٹ لسٹ کہاں ہیں تمہاری۔ مجھے دیہاتی سمجھ رکھا ہے کیا؟ اس دنیا میں نئ آئی ہوں تو کیا ہوا۔ میں بھی ٹیڑک پاس ہوں۔ صیح ریٹ بتاو ورنہ ملاوں نمبر کنزیمور کورٹ کا۔
    خاتون کے تیور خطرناک لگ رہے تھے۔ میں گال اور شیدا سر کھجاتے ہوئے ڈانٹ سن رہے تھے۔
    دیکھیں محترمہ ! اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس جِنّوں اور موکلوں کا اتنا بڑا جتھا ہے کہ ان کی اکاموڈیشن کے لیے ہم نے گلبرگ میں دو کنال کی کوٹھی لے رکھی ہے۔ آج کل عمرے کا سیزن ہے اس لیے مسلمان جِن اور موکل اس وقت حرم شریف میں طواف میں مصروف ہوں گے۔ دو جن یوگنڈا میں ایک مشن پر مصروف ہیں جبکہ ایک سری لنکا اور ایک بنگال میں ہے۔ کچھ جِن سالانہ چھٹیوں پر اپنے وطن کوہ قاف گئے ہوئے ہیں۔ فی الحال میرے پاس یہی ایک جن ہے لیکن یہ میرا ذاتی خادم ہے۔ میں نے شیدے کی طرف اشارہ کیا،
    اور
    ہم کونسا ریڑھی لگا کر آم فروخت کر رہے ہیں جو آپ ہم سے ریٹ لسٹ کا مطالبہ کر رہی ہیں اور میٹرک تو سنا تھا یہ ٹیڑک کونسی ڈگری ہے ؟

    یہ جن ہے؟؟
    خاتون نے حیرت سے شیدے کو دیکھتے ہوئے کہا۔ جو عجیب و غریب ڈراونی شکلیں بنا کر جِن نظر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔ حالانکہ سوا چھ فٹ قد، اڑھائی سو پاونڈ وزن اور تارکول جیسی رنگت کی وجہ سے وہ بغیر کوشش کے بھی جن نظر آتا تھا۔
    اب بونی عورت شیدے سے کسی غیر مانوس جناتی زبان میں باتیں کر رہی تھی۔ انداز استفسارنا تھا۔ ایسی زبان جو میں نے بھی کبھی نہیں سنی تھی تو بھلا شیدا اس کا کیا جواب دیتا۔ بس آنکھیں نکال نکال کر جن ہونے کی ایکٹنگ کرتا رہا۔
    یہ جن نہیں ہے !
    خاتون نے اعلان کرنے والے انداز میں کہا۔ مجھے پتہ چل گیا ہے تم لوگ فراڈ ہو۔
    اچھا ! وہ کیسے ؟
    شیدے نے مذاق اڑایا۔
    اس لیے کہ میں خود ایک چڑیل ہوں۔ اگر تم جن ہوتے تو تمھیں جِنّوں کی زبان سے ضرور آگاہی ہوتی۔ دوسرا تمیں میرے یہاں آتے ہی پتہ چل جاتا کہ میں کوئی انسان نہیں ہوں۔

    شیدے کی پیشانی پر پسینہ چمکا اور مجھے اپنی ٹانگیں گیلی گیلی سی ہوتی محسوس ہوئیں۔ مجھے ابتدا سے ہی اس عورت کے انداز و اطوار بہت عجیب سے لگ رہے تھے۔ اس کی شکل ہی بڑی غیر انسانی تھی۔ اتنے میں ایک دھماکے کی سی آواز آئی۔ شیدا خوف کی شدت سے بے ہوش ہو کر گر گیا تھا یا بے ہوش ہونے کی ایکٹنگ کر رہا تھا۔ اب جو کچھ کرنا تھا مجھے اکیلے ہی کرنا تھا۔ اگر شیدا بے ہوش نہ ہوتا تو شاید اہم بھاگنے کا سوچتے۔
    عورت نما چڑیل اب لیپ ٹاپ کو اپنی طرف کھینچ کر اسے الٹ پلٹ کر کے دیکھنے میں مگن تھی۔ اس کی اسکرین میں نظر آنے والے اپنے چہرے کو عجیب عجیب سے پوز بنا کر دیکھ رہی تھی۔
    دیکھیں محترمہ ! میں نے ہکلاتے ہوئے بات کا آغاز کیا
    جن اور انسان بھائی بھائی ہیں اور اس طرح آپ میری بہن لگتی ہیں۔ انسان تو ہے ہی خطا کر پتلا۔ ہم سے کوئی غلطی کوتاہی ہو گئ ہو تو ہمیں چھوٹا سمجھ کر معاف کر دیں۔ میں نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ دیے اور پلیز اس کو چھوڑ دیں۔ یہ دنیا کی قیمتی اور نازک اشیاء میں شمار ہوتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ ٹوٹ جائے۔ ابھی تو اس کی آدھی اقساط بھی بقایا ہیں۔
    چڑیل کے چہرے پر کچھ نرمی کے تاثرات نمودار ہوئے ۔ اس نے لیپ ٹاپ میز پر رکھ کر میری طرف کھسکا دیا اور عجیب فلسفانہ لہجے میں بولی
    میرا تو انسانوں سے وشواس ہی اٹھ گیا ہے۔ تم عجیب مخلوق ہو۔ ہر وقت اپنی ہی نسل کو دھوکہ دینے میں مشغول رہتے ہو۔ زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارا نام استعمال کر کے ہمیں بھی بدنام کرتے ہو۔ پہلے ہم جِنوں میں یہ دھوکہ دینے والی برائی نہیں پائی جاتی تھی۔ پر جب سے کوہ قاف میں جنگ عظیم چہارم چھڑی ہے تب سے کوہ قاف کے معاشی حالات بہت خراب ہو گئے ہیں۔ کوہ قاف کے جنات اس دنیا میں کام کے لیے آتے ہیں تو واپسی پر دھوکہ دینے والی برائی ساتھ لے جاتے ہیں۔ چونکہ ہمارے بہت سارے رشتہ دار جن اس دنیا میں بھی رہتے ہیں تو ہمارے بہت سارے جن ہجرت کر کے اس دنیا میں آ رہے ہیں۔ تمہاری دنیا کے جنات کی طرح ہمیں چوری چکاری اور ہڈ حرامی کی عادت نیں بلکہ ہم اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتے ہیں۔
    میں بھی اپنے بچوں کے بہتر اور محفوظ مستقبل اور پرورش کے لیے کچھ دن پہلے ہی اس دنیا میں آئی ہوں۔ میرے بچے ابھی کوہ قاف میں ہی ہیں۔ سوچا تھا یہاں کوئی جاب لگ جائے تو انھیں بھی بلوا لوں گی۔ میں نے اخبار میں تمہارے اشتہار میں دیکھا کہ بہت سارے جن تمہارے پاس ملازم ہیں تو سوچا کہ شاید مجھے بھی نوکری مل جائے اور اپنے سرزمین کی مخلوق کے ساتھ میرا دل بھی لگ جائے گا۔ اسی لیے میں یہاں پر آئی تھی۔ شوہر والی بات تو میں نے تمہارا امتحان لینے کے لیے کی تھی مگر افسوس۔۔۔۔
    کوہ قاف سے آتے وقت میں جو کیش لائی تھی اور جِنوں کی کرنسی ایکسچینج سے تمہاری دنیا کی کرنسی میں تبدیل کروائی تھی، وہ بھی ختم ہونے والی ہے۔ چڑیل عورت دھیمی آواز میں بولتی رہی جبکہ میں حیرت سے سن رہا تھا۔
    بات ختم کر کے وہ بڑے دل گرفتہ انداز میں اٹھی اور اپنا بیگ تھام کر جانے کے لیے پر تولتی نظر آئی۔
    فرش پر بے ہوش شیدا جھٹ سے اٹھا اور بولا
    تم نہ جاو چڑیل باجی۔ ہم تمیں جاب دینے کے لیے تیار ہیں۔ پھر گھٹنوں کے بل چلتا ہوا میری طرف آیا اور میز کے نیچے سے میرے گھٹنے تلاش کر کے انھیں پکڑ کر بولا
    مرشد !
    ان کو کام پر رکھ لیں۔ سوچو اگر ہمارے پاس سچ مچ میں ایک جن عورت ہو گی تو ہمیں کام نمٹانے میں کتنی آسانی ہو گی۔ یہ جن غائب ہو کر کسی بھی جگہ ایک لمحے میں پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارا ہر مشن منٹوں میں مکمل ہو جایا کرے گا۔ ہماری دھوم مچ جائے گی۔ ہم منہ مانگی فیس لیا کریں گے۔

    اگر ہم آپ کو بطور جن اپائنٹ کریں تو آپ کی کیا ڈیمانڈ ہو گی اور آپ کی رہائش و کھانے پینے کی ترکیب کیا ہو گی؟
    میں نے چڑیل کی طرف متوجہ ہو کر کہا جو پر امید نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔
    رہائش کا تو کوئی مسئلہ نہیں۔ میں یہیں رہ لوں گی۔ ویسے بھی ہم اپنی ضرورت کے مطابق بہت چھوٹے یا بڑے ہو جانے پر قادر ہیں۔ میں تو چھوٹی سی ہو کر ماچس کی ڈبیا میں بھی سو سکتی ہوں۔ کیا میں آپ لوگوں کو چھوٹی ہو کر دکھاوں؟؟
    نہیں نہیں !
    اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اور شیدا بیک زبان ہو کر بولے۔
    چلو تمہاری مرضی۔ چڑیل نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ اور کھانے کا بھی مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ابھی میں ایک میرج ہال کے پیچھے موجود کچرے سے دو من چکن کھا کر آئی ہوں جو میرے دو مہینے کے لے کافی ہو گا۔ میں تو حیران ہوں کہ تمہاری اس دنیا میں ہم جِنوں کے لیے کس قدر رزق بکھرا پڑا ہے۔

    چلو یہ سب تو ٹھیک ہو گیا۔ اب پیسے کی بھی بات کر لیتے ہیں۔ میں ابھی آپ سے کوئی وعدہ تو نہیں کرتا لیکن ہر کام سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک مخصوص حصہ آپ کو دیا کروں گا۔ یوں سمجھ لیں ہماری پارٹنر شپ ہے لیکن ہر مشن آپ کو اپنی خاص صلاحتیوں کی بدولت ہی پورا کرنا ہو گا۔ اگر آپ کو یہ شرطیں منظور ہیں تو شیدا سیکرٹ سروس میں ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ میں نے تو دو ٹوک انداز میں کہا تو وہ چڑیل حسب توقع فوراً راضی ہو گئ۔
    وہ اپنی نوکری لگ جانے پر بہت خوش لگ رہی تھی پتہ نہیں بیچاری اس دنیا میں کہاں کہاں دھکے کھاتی رہی تھی ۔ہم نے اسے کسٹمر ڈیل کرنے کا طریقہ سمجھایا اور اسے آفس میں چھوڑ کر خود لنچ کے لیے بریانی کھانے حکیم بریانی ہاوس پہنچ گے۔

    شیدا بہت پرجوش ہو رہا تھا۔ ہمیں لگ رہا تھا کہ اب ہمارے دن پھرنے والے ہیں۔ اب ہمارا ہر مشن منٹوں میں مکمل ہو جایا کرے گا۔ بریانی کھا کر واپس آنے تک میں اور شیدا اپنی اپنی پسندیدہ گاڑیوں کے ریٹ اور پوش ایریاز میں کوٹھیوں کی قیمت او۔ایل۔ایکس پر چیک کر چکے تھے۔
    اپنے آفس کی بوسیدہ سیڑھیاں چڑھ کر جب ہم اوپر کبوتر خانے میں واپس پہنچے تو یہ دیکھ کر ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ آفس کا دروازہ پورا کھلا ہوا تھا اور وہ چڑیل لیپ ٹاپ، آفس کے موبائل فون لینڈ لائن سیٹ ڈھانچے سمیت ہر چیز لے کر غائب ہو گئ تھی۔ میز کے دراز کھلی حالت میں تھے۔ ایک دراز کے خانے میں موجود دو لاکھ کی جعلی کرنسی جو ہم نے ایک لاکھ میں خریدی تھی وہ بھی غائب تھی۔ اس کے علاوہ بھی کوئی قابل ذکر چیز موجود نہ تھی۔ وہ نوسر باز چڑیل نما عورت ہمیں الو بنا کر نو دو گیارہ ہو چکی تھی۔
    ایسے موقعوں پر شیدے کی تخلیقی صلاحتیں پوری طرح بیدار ہو جاتی ہیں اور وہ ایسی ایسی گالیاں ایجاد کرتا ہے کہ سنتے جاو اور سردھنتے جاو۔ وہ نان اسٹاپ گالیاں دیتے ہوئے ہر چیز کو چیک کرتا اور پھر اسے موجود نہ پا کر نئے جذبے سے گالیاں دینا شروع کر دیتا۔ جبکہ میں دونوں ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے کھڑکی سے نیچے گلی میں دیکھتے ہوئے یہ سوچنے میں مصروف تھا، کہ دنیا میں انسانیت ہی ختم ہو گئ ہے نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔ شیدا میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا
    یار ایک بات تو ماننی پڑے گی۔ وہ چڑیل نہ سہی پھر بھی اس کے پاس شائد کالا علم تو تھا کیونکہ جب ہم بریانی کھانے باہر جا رہے تھے تو وہ مجھے کہہ رہی تھی کہ میری جِنّوں والی حس بتا رہی ہے کہ تم لوگوں کا کوئی بڑا نقصان ہونے والا ہے۔

  • رُوح دیکھی ہے کبھی؟ گلزار

    رُوح دیکھی ہے کبھی؟ گلزار

    %da%af%d9%84%d8%b2%d8%a7%d8%b1 رُوح دیکھی ہے؟
    کبھی رُوح کو محسوس کیا ہے؟
    جاگتے جیتے ہوئے دُودھیا کہرے سے لپٹ کر
    سانس لیتے ہوئے اُس کہرے کو محسوس کیا ہے ؟
    یا شکارے میں کسی جھیل پہ جب رات بسر ہو
    اور پانی کے چھپاکوں میں بجا کر تی ہیں ٹلّیاں
    سُبکیاں لیتی ہواؤں کے کبھی بَین سُنے ہیں ؟
    چودھویں رات کے برفاب سے اس چاند کو جب
    ڈھیر سے سائے پکڑنے کے لیے بھاگتے ہیں
    تم نے ساحل پہ کھڑے ہو کے کبھی
    ماں کی ہناتی ہوئی کوکھ کو محسوس کیا ہے ؟
    جسم سو بار جلے تب بھی وہی مٹی ہے
    رُوح اِک بار جلے گی تو وہ کندن ہوگی
    رُوح دیکھی ہے ؟
    کبھی رُوح کو محسوس کیا ہے ؟

  • مرزا غالب کا ایک انٹرویو – فیاض الدین

    مرزا غالب کا ایک انٹرویو – فیاض الدین

    فیاض الدین میں کئی روز سے مرزا اسداللہ خان غالب کی تلاش میں تھا۔ایک روز چھٹی کے بعد شاپنگ سنٹر جا رہا تھا راستے میں دیکھا کہ مرزا غالب درخت کے سائے میں بیٹھے ہیں۔ بالکل وہی ناکِ نقشہ جس کا ذکر کتابوں میں پڑھا تھا۔ (اپنا تعارف کرایا)۔ بڑی منت سماجت کے بعد مرزا غالب انٹرویو پر آمادہ ہوئے ۔ان کے ساتھ گفتگو کینٹین میں ہوئی جو پیش خدمت ہے۔

    س: میں جانتا ہوں آپ کا وقت بہت قیمتی ہے اور آپ بہت مشہور آدمی ہیں لیکن اللہ جانے آپ سے شرف ملاقات دوبارہ حاصل ہو یا نہ ہو اس لیے آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں آپ پہلے یہ بتائیں کہ آپ کا دولت خانہ کہاں ہے؟
    غالب:
    مسجد کے زیر سایہ ایک گھر بنایا ہے
    یہ بندہ کمینہ ہمسایہ خدا ہے

    س: کیا اب کسی اور جگہ نقل مکانی کا ارادہ ہے؟
    غالب:
    رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
    ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زبان کوئی نہ ہو

    س: سنا ہے آپ شراب کے بہت دلدادہ ہیں، کیایہ صحیح ہے؟
    غالب:
    مئے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
    ایک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے

    س: آپ کی ایسی کوئی خواہش جو پوری نہ ہوئی ہو؟
    غالب:
    ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
    بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

    س: اتنی تکلیف کے باوجود آپ خوش نظر آتے ہیں کوئی خاص وجہ؟
    غالب:
    رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
    مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آسان ہوگئیں

    س: آپ یہ کون سا شعر گنگنا رہے ہیں؟
    غالب:
    پھر مجھے دیدہ تر یاد آیا
    دل جگر تشنہَ فریاد آیا

    س: آپ جب محبوب کے پاس ہوتے ہیں تو بہت خوش نظر آتے ہیں لیکن اس کے باوجود آپ کہتے ہیں ہائے میں مر گیا ۔کلیجہ منہ کو آتا ہے دل زخمی ہوگیا۔یہ کیا معاملہ ہے؟
    غالب:
    ان کے دیکھے سے جوآجاتی ہے منہ پہ رونق
    وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

    س: اب تو آپ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں لیکن اگر آپ کا محبوب آپ کو بلائے تو۔۔!
    غالب:
    جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
    بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے

    س: آپ کو کسی سے کوئی گلہ؟
    غالب:
    جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
    پھر کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

    س: آج کل آپ کہاں مقیم ہیں؟
    غالب:
    ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
    کچھ ہماری خبر نہیں آتی

    س: معاف کیجیے پھر آپ مرتے کیوں نہیں؟
    غالب:
    ناداں ہو جو کہتے ہو کیوں جیتے ہو غالب
    قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور

    س: میرا آپ سے آخرسوال یہ ہے کہ آپ کو مرنے کے بعد کہاں دفن کیا جائے؟
    غالب:
    اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد از قتل
    میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے؟

    بہت بہت شکریہ مرزا غالب صاحب! آپ سے گفتگو کر کے بہت اچھا لگا اور بہت لطف اٹھایا۔ آپ نے ہر جواب شعر میں دیا، اور ہر جواب بھی لاجواب تھا۔ آخر میں آپ کے لیے ایک شعر عرض ہے

    ہمارے بعد محفل میں افسانے بیاں ہوں گے
    بہاریں ہم کو ڈھونڈیں گی نہ جانے ہم کہاں ہوں گے

  • صنفِ نازک کی نزاکت کا محافظ ہے حجاب – عنایت علی خان

    صنفِ نازک کی نزاکت کا محافظ ہے حجاب – عنایت علی خان

    حریمِ ادب کراچی کی جانب سے حجاب مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا. یہ محفل شہر کے معروف ادبی وثقافتی مرکز آرٹس کونسل کراچی میں منعقد کی گئی. شہر کی ادبی تنظیموں سے تعلق رکھنے والی معروف شاعرات نے اس محفل کو رونق بخشی. میزبانی کے فرائض صدر حریمِ ادب کراچی, ثمرین احمد اور معروف قلمکارہ نیّر کاشف نےنہایت خوش اسلوبی سے ادا کئے. مشاعرے کا آغاز صدرحریمِ ادب پاکستان, عقیلہ اظہرکی صدارت سے ہوا جبکہ مہمانِ خصوصی مدیرہ ماہنامہ بتول, صائمہ اسماء کی نظامت میں اختتام پزیر ہوا. یہ محفل محض روایتی مشاعرہ نہیں تھی بلکہ ایک پیغام کے فروغ کے مقصد کے تحت تھی. اسی کی مناسبت سے مشاعرہ گاہ کو خوبصورت دعوتی بینروں سے مزیّن کیاگیا تھا. اسٹیج کی آرائش بھی حجاب کے پیغام پر مبنی نفیس بینروں کے ساتھ بہت ہی خوب تھی. سامعین کے ذوقِ ادب کی آبیاری کی غرض سے ایک مختصر گوشۂ کتب کابھی اہتمام تھا.

    محفل کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک اور جذبوں کو گرما دینے والی نعتِ رسولِ مقبول ص سے کیا گیا. محفل کا باقاعدہ آغاز سیکریٹری جنرل حریمِ ادب کراچی, غزالہ عزیزکے خطبۂ استقبالیہ سے ہوا. انہوں نے حریمِ ادب کا تعارف ومقاصد بیان کرتے ہوئے بتایا: خواتین کی اس ادبی واصلاحی انجمن کے ذریعے مثالی معاشرے کی صورتگری کی جاتی ہے. بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار وروایات کو اپنی پاکیزہ تہذیب کی سمت گامزن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے نیز نئی قلمکاراؤں کو رہنمائی بھی فراہم کی جاتی ہے. اس کے بعد فرحانہ اورنگزیب نے حجاب کے خوبصورت عنوان سے منعقدہ اس محفلِ مشاعرہ کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا.

    اور پھر سلسلہ شروع ہوا کلامِ شاعر بزبانِ شاعر کا. تمام ہی شاعرات نے عنوان کا بخوبی ادا کیا. ہر آنے والی شاعرہ نے پچھلی شاعرہ کے کلام سے قائم ہونے والی فضا کو مزید اثرانگیز کیا. یوں محفل کی روح دوبالا ہوگئی. ” بے چین روح اور بے چین قلب کو جب انسانی قالب میں ڈھالا جائے تو شاعر کی شخصیت وجود میں آتی ہے.“ محفل کی تمام ہی شاعرات، عنوان کے لحاظ سے اس قول کی تفسیر نظرآئیں.
    قارئین کے ذوقِ طبع کے لیے ذیل میں شاعرات کے منتخب کلام کو پیش کیا جارہا ہے:

    وہ جس سے لوگوں کوشرم وحیا کا درس ملے
    ہمارے ملک اک میں ایسا حجاب لازم ہے
    ہم اپنی بات زمانے سے بے جھجھک کہیں
    وجودِ زن کی بَقا کو حجاب لازم ہے
    (عقیلہ اظہر)

    مجھے یقین ہے کہ حیا میں نمود ہے میری
    اور اس یقین کو ہر آن بڑھاؤں گی میں
    کمند ڈالی ہے شیطان نے ہر طرف تو کیا
    یہ میرا عہد ہے اپنی حیا بچاؤں گی
    (نیّر کاشف)

    سورۂ نور کی روشنی میں چلو
    اوڑھنی یہ چُنریا یہ آنچل تیرا
    تیری حُرمت کا، تہذیب کا پاسباں
    جاہلیّت کی یلغار کو روک دو
    سورۂ نور کی روشنی میں چلو
    (ہاجرہ منصور)

    ہمارا چہرہ مسلسل حجاب مانگتا ہے
    ہر ایک لمحہ یہ ہم سے حساب مانگتا ہے
    وہ ایک طبقہ جو مغرب زدہ ہے لوگو یہاں
    نہ جانے کیوں وہ خدا کا عذاب مانگتا ہے
    حیا کا نُور ہے چہرے پہ کس قدر یہ یکھو
    جو سیدھی راہ پہ چلنے کا باب مانگتا ہے
    (غزل انصاری)

    خالی ہاتھ میں محبت بانٹتی رہ جاؤں گی
    اپنے خالی ہاتھ آخر دیکھتی رہ جاؤں گی
    آج سوچا ہے خود رستے بنانا سیکھ لوں
    اس طرح تو عمر ساری سوچتی رہ جاؤں گی
    (صائمہ اسماء)

    جو پوچھا میں نے اپنے دل سے آخر حیا کیوں کر
    محافظ صنفِ نازک، زیورِنسواں حیا کیوں کر
    بتایا مجھ کو میرے آپ نے شرم و حیا کیا ہے ؟
    میں وہ ہیرا ہوں جس کو رب نے چھپایا ہے
    (ادیبہ فریال انصاری)

    بُھلا کے ترکِ تعلق کی تلخیاں دل سے
    چلو کہ پھر سے کریں اپنے پیار کا آغاز
    (امت الحئی وفا)

    عورت کی شان وعزت ,توقیر ہے حجاب
    کہ اس کی شخصیت کےلیئے تعمیر ہے حجاب
    شرم وحیا کا پرتَو ہے کہ روشنی بھی ہے
    اللّٰہ کی رضا، یہی بندگی بھی ہے

    زیور ہے قیمتی، اسے سمجھو نہ بے وُقعت
    نِسوانیت کی عزت و توقیر ہے حجاب
    مغرب یہ چاہتا ہے ڈھلیں اس کے رنگ میں
    ان سازشوں کو فاش کرتا ہے یہ حجاب
    (پروین رئیس)

    بے حیائی کا یہ بڑھتا ہوا سیلابِ جُنوں
    جسدِمِلّت میں ہےپھونکا ہوا شیطاں کا فسوں
    عزتِ نسواں سرِراہ ہوئی جاتی ہے نیلام
    اس کی عزت کےمحافظ کوکہاں سےڈھونڈوں
    (زکیہ فرحت)

    آخر میں مہمانِ خصوصی صائمہ اسماء نے حقِ نظامت ادا کرتے ہوئے سامعین سے مختصر اختتامی خطاب کیا.ان کے مطابق: یومِ حجاب منانے کا آغاز خواتین کے حقِ حجاب کو منوانے کے لیے کیا گیا تھا. اس دن کو منانے کا مقصد برائی اور بےحیائی کے مقابل, معاشرے میں موجود اچھائی کو فروغ دینا ہے. یہی وجہ ہے کہ مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والی شاعرات کے کلام میں بےحجابی کا دکھ بولتا نظرآیا اور عورت کی عزت و وقار کی علامت کے طور پر حجاب کی عکاسی کی گئی.
    اس طرح یہ محفلِ مشاعرہ اپنی یادوں کے دلگداز نقوش لیے دعا اور پُرتکلف عصرانے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی.

    رُسواکیا اس دورکی جَلوت کی ہَوس نے
    روشن ہے نگاہ آئینۂ دل ہے مُکدّر
    بڑھتا ہے جب ذوقِ نظر اپنی حدوں سے
    ہوجاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
    آغوشِ صدف جس کےنصیبوں میں نہیں ہے
    وہ قطرۂ نِیساں کبھی بنتا نہیں گوہر
    یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تُو
    مجھ کوتوگِلہ تجھ سے ہےیورپ سے نہیں ہے

  • ماتم مجھ پہ جو جائز ہوتا تو – افسانہ مہر

    ماتم مجھ پہ جو جائز ہوتا تو – افسانہ مہر

    ماتم مجھ پہ جو جائز ہوتا تو
    بربریت پہ آج روتی میں
    قتل انسانیت پہ نوحہ اور
    کرب آدمیت پہ روتی میں
    لیکن دین مسلم کی میں گواہی ہوں
    اشک پینا مری عبادت ہے
    صبر سے جینا ہے اُصول مرا
    حق پہ لڑنا میری قیادت ہے
    مجھ کو لازم ہے درد میں جینا
    درد ہونے سے ہی تو اُٹھے گا
    مردہ جذبوں سے آلودہ یہ جسم
    ماتم مجھ پہ جو جائز ہوتا تو
    اپنے فرسودہ ادراک پہ روتی میں
    قتل اخلاق پہ نوحہ اور
    کذب کردار پہ روتی میں

  • رجا، امید کا استعارہ – حنا نرجس

    رجا، امید کا استعارہ – حنا نرجس

    ”اور ہاں رجا، صافی نے بہت تاکید کی تھی کہ تمہیں اس کی کامیابی کی اطلاع ضرور دوں. ماشاءاللہ اچھے نمبروں سے میٹرک پاس کر لیا ہے اس نے. پرسوں آیا تھا مٹھائی کا ڈبہ لے کر.“
    ”الحمد للہ! آپی، یہ تو بہت اچھی خبر سنائی آپ نے. اس کی یہ خواہش پوری ہو گئی. سچ ہے کہ شوق اور لگن ہو تو کوئی رکاوٹ، رکاوٹ نہیں رہتی.“
    ”خير وہ تو کئی بار مایوس ہوا اور انتہائی قدم اٹھانے تک کی سوچتا رہا. یہ تمہاری طرف سے دیا جانے والا مسلسل حوصلہ ہی تھا جس نے اسے زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے کی ہمت دیے رکھی.“
    ”آپی میری طرف سے بہت مبارکباد دیجیے گا اسے. اور رانی کو بھی. وہ بھی بہت خوش ہو گی نا؟“
    ”ہاں تو اور کیا. ساتھ آئی تھی اس کے. اب تو بڑے بازار میں دکان کھول لی ہے صافی نے، چار لڑکے بھی رکھے ہوئے ہیں. رانی اب بیمار رہنے لگی ہے بیچاری. جوڑوں کے درد سے پریشان ہے. کام سے تو خیر بہت پہلے منع کر دیا تھا صافی نے کہ بیٹا کمانے لگا ہے تو ماں تجھے کیا ضرورت ہے اب کام کرنے کی. لیکن نقصان تو ہمارا ہوا نا. پھر کوئی ویسی ذمہ دار اور نفیس الطبع کام والی ملی ہی نہیں.“
    ”ہم بھی تو ہیں نا، آپی. اپنا سارا کام خود کرتے ہیں. دور کے ڈھول واقعی سہانے ہوتے ہیں یہ یہاں آ کر پتہ چلا.“
    ”ابھی تو تمہیں دو ماہ ہوئے ہیں امریکہ گئے، ابھی سے گھبرا گئی؟ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا.“
    …………………………………………………………..
    فون بند کر کے بھی رجا سرشاری کے حصار میں رہی. یوں لگتا تھا جیسے کل کی بات ہو جب وہ پہلی بار صافی سے متعارف ہوئی تھی. وہ اپنی شادی کی تقریبات کے بعد دعوتوں کے سلسلے تک سے فارغ ہو چکی تھی. واثق چھٹی ختم ہونے پر لاہور اپنی ملازمت پر واپس جا چکے تھے جبکہ اسے ابھی کم از کم ایک ماہ یہیں رہنا تھا. دن بوریت کا شکار ہونے لگے تو اس کی جیٹھانی، فارحہ آپی، نے اسے اپنی بوتیک پر آنے کی دعوت دی. ڈریس ڈیزائننگ ان کا جنون تھا اور اپنے اسی شوق کو وہ اپنا کاروبار بنائے ہوئے تھیں. اس مقصد کے لیے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر ایک عمارت کرائے پر لے رکھی تھی جہاں وہ کاریگروں اور شاگردوں سے کام کرواتی تھیں. رجا کو تو وقت ہی گزارنا تھا. سو وہ شام کو وہاں جا پہنچی.
    سلائی مشینوں پر زیادہ تر لڑکیاں جبکہ اڈّوں (لکڑی کے چوکور ڈھانچے جن پر کپڑا تان کر کڑھائی کی جاتی ہے) پر چھوٹے بڑے مختلف عمر کے لڑکے کڑھائی کرنے میں مصروف تھے.
    وہ بچوں کے ساتھ ہلکی پھلکی بات چیت کرتے ہوئے مختلف سرگرمیوں کا جائزہ لے رہی تھی. دائیں طرف کونے والے اڈے پر اکیلے ہی مصروف ایک دبلے پتلے بارہ تیرہ سالہ لڑکے کی نظریں اس نے کئی بار خود پر مرکوز محسوس کیں. جب وہ متوجہ ہوتی تو وہ یوں ظاہر کرتا جیسے اس کے کام سے اہم دنیا میں کچھ ہے ہی نہیں. جب کئی بار ایسا ہوا تو وہ سیدھی اسی کے پاس جا پہنچی.
    ”واہ! کام تو بہت خوبصورت کر رہے ہو. کیا نام ہے تمہارا؟“
    ”صافی“
    وہ غیر ارادی طور پر ہنس پڑی. مگر اس کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی وہ بول اٹھا.
    ”آصف ہے جی. لوگوں نے بگاڑ کے صافی بنا دیا.“
    ”ہممم… نام تو پیارا ہے. کب سے کر رہے ہو یہ کام؟“
    ”ایک سال ہوا ہے جی.“
    ”اس سے پہلے یقیناً سکول جاتے ہو گے پھر پڑھائی چھوڑ کر یہاں کام سیکھنے لگے.“
    ”نہیں جی. ٹیپوں (ٹیپ ریکارڈر اور ریڈیو وغیرہ مرمت کرنا) کا کام سیکھتا تھا پہلے. چھ ماہ ہی سیکھا پھر ابا نے اس کام پر لگا دیا.” ایک سایہ سا لہرایا تھا اس کے چہرے پر.
    ”اچھا اچھا ٹھیک ہے، میں تو اس لیے سکول کا پوچھ رہی تھی کہ یہاں ہر دوسرے لڑکے لڑکی نے مجھے یہی بتایا ہے کہ پہلے ہم سکول جاتے تھے، پڑھائی مشکل تھی اس لیے چھوڑ کر کام سیکھنے لگے.“
    وہ ایک دم جیسے کسی خول میں سمٹ گیا. سر جھکا کر اپنے کام میں پوری طرح منہمک ہو گیا. خاموشی کے کئی لمحے بیچ میں آئے، وہ اٹھنے کو ہی تھی جب اچانک اس نے سر اٹھایا اور بولا،
    ”باجی، میں ان لڑکوں کی طرح نہیں. پانچویں پاس کی ہے میں نے. میں بہت دل لگا کر پڑھتا تھا. پھر بس…..“
    اگلے الفاظ اس کے رندھے ہوئے گلے میں ہی اٹک گئے تھے اور آنکھوں میں نمی سی چمکی تھی. رجا سمجھ چکی تھی.
    ”اچھا، یہ بتاؤ اب شوق ہے تمہیں پڑھنے کا؟“ اس نے چند موتی ہاتھ سے بکھراتے ہوئے پوچھا.
    ”جی بہت زیادہ.“
    ”پڑھا تو کام کے ساتھ بھی جا سکتا ہے، یہ کون سی مشکل بات ہے؟“
    ”ہیں جی؟“
    ”ہاں جی!“ اس نے اسی کے انداز میں بات لوٹائی. ”ابھی میں ادھر ہی ہوں، کہو تو روزانہ تمہیں پڑھا دیا کروں. ایک گھنٹہ نکال لو فی الحال.“
    ”سچی باجی؟ چھٹی کی کتابیں تو ہیں میرے پاس. کل کون سی کتاب لے آؤں جی؟“
    ”جو تمہیں سب سے زیادہ مشکل لگتی ہے.“
    ”انگریزی اور ریاضی مشکل لگتی ہے، باجی. میں کل لے آؤں گا. فارحہ باجی سات بجے چھٹی دیتی ہیں نا تو کام کے بعد میں آٹھ بجے تک آپ سے پڑھ لوں گا.“
    ”ہاں، ٹھیک ہے.“
    …………………………………………………………..
    سدا کی ہمدرد دل رکھنے والی رجا کو تو من پسند مصروفیت مل گئی تھی. صافی کی لکھائی بہت خوبصورت تھی. شرمیلی سی طبیعت رکھنے والا تھا. بات چیت کرتے وقت کبھی رجا سے نگاہیں نہ ملاتا. تعلیم کا سلسلہ پھر سے جڑنے پر بے حد مسرور تھا. یہ مسرت کام کرتے وقت بھی اس کے انگ انگ میں سمائی ہوتی.
    ایک دن کہنے لگا،
    ”باجی، اگر آپ کا کوئی ٹیپ ریکارڈر یا ریڈیو خراب ہو تو دکان پر ہر گز نہ لے کر جائیں. اس کام میں بہت “اولا” ہوتا ہے.“
    ”کیا مطلب؟ میں سمجھی نہیں.“
    ”مطلب یہ کہ گاہک کو تو پتہ نہیں ہوتا، دوکاندار معمولی سے نقص کے بھی بہت سارے پیسے لے لیتے ہیں.“
    ”یعنی تم مجھے اپنے تجربے کی بنیاد پر ایک ٹپ دے رہے ہو.“
    وہ ہنس پڑا. ”ویسے آپ کو ضرورت بھی کیا ہے کہیں جانے کی. مجھ سے ٹھیک کروا لیجیے گا.“
    ”ہاں یہ ٹھیک ہے. چلو اب کتاب نکالو، آج فعل ماضی کے جملوں کا ترجمہ کرنا سیکھتے ہیں.“
    اس معمول کا شاید آٹھواں دن تھا. آج صافی والا کونا ویران پڑا تھا کیونکہ وہ غیر حاضر تھا. فارحہ آپی سے دریافت کیا تو کہنے لگیں،
    ”رجا، میں بھی اسی سلسلے میں تم سے بات کرنے والی تھی. کچھ دیر پہلے رانی آئی تھی بتانے، بلکہ یوں کہو التجا کرنے. صافی کو کل بہت مارا ہے اس کے باپ نے.“
    ”مگر کیوں؟“ وہ تڑپ ہی تو اٹھی.
    ”اگر میں کہوں تمہاری وجہ سے؟“
    ”میری وجہ سے؟“
    ”ہاں رجا، اس کے باپ کو صرف اس پیسے سے غرض ہے جو وہ روزانہ کما کر لے جاتا ہے. وہ اس کے ہاتھوں میں کتابیں برداشت نہیں کر سکتا. اسے اولاد پر خرچ کرنے سے زیادہ، فائدہ اٹھانے کا لالچ ہے. کمانے والے ان پڑھ بیٹے کو وہ زیادہ استعمال کر سکتا ہے نا اس لیے اس کی تعلیم کے از حد خلاف ہے. جو پانچ جماعتیں صافی نے پڑھی ہیں وہ بھی روزانہ جھگڑے کی فضا میں ہی. رانی رو رہی تھی کہ سارا جسم نیلوں نیل ہے صافی کا. خدا کے لیے رجا بی بی کو منع کر دیں.“
    ”مگر میں تو اسے اس کے خوابوں کی تعبیر دینا چاہتی ہوں، آپی.“
    ”تم نہیں جانتی ان لوگوں کے مسائل اور نفسیات کو. بجائے تعبیر دینے کے تم کوشش کرو وہ ان خوابوں سے ہی دستبردار ہو جائے. یوں اس حساس لڑکے کی زندگی آسان ہو جائے گی.“
    رجا کے لیے اس صورتحال کو جوں کا توں تسلیم کر لینا آسان نہیں تھا. بار بار نگاہوں کے سامنے دو ذہین، شرمیلی، جھکی ہوئی، پرعزم مگر نمی سے چمکتی آنکھیں آ جاتیں. ذہن میں ایک ہی بات گونجتی،
    ”باجی میں ان لڑکوں کی طرح نہیں. پانچویں پاس کی ہے میں نے. میں بہت دل لگا کر پڑھتا تھا. پھر بس….“
    اگلے دن وہ ادھر نہیں گئی. حوصلہ ہی نہ تھا جانے کا. تیسرے دن وہ خود کو کسی حد تک سنبھال چکی تھی. صافی کا دکھ بھی تو بانٹنا تھا.
    وہ معمول سے زیادہ خاموش اور حد درجہ سنجیدہ اپنے کام میں مصروف تھا. اس کی آمد سے باخبر ہونے کے باوجود نظر انداز کر رہا تھا. وہ پڑھنے کے لیے مقررہ کردہ وقت سے ایک گھنٹہ پہلے ہی اس کے پاس جا پہنچی.
    ”واہ! کتنا خوبصورت پھول بنا ہے یہ. سیاہ قمیض پر سرخ گلاب انتہائی دیدہ زیب لگ رہا ہے. یہ بھی آر (کڑھائی کرنے کا آلہ) سے ہی بنایا ہے کیا؟ پتہ نہیں کونسا جادو ہے تمہارے ہاتھوں میں. صافی، تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ یہ ہنر مجھے بھی سکھا دو. چلو آج سے تم استاد، میں شاگرد. لے کر آؤں آر؟“
    وہ ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہا تھا. پتہ نہیں کیسے ایک دم ہی خود پر سے قابو کھو بیٹھا.
    ”باجی…..“ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا. اتنا غبار جو دل میں جمع تھا، نکل گیا، سب کہہ ڈالا. وہ خاموشی سے سنتی رہی. انجانے میں ہی سہی، اس کے مندمل ہوئے زخموں کو وہ پھر سے کھرچ بیٹھی تھی. اب مسیحائی بھی اسے ہی کرنا تھی. وہ تسلی دینے کے انداز میں اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر سمجھانے لگی.
    ”دیکھو صافی، تم ابھی صرف اپنے کام پر توجہ دو. یہ ہنر ہر ایک کے پاس نہیں ہوتا. تمہیں اللہ نے خصوصی طور پر نوازا ہے. پھر تم بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہو تو تمہارے ابو کی تم سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں. پڑھائی کے شوق کا کیا ہے، کچھ دیر انتظار بھی کیا جا سکتا ہے. جب چند سال بعد تم ایک معقول رقم کما کر گھر لے جانے لگو گے تو مجھے یقین ہے کہ تمہارے ابو تمہاری کتابیں چولھے میں نہیں ڈالیں گے.“
    بات اس کی سمجھ میں آ گئی اور وہ کافی حد تک سنبھل بھی گیا.
    ”ٹھیک ہے پھر کل سے اسی اڈے پر ایک طرف ایک فالتو کپڑا میرے لیے بھی لگا دینا.“ رجا اس کا شانہ تھپتھپاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی.
    وہ روزانہ اس سے چھوٹی چھوٹی کتنی ہی باتیں کرتی. بد ترین حالات کا بہادری سے مقابلہ کرنے والوں، کامیاب لوگوں کی محنت اور جد و جہد کے بے شمار قصبے سناتی. ساتھ ساتھ موتی ستارے الٹے سیدھے بڑے بڑے ٹانکے لگا کر ٹانکتی رہتی. وہ دیکھ کر مسکرا دیتا. ایک دن کہنے لگا،
    ”باجی، آپ کیا کرو گی سیکھ کر؟“
    ”اپنے کپڑوں پر کڑھائی کیا کروں گی“
    ”اگر آپ پڑھے لکھے لوگ خود ہی کڑھائی کرنے لگو گے تو ہم محنت کشوں سے کون کروائے گا؟“
    ”اوہ اچھا! تم یوں سوچتے ہو. چلو میں نہیں سیکھتی.“ اس نے آر ایک جانب رکھتا ہوئے کہا.
    ”مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میں یہ کام اوروں کو سکھا کر ان کے روزگار کا بندوبست کر سکوں. بس تم سکھاتے رہو مجھے.“ اس نے قطیعت سے کہتے ہوئے آر پھر سے اٹھا لیا.
    دن گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا. وہ اپنے میاں کے ساتھ لاہور سیٹل ہو گئی. فارحہ آپی کے ذریعے پیغام رسانی کا سلسلہ جاری رہا. صافی کی راہ میں بہت سی مشکلات آتی رہیں مگر رجا کے حوصلے و ہمت کے پیغامات آگے بڑھنے کے لیے مہمیز کا کام کرتے رہے. اس دوران دو ایک بار سرسری سی ملاقات ہوئی. وہ چند دن کے لیے سسرال آتی تو وقت کو گویا پر لگ جاتے.
    پہلی ملاقات کے محض تین سال بعد، سولہ سال کی عمر میں ہی صافی نے اپنے محلے میں چھوٹی سی دکان کھول لی تھی. اکیلے ہی کام کرتا. کام میں مہارت تھی، آمدنی معقول ہونے لگی. فارحہ آپی بھی کام اکثر اس کے پاس بھجوا دیتیں. اور خوش کن بات یہ تھی کہ وہ کتابوں سے ناطہ پھر سے جوڑ چکا تھا.
    اور اب جب رجا کو فارحہ آپی سے اس کے میٹرک کر لینے کی اطلاع ملی تھی تو رجا اندازہ کر سکتی تھی کہ زندگی کے سفر میں یہ دن اس کے لیے کتنا اہم تھا. یہ خواب اگرچہ بیس سال کی عمر میں پورا ہوا مگر ساتھ ہی بڑے بازار میں دکان سیٹ ہو جانا ایک اہم سنگ میل تھا.
    پھر یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا رہا. اگلے چار سالوں میں صافی نے گریجویشن کر لی. اب کے اس نے خود فون کر کے اطلاع دی. ایک بے حد پر اعتماد مرد کی مضبوط آواز تھی. لہجہ سلجھا ہوا اور بےحد شائستہ تھا. یقیناً یہ وہ تحفے تھے جو تعلیم نے اسے دیے تھے. پھر وہ ای میل اور سوشل میڈیا کے ذریعے مسلسل رابطے میں رہنے لگا.
    …………………………………………………………..
    رجا تقریباً چھ سال امریکہ میں گزار کر وطن واپس لوٹی تھی. صافی نے بہت اصرار سے کہا تھا کہ باجی اب کے آپ ہمارے شہر آئیں گی تو ہم سے ضرور ملیں گی. وہ اب شادی شدہ اور ایک پیاری سی ایک سالہ بیٹی کا باپ تھا. اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ تحائف سے لدا ہوا ملنے آیا. رجا پردہ کرتی تھی اس لیے کچھ ہچکچاہٹ کا شکار تھی. اب وہ کم عمر لڑکا نہیں، بھر پور مرد تھا. بالآخر اس نے پردہ کر کے ملنے کا فیصلہ کیا. صافی نے بڑی محبت سے رجا کا تعارف اپنی بیوی سے کرایا. پھر اپنی خوبصورت روشن آنکھوں والی بیٹی اسے تھماتے ہوئے بولا،
    ”باجی! یہ ہے میری امید، میرا حوصلہ، میرا اجالا، میری زندگی، میری رجا…“

    آخری الفاظ پر رجا نے ایک دم چونک کر نظریں اٹھائیں. وہ مسکراتے ہوئے بولا،
    ”میں جانتا ہوں باجی، امید کے یہ چراغ آپ نے ایک میری ہی نہیں بلکہ بیسیوں زندگیوں میں جلائے ہوں گے. میں نے بھی یہ سلسلہ صرف خود تک محدود نہیں رکھا. بےشمار ننھے ننھے جلتے بجھتے ٹمٹماتے چراغوں کی لو بچانے کی سعی کی ہے، کر رہا ہوں اور کرتا رہوں گا. جب اللہ نے مجھے بیٹی کی نوید دی، تو اسے دیکھتے ہی پہلا لفظ جو میرے منہ سے نکلا وہ تھا، رجا. اس کو یہ نام دینا میری جانب سے آپ کے لیے ایک ادنی سا خراج تحسین ہے. میرے لیے یہ خیال ہی کتنا حوصلہ افزا رہا ہے کہ کہیں کوئی ہے جو مجھے سمجھتا ہے اور میری کامیابیوں پر دل سے خوش ہوتا ہے.“
    رجا کی بانہوں میں چہکتی رجا ایک دم کھل کر مسکرا دی گویا کہتی ہو،
    ”ہاں، میں سب سمجھتی ہوں… ہاں، میں ہی تو امید کا استعارہ ہوں…!“

  • میری غربت ، میرا افسانہ – مبین امجد

    میری غربت ، میرا افسانہ – مبین امجد

    مبین امجدجب انسان ضمیر سے زیادہ جاگ جائے یا حقیقت سے زیادہ جان جائے تو زمان و مکاں سے نا بلد ہو جاتا ہے۔اس کے اندر جیسے فصلیں اگ آتی ہیں۔ سوالوں کی فصلیں، جن کی بیائی تو آسان ہے مگر کٹائی انتہائی مشکل۔ اور اگر انسان خود کو جوکھوں میں ڈال کر اس کو کاٹ بھی لے تو ہاتھ فقط کانٹے آتے ہیں۔ جو ہر ہر لمحہ انسان کو اندر سے کھا ئے چلے جاتے ہیں ۔ یوں روح کی پیاس آنکھوں سے جھلکنے لگتی ہے۔ اور یہی پیاس میرے باپ کی آنکھوں میں جھلکنے لگی تھی۔ میرا باپ سقہ گیری کرتا تھا مگر اسکے باوجود پیاسا تھا اور سچ پوچھیں تو مجھے آج تک پیاس کی سمجھ نہیں آئی۔جانے کنویں سے پانی لے کر سب کو سیراب کرنے والا خود کیوں پیاسا رہ گیا ہے؟ اصل بات تو یہ ہے کہ میرے باپ کو شعور وآگہی کھا گئے۔ ورنہ اسے کوئی بیماری نا تھی۔ اور یہ بات میں نے اپنے باپ کی قبر پر مٹی ڈالتے جانی کہ اپنوں کی تلخ نوائیوں اور بے وفائیوں نے اسے جیتے جی قبر میں لا پھینکا تھا۔ زندگی نے اسکےساتھ جو جو ہاتھ کیے سو کیے مگر موت نے بھی اسے نا بخشا۔ اسکے جنازے پہ میرے چچاؤں میں سے کوئی نا آیا۔ بھئی وہ مصروف لوگ تھے نہیں آسکے تو ہمیں کوئی گلہ نہیں کرنا چاہیے مگر جانے کیوں دم رخصت میرے باپ کی آنکھیں اپنوں کی کرم فرمائیوں پہ شکوہ کناں تھیں۔؟

    مجھے یاد ہے میرے باپ نے کبھی مجھے ڈانٹا نہیں، خواہ میں کوئی قصور کر لیتا مگر ایک بات ایسی تھی کہ وہ ڈانٹتا بھی اور اکثر ایک آدھ ہاتھ بھی جڑ دیتا۔ اور وہ بات یہ تھی کہ میں کہتا بابا جب رب ہماری بات ہی نہیں سنتا ، ہمارا جواب ہی نہیں دیتا تو کیا فائدہ ہماری دعاؤں کا؟ اس پہ پہلے تو وہ فوراََ اپنے کانوں پہ ہاتھ لگاتا اور پھر مجھے کہتا پتر! جس کا جواب آجائے وہ عبادت ہے اور جس کا جواب نہ آئے وہ پوجا ہے۔! خدا تو ایک طرف اس نے کبھی مجھے چچاؤں کا بھی گلہ نہیں کرنے دیا۔ میں جب انہیں برا بھلا کہتا تو وہ کہتا نا بچے نا ایسے نہیں کہتے ۔ وہ کہا کرتا تھا کہ جن کو رب چن لے، ان پہ تبصرہ نہیں کرتے ان کا بس احترام کیا کرتے ہیں ان کی بس عزت کیا کرتے ہیں ۔ساری عمر مجھے گلے شکوے نا کرنے کی تاکید کرنے والا دم رخصت اپنوں کے رویے پہ شکوہ کناں تھا۔ تو حیرت کی بات ہے نا؟ شاید خدا نے یہ رشتے بھی انسان کو آزمانے کیلیے ہی پیدا کیے ہیں۔

    ارے میں بھی کن باتوں کو لے کر بیٹھ گیا۔ تو میں بتا رہا تھا کہ میرے باپ کو کوئی بیماری نا تھی بس شعور و آگہی اسےکھا گئے۔۔ اور میں اپنے باپ کو دفنا کر آیا تو گھر میں میری ماں ہمسائیوں کے جمگھٹ میں اپنا بوسیدہ آنچل دانتوں میں داب بیٹھی سسک رہی تھی۔ اس کی آنکھیں بھی پیاس کا منظر پیش کر رہی تھیں کہ اس کے آنسو کب کے خشک ہو چکے تھے۔ میں صحن میں داخل ہوا تو میری ماں نے مجھے اپنے آنچل میں چھپا لیااور دھاڑیں مار مار رونے لگی۔ میرے آنسو بھی میرے رخساروں گرم لکیریں بنانے لگے۔
    زندگی کیا سے کیا ہو گئی۔؟ میرے لیے زندگی کیا تھی فقط بیوہ رتوں کا نوحہ۔ اور یہ نئی بات بھی نا تھی بلکہ مجھے یاد ہے میرا بچپن فاقوں میں گذرا۔ میں ہمیشہ وعدوں، ہم دردیوں، تسلیوںاور دلاسوں کے کھلونوں سےہی کھیلا۔ جب سے میں نے شعور کی آنکھ کھولی یہی دیکھا کہ ہمارے گھر کا چولہا ہفتے میں تین دن ٹھنڈا رہتا۔ مگر تب میں اور اب میں فرق یہ تھا کہ تب باپ ایک شجر سایہ دار کی طرح ہم پہ سایہ فگن تھا۔ اور تب یہ جانتے ہوئے بھی کہ تعبیریں ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہیں، میں خواب دیکھا کرتا تھا۔ فرق مگر اب یہ ہے کہ اب میرے خواب میری پلکوں پر دستک نہیں دیتے کہ وہ جان گئے ہیں کہ تعبیر کا آسیب ہمیشہ مہیب سناٹوں کو جنم دیتا ہے۔ اور یوں باپ کے بعد میرے خواب بھی مجھ سے چھن گئے۔!

    اب میں ہوں اور ماں ہے۔ سو زیست تو کرنی ہی ہے۔ اور زیست کے لوازمات میں روٹی سب سے نمایا ں ہے جسے کمانے میری ماں گھر سے نکلی۔ اور لوگوں کے گھروں میں کام کرنے لگی۔ کوئی اگر بھوکا مر جائے تو کسی کے کان پہ جوں نہیں رینگتی اور کوئی اگر بھرے پیٹ مرنا چاہے تو رشتہ دار ہی سانس نہیں لینے دیتے۔ جب سانس اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنے کو ہمیں لوگوں کا جھوٹا ملنے لگا تو ہمارے رشتےدار ہی ہماری جان کے درپے ہو گئے۔ ان کو غیرت یاد آگئی۔ میری ماں کا لوگوں کے گھر کام کرنا ان کو کھٹکنے لگا۔ یوں میری ماں پہ اپنوں نے ہی وہ وہ الزامات لگائے کہ میری پاک دامن اور عفت و شرم کی پیکر ماں کی روح چھلنی ہو گئی۔ وہ بیمار ہو کر گھر بیٹھ گئی۔ اب پھر روٹیوں کے لالے پڑ گئے۔ میں ننھی سی جان روٹی کماؤں یا ماں کا دوا دارو کروں؟

    اور یوں چند ہی ہفتوں میں میری ماں اس جہاں سے پدھار گئی۔ ایک بار پھر وہی کہانی دہرائی گئی۔ فرق مگر یہ تھا کہ پہلے جب باپ کی قبر پہ مٹی ڈال کر گھر آیا تو ماں کاآنچل میسر تھامگر اب جب قبرستان سے لوٹا تو خالی صحن بھاں بھاں کر کے ڈرانے لگا۔۔۔ زندگی نے ایک بار پھر مجھے تپتے صحرا میں لا پھینکا۔ اور پھر جیسے وقت تھم گیا۔ میری روح پہ کانٹے اگ آئے کہ کانٹے صحراؤں کی خاص فصل ہیں۔

    میں نے ایک ہوٹل میں شام کو برتن دھونے کی ملازمت کر لی اور صبح پڑھنے لگا۔ وقت کا کام ہے گزرنا سو وہ دبے پاؤں گزرتا گیا۔ جانے یہ وقت اتنی خاموشی سے کیوں گذر جاتا ہے۔؟ کوئی اس کے پاؤں میں پازیب کیوں نہیں پہنا دیتا؟ آخر وہ دن بھی آگیا جب مجھے یونیورسٹی نے ایم اے کی ڈگری دی۔ وہاں ہال میں ہر کوئی اپنے ماں باپ کے ساتھ آیا ہوا تھا۔ جب میں اکیلا ہی اپنی یادوں کو کندھے پہ اٹھائےگیا۔ شاید۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ جب مہمان خصوصی نے مجھے گولڈ میڈل پہنانا چاہا تو میرے کندھے کچھ زیادہ ہی جھک گئے۔ پتہ نہیں ہال میں بیٹھے کسی نے یہ محسوس کیا یا نئیں۔ مگر مجھے خود اپنی اس حرکت پہ بعد میں بہت ہنسی آئی۔ پھر میں مقابلے کا امتحان پاس کیا اور پولیس سروس جوائن کر لی۔ شہرت اور دولت کا آفتاب میرے آنگن میں ایسا چمکا کہ سارا جیون ہی منور کر گیا۔ مگر میرے رشتےداروں نےیہاں بھی سانس نہ لینے دیا۔ فرق بس یہ پڑا کہ پہلے انہوں نے بے اعتنائیوں سے زندگی اجیرن کیے رکھی جبکہ اب وہ محبتوں سے مجھے اپنا بنانا چاہتے تھے۔ مگر مجھے اس سے بڑی الجھن ہونے لگی۔ میری طبیعت جب ان محبتوں سے آشنا ہی نہیں تھی تو میں کیسے اس کو قبول کر لیتا۔ اس لیے احتراز برتنے لگا۔ میری وہ کزنیں جو سیدھے منہ مجھ سے کبھی بات نہیں کرتیں تھی اب وہی میرے آگے پیچھے پھرنے لگیں۔

    میں بھی آخر انسان تھا۔ میں بھی اکیلا چلتے چلتے تھک کر نڈھال تھا مجھے بھی ایک ساتھ کی ضرورت تھی، ایک ہمجولی کی جو میری دلجوئی کرتی۔ مگر میں ایسی بیوی چاہتا تھاجو مجھ سے صرف مجھ سے پیار کرے نا کہ ان مطلبی رشتےداروں کی طرح میرے سٹیٹس اور دولت کو چاہے۔

    آج میں اکتیسویں سالگرہ پر گھر میں تنہااپنے باپ کو یاد کر رہا تھا کہ مجھے میرے ہوٹل والے کی بیٹی کا فون آیا کہ ابو جی ہسپتال ہیں اور آپ کو یاد کرتے ہیں۔ میں بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچا تو دیکھا کہ میرا محسن کس بےکسی سے اپنے دن پورے کر رہا ہے۔ یہ دیکھ کر میری آنکھیں بھر آئیں۔ وہ کہنے لگا اس لمبی بیماری نے اسے بہت فائدہ دیا ہے۔ میں سب کو پہچان گیا ہوں اور خود کو بھی۔ آج نفسانفسی کا دور ہے، پتہ نہیں ان مصروف لوگوں کو مجھے دفنانے کی فرصت بھی ملے گی کہ نہیں؟ بیٹا میں چاہتا ہوں آپ میرے بیٹے بن جاؤ۔ اگر چہ میں اس کی بات سمجھ گیا تھا مگر میری آنکھوں میں چھپی حیرت کو دیکھ کر کہنے لگا، پلیز آپ اسے ایک بار دیکھ لو، یہ کہتے ہی اس نے بیل بجائی اور، اور وہ کمرے میں آئی تو میری حیرت گم ہو گئی کہ یہ تو وہی ہے جسے میں یونیورسٹی میں پسند کرتا تھا مگر کبھی اس کے رعب حسن نے مجھے اپنا مدعا کہنے نہ دیا، اور آج وہ ایک پکے ہوئے پھل کی طرح میری جھولی میں آگری تھی۔

    وہ دبستان حسن کے مشرقی باب کا شاید آخری مستند حوالہ تھی۔ مجھے وہ الفاظ کسی لغت میں نہیں ملے جو اس کی خاموشی ادا کرتی تھی، اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں جیسے خانہ بدوش امیدوں نے پڑاؤ ڈال رکھا تھا۔ مگر اس کی جواب آنکھوں میں ہزاروں سوال بھی خیمہ زن تھے۔ اس کی خواب آنکھوں اور چہرے میں اک خوبصورت سا تضاد تھا۔ یہ عشق کے سودے بھی عجیب ہوتے ہیں سودوزیاں سے مبرا۔ ہم جب بھی آمنے سامنے آئے ایک پاگل سی چپ ہمارے درمیان در آئی۔ شاید اسے ہی پوجنا کہتے ہیں۔ اور پھر آج۔ آج میرا حسین خواب تعبیر کے نقش ونگار سے سجا سنورا میرے سامنے تھا۔ اور اگر آج میں چپ رہ جاتا تو شاید ایک سناٹا ، ایک خاموشی میرے اندر در آتی اور میں سدا خاموش ہو جاتا۔ اس لیے۔ اسی لیے میں نے اپنے محسن کو فوراََ سے بیشتر ہاں کر دی۔ میرے ہاں کرنے کی دیر تھی کہ اس نے اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑ میرے ہاتھوں میں تھما دیا۔ جسے میں نے کس کر پکڑ لیا کبھی نہ چھوڑنے کے لیے۔
    آہ! مگر اس کا باپ زیادہ دیر نہ جی سکا۔

  • ’’رَوَاٹِیٹِ مُچَپَّڑ‘‘ – احمد حاطب صدیقی

    ’’رَوَاٹِیٹِ مُچَپَّڑ‘‘ – احمد حاطب صدیقی

    %d8%a7%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%ad%d8%a7%d8%b7%d8%a8-%d8%b5%d8%af%db%8c%d9%82%db%8c مقامِ ستائش ہے کہ ذ ہنی مرعوبیت اور لسانی غلامی کے اِس دور میں بھی ہماری پولیس نے اپنے روزنامچوں اور ’’ضمنیوں‘‘ میں وہ زبان زندہ رکھی ہے جو’’ استعمار کی غلامی‘‘ کے دور میں ہماری متعدد ریاستوں اور حکومتوں کے ذ ہنی طور پر آزاد حکمرانوں نے اپنی سرکاری زبان بنارکھی تھی، جو اَب پاکستان کے تمام صوبوں اورتمام پاکستانی زبانیں بولنے والوں کے مابین رابطے کی زبان ہے اور جسے آزادی کے وقت سے آج تک ہم اپنی قومی زبان کی حیثیت سے (انگریزی کی جگہ) اپنی سرکاری زبان بنانے کے خواہاں ہیں۔

    امتدادِ زمانہ سے اور موجودہ زمانے کی پولیس کے ہتھے چڑھ جانے سے اب اس زبان کا بھی وہی حشر ہوگیا ہے جوکسی کا پولیس کے ہاتھوں ہوجاتا ہے۔ (بالخصوص کوئی بھی پاکستانی زبان بولنے والوںکا )۔ حضرتِ داغؔ کا دعویٰ تھا کہ:
    سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
    (اورآپ نے سُناہی ہوگا کہ: ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘)۔ مگر یہ زبان اب ایسی ’’بے زبان‘‘ ہوئی ہے کہ (چینلوں کے اینکروں سمیت) اس کے ساتھ جو جیسا چاہے سلوک کرلے، اب یہ اُف تک نہیں کرتی۔ بے داغ زبان تو اب سننے ہی کونہیں ملتی۔ وجہ وہی ہے کہ اب چینلوں نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ:
    ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘۔

    برسوں پہلے (غالباً 1996ء ) کی بات ہے۔ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کے رُوبرو ممتاز وکیل جناب اعجاز حسین بٹالوی ایک پولیس آفیسر کی شہادت کی خواندگی فرمارہے تھے کہ اسی اثناء میں اُنھیں پولیس کی ’’خواندگی‘‘ کی بھی ایک شہادت مل گئی۔ ہوا یوں کہ پڑھتے پڑھتے جب اُنھوں نے مُہر کی جمع (مُہریں) پڑھنے کی بجائے ’’مواہیر‘‘ پڑھی تو جناب جسٹس مشتاق احمد خان نے فاضل وکیل کو ٹوکتے ہوئے استفسار کیا:

    ’’کیا یہ لفظ قواعد(گرامر) کی رُو سے درست ہے؟‘‘

    تو بیرسٹر اعجاز حسین بٹالوی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:
    ’’میں نے تو پولیس کی ضمنیوں میں اس سے بھی زیادہ دلچسپ زبان پڑھی ہے‘‘۔

    پھر اُنھوں نے ایک دلچسپ حوالہ بھی دیا۔اُنھوں نے عدالت کو بتایاکہ:
    ’’ایک ضمنی میں لکھا تھا کہ… تلاشی لینے پر ملزم کی ڈبِّ کلاں سے ’’رَوَاٹِیٹِ مُچپَّڑ‘‘ برآمد ہوئیں‘‘۔

    خواتین و حضرات! ڈر نہ جائیے گا کہ دہشت گردی و تخریب کاری کے اِس جدید ترین دور میں پولیس نے ملزم کی کس حساس ترین شے سے کیا خطرناک ترین چیز برآمد کرلی؟

    ڈر تو ہم بھی گئے تھے۔ اور ڈرتے ڈرتے سوچا کہ یہ جملہ تو اُردوہی کا معلوم ہوتا ہے، مگر پولیس کے آگے بڑے بڑوں کی اُردو خراب ہوجاتی ہے۔ ہم کیا شے ہیں؟ تاہم(پولیس کے خوف سے) اپنے سوکھے ہوئے حلق کو پانی سے تر کرکے ان مشکل الفاظ کو پانی کرنے کی کوشش کی اور کامیاب رہے۔ آئیے ہم آپ کو اپنی اِس کامیابی کااقبالی بیان ریکارڈ کرواتے ہیں۔

    آپ کو تو خیر معلوم ہے، مگربذریعۂ مضمونِ ہٰذا ’’بابالوگ‘‘ کو معلوم ہوکہ ہمارے گاؤں دیہات کے وضع دار لوگ تہبند (یادھوتی) باندھنے کے بعد مقامِ بندش ذرا نیچے کا کچھ کپڑا بندھن تلے سے گزارکر اُوپر کو نکال لیتے ہیں۔اوراِس جھول، جھولے یا جھولی میں اپنی کوئی قیمتی چیز محفوظ کرلیتے ہیں۔ یہ مکمل طورپر بند اور محفوظ جیب ’’ڈب‘‘ کہلاتی ہے۔ ’’ڈب‘‘ چھوٹی بھی ہوتی ہے اور بڑی بھی۔ چھوٹی کو فارسی میں ’’خرد‘‘ کہتے ہیں اور بڑی کو ’’کلاں‘‘۔اب ’’بابالوگوں‘‘ کو یقینا ’’ڈبِّ کلاں‘‘ کا مطلب تو معلوم ہوہی گیا ہوگا۔

    جیسا کہ اوپر بیرسٹر اعجاز حسین بٹالوی کے مقدمے میںذکر آیاکہ پولیس نے مُہر کی جمع ایک عربی قاعدے کو مد نظر رکھ کر ’’مواہیر‘‘ بنالی۔ اُسی قاعدے کی رُو سے جس کے تحت مضمون کی جمع مضامین، مکتوب کی جمع مکاتیب اور مشہور کی جمع مشاہیر بنائی جاتی ہے۔ پس مذکورہ پولیس آفیسر کو بھی جب کسی بھی زبان کی لغت میں ’’روٹی‘‘ کی جمع نہیں دکھائی دی (کیوں کہ سوائے پیشہ ور گداگروں کے، کسی کو بھی روٹی جمع کرتے نہیں دیکھا گیا، تاہم روٹی کی جمع اُنھیں بھی معلوم نہیں ہوگی) تو اُس نے از خود مجتہد عصر یا ’’مجتہد نثر‘‘ بن کر روٹی کی جمع ’’رواٹیٹ‘‘ بناڈالی۔ اسی قسم کے قواعد کی رُو سے بچے کی جمع ’’بواچیچ‘‘ ہوسکتی ہے، مرد کی جمع ’’مردود‘‘ اور کھٹمل کی جمع’’ کھٹاملہ‘‘۔

    اب رہ گیا لفظ ’’مچپّڑ‘‘ تو اے صاحبو! اگر عطر لگا ہوا لباس ’’معطّر‘‘ ہوسکتا ہے، ہم جیسے ’’عینکو‘‘ لوگوں کو’’ معنک‘‘ کہا جاسکتا ہے اور چربی سے بھرے ہوئے گوشت (یاشخص) کو ’’مچرب‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے، تو آخرچپڑی ہوئی روٹیوں کو ’’مچپّڑ‘‘کیوں نہیں کہا جاسکتا؟ اب ذرا (علی الترتیب) اُردو، پنجابی، فارسی اور عربی قواعد و انشاکے حسین امتزاج سے تخلیق کیے ہوئے اِس فقرے کودوبارہ پڑھ کر دیکھیے کہ بقول احسان دانش…’’کیسے مشکل مسئلے کو ہم نے پانی کردیا‘‘… کہ:

    ’’تلاشی لینے پر ملزم کی ڈبِّ کلاں سے ’’رَوَاٹیٹِ مچپَّڑ‘‘ برآمد ہوئیں‘‘۔

    کون جانے کہ تلاشی لینے پر ملزم کی ’’ڈبِّ کلاں‘‘ سے جو ’’رَوَاٹیٹِ مچپَّڑ‘‘ برآمد ہوئی تھیں، اُس غریب پر اُنھی کو چُرانے کاالزام تھایا الزام تو اُس پر کچھ اور تھا مگر پولیس نے اپنی مستعدی اور ’’چُستعدی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس کی ڈبِّ خورد وکلاں کی بھی تلاشی لے ڈالی۔ خیر گزری کہ ملزم سے اور کچھ نہیں تو ’’رَوَاٹیٹِ مچپَّڑ‘‘ ہی برآمد ہوگئیں۔ ورنہ پولیس کی بابت تو مشہور یہ ہے کہ:
    ’’اگر پولیس آپ کی جیب سے کچھ’’ نکال‘‘ نہ سکے تو کچھ’’ ڈال‘‘ دیتی ہے‘‘۔

    پس مقامِ شکر ہے کہ پولیس (اور اُس کی ضمنیوں کے کاغذات) کا پیٹ ’’رَوَاٹیٹِ مچپَّڑ‘‘ ہی سے بھر گیا۔ ورنہ وہ جو ایک محاورہ مشہور ہے کہ: ’’چپڑی اور دودو؟‘‘ تو صیغۂ جمع استعمال کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پولیس کو بھی ’’چپڑی اور دود‘‘ ہی مل گئی تھیں، ورنہ کچھ بعید نہ تھا کہ وہ ملزم کی ایک ایک ڈب سے ہیروئن، چرس، افیون اور گانجا برآمد کرلیتی۔ جس کے بعد ملزم حیرت سے ’’دھُت‘‘ ہوجاتا۔

    صاحبو!‘… اُردو زبان کے بہت سے الفاظ کو پولیس ہی نے اپنے لتر، چھتریا ڈنڈے وغیرہ کے زور سے زندہ رکھا ہے۔ ورنہ آپ کو اُردو اخبارات میں…’ ’حوالات‘‘… ’’تفتیش‘‘… ’’ضمانت‘‘… ’’روزنامچہ‘‘… ’’ضمنی‘‘… ’’نتھی الف‘‘… ’’فردِ مقبوضگی‘‘… ’’سپرداری‘‘… ’’موقعِ واردات‘‘… ’’اقبالی بیان… ’’بیانِ نزعی‘‘… ’’اعانت مجرمانہ‘‘… ’’مداخلتِ بے جا بہ اُموروکارِ سرکار‘‘…’ ’حبس بے جا‘‘… ’’اغوا برائے تاوان‘‘… ’’مجرمانہ حملہ‘‘… ’’اقدامِ قتل‘‘… ’’قتل عمد‘‘… ’’اخفائے جرم‘‘… اور… ’’اشتہارِ شور غوغا‘‘… وغیرہ وغیرہ جیسے الفاظ کی جگہ بھی انگریزی ہی کے الفاظ گِٹ پِٹ، گِٹ پِٹ چھپے ہوئے دکھائی دیتے۔

    ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہمارا کوئی محققِ زبان وبیان پولیس کے ان شہکار فقروں اور اِن ادق اصطلاحوں کو پولیس (کی مِسلوں، روزنامچوں اور ضمنیوں) کی قید سے باہر نکال کر لائے۔ ان کا ایک مجموعہ چھپوائے اورقومی زبان کے سرکاری زبان بننے کی راہ میں حائل نوکرشاہی المعروف بہ ’’بیوروکریسی‘‘ والمشہور بہ ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کو جاکر دکھائے کہ:
    دیکھو! اِس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا

    اور اُن کو یہ بھی سمجھائے کہ:
    اے عزیزو! باز آجاؤ،ورنہ بھلا… ’’رَوَاٹیٹ‘‘کب تک ’’ مُچپَّڑ‘‘ رہیں گی؟
    (کراچی جمخانہ کلب کے پروگرام ’’ایک مُسکراتی شام‘‘ میں پڑھی جانے والی تحریر)

  • اللہ کی رحمت کا اک اظہار ہے عورت – عطا رحمانی رام پوری

    اللہ کی رحمت کا اک اظہار ہے عورت – عطا رحمانی رام پوری

    اللہ کی رحمت کا اک اظہار ہے عورت
    اک نسل کی اک عہد کی معمار ہے عورت

    جب اپنے بھی منہ پھیر کے ہو جائیں پرائے
    اس وقتِ مصیبت میں بھی غم خوار ہے عورت

    یہ مریم و حورانِ بہشتی سے نہیں کم
    تقوے کی ردا میں ہو تو سردار ہے عورت

    اسلام میں ہر فرد برابر تو ہے لیکن
    بازار اگر مرد ہے، گھر بار ہے عورت

    آزادئ نسواں کو بہانہ نہ بناؤ
    احمق بھی نہیں اتنی، سمجھ دار ہے عورت

    تم ہی نہ سمجھ پائے اس عورت کی حقیقت
    دشمن کی نگاہوں میں تو تلوار ہے عورت

    ہر روپ میں عورت کے عطاؔ تم کو ملے گا
    بس پیار ہے، بس پیار ہے بس پیار ہے عورت

  • سرقہ – نورین تبسم

    سرقہ – نورین تبسم

    چہرہ انسان کے جسم کا آئینہ ہوتا ہے اور لفظ اُس کی سوچ کی پرتیں کھولتے ہیں۔ جسمانی طور پر قریب آنے والے ہمارا چہرہ پڑھ کر ہماری شخصیت کا تانا بانا بنتے ہیں۔ ہمارا لہجہ، ہماری آواز دیکھتے ہیں، ہماری طلب جانچتے ہیں، کبھی گزر جاتے ہیں، کبھی ٹھہر جاتے ہیں۔ جبکہ سوچ سفر کے ساتھی ہمارے لفظوں سے ہمارا چہرہ تراشتے ہیں۔ اُس میں اپنے فہم یا اپنے دل کی آواز کے مطابق رنگ بھرتے ہیں۔

    ایک چہرہ انسان کے دل کا بھی ہوتا ہے جس تک رسائی ہر ایک کے بس کی بات نہیں، اور نہ ہی ہر ایک کو اسے چھونے کا اختیار ملتا ہے۔ مادی وجود کا چہرہ ہو یا لفظ سے شخصیت کی پہچان، ہر دو چہروں کا اصل میک اپ کی دبیز تہوں میں بڑی کامیابی سے چھپایا جا سکتا ہے۔ ایک نیا چہرہ اتنی کامیابی سے نظروں کو چکاچوند کرتا ہے کہ اصل نقل کا فرق پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔

    اپنی روزمرہ زندگی میں ہم اس جادوئی میک اپ کے کرشمے دیکھتے رہتے ہیں، بس ”پیسہ پھینک تماشہ دیکھ“ والی بات ہے۔ جیسے ایک نئی زندگی کا آغازکرنے کے لیے سب سے پہلی خواہش، پہلی طلب اپنےاصل چہرے کو چھپا کر عارضی چمک دمک سے آراستہ کرنے کی ہوتی ہے۔ وہ چہرہ جس کی زندگی محض رنگوں، روشنیوں اور جانےانجانے لوگوں کی اچھی یا بری نظر کے چند گھنٹوں پرمحیط ہوتی ہے۔ دھلائی کے بعد جب اصل چہرہ سامنے آئے اور وہ بالکل الٹ ہو تو پھر صرف سمجھوتے کا غازہ ہی کام کرتا ہے۔ یہ انسانی فطرت بھی ہے کہ ہم ہمیشہ اپنی اصل شخصیت کی کمتری کے احساس میں مبتلا رہتے ہیں اور اس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ”لوگ صرف ہمارا چہرہ ہی تو دیکھتے ہیں“۔
    لفظ لکھنے کے لیے، لفظ بولنے کے لیے بھی بناؤ سنگھار کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں۔ کہیں روٹی روزی کا سوال ہے، کہیں دنیاوی امتحانات میں کامیابی معیار ہے، تو کہیں اپنے جذبہ خودنمائی کی تسکین مقصود ہے۔

    لفظ کہانی چہرہ کہانی کی طرح ہوتے ہوئے بھی اس سے یوں مختلف ہے کہ لفظوں کی ملمع سازی ہرکس و ناکس کی گرفت میں نہیں آتی۔ بعض اوقات نسلیں گزرجاتی ہیں، صدیاں بیت جاتی ہیں، اس جادو کا توڑ کبھی نہیں ملتا۔ کھرے اور سچے لفظ اپنا مقام رکھتے ہیں۔ حال میں جگہ نہ بھی بنا پائیں، آنے والے وقتوں میں تاریخ کا حصہ بن کر اوراق میں زندہ رہتے ہیں۔ شاید کسی کی یاد میں جگنو کی چمک بن کر یا پھر کسی بوسیدہ ڈائری میں سوکھے ہوئے پھولوں کےنشان کی صورت۔ اور اگر کچھ نہ بھی ہو تو لکھنے والے کو دلی سکون دیتے ہیں۔ اپنے وجود کی شناخت کا ہنر عطا کرتے ہیں۔

    آج کل ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ لفظوں کی چوری پکڑنے کے جدید ترین طریقے دستیاب ہیں، جو چند لمحوں میں ہی سب کچا چٹھہ سامنے لے آتے ہیں۔ لیکن اس چوری کو ابھی صرف نصاب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ طالب علم کی ذہنی استعداد کا اندازہ لگانے کے لیے کہ کسی مضمون کو لکھتے وقت کہاں تک اُس کا تخلیقی جوہر سامنے آیا ہے۔ یہ حیرت انگیز سافٹ وئیر بہت کمال کی چیز ہے۔ اساتذہ اس کی مدد سے لمحوں میں لفظ کی چوری پکڑتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے ”ذہین“ طالب علم اس کا بھی توڑ نکال ہی لیتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ”پلیجریزم“ بہت بڑا جرم ہے اور اگر اس کا ذرا سا بھی شائبہ ہو جائے تو لکھنے والے کا پورا کیریر داؤ پر لگ جاتا ہے۔

    ادب کے حوالے سے اور خصوصاً اردو ادب میں شاید ہی کسی نے اس سافٹ وئیر کو استعمال کیا ہوگا۔ صرف پڑھنے والے کا احساس ہے جو کسی کی تحریر پڑھتے وقت ہوتا ہے۔ ہم میں سے اکثر اس تجربے سےگزرتے ہیں جب کسی کے لکھے لفظ یوں لگیں کہ پہلی بار سے پہلے بھی کہیں اور پڑھے ہوں۔ یہ بات، یہ خیال حق ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی انجان کا چہرہ بہت شناسا بہت اپنا اپنا سا لگے اور ذہن پر زور ڈالنے کے بعد بھی یاد نہ آئے کہ اس سے پہلے کب اور کہاں ملے تھے۔

    اصل چہرے کا بناؤ سنگھار کسی حد تک جائز ہے کہ یہ انسان کی چاہنے اور چاہے جانے کی فطری خواہش اور طلب بھی ہے، مگر کسی اور کے لفظ سے اپنا قد اونچا کرنے کی کوشش کرنا بہت بڑا جرم ہے جو علمی بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔ وہ جرم جو ایک فن ہے اور پکڑنے والے جب تک ثبوت نہ ہو شک اور یقین کے درمیان معلق رہتے ہیں۔ حقیقت صرف لکھنے والا ہی جانتا ہے اور پڑھنے والا اپنے گمان کو حقیقت سمجھتا ہے۔

    آخری بات
    مطالعہ بےشک علم حاصل کرنے کا راستہ ہے لیکن لکھنا ایک الگ صلاحیت ہے جو آمد کی مرہونِ منت ہے، آورد کی نہیں۔ پلیجریزم یعنی سرقہ پڑھنے والے کی اصطلاح ہے لیکن اُس اصطلاح کو کیا نام دیا جائے جب لکھنے والے کواپنا احساس، خیال یا اسی طرح کا نفس ِمضمون خود لکھنے کے بعد بہت جلد کہیں اور لکھا مل جائے۔ روزمرہ کے اخباری کالم میں، کسی پرانے اخبار میں، کسی الماری میں رکھی پرانی کتاب میں اور یا پھر میڈیا کی رنگین دُنیا میں کہیں بھی سماعتوں کو چھو جائے، اور حد تو یہ ہے کہ کسی کو فی البدیہہ سنتے وقت اپنا خیال، اپنے لفظ اس کی زبان سے ادا ہو جائیں۔ اس لمحے دل تشکر کے بس ایک ہی احساس کا ورد کرتا ہے۔ وہ ہے ”مہر“، ”سند“ جسے دُنیا کا کوئی بھی انسان دینے کی اہلیت نہیں رکھتا، اور یہی احساس شوقِ سفر کو مہمیز کرتا ہے، اپنے اندر کی دُنیا کی وسعتیں کھوجنے پر اُکساتا ہے اور اپنی ذات پراعتماد بھی قائم رکھتا ہے۔