Category: دلیل

  • قومی مذہبی رجحانات اور ترقی میں تعلق – ارمغان احمد

    قومی مذہبی رجحانات اور ترقی میں تعلق – ارمغان احمد

    گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں ایک خاص معزز گروہ کی طرف سے بار بار یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان کے مسائل کی وجوہات مذہبی ہیں- – زیادہ مخصوص ہو کر بات کی جائے توان کے انتہائی لمبے مکالمے اور کہانی کا نچوڑ ان باتوں کو الزام دینے پر ختم ہوتا ہے-
    1- قادیانوں کو غیر مسلم قرار دینے والی آئینی ترمیم
    2 – قرارداد مقاصد
    3 – اسلامی جمہوریہ پاکستان کا “اسلامی”
    4 – اسلامی نظریاتی کونسل

    ان محترم دوستوں کے قیمتی خیال میں اگر پاکستان میں “سیکولرازم” نافذ ہو جائے تو پاکستان کے زیادہ تر مسائل حل ہو جائیں گے، اور ان کے خیال میں پاکستان کے جو مسائل ہیں وہ پہلے ہی اوپر بتائے جا چکے- راقم کو رائے سازی کے سلسلے میں تجربات کا کافی شوق ہے- ایک بار ہمیں ایک بہت ہی پرجوش سیکولر سے گفتگو کا اعزاز حاصل ہوا- ان کی خدمت میں کچھ مثالیں پیش کیں، جو یوں ہیں-
    1 – مغرب کے کچھ ممالک (جو سیکولر ہیں) میں چرچ دن میں چوبیس بار گھنٹے بجا سکتے ہیں مگر اتنی ہی آواز سے مسلمان دن میں پانچ باراذان نہیں دے سکتے
    2 – مغرب کے کچھ سیکولر ممالک میں چرچ اپنی خاص طرز تعمیر کے تحت تعمیر ہو سکتے ہیں مگر مساجد کے میناروں کی اجازت نہیں
    3 – اسی مغرب کے کچھ سیکولر ممالک میں آپ کتنا لباس اتارنا چاہتے ہیں یہ تو آپ کی ذاتی آزادی ہے مگر کتنا پہننا چاہتے ہیں، اس میں ریاست دخل اندازی کا حق رکھتی ہے- مثلا نقاب کو تو چھوڑیں سکارف تک لینے پر پابندی اور جرمانہ عائد کیا جاتا ہے
    4 – اسی مغرب کے کچھ سیکولر ممالک جو آزادی اظہار رائے کے سب سے بڑے چیمپئن بھی واقع ہوئے ہیں، وہاں آئینی طور پر “ہولو کاسٹ” پر شک کا اظہار کرنا، اس کا انکار کرنا، اس پر تحقیق کرنا اس نیت کے ساتھ کہ اصل قتل ہونے والی تعداد معلوم کی جائے، ایک ایسے جرم کی حیثیت رکھتا ہے، جس پر آپ کو جیل تک ہو سکتی ہے
    5 – چلیں اب مغرب کو چھوڑ دیں، اپنے ہمسائے میں چلیں- بھارت آئینی طور پر ایک سیکولر ملک ہے اور وہاں مذہبی وجوہات کی بنا پر بہت سی ریاستوں میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی ہے

    یہ تمام مثالیں ان کی خدمت میں پیش کر کے عرض کیا کہ چلیں ہم بھی مکالمے کی غرض سے فرض کر لیتے ہیں جیسے اوپر بیان کیے گئے “سیکولر” ممالک میں ان کے خصوصی زمینی حقائق کے تحت آئین کی کچھ شقیں ایسی ہیں جو “غیر سیکولر” ہیں، بالکل اسی طرح پاکستان بھی “سیکولر” ہو گیا مگر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی شق ایسے ہی رہے گی- تو کیا آپ مطمئن ہو جائیں گے؟ اس پر میرے محترم دوست کچھ یوں تڑپے جیسے ان کو آگ میں دھکیل دیا گیا ہو، فورا بولے: “یہ کیسا سیکولرازم ہوا جی؟ یہ تو کوئی سیکولر ازم” نا ہوا- مزید مزے کی بات یہ کہ پھر میں نے ان کی خدمت میں اگلی صورتحال پیش کی- “فرض کر لیجیے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی شق ختم ہو جاتی ہے مگر باقی سب کچھ ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے”- اس پر ان کے الفاظ جیسے تھے ویسے ہی نقل کر رہا ہوں: “ہاں اس پر سوچا جا سکتا ہے- دیکھیں اسلامی نظریاتی کونسل کا کردار محض ایڈوائزری ہے، اسی طرح قرارداد مقصد محض آئین کا دیباچہ ہے اور خیر ہے پاکستان کے نام میں اسلامی بھی ٹھیک ہی ہے”- اب اس مکالمے کا منطقی نتیجہ کیا نکلتا ہے، وہ فیصلہ اپنے قارئین پر چھوڑ دیا-

    اس کے بعد ہماری گفتگو کا رخ سیکولرازم کے نتائج و عواقب اور فوائد کی طرف پھر گیا- انتہائی پرجوش انداز میں وہ گویا ہوئے کہ جن ممالک میں بھی مذہب کو اہمیت دی جاتی ہے، وہ پسماندہ رہ گئے جبکہ جن ممالک میں بھی مذہب کو پس پشت ڈال دیا گیا وہ ترقی کر گئے- اس سلسلے میں انہوں نے ایک ڈیٹا پیش فرمایا- اس ڈیٹا کی تصویر نیچے دی جا رہی ہے- اس ڈیٹا کو پیش کر کے انھوں نے فرمایا کہ اس سے ان کا دعوی درست ثابت ہوتا ہے-
    chartoftheday_4189_which_nationalities_consider_religion_most_important_n
    خیر فدوی نے اس ڈیٹا پر غور کرنے کی جسارت کی تو مندرجہ ذیل حقائق سامنے آئے۔
    1 – مسلمان ممالک جیسے کہ انڈونیشیا اور ملائشیا مذھب کو کافی اہم سمجھتے ہیں مگرپھر بھی ان کی ترقی کی رفتار تسلی بخش ہے
    2 – ترکی جو ایک مسلمان ملک ہے اور امریکا جو ایک غیر مسلم ملک ہے دونوں میں نصف سے زیادہ آبادی مذہب کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے اور ترکی اسلامی ممالک میں شاید ترقی یافتہ ترین اور امریکا تو خیر پوری دنیا کی سپر پاور ہے
    3 – بھارت، پاکستان اور چین ایشیا میں ہی واقع ہیں مگر ان ممالک میں مذہب کو اہم ترین معاملہ سمجھنے والوں کے سلسلے میں متضاد قسم کے رجحانات ہیں- مثلا بھارت میں 80 فیصد لوگ مذہب کو زندگی کا اہم ترین معاملہ سمجھتے ہیں، پاکستان میں 92 فیصد جب کہ چین میں محض 3 فیصد- چین ترقی یافتہ ترین ہے، بھارت بھی ایک بہت اہم علاقائی طاقت ہے اور پاکستان کے حالت نسبتا برے ہیں مگر اتنے بھی نہیں جتنے وینزویلا کے تیل کے بےتحاشا ذخائر اور مذہب میں محض 42 فیصد دلچسپی رکھنے والی آبادی کے باوجود ہیں
    4 – ویتنام کا مذہبی رجحان ترکی، انڈونیشیا، ملائشیا اور پاکستان چاروں سے کم ہے مگر اس کے حالات بھی کوئی اتنے قابل رشک نہیں ہیں

    شماریات کے تمام اصولوں کے مطابق اس ڈیٹا سے ہرگز ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جتنی کوئی قوم غیرمذہبی ہو گی، اتنی ہی وہ ترقی یافتہ ہوگی- خیر تھوڑی مزید ریسرچ کی تو معلوم ہوا کہ وہ تمام ممالک جو ترقی یافتہ ہیں یا ترقی کر رہے ہیں ان میں مشترکہ خصوصیت مذہب بیزاری نہیں بلکہ کچھ اور ہے- اب وہ مشترکہ خصوصیت کیا ہے؟ وہ ہے جناب: “غیر سیاسی پولیس، طاقتور بلدیاتی نظام، تعلیم، صحت اور بہترین نظام عدل”

    یہ تمام معلومات جان کر مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک قول بری طرح یاد آیا:
    “کفر کی بنیاد پر کوئی معاشرہ قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم کی بنیاد پر نہیں”

    اس تمام مضمون کا حاصل کلام یہ ہے کہ پاکستان کا مسئلہ اس وقت یہ نہیں ہے کہ اس کو مزید اسلامی کیا جائے یا سیکولر کیا جائے بلکہ یہ ہے کہ یہاں ایماندار غیر سیاسی پولیس ہو، یہاں بہترین نظام عدل ہو، یہاں طاقتور بلدیاتی نظام ہو، یہاں تعلیم اور صحت کی سہولیات ہوں- جب عوام کے پیٹ میں روٹی اور ذہن میں شعور جائے گا تو باقی کے فیصلے وہ خود کر لیں گے کہ ان کو کون سا نظام چاہیے- اس سے پہلے یہ مذہبی اور سیکولر مباحث قوم کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹا دیتے ہیں- بے وقت کی راگنی ہیں اور یہ ایسے ایشوز ہیں جن پر نہ تو مذہبی رجحانات رکھنے والے دوستوں کو کوئی اختلاف ہے نا سیکولر رجحان رکھنے والوں کو- تو ہم اختلافات میں جانے کے بجائے اور قوم کو غیر مثبت، غیر تعمیری ذہنی لڑائی میں الجھانے کے بجائے ان بنیادی معاملات پر یکسو کیوں نہیں ہوتے؟ ان معاملات میں متحد کیوں نہیں ہوتے؟ ہم ڈیولز ایڈووکیٹ کا کردار ادا کرنے پر مصر کیوں رہتے ہیں؟ ان سوالوں کا جواب بھی ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں-

  • ’’دلیل ڈاٹ پی کے‘‘ کیوں قائم کی گئی ؟ محمد عامر ہاشم خاکوانی

    ’’دلیل ڈاٹ پی کے‘‘ کیوں قائم کی گئی ؟ محمد عامر ہاشم خاکوانی

    محمد عامر ہاشم خاکوانی
    11019467_1022673787760103_3386052191318066626_n دلیل ڈاٹ پی کے آپ کے سامنے ہے۔ اپنی اپنی مصروفیت اور پھر رمضان کی وجہ سے بے ترتیب شیڈول کی وجہ سے اس ٹاسک کو مکمل کرنا آسان نہیں‌تھا۔ اللہ پاک نے مدد کی اور یہ پہلا مرحلہ طے ہوا۔ ’’دلیل‘‘آپ کے سامنے ہے، اس میں بہت سی خامیاں ہوں گی، ہیں، آہستہ آہستہ ان شا اللہ انہیں دور کرنے کی کوشش کریں‌گے۔ آپ لوگ نشاندہی کریں، رہنمائی کریں، ہم ہر قسم کی تنقید، تجویز، مشورے کے لئے اوپن ہیں، رہیں‌گے۔ اصل اہمیت کام کی ہے، قدم اٹھانے، آگے بڑھنے کی ہے، ہماری توجہ اس پر ہے۔ رب تعالیٰ سے پوری امید ہے کہ دوست ساتھ ملتے جائیں گے، قافلہ بنتا جائے گا، مشکلیں‌آساں‌ہوتی رہیں گے ۔
    دلیل ڈاٹ پی کے کے افتتاح کے لئے ہم نے ستائیس رمضان کے دن کا سوچا تھا ۔ ستائیس رمضان کو افتتاح کرنے کی جو معنویت ہے، اس کا اپ سب کو اندازہ ہوگیا ہوگا۔تکنیکی وجوہات اور شائد ان سے زیادہ ہماری اپنی مس ہینڈلنگ کے باعث ایسا نہ ہوسکا،سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا تھا، میں‌نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے رب کو پہچانا۔ ہم اپنے رب کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں، مقام شکر مگر یہ ہے کہ رمضان کے مبارک مہینے ہی میں یہ لانچ ہوگئی۔اللہ اس میں‌برکت عطا فرمائے، آمین۔
    انشااللہ اسلام، نظریہ پاکستان، قائدین پاکستان کے حوالے سے حقیقی تصویر پیش کرنے اور زندگی وسماج کے مختلف پہلوئوں پر شائستگی، توازن اور اعتدال کے ساتھ مثبت، تعمیری انداز میں نقطہ نظر پیش کرنا ہمارا مقصد ہے۔ دوستوں سے اپیل ہے کہ ہمارا ساتھ دیں، قلمی تعاون کریں، اس کی تشہیر کریں، جو تحریریں اچھی لگیں، انہیں سراہنے کے ساتھ شیئر بھی کریں، خامیوں کی نشاندہی کریں،تجاویز دیں، اصلاح احوال کے مشورے دیں، ہم ہر مثبت تعمیری تجویز کے لئے حاضر ہیں۔ اپنی خامیوں پر مسلسل کام کرتے رہنے اور چیزوں کو بہتر کرنے کے حامی ہیں۔
    چند وضاحتیں اس حوالے سے کرنا ضروری ہیں
    یہ ویب سائیٹ کسی کے مقابلے کے لئے نہیں بنائی جا رہی ،اس کا کوئی ہدف ہے نہ ہی کسی شخصیت یا ویب سائیٹ کے ابطال کے لئے اس کی تشکیل ہو رہی ہے۔
    ہمارا مقصد اپنے نقطہ نظر کو پیش کرنا، مکالمے کو دلیل اور شائستگی سے آگے بڑھانا اور نوجوان لکھنے والوں کے لئے پلیٹ فارم مہیا کرنا، ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے لانے میں ان کی معاونت کرنا ہے۔
    ویب سائٹ ’’دلیل ‘‘کے نگران یا منتظمین کی کوئی خاص سیاسی، فکری، مذہبی وابستگی ہوسکتی ہے، مگر ہم اس ویب سائیٹ کوکسی خاص جماعت، شخصیت کا مقلد ہرگز نہیں بنانا چاہتے۔ مکالمے کے ہم حامی ہیں، ہماری رائے سے مختلف نقطہ نظر کے لئے مگر یہ اوپن ہے اور رہے گی، ہم اپنے نقطہ نظر کو ان شا اللہ پورے اعتماد سے پیش کریں گے، مگر مخالف نقطہ نظر کو شائع کرنے سے ہرگز نہیں ہچکچائیں گے ۔
    یہ ویب سائیٹ میری ذاتی سائیٹ نہیں اور نہ ہی میرا نام بطور ایڈیٹر اس کے اوپر آئے گا۔ میری حیثیت زیادہ سے زیادہ اس کے نگران کی سی ہے ۔ یہ چند دوستوں کا جوائنٹ وینچر ہے، مختلف شہروں میں رہنے والے دوست، ایک دو عزیزاس کی تکنیکی معاونت میں شامل ہیں، کام میں بھی وہ ہاتھ بٹائیں گے۔ بنیادی طور پران سب میں ایک ہی قدر مشترک ہے، یہ سب عام پاکستانی مسلمان ہیں، اسلامی نظام اور اسلامی معاشرہ کے وجود کا خواب ان کی آنکھوں میں بسا ہے، سماج میں شدت پسندی کو کم کرنا، اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اصولوں کو پھیلانا، اسوہ رسول صل اللہ علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں کا سرمہ اور قطب نما سمجھنا اور شائستگی کے ساتھ مکالمہ کرنے کے اسلوب کی تذکیر ہی مقصد ہے ۔ یہ بھی خیال دامن گیر ہے کہ چہار اطراف سے الحاد، مذہب بیزاری اور تشکیک کی جو یلغار ہے ، اس سے نئی نسل کو محفوظ رکھا جائے ، ان میں مطالعہ کا شوق پیدا کیا جائے ، چیزوں کو بڑے اور وسیع تناظر میں دیکھنے کی صلاحیت پیدا کی جائےاور مورل فیبرک کو زیادہ بہتر اور مضبوط بنایا جائے ۔
    ایک صحافی کے طور پر میری مصروفیات بہت زیادہ ہیں۔ میرے لئے زیادہ وقت نکالنا ممکن نہیں۔ جس قدر وقت ہوسکا ، میں نکالوں گا، لمبے چوڑے وعدے میں نہیں کر رہا۔ مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ یہ بہت بڑا چیلنج ہے ، اس وقت میرے حالات ایسے نہیں کہ اسے قبول کیا جائے، صرف اس لئے ہمت کی ہے کہ ملکی وقومی حالات اس قدر گمبھیر ہوچکے ہیں کہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہنا ممکن نہیں۔ انگریزی محاورے کے مطابق کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر ہے۔
    یہ ویب سائیٹ ہر اس شخص کی ہے، جسے اوپر بیان کئے گئے مقاصد سے اتفاق ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم خیال لوگوں، ساتھیوں اور دوستوں کو ہمارا ہاتھ بٹانا، اسے کامیاب بنانا چاہیے۔ یہ میرا یا کسی اور کا ذاتی کام نہیں۔ جو نیک نیتی کے ساتھ مدد کرے گا، ان شا اللہ تعالیٰ اسے اس کا اجر ملے گا۔
    مجھے بہت سے دوستوں نے اس طرف توجہ دلائی اور بعض نے تو صاف الفاظ میں کہا کہ آپ اسے چلا نہیں سکیں گے، تواتر اور تسلسل سب سے اہم ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ زندگی میں ناکامی کے ڈر سے تجربات کرنے سے رک نہیں جانا چاہیے۔ ہر تجربے کی اپنی اہمیت ہوتی ہے، ناکامی بھی بہت کچھ سکھاتی ہے۔ ممکن ہے کہ ہم اسے نہ چلا پائیں، ممکن ہے کہ میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے اسے جاری نہ رکھ سکوں، ممکن ہے کہ ہم کل کو اسے کسی زیادہ بہتر اور مضبوط ہاتھ میں سونپ دیں۔
    اصل بات یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ کل کو جب رب تعالیٰ سوال پوچھیں کہ تمہارے سامنے یہ الحاد، تشکیک، لادینیت کی آندھیاں چل رہی تھیں، تم لوگ چپ چاپ سائے میں بیٹھے تماشا کیوں دیکھتے رہے؟فیس بک کی فکری عیاشی میں کیوں جتے رہے ؟
    ایسے میں ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس یہ جواب تو ہو، کہ اے ہمارے رب ، ہم نے اپنی دانست میں جس قدر ہو سکتا تھا، جو ہماری ہمت تھی، جو تو نے ہمیں صلاحیت بخشی، اس کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم نے ایک چراغ جلانے کی سعی تو کی، ہم نے یہ خواہش کی اور اس پر عمل بھی کیا کہ تیرے حبیب اور ہمارے آقا سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے مختلف پہلوئوں کو نمایاں کیا جائے، اپنے ساتھیوں کو اس پر عمل کرنے کی تلقین ملے، تیری مقدس کتاب کے فہم کو پھیلانے کی کوشش کی جائے ۔ جس قدر ہم سے ہوسکا ، ہم نے کیا، اس کوشش کو قبول فرما۔ تیری مغفرت درکار ہے اے ہمارے رب، بے شک ہم نے تیری طرف ہی پلٹ کر جانا ہے ۔
    یہ یقین ہمارے دلوں میں موجود ہے کہ ان شا اللہ ہمیں کامیابی ملے گی، رب تعالیٰ ہماری نصرت کریں گے۔ اسی رب ذوالجلال کے آسرے پر ہم نے یہ تجربہ کیا ہے، اسی سے امید ہے ، وہی مدد کرے گا۔ ۔
    ’’اے ہمارے رب ہم سے مواخذہ نہ فرما، اگر ہم بھول جائیں یا ہم غلطی کر جائیں۔ اے ہمارے رب ہم پر بوجھ نہ ڈال، جیسا بوجھ تو نے ڈالا تھا ہم سے اگلوں پر۔ اے ہمارے رب ہم سے وہ نہ اٹھوا جس کی طاقت ہم کو نہیں۔ اور درگزر کر ہم سے ، اور بخش دے ہم کو اور ہم پر رحم کر۔ توہمارا کارساز ہے ، پس انکارکرنے والوں کے مقابل میں ہماری مدد کر۔ ‘‘

  • نظریاتی سفر – رعایت اللہ فاروقی

    نظریاتی سفر – رعایت اللہ فاروقی

    نظریے کا13502014_1194080927282567_3019287501692146358_n سفر کتاب سے شرع نہیں ہوتا۔ کتاب اس کا دوسرا پڑاؤ ہے۔ اس سفر کا آغاز آپ کی ذات سے ہوتا ہے۔ وہ ذات جو سرشت اور فطرت سے مزین ہوتی ہے مگر ساتھ ہی نفس اور اور شیطان سرشت اور فطرت کو غلط راہ پر ڈالنے یعنی آپ کی ذات تباہ کرنے کے لئے مقابل کے طور پر بھی موجود ہوتے ہیں۔ انسانی زندگی میں یہ مقابلہ ہوکر رہتا ہے اور اس کا آغاز عین بچپن میں ہوجاتا ہے۔ اس بے آواز مگر گھمسان کی جنگ میں آپ کو ایک شاندار رفیق کی ہمراہی بھی میسر ہوتی ہے۔ ایک ایسا رفیق جو نظر نہیں آتا مگر یہ قدم قدم پر آپ کو درست کی طرف متوجہ کرنے اور غلط پر متنبہ کرنے کا کام دن رات سر انجام دیتا ہے۔ آپ تھک جاتے ہیں مگر یہ نہیں تھکتا، آپ نا امید ہوجاتے ہیں مگر وہ نہیں ہوتا اور آپ شائد ہتھیار ڈالدیں مگر وہ نہیں ڈالتا۔ یہ آپ کے لاشعور سے ہی رشتہ نہیں رکھتا بلکہ آپ کے شعور سے بھی مستقل مخاطب رہتا ہے۔ یہ بے آواز بولتا ہے مگر پھر بھی اس کی گونج آپ کی پوری ذات میں پھیلتی اور سنائی دیتی ہے۔ اپنے اس اعلیٰ رفیق کو آپ “ضمیر” کے نام سے جانتے ہیں۔ اس کی سب سے شاندار خوبی یہ ہے کہ یہ صرف صرف درست اور سچ بولتا ہے۔ اگر اوائل عمری میں ہی آپ اس کی جانب مکمل طور پر متوجہ ہوجائیں تو یہ قوت پکڑتا جاتا ہے اور پھر وہ دن آپ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ جب بھی آپ ڈگمگانے لگتے ہیں کوئی آپ کا بازو پکڑنے کو موجود ہوتا ہے۔ ان واقعات کی کثرت آپ کا عقیدہ بنادیتی ہے کہ آپ کو تائید غیبی یا نصرت غیبی میسر ہے۔ تائید غیبی یا نصرتِ غیبی سچوں کو میسر آتی ہے اور سب سے بڑا سچا وہ ہے جو اپنی ذات کے اندر بیٹھے اس سچے کو اہمیت دے اور اس کی رہنمائی کو مقدم جانے۔ اگر اپنی ذات میں گونجتی اس سچائی کو آپ مسلسل نظر انداز کریں تو مت بھولیں کہ سرشت اور فطرت کے ہوتے نفس اور شیطان سے ہارنے والے ہر دور میں اکثریت میں دیکھے گئے ہیں۔

    اگر کتاب سے قبل اپنی ذات کے اس مرحلے میں ضمیر کی مشاورت پر قدم اٹھانے شروع کردیئے جائیں تو رفتہ رفتہ وہ شخصیت تعمیر ہونا شروع ہوجاتی ہے جسے کتاب والے مرحلے کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ تب کتابی سفر کے دوران بلند قامت و عجیب الخیال لوگ آپ کو حیران نہیں کر پاتے۔ نظریاتی سفر میں کتابی مرحلے میں “حیرت” ہی سب سے خطرناک چیز ہے۔ یہ حیرت ہی ہوتی ہے جو کسی بھی عجیب فکری تصور کے ساتھ آپ کو باندھ دیتی ہے اور آپ اس کے درست یا غلط کا تجزیہ کئے بغیر ہی اس کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ حیرت کے یہ مقام نوجوانی میں آتے ہیں مگر بری بات یہ ہے کہ جب آپ ان تحیرات کو بطور نظریہ پیش کرنا شروع کردیتے ہیں تو جلد وہ دن آ کر رہتا ہے جب آپ پر انکشاف ہوتا ہے کہ محض نوعمری کے سبب آپ ایک غلط تصور سے متاثر ہو گئے تھے اور اس حد تک ہوگئے تھے کہ خود کو ایک نظریاتی شخص سمجھ کر اس لغو تصور کو بطور نظریہ پیش بھی کرنے لگے تھے۔ یہاں خطرناک بات یہ ہوجاتی ہے کہ آپ کو ضمیر کی آواز پر کان دھرنے کی عادت نہیں سو نفس اور شیطان آپ کے لئے غلطی کا اعتراف مشکل بنا دیتا ہے۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو اوائلِ عمری سے ہی ضمیر کی سنتے آتے ہیں وہ اول تو کسی کتابی خیال سے حیران نہیں ہوتے، وہ ان تصورات سے کچھ لمحوں کا سرور ضرور حاصل کرتے ہیں لیکن انہیں اس وقت تک اختیار نہیں کرتے جب تک اس کا خوب خوب تجزیہ نہ کر لیں اور اس تجزیئے میں بسا اوقات عمر عزیز ہی تمام کر دیتے ہیں۔ اگر بالفرض وہ حیران ہو بھی جائیں اور وہی حرکت کر ڈالیں جو آپ نے کی تو زندگی کے جس موڑ پر بھی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوجائے وہ اسی لمحے “رجوع” کر لیتے ہیں اور ایسا بہت ہی آسانی سے وہ اس لئے کر پاتے ہیں کہ انہیں بچپن سے ہی سچ کی اطاعت کی عادت ہوتی ہے۔ انہوں نے باہر کے سچ سے بھی قبل اپنے اندر کی سچائیوں کو قبول کرنے کی جو عادت ڈالی تھی وہ اب نہ صرف کتابی مرحلے میں بھی انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے بلکہ جب نظریاتی زندگی کا وہ تیسرا اور فیصلہ کن مرحلہ آتا ہے جسے ہم عملی زندگی کے نام سے جانتے ہیں تو ایسے لوگ سچائی کے لئے اپنا تن، من، دھن قربان کر دیتے ہیں۔ دنیا کو حیرت ہوتی ہے کہ اس انسان نے ایسی لازوال قربانیاں کتنی مشکل سے دی ہونگی اور ان مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے وہ کیسے کیسے کرب سے گزرا ہوگا مگر دنیا جانتی ہی نہیں یہ قربانیاں اس نے اسی بے تکلفی اور آسانی سے دی ہوتی ہیں جس بے تکلفی و آسانی سے پانی کا جام پیا جاتا ہے۔ ایک خالص نظریاتی شخص کے لئے یہ قربانیاں نہایت ہی سہل ہوتی ہیں ورنہ وہ بھی جانتا ہے کہ اذیت سے بچنا ایک ایسا آپشن ہے جو ہفتے کے سات دن اور دن کے چوبیس گھنٹے میسر رہتا ہے۔ جسے سچائی کا نشہ لگ جائے وہ فنا اور بقاء سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ جیل، کوڑا اور تلوار اس کے لئے کھلونوں سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔ کسی نظریاتی شخص کی سب سے بڑی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ بے خوف ہوتا ہے۔ اگر بے خوف نہیں تو سقراط ہی کیوں نہ ہو وہ نظریاتی شخص نہیں ہو سکتا۔

    پاکستان میں نظریہ اور نظریاتی سفر دم توڑ چکا۔ گلوبلائزیشن کے نتیجے میں اب سوچنا، پڑھنا اور کرنا سب کمرشل ہو چکا۔ زیادہ دن نہیں ہوئے کہ ہمارے ملک میں ہم تنظیمیں، لٹریچر اور دانشوروں کی ایک فوج دیکھا کرتے جو کمیونزم کا پرچار کیا کرتے تھے، وہ لوگ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ وطن عزیز میں اگر کوئی “نظریاتی” ہے تو بس وہی ہیں لیکن جوں ہی سوویت یونین ٹوٹا کمیونزم بھی ساتھ ہی یتیم ہوگیا، اس کی دعوت دینے والے کسی اور منڈی کے ہوگئے۔ وہ نظریاتی کمیونسٹ ہوتے تو ایسا نہ ہوتا بلکہ وہ کہتے کہ کمیونزم بطور نظریہ اب بھی موجود ہے اور ہم اس کے لئے لڑنے مرنے کو اب بھی تیار ہیں۔ مگر ایسا نہ ہوا کیونکہ وہ نظریاتی نہیں بلکہ تجارتی جنگ لڑ رہے تھے۔ آج کی تاریخ میں دانشوروں کی وہی قسم “لبرل ازم” کی تجارت کر رہی ہے اور انہیں اصرار ہے کہ بریڈ اینڈ بٹر کی اس جد و جہد کو نظریئے کی خدمت کی نظر سے دیکھا جائے۔ اس مکمل کمرشل صورتحال میں یہ طے سمجھئے کہ جس پتلی گلی سے کمیونزم کی تجارت کرنے والے عنقا ہوئے تھے وہی پتلی گلی لبرل ازم کی تجارت کرنے والوں کے بھی کام آئے گی۔ برادرِ مکرم عامر خاکوانی صاحب نے اچھا کیا کہ رائٹ ونگ کے نوجوانوں میں نظریاتی شعور اجاگر کرنے کی غرض سے غیر تجارتی “دلیل” کا آغاز کیا۔ شائد ایک دن وہ بہت ہی اطمینان سے کہیں۔

    دلیل اس کے دریچے کی پیش کی میں نے
    کسی کو پتلی گلی سے نہیں نکلنے دیا

  • دلیل ، خوش آمدید – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    دلیل ، خوش آمدید – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    1096_96255163 دلیل کا آغاز ہو رہا ہے۔ ہمارے معاشرے کے لیے سب سے زیادہ اہم اور غالباً اسی قدر کمیاب شے ہے یہ دلیل۔ دعا ہے کہ اس کے منصہ شہود پر آنے سے “تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آگیا” کے مصداق پاکستانی قوم کے لیے ایک مشعل راہ کا سامان ہو جائے۔

    بامقصد صحافت یا صحافت برائے بہتری کے لیے جتنی اہمیت ٹھوس حقائق کی ہے اس سے انکار ممکن نہیں۔ تاہم اس کے ساتھ اس بات کا اہتمام بھی لازم ہے کہ ان حقائق کا ابلاغ ایسے پیرائیہ میں ہو کہ عوام تک بات ممکنہ حد تک اپنی اصل حالت میں پہنچے اور اس کے بعد اگر کوئی بحث چلتی ہے تو وہ جذباتیت اور پھوہڑپن سے پاک ہو۔

    یہ بہت اہم ذمہ داری ہے ۔ “دلیل” سوشل میڈیا و آن لائن کے حوالہ سے بامقصد اور بامعنی صحافت کا علمبردار ہے اور اس کے ذمہ یہ کام بھی ٹھہرتا ہے کہ وہ بات کرنے کو “آسان” بنائے۔

    ہمارے سماج کو اس وقت تین بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔

    اول یہ کہ ہم گفتگو کو ایک طے شدہ پوزیشن لے کر آغاز کر تے ہیں اور خیالات میں تبدیلی کا جس قدر بھی امکان رہتا وہ صرف دوسرے کی طرف ہوتا ہے کہ اسے ہمارے مطابق تبدیل ہونا چاہیے۔ شومئی قسمت، دوسری جانب سے بھی اسی رویہ کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے اور نتیجتاً کسی بھی ایسی “گفتگو” کے بعد ہر دو اطراف اور بھی زیادہ مضبوطی سے اپنے مؤقف پر جم جاتے ہیں نیز اب اس میں ایک دوسرے کے حوالہ سے غصہ اور تعصب میں کئی درجہ بڑھوتری بھی ہو چکی ہوتی ہے۔ یعنی، کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔ مکالمہ ، مناظرہ کی نظر ہؤا اور مناظرہ ، مناقشہ کی۔

    دوسرا اہم مسئلہ (جو میری رائے میں ایک نہایت خطرناک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے) یہ ہے کہ غیر محسوس انداز سے ہم مذہبی اور علاقائی بنیادوں پر ایک دوسرے سے کٹتے چلے جارہے ہیں۔ اب اس میں سیاسی (اور سیاسی بمقابلہ فوج) تفریق کو بھی کسی حد تک شامل کیا جا سکتا ہے۔ بظاہر سب تھیک لگتا ہے لیکن جب بھی آپ سوشل میڈیا پر کسی ایسے گروپ میں جا نکلتے ہیں جو کسی ایک فکر کا ترجمان ہو تو وہاں پر جو خیالات ملتے ہیں انہیں محض اختلاف قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ ان کی تپش ، لہجہ اور مندرجات ایک پریشر کوکر کا پتہ دیتے ہیں جو پھٹ پڑنے کے قریب ہو۔ اس کا ہدف بالعموم وہ معاملات رہتے ہیں جنہیں ہم قومی اتفاق رائے کا مظہر قرار دیتےہیں۔ وہ سی پیک ہو ، ضرب عزب ہو یا پھر کراچی آپریشن۔ بے چینی کی ایک زیر زمین لہر آپ کو ہر جگہ دکھائی دے گی۔ اس کا سدباب ضروری ہے۔ جو باتیں مکمل اتفاق کا نتیجہ بھی ہوں ان کے بارے متعلقین اور متاثترین کے آراء پر وقتاً فوقتاً غور کرنا انتہائی اہم ہے۔ اسی طرح جمع فرسٹریشن کا خاتمہ بھی ہو سکے گا اور ایک متفقہ منصوبہ کو اس کے منطقی انجام تک “متفقہ” رکھا بھی جا سکے گا۔ وگرنہ ۔۔۔ یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ کوئی بدخواہ کسی وقت بھی سلگتے جزبات کو جوالہ نہ بنا دے۔ سوشل میڈیا پر یہ سب کرنا بہت آسان ہے۔ اس حوالہ سے ایک بھرپور اور مستقل حساسیت کا فروغ نہایت اہم ہے۔

    تیسرا بڑا چیلنج جو ہمیں درپیش ہے ۔۔۔۔ وہ دگرگوں عالمی حالات ہیں۔ بالخصو، ہمارے اڑوس پڑوس میں۔ یہ خطہ عالمی طاقتوں کی باہمی سر پھٹول سے شدید عدم استحکام کا شکار ہے ۔ تاہم یہ تاثر نمایاں ہے کہ یا تو ہماری قوم کو اس عفریت کے اصل حجم کا اندازہ نہیں ہے یا وہ اس سے بالکل لا تعلق ہوئے بیٹھے ہیں۔ حکومت کا بیانیہ اس ضمن میں بے اثر سا لگتا ہے اور رہی سہی کسر ہر بات پر “کانسپریسی تھیوری” کا نعرہ لگانے والوں نے پوری کر دی ہے۔ قوم کو اس جاری کشمکش کے عواقب اور اس کے ہنگام اپنی ممکنہ حکمت عملی سے متعلق آگاہ کرنا بھی ضروری ہے تاکہ بےخبری میں عمل اور جدوجہد کی راہ کھوٹی نہ ہو جائے ۔

    “دلیل” کا ان چیلنجز سے نمٹنے میں ایک اہم رول ہو گا۔ اس کا پلیٹ فارم اور اس کے قاری اس سلسہ کی اہم ترین کڑی ہیں۔ غصہ ، ری ایکشن، تخریب، طنز، تضحیک وغیرہ سے دانستہ اعراض کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے کیونکہ اس دنیا میں تہذیب سے بڑھ کر کوئی دلیل نہیں۔

    اللہ تعالی آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

  • کیا ہم دلیل پر زندگی بسر کر سکتے ہیں؟ مجاہد حسین

    کیا ہم دلیل پر زندگی بسر کر سکتے ہیں؟ مجاہد حسین

    482921_4302145965119_2052185217_n کیا ہم دلیل پر اپنی زندگی بسر کرسکتے ہیں؟ ہر ذی شعور آدمی تسلیم کرے گا کہ یہ ممکن نہیں کیونکہ دلیل اس انسانی عقل کی ضمنی پیداوار ہے جس نے پچھلے چند ہزار سالوں میں تہذیبی ارتقا میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا ہے۔ اس کے برعکس آج بھی ہمارے وجود کا بیشتر حصہ ان جبلتوں کے زیر اثر رہتا ہے جن کی تشکیل میں لاکھوں سال لگے ہیں۔ عقل کا مقصد وجود تو یہ ہے کہ ان جبلتوں کو اپنے قابو میں رکھے لیکن حقیقی دنیا میں یہ سرکش قوتیں الٹا عقل کو ہی اپنی تسکین کا ذریعہ بنا لیتی ہیں۔ یہ ایک اہم پہلو ہے جسےذہن میں رکھنا اشد ضروری ہے۔ ہر لکھاری کو ہمہ وقت یہ تجزیہ کرتے رہنا چاہیے کہ وہ دلیل کا استعمال واقعی کسی بڑے مقصد کے لیے کر رہا ہے یا پھر اسے اپنی کسی ایک اچھی دلیل کے اجزا کیا ہوتے ہیں؟ اس اہم سوال کے تکنیکی پہلو تو منطق کے دلدادہ اصحاب بتا سکتے ہیں۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ دلیل مکالمے کا ایک حصہ ہے جبکہ مکالمہ کسی بڑے آدرش کا ایک اہم جزو۔ جب کوئی بڑا مقصد سامنے ہو تو بعض اوقات ایسے مواقع بھی آ جاتے ہیں کہ اپنی بہترین دلیل کو قربا ن کرنا پڑ جاتا ہے۔ جو لوگ دلیل کو تلوار کی طرح چلاتے ہیں وہ آخرکار نامراد ہی ٹھہرتے ہیں کیونکہ مباحثہ جیتنا کبھی بھی مقصود نہیں ہوتا بلکہ انسانوں کو جیتنا ہی حقیقی مطمح نظر ہونا چا ہیے۔
    مکالمے اور دلیل کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ ان کا مقصد لوگوں کو اپنے نکتہ نظر کا قائل کرنا ہے۔ تاہم ایک اس سے بھی برتر نظریہ موجود ہے اور وہ یہ کہ مکالمہ مل جل کر کسی نتیجے پر پہنچنے کا نام ہے ۔ دونوں طرف کے دلائل باہوں میں باہیں ڈال کر فکر کی ناہموار پگڈنڈیوں پر ایک دوسرے کو سہارا دیتے ایک ایسی منزل کی تلاش کرتے ہیں جو نظروں سے اوجھل ہے۔ تاہم اکثر یوں ہوتا ہے کہ ہم نظریات کو اپنی انا کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں اور نتیجتاً اس برترمقصد کو بھلا دیتے ہیں۔ یہیں سے دلیل کی تذلیل کا رستہ کھلتا ہے اور انسان کے عقلی وجود پر اس کا جذباتی وجود غالب آ جاتا ہے ۔ اسی کمزوری کے باعث ہمارے مباحث عموماً تلخی میں ختم ہوتے ہیں۔ ذہنی ارتقا کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی رائے میں غلطی کے امکان کو ہمیشہ یاد رکھیں اور اگر کسی وقت دلیل کی کمزوری واضح ہوجائے تو اسے تسلیم کرنے میں پس و پیش سے کام نہ لیں۔
    دلیل کا ایک تو مواد ہوتا ہے اور دوسرا اسلوب۔ بہترین مواد پر مشتمل اور منطق کے زیور سے آراستہ دلیل بھی ناکام ہو جاتی ہے اگر اسے منزل کی جانب روانہ کرنے سے پہلےعجز کا لباس نہ پہنایا جائے۔ تحریر و تقریر میں تکبر مکالمے کی روح کو کچل ڈالتا ہے۔ بات میں غیر معمولی تیقن جس سے دھمکی کی بو آنے لگے، اسی تکبر کا شاخسانہ ہے۔ مواد کو ہمیشہ خوبصورت لفظوں کی پیکنگ میں لپیٹنا لازم ہے۔ اور اس پیکنگ سے اخلاص کی خوشبو کا پھوٹنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ دلیل کا مضبوط ہونا.
    ہر دلیل جب آپ کے ذہن میں اپنے تشکیلی مراحل سے گزر رہی ہوتی ہے تو اس کا ایک بنیادی محرک وہ فرد ہوتا ہے جو اس دلیل کا مخاطب ہے۔ بہت سی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب دلائل کی پوری نگری ذہن میں آباد ہو رہی تھی تو بظاہر مخاطب وہ لوگ تھے جو آپکے نکتہ نظر سے اختلاف رکھتے تھے مگر اندر ہی اندر واہ واہ کی تمنا نے اس کا رخ ان لوگوں کی جانب موڑ دیا جو پہلے ہی آپ کے ہمنوا تھے۔ جب اپنا ہی قبیلہ دلیل کے حسن و قبح کا فیصل بن جائے تو پھر لہجے میں تلخی در آتی ہے، لفظ تمسخر اڑانا شروع کر دیتے ہیں اور تحریر رجزیہ خطاب کا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ یہ صورتحال خود فریبی کا کمال نمونہ ہے۔ یہ ایک ایسا پھندہ ہے جس میں بڑے بڑے مصنفین کو گرفتار ہوتے دیکھا ہے۔ جن قلوب کو آپ پہلے ہی مسخر کر چکے ہیں، ان پر دلیل جیسی قیمتی متاع لٹانا حکمت کے خلاف ہے۔ آپ کا مخاطب وہ طبقہ ہونا چاہئے جو آپ کی رائے سے اختلاف کرتا ہے۔ چونکہ اپنے مخالف کا دل جیتنا ایک مشکل کام ہے اس لئے ہماری سہل پسند طبیعتیں دل توڑنے کے آسان کام میں مگن ہو جاتی ہیں اور تحریر کا حقیقی مقصود راستہ بھٹک کر کہیں دور نفرتوں کے صحرا میں گم ہو جاتا ہے۔
    دلیل کا دوسرا محرک وہ مقصد ہے جو مصنف یا مقرر کے ذہن میں موجود ہوتا ہے۔ یاد رکھئے کہ دلیل جس وقت آپ کے قلم کی قید سے آزاد ہو کر باہر نکلتی ہے تو وہ آپ کے دائرہ اثر سے نکل جاتی ہے۔ اس نے اب دوسروں کے دل و دماغ تک رسائی کی راہیں خود تلاش کرنی ہیں۔ اس لئے اسے میدان میں اتارنے سے پہلے ٹھونک بجا کر اس بات کو یقینی بنا لیجئے کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ کر ہی دم لے۔ اگرمنزل فریق مخالف کا دل ہے تو دلیل کو اس وقت تک روکے رکھئے جب تک اس بات کا تیقن نصیب نہ ہو جائے۔ بصورت دگر ذہن کی کمان سے دلیل کا تیر فصاحت کے زہر میں بجھ کر نکلے گا اور جہاں سے بھی گزرے گا، قلوب کو چیرتا جائے گا۔ دلیل کی اس سے بڑی ناقدری اور کیا ہو سکتی ہے کہ اسے دل فتح کرنے کی بجائے انہیں چھلنی کرنے کے لئے استعمال کیا جائے.
    کوئی بھی تحریر لکھتے وقت اور کسی قسم کا مکالمہ کرتے ہوئے اگر ان معروضات کا لحاظ کر لیا جائے تو ایک ایسی فضا پیدا ہو سکتی ہے جس میں بلا خوف و خطر ہر کوئی اپنا نکتہ نظر شائستگی سے بیان کر سکے گا ۔ اسی طریقے سے ہی سوچ کی راہوں میں بکھرے کانٹے چننا آسان ہو جائےگا۔

  • ”دلیل” کی دلیل – انعام رانا

    ”دلیل” کی دلیل – انعام رانا

    13516191_10154288772491667_1347995776475689400_n
    کہتے ہیں فیض صاحب کو کسی غیرملکی سفر میں ایک سکھ قدردان نے بہت خوبصورت انگوٹھی دی۔ انگوٹھی پر بہت خبصورتی سے لفظ “اللہ” نقش تھا۔ فیض صاحب درویش انسان تھے۔ شاید آپ کو علم ہو نہ ہو کہ حافظ بھی تھے اور ایم اے عربی بھی۔ مگر کمیونسٹ پارٹی سے نسبت اور محافل ناؤ نوش سے رغبت کی وجہ سے “یاروں” نے دہریہ مشہور کر رکھا تھا۔ احباب نے انگوٹھی دیکھی تو شرارت سوجی اور کہا چلئے شکر ہے فیض صاحب کسی نے تو آپکو مسلمان سمجھا۔ فیض نے اپنی مشہور کھوں کھوں کی، سگریٹ کا کش کھینچا اور مسکرا کر بولے ” بھئی، کون جانے لوگ اسے بھی سکھ قوم کا لطیفہ ہی سمجھیں”۔

    محترم عاصم اللہ بخش سے میری پرانی محبت ہے۔ فیس بک پر تین طبقات ہیں۔ “کمنٹیا”، “پوسٹیا” اور “لکھاری”۔ ارے ہاں کچھ خاموش بھی ہوتے ہیں جو بس اپنی موجودگی کا احساس دلائے بغیر ہوتے ہیں اور اکثر فائدے میں ہوتے ہیں۔ تو جب میں کمنٹیا تھا، تب عاصم بھائی سے تعلق بنا۔ انکے جوابات نے مجھے پوسٹ لکھنے کا حوصلہ دیا۔ اور ان پر ان کے مزے مزے کے کمنٹ، جنھیں میں اپنی پوسٹ پہ لگا “تڑکا” کہتا ہوں، مجھے باقاعدہ لکھنے کی طرف مائل کرتے رہے۔ مجھے اردو لکھنے کی طرف بھی عاصم بھائی نے ہی لگایا۔ سو صاحبو، جو جو میری تحریر سے تنگ ہے، “ایصال ثواب” کیلیے بندے کا اشارہ دے دیا ہے۔ عاصم بھائی کا حکم ہے کہ “دلیل” کیلیے کچھ پیش کروں۔ بھائیو، ستائس رمضان میرا یوم پیدائش ہے۔ سو اس رات/دن جو بھی پیدا ہو مجھے محبوب ہوتا ہے۔ خواہ قرآن، خواہ پاکستان اور خواہ میں خود؛ اور اب اس فہرست میں دلیل بھی شامل ہے۔ سائیٹ سے جڑا اہم نام عامر خاکوانی کا ہے۔ عامر بھائی انتہائی نفیس انسان ہیں جنکو مخالف کے ساتھ بھی ہمیشہ دلیل اور شائستگی کے ساتھ بات کرتے پایا۔ میں کئی سالوں سے انکا قاری اور فین ہوں۔ عامر بھائی نے فیس بک کے میڈیم کی اہمیت کو تب سمجھا اور استعمال کیا جب بڑے لکھاری اسے “بچوں کی کھیڈ” ہی سمجھتے تھے۔ مگر عامر بھائی نے تلخ تجربات کے باوجود اس میڈیم کے زریعے نوجوانوں سے رابطہ قائم رکھا اور مکالمے کا رواج ڈالنے والوں میں انکا نام اولین ناموں میں ہے۔ جس سائیٹ کے ساتھ عامر خاکوانی اور عاصم اللہ بخش سے “خدائی گھیرو” منسلک ہوں، اسکی کامیابی انشاللہ یقینی ہے۔ یہ بندے کو گھیر گھار کر خدا تک لے جاتے ہیں، اگے تیرے بھاگ لچھیے۔

    “دلیل” ایک واضح ایجنڈے کے ساتھ آ رہی ہے۔ یہی “دلیل” کی قوت بھی ہے اور کمزوری بھی۔ اپنے ایجنڈے کے اس واضح اعلان کی وجہ سے اسے کچھ لوگ شروع سے بطور دشمن لیں گے اور اسکی ناکامی کے دن گنیں گے، حملے کریں گے۔ امید ہے کہ راہی رکے گا نہیں۔ دوسری طرف اسی ایجنڈے کی وجہ سے اس سے ایسی توقعات وابستہ کر لی جائیں گی کہ بس “دلیل” صرف “امت” کا انٹرنیٹ ایڈیشن بن کر رہ جائے یا ایک “ای۔غزنوی” بنے جو روز لیفٹ، سیکیولرزم اور الحاد کے بت توڑتا کشتوں کے پشتے لگا دے۔ میری دعا ہے کہ “دلیل” ان دونوں طبقات کو مایوس کرے۔

    صاحبو، پاکستان ایک اہم دور سے گزر رہا ہے۔ امت کا جو تصور ہم تحریروں اور تقریروں کی وجہ سے بنائے بیٹھے تھے، متزلزل ہو رہا ہے۔ ہم نے جن بہت سی فرسودہ روایات کو مذہبی تقدس دے کر بچائے رکھا تھا، ان پہ سوال اٹھ رہے ہیں۔ سیاسی ، معاشی اور معاشرتی ابتری بڑھی ہے۔ وہ سوال جو والدین یا استاد دبا دیتے تھے اب سوشل میڈیا کے چوک پر سرعام پوچھے جا رہے ہیں۔ روائتی دایاں بازو ہو یا بایاں، وقت کا ساتھ دینے میں، سوالوں کے جواب دینے میں اور بڑھ کر علم اٹھانے میں ناکام ہو گیا۔ اس وقت پاکستان میں سوشل میڈیا سب سے مظبوط میڈیم ہے۔ مگر بھانت بھانت کی بولیوں، خبط عظمت اور عدم برداشت نے اسے بھی بدبودار کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ مکالمہ ہو، مظبوطی مگر شائستگی سے موقف پیش کیا جائے اور نئی نسل کی راہنمائی ہو۔ سوال اٹھائے جائیں، جواب دئیے جائیں اور مسائل کا حل مل کر سوچا جائے۔ بایاں ہو، دایاں یا درمیانہ، ہر بازو ہمارا اپنا ہے، پاکستانی ہے اور اہم ہے۔ ضروری ہے کہ یہ بازو ایک دوسرے کو کاٹنے کے بجائے ایک دوسرے کی قوت بنیں۔ اسی لیے مجھے خوشی ہے “دلیل” آئی ہے جو دلیل اور شائستگی سے دائیں بازو کا موقف رکھے گی، مکالمہ کرے گی، مسلک کے بجائے مذہب کی بات کرے گی اور صوبائی تعصب کے بجائے میرے پاکستان کی بات کرے گی۔ اہم مدیران کی موجودگی نئے لکھنے والوں کو تربیت دے گی کہ اپنا موقف کیسے گالی اور فتوے، تضحیک اور تحقیر کے بغیر بھی دیا جا سکتا ہے۔ اور یہی “دلیل” کی پہلی اور بڑی کامیابی ہو گی۔

    تو صاحبو مبارکباد اور دعائوں کے ساتھ “دلیل” کے لیے یہ تحریر حاضر ہے۔ کون جانے “یار” اسے بھی لطیفہ ہی نہ سمجھ لیں۔

     

  • دلیل ، تازہ ہوا کا جھونکا ہے. فضل ہادی حسن

    دلیل ، تازہ ہوا کا جھونکا ہے. فضل ہادی حسن

    10929198_936951229648955_6554040637456884104_nبحث علمی ہو یا سیاسی، موضوع مغرب ہو یا اسلام، لیڈر اسلامسٹ ہو یا سیکولرسٹ، پارٹی مذہبی ہو یا لسانی، کسی بھی ایشو یا موضوع کو دلیل کی بنیاد “قبول” کرنا اور دلیل ہی کی بنیاد پر “رد” کرنا ہوگا ۔ اسی سے معاشرہ آگے بڑھے گا، تحمل وبرداشت کی صفات پیدا ہوں گی اور وہ مثبت تبدیلی آئے گی جس کے ہم سب بلاتفریق اسلامسٹ و سیکولرسٹ خواہشمند ہیں ورنہ جہاں ہم آج کھڑے ہیں اور سوشل میڈیا پر جیسے بحث جاری ہے، اسے دیکھ کر خوف آتا ہے اور گاہے گمان ہوتا ہے کہ یہ ایک لاوا ہے جو کسی وقت پھٹ کر معاشرے کو تباہی سے دوچار کرسکتا ہے ۔
    اگر استدلال کی بنیاد پر قبول و رد ہوگا اور دلیل سے گفتگو ہوگی تو فضا خوشبو سے معطر ہوگی ورنہ گھٹن اور متعفن فضا میں سانس لینا بھی مشکل و محال اور بازی ہارنے کا ذریعہ و سبب بھی بن سکتا ہے۔
    جب نظریات و افکار کے درمیان کشمکش اور جنگ و جدال عروج پر پہنچتا ہے تو زوال و تباہی کا رونما ہونا بھی تقریبا “مقدر” ہوتا ہے، مغلوب سائیڈ کےلیے جینا محال ہو جاتا ہے، نتیجتا ایک ردعمل پیدا ہوتا ہے، اور معاشرہ سکڑ کر جمود، لاعلمی و جہالت کا شکار ہوجاتا ہے۔
    آج سوشل میڈیا کے اس دور میں اگر ہم اپنے مزاج اور جذبات و خیالات کو تحمل وبرداشت اور رواداری کے پیرامیٹر سے ماپنے کی کوشش کریں تو اس وقت خود کو اخلاقی اور علمی طور پر نچلی سطح پر موجود پایئں گے۔ ہمارا معاشرہ ماڈل تو دور کی بات “تذکرہ” کرنے کا بھی قابل نہیں رہا ہے۔ “دلیل” کا جواب “گالی” سے اور “اعتراض” کا جواب “تھپڑ” سے دینا چاہتے ہیں۔ ہم علم و تحقیق کا جواب جہالت و درندگی سے دینے کا سوچتے ہیں۔ ہمارے سماج میں تحمل و برداشت کو غیرت و بہادری کے متضاد معنوں میں استعمال کیا جانے لگا ہے۔ ہم “دلیل و استدلال” کی بجائے “زور و زبردستی” سے نظریات کو ٹھونسے کے لیے حکمت عملیاں تیار کرنے لگےہیں۔

    ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہوئے:

    اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پھر سے اس روایت کو زندہ کریں۔
    جہاں بات سلیقے سے شروع ہو۔
    جہاں شائستگی و متانت کے ساتھ مکالمہ ہو۔
    جہاں بحث و مباحثوں کے دوران برداشت و اخلاق کا دامن تھاما جائے۔
    جہاں پھر سے “دلیل” کی بنیاد پر “قبول و رد” تو ہو لیکن “سرکوبی و شکست” مقصود و مطلوب نہ ہو۔

    ہمارے محترم جناب محمد عامر ہاشم خاکوانی صاحب کی قیادت میں “دلیل” کی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے جس نے ایسے حالات میں ایک اچھا قدم اٹھایا ہے۔ مجھے “دلیل” کی آمد پر بے حد خوشی بھی ہے اور میں اس پلیٹ فارم سے مثبت تبادلہ خیال کے لیے پرامید و متمنی بھی ہوں۔

  • دلیل پر لکھنے کےلیے رہنما ہدایات –  عامر ہاشم خاکوانی

    دلیل پر لکھنے کےلیے رہنما ہدایات – عامر ہاشم خاکوانی

    محمد عامر ہاشم خاکوانی

    11866265_1085617161465765_1795389247132538024_n سوشل میڈیا پر نوجوان لکھنے کے حوالے سے متحرک ہوئے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ نوجوان نسل کسی مثبت اور تعمیری کام میں لگی ہے اور کتابیں پڑھنے، سوچنے اور دلیل کے ساتھ بات کرنے کی طرف مائل ہوئی ہے، جو ہمارے سماج کے لیے بڑی خوش آئند بات ہے۔ کنزیومراِزم کے اس بے رحم، سفاک دور میں بے غرض قلمی جدوجہد کرنے والے مبارک اور تحسین کے مستحق ہیں۔ دلچسپی سے ان نوجوانوں کی تحریریں پڑھتا رہا ہوں، اور داد دینے میں بھی کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔
    ہماری ویب سائیٹ’’ دلیل ‘‘ نئے لکھنے والوں‌کے لئے اوپن ہے، اس میں اپنی تحریریں ضرور بھیجیں، اچھی اور دلچسپ تحریریں پہلی ترجیح میں شائع ہوجائیں گی۔ چند ایک نکات کا خیال رکھیں گے تو ہمارے لئے بھی آسانی ہوجائے گی۔
    دلیل ایک ویب سائیٹ ہے، خالص علمی یا فکری جریدہ نہیں، اس کے پڑھنے والوں‌میں‌ہر قسم کے لوگ شامل ہوں گے، بہت سے ایسے جنہیں ثقیل بحثیں اور گنجلک نثر کا ابلاغ نہیں ہوسکے گا۔ اس لئے تحریر کو عام فہم اور سلیس رکھا جائے تو زیادہ بہتر ابلاغ ہوسکتا ہے۔
    ’’دلیل‘‘ فرقہ ورانہ، مسلکی مباحث کی حوصلہ شکنی کرتی اور نفرت انگیز مواد کے حامل کسی بھی مضمون کو شائع کرنے کے حق میں نہیں ہے، ایسا رجحان رکھنے والے صاحبان زحمت نہ فرمائیں۔
    ان پیج میں‌تحریر لکھ کر یا اسے یونی کوڈ کے ذریعے ان پیج میں کنورٹ کر کے ای میل کیجئے ۔ بھیجنے سے پہلے اس کی اچھی طرح پروف ریڈنگ کر لی جائے، املا کی غلطیاں‌خاص طو پر درست کرنا ضروری ہیں۔ ایسی تحریریں جلد شائع ہوجائیں گی۔ بعض اوقات کنورٹ‌کرتے ہوئے تاریخ اور ہندسے الٹ جاتے ہیں، اسے چیک کر کے بھیجنا چاہیے ۔
    ہم صرف فکری تحریروں‌تک محدود نہیں رہنا چاہتے، ہلکی پھلکی شگفتہ تحریریں بھی بھیجی جا سکتی ہیں، ادبی تخلیقیت لئے بلاگز اور سپورٹس کے حوالے سے مضامین بھی شامل کئے جا سکتے ہیں۔
    بعض نوجوان جوش جذبات میں مخالفوں پر فتوے لگانے کو ترجیح دیتے ہیں، یہ مناسب رویہ نہیں۔ اسلامسٹ بمقابلہ سیکولراِزم کا معرکہ ٹی ٹوئنٹی میچ ہرگز نہیں، اسے ون ڈے بھی نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ کرکٹ کی اصطلاح میں ٹیسٹ میچ ہے۔ طویل دورانیے کا کھیل۔ جس میں دو تین باتیں اہم ہیں۔اس میچ نے جلدی ختم نہیں ہوجانا۔ لمبا معرکہ ہوگا۔ یہ قسطوں میں لڑی جانے والی جنگ ہے، باربار غنیم کے لشکر پلٹ پلٹ کر آئیں گے۔ ہر بار تلوار سونت کر لڑنا پڑے گا۔ انداز بدلتے رہیں گے، سپاہیوں کے چہرے تبدیل ہوں گے، مگر اہداف وہی ہیں۔ جانے پہچانے، دیکھے بھالے۔ اس محاذ کا رُخ کرنے والے سوچ سمجھ کر میدان میں اتریں۔ نظریاتی جدوجہد بعض اوقات مختلف انداز میں کی جاتی ہے۔پچھلی نسل نے اپنے انداز میں یہ معرکہ لڑا۔ اب ہمارے زمانے میں اور ہمارے بعد یہی مسائل، مکالمے اور مُجادلے چلتے رہیں گے۔ٹیسٹ میچ میں جلدبازی اور عجلت کے بجائے کھلاڑی کی محنت، تکنیک اور مہارت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ فکری مکالمے میں بھی یہ چیزیں اتنی ہی اہم ہیں۔ اچھی طرح تیاری کر کے، سوچ سمجھ کر قدم بڑھانا چاہیے۔
    مکالمہ ہر حال میں شائستگی سے کرنا چاہیے۔ انکسار، استدلال اور علمی شائستگی تحریر کے بنیادی جوہر ہونے چاہئیں۔ طنز، تضحیک، دَشنام اور اختلافِ رائے رکھنے والے کو تحمل سے برداشت کرنا ہوگا۔ رائٹسٹ ہونے کے دعوے داروں کو یہ سوچ کر لکھنا چاہیے کہ وہ اسلامی ذہن کے علمبردار ہیں اور ان کی تحریر ہی سے مذہبی سوچ رکھنے والوں کے کردار کو جانچا جائے گا۔ اس لیے اخلاق، شائستگی اور متانت کا دامن قطعی نہ چھوڑا جائے۔ یہی اصول لبرل اور ترقی پسند کہلانے والوں‌ پر عائد ہوتا ہے ۔
    ہر تحریر یہ سوچ کر لکھی جائے کہ ہمارے سرکار، آقا اور محسنِ اعظم حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اگر اسے پڑھیں تو آپؐ کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے۔ کوئی ایسا جملہ یا لفظ نہ ہو، جس سے سرکارِ مدینہؐ کی منور پیشانی پر کوئی شکن نمودار ہو اور انہیں لگے کہ ان کے اُمتی، ان کے نام لیوا دینِ اسلام کی بے توقیری کا باعث بنے۔ کوئی بھی سچا، کھرا لکھاری صرف اس لیے اس میدان میں اُترتا اور اپنے دین، اپنی اخلاقی اقدار اور تصورِ دین کا دفاع کرتا ہے کہ روزِ آخرت اس کی یہ کاوش قبول ہو اور بخشش کا باعث بنے۔ اس لیے تحریر کا معیار بھی ویسا ہی کڑا اور سخت ہونا چاہیے۔ بدتمیزوں، بداخلاق، عامیانہ گفتگو کرنے والوں، پست الفاظ استعمال کرنے والوں کی یہاں کوئی جگہ نہیں۔
    دلیل اور منتظم دلیل کو کسی بھی تحریر کو ایڈٹ کرنے، رد کرنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ لکھنے والوں کو یہ حق تسلیم کرنا اور ہماری ادارتی مجبوریوں کو سمجھنا ہوگا۔ بعض مباحث پبلک فورم کے لئے نہیں ہوتے، ان پر نجی، محدود نشست میں بات ہوسکتی ہے، لکھنے والوں کو یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی۔